ڈاکٹر ذاکر حسین ۱۸۹۷ء میں پیدا ہوئے ، لیکن جب انہوں نے ہوش سنبھالا تو بیسویں صدی شروع ہو چکی تھی۔ اسلامیہ ہائی اسکول ، اٹاوہ سے میٹریکولیشن کا امتحان پا سکرنے کے بعد وہ علی گڑھ آ گئے اور محمڈن اینگلو اورینٹل (MAO) کالج میں رہ کر انٹر میڈیٹ اور بی۔ اے۔ کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۲۰ء میں جب وہ ایم۔ اے کر رہے تھے تو ایس زمانے میں گاندھی جی علی گڑھ آئے۔ ان کی تحریک پر ذاکر صاحب نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ایم۔ اے۔ او۔ کالج کو خیر باد کہا اور الگ جا کر ایک قومی ادارے کی بنیاد ڈالی۔ اس وقت ذاکر صاحب کی عمر محض ۳۲ سال تھی۔ مزید تعلیم کے لیے وہ جرمنی گئے اور وہاں سے ۱۹۲۵ء میں معاشیات میں پی۔ ایچ۔ ڈی۔ (Ph.D) کی ڈگری حاصل کی۔ ذاکر صاحب کی زندگی کے یہ ابتدائی ۲۵۔ ۳۰ سال ان کی ذہنی تربیت اور ان کے شعور کی نشو و نما میں نمایاں اہمیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے جو کچھ بھی سیکھا اور حاصل کیا وہ انھیں ماہ و سال کی گردش کا نتیجہ تھا۔ ان کی علمی اور ادبی صلاحیتوں کو بعد کے دور میں جو جِلا ملی اس کا خمیر انھیں ایّام میں تیار ہوا۔ ان کے اسلوب اور اندازِ بیان کو متعین کرنے اور اس میں انفرادیت کا رنگ بھرنے میں اس دور کا نمایاں حصّہ رہا ہے۔
ذاکر صاحب کی طالب علم علمی کا بہترین دور علی گڑھ میں گزرا۔ ان کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل اور ذہن و شعور کی پرداخت میں علی گڑھ کا زبردست حصّہ رہا ہے۔ اردو اور انگریزی تحریر و تقریر پر قدرت انھیں یہیں حاصل ہوئی۔ ذاکر صاحب کا شمار علی گڑھ کے ذہین طالب علموں میں ہوتا تھا؟ اور ذہین طالب علموں کے جو ہریا تو کالج کے جلسوں اور ادبی و علمی اجتماعات میں کھُلتے تھے یا پھر طلبہ کی یونین میں رشید احمد صدیقی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ذاکر صاحب کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں کہ ان کی اردو کی تقریر و تحریر بہتر ہوتی ہے یا انگریزی کی۔ ‘‘(١) ذاکر صاحب کا شمار اس زمانے کے علی گڑھ کے بہترین مقررین میں ہوتا تھا۔ یونین ہال کے جلسوں میں جب وہ تقریر کرنے کھڑے ہوتے تھے تو ایک سماں چھا جاتا تھا۔ اور بقولِ رشید احمد صدیقی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ’’ کوئی بہت بڑا شاعر اپنی بہترین نظم سنا رہا ہے جس کے ایک ایک شعر پر مجمع تلے اوپر ہو رہا ہے۔ ‘‘(۲) ذاکر صاحب کی تقریر میں بہت روانی ہوتی تھی۔ ان کے الفاظ جستہ، جملے بر محل اور عبارت صاف اور شگفتہ ہوتی تھی۔ خیالات میں تازگی اور توانائی پائی جاتی تھی۔ ذاکر صاحب کو جو قدرت تقریر پر حاصل تھی وہی قدرت انھیں تحریر پر بھی حاصل تھی۔ مشکل سے مشکل موضوع پر بھی جب وہ قلم اٹھاتے تو زبان کی روانی اور بیان کی قدرت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ مضمون نگاری کا شوق انھیں بچپن ہی سے تھا۔ علی گڑھ میں طالب علم کے زمانے میں وہ کالج میگزین میں رپ (RIP) کے نام سے مضامین لکھا کرتے تھے۔ موضوع پر ان کی نظر بہت گہری تھی۔ ان کا انداز بھی بیحد دل کش ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ان کے مضامین کا بڑے شوق سے انتظار کیا کرتے تھے۔ اظہار بیان پر جو قدرت اور عبور انھیں اردو میں حاصل تھا وہی انگریزی میں بھی حاصل تھا۔ انگریزی زبان میں ان کی لیاقت اور صلاحیت کو دیکھ کر ایک بار مسلم یونیورسٹی کے پرووائس چانسلر مسٹر یمرباتھم نے کہا تھا کہ ’’ڈاکٹر ذاکر حسین کی انگریزی تحریرو تقریر بالخصوص ان کی حاضر جوابی کا مقابلہ برطانوی پارلیمنٹ کے بہترین اراکین سے کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘(۳) رشید احمد صدیقی کے ذاکر صاحب نے بڑے گہرے، دیرینہ اور دوستانہ مراسم تھے۔ انھیں ذاکر صاحب کی تقریریں سننے کا بار ہا اتفاق ہوا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ ذاکر صاحب کی تقریر ہر طرح کے تکلّفات سے قطعی بری، رواں، جچی تلی، دل نشیں اور فکر انگیز ہوتی تھی۔ ذاکر صاحب کا یہ اسلوب اور اندازِ بیان ان کی تحریروں میں بھی جھلکتا ہے۔
(۲)
ذاکر صاحب نے بچوں کے لیے کہانیاں بھی لکھیں اور معاشیات کے دقیق مسائل پر بھی قلم اٹھایا۔ انہوں نے افلاطون کی Republicکا اردو میں ترجمہ بھی کیا اور تعلیمی موضوعات پر خطبات بھی تحریر کیے علاوہ ازیں ہندوستان میں تعلیم کی تعمیرِ نو کے بارے میں بھی خامہ فرسائی کی۔ ذاکر صاحب کی یہ تمام تحریریں مواد اور موضوع کے اعتبار سے تو اہم ہیں ہی، زبان و اسلوب اور اندازِ بیان کے نقطۂ نظر سے بھی انفرادی شان رکھتی ہیں۔ ’’ابّو خاں کی بکری‘‘ سے قطع نظر جس کا انداز تمثیلی ہے، ذاکر صاحب کا اسلوب براہِ راست (Direct) اسلوب کی ایک عمدہ مثال ہے۔ جس میں رمز و اشارہ اور کنایہ نیز علامت و استعارہ سے کام نہیں لیا جاتا۔ یہی وجہ ہے ان کا اسلوب شاعرانہ اندازِ بیان سے کوسوں دور ہے۔ ان کے یہاں نہ تو مقفیٰ و مسجّع عبارات ملتی ہیں اور نہ ہی رعایتِ لفظی نظر آتی ہے، اور نہ ہی اسی طرح کی کسی اور رنگینی اور تکلفات سے کام لیا جاتا ہے۔ وہ اپنی بات سلیں، بے ساختہ اور رواں انداز میں کہتے چلے جاتے ہیں۔ جسے ہم اردو کا بنیادی اسلوب کہہ سکتے ہیں پروفیسر گوپی چند نارنگ کو بھی اس سے اتفاق ہے۔ انھوں نے بجا طور پر ذاکر صاحب کی نثر کو اردو کے بنیادی اسلوب کی ایک مثال قرار دیا ہے۔ (۴) ذاکر صاحب کی نثر سادہ لیکن معیاری اور علمی نثر ہے۔ ان کے ہاں نہ تو بے جا عربیت اور فارسیت پائی جاتی ہے اور نہ ہندی الفاظ کا بے جا اور بے دھڑک استعمال ملتا ہے۔ محاورات بھی انھوں نے وہی استعمال کیے ہیں جو اردو بول چال کا حصّہ ہیں اور جن سے اردو زبان کی روانی مجروح نہیں ہونے پاتی۔ ذاکر صاحب کے جملے بالعموم چھوٹے ہوتے ہیں، جس طرح بات چیت کے دوران ادا کیے جاتے ہیں۔ ان کے یہاں بات کو سمجھا سمجھا کر کہنے کا انداز ملتا ہے، جس وضاحتی انداز کہہ سکتے ہیں۔ اسی لیے جملوں کو ترکیب دینے والے فقرے اور ٹکڑے بھی عموماً چھوٹے ہوتے ہیں اور بعض جگہوں پر ان ٹکڑوں کو دہرایا بھی جاتا ہے۔ ذاکر صاحب کے ہاں اگر کوئی بڑا جملہ پایا جاتا ہے تو وہ انھیں چھوٹے چھوٹے فقروں اور ٹکڑوں کو ملا کر بنتا ہے جس سے پیچیدگی پیدا نہیں ہونے پاتی اور نہ نحوی ترکیب میں کوئی الجھاؤ پیدا ہوتا ہے۔
