“ماما یہ آپ کیا کرنے کا سوچ رہی ہیں؟ “۔۔
وہ انکے سامنے کارپیٹ پر ہی بیٹھ گیا تھا۔۔
“تم بہت اچھی طرح سمجھ رہے ہو اشر جو میں کرنا چاہ رہی ہوں”۔۔
“ماما آپ کو نہیں لگتا یہ جلابیب کے ساتھ ذیادتی ہے”۔۔
اسنے انکے دونوں ہاتھ تھامے۔۔
“اور فرشتے۔۔ اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ اپنی ماں تو وہ ننھی سی جان پہلے ہی کھو چکی ہے اشر۔۔ تم چاہ رہے ہو میں اس سے رابی کو بھی چھین لوں۔۔ وہ بچی جو ابھی درد کے نام سے بھی ناآشنا ہے اشر میں اس پے اتنا بڑا ظلم کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتی ہوں”۔۔
انہوں نے نم لہجے میں کہا۔۔
“اور جلابیب۔۔ اس پے اتنا بڑا ظلم کر سکتی ہیں آپ”؟
اس نے بےیقینی سے انھیں دیکھا۔۔
“وہ سمجھدار ہے اشر وہ میری مجبوری ضرور سمجھے گا۔۔ کون جانتا تھا کے یہ حالات ہو جاینگے”۔۔
“وہ رابی سے بہت محبت کرتا ہے ماما۔۔ میری اور آپ کی سوچ سے بہت زیادہ۔۔ اسکی زندگی میں رابی کے سواء کوئی نہیں ہے ماما۔۔
یہ ظلم نہیں کریں اس پر پلیز”۔۔
اس نے التجائیا انداز میں کہا۔۔
“میں نے فیصلہ کر لیا ہے اشر اور میری جان اس وقت سب کے حق میں یہی بہتر ہے”۔۔
انہوں نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر کہا ۔۔
“آج پہلی بار ماما۔۔ آج پہلی بار مجھے میری ماں خود غرض لگ رہی ہیں ۔۔ اور آپ کو کیا لگتا ہے عنصر وہ عرش کی جگہ رابی کو قبول کر پائے گا۔۔ کبھی نہیں ماما ۔۔ آپ رابی کو ایک ایسے شخص کے حوالے کر رہی ہیں جو اپنی تمام تر چاہتیں پہلے ہی کسی اور کے نام کر چکا ہے۔۔ وہ اس سے جلابیب کو لیکر ۔۔اسکی آنکھوں میں دیکھئے گا ماما جلابیب صرف یہ نام سن کر اسکی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں۔۔ آپ اپنی بیٹی کے چہرے سے خوشیوں کے وہ رنگ لے لینا چاہتی ہیں ماما”۔۔
وہ افسوس سے کہتا انکا ہاتھ اپنے چہرے سا ہٹا کر نکلتا چلا گیا۔۔
“میں رابی سے بات کرونگی۔۔ وہ میرے کہنے پر ہی تو جلابیب سے شادی کرنے پر راضی ہوئی تھی۔۔ میں جانتی ہوں اسے کوئی اعتراض نہیں ہوگا”۔۔
انہوں نے جیسے اپنے آپ کو تسلی دی۔۔
________
وہ ناجانے کتنی دیر سے بیڈ پر ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی ہوئی تھی۔۔ نظریں برابر میں سکون سے سوئی فرشتے پر مرکوز تھی۔۔ جو اپنی زندگی میں ہونے والے اتار چڑھاؤ سے بے خبر پر سکون سی سو رہی تھی۔۔
پنک کلر کی فروک میں اسکی گلابی رنگت نکھر رہی تھی۔۔ بھورے بال بھوری آنکھیں جن میں ہر وقت شرارت رہتی تھی۔۔ وہ ہو بہو عرش کی طرح تھی۔۔
اسنے جھک کر اسکے گال چومے تو وہ تھوڑا سا کسمسائ۔۔
