ذرا ٹھہرو!
مجھے محسوس کرنے دو
جُدائی آن پہنچی ہے
مجھے تم سے بچھڑنا ہے
تمھاری مسکراہٹ، گفتگو، خاموشیاں
سب کچھ بھُلانا ہے
تمھارے ساتھ گزرے صندلیں لمحوں کو
اس دل میں بسانا ہے
تمھاری خواب سی آنکھوں میں اپنے عکس کی پرچھائی کو محسوس کرنے دو
ذرا ٹھہرو مجھے تنہائی کو محسوس کرنے دو
ذرا ٹھہرو!
مجھے محسوس کرنے دو
اذیت سے بھرے لمحے
بچھڑتے وقت کے قصے
کہ جب خاموش آنکھوں کے کناروں پر
محبت جل رہی ہوگی
کئی جملے لبوں کی کپکپاہت سے ہی
پتھر ہو رہے ہوں گے
مجھے ان پتھروں میں بین کرتی چیختی گویائی کو محسوس کرنے
دو ذرا ٹھہرو مجھے تنہائی کو محسوس کرنے دو
ذرا ٹھہرو!
مجھے محسوس کرنے دو
تمھارے بعد کا منظر
دلِ برباد کا منظر
جہاں پر آرزوؤں کے جواں لاشوں پر
کوئی رو رہا ہوگا
جہاں قسمت محبت کی کہانی میں
جُدائی لکھ رہی ہوگی
مجھے ان سرد لمحوں میں سسکتے درد کی گہرائی کو محسوس کرنے دو
ذرا ٹھہرو مجھے تنہائی کو محسوس کرنے دو
ذرا ٹھہرو!
مجھے محسوس کرنے دو
جُدائی آن پہنچی ہے
مجھے تم سے بچھڑنا ہے
اذیت سے بھرے لمحے
بچھڑتے وقت کے قصے
تمھارے بعد کا منظر
دلِ برباد کا منظر
ذرا ٹھہرو! مجھے محسوس کرنے دو۔!!
“فرشتے سو گئی ہے” وہ جو سوچوں میں گم کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی اسکی آواز پر چونکی۔۔
“جی”۔۔
یک لفظی جواب آیا تھا۔۔
“آ جاؤ پہنچ گئے ہم”۔۔
اسکی آواز پر وہ ایک بار پھر ہوش میں آئ تھی۔۔
“جی”۔۔
گاڑی کا دروازہ کھول کر وہ فرشتے وہ گود میں لئے باہر نکلی۔۔
وہ کہنے کے ساتھ ہی اپارٹمنٹ کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔ وہ اپنا بیگ اور فرشتے کو سمبھالتی بامشکل اسکے پیچھے چل رہی تھی۔۔
اسکی رفتار میں کمی محسوس کرتے اسکے تیزی سے بڑھتے قدم تھمے۔ وہ فرشتے کو گود میں لئے بازو پر ہینڈ بیگ کے ساتھ وہ دوسرے ہاتھ سے بہت مشکل سے اٹیچی تقریباً گھسیٹ رہی تھی۔۔
“فرشتے کو مجھے دے دو”۔۔
اسنے فرشتے کو اسکی گود سے لینے کے ساتھ ہی اٹیچی بھی اسکے ہاتھ سے لی تھی۔۔
“ویلکم مسز انصر یزدانی یہ ہمارا۔۔
اپارٹمنٹ کا دروازہ کھولتے ہی اسکی اپنی آواز اسکے کانوں میں گونجی تھی۔۔ بامشکل ضبط کرتے اس نے رابیل کو راستہ دیا تھا۔۔
وہ آنکھوں میں آنسوں لئے گھر کی ایک ایک چیز کو دیکھ رہا تھا۔۔
ساری چیزیں ویسی ہی تھیں۔۔ جیسی اسکی عرش نے سجائی تھی۔
رابیل نے باغور اسکی جانب دیکھا وہ اسکی حالت سمجھ سکتی تھی۔۔ اسکی حالت بھی تو اس سے کچھ الگ نہیں تھی۔۔ اس گھر کی ایک ایک چیز سے عرش کی خوشبو آ رہی تھی۔۔
