ماضی
صبح سے فاطمہ بیگم کے ساتھ سارے کام نبٹا کر وہ اب کمرے میں آئی تھی۔۔
جہاں عرش بیڈ پر بیٹھی رونے کا شغل فرما رہی تھی۔۔
“او ہو عرش اب بس بھی کرو کس بات پر اتنی بری طرح رو رہی ہو۔۔” اور عرش کے قریب ہی گرنے کے سے انداز میں لیٹی تھی۔۔
“وہ عنصر عنصر بھیا وہ واپس آگئے رابی”۔۔ اسنے زور شور سے روتے رابیل کی معلومات میں اضافہ کیا۔۔
“تو میری جان اسمے اتنا رونے والی کیا بات ہے انکا گھر ہے یہ کبھی نا کبھی تو انھیں واپس آنا ہی تھا نا”۔۔رابیل نے اپنی طرف سے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی۔۔
“پر رابی وہ تو بہت کھروس ہیں۔۔ تمہیں پتہ ہے نا کتنے زور زور سے بولتے ہیں۔۔
وہ شاید عنصر کی رعب دار آواز سے ڈری ہوئی تھی۔۔
“کچھ نہیں ہوتا عرش تم کوئی ڈانٹ سننے والی حرکت نہیں کرنا بس”۔۔چلو اب فریش ہو جاؤ جلدی سے جب تک میں تھوڑی کمر سیدھی کر لوں یار بہت تھک گئی ہوں۔۔” رابیل نے اسے باتھ روم کی طرف ڈھکیلتے ہوئے کہا ۔
________________________________
وہ اس وقت نیچے سب کے ساتھ بیٹھا تھا۔۔ نظریں بار بار کسی کو تلاش کر رہی تھیں۔۔ وہ جب سے آیا تھا سب اسکے پاس ہی بیٹھے تھے اشر نے بھی آج ہسپتال سے آف لیا ہوا تھا۔۔ رابیل بھی اس سے مل ہی چکی تھی ۔۔ مگر نظریں جسکی تلاش میں تھی وہ ایک بار بھی نہیں آئ تھی۔۔
“کیا سوچ رہا ہے عنصر؟ وہ نہیں آئے گی تیرے سامنے تیرا نام سنتے ہی تو اسکی آنکھیں جھیل بن جاتی ہیں۔۔” اشر کا فلک شگاف قہقہا گونجا تھا۔۔
عنصر نے بھی ہنستے ہوے اسکے کندھے پر زور دار دھموکا جڑا تھا۔۔
“یار سچ کہ رہا ہوں۔۔”اشر نے اپنا کندھا سہلاتے ہوے جواب دیا۔۔
“اشر خبر دار جو میری بچی کے خلاف ایک لفظ بھی زبان سے نکالا تو۔۔ تمہارا بھائی بھی تو کم نہیں ہے ہر وقت تو ڈانٹا ہی رہتا تھا میری بچی کو۔۔ ڈریگی نہیں تو اور کیا کریگی”۔۔ فاطمہ بیگم نے اشر کو گھوری سے نوازا۔۔
“دیکھ لے بھائی اس گھر میں سب تیری بیوی کے ایک آنسوں پر اسکے آگے پیچھے ہو جاتے ہیں خیر منا لے میرے بھائی”۔۔ وہ بھی اشر تھا۔۔
فاطمہ بیگم نفی میں گردن ہلاتی باہر نکلی تھیں۔۔
اسی لمحے رابیل کے ساتھ اسکے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتی عرش اندر داخل ہوئ تھی عنصر کی نظریں بےاختیار اوپر اٹھی تھیں اور پھر جھکنا بھول گئی تھیں۔ وہ ڈری سہمی سی رابیل کے ساتھ کھڑی تھی۔۔
“السلام عليكم!! عنصر نے خود ہی سلام میں پہل کی۔
وہ جو نظریں نیچے جھکائے کارپیٹ کا ڈیزائن حفظ کرنے کا تہیہ کئے ہوئی تھی رابیل کے کہنی مارنے پر چونکی تھی۔۔
“جج جی عنصر بھیا”۔۔ اسنے بوکھلائ آواز میں کہا تھا۔۔
“بھیا!! ہاہاہا جہاں پانی پیتے اشر کو اچھو لگا تھا وہیں رابیل نے اپنی مسکراہٹ دبائ تھی۔
عنصر تو اچھل ہی پڑا تھا مطلب واقعی۔۔
عرش کو رونے کے لئے تیار دیکھ کر اشر نے اپنی ہنسی کو بریک لگائی۔۔
“بیٹھ جائیں عرش”۔۔ اسنے سنجیدگی سے کہا۔
وہ ڈری سہمی سی سامنے بیٹھ گئی تھی ۔۔
عنصر نے مسکراہٹ دبا کر اسے دیکھا وہ اب بھی ویسے ہی تھی جیسی وہ چھ سال پہلے اسے چھوڑ کر گیا تھا۔۔ اتنی ہی معصوم ۔۔
رابیل نے وہاں سے گھسکنے میں ہی عافیت جانی تھی۔۔
عرش جو پہلے ہی ڈری ہوئی تھی رابیل کے باہر جانے پر تو اسکی سانس ہی رکنے لگی تھی۔۔
“جانے دے بھائی ورنہ تھوڑی ہی دیر میں یہاں سیلاب آجاۓ گا “_اشر نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا تو اسنے عرش کو دیکھا جو بامشکل وہاں بیٹھی اپنے ہونٹ کاٹ رہی تھی۔۔
“جائیں عرش”۔۔ اسنے اپنے مخصوص لہجے میں کہا۔ وہ تو شاید اسی انتظار میں تھی فوراً دوڑ لگائی تھی ۔۔
پیچھے اشر اور عنصر کا مشترکہ قہقہا گونجا تھا۔۔۔
ماضی۔۔
“میں کچھ ہیلپ کرواؤں رابی”۔۔ وہ جو جلدی جلدی ناشتہ تیار کرنے میں لگی ہوئی تھی عرش کی آواز سن کر چونکی۔۔
“ہاں عرش آجاؤ یہ آملیٹ بنا لو تم”۔۔ رابیل نے مصروف انداز میں کہا۔۔
“میں میں آملیٹ کیسے بناؤنگی رابی “۔۔ اسنے معصومیت سے کہا تو رابیل نے اسے گھور کر دیکھا۔۔
“پھر کیا ہیلپ کرواؤگی میری جان”۔۔
“میں تمہیں کمپنی دونگی”۔۔ عرش نے مزے سے کچن کے کاؤنٹر پر بیٹھتے ہوئے جواب دیا۔
جہاں رابیل نے بےیقینی سے عرش کو دیکھا وہیں کچن میں آتے عنصر نے بہت مشکل سے اپنا قہقہا روکا۔۔
وہ جو پانی لینے کی غرض سے کچن میں آیا تھا عرش کی باتیں سن کر وہیں کھڑا ہو گیا تھا۔ رابیل اور عرش کی پشت اسکی طرف ہونے کی وجہ سے وہ دونوں اسے دیکھ نہیں سکیں۔
” ایکچولی اکیلے کام کرنے سے انسان بہت بور ہوتا ہے۔۔تو میں تمسے باتیں کرونگی تو کام جلدی جلدی ہو جائیگا”۔۔ عرش نے مزے سے سے سیب کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔۔
“عرش سیریسلی”۔۔ اسکی بات سن کر رابیل تو رونے والی ہی ہو گئی۔
“رابی مجھے ناول کمپلیٹ کرنا ہے نا۔۔ تمہیں پتہ ہے اس میں نا ہیروئن بار بار گرتی ہے اور اور ہیرو اسے بار بار بچا لیتا ہے۔۔ رئیل لائف میں تو ایسا ہوتا ہی نہیں ہے ہاں نا”۔۔ عرش نے رابیل کا غصہ کم کرنا چاہا۔۔
“تو تم چاہتی ہو عنصر بھیا تمہیں گرنے سے بچائیں ہممم”۔۔ رابیل نے شرارت سے کہا۔
” نہیں نا رابی عنصر بھیا وہ تو اتنے کھڑوس ہیں۔ میں انسے ٹکرائ تو وہ تو مجھے اٹھا کر ہی پٹخ دینگے”۔۔
اسکی بات کر عنصر کا دل کیا اس بیوقوف لڑکی کو دو تھپڑ لگا کر اسے بتاۓ کے وہ اسکا شوہر ہے بھائی نہیں۔۔
“عرش اب اگر تم نے بھیا کہا نا تو میں نے تمہیں تھپڑ لگا دینا ہے”۔۔ رابیل نے غصے میں کہا عنصر کا کام رابیل نے کر دیا تھا۔
“اور یہ باتیں ہم بعد میں کرینگے ابھی جاؤ ٹیبل لگاؤ سب اٹھ گئے ہونگے”۔۔رابیل نے مصروف انداز میں کہا۔۔
“نہیں مجھے ابھی ہی بات کرنی ہے پھر تم سارا دن اپنے عنصر بھیا کی خدمتیں کرتی رہوگی میری تو بات بھی نہیں سنتی کل بھی مجھے اکیلے چھوڑ کر آ گئی تھی تم”۔۔ عرش نے نروٹھے پن سے کہا ساتھ ہی کل کا شکوہ بھی کیا۔۔
اس وقت وہ رابیل کو بلکل کوئی بچی لگی تھی۔۔
“اچھا تو میری عرش عنصر بھیا سے ڈر رہی تھی”۔۔ اسنے مسکراتے ہوئے پیار سے اسکے گال کھینچے مگر اگلے ہی لمحے رابیل کی مسکراہٹ تھمی اسنے حیرت سے عنصر کو دیکھا جو دونوں بازو سینے پر لپیٹے پیلر سے ٹیک لگاے آرام سے عرش کی باتیں سن رہا تھا۔۔
“میں نہیں ڈرتی تمہارے عنصر بھیا سے مجھے پتہ ہے وہ مجھے کچھ نہیں کر سکتے ۔۔۔ عرش اپنی آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے مزے سے کہ رہی تھی۔۔
رابیل کا دل کیا اپنا سر پیٹ لے ۔۔
“اچھا ٹھیک ہے نا عرش مجھے پتہ ہے تم نہیں ڈرتی”۔۔ رابیل نے اسے مزید کچھ کہنے سے بعض رکھنا چاہا۔۔
“نہیں تم کیسے جانتی ہو میں تو آج ہی تمہیں بتا رہی ہوں۔ اور پتہ ہے وہ غصے میں دیکھتے ڈریکولا کی طرح ہیں پر اسکا یہ مطلب تھوڑی نا ہے کے سچ میں کھا جائینگے مجھے ٹھیک کہ رہی ہوں نا رابی “۔۔اسنے رابیل کی تائید ضروری سمجھی۔۔
رابیل نے بےبسی سے عنصر کی طرف دیکھا جو اسے اشارے سے خاموش رہنے کہ رہا تھا۔۔ پھر پٹر پٹر کرتی عرش کو دیکھا۔۔ اس سے پہلے کے عرش مزید کوئی گل افشانی کرتی اسنے سرعت سے عرش کا رخ عنصر کی جانب موڑ دیا۔۔
“میں تو انکے سامنے بھی کہ دونگی کے مجھے ڈر ور۔۔۔
تیزی سے بولتی عرش کو جیسے بریک لگا تھا۔۔ اسنے بےیقینی سے اپنے سامنے کھڑے عنصر کو دیکھا۔۔ جو خونخوار نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔
“نہیں عرش یہ وہم ہے “۔۔ وہ خود کو تسلی دیتی دونوں ہاتھوں سے اپنی آنکھیں مل رہی تھی۔۔
عرش نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولی پر عنصر اب بھی مسکراہٹ دبائے اطمینان سے وہیں کھڑا تھا۔۔
“رابی کیا تمہیں بھی وہی نظر آ تھا ہے جو میں دیکھ رہی ہوں”۔۔ وہ پھنسی پھنسی آواز میں رابیل سے پوچھ رہی تھی اسے پکّا یقین تھا کے رابیل کا جواب نہیں ہوگا۔۔
“ہاں میری جان میں بھی دیکھ رہی ہوں اور یہی سچ ہے”۔۔ رابیل نے اسکی آخری امید پر بھی بہت آسانی سے پانی پھیرا ۔
“رابی میری بہن پلیز مجھے ان سے بچا لو”۔۔
