وہ فجر کی نماز سے فارغ ہو کر دعا کر رہی تھی جب فرشتے بھی گھٹنوں کے بل چلتی اسکے پاس آئ تھی۔۔ وہ بہت آرام سے اسکے ساتھ ہی جائے نماز پر بیٹھ گئی تھی۔۔
“فرشتے بھی دعا مانگے گی نا۔۔ ماما کے لئے دعا کرو ایسے ہاں “۔۔
اسنے اسے گود میں لیکر اسکے ہاتھ بھی اپنے ہاتھوں کے ساتھ دعا کے انداز میں اٹھائے تھے۔۔
“دیکھو عرش تمہاری فرشتے کتنی بڑی ہو گئی ہے “۔۔
اسنے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
ماضی۔۔
کوئی اتنا پیارا کیسے ہو سکتا ہے،
پھر سارے کا سارا کیسے ہو سکتا ہے،
تجھ سے جب مل کر بھی اداسی کم نہیں ہوتی،
تیرے بغیر گزارا کیسے ہو سکتا ہے،
کیسے کسی کی یاد ہمیں زندہ رکھتی ہے،
ایک خیال سہارا کیسے ہو سکتا ہے،
یار ہوا سے کیسے آگ بھڑک اٹھتی ہے،
لفظ کوئی انگارا کیسے ہو سکتا ہے،
کون زمانے بھر کی ٹھوکریں کھا کر خوش ہے،
درد کسی کو پیارا کیسے ہو سکتا ہے،
ہم بھی کیسے ایک ہی شخص کے ہو کر رہ جائیں
وہ بھی صرف ہمارا کیسے ہو سکتا ہے ،
کیسے ہو سکتا ہے جو کچھ بھی میں چاہوں،
بول نا میرے یارا کیسے ہو سکتا ہے۔۔!!
وہ اپنے کمرے میں بیٹھا کینوس پر رکھی تصویر مکمّل کر رہا تھا برش کانوں کے پیچھے پھنسائے۔۔ ہونٹوں پر بہت خوبصورت مسکان تھی۔۔ فون رنگ ہونے پر وہ اسکی جانب متوّجہ ہوا۔
“جی آنٹی خیریت ؟”
وہ فاطمہ بیگم کا نام دیکھ کر حیران ہوا ۔۔
“جی بیٹا خیریت ہی ہے تم دل تھام لو اپنا”۔۔
انہوں نے مسکراتے لہجے میں کہا۔۔
کہیں رابیل نے منع تو نہیں کر دیاجلابیب نے واقعی دل تھاما۔۔
“محبت میں محبوب کو کھونے کا خوف کیا ہوتا ہے یہ جلابیب زوار آج سمجھا تھا”
اسکا دل سو کی سپیڈ سے دھڑک رہا تھا۔۔
“آج شام کی چائے ہمارے ساتھ پی لو کیا خیال ہے ؟”۔۔
انکی آواز فون سے اُبھری۔۔
“جی جی آنٹی ضرور “۔۔
وہ جیسے ہوش میں آیا تھا۔۔
“اگر رابیل نے منع کر دیا ہوگا تو ۔۔
اس سے آگے سوچنے کی ہمّت نہیں تھی اس میں۔۔
اگلے ہی لمحے اسنے اشر کو کال ملائی تھی جو پہلی ہی بیل پر اٹھالی گئی۔۔
“اشر میرے بھائی تیرے یار کی آج پہلی پیشی ہے تجھے یاد ہے نا مقدمہ لڑنے کا وعدہ کیا ہے تو نے”۔۔
اسنے چھوٹتے ہی کہا تھا۔۔
“ہاہاہا اوہ تو جلابیب ڈر رہا ہے۔۔ خیر آپ کی اوفر پر غور ضرور کرینگے لیکن ایک مزیدار سے لنچ کے بعد جسکا بل تو پے کریگا”۔۔
اشر نے موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا تھا۔۔
“تو رشوت لیگا مجھ سے اشر میں اس ملک کا ایک ذمہ دار شہری ہوں میں تجھے رشوت نہیں دے سکتا”۔۔
جلابیب کو یہ بات بلکل پسند نہیں آئ تھی۔۔
“جسکو تو رشوت کہ رہا ہے میرے یار اسکو انسانوں کی زبان میں ٹریٹ کہتے ہیں جو تجھ جیسے کنجوس سیدھی طرح کبھی نہیں دیتے۔۔ خیر اب تجھے پیسے رابی سے زیادہ عزیز ہیں تو کوئی نہیں تو بچت کر۔۔ میں فون رکھتا ہوں”۔۔
اشر نے تفصیلی جواب کے ساتھ دھمکی بھی دی۔۔
“ارے اتنی جلدی برا مان جاتا ہے یار تو جہاں کہیگا وہیں چلینگے پیسے میرے یار سے بڑھ کر تھوڑی ہیں “۔۔
جلابیب دل میں اسے گالیوں سے نوازتا میٹھے لہجے میں بولا ۔۔
“ہاہاہا میں جانتا ہوں دل میں تو مجھے گالیاں دے رہا ہوگا پر تو ایسے ہاتھ آتا ہی کہاں ہے جلابیب۔۔ چل پھر لنچ میں ملتے ہیں پھر ساتھ ہی گھر چلینگے جگہ میں تجھے ٹیکسٹ کر دونگا۔۔
اسکے انداز پر جلابیب ہنس پڑا تھا۔۔
فون رکھ وہ دوبارہ کینوس پر لگی ادھوری تصویر کو مکمّل کرنے میں لگ گیا تھا۔۔ اسکے ہاتھ بہت خوبصورتی سے تصویر میں رنگ بکھیر رہے تھے۔۔ آنکھوں کے آگے چھم سے رابیل کا سراپا لہرایا تھا۔۔
ہونٹ خود بہ خود مسکرا اٹھے تھے۔۔
تمہارے ہی ہاتھ میں ہے نبضِ سکوں شاید،
قرار دیتے بھی ہو تو جیسے ادھار دیتے ہو۔۔!!