“جانتی ہو جب میں عرش کو یہاں لیکر آیا تھا ہر بات پر روتی تھیں۔۔ میں کوئی کام بھی کہتا تمہیں یاد کرتی تھیں”۔۔
اسکی آواز پر فرشتے کو صوفے پر لٹاتی رابیل نے حیرانی سے اسکی جانب دیکھا۔۔ مگر وہ اسکی طرف متوجہ ہی کب تھا۔۔ وہ ایک ایک چیز کو چھو کر محسوس کر رہا تھا جیسے عرش کو محسوس کر رہا ہو۔۔ اسکے چہرے پر اذیت رقم تھی جسے وہ باآسانی پڑھ سکتی تھی۔۔
“مگر پھر آہستہ انھیں جیسے میرے کام کرنے میں مزہ آنے لگا۔۔ میں جو مشینی انداز میں اپنی زندگی گزار رہا تھا وہ وہ میری زندگی میں آئیں تو سب بدل گیا ۔ ہم چھوٹے چھوٹے ایکسپیریمنٹس کرتے تھے کچھ تو ٹھیک ہو جاتے کچھ مزید بگڑ جاتے”۔۔
رابیل نے محسوس کیا وہ مسکرا رہا تھا۔۔
“یہ بالکونی عرش نے اپنے ہاتھوں سے سجایا تھا۔”
انصر نے کمرے سے منسلک بالکونی کی جانب اشارہ کیا۔۔ جہاں لگے پھولوں کے پودے اب مرجھا رہے تھے۔۔
“نیچر سے بہت محبت تھی اسے۔۔ قدرت کے حسن کو پوری طرح محسوس کرتی تھی وہ”۔
اس پورے عرصے میں وہ پہلی بار مسکرائی تھی۔۔
“یہ یہ سب کتنا خوبصورت ہوتا ہے نا انصر”۔۔
عرش کی چہکتی آواز کہیں اسکے قریب سے ابھری تھی۔۔انصر کے نظروں کے سامنے ایک حسین منظر آ ٹہرا ۔۔
“بہت خوبصورت”۔۔
بےاختیار اسکے لب ہلے ۔۔
“تمہاری بہن جادو جانتی تھی رابیل” ۔۔
وہ کرب سے مسکرایا تھا۔۔ اس بات سے بےخبر کے وہ یہ ذکر اپنی بیوی سے کر رہا ہے۔۔ وہ تو اپنی عرش کا ذکر کر رہا تھا اسے یاد کر رہا تھا۔۔
“جادو۔۔ ویسے جادو تو ہر شخص میں ہوتا ہے۔۔ ہر شخص اپنے آپ میں ایک جادوگر ہوتا ہے انصر۔۔ مگر بس کسی ایک بہت خاص شخص کے لئے۔۔ اسکے اندر کا سحر دیکھنے کا ہنر ہر آنکھ میں نہیں ہوتا۔۔ بہت خاص نگاہ ہوتی ہے وہ۔۔ جیسے جیسے جو چیز کسی ایک شخص کے بےمعنی سی ہوتی ہے وہی چیز کسی کے لئے زندگی موت کا سوال ہوتی ہے۔۔ اسی طرح ہر شخص ہر کسی کو سحر زدہ نہیں کر سکتا۔۔ ہر شخص میں ایک سحر ہوتا ہے مگر وہ نظر کسی ایک بہت خاص نگاہ رکھنے والے کو ہی آتا ہے”۔۔
وہ دھیمے لہجے میں کہتی چلی گئی ۔۔ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی وہ کیا کہ رہی ہے۔۔
انصر حیران سا اسے سن رہا تھا۔۔
انکے نکاح کے بعد یہ انکی پہلی طویل گفتگو تھی۔۔ ان دونوں کے بیچ ایک چیز کی مماثلت تھی وہ تھی عرش سے انکی محبت۔۔ عرش ان دونوں کی ہی زندگی میں بہت اہم مقام رکھتی تھی۔۔
کچھ دنوں سے چلتی ہوئی وہ تلخی جیسے ان دونوں کے بیچ سے ختم ہو گئی تھی۔۔
“تم بھی جادو جانتی ہو کیا؟”۔۔
اس نے شرارت سے پوچھا تھا۔۔
