ماضی۔ ۔
“عرش اٹھیں نماز کا وقت نکل رہا ہے “۔۔
اسنے آہستہ سے اسے ہلایا تھا جو اب دونوں ہاتھوں سے آنکھیں ملتی اٹھ بیٹھی تھی۔۔
“نماز پڑھ لیں مسز “۔۔
اسکے سوالیہ نظروں سے دیکھنے پر عنصر نے نرمی سے کہا۔۔
تھوڑی دیر میں وہ وضو بنا کر آئی تو وہ جائےنماز بچھائے اسکے انتظار میں ہی کھڑا تھا۔۔ اس سے تھوڑا آگے ایک اور جائے نماز بچھا کر وہ نماز کے لئے کھڑا ہو گیا تھا۔۔ عرش خاموشی سے اسکی امامت میں نماز ادا کر رہی تھی۔۔
وہ نماز پڑھ کر جائے نماز سائیڈ پر رکھتی اسکے سامنے ہی بیٹھ گئی۔۔ وہ بہت اطمینان سے نماز پڑھ رہا تھا۔۔ وہ محویت سے اسے دیکھنے لگی۔۔
“ایسے کیا دیکھ رہیں ہیں مسز “۔۔
عنصر کی آواز پر اسکی محویت ٹوٹی۔۔ وہ گھبرا کر کھڑی ہوئی۔۔
“دیکھ لیں حق ہے اپکا اس میں اتنی پریشانی والی کیا بات ہے”۔۔
اس نے مسکراہٹ دبا کر اسے دیکھا جو اب بیڈ پر بیٹھی ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔۔
“میں ناشتہ بنا رہا ہوں۔۔ آپ تیار ہو جائیں جب تک۔۔ میں آپ کو یونی ڈراپ کرتے ہوئے آفس چلا جاؤنگا”۔۔
وہ کہتا ہوا بیڈ پر بیٹھا تھا۔۔
“آ آپ جائینگے تو میں تیار ہونگی نا آپ مجھے پریشان کر رہے ہیں “۔۔
اسنے بھرائ ہوئی آواز میں کہا۔۔
“میں نے کب پریشان کیا آپ کو مسز “۔۔
اسکی مسکراہٹ گہری ہوئی۔۔
“آ آپ جائیں نا مجھے بھوک لگ رہی ہے “۔۔
عرش نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔۔
“اچھا آپ رونا شروع نہیں کر دیں۔۔ بنانے جا رہا ہوں میں ناشتہ”۔۔
وہ کھل کر مسکرایا۔۔
__________
آدھے گھنٹے میں سب کچھ تیار کر کے کمرے میں آیا تو سامنے کا منظر دیکھ کر وہ اپنا سر تھام کر رہ گیا۔۔
وہ رنگ برنگے کپڑے پورے بیڈ پر پھیلائے۔۔ چہرہ دونوں ہاتھوں پر گرائے خود بھی ان کپڑوں کے درمیان بیٹھی تھی۔۔
“یہ کیا ہے عرش “۔۔
عنصر چاہ کر بھی اپنی آواز دھیمی نہیں رکھ سکا تھا آدھے گھنٹے میں انھیں نکلنا تھا اور وہ ابھی تک کپڑے سلیکٹ کر رہی تھی وہ بھی اس طرح۔۔
“مجھے رابی کے پاس جانا ہے “۔۔
اسکی آواز پر اسنے روتے ہوئے کہا تھا۔۔
“کیوں جانا ہے رابیل کے پاس مجھے بتائیں کیا پروبلم ہے “۔۔
اسے روتے دیکھ کر وہ نرم پڑا۔۔ وہ اسکے سامنے ھی کارپیٹ پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔۔
“کپڑے رابی نکال کر دیتی ہے۔۔ وہ تو یہاں نہیں ہے “۔۔
