ماضی۔۔
وہ اپنے کمرے میں بیٹھا کافی دیر سے اسکی تصویر بنا رہا تھا۔۔ کل کا منظر بار بار اسکی آنکھوں کے سامنے آ رہا تھا۔۔
اسنے مسکراتے ہوئے ایک نظر تصویر پر ڈالی کالے حجاب میں جھکی نظروں کے ساتھ اسکی ہنستی ہوئی تصویر۔۔
“آپ کی ہنسی کتنی خوبصورت ہے رابیل”۔۔
وہ کینوس میں رنگ بکھیرتا مسکرایا ۔۔
“میرا دل چاہتا ہے میں آپ کی ہنسی کو بھی سب سے چھپا لوں۔۔ جسے اور کوئی نا دیکھ پائے۔۔ جس پر صرف میرا حق ہو۔۔ پر حق تو میرا بھی نہیں آپ پر”۔۔
وہ ایک بار پھر خود اپنی ہی بات پر مسکرایا تھا۔۔
__________________
آج عرش اور عنصر کا ولیمہ تھا۔۔ وہ شام سے ہی عرش کے ساتھ پالر میں تھی۔۔ ان دونوں کو ڈائریکٹ ہال جانا تھا۔۔
“رابی میں ٹھیک لگ رہی ہوں نا یہ یہ سب کتنا بھاری لگ رہا ہے اور عجیب بھی”۔۔
وہ اپنا حجاب ٹھیک کر رہی تھی جب اس نے عرش کی نروس سی آواز سنی۔۔
“ہائے عرش یہ تم ہو”۔۔
سلور کلر کی میکسی میں ہم رنگ جیولری پہنے۔۔ برائیڈل میک اپ میں وہ نروس سی اسکے سامنے کھڑی تھی۔۔ وہ واقعی کوئی اپسرا لگ رہی تھی۔۔
اسنے محبت سے اسکی پیشانی چومی تھی۔۔
“اچھی نہیں لگ رہی ہوں نا۔۔ مجھے پتہ تھا مجھ پر اچھا نہیں لگےگا میک اپ ۔۔ میں نے انھیں کہا بھی تھا رابی کے اتنا زیادہ نہیں کریں”۔۔
وہ روہانسی ہو رہی تھی۔۔
“تم تم بلکل کوئی فیری لگ رہی ہو عرش ۔۔ تم سچ میں بہت حسین لگ رہی ہو”۔۔
اسنے عرش کو گول گول گھماتے ہوئے پرجوش انداز میں کہا ۔۔
_______________
۔ادائیں حشر جگائیں، وہ اتنا دلکش ہے
خیال حرف نہ پائیں، وہ اتنا دلکش ہے
بنا کے خوش ہوا اتنا کہ آپ لیتا ہے
خدا خود اپنی بلائیں، وہ اتنا دلکش ہے
قدم ارم میں دھرے، خوش قدم تو حور و غلام
چراغ گھی کے جلائیں، وہ اتنا دلکش ہے
کڑکتی بجلیاں جب جسم بن کے رقص کریں
تو مور سر کو ہلائیں، وہ اتنا دلکش ہے
حسین پریاں چلیں ساتھ کر کے “سترہ” سنگھار
اسے نظر سے بچائیں، وہ اتنا دلکش ہے
وہ پنکھڑی پہ اگر چلتے چلتے تھک جائے
تو پریاں پیر دبائیں، وہ اتنا دلکش ہے
اداس غنچوں نے جاں کی امان پا کے کہا
یہ لب سے تتلی اڑائیں، وہ اتنا دلکش ہے
وہ آبشار میں بندِ قبا کو کھولے اگر
تو جھرنے پیاس بجھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
نہا کے جھیل سے نکلے تو رند پانی میں
مہک شراب سی پائیں، وہ اتنا دلکش ہے
کنواری دیویاں شمعیں جلا کے ہاتھوں پر
حیا کا رقص دکھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
جنہوں نے سایہ بھی دیکھا وہ حور کا گھونگھٹ
محال ہے کہ اٹھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
چمن کو جائے تو دس لاکھ نرگسی غنچے