اسنے رابیل سے کہا جو عنصر نے باخوبی سن لیا تھا۔۔
“رابی تمہیں ماما نے بلایا ہے “۔۔ اسنے رابیل سے کہتے ہوئے آرام سے عرش کے ہاتھ سے سیب کا باول لیا۔۔
“مم مجھے بھی بلا رہیں ہیں مم میں چلی جاتی ہوں نا رابی تو تم ٹیبل سیٹ کرو” عرش رابیل سے کہتی تیزی سے کچن سے باہر نکلی۔۔
“میں کھا تو نہیں جاؤنگا آپ کو عرش”۔۔ پیچھے عنصر نے اسی کی بات دوہرائ۔۔
رابیل کا تو ہنس ہنس کر برا حشر ہو رہا تھا۔۔
“اففف یہ شخص کسی دن ڈرا کر میری جان ہی نکال لیگا”۔۔اور اس رابی کی بچی سے تو میں بعد میں پوچھونگی ۔۔ وہ بڑبڑاتے ہوے اپنے کمرے کی طرف گئی ۔۔
____________________________
“عرش یہاں آؤ میری جان ناشتہ کرواؤں تمہیں “۔۔ فاطمہ بیگم نے عرش سے کہا جو لب کاٹتی شاید رابیل کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔۔
“آجاؤ عنصر بھیا سچ میں تمہیں نہیں کھائینگے “۔۔ رابیل شرارت سے اسے کہتی فاطمہ بیگم کی دوسری جانب بیٹھی تھی۔۔
“ہاں دیکھنے میں بھلے ڈریکولا جیسا ہوں پر میں جوس پینا پسند کرتا ہیں خون نہیں آجائیں عرش۔۔” عنصر نے ہنستے ہوے رابیل کا ساتھ دیا۔۔
“نا کر بھائی خون تو اسکا ویسے بھی تجھے دیکھ کر ہی خشک ہو جاتا ہے”۔۔ اشر نے بھی ٹکڑا ملایا تھا۔۔
“بس کرو تم لوگ سب مل کر میری بچی کو تنگ کر رہے ہو “۔۔ انہوں نے سب کو ڈپٹتے عرش کو ساتھ لگایا تھا وہ جو اتنے دیر بامشکل اپنے آنسوں ضبط کر رہی تھی زور شور سے رونے لگی تھی۔۔
“نا میرا بچہ اب ان تینوں میں سے کسی نے تنگ کیا تو مجھے بتانا تم میں خبر لونگی انکی “۔۔ انہوں نے اسے بہلاتے ہوئے کہا وہ واقعی بہل بھی گئی تھی۔۔
“یہ اب بھی خود سے نہیں کھاتی ہیں ماما؟”۔۔
عنصر نے انھیں ایک نوالہ رابیل اور ایک نوالہ عرش کے منہ میں ڈالتے دیکھ کر حیرت سے پوچھا تھا۔۔
“نہیں بھائی صرف قد بڑھا ہے لاڈ اب بھی ویسے ہی ہیں دونوں کے اب تو آ گیا ہے نا تو دیکھنا میں معصوم کیسے اگنور ہوتا ہوں ان دونوں کے بیچ میں ۔۔ اشر نے منہ بناتے ہوے کہا۔۔ اسکے انداز پر سب کو ہی ہنس پڑے۔۔
“یہ لو معصوم تم بھی کھا لو مگر خبر دار جو میری بچیوں کو کچھ کہا تو “۔۔ انہوں نے نوالہ اشر کے منہ میں ڈالتے مصنوئی خفگی سے کہا۔
“ماما اب تو عنصر آگیا ہے آپ عنصر سے پوچھ کر کوئی تاریخ کنفرم کر لیجیےگا عنصر اور عرش کے ریسیپشن کی”۔۔ اشر نے سنجیدگی سے موضوع بدلہ۔۔
ریسیپشن۔۔ پانی پیتی عرش کو اچھو لگا تھا “۔۔ اگلے ہی لمحے وہ اپنے آنسوں پوچھتی اپنے کمرے کی جانب دوڑی تھی۔۔
پیچھے سب آوازیں دیتے رہ گئے۔۔
“میں دیکھتی ہوں “۔۔ رابیل فاطمہ بیگم سے کہتی کمرے کی جانب گئی۔۔