“تم میری عرش ہو ۔۔ میں میں اپنی عرش کو دوبارہ نہیں کھو سکتی”۔۔
اسنے نم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
“ماما اچانک اس طرح کیوں کہ رہی ہیں”۔۔
فرشتے کے ہاتھ ٹھیک کرتی وہ اپنے آپ میں الجھی تھی۔۔ انکے اس برتاؤ کا جو مطلب اسے سمجھ میں آ رہا تھا وہ سمجھنا نہیں چاہ رہی تھی۔۔
“تمہارے جانے نے بعد بھی تو اس نے رونا ہے نا میری جان “۔۔
انکی آواز اسکے سماعتوں میں ایک بار پھر ہاتھوڑے برسا رہی تھی۔۔
“فرشتے روئے گی”۔۔
اسکی آواز سرگوشی سے زیادہ بلند نہیں تھی۔۔ دو آنسوں پلکوں کی باڑھ توڑ کر اسکے گال بھگو گئے تھے۔۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کیا کرے۔۔
تھوڑی دیر میں وہ وضو بنا کر جائے پر بیٹھی تھی۔۔
“آپ تو سب جانتے ہیں نا۔۔۔ جو میں نہیں سمجھ پا رہی آپ تو وہ سب سمجھتے ہیں اللہ پاک۔۔ مجھے اس آزمائش سے نکال دیں پلیز۔۔ جو میرے حق میں۔۔ جو جلابیب کے حق میں بہتر ہو وہ کر دیجیے میرے مولا”۔۔
اندھیرے کمرے میں اسکی سسکی گونجی۔۔ وہ یونہی تو شامل ہو جاتا تھا اسکی ہر دعا میں۔۔
“میں نے کبھی آپ سے جلابیب کو نہیں مانگا۔۔ ہمیشہ انکے حق میں بہتری مانگی ہے آپ سے اللہ پاک۔۔ آج بھی آپ سے انکے حق میں بہتری کا سوال کر رہی ہوں۔۔ پر کیا آپ مجھے ہی انکے حق میں بہتر نہیں بنا سکتے؟۔۔
ایک بار پھر اسکی سسکی کمرے میں گونجی۔۔
“آپ تو سب پر قادر ہیں میرے اللہ ۔۔ مجھے ہی انکے حق میں قبول کر لیں نا”۔۔
اس رات رابیل حدید نے ساری رات جلابیب زوار کو اپنے حق میں مانگنے میں گزاری تھی۔۔ مگر وہ یہ بھول گئی تھی کے اس نے ساتھ میں جلابیب کے حق میں بہتری بھی مانگی ہے۔۔
“اور کیا چیز کس کے حق میں بہتر ہے یہ اللہ کے سواء اور کون جان سکتا ہے”۔۔
______
“عنصر تم رابی سے نکاح کر لو”۔۔
انہوں بناء کسی تمہید کے کہا تھا۔۔
وہ جو کل سے اپنی سوچ کو غلط ثابت کرنا چاہ رہا تھا انکے منہ سے اسی بات کا اقرار سن کے اچھل ہی تو پڑا تھا۔۔
“ماما آپ جانتی ہیں آپ کیا کہ رہی ہیں ؟ رابیل کا نکاح ہے آنے والے اتوار کو یاد ہے نا”۔۔
“میں اچھی طرح جانتی ہوں میں کیا کہ رہی ہوں عنصر ۔۔ تم نے سوچا بھی رابی کی رخصتی کے بعد فرشتے کا کیا ہوگا۔۔ میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ لیا ہے “۔۔
انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔۔
“تو بھی بہت سوچ سمجھ کر آپ کو اپنے فیصلے سے آگاہ کر رہا ہوں ماما کے میں یہ نہیں کرونگا۔۔ اور جہاں تک فرشتے کی بات ہے تو وہ میری زمیداری ہے ماما میں دیکھ لونگا پر عرش کی جگہ کوئی بھی آیئگا یہ سوچئے گا بھی نہیں ماما پلیز “۔۔
اسنے بھی سنجیدہ انداز میں جواب دیا ۔۔
