کبھی یاد آئے تو پوچھنا
ذرا اپنی خلوتِ شام سے،
کسے عشق تھا تیری ذات سے؟
کسے پیار تھا تیرے نام سے۔۔
ذرا یاد کر وہ کون تھا۔۔
جو کبھی تجھے بھی عزیز تھا۔۔
وہ جو مر مٹا تیرے نام پہ۔
وہ جو جی اٹھا تیرے نام سے۔۔
کبھی یاد آئے تو پوچھنا
ذرا اپنی خلوت شام سے۔۔!!
“تجھے آج نہیں آنا چاہئیے تھا جلابیب”۔۔
اشر نے اسے تعصف سے دیکھا تھا۔۔
کالے شلوار کمیز میں کاندھو پر شال ڈالے وہ اپنی تمام تر وجاہت سمیت وہاں موجود تھا۔۔
“رابیل کی زندگی کا اتنا بڑا دن ہے اشر میں کیسے نہیں آتا۔۔ اور ویسے بھی آج کے بعد تو انھیں دیکھنے کا حق صرف عنصر کو ہوگا اشر”۔۔
نا چاہتے ہوئے بھی اسکے لہجے میں نمی گھلی تھی۔۔ اسنے رشک اور حسرت کے ملے جلے اثرات سے لان میں اسٹیج پر بیٹھے عنصر کی جانب دیکھا تھا۔۔
“میری طرف دیکھ جلابیب۔۔ تو اسے بھولنے کی کوشش تو کر سکتا ہے نا بھائی”۔۔
“میں انھیں بھولنا ہی تو نہیں چاہتا نا اشر میں انھیں یاد رکھنا چاہتا ہوں۔۔ میں چاہتا ہوں میری زندگی کا ایک ایک لمحہ رابیل حدید کے نام لکھا جائے۔۔ میری زندگی کی ساری خوشیاں انکے نام لکھ دی جائیں”۔۔
اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔۔
جواب میں اشر مسکرا بھی نہیں سکا۔۔
“میں نے جب پہلی بار انھیں دیکھا تھا اشر تو میرے دل سے آواز آئ تھی۔۔ یہ لڑکی غم سہنے کے لئے نہیں بنی جلابیب۔۔ اس دن سے میں نے ہر رات دعا کی اشر کے انکے سارے غم میرے حصے میں آ۔۔
وہ بولتے بولتے روکا تھا۔۔ اسکے سامنے سارا منظر جیسے ساکت ہو گیا تھا۔۔ ثمر کے ہمراہ وہ دلہن بنی اسکی جانب ہی تو آ رہی تھی۔۔ ڈیپ ریڈ لہنگا اور اس پہ جیولری اور میک اپ میں کوئی اپسرا ہی تو لگ رہی تھی۔۔ آنکھوں پر میک اپ کی گہری تہ ہونے کے باوجود بھی وہ جان گیا تھا کے وہ روئی ہے۔۔
اس نے ضبط سے آنکھیں میچی تھیں۔۔ ہمیشہ کی طرح جھکی نظریں۔۔ وہ ارد گرد کی پروا کئے بغیر بے خود سا اسے تکا جا رہا تھا۔۔
وہ اسکی جانب ہی تو آ رہی تھی۔۔ خود پر نظروں کی تپیش محسوس کر کے رابیل نے ذرا کی ذرا نظریں اٹھائیں تھی۔۔ ایک لمحے کے لئے دونوں کی نظریں ملی تھیں۔۔
ثمر اسے اسکے سامنے سے لے کر جا چکی تھی۔۔ وہ جیسے ہوش میں آیا تھا۔۔ اس نے حسرت سے خود سے خود سے دور جاتی رابیل کی جانب دیکھا تھا۔۔ جو قدم قدم عنصر کی جانب بڑھ رہی تھی۔۔
ضبط سے اسکی رگیں تن گئیں تھی۔۔ ضبط کی انتہاء تھی۔۔
اسکی نظریں اب بھی رابیل پہ ہی جمی تھیں جسے اب ثمر عنصر کے برابر میں بیٹھا رہی تھی۔۔
دو آنسوں لڑکھ کر اسکے گال پر گرے تھے۔۔
“جلابیب۔۔ ”
اشر نے نم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے پکارا تھا۔۔ مگر وہ سن ہی کہاں رہا تھا۔۔