وہ محبت سے پینٹنگ دیکھتا گنگنایا تھا۔۔
________
شام میں وہ اشر اور خالہ بی کے ساتھ فاطمہ بیگم کے سامنے بیٹھا تھا۔۔
“میں نے کس مقصد کے تحت تمہیں بلایا ہے یہ تو تم جانتے ہو گے جلابیب”۔۔
انہوں نے چائے کا کپ اسکی جانب بڑھاتے ہوئے شفقت سے کہا تھا۔۔ وہ انھیں اشر اور عنصر کی ہی طرح عزیز تھا۔۔
“آپ مجھے بتائیں نا آنٹی رابیل نے انکار تو نہیں کیا نا”۔۔
وہ کپ انکے ہاتھ سے لیکر ٹیبل پر ہوئے بےصبری سے پوچھ رہا تھا۔۔
وہ اسکی بےچینی پر مسکرا دی تھیں۔۔
“میری رابی مجھے کسی چیز کے لئے انکار نہیں کر سکتی جلابیب ۔۔ اگر میں تمہاری جگہ کسی اور کا نام بھی اسکے آگے رکھتی اور کہ دیتی یہ مجھے پسند ہے تو بھی وہ انکار نہیں کرتی “۔۔
انکے لہجے میں مان تھا۔۔ فخر تھا۔۔
دروازے کی دوسری جانب کھڑی رابیل وہیں سے لوٹ گئی تھی۔۔ اسکی ماما کو اسپے یقین تھا۔۔ وہ اسے اچھی بیٹی مانتی تھیں اس سے زیادہ خوش وہ اور کس بات پر ہو سکتی تھی۔۔
وہ خاموشی سے لان میں اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ گئی تھی۔۔
‘جلابیب ۔۔ “رابیل جلابیب ” کتنا الگ رہا ہے میرا نام اسے خود بھی نہیں پتہ تھا کے وہ مسکرا رہی ہے۔۔
دور کھڑی دو نظروں نے یہ منظر دلچسپی سے دیکھا تھا۔۔
وہ آہستہ آہستہ چلتا اسکے نزدیک آیا تھا۔۔
“بیٹھ سکتا ہوں ؟”
اسکی بھاری آواز گونجی رابیل اچھل کر کھڑی ہوئی ۔۔
“آپ کی ماما کی اجازت سے آیا ہوں رابیل ڈریں نہیں “۔۔
وہ اس سے تھوڑے فاصلے پر بیٹھا تھا۔۔
“مجھے بس آپ سے کچھ باتیں کرنی ہے ؟”
اسنے اجازت طلب نظروں سے اسے دیکھا پر وہ اسکی جانب دیکھ ہی کہاں رہی تھی۔۔
“میں بڑے بڑے دعوے نہیں کرونگا رابیل کیونکہ میں آپ سے محبت ضرور کرتا ہوں مگر آپ کی محبت میں چاند تارے توڑ کر نہیں لا سکتا۔۔ ہاں مگر ساری زندگی آپ کو عزت اور احترام سے رکھنے کا وعدہ ضرور کرتا ہوں۔۔ میں یہ نہیں کہ رہا مجھے آپ سے کوئی طوفانی والا عشق ہو گیا ہے مگر یہ ضرور کہونگا کے آپ کے بغیر خود کو نامکمّل سا محسوس کر رہا ہوں۔۔ ”
اسنے رابیل کے جھکے سر کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
یہ اسکی رو برو پہلی گفتگو تھی مگر یہ بات وہ اچھی طرح جانتا تھا کے وہ نظریں نہیں اٹھائیگی۔۔ اور اسکی یہی خاصیت تو اسے دوسروں سے منفرد بنا دیتی تھی۔۔
“آپ محبت اور کسے کہتے ہیں جلابیب ۔۔
مجھے آپ سے صرف عزت اور اسکے ساتھ بھروسہ درکار ہے۔میرے نزدیک جو شخص عزت دینا جانتا ہے اس سے زیادہ محبت کوئی دے ہی نہیں سکتا “۔۔
اسنے کچھ توقف کے بعد پر اعتیماد انداز میں کہا تھا۔۔
جلابیب نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثر سے اس لڑکی کو دیکھا جس نے دو جملوں میں ہی اپنے دل کی ساری بات کہ دی تھی۔۔