“تو پھر اپنی زمیداری خود اٹھاؤ عنصر۔۔ پانچ دن بعد تو رابی رخصت ہو جاےگی اسکے بعد ظاہر ہے فرشتے تمہاری ہی زمیداری ہے اسکے بعد بھی تمہیں سمبھالنا ہے تو بہتر ہوگا ابھی سے اپنی زمیداری خود نبھاو”۔۔
جی۔۔
یک لفظی جواب دیتا وہ روکا نہیں تھا۔۔ اسکا رخ رابیل کے کمرے کی جانب تھا۔۔
_____
“جلدی ۔۔ جلدی سے منہ کھولو۔۔ یہ آنی کی جان نے کھا لیا”۔۔
اسنے ٹرائفل کا آخری چمچ فرشتے کی منہ میں ڈالا تھا۔۔ چلو آجاؤ اب آپ کو صاف کریں۔۔ مسکرا کر کہتی اس نے اسے گود میں اٹھایا تھا۔۔
“ہاہاہا فرشتے یہ بس میری جان ہاہاہا بس ہو گیا “۔۔
گود میں اٹھاتے ہی فرشتے نے اپنا ٹرائفل لگا چہرہ اسکے چہرے کے ساتھ لگایا تھا۔۔ نتیجتاً اسکے چہرے پر بھی ٹرائفل کے نقش و نگار بن گئے تھے۔۔
_____
“رابی فرشتے کو مجھے دو”۔۔
اسنے کہنے کے ساتھ ہی رابیل کی گود سے فرشتے کو لیا تھا۔۔ وہ جو فرشتے کا چہرہ صاف کر رہی تھی اسکے اس طرح اس کی گود سے فرشتے کو لینے پر چونک گئی تھی۔۔
“عنصر بھیا اسکا چہرہ صاف کر لینے دیں “۔۔
“میں کر لونگا “۔۔
کہتا وہ بری طرح روتی فرشتے کو لیکر وہ چلا گیا تھا۔۔
اسنے بے یقینی سے اسکی پشت دیکھی جہاں فرشتے دونوں ہاتھ اسکی جانب پھیلائے بری طرح رو رہی تھی۔۔
_______
وہ اپنے کمرے میں فرشتے کی رونے کی آواز با آسانی سن سکتی تھی۔۔ بے بسی کی انتہا تھی۔۔ وہ جس انداز میں اسکی گود سے اسے لیکر گیا تھاوہ اچھی طرح جانتی تھی کوئی بات تو ضرور ہوئی ہے۔۔
“زندگی تمہارے بعد اتنی ظالم ہو جائے گی کبھی سوچا بھی تھا میں نے عرش”۔۔
وہ گھٹنوں پر سر رکھتے سسکی تھی۔۔
“رابی میری جان۔ ۔
فاطمہ بیگم کی آواز پر اس نے سر اٹھایا۔۔
“ماما عنصر بھیا ۔۔ وہ انہوں نے فرشتے کو مجھ سے لے لیا۔۔ وہ رو رہی ہے ماما۔۔ اس طرح کیوں کر رہے ہیں عنصر بھیا۔۔؟
اس نے روتے ہوئے کہا۔۔
“وہ اسکی بیٹی ہے رابی۔۔ تمہاری شادی کے بعد بھی تو اسنے ہی سمبھالنا ہے نا فرشتے کو”۔۔
انہوں نے اسے ساتھ لگایا۔۔
“ماما وہ وہ رو رہی ہے اتنی دیر سے ایک ایک سیکنڈ کے لئے بھی چپ نہیں ہوئی ہے ۔۔ آ آپ بھی سن رہی ہیں نا اسکی آواز”۔۔
اسکے رونے میں اور تیزی آئ تھی۔۔
“آج اگر میں فرشتے کے لئے تم سے کچھ مانگوں تو تم مجھے انکار تو نہیں کروگی رابی”۔۔
انہوں اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر کہا۔۔
“پہلے کبھی کسی بات سے انکار کیا ہے آپ کو ماما”۔۔
اس نے نم آواز میں کہتے انکے ہاتھ آنکھوں سے لگائے۔۔
“تم عنصر سے نکاح کر لو رابی۔۔ میرے لئے نہیں بیٹا عرش کے لئے عرش کی بیٹی کے لئے۔۔ کوئی بھی دوسری لڑکی اسے وہ پیار نہیں دے سکےگی رابی جو تم نے دیا ہے۔۔ اس نے پہلا لفظ بابا نہیں کہا نری جان اس نے پہلا لفظ ہی ماما کہا رابی ۔ ۔ تمہیں ماں کہا ہے اس نے”۔۔