زمیں پہ پلکیں بچھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
جو دیکھ لیں اسے تو مصر بھر کے شاہی غلام
چھری پہ ہاتھ چلائیں، وہ اتنا دلکش ہے
خطیب دیکھیں گزرتا تو تھک کے لوگ کہیں
حضور خطبہ سنائیں، وہ اتنا دلکش ہے
حلال ہوتی ہے “پہلی نظر” تو حشر تلک
حرام ہو جو ہٹائیں، وہ اتنا دلکش ہے
شریر مچھلیاں کافر کی نقل میں دن بھر
مچل مچل کے نہائیں، وہ اتنا دلکش ہے
غزال نقشِ قدم چوم چوم کر پوچھیں
کہاں سے سیکھی ادائیں، وہ اتنا دلکش ہے
حسین تتلیاں پھولوں کو طعنے دینے لگیں
کہا تھا ایسی قبائیں، وہ اتنا دلکش ہے
اگر لفافے پہ لکھ دیں، “ملے یہ ملکہ کو”
تو خط اسی کو تھمائیں، وہ اتنا دلکش ہے
عقیق، لولو و مرجان، ہیرے، لعلِ یمن
اسی میں سب نظر آئیں، وہ اتنا دلکش ہے
گلاب، چمپا کلی، یاسمین، گیندا، کنول
اسے ادا سے لبھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
ستارے توڑ کے لانے کی کیا ضرورت ہے
ستارے دوڑ کے آئیں، وہ اتنا دلکش ہے
جفا پہ اس کی فدا کر دوں سوچے سمجھے بغیر
ہزاروں، لاکھوں وفائیں، وہ اتنا دلکش ہے
چمن میں اس نے جہاں دونوں بازو کھولے تھے
وہاں کلیسا بنائیں، وہ اتنا دلکش ہے
ہم اس کے چہرے سے نظریں ہٹا نہیں سکتے
گلے سے کیسے لگائیں، وہ اتنا دلکش ہے
نجومی دیر تلک بے بسی سے دیکھیں ہاتھ
پھر اس کو ہاتھ دکھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
بدل کے ننھے فرشتے کا بھیس جن بولا
مجھے بھی گود اٹھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
ہمیں تو اس کی جھلک مست مور کرتی ہے
شراب اسی کو پلائیں، وہ اتنا دلکش ہے
بہانے جھاڑو کے پلکوں سے چار سو پریاں
قدم کی خاک چرائیں، وہ اتنا دلکش ہے
وہ چومے خشک لبوں سے جو شبنمِ گل کو
تو پھول پیاس بجھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
کبھی کبھی ہمیں لگتا ہے بھیگے لب اس کے
ہوا میں شہد ملائیں، وہ اتنا دلکش ہے
مکین چاند کے بیعت کو جب بلاتے ہیں
دھنک کی پالکی لائیں، وہ اتنا دلکش ہے
وہ جتنا جسم تھا، اتنا غزل میں ڈھال لیا
طلسم کیسے دکھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
غلام بھیجتا، سر آنکھوں پر بٹھا لیتے
اسے کہاں پہ بٹھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
تمام آئینے حیرت میں غرق سوچتے ہیں
اسے یہ کیسے بتائیں، وہ اتنا دلکش ہے
زبان وصف سے عاجز، حروف مفلس تر
قلم گھسیٹ نہ پائیں، وہ اتنا دلکش ہے
طلسمِ حسن ہے موجود لفظوں سے افضل
لغت جدید بنائیں، وہ اتنا دلکش ہے
صنم کی تجھ کو قسم قیس روک دے یہ غزل
رفیق مر ہی نہ جائیں، وہ اتنا دلکش ہے….”