“میں۔۔ نہیں میں نہیں جانتی”۔۔
وہ مسکرائی تھی۔۔ اسکی مسکراہٹ عرش کی مسکراہٹ سے بہت الگ تھی۔۔ عرش کی مسکراہٹ سے شوخی جھلکتی تھی۔۔ اور اسکی مسکراہٹ سے کرب۔۔
“تم نے تو کہا ہر انسان کے اندر کا سحر کسی خاص شخص کو ہی نظر آتا ہے۔۔ مطلب جادو تو تم بھی جانتی ہو”۔۔
“آپ مجھے سحرزدہ کر دیتی ہیں پیاری لڑکی”۔۔
رابیل کے کانوں میں ایک مخصوص آواز گونجی تھی۔۔
اسنے آنکھوں میں آئ نمی کو اندر دھکیلا۔۔
“تمہیں عرش یاد آتی ہیں”۔۔
انصر نے فرشتے کو بیڈ پر لٹاتے ہوئے پوچھا ۔۔ ساتھ ہی خود بھی فرشتے کے برابر میں لیٹ گیا ۔۔
“میں اسے بھولتی ہی کب ہوں”۔۔
اس نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی۔ ۔
“عرش نے بہت برا کیا ہمارے ساتھ رابیل” ۔۔
اسنے فرشتے کے پھولے پھولے گال چومے۔۔ وہ کسمسائی تھی۔۔
“مم ما “۔۔
اگلے ہی لمحہ وہ روتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کرنے لگی تھی۔۔
انصر نے اپنے لب بھینجے۔۔
“مم ما۔۔ فشے “
وہ دونوں ہاتھ اوپر کی جانب اٹھائے آنکھیں بند کئے رو رہی تھی۔۔
“اوہ فشے۔۔ اٹھ گیا میرا بچہ آنی کی جان”۔۔
وہ سرعت سے اٹھی تھی۔۔ اسے گود میں اٹھاتی اسکے گال چومے۔۔
وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا تھا۔۔
“یہ مم ما کہنا اسے تم نے سکھایا ہے”۔۔
اب کڑے تیور لئے اسکے سر پہ کھڑا تھا۔۔
چہرے پر کچھ دیر پہلے والی نرمی کی جگہ اب وہی چٹانوں جیسی سختی تھی۔۔
رابیل نے ناسمجھی سے اسکی جانب دیکھا۔۔
“مجھے اسے یہ لفظ سکھانے کی ضرورت نہیں ہے”۔۔
اسے اب بھی سمجھ میں نہیں آیا کے کیا جواب دے۔
اسے کڑے تیوروں سے گھورتا وہ باہر نکلا تھا۔۔
وہ قصور وار نا ہوتے ہوئے بھی خود کو مجرم تصور کر رہی تھی۔۔
“تم جانتی ہو نا عرش میں نے یہ نہیں سکھایا اسے”۔۔
وہ سسکی تھی۔۔
“بس میں نے بتا دیا ہے جلابیب۔۔ تو کل اپنی پینٹنگز ایگزیبیشن میں دے رہا ہے ۔۔ مزید میں کچھ نہیں سننا چاہتا۔۔ میں نے سارے انتظام کر لئے ہیں”۔۔
وہ کافی دیر سے اسے پینٹنگ ایگزیبیشن میں دینے کے لئے کنویس کر رہا تھا مگر اسکی نا ہاں میں نہیں بدل رہی تھی۔۔
“جلابیب۔۔ میں بتا رہا ہوں میں نے خودکشی کر لینی ہے۔۔ اگر اس بار تو نے میری بات بات نہیں مانی تو”۔۔
فون پر اسکی روٹھی روٹھی آواز ابھری تھی۔۔ بے ساختہ اسکے لب مسکرا اٹھا۔۔
“اچھا کیسے۔۔۔ نیند کی گولیاں کھا کر “۔۔
ہمیشہ کی طرح اسکی کال سے اسکا موڈ فریش ہو گیا تھا۔۔
“نہیں۔۔ میں نیند کی گولیاں نہیں کھاؤنگا۔۔ وہ کھائیں ہمارے دشمن ۔۔ میں تو بریانی کھا کر مرونگا”۔۔