“جلابیب سن میری بات۔۔ چل یار گھر چلتے ہیں ہم”۔۔
اشر نے اسے شانوں پر ہاتھ رکھ کر اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔۔
“ہممم چلینگے نا رک جا نا مجھے دیکھ تو لینے دے”۔۔
وہ بڑبڑایا تھا۔۔ اشر بامشکل ہی اسکی بات سن سکا تھا۔۔
“میں میں ایک بار رابیل سے مل کر آتا ہوں اشر ای ایک بار بس”۔۔
اسکے لہجے میں کچھ تو ایسا تھا جو اشر کو اندر تک ہلا گیا تھا۔۔
______
وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اسٹیج کی جانب بڑھا تھا۔۔
“السلام عليكم۔۔ مبارک ہو آنٹی”۔۔
اسٹیج پر رابیل کے ساتھ کھڑی فاطمہ بیگم کو دیکھ کر اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔۔
“وعلیکم السلام بیٹا”۔۔
انہوں نے باغور اسکی جانب دیکھا۔۔ شدّت گریا سے سرخ ہوتی آنکھیں بڑھی ہوئی شیو۔۔ وہ بہت بکھرا ہوا لگ رہا تھا۔۔
“آ جاؤ جلابیب انہوں نے اسے جگہ دی تھی۔۔ رابیل نے تڑپ کر انکی جانب دیکھا”۔۔
انہوں نے نظریں چرائیں۔۔
“نکاح مبارک پیاری لڑکی”۔۔
اس نے اس سے تھوڑے فاصلے پر چیئر پر بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔۔
“آپ کو آج یہاں نہیں آنا چاہئیے تھا جلابیب”۔۔
اسنے بامشکل آنکھوں میں امڈ آنے والے آنسوں کو پیچھے دھکیلا تھا۔۔
“مجھے تو آنا ہی تھا رابیل”۔۔
اسنے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔۔ نظریں اسٹیج سے تھوڑے فاصلے پر کھڑے عنصر پر مرکوز تھیں۔۔ جو ثمر کی کسی بات کا جواب دے رہا تھا۔۔
رابیل نے ضبط سے آنکھیں میچیں۔۔ اپنا نام اس شخص کے منہ سے سننا اسے ہمیشہ سکون دیتا تھا آج اذیت میں مبتلا کر رہا تھا۔۔
“جانتی ہیں بہت پیاری لگ رہی ہیں آپ مگر بہت اداس بھی”۔۔
“جی جانتی ہوں”۔۔
اس نے اپنا لہجہ صاف رکھنے کی کوشش کی تھی۔۔
“جانتی ہیں رابیل جتنی محبت میرے اختیار میں تھی۔۔
میں نے آپ سے کی۔۔ مگر پھر بھی آپ میری نہیں ہو
سکیں۔۔ تقدیر میرے اختیار میں نہیں ہے نا رابیل۔۔
شاید اس لئے میں ہار گیا”۔۔
اسنے اپنی ہتھیلی کو تکتے ہوئے کہا تھا۔۔ آنسوں اسکی ہتھیلی پر گر رہے تھے۔۔
رابیل نے نم آنکھوں سے اسکے جھکے سر کی جانب دیکھا تھا۔۔
“آپ سے ایک التجاء کر سکتی ہوں جلابیب”۔۔
اس نے روندھی آواز میں کہا تھا۔۔
“جب کبھی بھی آپ کو لگے کے آپ بہت ٹوٹ گئے ہیں۔۔ آپ کی ذات بکھر رہی ہے تو اپنی ذات کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو سمیٹ مسٹر اللہ کا سامنے لے جائگا جلابیب۔۔ وہ بہت پیار سے آپ کو سمیٹ لیگا۔۔ ان ٹکڑوں کو پھر سے جوڑ دیگا۔۔ میں دعا کرونگی کے وہ میری محبت آپ کے دل سے نکال دے”۔۔
اب کی بار وہ جب بولی تو اسکا لہجہ بلکل صاف تھا۔۔