اسکی توقع کے عین مطابق وہ بیڈ پر بیٹھی رو رہی تھی۔۔
“عرش ادھر دیکھو میری طرف۔۔ اس میں اتنا رونے والی کیا بات ہے”۔۔ اسنے نرمی سے اسکا رخ اپنی جانب کیا تھا۔۔
“مم مجھے نہیں کرنی ہے عنصر بھیا سے شادی تم بتا دو نا سب کو”۔۔ وہ بری طرح روتی ہچکیوں کے درمیان کہ رہی تھی۔۔”
“شادی تھوڑی ہے یہ پاگل شادی تو ہو چکی ہے تمہاری بچی نہیں ہو تم جو نکاح کا مطلب نہیں سمجھ میں آئے تمہیں سمجھی ۔۔ اب تو ماما بس ریسیپشن رکھنا چاہ رہی ہیں”۔۔ رابیل نے اسے سمجھاتے ہوے اسکے آنسوں صاف کئے ۔۔
آج ہوا کچھ سرد سی تھی۔ وہ کافی دیر سے اپنے کمرے سے منسلک بالکنی میں کھڑا تھا۔ سرد ہوا اسکے چہرے سے ٹکرا رہی تھی۔۔ ۔نظریں نیچے گارڈن میں فرشتے کے ساتھ بیٹھی رابیل پر مرکوز تھیں۔۔ وہ فرشتے کو آہستے سے ہوا میں اچھالتی۔۔ کبھی اسکے گالوں کو چومتی مسلسل اسکے ساتھ کھیل رہی تھی جواباً فرشتے کھلکھلا کر رہی تھی۔۔ بےساختہ اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئ۔۔ عرش کو گزرے چھ مہینے ہو گئے تھے اور ان چھ مہینوں میں وہ آج یوں مسکرایا تھا۔۔ اپنی فرشتے کو کھلکھلاتا دیکھ کر۔۔ اپنی اور عرش کی جان کو۔۔ اسکی آنکھوں میں کرب واضح تھا۔۔ ہونٹ مسکرا رہے تھے۔۔
“آنی کی جان کو مزہ آ رہا ہے نا اور کروں ہممم”۔۔۔ اسنے رابیل کی آواز سنی وہ فرشتے کے سر سے اپنا سر ٹکراتے ہنستے ہوئے کہ رہی تھی۔۔۔
“آنی کی جان۔۔ وہ زیرِ لب بڑبڑایا۔۔ اسکی رگیں تنی ۔
اگلے ہی لمحے وہ رابیل کے سر پر کھڑا تھا۔۔
“یہاں کیا کر رہی ہو تم اس وقت۔۔ ہوا اتنی تیز ہے فرشتے کو ٹھنڈ لگ جاۓ گی”۔۔ کہنے کے ساتھ ہی اسنے رابیل کی گود سے فرشتے کو جھپٹنے کے سے انداز میں لیا۔ جو اس طرح گود میں لینے سے بری طرح رونے لگی تھی۔
“عنصر بھیا میں اندر لے جاتی ہوں اسے آپ کے گود میں رو رہی ہے” وہ فرشتے کے رونے پر فکر مندی سے کہتی فرشتے کو لینے آگے بڑھی۔۔
اگلے ہی لمحے اسکی حیرت کی انتہا نہیں تھی۔۔
عنصر نے فرشتے کو اسکی پہنچ سے دور کیا تھا۔
وہ حیران نظروں سے عنصر کی جانب دیکھ رہی تھی جو اب سرخ آنکھیں لئے اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔
فرشتے کے رونے کی پروا کئے بغیر وہ اسے اپنے کمرے میں لے آیا تھا۔۔
“فرشتے میری جان ہے میری عرش کی جان۔۔ میری اور عرش کی بیٹی ہے” وہ فرشتے کے چہرے کو چومتے ہوئے کہ رہا تھا۔۔ وہ اس طرح پیار کئے جانے کی عادی نہیں تھی۔۔ وہ مسلسل روئے جا رہی تھی رو رو کر اسکی آواز بیٹھ رہی تھی۔۔
“فرشتے چپ ہو جائیں نا بیٹا پاپا کی گود اچھی نہیں لگ رہی آپ کو ” وہ اسے بہلانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا مگر وہ اب مزید تیز آواز سے رو رہی تھی۔۔