اسکی بات پر وہ اپنا قہقہا روک نہیں سکا تھا۔۔ دوسری طرف اشعر نے اسکی خوشی دائمی ہونے کی دعا کی تھی۔۔
“اچھا۔۔۔ تو پھر جلدی بتا۔۔ کون سے ریسٹورانٹ کی بریانی کھا کر مرنا پسند کرینگے آپ”۔۔
اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔۔
“بس تو ریڈی ہو جا۔۔ میں آ رہا ہوں۔۔ پینٹنگز میں نے کل ہی لے لیں ہیں۔۔
“کیا۔۔ کیا مطلب تو نے پینٹنگز لے لی۔۔ اشعر میں بتا رہا ہوں۔۔ میں اپنے ہاتھوں سے تیری جان لے لونگا اگر تو نے ایسا کچھ کیا ہوگا۔۔ میں خود نکال لیتا نا یار۔۔ پتہ نہیں تو نے کون کون سی لے لی ہوگی”۔۔
اسکی بات پر وہ تو اچھل ہی پڑا تھا۔۔
“ہاہاہاہا میرے لعل ابھی ایسا کچھ ہوا نہیں ہے مگر اب بھی اگر تو نہیں مانا تو ایسا ہی ہوگا”۔۔
اسکی حالت امیجن کر کے وہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔۔
“آپ کو کیا خبر محبت کی
ہونے والوں کو ہو گئی ہوگی۔
عشق پانی پر چل رہا ہوگا۔۔
عقل کشتی بنا رہی ہوگی”۔۔
وہ چشمے کے اندر اپنی گول گول آنکھیں پھیلائے ایک ایک پینٹنگ کو باغور دیکھ رہی تھی۔۔ پھر آگے بڑھ جا رہی تھی جیسے کچھ پسند نہیں آ رہا ہو۔۔
” پتہ نہیں پھوپو اماں کس کی بات کر رہی تھیں یہاں تو ایک بھی ڈھنگ کی پینٹنگ نظر نہیں آ رہی ہے”۔۔
وہ بڑبڑاتے ہوئے آگے بڑھی ۔۔ اگلے ہی لمحے قدم تھمے تھے۔۔ نظروں کو جیسے ایسی ہی کسی چیز کی تلاش تھی۔۔
“واؤ۔۔ اسے کہتے ہیں شاہکار”۔۔
وہ رشک سے دیکھتی آگے بڑھی تھی۔۔
پینٹنگ میں کالی رات کا منظر دکھایا گیا تھا جس میں ایک شخص ایک اجڑے ہوئے درخت کے نیچے بیٹھا تھا۔۔ اسکے شخص کے ہاتھ میں ایک لڑکی کا ہاتھ تھا جسکی صرف پشت بنائی گئی تھی۔۔ پوری تصویر میں روشنی صرف لڑکی کے وجود سے پھوٹ رہی تھی۔۔
اسکی نظریں نیچے تھیم کے ساتھ سائن پر پڑی۔۔
“آر جے “۔۔
“رختِ سفر”۔۔
اسنے سائیڈ پر لکھا نام پڑھا۔۔
“جلابیب زوار ملک”۔۔
بے حد حسین مسکراہٹ اسکے لبوں پر پھیل گئی تھی۔۔
______
وہ صحافیوں کے بیچ گھرا انکے سوالوں کے جواب دے رہا تھا ساتھ ہی اشعر کو خونخوار نظروں سے گھور رہا تھا۔۔ ڈارک براؤن شلوار قمیض پہنے کاندھوں پر کالی شال ڈالے آستین کہنیوں تک فولڈ کئے اسکی شخصیت بہت بارعب لگ رہی تھی۔۔ اسکے اس طرح گھورنے پہ اشعر نے فوراً دوسری جانب رخ موڑ کر خود کو مصروف دکھانے کی کوشش کی۔۔ کچھ کوریج اسے زوار ملک کا بیٹا ہونے کے وجہ سے بھی مل رہی تھی۔۔
“سر آپ کی پینٹنگز کی تھیم زیادہ تر عشق سے ریلیٹ ہوتی ہے۔۔ ایسا کیوں ؟