“خدارا یہ دعا میرے حق میں نہیں کیجیے گا رابیل۔۔ آپ دعا کرنا ہی چاہتی ہیں تو میرے لئے یہ مانگئیے گا اللہ میرے دل سے آپ کی طلب نکال دے۔۔ آپ کی محبت نہیں۔۔ جس دن آپ کی محبت میرے دل سے نکل گئی اس دن جلابیب کی روح بھی اسکے جسم میں نہیں رہیگی”۔۔
رابیل نے تڑپ کر اسکی جانب دیکھا۔۔ کیا تھا وہ شخص کوئی کسی سے اتنی محبت کیسے کر سکتا ہے۔۔
“میں زندہ ہوں رابیل”۔۔
وہ کرب سے مسکرایا تھا۔۔
وہ آج بھی اس کے کہنے سے پہلے سمجھ گیا تھا اسکی بات۔۔ پہلی بار اسے خود اپنے آپ پر ترس آیا تھا۔۔
“الوداع پیاری لڑکی۔۔ خدا ساری جہاں کی خوشیوں سے آپ کا دامن بھر دے”۔۔
عنصر کو اسٹیج پر آتا دیکھ اسنے الوداعی کلمات کہے تھے۔۔
اس بار اس نے اپنے آنسوں کو بہنے سے نہیں روکا تھا۔۔
“اللہ نگہبان پیاری لڑکی”۔۔
وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔
رابیل نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔ اسکی سرخ آنکھیں دیکھ کر اسکے جھکے سر کا مطلب وہ باآسانی سمجھ گئی تھی۔۔
“اللہ کی حفاظت میں”۔۔
اسکے لب ہلے تھے۔۔ دل اسے الوداع کہنے پر راضی نہیں تھا۔۔
اسنے دیکھا وہ عنصر سے بہت خوش دلی سے گلے مل رہا تھا۔۔
“رابی ۔۔
فاطمہ بیگم کی آواز پر وہ انکی جانب متوجہ ہوئی تھی۔۔
“طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے؟”
انہوں نے تشویش سے اسکی بے تحاشا سرخ ہوتی آنکھیں دیکھی تھیں۔۔
“مجھے اندر لے چلیں ماما”۔۔
اس نے روندھی آواز میں کہا تھا۔۔
انہوں نے ثمر کو اشارے سے اسے لے جانے کہا۔۔
“فرشتے کو ظلم سے بچانے کے لئے آپ نے کسی سے اسکے زندہ رہنے کی وجہ ہی چھن لی ماما”۔۔
اشر نے نم آنکھوں سے باہر جاتے جلابیب کو دیکھا۔۔ پھر اسکے پیچھے گیا تھا۔۔
______
کچھ دیر پہلے ہی ثمر اسے کمرے میں چھوڑ کر گئی تھی۔۔ اسکے اصرار کرنے پر فرشتے کو بھی اسکے حوالے کر گئی تھی۔۔
“الوداع پیاری لڑکی”۔۔
اسکی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی تھی۔۔ آنسوں تواتر سے اسکا چہرہ بھگو رہے تھے۔۔
فرشتے کو بیڈ پر سلا کر وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی جیولری اتار رہی تھی۔۔ دروازہ کھولنےکی آواز پر سرعت سے پیچھے مڑی۔ ۔
دروازہ بند کر کے اندر آتے عنصر کی نظریں اس پر ٹھہر ہی تو گئی تھی۔۔ وہ ہو بہو عرش کی طرح تھی۔۔ مگر اسکی عرش نہیں تھی۔۔
بےاختیار اسکی نظریں بیڈ پر گئیں تھی۔۔ بلکل اسی طرح ریڈ لہنگا پہنے آڑھی ترچھی لیٹی عرش کا عکس ابھرا تھا۔۔
اسنے اپنی آنکھوں میں امڈ آنے والی نمی کو صاف کیا۔۔
“بیٹھو رابیل۔۔ مجھے کچھ بات کرنی ہے”۔۔
وہ جو ڈریسنگ روم کی جانب کا رہی تھی۔۔ اسکی آواز پر پلٹی تھی۔۔
“رابیل۔ ۔