وہ جو جلابیب کی کسی بات پر مسکرا رہا تھا۔۔ نظریں اینٹرنس سے داخل ہوتی عرش پر پڑی تھیں اور پھر پلٹنا بھول گئیں تھیں۔۔
وہ اتنی حسین تھی۔۔
وہ اشر اور رابیل کے ساتھ اسی کی طرف آ رہی تھی۔۔ دونوں ہاتھوں سے میکسی کو قدرے اوپر تک اٹھائے وہ بہت کیوٹ لگ رہی تھی ۔۔ اسکی شکل سے ہی لگ رہا تھا کے وہ رونے کے لئے تیار ہے۔۔
عنصر مسکراتے ہوئے جلابیب سے ایکسکیوز کرتا اسٹیج کی جانب بڑھا ۔۔
وہ جو رابی سے بات کرتی اپنے دھن میں آ رہی تھی اسٹیج پر عنصر کو پہلے سے موجود دیکھ کر شکائیتی نظروں سے رابیل کی جانب دیکھ رہی تھی۔۔
“عرش مجھے اس طرح نہیں دیکھو اچھا اب تم اپنے ولیمے کے دن یہ فرمائش کروگی کے دولہا ہی موجود نا ہو تو یہ کیسے ممکن ہے میری جان”۔۔۔
رابیل نے اسے اسٹیج پر بیٹھاتے ہوئے غصے سے کہا۔۔۔
“کیا۔۔
عنصر تو اچھل ہی پڑا ۔۔۔
“ہاہاہاہا حیران نہیں ہو میرے بھائی میں بتاتا ہوں۔۔۔
اشر کے کہنے پر عرش نے نفی میں گردن ہلائی مگر وہ تو شروع ہی ہو چکا تھا۔۔
” آپ کی مسز کہ رہی تھیں کے وہ اس طرح سب کے سامنے کنفیوز ہوتی ہیں اور آپ انھیں گھورتے رہتے ہیں ۔۔ اس لئے ہم آج آپ کو آنے نہیں دیں۔۔ تاکہ ہماری گڑیا ٹھیک طرح سے اپنا ولیمہ انجوئے کر سکے”۔۔
اشر نے شرارت سے کہا۔۔
عنصر نے خونخوار نظروں سے عرش کی جانب دیکھا جو اب انگلیاں مروڑتی ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔۔ جیسے اس سب سے اسکا کوئی تعلق نا ہو۔۔
“ماشاءالله کتنی پیاری لگ رہی ہے میری بچی”۔۔ فاطمہ بیگم نے اسٹیج پر آتے ہی اسکی بلائیں لی۔۔
“ادھر بھی دیکھ لیں ماما آپ کا بیٹا بھی اچھا لگ رہا ہے”۔۔
عنصر نے تپ کر کہا۔۔
“ہاں بھئ میرا بیٹا بھی شہزادہ لگ رہا ہے “۔۔
انہوں نے اسے پچکار تھا۔۔
“آپ کے شہزادوں جیسے بیٹے کا آج یہاں داخلہ ممنوع تھا “۔
اشر نے ہنستے ہوئے کہا۔۔
“کیا مطلب ؟”۔۔
۔انکے پوچھنے پر رابیل نے ہنستے ہوئے ساری بات انھیں بتائی۔۔
جلابیب نے دلچسپی سے اسے دیکھا پستئ اور مہرون کلر کی پشواز پہنے ساتھ ہی مہرون کلر کا حجاب خوبصورتی سے چہرے کے گرد لپیٹے ہلکے سے میک اپ میں وہ واقعی بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔
“ویسے عنصر بھیا ایک بات ماننے والی ہے آپ دونوں ساتھ میں بہت پیارے لگ رہے ہیں”۔۔
رابیل نے پیار سے عرش کو دیکھتے ہوئے کہا تھا جو عجیب و غریب منہ بنا رہی تھی۔۔
“یہ آپ کے چہرے کا جغرافیہ کیوں بدل رہا ہے مسز “۔۔
عنصر نے مسکراہٹ دباتے ہوئے پوچھا۔۔
“رابی نے میری تعریف نہیں کی “۔۔
اسنے منہ بناتے ہوئے جواب دیا۔۔