کسی کونے سے ایک آواز ابھری تھی۔۔
“دیکھیں میرا خیال ہے آرٹ کا دل سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔۔ جو چیزیں ہم محسوس کرتے ہیں ہماری انگلیاں وہی چیز بہت خوبصورتی سے کینوس پر بکھیر دیتی ہیں”۔۔
اس نے بامشکل مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا۔۔
“سر ہم نے سنا ہے آپ بہت پہلے سے پینٹنگ کرتے ہیں تو اس سے پہلے کبھی آپ نے اپنی پینٹنگز اگزیبیشن میں کیوں نہیں دیں”۔۔
“دیکھیں میں نے ضرورت محسوس نہیں کی اس چیز کی۔۔ میں پینٹنگز صرف اپنی شوق کی تسکین کے لئے کرتا ہوں”۔۔
اس نے اشعر کو گھورتے ہوئے جواب دیا تھا۔۔
“سر آپ کے فادر کا بزنس میں بہت بڑا نام ہے تو اس حوالے سے آپ کا کیا خیال ہے۔۔ آپ اپنے فادر کے بزنس کو جوائن کیوں نہیں کرتے؟”۔۔
ایک اور سوال سر اٹھائے کھڑا تھا۔۔
“دیکھیں میں نے بتایا نا پینٹنگ میرا پیشن ہے۔۔ اور آپ لوگ جانتے ہی ہونگے کے حال ہی میں ہم نے اپنے انسٹیٹیوٹ کی بھی اوپننگ کی ہے۔۔ تو میرا فیوچر میں بھی اپنے فادر کا بزنس جوائن کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔۔ ہم اپنے انسٹیٹیوٹ کو پاکستان کے ٹاپ موسٹ آرٹ انسٹیٹیوٹ کے مقام تک پہنچائینگے ان شاء اللہ”۔۔
اسکے لہجے میں ایک عزم تھا جو وہاں موجود ہر شخص نے محسوس کیا تھا۔۔
“سر “آر جے ” آپ کا سائن بھی ہے اور آپ کے انسٹیٹیوٹ کا نام بھی اسکی فل فارم کیا ہے؟”۔۔
اسکے مسکراتے لب سکڑے ۔۔ اسکے چہرے کا رنگ اڑتا دیکھ کر اشعر فوراً اسکے پاس آیا تھا۔۔
“No more question please”..
ان سب کے بیچ سے جگہ بناتا وہ بہت مشکل سے اسے وہاں سے نکالنے میں کامیاب ہوا تھا۔۔ اندر جا کر وہ خود بھی اسکے برابر میں ہی بیٹھ کر لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔۔
“کیا ہو گیا ہے یوں سڑا ہوا منہ کیوں بنایا ہوا ہے؟”۔۔
اسکا موڈ خراب دیکھ کر اشعر نے کہا تھا ساتھ ہی چپس کے پیکٹ اسکی جانب بڑھایا۔۔
“اس سب سے تو بہتر تھا میں تجھے خودکشی کر لینے دیتا”۔۔
اسکا موڈ ہنوز خراب ہی تھا ہاں مگر چپس کا پیکٹ تھام گیا تھا۔۔
“ہاہاہا وہ بھی کر لینگے میری جان یہاں سے واپسی پر ہم خودکشی کرنے ہی جائینگے “۔۔
اسنے دانت نکالے۔۔
“اشعر خبردار جو میری جیب ہلکی کرنے کے بارے میں سوچا بھی تو میں کچھ نہیں کھلاؤنگا اب تجھے۔۔ اس سب کے بعد تو بلکل بھی نہیں”۔۔
جلابیب نے کڑے تیوروں سے اسے گھورتے ہوئے کہا تھا۔۔
“ایکسکیوز می سر”۔۔
نسوانی آواز پر وہ دونوں پیچھے مڑے تھے۔۔
“جی۔۔
