آج کی رات ایک بار پھر رابیل ولاء کے مکینوں پر بھاری تھی۔۔ وہ بکھرے بالوں سرخ چہرے میں وہ خود بھی بہت بکھری ہوئی تھی۔۔ فون چیخ چیخ کر خاموش ہو گیا تھا۔۔ وہ مسلسل بےآواز رو رہی تھی نظریں موبائل پر ٹکی تھیں۔۔ جو کب سے چیخ چیخ کر خاموش ہو گیا تھا۔۔ سکرین پر جلابیب کا نام جگمگا رہا تھا۔۔ وہ یک ٹک سکرین پر لکھے مس بیلز کی تعداد دیکھ رہی تھی۔۔ فون ایک دفعہ پھر رنگ کر رہا تھا۔۔
“رابیل۔۔ آ آپ کہاں تھیں میں کتنا پریشان تھا جانتی ہیں آپ۔۔ میری جان اٹکی ہوئی تھی۔۔ مجھے لگ رہا تھا جیسے آپ مجھے پکار رہی ہیں۔۔ جیسے جیسے آپ بہت تکلیف میں ہوں۔۔ آپ ٹھیک ہیں ؟”۔۔
اسکے فون اٹھاتے ہی وہ ایک سانس میں بولتا چلا گیا۔۔ اسکے ہر لفظ سے فکر جھلک رہی تھی۔۔ رابیل نے با مشکل اپنی سسکی روکی۔۔
“آپ پریشان نہیں ہوں میں ٹھیک ہوں جلابیب “۔۔
وہ آنسوں حلق میں اتارتے بامشکل بولی تھی۔۔
دوسری طرف بیٹھے جلابیب نے ضبط سے آنکھیں میچیں۔۔
“رابیل آپ جتنا رونا چاہتی ہیں رو لیں۔۔ اس طرح اپنے آنسوں اپنے اندر نہیں اتاریں”۔۔
وہ اسکی آواز میں نمی صاف محسوس کر سکتی تھی۔۔
۔
“میں کوشش کرتی ہوں جلابیب کے میں بلکل نہیں روؤں۔۔ آپ کو اذیت دینا نہیں چاہتی میں پر میں میں یہ آنسوں نہیں روک سکتی جلابیب مم مجھے لگتا ہے یہ مم میری قسمت بن گئے ہیں۔۔ میں جس دن سوچ لوں نا اب سب سب ٹھیک ہو جایگا۔۔ پھر سب ویسا ہی ہو جاتا ہے جلابیب عرش عرش کے بغیر سب ٹھیک ہو ہی نہیں سکتا۔۔
وہ۔۔ اسکے بغیر ہم ہم نہیں رہ سکتے جلابیب میں میں نہیں رہ سکتی”۔۔
وہ ہچکیوں کے درمیان کہتی پوری شدّت سے روئی تھی۔۔
اسکی سسکیوں کے ساتھ جلابیب کی موبائل پر گرفت مضبوط ہوتی جا رہی تھی۔۔ شدّت گریہ سے آنکھیں سرخ ہو گئی تھی۔۔
“جانتی ہیں رابیل بےبسی کیا ہوتی ہے مجھے آج سمجھ میں آیا ہے۔۔
وہ لڑکی جسے میں اپنی زندگی سے زیادہ چاہتا ہوں وہ میرے آگے سسکیاں لے رہی ہے اور میرے پاس یہ بھی حق نہیں کے میں اسکے آنسوں اپنی پوروں پر چن لوں۔۔ میرے پاس تو یہ بھی حق نہیں رابیل”۔۔
وہ کافی دیر بعد بولا تھا۔۔
رابیل کی سسکیاں تھمی۔۔ ایک بار پھر وہ اندھیری رات اسکی نظروں کے سامنے آئی تھی۔۔ اس رات کی صبح کتنی خوبصورت تھی۔۔ وہ جلابیب کے نام ہونے جا رہی تھی۔۔ عرش عنصر کے ساتھ کتنی خوش تھی۔۔ اور پھر وہ ہوا تھا جس نے ان سب کی زندگیاں بدل دی تھی۔۔ اسکی عرش ان سب کی زندگیوں سے چلی گئی تھی۔۔
“آپ جانتی ہیں رابیل آپ دعا ہیں۔۔
وہ دعا جسے مانگ کر یہ بھی
مانگا جاتا ہے کے یہ میرے حق
میں قبول ہو پھر کسی کے حق
میں قبول نا ہو”۔۔۔
ان دونوں کے بیچ خاموشی کو جلابیب کی آواز نے توڑا تھا۔۔
رابیل نے گہری سانس لی۔۔
“مجھے اپنے حق میں مانگ لیں جلابیب”۔۔