اسنے روتے ہوئے جواب دیا۔۔
“کپڑے نکال کر دینا ہے “۔۔
اسنے کچھ سمجھتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔۔
“یہ ٹھیک ہے۔۔ یہ پہن لیں “۔۔
اسنے بلیک اور مہرون کلر کی سٹائلش سی کرتی اسکے حوالے کرتے ہوئے کہا۔۔ ساتھ بلیک کلر کا اسکارف اسکے ہاتھ میں دیتے ہوئے نرمی سے اسکے آنسوں صاف کئے۔۔
“تھینکس ۔۔ پر یہ سب “۔۔
وہ نم آنکھوں سے مسکرائ ۔۔ اگلے ہی لمحے پریشان سی بیڈ پر پھیلے کپڑے دیکھ رہی تھی۔۔
“وہ سب میڈ ٹھیک کر لینگی آپ اسکی فکر نہیں کریں مسز ۔۔ پلیز جلدی تیار ہو جائیں ہم لیٹ ہو رہے ہیں “۔۔
وہ نرمی سے اسکے گال تھپتھپاتا اسے جلدی نیچے آنے کا اشارہ کرتے کمرے سے نکلا۔۔
___
تھوڑی ہی دیر میں وہ تیار تھی۔۔
ٹیبل پر نوڈلس دیکھ کر اسکی آنکھیں چمکی اسنے خوشی سے عنصر کی جانب دیکھا۔۔ عنصر نے مسکرا کر اسے دیکھا اسکی خوشی کی وجہ وہ سمجھ چکا تھا۔۔
“یہ آپ نے بنائے ہیں “۔۔
اسنے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے کہا تھا۔۔
“جی میں نے بنائے ہیں لیکن پلیز عرش جلدی سے ختم کر کے آجائیں ہم بہت لیٹ ہو رہے ہیں”۔۔
وہ اسکی آرام آرام سے کھانے کی عادت سے واقف تھا۔۔ اسے جلدی باہر آنے کی تاکید کرتا وہ گاڑی کی چابی اٹھاتا باہر نکلا ۔۔
وہ جلدی جلدی نوڈلس کھاتی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔
کاندھے پر بیگ لٹکائے ایک ہاتھ میں کتابیں پکڑے دوسرے ہاتھ سے بریڈ منہ میں ڈالتی وہ اسکارف سے الجھتی باہر آ رہی تھی کہ تیزی سے اندر آتے عنصر سے بری طرح ٹکرائ۔۔ وہ جو اپنے ہی دھن میں باہر جا رہی تھی اس اچانک تکرار پر بری طرح سٹپٹاتی نیچے گری تھی۔۔
“عرش۔۔ آرام سے ہنی “۔۔
وہ کہتا ہوا اسکی کتابیں اٹھا رہا تھا۔۔
” رئیل لائف میں ہیرو گرنے سے پہلے نہیں پہنچتے مسز۔۔ چلیں اب اٹھ جائیں “۔۔
اسے ہنوز اسی انداز میں بیٹھا دیکھ کر عنصر نے اسکی جانب ہاتھ بڑھایا۔۔
“میں نے کہا تھا رابی کو آپ اچھے نہیں ہیں اس دن مجھ سے کپ دھلوائے ۔۔ آج مجھے گرا بھی دیا “۔۔
اسکے بڑھے ہوئے ہاتھ کو نظر انداز کرتی۔۔وہ دونوں ہاتھوں سے آنکھیں ملتی روتے ہوئے بولی۔۔ ساتھ ہی گرنے کا الزام بھی عنصر کے سر دیا۔۔
“میں نے گرایا آپ کو ؟”۔۔
عنصر تو صدمے سے چیخ ہی پڑا۔۔
“آ آپ ہی واپس آ رہے تھے نا میں تو ٹھیک سے چل رہی تھی “..
“اچھا چلیں آئ ایم رئیلی سوری فار دیٹ۔۔ اب اٹھ جائیں “۔۔
وہ اپنی نا کردہ غلطی کی معافی مانگتا بڑی مشکل سے اسے گاڑی میں بیٹھانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔۔
“کیا بات ہے مسز ؟”
یونیورسٹی پہنچ کر وہ اسکی جانب متوجہ ہوا۔۔ جو کافی سے زیادہ نروس لگ رہی تھی۔۔
“ڈر لگ رہا ہے ۔۔
وہ منمنائ۔۔
“ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے مسز کچھ نہیں ہوگا اور میرے دوست کی سسٹر ہے۔۔ آپ کے ہی ڈیپارٹمنٹ کی ہے وہ آپ کو گائیڈ کر دیگی”۔۔
اسنے نرمی سے اسے سمجھایا۔۔
تھوڑی ہی دیر میں عرش کے ہی عمر کی ایک لڑکی انکی جانب آئ۔۔
“السلام وعلیکم عنصر بھائی۔۔ یہ ضرور عرش ہونگی۔۔ کتنی پیاری ہیں آپ کی وائف عنصر بھائی “۔۔
عنصر کو سلام کرتی اب وہ دلچسپی سے ڈری سہمی سی عرش کو دیکھ رہی تھی۔۔
“وعلیکم السلام۔۔ ہاں یہ عرش ہیں میری وائف اور تمہیں اب انکا بہت خیال رکھنا ہے “۔۔
عنصر نے ہنستے ہوئے کہا اسکے انداز سے لگ رہا تھا جیسے بہت پرانی بات چیت ہو انکے بیچ عرش خاموشی سے کھڑی انکی باتیں سن رہی تھی۔۔
“عرش یہ نوال ہے جنکے متعلق میں نے آپ کو بتایا تھا۔۔ نوال آپ گائیڈ کر لیجیے گا میری وائف کو یہ تھوڑا جلدی پریشان ہو جاتی ہیں “۔۔
اسنے مسکراتے ہوئے عرش کی جانب دیکھا جو اب کافی ریلیکس لگ رہی تھی۔۔
“آپ بےفکر ہو جائیں عرش میری بہت اچھی دوست بن جائینگی ہے نا عرش “۔۔
نوال نے مسکراتے ہوئے عرش سے پوچھا تھا جواب میں وہ بھی مسکرا دی۔ ۔
اسے یونیورسٹی ڈراپ کر کے وہ آدھے گھنٹے کی ڈرائیو پندرہ منٹ میں کرتا آفس پہنچا۔۔ دو بجے عرش کو یونی سے پک بھی کرنا تھا۔۔
“آپ نے اس دن مجھ سے کپ بھی دھلوائے تھے “۔۔
اسکی روتی شکل اسکے سامنے آئ ۔۔ وہ ہنستا ہوا چیئر پر بیٹھا۔۔
“بیوقوف “۔۔
حال۔۔
وہ اشر کے ساتھ مال آئ تھی فرشتے کے لئے کپڑے،شوز، کھلونے اور بہت ساری چیزیں لے کر وہ اب فوڈ ایریا میں تھے۔۔
“دیکھو ذرا اسے کیسے اچھل رہی ہے آئس کریم دیکھ کر “۔۔
اشر نے مسکراتے ہوئے فرشتے کو رابیل کی گود سے لیا جو اسکے ہاتھ میں آئس کریم دیکھ کر اسکی گود میں آنے کے لئے بےچین ہو رہی تھی۔۔
“آئس کریم ملتے ہی آنی کو بھول گئی فرشتے “۔۔
اسنے ہنستے ہوئے فرشتے کے پھولے گالوں پر پیار کیا۔۔
“جلابیب ۔۔
اشر کی نظریں گلاس ڈور کی دوسری جانب کھڑے جلابیب پر پڑی رابیل نے بھی اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا جہاں وہ شاید کسی کے انتظار میں کھڑا تھا۔۔
“بےغیرت انسان آیا تھا تو ایک میسج ہی کر دیتا “۔۔
اشر نے پیچھے سے اسے دھموکا جڑا۔۔