انہوں نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر کہا تھا۔۔
آنسوں تھم گئے تھے۔۔ اس نے بے یقینی سے انکی جانب دیکھا۔۔
“عنصر ۔۔ عنصر بھیا سے نکاح۔۔ جج جلابیب”۔۔
وہ منہ ہی منہ بڑبڑآئ تھی۔۔
“ماما آ آپ۔۔ مجھے کچھ سمجھ۔۔
وہ بےیقینی سے انھیں دیکھتی جھٹکے سے ان سے دور ہٹی تھی۔۔
“میرا انتظار کریں گی نا رابیل”۔۔
“میں بس آپ سے یہ حق چاہتا ہوں کے آپ کے آنسوں بغیر کسی خوف کے اپنی پوروں سے چن لوں”۔۔
جلابیب کی آواز تھی۔۔ ایک آس تھی ایک امید تھی جسکے سہارے وہ شخص اسے اتنی شدّت سے مانگ رہا تھا۔۔
“رابی میری جان ہے”۔۔
“اگر کوئی مجھ سے میری زندگی بھی رابی کی خوشیوں کے بدلے مانگ لے تو میں خوشی خوشی اسکے حوالے کر دونگی”۔۔
“تمہارے ہوتے ہوے مجھے کچھ ہو سکتا ہے کیا”۔۔
یہ عرش کی کھنکتی ہوئی آواز تھی۔۔ اسکی عرش جو اسے خود سے بھی زیادہ پیار کرتی تھی۔۔
“رابی میری جان کیا ہو گیا ہے بیٹا”۔۔
انہوں نے نا سمجھی سے اسے دیکھا تھا جس کی آنکھوں سے مسلسل آنسوں گر رہے تھے۔۔ ایک ایک قدم پیچھے ہٹتی وہ اپنے ہوش میں نہیں لگ رہی تھی۔۔
“وہ میری بچی ہے جلابیب اگر میں تمہاری جگہ کسی اور نام بھی اسکے سامنے رکھتی اور کہ دیتی مجھے یہ پسند ہے میری رابی مجھے انکار نہیں کرتی”۔۔
یہ فاطمہ بیگم کی آواز تھی۔۔ کتنا مان تھا اسکی ماما کے لہجے میں اسکے لئے۔۔ اسکی آنکھوں کے آگے اندھیرہ چھا رہا تھا۔۔
“فرشتے۔۔
اسنے بند ہوتی آنکھوں سے کہا تھا۔۔
“رابی میری بچی کیا ہوا میری جان آنکھیں کھولو رابی۔۔
انہوں نے اسکے گال تھپتھپائے ۔۔
“اشر ۔۔ اشر جلدی آؤ بیٹا۔۔
انہوں نے اشر کو پکارا تھا۔۔
وہ جو ہسپتال سے ابھی ہی آیا تھا فوراً کمرے میں آیا۔۔
“رابی کیا ہوا ماما اسے”۔۔
اس نے آرام سے بیڈ پر لٹایا تھا۔۔
“کیا ہوا رابیل کو ماما”۔۔
انکی رونے کی آواز پر وہ بھی فرشتے کو لے کر کمرے میں آیا تھا رابیل کو بےہوش دیکھ کر تشویش سے پوچھا۔۔
“کیا ہوا ہے عنصر مجھے بتاؤ صبح کوئی بات ہوئی ہے۔۔ یہ بے ہوش کیسے ہو گئی اچانک اس طرح”۔۔
رابیل کو انجکشن دینے کے بعد اسکا رخ اب عنصر کی جانب تھا۔۔
جواباً اسنے مختصراً ساری بات اسے بتا دی۔۔
“ماما آپ کیوں کر رہی ہیں یہ ماما۔۔ اس کے لئے تو رابی بھی راضی نہیں ہوگی”۔۔
_____
“رات کا ناجانے کون سا پہر تھا جب اسکی آنکھ کھلی۔۔ فرشتے کے سسکنے کی آواز پر وہ اٹھ بیٹھی تھی۔۔ سب کو کمرے میں دیکھ کر اس نے حیرت سے فاطمہ بیگم کی جانب دیکھا۔۔ شام والا سارا منظر اسکی نظروں کےسامنے آیا تھا۔۔ آنسوں ایک بار پھر آنکھوں سے جاری ہو گئے تھے۔۔
“رابی کیا ہو گیا ہے گڑیا کیوں پریشان کر رہی ہو بھیا کو بیٹا۔۔ مجھے بتاؤ کیا بات ہے”۔۔
اشر نے نرمی سے اسے ساتھ لگایا ۔۔
اسکی سوال کا جواب دئے بغیر وہ بیڈ سے اٹھی تھی اسکا رخ صوفے پر بیٹھے عنصر کی جانب جو فرشتے کو گود میں لئے بیٹھا ہوا تھا۔۔
جو پورے دن رونے کی وجے سے وہ بخار میں تپ رہی تھی۔۔
عنصر کے سامنے کھڑی وہ دونوں ہاتھ پھیلائے فرشتے کو لینے کے لئے کھڑی تھی۔۔ اسنے خاموشی سے اٹھ کر فرشتے کو اسکی گود میں دیا تھا۔۔رابیل کے بغیر ایک دن میں ہی اسکی حالت دیکھ کر وہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوا تھا۔۔
“فرشتے۔۔ آنی کا بچہ کیا ہوا میری جان”۔۔
اس نے اسکا چہرہ چوما تھا۔۔ جو اسکی گود میں آ کر کافی حد تک پرسکون ہو گئی تھی۔۔ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اٹھا کر اسکے چہرے پر لگائے تھے۔۔
اشر نے مسکرا کر انکی جانب دیکھا۔۔
“دیکھو ذرا اسے سب کو ڈرا کر دونوں اب خوش ہو رہی ہیں”۔۔
اسنے فرشتے کی طرف جھکتے ہوئے کہا تھا۔۔
“فرشتے تو بلکل تنگ نہیں کرتی ہے نا فرشتے”۔۔
اسے لے کر بیڈ پر آئ تھی۔۔
عنصر نے ایک نظر مطمئن سی رابیل پر ڈالی تھی۔۔ دوسری نظر اسکی گود میں کھلکھلاتی ہوئی اپنی بیٹی پر۔۔۔ وہ تو صبح اسے یہ سوچ کر لے کے گیا تھا کے ایک دو دن اسکے ساتھ گزارے گا تو وہ اسکے ساتھ سیٹ ہو جائے گی۔ یہ بات ایک دو دن کی نہیں تھی وہ تو ایک سیکنڈ بھی اسکے پاس نہیں ٹھہر رہی تھی۔۔
“اسکی بیٹی رابیل حدید کی عادی ہو گئی تھی۔۔ اور عادتیں کب اتنی آسانی سے چھٹتی ہیں”۔۔
“یہاں بھی وہ غلطی کر گیا تھا۔۔ اسکی بیٹی رابیل حدید کی نہیں اسکی محبت کی عادی ہوئی تھی”۔۔
“اب بھی تمہیں لگتا ہے کے میں نے کوئی غلط فیصلہ کیا ہے اشر”۔۔
انہوں نے فرشتے کے سر پر ٹھنڈے پانی کی پٹٹی رکھتی ہوئی رابیل کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔۔
انکے سوال نے ایک مرتبہ پھر ماحول کو کافی حد تک بوجھل کر دیا تھا۔۔
“ماما آپ میری بات کیوں نہیں سمجھ رہیں یہ کوئی حال نہیں ہے اس مسئلے کا”۔۔
اشر نے چڑ کر کہا تھا۔۔
“تو تم مجھے کوئی حال بتا دو اشر”۔۔
انہوں نے سرد نظروں سے اسکی جانب دیکھا۔۔
“تم اسے صرف ایک رات بھی اپنے پاس نہیں رکھ سکتے عنصر۔۔ چھ آٹھ گھنٹوں میں دیکھو کیا حالت کر لی ہے اسنے رو رو کر”۔۔
“اور رابی تم رہ لوگی فرشتے کے بغیر۔۔ یا عرش کی نشانی کو کسی اور کے حوالے کر دو گی تم”۔۔
“ماما پلیز۔۔
عنصر نے ضبط سے کہا تھا۔۔