وہ خود بھی بامشکل اپنی آواز سن پائ تھی۔۔
جلابیب کو لگا جیسے کسی نے اس میں جان پھونک دی ہو۔۔
رات تو یہ بھی اندھیری تھی مگر جلابیب زوار نے رابیل حدید کو اس اندھیری رات میں تنہا نہیں ہونے دیا تھا۔۔ وہ ساری رات بیڈ پر لیٹی اس بات کرتی رہی تھی۔۔ اپنی اور عرش کی باتیں۔۔ اپنی اور فرشتے کی باتیں۔۔ کچھ ماضی کی کچھ مستقبل کی باتیں۔۔ جلابیب کے لئے یہ رات کسی نعمت سے کم نہیں تھی۔۔ وہ خاموشی سے بس اسکی باتیں سن رہا تھا ۔۔
اور دور کہیں قسمت ان پے قہقہے لگا رہی تھی۔۔
_________
ماضی۔ ۔
دن یونہی بے کیف گزر رہے تھے۔۔ عرش یونیورسٹی جا رہی تھی نوال سے اسکی کافی گہری دوستی ہو گئی تھی۔۔ مگر روز شام میں رابیل کو سارے دن کی روادہ سنانا نہیں بھولتی تھی۔۔ عنصر کی سختی کا یہ نتیجہ نکلا تھا کے زیادہ نہیں تو تھوڑے بہت کام تو ٹھیک کرنے لگی تھی۔۔ دوسری طرف اسنے بھی خود کو پڑھائی میں مصروف کر لیا تھا۔۔ جلابیب نے اس دن کے بعد اسے کوئی کال یا میسج نہیں کیا تھا۔۔
وہ فجر پڑھ کر فارغ ہوئی تو موبائل کے چنگھارنے پر اس طرف متوجہ ہوئی عرش کا نام دیکھ کر اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری تھی۔۔
“آج صبح صبح کیسے یاد آ گئی تمہے رابی کی”۔۔
اسنے مصنوئ خفگی سے کہا تھا۔۔
“مم میں تو ہمیشہ یاد کرتی ہوں رابی تم ایسے کیوں کہ رہی ہو “۔۔
دوسری طرف عرش اسکی بات پر رونے والی ہو گئی تھی ۔۔
“ہاں میری جان میں جانتی ہوں تم مجھے یاد کرتی ہو ۔۔ اب رونے نہیں بیٹھ جانا”۔۔
اسکی عادت کے پیش نظر رابیل نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
جواب میں عرش کھلکھلا کر ہنسی تھی۔۔
“میں اب سٹرونگ ہو گئی ہوں سمجھی چھوٹی چھوٹی بات پر تو بچے ڈرتے ہیں۔۔ اور ویسے بھی ایک سال سے ڈریکولا کے ساتھ رہتے ہوئے اتنی سٹرونگ تو ہو”۔۔۔
وہ ہنستے ہوئے کہتی پیچھے مڑی تھی۔۔ بیڈ پر بیٹھے عنصر کو دیکھ کر اسکی آدھی بات اندر ہی رہ گئی تھی۔۔
“رابی میں تم تم سے بعد میں بات کرتی ہوں “۔۔
اسنے پھنسی پھنسی آواز میں رابیل سے کہا تھا۔۔
“ہاہاہاہا سچ بتاؤ عرش عنصر بھیا کھڑے ہیں نا سامنے “۔۔
اسنے مزے سے کہا تھا۔۔
“کھ کھڑے نہیں ہیں رابی بیٹھے ہیں ۔۔ تمہیں تو میں بعد میں بتاؤنگی یہاں میری جان نکل رہی ہے اور تم ہنس رہی ہو”۔۔
اسنے غصے میں کہتے کال کٹ کی تھی۔۔ ساتھ ہی خاموشی سے دروازے کی جانب قدم بڑھائے تھے۔۔
ماضی۔۔۔
“یہاں آئیں عرش”۔۔
اسے پاؤں دبا کر جاتے دیکھ کر عنصر نے مسکراہٹ دبا کر کہا۔۔عرش کے قدم وہیں تھم گئے۔۔
“اوہ عرش انہوں نے سب سن لیا”۔۔
وہ آنکھیں میچ کر بڑبڑائ۔۔
“آپ تو بہت سٹرونگ ہیں مسز۔۔ یوں بزدلوں کی طرح کہاں جا رہی ہیں”۔۔
عنصر کی آواز بلکل اس کے پیچھے سے آئ تھی۔۔ وہ ڈر سے اچھل ہی پڑی۔۔