پروفیسر آل احمد سرور نے ایک جگہ نظم اور نثر کی زبان میں فرق بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ نظم کے زبان ’’تخلیق‘‘ ہوتی ہے، اور نثر کی زبان ’’تعمیری‘‘۔ (۵) انہوں نے نثر کے اسلوب میں تعمیری اظہار کو بنیادی شرط قرار دیا ہے جس طرح کہ نظم کے اسلوب میں بنیادی شرط تخلیقی اظہار ہے۔ اگر اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ذاکر صاحب کی نثر تعمیری اظہار کی ایک بہترین مثال پیش کرتی ہے۔ تعمیری اظہار میں خیالات نہایت واضح ہوتے ہیں اور اظہار یا انداز بیان براہِ راست ہوتا ہے جب کہ تخلیقی اظہار۔ میں اظہار رمزیہ اور علامتی ہوتا ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ اسلوب کے اعتبار سے شاعری کا تعلق بنیادی طور پر تخلیقی اظہار سے ہے لیکن بعض ادیبوں کی نثر بھی تخلیقی اظہار کا اعلا نمونہ ہوتی ہے۔ ایسی نثر شاعری سے قریب تر ہو جاتی ہے۔ اس میں رمز یہ اسلوب پیدا ہو جاتا ہے۔ اور یہ اشارہ کنایہ، علامت اور استعارہ جیسے شاعرانہ وسائل سے کام لینے لگتی ہے۔ ذاکر صاحب کی نثر تو رمزیہ اور علامتی ہے اور نہ تخلیقی۔ اسی لیے یہ ترسیلی الجھنوں سے پاک ہے اور قاری سے براہِ راست رشتہ قائم کر لیتی ہے۔
(۳)
ذاکر صاحب نے جب ہوش سنبھالا تو ان کے سامنے نثر کے دو بنیادی اسلایب موجود تھے۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ ذاکر صاحب کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل علی گڑھ میں ہوئی اور ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں کو جِلا وہیں کے ماحول سے ملی۔ ذاکر صاحب کے سامنے ایک اسلوب تو خود سر سیّد احمد خاں کا تھا جو سادہ اور براہ راست اسلوب تھا اور جس میں نہ محاورہ بندی تھی اور نہ مرصعّ کاری۔ زبان کا پر شکوہ اندازِ بیان بھی اس میں مفقود تھا اور شاعرانہ اظہار سے تو یہ اسلوب عاری تھا ہی۔ سر سیّد کے اس اسلوب کا براہِ راست تعلق میر امّن کے اسلوب سے تھا جو اردو کا سادہ اور رواں اسلوب تھا۔ سر سیّد کے رفقاء میں حالی اس اعتبار سے سب سے زیادہ ممتاز درجہ رکھتے ہیں کہ انہوں نے اس اسلوب کو اپنی تحریروں میں برتنے کی کوشش کی۔ حالی نے دراصل سادہ نگاری اور براہ راست اندازِ بیان کی اس روایت کو مستحکم کیا تھا جس کی بنیاد سر سیّد نے ڈالی تھی، لہٰذا حالی کے اسلوب کو ہم سر سیّد کے اسلوب کی توسیع کہہ سکتے ہیں جس طرح کہ سر سیّد کا اسلوب میرا مّن کے اسلوب کی توسیع قرار دیا جا سکتا ہے۔ بعد کے دور میں یہی اسلوب مولوی عبدالحق نے اختیار کیا اور یہی ذاکر صاحب نے۔ سر سیّد اور حالی کے اسالیب میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ پروفیسر آل احمد سرور کے خیال میں ’’سر سیّد اور حالی کے یہاں خیال واضح اور ان کے اظہار میں اعتدال اور موزونیت ہے، یعنی نہ لفّاظی ہے اور نہ ناہمواری۔ ‘‘(۶) سر سیّد اور حالی کے اسالیب کی جن خصوصیات کا ذکر اقتباس بالا میں کیا گیا ہے۔ ان کا عکس مولوی عبدالحق اور ذاکر صاحب کی نثر میں بہ خوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ وہ خواہ سر سیّد ہوں یا حالی، عبدالحق ہوں یا ذاکر حسین، ان سب نے زبان کے عصری تقاضوں کو پورا کرنے، زبان میں اپنے دور کی روح کو جذب کرنے اور زبان کو زمانے کی بدلتی قدروں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان چیزوں کا ساتھ رمزیہ یا شاعرانہ اسلوب نہیں دے سکتا تھا۔
ذاکر صاحب کے سامنے دوسرا اسلوب مرزا رجب علی بیگ سرور کی فسانۂ عجائب کا تھا جو بے انتہا مرصع ومسجع اور مقفیٰ اسلوب تھا۔ جس کے ہر جملے میں تک بندی اور قافیہ پیمائی پائی جاتی تھی۔ اور جو فارسی الفاظ و تراکیب سے حد درجہ بوجھل اور لفظی و معنوی صنعتوں سے گراں بار اسلوب تھا۔ ذاکر صاحب کے مزاج اور عصری تقاضوں سے یہ اسلوب کسی بھی طرح میل نہیں کھاتا تھا۔
ذاکر صاحب نے جن موضوعات پر قلم اٹھایا وہ مختلف النوع تھے۔ ان کے دائرۂ فکر میں قومی اور بنیادی تعلیم کے مسائل سے لے کر بچّوں کی تربیت معاشیات، مذہب، ادب، سیاست، و تمدن اور حالات حاضرہ وغیرہ سبھی کچھ شامل تھے۔ ان تمام چیزوں کے اظہار کے لیے وہ ایک ایسی زبان کو بروئے کار لانا چاہتے تھے جو ترسیل کی الجھنوں سے پاک، شاعرانہ اندازِ بیان سے میر امّن اور رمز یہ تکلفات سے آزاد ایک نہایت سادہ، رواں اور براہِ راست زبان ہو۔ ورد وہ اپنے ما فی الضمیر کو کما حقہ ادا نہیں کر سکتے تھے۔ سر سیّد نے اردو زبان کو بہت کچھ اس لائق بنا دیا تھا کہ وہ عصری تقاضوں کو پورا کر سکے۔ سر سیّد کے سامنے زبان کا افادی پہلو تھا، تخلیقی یا تاثراتی پہلو نہیں۔ سر سیّد نے اس میں عصری روح پھونکی تھی۔ اسی لیے ان کی نثر اگر چہ جمالیاتی نقطۂ نظر سے ایک ’’خالی خولی‘‘ نثر تھی، لیکن ایک ترقی یافتہ اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ تھی۔ ذاکر صاحب نے سر سیّد کے اسلوب کو مشعلِ راہ بنایا۔ اور زبان سے تقریباً وہی کام لیا جو سر سیّد لے چکے تھے۔ ذاکر صاحب کو اردو زبان کا معیاری روپ اور لب و لہجہ ملا تھا جس میں ہر طرح کے خیال کے اطہار کی قوت، قدرت اور صلاحیت موجود تھی۔ ذاکر صاحب نے زبان سے وہ کام لیا جو ایک عصری مزاج داں لینا چاہتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا کہ زبان ذاکر صاحب کے تابع تھی، ذاکر صاحب زبان کے تابع نہ تھے۔ ذاکر صاحب کی زبان پر ایک جگہ تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر محمد مجیب نے لکھا ہے کہ ادبی تصانیف میں زبان کی قینچی اکثر کاٹنے والے کے قابو میں نہیں رہتی، خود اپنے ہنر دکھانے لگتی ہے، لیکن ذاکر صاحب کی قدرتی استعداد نے زبان کو اپنا خادم بنا کر ان کی تحریروں میں وہ خوبیاں پیدا کر دی ہیں جو ادیبوں کی تحریر کو برسوں کی مشق اور محنت کے بعد نصیب ہوتی ہیں۔ ‘‘ (۷) مجیب صاحب کی اس رائے سے ہر وہ شخص اتفاق کرے گا جس نے ذاکر صاحب کی تحریروں کا بغور مطالعہ کیا ہے اور ان کے اسلوب اور اندازِ بیان کو قریب سے دیکھا ہے۔