دھیمے لہجے میں ایک مخصوص لہجہ اسکے کانوں میں گونجا تھا۔۔
نا چاہتے ہوئے بھی آنکھوں میں نمی گھلی تھی۔۔
وہ خاموشی سے بیڈ کے کونے پر بیٹھ گئی تھی۔۔
“دیکھو رابیل نکاح جن حالات میں ہوا ہم دونوں کے لئے ہی غیر متوقع تھا۔۔ میں چاہتا ہوں کچھ باتوں کی وضاحت آج ہی کر دوں”۔۔
“کچھ بھی کہنے سے پہلے میری بات سن لیں پلیز۔۔
اسنے اسکی بات کاٹی تھی۔۔
“کہو۔۔
عنصر نے باغور اسکے جھکے سر کی جانب دیکھا تھا۔۔
رابیل نے لب بھینجے۔۔ شدّت گریہ سے آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔۔
“مجھ سے نکاح کرنے کی واحد وجہ فرشتے ہے یہ بات میں اچھی طرح سے جانتی ہوں۔۔ میں عرش کی جگہ کبھی نہیں لے سکتی یہ بھی جانتی ہوں اور میں عرش کی جگہ لینا بھی نہیں چاہتی۔۔ میری صرف شکل عرش سے ملتی ہے۔۔ میں عرش نہیں ہوں۔۔ اور نا میں بننا چاہتی ہوں۔۔۔ آپ سے مجھے نا اپنے کوئی حقوق چاہئیے اور نا میرے کوئی فرائض ہیں”۔۔
اسنے صاف لہجے میں کہا تھا ۔۔ اسکے کچھ بھی کہنے سے پہلے ہی وہ اس پر بہت کچھ واضح کر گئی تھی۔۔
عنصر نے حیرت سے اسے دیکھا جو اب بھی اسکی جانب نہیں دیکھ رہی تھی۔۔
“ایک بات اور۔۔ میں یہاں صرف فرشتے کی ماں بن کر آئیں ہوں۔۔ آپ سے نکاح کی واحد وجہ بھی فرشتے ہی ہے۔۔ میں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوں”۔۔
اسے کچھ بولنے کے لیے منہ کھولتے دیکھ کر اس نے مزید کہا تھا۔۔
“اور بھی کوئی وضاحت کرنا چاہتے ہیں آپ یا میں جاؤں؟”۔۔
اپنی بات مکمّل کر کے اس نے سوالیہ نظروں سے اسکی جانب دیکھا تھا۔۔
“نہیں اور کچھ نہیں کہنا مجھے۔۔ تم چینج کر کے سو جاؤ”۔۔
اسنے اسکی جانب دیکھے بناء کہا تھا۔۔
سائیڈ ٹیبل سے سگریٹ کا ڈبا اٹھاتا بناء اسکی جانب دیکھ وہ بالکونی کی جانب بڑھا تھا۔۔
وہ گہری سانس لیتی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔
تھوڑی دیر میں وہ کپڑے چینج کرنے کے بعد وہ وضو بنا کر جائے پر کھڑی تھی۔۔
“آپ تو دلوں کے حال سے واقف ہیں میرے اللہ۔۔ مجھے سکون دے دے مولا”۔۔
آنسوں روانی سے گر رہے تھے۔۔ وہ ارد گرد سے نےنیاز اپنے اللہ کے سامنے اپنے سارے آنسوں بہانے میں مشغول تھی۔۔
_____
وفا کے قید خانوں میں
سزائیں کب بدلتی ہیں ؟
بدلتا دل کا موسم ھے
ہوائیں کب بدلتی ہیں ؟
میری ساری دعائیں تم سے ہی
منسوب ہیں ھم دم
محبت ہو اگر سچی
دعائیں کب بدلتی ہیں؟
کوئی پا کر نبھاتا ھے
کوئی کھو کر نبھاتا ھے
نئے انداز ہوتے ہیں
وفائیں کب بدلتی ہیں؟
وہ تیزی سے لان سے نکلا تھا۔۔
“جلابیب رُک میں ساتھ چلونگا تیرے”۔۔
اشعر اسکے پیچھے آیا تھا۔۔
“وہ کوئی جواب دئے بغیر گاڑی کا دروازہ کھولتا اندر بیٹھا۔۔
اشر دوسری طرف سے جا کے اسکے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا۔۔