“مم میں تو ایسے ہی کہ رہی تھی عنصر۔۔ ہم ہم نے آپ کا نام ڈریکولا نہیں رکھا ہے سچ میں”۔۔
وہ دونوں آنکھیں بند کئے جلدی جلدی بولی تھی۔۔
بہت دیر تک جب عنصر کچھ نا بولا تو اس نے ایک آنکھ کھول کے دیکھا۔۔ وہ دونوں بازو سینے پر لپیٹے اطمینان سے اسکے سامنے کھڑا تھا۔۔
اسے یوں اپنی طرف دیکھتا دیکھ کر اسنے جلدی سے آنکھیں دوبارہ بند کئے۔۔
عنصر اسکی اس حرکت پر کھل کر مسکرایا۔۔
“جلدی تیار ہو کر نیچے آجائیں مسز “۔۔
وہ اسکے کان کے پاس سرگوشی کرتا کمرے سے نکلا۔۔
اسکے جانے کے بعد عرش نے دونوں ہاتھ اٹھا کر باقاعدہ شکر ادا کیا۔۔
__________
وہ گہری نیند سو رہی تھی جب کسی احساس کے تحت اسکی آنکھ کھلی۔۔
“عنصر آپ جاگ رہے ہیں “۔۔
وہ دونوں ہاتھوں سے آنکھیں ملتی عنصر کو پکار رہی تھی۔۔
کوئی جواب نا ملنے پر اسنے آس پاس دیکھا بیڈ کا دوسرا کونہ خالی تھا۔ عنصر وہاں موجود نہیں تھا۔۔
“عنصر کک کہاں ہیں آپ ؟”۔۔
اسنے روتے ہوئے کہا۔۔
کمرے میں اندھیرے کی باعث کچھ بھی ٹھیک نظر نہیں آ رہا تھا۔۔ وہ بیڈ پر بیٹھی ہچکیوں سے رونے لگی۔۔
عنصر نے کمرے میں آ کر لائٹ آن کی تو اسے بیڈ پر روتے پایا۔۔
“عرش آپ اٹھ گئیں اور اس طرح رو رہی کیوں ہیں ہنی “۔۔
وہ اسکے یوں رونے پر پریشان ہوتا اسکے پاس آیا۔ اگلے ہی لمحے وہ اور چیخ چیخ کر رونے ل۔۔
عنصر نے پریشانی سے اسے دیکھا۔۔
“عرش عرش بات سنیں میری “۔۔
اسنے اسے چپ کروانے کی کوشش کی مگر وہ آنکھیں بند کئے مسلسل رو رہی تھی۔۔
“عرش خاموش ہو جائیں بہت ہو گیا کافی دیر سے برداشت کر رہا ہوں”۔۔
وہ اسے شانوں سے تھام کر دھاڑا۔۔
اسکی آواز پر وہ یک دم خاموش ہوئی۔۔ روئی روئی نظروں سے اسے دیکھا۔۔
“رونا بند کریں اور بتائیں کیوں رو رہی ہیں اس طرح “۔۔
اس نے ہنوز سختی سے کہا۔۔
“مم میں اکیلی تھی یہاں آپ مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے”۔۔
اسنے سوں سوں کرتے کہا تھا۔۔
“آپ اکیلی نہیں تھیں عرش اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھیے گا جب تک میری زندگی ہے آپ کبھی اکیلی نہیں ہونگی۔۔ میں خود سے جڑے لوگوں کو اکیلا چھوڑنے والوں میں سے نہیں ہوں”۔۔
اسنے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام کر قدرے نرمی سے کہا۔۔ جواباً عرش نے ناسمجھی سے اثبات میں سر ہلایا۔۔
“اپنے چھوٹے سے دماغ پر اتنا زور نہیں ڈالیں۔۔ اُٹھیں میرے ساتھ آئیں کچھ دکھانا ہے آپ کو”۔۔
اسنے نرمی سے اسکے آنسوں صاف کئے ۔۔ ساتھ ہی اسکا ہاتھ تھام کر اسے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔
وہ نا سمجھی سے اسے دیکھتی اسکے ساتھ چل پڑی تھی۔
وہ اسے ساتھ لئے نیچے آیا تھا لاؤنچ میں قدم رکھتے ہی اسکی آنکھیں حیرت اور خوشی سے کھلی کی کھلی رہ گئی۔۔ پورا لاؤنچ غوباروں اور موم بتی سے خوب صورتی سے سجایا گیا تھا۔۔