“اس نے ہماری تعریف کی ہے مسز “۔۔
عنصر نے اسے سمجھا نے کے انداز میں کہا تھا۔۔
چھوٹی موٹی نوک جھونک میں انکی زندگی کی ایک حسین شام اپنے اختتام کو پہنچی تھی۔۔ وہ اسکی زندگی میں ایک حسین اضافہ تھی۔۔ اسنے پیار بھری ایک نظر عرش پر ڈالی۔۔
وہ سب سے فارغ ہو کر رابیل کو اسکی ڈیمانڈ کے مطابق پیسے دینے کے بعد بڑی مشکل سے کمرے میں آیا تو اس پر تو حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے دلہن صاحبہ آرام سے بیڈ پر آڑھی ترچھی لیٹی بےخبر سو رہی تھی اسکا ایک ہاتھ بیڈ سے نیچے لٹک رہا تھا۔۔ دوپٹہ آدھا بیڈ پر آدھا کارپیٹ پر پڑا تھا۔۔
“یا اللہ مجھ معصوم پر رحم کرنا “۔۔
وہ سر پر ہاتھ پھیرتا بولتا ہوا خود بھی چینج کرنے گیا تھا۔۔
چینج کر کے عرش کا ہاتھ آرام سے بیڈ پر رکھ کر وہ خود بھی صوفے پر آرام سے سو گیا تھا۔۔۔۔
____________
صبح چہرے پر روشنی پڑنے پر اسکی آنکھیں کھلی اسنے مسکراتے ہوئے نظریں عرش کی جانب کی تھی اگلے ہی پل اسکے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئ تھی۔۔
عرش بہت آرام سے بیڈ پر بیٹھی دانت برش کر رہی تھی۔۔
“عرش یہ یہ کیا کر رہی ہیں آپ ۔۔ یہ اس طرح بیڈ پر بیٹھ کے برش کون کرتا ہے”۔۔
اسنے حیرت سے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا تھا جس نے شادی کے دوسرے ہی دن اسے تارے دکھا دئے تھے۔۔ اسکی صفائی پسند طبیعت کو یہ حرکت بلکل پسند نہیں آئ تھی۔۔
“مم میں نے کیا کیا ہے عنصر بھ۔۔”
خبر دار جو بھیا کہا مجھے سر پھاڑ دونگا۔۔ اسنے غصے سے کہا۔۔
“میں نے کچھ نہیں کیا عنصر “۔۔ اسکی آواز میں نمی گھلی تھی۔۔
“آپ نے ابھی تک کپڑے بھی چینج نہیں کئے عرش “۔۔
اسے کل والی میکسی میں دیکھ کر اسنے نرمی سے کہا تھا۔۔
“بھوک لگ رہی تھی اس لئے۔۔”
اسنے سوں سوں کرتے ہوئے جواب دیا تھا۔۔
“اور بیڈ پر بیٹھ کے برش کیوں کر رہی تھیں “۔۔
اسنے آرام سے پوچھا تھا۔۔
“ماما نے کہا شادی کے بعد جو چاہوں کر سکتی ہوں”۔۔
اسنے ہاتھ میں برش پکڑ کر مزے سے کہا تھا۔۔
“تو آپ بیڈ پر آرام سے بیٹھ کر برش کرنا چاہتی ہیں”۔۔
عنصر نے کچھ سمجھنے والے انداز میں پوچھا۔۔
عرش کے اثبات میں سر ہلانے پر اسنے بھی سر ہلایا تھا جیسے آںنے والے وقتوں میں اپنی حالت ایمیجن(imagine) کر رہا ہو۔۔
“اللہ ھدایت دے “۔۔ وہ بڑبڑایا تھا۔۔
“اچھا چلیں اب فریش ہو جائیں پھر نیچے چلینگے۔۔
عرش کو اپنی متوجہ دیکھ کر اسنے کہا تھا۔۔
جواباً وہ اثبات میں سر ہلاتی بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔۔