بہ طورِ اصطلاح ’ڈسکورس ‘ (Discourse) کا استعمال لسانیاتی ادب میں زیادہ قدیم نہیں ہے۔ لسانیات کے فروغ کے ساتھ ساتھ ’ڈسکورس ‘ کی اصطلاح بھی عام ہوئی، اور ڈسکورس کے تجزیے بھی پیش کئے گئے۔ نظری (Theoretical) اعتبار سے بھی ڈسکورس پر بحث کا آغاز ہوا اور اس موضوع سے متعلق متعدد مضامین اور کتابیں منظرِ عام پر آئیں۔ لسانیات و اسلوبیات کے ہی توسط سے ’ ڈسکورس‘ کی اصطلاح ادبی تنقید میں داخل ہوئی، ورنہ اس سے قبل ادبی نقاد اس اصطلاح سے ناواقفِ محض تھا۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ کلیم الدین احمد جیسے باخبر اور بیدار ذہن نقاد نے جب انگریزی کے حوالے سے اردو میں ادبی اصطلاحات کی فرہنگ مرتب کی تو Discourseیا Discourse Analysisکا کہیں ذکر تک نہیں کیا (۱) اور نہ ہی Literary Discourseجیسی اصطلاح کو اس میں کوئی جگہ دی۔ یہی حال اردو کے بعض دوسرے نقادوں اور عالموں کا بھی ہے۔ تاہم عہدِ حاضر میں لسانیات کے فروغ اور اسلوبیاتی تنقید کی مقبولیت کی وجہ سے دورِ جدید کے بعض اردو نقاد ڈسکورس کی تھیوری سے کسی حد تک واقفیت رکھتے ہیں اور Discourse Analysisکی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اپنی تنقیدی تحریروں میں وہ بعض اوقات ادبی ڈسکورس کے حوالے سے بھی گفتگو کرتے ہیں۔ (۲)
(۲)
’ڈسکورس‘ (Discourse) کو بالعموم ’بحث ‘ یا ’مکالمہ ‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ، اور Discourse Analysisکو ’تجزیۂ کلام و متن ‘ تصور کیا جاتا ہے۔ (۳)
مولوی عبد الحق نے اپنی انگلش۔ اردو ڈکشنری میں ’’Discourse‘‘کے تحت جو معنی درج کئے ہیں، وہ یہ ہیں :
’’(۱) گفتگو ، بات چیت۔ (۲) تقریر ، بیان ، مقالہ ، رسالہ ، وعظ ، خطبہ۔ (۳) گفتگو کرنا، مکالمہ کرنا۔ (۴) کسی موضوع پر تقریر اً یا تحریراً بحث کرنا، اظہارِ خیال کرنا۔ ‘‘
میرے نزدیک ’ڈسکورس ‘ (Discourse) کے لئے موزوں ترین لفظ کلامیہ ہے۔ لیکن یہ اردو میں ابھی پوری طرح رائج نہیں ہو سکا ہے ، کیوں کہ اردو کے مستند نقاد بھی اپنی تحریروں میں Discourseکے لئے ’ڈسکورس ‘ ہی لکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ (۴)
لسانیاتی اعتبار سے ’ڈسکورس‘ یا ’کلامیہ ‘ زبان کی وہ مسلسل و مربوط شکل ہے جس کا طول کسی مفر د جملے کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ کلامیہ تحریرو تقریر کی اس مسلسل صورت کا نام ہے جو دو یا دو سے زیادہ جملوں سے مل کر ترتیب دی گئی ہو ، نیز جو اس طرح باہم مربوط ہو کہ ایک اکائی(Unit) بن جائے۔ اگر کوئی لسانی شکل محض مفرد جملے تک ہی محدود رہتی ہے تو وہ کلامیہ نہیں کہی جا سکتی ، لہٰذا کلامیہ کی بنیادی شرط ، مفرد جملے کے مقابلے میں ، اس کا طویل ہونا ہے جس میں باہمی ربط بھی پایا جاتا ہو۔ درحقیقت کلامیہ کی حد وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں ایک جملہ ختم ہو کر دوسرے جملے سے باہم مربوط و متصل ہو جاتا ہے۔ ٹروگاٹ او ر پریٹ نے ’ کلامیہ ‘ کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے :
‘‘ Any Structured stretch of language that is longer than a sentence’’.(۵)
لہٰذا زبان کی ہر وہ مربوط (Coherent) شکل جو طول میں جملے سے بڑی ہو ’ کلامیہ، (Discourse) کہلائے گی اور اس کے تجزئے کو ’ تجزیۂ کلامیہ،(Discourse Analysis) کہیں گے۔ تجزیۂ کلامیہ کو مختصراً مطالعۂ زبان ماورائے جملہ ، (The study of language beyond the sentence) بھی کہہ سکتے ہیں۔
اس ضمن میں ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ کلامیہ یا ڈسکورس کا تجزیہ بنیادی طور پر بروئے استعمال زبان (Language in use) کا تجزیہ ہے۔ اسے محض لسانی ہیئتوں (Linguistic Forms) کی توضیح (Description) تک محدود نہیں رکھا جا سکتا جن کا نہ کوئی ترسیلی سیاق (Communicative Context) ہوتا ہے اور نہ کوئی استعمال ، اور نہ ہی انسانی معاشرے میں کوئی رول۔ لہٰذا کلامیاتی تجزیہ نگار (Discourse Analyst) کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اس امر کا پتا لگا ئے کہ زبان کس مقصد کے لئے بروئے عمل لائی جا رہی ہے اور اس کے ترسیلی فنکشنز (Functions) کیا ہیں۔ اس اپروچ کو زبان کا فنکشنل اپروچ (Functional Approach) کہتے ہیں جو مطالعہ زبان کے نسبة قدیم اپروچ یعنی ہیئتی اپروچ (Formal Approach) سے بالکل مختلف ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ زبان کسی نہ کسی مقصد کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ کوئی بھی فقرہ ، جملہ، یا کلمہ بغیر کسی مقصد کے منہ سے ادا نہیں کیا جاتا۔ گویا مقصد کی برآری اور اظہارِ مطلب ہی زبان کا اصل مدعا ہے۔ تجزیہ کلامیہ میں یہ بات بہ طورِ خاص ذہن میں رکھی جاتی ہے۔
تجزیۂ کلامیہ پر بنیادی کام کرنے والوں میں زیلگ ایس۔ ہیرس اور مائیکل اسٹبز خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔ زیلگ ہیرس کا شمار معروف ماہرینِ لسانیات میں ہوتا ہے۔ انھوں نے کلامیہ کو ’’ جملوں کا جوڑ‘‘ (A combination of sentcnces) کہا ہے۔ (۶) ایک دوسرے اسکالر مائیکل اسٹبز کا قول ہے کہ ’’ ہر وہ مطالعہ جو مفرد جملوں تک محدود نہ ہو اور جو سیاق و سباق سے خارج نہ ہو، تجزیۂ کلامیہ کہلائے گا۔ ‘‘ (۷)
اس امر کا ذکر یہاں بیجا نہ ہو گا کہ لسانیات جو زبان کے سائنسی مطالعے کا نام ہے اپنے روایتی انداز میں جملے کے تجزئے تک ہی محدود رہی ہے ، اور جملے سے ماورا کوئی بھی چیز اس کے دائرۂ کار میں شامل نہ ہو سکی۔ یہاں تک کہ نوام چامسکی کی تبادلی تخلیقی قواعد (Transformational Generative Grammar) میں بھی تجزیے کا محور جملہ ہی ہے۔ چامسکی نے کہیں ۱۹۸۰ء میں جا کر اس امر کا اعتراف کیا کہ کلامیاتی مہارت (Discourse Competence) درحقیقت لسانیاتی مہارت (Linguistic Competence) کا ہی ایک حصہ ہے۔ حالیہ برسوں میں کلامیہ اور تجزیۂ کلامیہ کی جانب لوگوں کی توجہ تیزی کے ساتھ مبذول ہوئی ہے ، اور لوگ زبان کو بہ حیثیتِ کلامیہ (Language as discourse) دیکھنے لگے ہیں جو اپنا سماجی سیاق (Social Context) رکھتی ہے اور تہذیبی حوالے بھی۔ زبان کو اس کے سماجی اور تہذیبی سروکار سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔
(۳)
’کلامیہ ‘ (ڈسکورس) کی جو تعریف سطورِ بالا میں بیان کی گئی ہے اس کی رو سے اسے توسیع شدہ تکلم (Extended Utterance) بھی کہہ سکتے ہیں جس کی چند نمایاں شکلیں یہ ہیں ، مثلاً وعظ ، خطبہ ، دعا، التجا ، التماس ، حلف ، لطیفہ ، حکایت ، قصے کہانیاں ، تقریریں ، انٹرویوز ، پریس ریلیز ، خطوط ، ادارئے ، اشتہارات ، وغیرہ۔
کلامیہ یا ڈسکورس کی ان شکلوں کو کلامی اصناف (Speech Genres) کہتے ہیں۔ ادبی اصناف کا شمار بھی کلامی اصناف کے تحت ہی کیا جاتا ہے۔ بعض کلامی اصناف آفاقی ہوتی ہیں ، یعنی دوسری زبانوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ لیکن ایک زبان کی ادبی اصناف دوسری زبان کی ادبی اصناف سے مختلف ہو سکتی ہیں ، مثلاً غزل اردو سے ، دو ہا ہندی سے ، سانیٹ انگریزی سے ،اور ہائیکو جاپانی سے مخصوص ہے۔ کلامی اصناف کی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں اور وہ اپنے ترسیلی وظائف (Communicative Functions) بہ خوبی انجام دیتی ہیں۔
بعض کلامی اصناف میں صرف ایک متکلم ہوتا ہے ، مثلاً صدارتی خطبہ۔ لیکن بعض دوسری کلامی اصناف جو بات چیت پر مبنی ہوتی ہیں ، ان میں متکلم کی تعداد ایک سے زیادہ ہوتی ہے ، مثلاً مباحثہ ، مکالمہ ، مذاکرہ ، حجت ، بحث و تکرار ، سوال وجواب ، گفتگو ، انٹرویو ، وغیرہ۔ (۸) کوئی کلامیہ یا کوئی کلامی صنف کئی ذیلی اصناف پر بھی مشتمل ہو سکتی ہے۔ ادب میں یہ بات نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتی ہے جہاں ’ شاعری‘ یا ’ شعری کلامیہ ‘ (Poetic Discourse) کے تحت کئی اصنافِ شعر کا شمار ہوتا ہے، مثلاً غزل ، مثنوی ، قصیدہ ، مرثیہ ، رباعی وغیرہ۔ اسی طرح کلامیہ کی ایک صنف ’ خطبہ ‘ کے تحت اس کی کئی ذیلی اصناف ، مثلاً صدارتی خطب، افتتاحی خطبہ ، کلیدی خطبہ ، الوداعی خطبہ ، وغیرہ شمار کی جاتی ہیں۔ کلامیہ کی ایک اور صنف ’ گفتگو ‘ کے تحت اس کی ذیلی اصناف روبرو گفتگو ، ٹیلی فون پر گفتگو ، انٹر نیٹ کے ذریعے گفتگو (Chat) وغیرہ کی شناخت کی جا سکتی ہے۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کئی کلامی اصناف سے مل کر ایک ’ کلامی وقوعہ‘ (Speech Event) معرضِ وجود میں آتا ہے۔ یہ ایک منظم ترسیلی سلسلہ ہوتا ہے جس میں یکے بعد دیگرے کئی کلامیے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ اس کی بہ حیثیتِ مجموعی ایک امتیازی حیثیت ہوتی ہے اور لسانی و غیر لسانی رویوں سے متعلق اس کے اپنے مقررہ اصول و ضوابط ہوتے ہیں ، جن پر کاربند ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ چرچ سروس (عیسائیوں کا طریقۂ عبادت ) جو کئی کلامی اصناف کا مجموعہ ہوتی ہے ، کلامی وقوعے کی ایک عمدہ مثال قرار دی جا سکتی ہے۔ اس کی تمام کلامی اصناف مقررہ نہج پر سلسلہ وار وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ اس طریقۂ عبادت کے دوران لسانی رویوں کے ساتھ ساتھ بعض غیر لسانی روئے بھی برتے جاتے ہیں ، مثلاً کھڑے ہونا، جھکنا ، سر بسجود ہونا ، وغیرہ۔ کلامی وقوعہ کسی بھی نوعیت کاہو سکتا ہے ، مثلاً کسی علمی یا ادبی سیمنار کے افتتاحی اجلاس کو بھی ایک کلامی وقوعہ قرار دیا جا سکتا ہے جس میں سب سے پہلے استقبالیہ تقریر ہوتی ہے، پھر افتتاحی خطبہ دیا جاتا ہے ، پھر متعلقہ موضوع پر کوئی ممتاز عالم یا دانشور اپنا کلیدی خطبہ پیش کرتا ہے ، پھر صدارتی خطبہ ہوتا ہے اور سب سے آخر میں تحریکِ شکریہ پر جلسہ ختم ہو جاتا ہے۔ کلامی وقوعہ محض ایک کلامی صنف پر بھی مشتمل ہو سکتا ہے اور ایک سے زیادہ پر بھی، مثلاً کسی موضوع پر ایک لکچر( جو محض ایک کلامی صنف پر مشتمل ہے ) ایک کلامی وقوعہ قرار دیا جا سکتا ہے ، لیکن اس لکچر کے بعد اگر سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو یہ کلامی وقوعہ دو کلامی اصناف پر مشتمل تصور کیا جائے گا۔ عہد ِ حاضر کے بعض ٹی وی ٹاک شوز (TV Talk Shows) کلامی وقوعوں کی بہترین مثالیں پیش کرتے ہیں۔ (۹)
(۴)
تجزیۂ کلامیہ کا فروغ لسانیات کی ایک اہم شاخ کے طور پر ۱۹۸۰ء کے بعد سے ہوا۔ ۱۹۷۷ء اور ۱۹۸۳ء کے دوران کلامیہ اور تجزیۂ کلامیہ سے متعلق کم از کم پانچ اہم کتابیں منظرِ عام پر آئیں، (۱۰) اور دو بڑے جرائد کا اجرا عمل میں آیا۔ (۱۱ ) اس کے فوراً بعد ۱۹۸۵ء میں وین دیجک کی چار جلدوں پر مشتمل Handbook of Discourse Analysisشائع ہوئی (۱۲) ۔
تجزیۂ کلامیہ چوں کہ لسانیات کی ایک شاخ کے طور پر ارتقا پذیر ہوا ، اس لئے اسے کلامی لسانیات (Discourse Linguistics) بھی کہا گیا۔ اسی کی طرز پر متنی لسانیات (Text Linguistics) کی اصطلاح رائج ہوئی۔ ’ کلامیہ ‘ (Discourse) کو اکثر ’متن ‘(Text) بھی کہا جاتا ہے۔ بعض عالم کلامیہ اور متن میں کوئی تفریق نہیں کرتے اور دونوں کو ایک تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک تجزیۂ کلامیہ ، تجزیۂ متن بھی ہے، اور کلامی لسانیات کا ہی دوسرا نام متنی لسانیات ہے۔ تاہم کلامیہ بعض اعتبار سے متن سے مختلف ہے۔ ان دونوں میں بہت باریک اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان بنیادی فرق کو ’ زبان بہ حیثیتِ کلامیہ (Language as discourse) اور ’زبان بہ حیثیتِ متن ،Language as text) کے فرق سے ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ بہ حیثیت کلامیہ ، ہمارے سامنے اُس زبان کا تصور ابھر کر آتا ہے جو نہایت فعال اور متحرک ہے اور کسی نہ کسی سیاق (Context) میں ظہور پذیر ہوتی ہے ، نیز اپنے سماجی اور تہذیبی حوالے بھی رکھتی ہے۔ جب کہ بہ حیثیتِ متن ، زبان ایک جامد اور غیر حرکی عنصر سے زیادہ کوئی چیز نہیں جو نہ صرف سیاق و سباق سے عاری ہوتی ہے، بلکہ جس کا کوئی فنکشنل رول بھی نہیں ہوتا۔ متن کو ہم محض ایک لسانی عنصر سے تعبیر کر سکتے ہیں ، جب کہ کلامیہ میں اس لسانی عنصر کا فنکشن اور حقیقی صورتِ حال میں موقع و محل کے لحاظ سے اس کا استعمال بے حد اہمیت رکھتا ہے۔
متن اور کلامیہ کے درمیان باریک فرق کو ایک مثال کے ذریعے یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ایک صدارتی خطبہ جب لکھا جاتا ہے اور ٹائپنگ یا کتابت و طباعت کے مراحل سے گزرتا ہے تو محض متن ہوتا ہے ، لیکن جب یہ کسی جلسے یا اجلاس میں مقررہ وقت پر سامعین و مندوبین کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو کلامیہ کہلاتا ہے۔ متن اور کلامیہ کے درمیان فرق کی ایک اور مثال کرشنا سوامی نے دی ہے،(۱۳) جو تھوڑی ترمیم کے ساتھ۔ یہاں پیش کی جاتی ہے۔ کسی پینٹر کی دوکان پر بہت سے سائن بورڈ ز کے ساتھ رکھا ہوا ایک سائن بورڈ جس پر ’’آہستہ گاڑی چلائیں ، آگے اسپیڈ بر یکرز ہیں،‘‘ لکھا ہوا ہے ، متن کہلائے گا۔ لیکن یہی سائن بورڈ جب پینٹر کی دوکان سے لے جایا جاتا ہے اور سڑک کی بائیں جانب کسی مناسب مقام پر جہاں اسپیڈ بریکرز بنے ہوں، نصب کر دیا جاتا ہے تو کلامیہ کہلاتا ہے۔ کیوں کہ یہ سائن بورڈ سڑ ک کا استعمال کرنے والوں کو ایک اطلاع بہم پہنچا جا رہا ہے ، لہٰذا لسانی عنصر کے اعتبار سے اگر چہ یہ متن ہے، لیکن یہ ایک ترسیلی سیاق (Communicative Context) رکھتا ہے (کیونکہ اسے سڑک کے اس مقام پر نصب کیا گیا ہے جہاں اسپیڈ بریکرز بنے ہوئے ہیں) ، اور اس کا ایک فنکشنل رول ہے، اس لئے اس کی اہمیت ایک کلامیہ کی ہے۔ ان مثالوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کوئی لسانی عنصر جب تک سیاق سے عاری اور فنکشنل رول سے مبرا رہتا ہے تو متن کہلاتا ہے ، لیکن جب وہ حقیقی صورتِ حال کے مطابق بروئے استعمال لایا جاتا ہے تو کلامیہ کہلاتا ہے۔
متن اور کلامیہ کے مسائل پر وین دیجک ،(۱۴) ہیلیڈے ، (۱۵) وڈاوؤسن، (۱۶) ڈی بگرینڈ ے (۱۷) ، براؤن اور یول(۱۸) ، رولاں بارت (۱۹) اور دریدا(۲۰) جیسے لسانی مفکروں اور فلسفیوں نے اپنے اپنے طور پر نہایت غور و خوض سے کام لیا ہے۔ ان عالموں کے نظریات ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں ، لیکن ان میں سے کسی نے بھی متن یا کلامیہ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا ہے۔