“ارے یار میں تو نعمان کے ساتھ آیا تھا مجھے یہاں کھڑا کروا کر خود پتہ نہیں کہاں مر گیا ہے۔۔”
جلابیب نے اپنے اور اشر کے مشترکہ دوست کا نام لیا۔۔
“تو اکیلے آیا ہے یا ثمر کے ساتھ “۔۔
جلابیب نے شرارت سے پوچھا۔۔
“ہاہاہا رابیل کے ساتھ آیا ہوں فرشتے کے لئے کچھ چیزیں لینی تھی اسے “۔۔
اشر نے ہنستے ہوئے جواب دیا ساتھ ہی اندر بیٹھی رابیل کی طرف اشارہ کیا۔۔ وہ جو انکی ہی جانب دیکھ رہی تھی جلابیب کو اس طرف دیکھتا دیکھ کر فوراً ادھر ادھر دیکھنے لگی جو اسکی زیرک نگاہوں سے مخفی نہیں رہ سکا تھا۔۔ اسکے ہونٹوں پر بہت پیاری مسکراہٹ بکھر گئی۔۔
“السلام علیکم۔۔ قریب پہنچنے پر اسنے سلام کیا ساتھ ہی اسکی تھوڑے فاصلے پر رکھے چیئر پر بیٹھ گیا۔۔
“وعلیکم السلام !!۔۔ دھیمی آواز میں جواب دیتی وہ زمین کو گھور رہی تھی۔۔
“کیا آرڈر کروں رابی چائنیز کر دوں “۔۔
اشر نے مینو ہاتھ میں لئے پوچھا تھا۔۔
“جو مناسب لگے اشر بھیا کچھ بھی کر دیں “۔۔
اسنے فرشتے کو اپنے سامنے ٹیبل پر بیٹھاتے ہوئے کہا۔۔
“تم لوگ آرڈر کرو میں چلتا ہوں اشر میں چلتا ہوں خالہ بی انتظار کر رہی ہونگی لنچ پھر کبھی۔۔
وہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا اسکی موجودگی میں کبھی نہیں کھائیگی۔۔
“میں شام میں کال کر لوں رابیل “۔۔
وہ اپنے مخصوص لہجے میں پوچھ رہا تھا۔۔
رابیل اس طرح مخاطب کئے جانے پر سٹپٹائ۔۔
“جج جی کر لیجیے گا “۔۔
اسکے جواب پر وہ ایک الوداعی نظر اس پر ڈالتا چلا گیا۔۔
پیچھے وہ اب بھی اسے اپنے آس پاس محسوس کر رہی تھی۔۔
حال۔۔۔
سنو !!!
تم جانتی ہو نا تمہارا ساتھ چھوٹے تو
یہ پاؤں لڑکھراتے ہیں۔۔۔
مجھے چلنا نہیں آتا۔۔۔،، سنو ۔۔!!
ایسا کرو کچھ دن ، فقط کچھ دن ٹھہر جاؤ۔۔،،
میں چلنا سیکھ جاؤں تو چلے جانا۔۔
میں سمبھالنا سیکھ جاؤں تو چلے جانا۔۔!!
وہ اندھیرے کمرے میں بیٹھا مسلسل سگریٹ پر سگریٹ پھونک رہا تھا۔۔ ایک پرانا منظر اسکی نگاہوں کے آگے لہرایا تھا۔۔
“یہ بہت بری چیز ہوتی ہے عنصر اس سے نا آپ کے بھی لنگس خراب ہونگے اور اور میں آپ کے ساتھ رہتی ہوں نا تو میرے بھی خراب ہو جائینگے “۔۔
وہ معصومیت سے کہتی اسکے ہاتھ سے سگریٹ لینے آگے بڑھی تھی۔۔
“آپ نہیں چھوئیں اسے مسز میں پھینک دیتا ہوں “۔۔
وہ ایک ہاتھ سے اسے قریب کرتے سگریٹ والا ہاتھ اس سے دور لے گیا تھا۔۔
“اب تو نہیں ہونگے آپ کے لنگس خراب ؟”
عنصر نے سگریٹ پھینک کر شرارت سے اسے دیکھا جو مسکراتے ہوئے نفی میں گردن ہلا رہی تھی۔۔
اسنے گہری سانس لے کر آنسوں حلق میں اتارے۔۔