“ہیپی برتھ ڈے مائ لائف “۔۔
اسکے پیچھے عنصر کی سرگوشی ابھری۔۔ اب کی بار وہ ڈری نہیں تھی۔۔ اسنے حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثر سے عنصر کی جانب دیکھا جو آنکھوں میں محبتوں کا جہاں آباد کئے اسے ہی تک رہا تھا۔۔
وہ تو اپنی سالگرہ بھول ہی گئی تھی۔۔
“آ آپ کو کیسے پتہ؟”۔۔
اسنے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔
“شششش مجھے نہیں پتہ ہوگا تو اور کسے پتہ ہوگا ۔۔ ان سب باتوں پر وقت نہیں لگائیں کیک کاٹیں “۔۔
وہ اسے ساتھ لئے ٹیبل پر رکھے کیک کی جانب آیا ..
اسنے نم آنکھوں سے عنصر کی جانب دیکھا۔۔ اسے رابیل بہت یاد آ رہی تھی۔۔ ہر برتھ ڈے پر وہ اسکے ساتھ ہی کیک کاٹتی تھی۔۔
“اونہوں رونے والا سیشن شروع نہیں کرنا ہے مسز کیک کاٹیں”۔۔
عنصر نے نرمی سے اسکے آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا جواباً وہ نم آنکھوں سے مسکرائ۔
“کل ہم ماما لوگوں کی طرف چلینگے ہممم “۔۔
عنصر نے کہتے ہوئے اسے کیک کھلایا۔
“سچ میں۔۔
وہ چیخ ہی تو پڑی تھی۔۔
“بلکل سچ”۔۔
اسنے مسکراتے ہوئے کیک کا ایک ٹکڑا عرش کے ہاتھ میں تھمایا۔۔
اسنے نا سمجھی سے عنصر کی جانب دیکھا جیسا پوچھ رہی ہو کے اسکا کیا کرنا ہے۔۔ اسے حیران دیکھ کر اس نے خود ہی اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لیکر کیک کا ٹکڑا منہ میں ڈال لیا۔۔
“آپ نے کھا لیا تو اب میں کھا لوں یہ میرا برتھ ڈے کیک ہے “۔۔
اسنے کہتے ہوئے کیک ہاتھ میں اٹھایا تھا ساتھ ہی دونوں پیر اٹھا کر صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔۔
عنصر نے حیرت سے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا جو ایک کیک پر ہی خوش ہو گئی تھی۔۔
“اپنا گفٹ تو لے لیں مسز “۔۔
وہ کہتا ہوا اسکے سامنے کارپیٹ پر بیٹھا ۔۔ نرمی سے اسکا پیر تھامتے نازک سا پازیب باری باری اسکے دونوں پیروں میں پہنایا۔۔
“یہ یہ بہت خوبصورت ہے عنصر “۔۔
اسکی آنکھوں میں خوشی واضح تھی۔۔ عنصر نے مسکرا کر اسے دیکھا۔۔
___
وہ بیڈ پر بیٹھی بار بار ہاتھ سے پازیب چھو کر دیکھ رہی تھی۔۔
“ساری رات اسے ہی دیکھتی رہینگی مسز ؟”۔
وہ اسکی گود میں سر رکھتا ہوا لیٹ گیا تھا۔۔ عرش آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
“میں سو جاؤں “۔۔
اس نے اجازت چاہی ۔۔
وہ اب بھی ناسمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
“ہم کل رابیل کو بھی گفٹ دینگے نا عنصر “۔۔
وہ اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہ رہی تھی۔۔
“بلکل۔۔
اس نے اسے دیکھتے ہوئے نرمی سے کہا جسکی نظریں اب بھی اپنے پیروں پر تھی۔۔