حواشی اور حوالے:
۱۔ دیکھئے ترقیِ اردو بیورو (حکومتِ ہند) ، نئی دہلی کی شائع کردہ کتاب
’’فرہنگِ ادبی اصطلاحات (انگریزی۔ اردو ) ‘‘ از کلیم الدین احمد۔ سنہِ اشاعت ۱۹۸۶ ء۔
۲۔ مثال کے طور پر دیکھئے گوپی چندنارنگ کی گراں قدر تصنیف ’’ساختیات ، پس
ساختیات اور مشرقی شعریات ‘‘ (دہلی : ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس ، ۱۹۹۳ ء) ۔
۳۔ ترقیِ ارد بیورو (حکومت ہند) ، نئی دہلی کی شائع کردہ ’’فرہنگِ اصطلاحات (انگریز ی اردو ) لسانیات ‘‘ (۱۹۸۷ ء) میں Discourseکے لئے’’ بحث، مکالمہ ‘‘ اور Discourse Analysisکے لئے ’’تجزیۂ کلام و متن ‘‘ کے اندراجات ملتے ہیں۔
۴۔ اردو کے بعض اہلِ علم Discourseکا ترجمہ ’ مخاطبہ‘ کرتے ہیں جو میرے خیال میں درست نہیں ہے ، کیونکہ مخاطبہ کے تحت صرف چند مخصوص قسم کے ڈسکورس ہی شمار کئے جا سکتے ہیں۔ ڈسکورس کی تمام اقسام کا یہ لفظ احاطہ نہیں کرتا۔
۵۔ دیکھئے ایلیز بتھ کلوس ٹروگاٹ (Elizabeth Closs Traugott) اور میری لوئس پریٹ (Mary Louise Pratt) کی کتاب Linguistics for Students of Literature(نیویارک : ۱۹۸۳ء) ، ص ۴۰۳۔
۶۔ دیکھئے زیلگ ایس۔ ہیرس (Zellig S. Harris) کا مضمون ’Discourse Analysis‘مشمولہ Languageشمارہ ۸۲(۱۹۵۲) ، ص ۱ تا ۳۰۔
۷۔ دیکھئے مائیکل اسٹبز کی کتاب Discourse Analysis: (Michael Stubbs) The Socioli Linguistic Analysis of Natural Language(آکسفرڈ: بیسل بلیک ول ، ۱۹۸۳ء) ۔
۸۔ کیبل ٹی وی نٹ ورک کے بعض چینلوں پر پیش کئے جانے والے ٹیلی ویژن ٹاک شوز مثلاً ’’ Big Fight‘‘(میزبان : راج دیب سر ڈیسائی اور ’’Reality Bite‘‘(میزبان: برکھادت) ، نیز’’اکبر کا دربار ‘‘ (میزبان : ایم۔ جے۔ اکبر ) اس قسم کے ڈسکورس کی عمدہ مثالیں ہیں۔
۹۔ اس موقع پر اسٹار نیوز چینل پر پیش کئے جانے والے ہفتہ وار ٹیلی ویژن ٹاک شو ’’ Movers and Shakers‘‘(میز بان : شیکھر سُمن ) کا ذکر بیجا نہ ہو گا جس کی حیثیت ایک دلچسپ کلامی وقوعے (Speech Event) کی ہے جس میں ڈسکورس (کلامیہ ) کی کئی شکلیں یعنی کلامی اصناف (Speech Genres) سلسلہ وار وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ اس ٹاک شو (Talk Show) یعنی ’تماشائے ‘ گفتگو میں میزبان ہر بار ایک نئے مہمان کے ساتھ اسکرین پر نمودار ہوتا ہے اور اس کے ساتھ پر لطف اور پر مزاح انداز میں گفتگو کا آغاز کرتا ہے۔ مزید ار بات چیت اور سوال و جواب کا یہ سلسلہ پور ے شو تک جاری رہتا ہے جس سے ناظرین کافی محظوظ اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ پورا ٹاک شو ایک دلچسپ کلامی وقوعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈسکورس کی جن شکلوں یا کلامی اصناف پر یہ کلامی وقوعہ مشتمل ہوتا ہے ان میں میزبان کے ذریعے ادا کئے گئے ابتدائی کلمات ، مہمان کا تعارف ، مہمان سے گفتگو ، سوال و جواب اور مکالمے خاص ہیں۔ وقفے وقفے سے موسیقی کی گونج اور طبلے کی تھاپ ، نیز شو کے سامعین کی قہقہہ ریزی شو کو اور بھی زیادہ دلچسپ بنادیتی ہے۔