اشعر نے لب سکیڑ کر سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا ۔۔جو اسکے مزید کچھ کہنے سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی۔۔
“السلام عليكم سر۔۔ میں وشہ ہوں۔۔ نہیں نہیں میرا پورا نام ہو وشہ ہے۔۔ بہت چھوٹا سا ہے نا مجھے پتہ ہے اس لئے مجھے نک نیم کی ضرورت ہی نہیں ہے۔۔ ویسے تو میں یہاں نہیں رہتی چھوٹیوں میں آئیں ہوں۔۔ زیادہ کچھ بنانا نہیں آتا مگر چائے اور بیوقوف دونوں اچھا بنا لیتی ہوں۔۔ آپ مجھ سے دوستی کرینگے سر”۔۔
ایک سانس میں اپنی ساری بات مکمّل کر کے اب وہ جواب کی منتظر کھڑی تھی۔۔
اشعر منہ کھولے اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔ جلابیب بھی کچھ حیرانی سے اس نان اسٹاپ بولنے کی مشین کو دیکھنے لگا ۔۔
“دیکھئے محترمہ میں منگنی شدہ ہوں۔۔ویسے بھی میری ماما کو لڑکیوں سے دوستی کرنا بلکل نہیں پسند”۔۔
“ایک منٹ ایک منٹ محترم اتنی خوش فہمی بھی صحت کے لئے اچھی نہیں ہوتی۔۔ میں تو جلابیب سر سے بات کر رہی تھی۔۔ آپ کہاں کباب میں ہڈی۔۔ سوری آپ تو ہیں ہی ہڈی”۔۔
اس نے اپنی آنکھوں کو چھوٹی کرتے ہوئے قدرے غصے سے کہا تھا۔۔
جلابیب نے کچھ حیرانی سے اس آفت کی پرکالہ کو دیکھا وہ غصے سے اشعر کی جانب دیکھ رہی تھی۔۔
پرنٹڈ کرتی اور جینس میں ملبوس ۔۔ بالوں کی پونی ٹیل بنائے۔۔ آنکھوں پر گول گول نظر کا چشمہ لگائے بلاشبہ وہ بہت کیوٹ سی دکھتی تھی۔۔
“آپ کو مجھ سے کچھ کام تھا بیٹا”۔۔
اشعر کو خاموش رہنے کا اشارے کرتے وہ اسکی جانب متوجہ ہوا تھا۔۔
“بیٹا۔۔!!
وہ تو اچھل ہی پڑی ۔۔
” میں پورے بیس سال کی ہوں سر ۔۔ میرا شناختی کارڈ بنے ہوئے بھی دو سال ہو گئے ہیں۔۔ ایویں بیٹا۔۔
وہ قدرے ناراضگی سے کہتی آخر میں بڑبڑائی تھی۔
“ٹھیک ہے محترمہ کہیں کیا کام ہے آپ کو مجھ سے”۔۔
اس نے سنجیدگی سے کہا۔۔
“محترمہ۔۔۔ آپ کو میں کوئی خاتون نظر آ رہی ہوں”۔۔
اس نے قدرے بلند آواز میں کہا تھا۔۔
“میرے خیال میں موحترم ہونے کا عمر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔ لیکن پھر بھی اب آپ خود ہی بتا دیں کے کیا کہوں میں۔۔ اور کیا کام ہے آپ کو مجھ سے”۔۔
اس نے اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں کہا تھا۔
“وشہ ۔۔ وشہ کہیں آپ مجھے۔۔ اور میں دوستی کرنے آئ تھی آپ سے”۔۔
اسنے خوش ہو کر اسکی جانب ہاتھ بڑھایا تھا۔۔
“اچھی لڑکیاں ہر اجنبی سے یوں ہاتھ نہیں ملایا کرتیں۔۔ آپ بھی تو اچھی لڑکی ہیں نا”۔۔
اسکی بات پر اس نے شرمندہ ہو کر اپنے ہاتھ گرائے تھے۔۔