“عنصر بھیا پلیز اسے مجھے دیں میں چپ کروا دونگی اسے اس طرح تو اسکی طبیعت خراب ہو جائے گی”۔۔ باہر سے رابیل کی آواز آئ تو اسنے وہ فرشتے کو لئے دروازے کی سمت بڑھا۔۔
وہ اسکے کمرے کے باہر ہی کھڑی تھی۔۔ رابیل کو دیکھتے ہی فرشتے اور زور سے روتے ہوئے اسکی جانب ہمک رہی تھی۔۔
رابیل نے فوراً اسے عنصر کی گود سے لے لیا۔۔ وہ اسکے گود میں جاتے ہی چپ ہو گئی تھی۔۔
“ششش بس ایسے تھوڑی روتے ہیں میری جان۔۔ وہ اسے پیار کرتی اسکے آنسوں پوچھ رہی تھی”۔۔ وہ اسکی گود میں اب بھی ہچکییاں لے رہی تھی۔۔
“میں فرشتے کو لے جاؤں اپنے کمرے میں عنصر بھیا؟ یہ سوئے گی”۔۔
اسنے ڈرتے ڈرتے پوچھا آج پہلی بار اسے عنصر سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔۔
“ہاں ہاں لے جاؤ تم “۔۔ عنصر نے غائب دماغی سے کہتے کمرے کا دروازہ بند کیا تھا۔۔
وہ یوں منہ پر دروازہ بند کئے جانے پر ششدہ رہ گئی تھی۔۔
ﭼﻠﻮ ﺍﺩﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺭ ﺟﺎﺋﯿﮟ
ﺑﮑﮭﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﻮﺋﯽ
ﺳﻮﺍﻝ ﮐﻮﺋﯽ، ﻣﻼﻝ ﮐﻮﺋﯽ
ﮐﮩﺎﮞ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ؟ ﻣﺠﺎﻝ ﮐﻮﺋﯽ!
ﮐﮧ ﺍٓﻧﮑﮫ ﺟﮭﭙﮑﮯ
ﺗﺮﮮ ﺗﺼﻮﺭ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺟﺎﺋﮯ
ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﺿﺪ ﮐﮧ ﺿﺮﻭﺭ ﺟﺎﺋﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻏﻢ ﻣﯿﮞﺴﺴﮏ ﺳﺴﮏ ﮐﺮ
ﺍﮐﮭﮍ ﭼﮑﯽ ﮨﮯﻃﻨﺎﺏ ﻏﻢ ﮐﯽ
ﻣﮕﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻣﺠﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺭﻭﮎ ﭘﺎﺋﮯ!
ﯾﮧ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﮨﺎﺋﮯ ﺭﻭﺯ ﻭ ﺷﺐ
ﺍﻭﺭ ﺍﺩﺍﺱ ﺭﺳﺘﮧ!
ﺍﺩﺍﺳﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺷﺠﺮ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮑﮭﻮ
ﮐﮧ ﮔﺎﮨﮯ ﮔﺎﮨﮯ ﺍُﮔﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻮ ﺍٓﻭٔ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﮕﺎﮦِ ﭘﺮﻧﻢ
ﺳﮯ ﺍٓﺏ ﺩﮮ ﮐﺮ
ﻧﻤﻮ ﺑﮍﮬﺎﺋﯿﮟ ﺍﺩﺍﺳﯿﻮﮞ ﮐﯽ!
ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﯿﮟ، ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﺭﻭﭨﮭﯿﮟ
ﮐﺴﮯ ﻣﻨﺎﺋﯿﮟ؟
ﮐﺴﮯ ﻣﻨﺎ ﮐﺮ ﮔﻠﮯ ﻟﮕﺎﺋﯿﮟ؟
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﻠﻮ ﻧﺎ ﮐﮧ ﻣﺴﮑﺮﺍﺋﯿﮟ!
ﺟﻮ ﺍٓﮔﺌﮯ ﮨﻮ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﭨﮭﮩﺮﻧﺎ
ﭼﻠﻮ ﺍﺩﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺭ ﺟﺎﺋﯿﮟ …..!