وہ بہت تیز ڈرائیو کر رہا تھا۔۔ آنسوں مسلسل اسکے ہاتھوں پر گر رہے تھے۔۔
“جلابیب آرام سے یار۔۔ تو تو گاڑی روک میں ڈرائیو کرتا ہوں۔۔ رُک یار”۔۔
اشعر نے فکر مندی سے اسے پکارا تھا۔۔
وہ اسکی بات کی طرف کوئی توجہ دئے بغیر گاڑی کی سپیڈ مزید تیز کر رہا تھا۔۔
“جلابیب۔۔ ہوش میں آ یار”۔۔
اشعر نے تقریباً چیختے ہوئے کہا تھا۔۔
“وہ وہ کتنی پیاری لگ رہی تھی اشعر”۔۔
اس کے لہجے میں نمی گھلی تھی۔۔
“جلابیب تو گاڑی روک پلیز”۔۔
اشعر نے التجائی انداز میں کہا تھا۔۔
“وہ وہ میرے سامنے سے کسی اور کے پاس چلی گئیں اشعر ۔۔ وہ میری طرف آ رہیں تھیں۔۔ انکے قدم میری جانب بڑھ رہے تھے۔۔ وہ ثمر ثمر اسے انصر کے پاس لے گئی اشعر”۔۔
وہ اپنے ہوش میں نہیں لگ رہا تھا آنسوں روانی سے بہ رہے تھے۔۔
آنسوں کی وجہ سے آگے کا منظر دھندھلا رہا تھا۔۔
اشعر نم آنکھوں سے اسکی جانب دیکھ رہا تھا۔۔ گاڑی کے مسلسل بجتے ہارن کی آواز پر ہوش میں آیا تھا۔۔ اس نے بےیقینی سے سامنے سے آتی گاڑی کی جانب دیکھا..
اشعر نے سرعت سے سٹئیرنگ گھماتے ہوئے گاڑی سائیڈ کی۔۔
ایک جھٹکے سے جلابیب کا سر ڈیش بورڈ سے ٹکڑایا تھا۔۔
اشعر نے گاڑی روک کر غصے سے اسکی جانب دیکھا۔۔
“یہ کیا کرنے جا رہا تھا تو ابھی اگر میں نہیں روکا ہوتا تو جانتا ہے کیا ہو سکتا ہے؟”۔۔
وہ غصے سے پاگل ہو رہا تھا۔۔
“کچھ نہیں ہوتا یار۔۔ یہ جو عشق کے ستائے لوگ ہوتے ہیں نا انکی قسمت میں اتنی آسان موت کہاں ہوتی ہے۔۔ انکی تقدیر میں تو ہر روز مرنا لکھا ہوتا ہے۔۔ بار بار مرنا”۔۔
وہ اشعر کی جانب دیکھ کر مسکرایا تھا۔۔
“اور تو فکر نہیں کر اشعر۔۔ تیرے یار کی قسمت میں بھی اتنی آسان موت نہیں ہے۔۔
مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی۔۔
“اتنی جلدی نہیں مرے گا جلابیب۔۔ انھیں اپنی نظروں کے سامنے کسی اور کا ہوتا دیکھ کر بھی میں زندہ ہوں۔۔ یہ یہ گاڑی میرا کیا بگاڑ لیتی یار”۔۔
وہ استہزائیاء انداز میں ہنسا ۔۔ اور پھر ہنستا چلا گیا ۔۔
آنکھوں میں آنسوں لئے یوں بےتحاشا ہنستے ہوئے وہ اشعر کو وحشت زدہ کر گیا تھا ۔
اسکا سجا سنورہ روپ بار بار اسکی نظروں کے سامنے گھوم رہا تھا۔۔ وہ کسی اور کے لئے سجی سنوری تھی یہ خیال ہی اسکے لئے سوہانِ روح تھا۔۔ اسکی ہنسی کی آواز مزید بلند ہوتی جا رہی تھی۔۔ اتنی ہی روانی سے اسکے آنسوں بھی بہ رہے تھے۔۔
اور پھر اشعر کی آنکھوں نے ایک عجیب منظر دیکھا تھا۔۔ اسکے بلند قہقہے رونے کی آواز میں تبدیل ہونے لگے ۔۔ اگلے ہی لمحے وہ چھ فٹ کا مرد اسٹیرنگ پر سر ٹکائے بلند آواز میں رو رہا تھا۔۔