“اوکے تو وشہ بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔۔ آپ کو میرا کام پسند آیا اسکے لئے بھی شکریہ۔۔ اب ہمیں اجازت دیں اشعر کو ہسپتال جانا ہے”۔۔
اسے شرمندہ دیکھ کر جلابیب نے خوش دلی سے بات مکمّل کی تھی۔۔
_________
“فرشتے یہ کیا کر دیا میری جان”۔۔
وہ عشاء کی نماز کے لئے وضو بنا کر باتھ روم سے نکلی تو سامنے کا منظر کا دیکھ کر اسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں تھیں۔۔ سامنے فرشتے بیڈ پر بیٹھی لپ سٹک اپنے چہرے پر لگا رہی تھی۔۔ بیڈ شیٹ وہ پہلے ہی خراب کر چکی تھی۔۔ نیچے پرفیوم کی بوتل گر کر ٹوٹ چکی تھی۔۔ وہ اب بیڈ سے نیچے اترنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ وہ تیزی سے فرشتے تک پہنچنے کی کوشش میں نیچے گرے کانچ کے ٹکڑوں کو نظر انداز کر گئی تھی۔۔
کمرے کے اندر آتے انصر نے بھی یہ منظر دیکھا تھا۔۔
“فرشتے میری جان”۔۔
اسکے پہنچنے سے پہلے ہی وہ فرشتے کو گود میں اٹھا چکی تھی۔۔
“یہ کیا کر دیا فشے نے۔۔ کتنا گندا کر لیا ہے چہرہ۔۔ اچھے بچے ایسے کرتے ہیں کیا”۔۔
اسکی پشت انصر کی جانب تھی جبھی وہ اسے دیکھ نہیں سکی۔۔
وہ جو پہلے ہی غصے میں تھا ایک جھٹکے سے اسکا رخ اپنے جانب موڑا تھا نتیجتاً نیچے گرا کانچ اسکے پیر میں کھبا تھا۔۔
“ماں کہلانے کا شوق رکھتی ہو تو ماں بننے کی کوشش بھی کرو۔۔ اسے اسی طرح چھوڑ دیا تم نے۔۔”۔۔
چبا چبا کر کہتا اسکی جانب طنزیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔
“میں وضو بنا رہی تھی۔۔
“اوہ پلیز مجھے نہیں سناؤ یہ۔۔ ماں کہلانے کا حق رکھتی ہو تو اسکا خیال رکھنا بھی تمہاری زمیداری ہے”۔۔
اسے ایک جھٹکے سے چھوڑتا وہ کمرے سے باہر نکلا تھا۔۔
وہ بامشکل خود کو سمبھالتی بیڈ پر بیٹھی تھی۔۔ مشکل سے اپنے پر اٹھا کر بیڈ پر رکھی تھی۔۔ اپنی سسکی دباتی جھٹکے سے کانچ کا ٹکڑا پیر سے الگ کی تھی ۔۔ خون کا ایک فوارہ نکلا تھا۔۔ تکلیف کی شدّت سے اسکا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔۔ سپاٹ چہرے سے خون صاف کرتی وہ رابیل سے بہت الگ رہی تھی۔۔
اپنی تکلیف کو نظر انداز کرتی بامشکل اٹھ کر فرشتے کو صاف کیا تھا۔۔ ملازمہ کو بلا کر کمرہ صاف کرنے کا کہتی وہ نماز پڑھنے کی غرض سے لاؤنچ میں آ گئی تھی۔۔
“فرشتے آپ نے یہیں بیٹھنا ہے بیٹا ہمم ۔۔ آنی کے ساتھ اللہ اللہ کرے گی نا فرشتے”۔۔
جائے نماز بچھا کر اسے اپنے برابر میں بیٹھا کر اس نے فرشتے سے کہا تھا۔۔ جس نے فوراً دعا کے انداز میں ہاتھ اٹھا لئے تھے۔۔ اسے یوں دیکھ کر وہ آسودگی سے مسکرائی تھی۔۔