وہ فرشتے کو سلا کر اسکے ساتھ ہی لیٹی تھی۔۔ اسکے نّنھے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لئے اسکے ساتھ ہی لیٹی تھی۔۔ عنصر کا رویہ اسے کھٹک رہا تھا۔۔ فرشتے کو اسکی گود سے یوں لے کر جانا اور پھر اسکی نظریں۔۔ اس نے جھرجھری لی ۔۔
“اگر عنصر بھیا نے فرشتے کو مجھ سے لے لیا تو”۔
اس سے آگے سوچنے کی ہمّت نہیں تھی اس میں آنسوں اسکے چہرے کو بھگوتے تکیہ میں جذب ہو رہے تھے۔۔
“نہیں فرشتے کے بغیر میں میں کیا کرونگی”۔۔
وہ نفی میں گردن ہلاتی فرشتے کے گال چوم رہی تھی۔۔
اگلے ہی لمحے سرعت سے اٹھتے اس نے فون اٹھایا تھا۔۔ رنگ جا رہی تھی
“کیا بات ہے رابیل ؟ فون پر اسکی بھاری آواز گونجی تھی۔۔
“مم مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے جلابیب ایسا لگ رہا ہے کوئی بہت قیمتی چیز مجھ سے کھو رہی ہے اور اور میں اسے بچانے کے لئے کچھ نہیں کر پا رہی ہوں”۔۔ وہ فرشتے کو دیکھتے ہوئے سسکی ۔۔
“آپ ایسا کیوں سوچ رہی ہیں رابیل اللہ پر بھروسہ رکھیں وہ اپنے بندوں کے ساتھ کچھ غلط نہیں ہونے دیتا۔۔ جس چیز کو کھونے سے ڈر رہیں ہیں وہی اللہ سے مانگ لیں رابیل۔۔۔ مل جائے تو اسمیں بہتری مانگیں۔۔ ہمیشہ میں کے لئے وہ چیز مانگ لیں۔۔ اللہ کے پاس کمی تھوڑی ہے۔۔ اسے تو بس اپنے بندوں مانگنا اچھا لگتا ہے رابیل۔۔ رات کے اندھیرے میں بہائے وہ آنسوں اچھے لگتے ہیں جو خالیصتاً اسکے لئے بہاے جاتے ہیں۔۔ اس سے مانگنا شروع کر دیں۔۔ کچھ کھو جانے کے خوف سے خود آزاد ہو جائینگی “۔۔۔
وہ اپنے مخصوص ٹھرے ہوئے لہجے میں کہ رہا تھا۔۔
رابیل کو لگا اسکے اندر ڈھیروں سکون اتر گیا ہو۔۔
“آپ نہیں ڈرتے جلابیب؟ مطلب کچھ کھو جانے سے کسی کے گم جانے سے”۔۔
وہ فرشتے کے ہاتھوں سے کھیلتی اس سے پوچھ رہی تھی۔۔
“ڈر ہممم ڈرتا تو ہوں”۔۔ اسنے اسکے لہجے میں مسکراہٹ محسوس کی۔۔
“کس چیز سے جلدی بتائیں نا آپ کو کس چیز کے کھو جانے کا خوف ہے”۔۔ اسنے بےصبری سے کہا۔
“ہممم ایک لڑکی ہے خاموش سی۔۔ اسکو کھونے سے ڈرتا ہوں۔۔ ڈر لگتا ہے وہ کھو گئی تو جی بھی سکونگا یا نہیں”۔۔
رابیل کے ہاتھ کپکپائے تھے
“آپ جانتی ہیں کون ہے وہ؟”
اسنے پوچھا تھا
“نن نہیں مجھے جاننا بھی نہیں ہے”
اسنے کانپتی آواز میں کہتے کال کٹ کی تھی۔۔
وہ فون سائیڈ ٹیبل پر رکھتی فرشتے کے پاس آ بیٹھی تھی۔۔
“آپ کو کھونے سے ڈرتا ہوں” اسے لگا جیسے اسکے قریب سرگوشی ابھری ہو۔۔
شام والی بات۔۔ عنصر کی آنکھیں اسکا رویہ وہ سب بھول چکی تھی اسے بس یاد تھا تو یہ کے کوئی اسے بھی کھونے سے ڈرتا ہے۔۔ اور اتنا ڈرتا ہے۔۔
“میں آپ کو اللہ سے مانگ لونگی جلابیب ۔۔ وہ دے دیگا آپ کو مجھے”۔۔
اسنے فرشتے کو پیار کرتے ہوے سوچا تھا اس بات سے بےخبر کے ہر چاہے جانے والی چیز اللہ نے آپ کے لئے نہیں رکھی ہوتی۔۔