وہ ایک سگریٹ ختم ہونے پر نم پلکوں کو جھٹکتے دوسری سگریٹ جلا رہا تھا۔۔
ایک کش لگا کر دھواں ہوا میں چھوڑتا اور اس میں عرش کا عکس دیکھ کر مسکرا دیتا۔۔ دھواں ہوا میں تحلیل ہوتے ہی عرش کا عکس غائب ہو جا رہا تھا اور وہ ایک اور کش لگا کر دھواں چھوڑ رہا تھا۔۔
“کیا ہوا ناراض ہو رہی ہیں ؟ آپ آجائیں نا عرش یہ یہ پھینک دیں عرش میرے ہاتھوں سے یہ بری چیز ہے نا عرش میں میں برا بن رہا ہوں عرش میں بہت برا بن جاؤنگا ۔۔
اپنے بالوں کو دونوں ہاتھوں سے جکڑے۔۔ اسکی آواز بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی تھی۔۔
“عنصر بھیا ۔۔۔
دروازہ کھول کر اندر آتی رابیل بری طرح کھانسنے لگی تھی ۔۔ اسنے جلدی سے کمرے کی لائٹ آن کی۔۔ وہ تھوڑی دیر پہلے ہی اشر کے ساتھ گھر آئ تھی اب فاطمہ بیگم کے کہنے پر عنصر کو بلانے آئ تھی کے وہ فرشتے کی چیزیں دیکھ لیگا۔۔ مگر اندر کا منظر اسے ساکت کر گیا تھا۔۔
“دیکھو دیکھو رابیل میں سگریٹ پی رہا ہوں۔۔ تم ایسا کرو جا کر عرش کو بتا دو پھر تو آئیں گی نا وہ پھر تو آنا ہوگا انھیں ۔۔ ان سے کہو ایک بار آ کر اپنی عادت چھڑا جائیں۔۔ یہ یہ سگریٹ بھی چھوڑ دونگا سب سب چھوڑ دونگا ایک بار ایک ایک بار واپس “۔۔
وہ اونچا لمبا مرد اس وقت اپنے حواسوں میں نہیں تھا۔ وہ بری طرح روتا بیٹھتا چلا گیا۔۔رابیل نے دونوں ہاتھوں کو منہ پر سختی سے رکھتے اپنی سسکیاں دبائیں۔ ۔
“رابی۔۔ کیا ہوا میری جان۔۔
فاطمہ بیگم سسکتی ہوئی رابیل کو دیکھ کر اندر آئیں تھی اندر کے منظر دیکھ کر بےساختہ دل تھام گئی تھیں۔۔
“عنصر۔۔ عنصر میرے بچے “۔۔
وہ روتے ہوئے عنصر کو شانوں سے تھام کر اپنے سینے سے لگا رہی تھیں۔۔ جو انکے ساتھ لگا بلند آواز میں روتا انھیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر گیا تھا۔۔
“اس شرارتی بیوقوف سی لڑکی نے عنصر یزدان کو اپنے عشق میں پاگل بنا دیا تھا “۔۔۔
وہ بری طرح سسکتی بامشکل اپنے کمرے تک آئ تھی جہاں فرشتے کاٹ میں لیٹی دونوں ہاتھ اوپر کی جانب اٹھائے رو رہی تھی۔۔
وہ تیزی سے کاٹ کے قریب آتی فرشتے کو گود میں اٹھائی تھی۔۔ اسے اپنے سینے سے لگاے وہ اور شدّت سے رو رہی تھی۔۔ رابیل ولاء میں آج پھر سسکیوں سے گونج رہا تھا۔۔
______
وہ فون ہاتھ میں لئے اپنے کمرے میں بیٹھا تھا رابیل کو تو بتا آیا تھا کے شام میں فون کریگا مگر ابھی ناجانے کیوں اسکا دل گھبرا رہا تھا۔۔
“رابیل۔۔۔ کال کر کے ہی پوچھ لٹا ہوں مال میں تو ٹھیک تھیں میرا وہم ہوگا۔۔
خود سے ہی کہتا وہ رابیل کا نمبر ملا رہا تھا