اطمینان سے نماز ادا کر کے دعا کر کے وہ اٹھی تھی۔۔ اسکی لمبی نماز کی وجہ فرشتے سامنے ہی سو گئی تھی۔۔ اسے گود میں اٹھاتی وہ کمرے میں آئ تھی۔۔ بالکونی سے اٹھتے دھواں کو دیکھ کر اسنے گہری سانس لی تھی۔۔
فرشتے کو بیڈ پر لیٹا کر خود بھی اسکے ساتھ ہی لیٹ گئی تھی۔۔
پیر میں درد کی ایک ٹیس اٹھی تھی۔۔
“جب انسان بے حسی کی چادر اوڑھ لے تو اسے اپنے غم کے آگے کسی کا درد نظر نہیں آتا۔۔ اور آپ اس کے انتہا پر ہیں انصر۔۔ مگر جب اسکی نظروں سے یہ چادر ہٹتی ہے اور اسے سب صاف صاف نظر آنا شروع ہوتا ہے تو اس وقت سوائے پچھتاوے اسکے پاس کچھ نہیں بچتا”۔۔
دو آنسوں تکیہ میں جذب ہوئے تھے۔
اسکی پشت کو دیکھتی وہ ناجانے کب نیند کی وادیوں میں گم ہو گئی تھی۔۔
______
“وہ بچی بہت صابر ہے انصر کوشش کرنا اسے کوئی اذیت نا دو”۔۔
فاطمہ بیگم کی آواز اسکے کانوں میں گونجی تھی۔۔
ساتھ ہی اسکی آنسوں سے بھری آنکھیں اسکی نظروں کے سامنے آئ تھی۔۔
سگریٹ پھینک کر وہ اندر آیا تو اسکی نظریں سیدھی بیڈ پر گئیں تھیں۔۔ وہ فرشتے کے ساتھ ہی سو رہی تھی۔۔ فرشتے پر بلنکٹ ٹھیک کرتے بے اختیار اسکی نظریں بیڈ شیٹ پر خون پر پڑی تھی۔۔ رابیل کے پیر سے تیزی سے خون بہ رہا تھا۔۔
آرام سے اسکا پیر اپنی گود وہ زخم کا معائنہ کر رہا تھا۔۔ کافی گہرا کٹ لگ گیا تھا۔۔ اسے واقعی شرمندگی ہوئی تھی جو بھی تھا وہ اب اسکی زمیداری تھی۔۔ اسکی طرف سے وہ یوں غفلت نہیں برت سکتا تھا۔۔
زخم سے خون صاف کر کے اس نے بینڈیج کر دیا تھا۔۔
“رابیل۔ ۔
اس نے اسے آواز دی مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی۔۔
“رابیل اٹھو۔۔
اب کی بار اسے شانوں سے ہلا کر اٹھایا تھا۔۔
“جی۔۔
اسکی آواز بھاری ہو رہی تھی۔۔
انصر نے باغور اسکی جانب دیکھا اسکی سوجی ہوئی آنکھیں مسلسل رونے کی چغلی کر رہی تھیں۔۔
“یہ پین کلر لے لو۔۔
اس نے نظریں چراتے ہوئے کہا تھا۔۔
رابیل نے جھٹکے سے سر اٹھایا۔۔ حیرت سے اسکی آنکھیں پوری کھل گئیں تھیں۔۔ وہ دودھ کا گلاس لئے اسکے سامنے کھڑا تھا۔۔
اب اسکی نظریں اپنے پیر پر تھی جسکی بینڈیج کر دی گئی تھی۔۔
“اب دیکھتی رہوگی یا اٹھو گی بھی”۔۔
اسے یوں حیرت سے دیکھتے دیکھ کر اس نے چڑ کر کہا تھا۔۔
وہ خاموشی سے اٹھ بیٹھی تھی۔۔ گولی اسکے ہاتھ میں دینے کے بعد اسنے دودھ کا گلاس بھی اسکی جانب بڑھایا تھا جسے اسنے خاموشی سے تھام لیا تھا۔۔
_____
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...