_____________
وہ کافی دیر سے ناشتہ تیار کر کے ٹیبل پر بیٹھی تھی مگر اب تک کوئی بھی ناشتے کے لئے نہیں آیا تھا تھک ہار کر وہ اٹھنے ہی والی تھی کے اشر فاطمہ بیگم کے ساتھ سیڑھیوں سے اترتا دکھائی دیا۔۔
“السلام علیکم۔۔ آج کافی دیر کر دی آپ لوگوں نے آنے میں”۔۔
وہ کہتے ہوئے انکے آگے جھکی۔۔
“اشر کی وجہ سے دیر ہوئی ہے تم اس سے ہی سمجھو بھئ”۔۔
انہوں نے سر الزام اشر پر ڈالتے اپنا دامن صاف بچایا۔۔ اس نے خفگی سے اشر کی جانب دیکھا۔۔
“ہیپی برتھ ڈے گڑیا “۔۔
وہ مسکراتے ہوئے اسکے سامنے کھڑا تھا۔۔ اسے اس طرح دیکھ کر رابیل سارا غصہ بھول گئی تھی۔۔
“تھینک یو سو مچ بھیا “
اسنے مسکراتے ہوئے شکریہ ادا کیا ساتھ ہی گفٹ کے لئے ہاتھ اسکی جانب بڑھائے تھے۔۔
اشر نے مسکراتے ہوئے گفٹ والا بیگ اسکے حوالے کیا۔ جسے اس نے اسی وقت کھول کر دیکھا۔۔
“اشر بھیا۔۔۔
وہ سامنے موجود نئے ماڈل کا سیل فون دیکھ کر چیخ ہی تو پڑی تھی۔۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرایا۔۔
“ایسا ہو سکتا ہے کے میری گڑیا کسی چیز کی خواھش کرے اور اسے وہ چیز نہیں ملے”۔۔
اس نے اسکے سر پر چپت لگاتے ہوئے پیار سے کہا تھا۔۔ اس وقت وہ کھلنڈر سا اشر کہیں نہیں تھا۔۔ اسکے انداز میں باپ جیسی شفقت تھی جو اپنی اولاد کی ہر خواھش پوری کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔۔ فاطمہ بیگم نے مسکرا کر انھیں دیکھا دل ہی دل انکی محبت اسی طرح قائم رہنے کی دعا کی۔۔
“بھیا سے ہی لاڈ اٹھواؤگی یا ماما کی بھی یاد آئیگی تمہیں “۔۔
انہوں نے مصنوعی خفگی سے کہا ۔۔
“میری پیاری ماما آپ کو بھولتی کب ہوں میں”۔۔
انسے لاد سے انکے گرد بازو حائل کئے تو انہوں نے پیار سے اسکی پیشانی چومی۔۔
“عرش ہوتی تو ابھی تک دریا بہ چکا ہوتا۔۔
اشر نے شرارت سے کہا۔۔
“تم تو میری عرش کے پیچھے ہی پڑے رہتے ہو خبردار جو میری بچی کے خلاف ایک لفظ بھی کہا۔۔ معصوم سی اس لئے رونے لگتی ہے۔۔ تمہاری طرح ڈھیٹ نہیں ہے نا”۔۔
انہوں نے اسے خوب لتاڑا۔۔
جواباً اس نے دانت نکال کر ڈھیٹ ہونے کا ثبوت دیا۔۔
“رابی آج عرش اور عنصر آئینگے میری جان تیاری کر لینا۔۔ ساری چیزیں میری عرش کی پسند کی بنانا میں نسرین (ملازمہ) سے ذرا صفائی کروا لوں صحیح سے۔۔ اتنے دنوں بعد گھر آ رہی ہے میری بچی ۔۔ اشر تم آئس کریم بھی لے آنا اسکی پسند کی “۔۔
انہوں نے دونوں سے ایک ساتھ کہا۔۔ خوشی انکے ہر انداز سے جھلک رہی تھی۔۔ رابیل انھیں خوش دیکھ کر مسکرائ۔ ۔
“ماما بچی کے ساتھ آپ بیٹا بھی آ رہا ہے اس غریب کے لئے بھی کچھ کروا لیں ورنہ اسے بھی میری طرح یہی لگنے لگے گا کے ہم آپ کے سوتیلے بیٹے ہیں”۔۔
اسنے مصنوئ آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا۔۔