“آج یہ بات ہو جانے دو عنصر ۔۔ ایک ہی بار آمنے سامنے تم دونوں مجھے اپنے جواب دے دو۔۔ کسی پر بھی زبردستی نہیں ہے۔۔ فرشتے کو دوسروں کے سہارے رلتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہو تو بیشک میری بات سے انکار کر دو۔۔۔ مگر”۔۔۔
انہوں نے ایک نظر ان دونوں پر ڈالی تھی۔۔
“انکار یا اقرار جو فیصلہ بھی کرو آج یہیں کرو”۔۔
رابیل نے تڑپ کر فرشتے کی جانب دیکھا تھا۔۔ جس نے اب بھی اپنے ہاتھ سے اسکی ایک انگلی پکڑ رکھی تھی۔۔
فیصلہ تو ہو ہی گیا تھا مگر بیان کرنے کے لئے زباں ساتھ نہیں دے رہی تھی۔۔
وہ مٹھیاں بھینجے بامشکل وہاں کھڑا تھا۔۔ رگیں تنی ہوئی تھی۔۔
اسنے بےتحاشا سرخ ہوتی آنکھوں سے فرشتے کی جانب دیکھا تھا۔۔
اسکے ہاتھوں سے پکڑی ہوئی رابیل کی انگلی اسکی نظروں سے بھی مخفی نہیں رہی تھی۔۔
“ماما نہیں کریں ایسا پلیز آپ کے اس فیصلے کا ان سب کی زندگی پر بہت گہرا اثر پڑا تھا۔۔ ایک بار سوچیں ۔۔
“مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ماما”۔۔۔
اسنے آنکھیں میچ کہا تھا آنسوں تواتر سے اسکے گالوں پر گرے تھے۔۔
“مجھے تو بس میری رابی چاہیے پھر چاہے تو ساری دنیا لے لو مجھ سے”۔۔
عرش کی آواز اسکے کانوں میں گونجی تھی۔۔
“مجھے بس فرشتے چاہئیے ماما”۔۔
اسکے لب ہلے۔۔
اشر نے بے یقینی سے اسکی جانب دیکھا تھا۔۔
یہ کیا کہ رہی تھی وہ۔۔
“عنصر۔۔
انہوں نے سوالیہ نظروں سے اسکی جانب دیکھا تھا۔۔
“مجھے تھوڑا وقت چاہئیے”۔۔
وہ کہتا ہوا کمرے میں رکا نہیں تھا۔۔ اسکے پیچھے ہی اشر بھی کمرے سے نکلا تھا۔۔
انہوں نے اسے روکا بھی نہیں تھا۔۔ رابیل راضی تھی۔۔ عنصر نے بھی منع نہیں کیا تھا انکے لئے یہی بہت تھا۔۔
“تمہیں اگر یہ خیال آئے کے تمہاری ماں نے تمہارے ساتھ زیادتی کی ہے تو اپنی ماما کو معاف کر دینا رابی”۔۔
انہوں نے اپنے ہاتھ جوڑے تھے۔۔
“نہیں ماما۔۔ آپ کے لئے تو میری جان بھی حاضر ہے “۔۔
اسنے انکے ہاتھ چومے تھے۔۔
وہ اسے پیار کرتی باہر نکلیں تھیں۔۔
انکے جانے کے بعد وہ فرشتے کو سینے سے لگائے خوب روئی تھی۔۔
“میں ہار گئی۔۔تمہاری رابی اپنی محبت ہار گئی عرش۔۔ فرض جیت گیا۔۔ تم سے محبت جیت گئی۔۔ ماما کا مان جیت گیا۔۔ جلابیب سے محبت ہار گئی عرش “۔۔
اس وقت اگر فاطمہ بیگم اسے دیکھ لیتیں تو انھیں یقین ہو جاتا کے “رابیل حدید نے واقعی ان پر جان دے دی تھی”۔
۔ ۔۔نینا لاگے۔۔ نینا لاگے۔۔
نینا لاگے۔۔ نینا لاگے۔ ۔
تیر جستجو میری آبرو۔۔،
تیری گفتگو میری آرزو۔۔،
تیرا حسن ہے میری بندگی۔۔
مجھے بھا گئی تیری سادگی۔۔
تیرا عشق ہے میری زندگی۔۔
۔۔۔
نینا لگے تم سے۔۔ لگے نا۔۔