۱۰۔ ان کتابوں کے نام حسبِ ذیل ہیں :
(۱) رابرٹ۔ ایلین ڈی بگرینڈے (Robert Alain de Beaugrande) اور دولف گینگ یو۔ ڈریسلر (Wolfgang U. Dressler) ،۱۹۸۱ء،Introduction to Text Linguistics(لندن : لانگ مین) ۔
(۲) گیلین براؤن (Gillian Brown) اور جارج یول (George Yule) ، ئے۱۹۸۳ ء، Discourse Analysisکیمبرج : کیمبر ج یونیورسٹی پریس۔
(۳) میلکم کولٹ ہارڈ (Malcom Coult Hard) ، ۱۹۷۷ءAn Introduction to Discourse Analysis(لندن : لانگ مین) ۔
(۴) ویلس ایڈ منڈ سن (Willis Edmondson) ،۱۹۸۱ء، Spoken Discourse :A Model for Analy sis(لندن : لانگ مین) ۔
(۵) مائیکل اسٹبز (Michael Stubbs) ،۱۹۸۳ ء، Discourse Analysis: The Sociolinguistic Analysis of Natural Language(آکسفرڈ: بیسل بلیک ول ) ۔
۱۱۔ اِن رسائل کے نام یہ ہیں :
(۱) Discourse Processes(۱۹۷۸) ۔
(۲) Text(۱۹۸۱ ء) ۔
۱۲۔ ٹیون اے۔ وین دیجک (Teun A. van Dijk(مرتب ) ، ۱۹۸۵ ء، Handbook of Discourse Analysis،چار جلدیں (لندن اور اورلینڈو : اکیڈمک پریس) ۔
۱۳۔ این۔ کرشنا سوامی اور دیگر ، ۱۹۹۲ء، Modern Applied Linguistics(چنّئ : میکملن) ، ص ۱۰۲
۱۴۔ ٹیون اے۔ وین دیجک (Teun A. Uan Dijk) ۱۹۷ ء‘ Text and Contextلندن: لانگ مین۔
۱۵۔ ایم۔ اے۔ کے۔ ہیلیڈے (M.A.K. Halliday) ۱۹۷۸ ء‘ Language as a social Semiotics : The Social Interpretation of Languase and Meaning(لندن ایڈورڈ آرنلڈ) ۔
ئے۱۶۔ ایچ۔ جی۔ وڈ اؤسن (H.G.Widdowson) ۱۹۷۹ ءDirections in the Teaching of Discourseمشمولہ The Communicative Approach to Language Teachingمرتبہ سی۔ جے برمفٹ (C.J. Brumfit) اور کے۔ جانسن (K.Johnson) ، آکسفرڈ: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس ، ۱۹۷۹ ء۔
۱۷۔ رابرٹ۔ ایلین ڈی بگرینڈ ے۱۹۸۰ ء (R.de Beaugrande Text Discourse and Process: Toward a Multidisciplinary Science of Texts) (فاروُڈ: ایبلکس)
۱۸۔ گیلین براؤن (Gillian Brown) اور جارج یول (George Yule) ، ۱۹۸۳ء، Discourse Analysis(کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس) ۔
۱۹۔ رولاں بارت (Roland Barthes) ،۱۹۸۱ ء، ’From Work to Text‘ مشمولہ Image, Music, Text،انتخابِ مضامین اور ترجمہ اسٹیفن ہیتھ (Stephen Heath) لندن : فونٹانا۔ پیر بیکس ، ۱۹۷۷ ء۔ نیویارک : ہل اینڈ وینگ ، ۱۹۷۷ء۔
۲۰۔ ژاک دریدا (Jacques Derrida) نے ’متن ‘ کو گیس (Gas) کہا ہے۔ (بحوالہ کرسٹو فر نورِس (Christopher Norriزسور حوالے s) ، ۱۹۸۲ء Deconstruction: Theory and Practice (لندن؛ مِتھیون ) ۔