“ماما ماما میں تو مذاق کر رہا تھا آپ سیریس ہو گئیں ۔۔ رابی بچاؤ چوٹ لگتی ہے اس والی سینڈل سے “۔۔
فاطمہ بیگم کا ہاتھ پیروں پر جاتا دیکھ وہ فوراً رابیل کے پیچھے آیا۔۔
“اس بچی کے پیچھے کہاں چھپ رہے ہو یہاں آؤ میں بتاؤں تمہیں سوتیلوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے”۔۔
انہوں نے خفگی سے کہا۔۔
“ماما میں تو مذاق کر رہا تھا”۔۔
اسکے انداز پر وہ خود بھی ہنس پڑی تھیں۔۔
“آج ہسپتال سے آف لے لو “۔۔
وہ کہتے ہوئے ملازمہ کو آواز دیتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔
_____
وہ سارے کاموں سے فارغ ہو کر فاطمہ بیگم کے ساتھ لاؤنچ میں ہی بیٹھی تھی جب دروازے سے عنصر اور عرش آتے دکھائی دئے۔۔
“ماما جانی”۔۔
وہ روتے ہوئے انکے گلے لگی ۔۔
“آ گیا میرا بچہ کب سے انتظار کر رہے ہیں ہم ۔۔ رو رہی کیوں ہو میری جان “۔۔
انہوں نے پیار سے اسے ساتھ لگاتے آنسوں صاف کئے۔۔
“بہت مس کیا میں نے آپ کو “۔۔
اس نے ہنوز روتے ہوئے کہا۔۔
“میں نے بہت مس کیا اپنی عرش کو “۔۔
انہوں پیار سے اسکی پیشانی چومی۔۔
فاطمہ بیگم سے مل کر رابیل کی طرف بڑھی تھی جو نم آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔رابیل نے کتنے ہی لمحے اسے دیکھتے ہوئے گزار دئے اور پھر وہ اسے ساتھ لگائے شدّت سے روئی تھی۔۔ خود سے اتنے دور کب ہونے دیا تھا اس نے عرش کو اور آج اتنے دنوں بعد وہ اسے دیکھ رہی تھی۔۔
“رابی تم نے کب سے عرش کا اثر لے لیا “۔۔
اشر نے ماحول کو ہلکا پھلکا کرنا چاہا۔۔
اسکی بات وہ دونوں ہی نم آنکھوں سے مسکرائیں۔ ۔
“چلو کمرے میں چلتے ہیں”۔۔
اس نے رابیل کے کان میں کہا ۔۔
“تم عنصر بھیا کے ساتھ جاؤ کمرے میں فریش ہو جاؤ پھر لنچ کرینگے “۔۔
رابیل نے بھی اسی کے انداز میں آہستہ آواز میں کہا۔۔
“ڈریکولا کے ساتھ تو ایک سال سے رہ رہی ہوں میں ابھی صرف تمہارے ساتھ رہونگی اب چلو “۔۔
اسکی آواز اتنی بلند تھی کے وہاں موجود سب نے اسکی بات سنی ۔۔
اسکی بات پر جہاں عنصر نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا وہیں اشر کا فلک شگاف قہقہا گونجا۔۔
“عرش آپ ذرا کمرے میں آئیں “۔۔
عنصر نے دانت پیستے ہوئے کہا۔۔
“مطلب حد ہے یہاں آنے سے پہلے صبح تک میں اچھے عنصر پیارے عنصر تھا۔۔ اور اب پھر سے ڈریکولا بن گیا “۔۔
وہ صدمے سے عرش کو دیکھتا بڑبڑایا جو مزے سے کھڑی دانت نکال رہی تھی۔۔
“ہاہاہا دیکھ لے بھائی اور ابھی صبر کر ابھی تو یہ تینوں خواتین اور بھی ظلم کرینگی ہم معصوموں پر “۔۔
اشر نے مظلوموں جیسی شکل بنا کر کہا۔۔
“ابھی مجھے رابی سے بہت ساری باتیں کرنی ہے ۔ میں ہمارے روم میں جاؤنگی “۔۔
وہ اسے ہری جھنڈی دکھاتی رابیل کو ساتھ لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔۔ پیچھے عنصر صدمے سے اسے جاتے دیکھ رہا تھا۔۔