کمرے میں نائٹ بلب کی نیلی اور لال روشنی پھیلی ہوئی تھی۔۔ آج اسنے کمرہ اندھیرہ نہیں رکھا تھا۔۔ امانت علی کی آواز دھیمے سروں میں کمرے کا ماحول اور فسوں خیز کررہی تھی۔۔ اسکی پینٹنگ سینے پر رکھے وہ بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔۔آنکھیں بند کرتے ہی چھم سے اسکا سراپا نظروں کے سامنے آیا تھا۔۔ اسکے ہونٹوں پر مسکان پھیلی تھی۔۔ اسکی اٹھتی گرتی پلکوں کا منظر سامنے آتے ہی ہونٹوں پر مسکان گہری ہو گئی تھی۔۔
اسنے ہاتھ بڑھا کر چھونا چاہا تھا۔۔ پھر خود ہی مسکرا اٹھا تھا۔۔ گانے کے بول اسکی حالت پر بلکل فٹ آ رہے تھے۔۔
“چھونا چاہوں تجھے۔۔
چھو نا پاؤں ہے یہ کیسی بیقراری۔۔
“میری سوچوں میں تو۔۔
ہے خیالوں میں چڑھی تیری خماری۔۔
“میرے چار سو تیری روشنی۔۔
پہلا بھی تو۔۔ تو ھی آخری۔۔
تیرا ساتھ ہے۔۔ میری زندگی۔۔
نینا لاگے تم سے۔۔۔ لگے۔۔
گانے کے بولوں کے ساتھ وہ خود بھی گنگنا رہا تھا۔۔
موبائل کی بپ پر آواز تھوڑی اور ہلکی کر کے اسنے کال اٹینڈ کی تھی اشر کی کال تھی۔۔
“ہاں بول میرے یار”۔۔
خوشی اسکے لہجے سے جھلک رہی تھی۔۔
اشر نے ضبط سے آنکھیں میچی۔۔ کسی اور کے کچھ بھی بتانے سے پہلے وہ خود ھی جلابیب کو سب بتا دینا چاہتا تھا۔۔
“تو سویا نہیں ابھی تک”۔۔
اس نے لہجے کو نارمل رکھتے ہوئے پوچھا تھا۔۔
“نہیں یار ابھی تو قسمت میں صرف انھیں یاد کرنا ہے ۔۔ پانچ دن اور انھیں اپنے پاس لے آؤں پھر سوئے گا تیرا بھائی سکون سے “۔۔
دوسری طرف جلابیب نے شوخی سے کہا تھا۔۔
“جلابیب میری بات سن۔۔
وہ اسے سب بتاتے چلا گیا تھا۔۔ فاطمہ بیگم کا اصرار۔۔ رابیل اور فرشتے۔۔ رابیل کا فیصلہ۔۔
وہ جیسے جیسے سنتا جا رہا تھا اسکا رنگ زرد پڑھتے جا رہا تھا۔۔
“رابیل آپ ایسا کیسے۔۔
وہ بڑبڑایا۔۔ موبائل اسکے ہاتھ سے گرا تھا۔۔
“ہیلو جلابیب تو سن رہا ہے نا ۔۔
“جلابیب میری بات سن۔۔
مگر وہ سن کہاں رہا تھا۔۔ وہ یک ٹک دیوار پر لگی پینٹنگز کو دیکھ رہا تھا۔۔ اسکی آنکھیں۔۔ اسکا چہرہ۔۔ دیوار پر ایک انگلی رکھنے کی بھی جگہ خالی نہیں تھی۔۔ ان چار سالوں میں اتنی پینٹنگز بنا ڈالیں تھی اسنے رابیل کی۔۔
“مجھے اپنے حق میں مانگ لیں جلابیب”۔۔
اسکی آواز سماعتوں سے ٹکرائ تھی۔۔
“رابیل آپ نے میرے ساتھ۔۔
وہ دونوں ہاتھوں سے سر کو تھامے بیٹھتا چلا گیا۔۔ اسکی پینٹنگ پر بنی آنکھوں کو اسنے ہاتھوں سے چھوا تھا۔۔
“بڑے دھیرے سے تو۔۔
بڑے ہولے سے میرے دل میں سمایا۔۔۔
“بس یہی دعا میرے ہونٹوں پے
تو ہو میرے خدایا۔۔
“تیرے عشق میں مرتا رہوں۔۔
تیری آس میں جیتا رہوں۔۔
چپ میں رہوں یا یہ کہوں۔۔
نینا لاگے تم سے۔۔ لگے۔۔
نینا لاگے۔۔ نینا لگے۔۔
نینا لگے۔۔ نینا لاگے۔۔
کمرے میں گانے کی آواز اب بھی گونج رہی تھی۔۔ مگر اس سے بلند آواز اسکی سسکیوں کی تھی۔۔
_____________