اشعر خود بھی اسکے ساتھ آنسوں بہا رہا تھا۔۔ اسکے پاس وہ الفاظ نہیں تھے جس سے وہ اپنے دوست کو دلاسہ دے سکے سو اس کے ساتھ ہی آنسوں بہا رہا تھا۔۔ کچھ بھی کہے بغیر اس نے جلابیب کو گلے سے لگا لیا تھا۔۔
“مجھے رابیل چاہئیے اشعر۔۔ مم مجھے وہ چاہئیے۔۔ پلیز مجھے رابیل دے دے۔۔ مجھے رابیل۔ ۔ رابیل چاہئیے۔۔۔
وہ اپنے ہوش میں نہیں تھا اسکے منہ سے بے ربط سے جملے ادا ہو رہے تھے۔۔
“جلابیب ادھر میری طرف دیکھ”۔۔
کافی دیر بعد اسنے نرمی سے اسے خود سے الگ کیا تھا۔۔
“رابی کی خوشی چاہتا ہے نا”۔۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔
“تو پھر وہ اب کسی اور کی ہے۔۔ جتنی جلدی تم یہ حقیقت تسلیم کرو گے۔۔ یہ تم دونوں کے حق میں اتنا ہی بہتر ہوگا۔۔ خاص کر رابی کے حق میں”۔۔
“سمجھ رہا ہے میری بات”۔۔
اسکے کچھ جواب نہیں دینے پر اسکا سر سیٹ کی پشت سے ٹکا کر وہ خود ڈرائیونگ سیٹ پر آیا تھا۔۔
بہت مشکل سے وہ اسے گھر تک لایا تھا۔۔ اسے اسکے کمرے میں بیٹھا کر وہ خود بھی اسکے ساتھ ہی بیٹھ گیا تھا۔۔
کمرے میں ایک عجیب سی خاموشی تھی۔۔ وقفے وقفے سے اسکی سسکی گونج رہی تھی۔۔ اشعر خود کو بہت بےبس محسوس کر رہا تھا۔۔
“اشعر تو انصر کو کبھی پتا لگنے نہیں دینا کے رابیل مجھ سے محبت کرتی تھیں۔۔ کوئی بھی مرد یہ بات برداشت نہیں کرتا کے اسکی بیوی ماضی میں بھی کسی اور شخص کی محبت میں مبتلا ہو”۔۔
کافی دیر بعد وہ بولا تھا۔۔ اسکا لہجہ صاف تھا۔۔
اشعر نے اثبات میں سر ہلاتے پانی کا گلاس اسکی جانب بڑھایا تھا۔۔
ایک ہی سانس میں گلاس ختم کر کے اسنے اسکی جانب بڑھایا۔۔ اشعر نے گلاس پھر سے بھر دیا تھا جسے اس نے دوبارہ ایک ہی سانس میں ختم کر دیا۔۔ پیاس پھر بھی ختم نہیں ہوئی تھی۔۔
اس نے گہری سانس لے کر بیڈ کی پشت پہ سر ٹکایا تھا۔۔
آنسوں ایک بار پھر امڈنے کو بیتاب تھے۔۔
“کیا کروں ایسا کے تھوڑے دیر کے لئے ہی صحیح میرے دل کو سکون مل جائے رابیل” ۔۔
وہ آنکھیں بند کر کے سسکا تھا۔۔
اذان کی میٹھی آواز اسکے کانوں سے ٹکڑائی تھی۔۔
“اَللّهُ اَكْبَر ۔۔
“اللہ سب سے بڑا ہے”۔۔
یہ آواز ہی اسکے دل کے سکون کے لئے کافی تھی۔۔
زندگی میں پہلی دفعہ اسے اذان کے لفظوں کا مطلب سمجھ میں آ رہا تھا۔۔ اذان کے بولوں کے ساتھ ایک سکون تھا جو اسکے اندر سرائیت کرتا جا رہا تھا۔۔ ایک اطمینان تھا جو اسکے چہرے پر پھیلتا جا رہا تھا۔۔
“میں یہ کیسے بھول گیا کے۔۔ میرا اللہ تو سب سے بڑا ہے”۔۔
وہ بڑبڑایا تھا۔۔
“اگر کبھی آپ کو لگے کے آپ بہت ٹوٹ گئے ہیں۔۔ بہت بکھر گئے ہیں تو اپنے وجود کے ان ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کو اللہ کے حوالے کر دیجےگا جلابیب۔۔ وہ بہت پیار سے آپ کو سمیٹ لیگا۔۔ آپ کے وجود کو جوڑ دیگا”۔۔