“عنصر جانے دو اسے اتنے دنوں بعد بہن سے ملی ہے کچھ دیر ساتھ رہنے دو میری بچییوں کو۔۔ جاؤ تم بھی اپنے کمرے میں فریش ہو کر نیچے آؤ”۔۔
انکے کہنے پر وہ پر وہ بھی جی ماما کہتا کمرے کی جانب بڑھا۔۔
“اور ہمارے لئے کیا حکم ہے ملکہ عالیہ “۔۔
اشر نے دانت نکال کر کہا۔۔
“آپ ٹیبل سیٹ کیجیے بچوں کے آنے تک “۔۔
وہ مسکراہٹ دبا کر کہتی کچن میں گئیں۔۔
________
ہلکی پھلکی نوک جھونک کے ساتھ کھانا خوشگوار ماحول میں کھانے کے بعد وہ سب لان میں بیٹھے چائے کا انتظار کر رہے تھے۔۔
” آج چائے عرش نے بنائی ہے ماما “۔۔
رابیل نے چائے کے لوازمات ٹیبل پر رکھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔۔
“پھر تو اپنے رسک پر ہی پینا بھئ چائے “۔۔
اشر نے شرارت سے کہا۔۔
“مجھے جانتی ہوں چائے کس طرح بناتے ہیں”۔۔
عرش نے منہ بنا کر کہا اسے اشر کی بات بلکل پسند نہیں آئ تھی۔۔
“ہاہاہا ہاں یہ تو ٹھیک کہ رہی ہیں عرش اس ایک سال میں چائے اچھی بنانا سیکھ گئی ہیں ۔۔ ویسے عرش میں بتا دوں فرسٹ ٹائم آپ نے مجھے چائے میں کیا ڈال کر پلایا تھا”۔۔
عنصر نے اسکے ہاتھ سے کپ لیتے شرارت سے کہا۔۔
“تھوڑا سا بلیک پیپر ہی تو ڈالا تھا عنصر “۔۔
وہ منمنائ۔ ۔
“ہاں بس تھوڑا سا بلیک پیپر ڈالا تھا انہوں نے پتی کی جگہ “۔۔
عنصر نے شرارت سے اسے دیکھتے ہنستے ہوئے کہا۔۔ رابیل اور اشر کا ہنس ہنس کر برا حال ہو رہا تھا۔۔
“نہیں تنگ کرو تم لوگ میری بچی کو عرش ادھر میرے پاس آؤ میری جان “۔۔
فاطمہ بیگم نے اسکی آنکھوں میں نمی دیکھ کر ان سب کو خاموش ہونے کا اشارہ کیا جو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔۔
“یہ ہے میری بیٹیوں کے لئے سالگرہ کا تحفہ “۔۔
اسے اپنے پاس بیٹھاتے انہوں نے خوبصورت مخملی ڈبے ان دونوں کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔۔ اشر نے عرش کو ویسا ہی موبائل گفٹ کیا تھا جیسا رابیل کے لئے لیا تھا۔۔
“ماما یہ تو بہت قیمتی ہیں میں یہ کیسے لوں”۔۔
رابیل نے اسکے اندر دیکھتے ہوئے کہا۔۔
“میری بچیوں سے زیادہ قیمتی نہیں ہیں ۔۔ اب جلدی پہن کے دکھاؤ “۔۔
انہوں نے جڑاؤ کنگن اسکے ہاتھوں میں ڈالتے ہوئے محبت سے کہا۔۔
“ماما یہ یہ کتنے پیارے ہیں دیکھیں کتنے اچھے لگ رہے ہیں “۔۔
عرش نے خوشی سے اپنے دونوں ہاتھ انکے آگے کئے تھے۔۔ اسکے دودھیا ہاتھوں میں وہ کنگن واقعی سج گئے تھے۔۔ عنصر نے دلچسپی سے اسے دیکھا۔۔
“بہت پیارے لگ رہے ہیں میری بیٹیاں ہیں ہی اتنی پیاری یہ اچھے کیسے نہیں لگینگے تمہارے ہاتھوں میں آ کر “۔۔
انہوں نے پیار سے دونوں کو ساتھ لگایا۔۔
۔”رابی تمہارے لئے ایک اور گفٹ ہے تھوڑا اسپیشل ہے وہ کمرے میں جا کر دیکھ لینا”۔۔
اشر نے خوبصورت پیکنگ میں ایک اور باکس اسکے حوالے کرتے ہوئے شرارت سے کہا۔۔
“پکڑ تو لو گڑیا اتنے شوق سے میرے دوست نے دیا ہے”۔۔
اسے ناسمجھی سے اپنی جانب دیکھتے پا کر اسنے زبردستی اسکے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔۔
عرش نے خوشی سے اسے دیکھا جس کے چہرے پر کئ رنگ بکھرے تھے۔۔
“ہائے رابی تم تو بلش کر رہی ہو “۔۔
عرش نے اپنی آنکھیں پٹپٹائیں۔۔
“رابیل اندر سے پانی تو لے آؤ “۔۔
عنصر نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے اسے وہاں سے اٹھنے میں مدد دی۔۔ وہ تو اسی انتظار میں تھی تاشکر آمیز نظروں سے عنصر کو دیکھتی وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
____
کمرے میں آ کر دھڑکتے دل سے اس نے گفٹ کھولا ۔۔ نازک سی ڈائمنڈ رنگ پورے آب و تاب سے چمک رہی تھی۔۔ اسکے لبوں پر بےساختہ مسکراہٹ ابھری ۔۔ موبائل رنگ ہونے پر اسکی جانب متوجہ ہوئی۔۔ وہ چاہ کر بھی اسکی کال کاٹ نہیں سکی۔۔ اس دن کے بعد وہ آج اسے کال کر رہا تھا۔۔
“سالگرہ مبارک پیاری لڑکی “۔۔
اسکی بھاری آواز ابھری۔۔
“شکریہ “۔۔
اس نے دھیمی آواز میں کہا۔۔
“تحفہ پسند آیا ؟”۔
ایک اور سوال منتظر کھڑا تھا۔۔ وہ شاید جانتا تھا کے اشر اسکے حوالے کر چکا ہے۔۔
“بہت حسین ہے یہ”۔۔
اسنے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔۔ نظریں خوبصورت ڈبے میں رکھے اسکی زندگی کے سب سے حسین گفٹ پر ٹکی تھیں “۔۔
“ہنستی رہا کریں اچھی لگتی ہیں “۔۔
اس نے فون کان سے لگائے مسکراتے ہوئے کہا وہ اسکا اگلا ریئکشن بھی اچھی طرح جانتا تھا۔۔
وہ اسکی بات پر حیران ہو کر فون کانوں سے ہٹا کر سکرین دیکھ رہی تھی ۔۔ وہ کیسے جانتا تھا کے وہ مسکرا رہی ہے۔۔
“آپ کو جاننے کے لئے آپ کو دیکھنا ضروری نہیں ہے رابیل یوں حیران نہیں ہوں پیاری لڑکی “۔۔
وہ اسے جھٹکے پے جھٹکے دے رہا تھا۔۔
“آپ وہ رنگ پہن سکتی ہیں؟”۔۔
اس نے گزارش کی۔۔
“کیا یہ رنگ میں ہماری شادی کے بعد پہن سکتی ہوں ۔۔ میں چاہتی ہوں آپ کا دیا پہلا تحفہ آپ مجھے خود پہنائیں مگر پورے حق سے۔۔
جب اللہ بھی ناراض نہیں ہوں”۔۔
اس نے دھیمے لہجے میں اپنے دل کی بات کی تھی۔۔
“پھر تو یہ رنگ میں آپ کو خود ہی پہناؤنگا ڈئیر فیوچر وائف “۔۔
جلابیب تو کھل ہی اٹھا تھا۔۔ کتنا خوبصورت اظہار تھا۔۔
“میں فون رک دوں “۔۔
اس نے ہیچکیچاتے ہوئے پوچھا۔۔
“کاش میں آپ کو اس طرح بلش کرتے دیکھ سکتا۔۔ چلیں خیر کوئی بات نہیں انتظار کا بھی اپنا مزہ ہے “۔۔
اسکے شرارت سے کہنے پر رابیل نے اگلے ہی لمحے کال کٹ کی۔۔
ٹوں ٹوں کی آواز پر اس نے موبائل دیکھا ۔ تصور میں اسکا چہرہ لاتے وہ کھل کر مسکرایا۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...