اسکی دھیمی آواز اسکے سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔۔
اسے لگا وہ اسکے قریب اسے پکار رہی ہے اٹھیں جلابیب خود کو اللہ کے حوالے کر دیں۔۔
وہ جھٹکے سے اٹھا تھا۔۔
“جلابیب کہاں جا رہا ہے ؟”۔۔
اشعر اسے یوں اٹھتا دیکھ کر پریشان ہوا تھا۔۔
اسکی پیچھے وہ باتھ روم تک آیا تھا۔۔ اسے وضو کرتا دیکھ اسے بھی کچھ اطمینان ہوا تھا۔۔
وہ آہستہ آہستہ خود کو اللہ کے حوالے کر رہا تھا۔۔
آج نماز پڑھتے ہوئے اسے لگ رہا تھا کے وہ اللہ کو اپنے دل کی باتیں بتا رہا ہے اور وہ بغیر کہے ہی اسکے دل کی ساری باتیں سن رہا ہے۔۔
“بے شک دلوں کا سکون تو اللہ کے ذکر میں ہی ہے”۔۔
_________
وہ ساری رات بالکونی میں بیٹھا سگریٹ پھونکتا رہا تھا۔۔ زندگی نے یکدم ہی رخ بدل ڈالا تھا۔۔
“انصر ہم آپ کے بےبی کا نام کیا رکھینگے”۔۔
وہ انگلیاں مروڑتی ہوئی پوچھ رہی تھی۔۔
“میرے بےبی کا نہیں مسز ہمارے بےبی کا”۔۔
انصر سے اسکی انگلیاں آزاد کروائی تھیں۔۔۔
“آپ بتائیں آپ کیا نام رکھنا چاہتی ہیں”۔۔
اس نے اسے خود سے قریب کیا تھا۔۔
“میں نہیں رکھونگی۔۔ اگر بےبی بوائے ہوا تو اسکا نام رابی رکھیگی اور اگر بےبی گرل ہوئی تو اسکا نام آپ رکھینگے”۔۔
اس نے زور شور سے نفی میں گردن ہلاتے ہوئے کہا تھا۔۔
“پر میں جانتی ہوں میرا بےبی نا بوائے ہوگا اور اسکا نام رابی رکھے گی”۔۔
اس نے پر یقین لہجے میں کہا تھا۔۔
“آپ ہمارا کیوں نہیں کہتی مسز کبھی میرا کہتی ہیں کبھی آپ کا کہتی ہیں۔۔ ہمارا بےبی کہیں نا”۔۔
انصر نے اسکے گال کھینچے تھے۔۔
“میں اور آپ الگ تھوڑی ہیں میں اپنا کہوں یا آپ کا کہوں بات تو ایک ہی ہے”۔۔
اس نے شرارت سے کہا تھا۔۔
سگریٹ ختم ہوتے ہوتے اسکی انگلی تک آ گئی تھی۔۔ جلن کے احساس پر وہ حال میں لوٹا۔۔
گہری سانس خارج کرتا وہ نماز پڑھنے کی غرض سے کمرے کی جانب بڑھا تھا۔۔
رات میں وہ ایک دفعہ اندر گیا تھا تو وہ جاگ رہی تھی۔۔ کپڑے چینج کرنے کے بعد وہ پھر سے بلکونی میں چلا گیا تھا۔۔
اندر جاتے ہی نظریں رابیل پر گئیں تھیں جو ارد گرد سے بےخبر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے دعا مانگ رہی تھی۔۔ اسکے پاس ہی فرشتے بیٹھی اسی کے انداز میں ہاتھ دعا کے انداز میں اٹھائے اپنی زباں میں کچھ بڑ بڑ کر رہی تھی۔۔
انصر نے حیران نظروں سے اپنی بیٹی کو دیکھا پھر ایک نظر رابیل پر ڈالی۔۔
آنسوں موتیوں کی مانند اسکے شفاف چہرے پر گر رہے تھے۔۔ لب آہستہ آہستہ ہل رہے تھے۔۔ ایک نور کا ہالا تھا جو اسکے گرد محسوس ہو رہا تھا۔۔
“اس سے زیادہ خوبصورت منظر اسکی آنکھوں نے آج تک نہیں دیکھا تھا ”
اسکے دل نے اعتراف کیا تھا۔۔
________