(۴)
ذاکر صاحب کی زبان اور ان کی اسلوب کی بعض خصوصیات کو ذیل میں بیان کیا جاتا ہے:
۱۔ ذاکر صاحب کی نثر کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بالعموم چھوٹے جملے استعمال کرتے ہیں۔ اگر کسی جملے کی نحوی ترکیب طویل ہونے لگتی ہے تو وہ اسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیتے ہیں جس میں کسی ایک ٹکڑے کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے جو دوسرے تمام ٹکڑوں سے بڑا ہوتا ہے اور مکمل جملہ ہوتا ہے۔ ذیل کی مثال سے یہ بات واضح ہو جائے گی۔
’’اس نصب العین کے حصول کے لیے جو نظامِ تعلیم کارآمد ہو سکتا تھا وہ وجود میں آگیا، بہت کچھ دوسروں کی مدد سے، کچھ کچھ اپنی کوشش سے۔ ‘‘(۸) (مسلمانوں کی تعلیم) (۸)
اس جملے میں یہ ظاہر تین ٹکڑے ہیں، ایک چھوٹا ٹکڑا اور دو بڑے ٹکڑے۔ پہلا ٹکڑا بڑا ہے۔ اس میں فاعل، فعل، مفعول، نیز مبتدا اور خبرسب اپنی اپنی جگہ بہت مناسب ہیں۔ بقیہ دو ٹکڑے اس کے تابع ہیں۔ ذاکر صاحب اسی بات کو تین ٹکڑوں میں کہنے کے بجائے، انھیں الفاظ کو استعمال کرتے ہوئے صرف ایک جملے میں بھی کہہ سکتے تھے، یعنی۔
اس نصب العین کے حصول جو نظام تعلیم کار آمد ہو سکتا تھا وہ بہت کچھ دوسروں کی مدد سے اور کچھ کچھ اپنی کوشش سے وجود میں آگیا۔
یہاں نہ تو کوئی لفظ کم کیا گیا ہے۔ اور نہ کسی لفظ کا اضافہ کیا گیا ہے محض نحوی ترتیب کی تبدیلی سے تین ٹکڑوں کو ملا کر ایک جملہ بنا دیا گیا ہے۔ لیکن چوں کہ ذاکر صاحب بڑے جملے ترتیب دینا پسند نہیں کرتے تھے، اس لیے انہوں نے اس جملے کو تین چھوتے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا اس کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو:
’’وہ ایسے تجربے کر سکیں گے جو حکومت شاید اپنے کام کے پھیلاؤ کی وجہ سے نہ کر سکے، اور وہ اپنے تجربوں سے، انکی کامیابیوں سے اور انکی ناکامیوں سے، حکومت کے پھیلے ہوئے تعلیمی کام کو نئی راہیں دکھا سکیں گے۔ ‘‘ (بنیادی تعلیم)
یہ جملہ یوں بھی تحریر کیا جا سکتا تھا:
وہ ایسے تجربے کر سکیں گے جو حکومت شاید اپنے کام کے پھیلاؤ کی وجہ سے نہ کر سکے اور وہ اپنے تجربوں، انکی کامیابیوں اور ناکامیوں سے حکومت کے پھیلے ہوئے تعلیمی کام کو نئی راہ دکھا سکیں گے۔
ذاکر صاحب چھوٹے چھوٹے جملوں کی مدد سے اپنے ما فی الضمیر کو کس طرح ادا کرتے تھے، اس کی ایک بہترین مثال ذیل میں پیش ہے۔
’’تم جس دیس میں یہاں سے نکل کر جا رہے ہو وہ بڑا بدنصیب ملک ہے۔ وہ غلاموں کا ملک ہے۔ جاہلوں کا ملک ہے۔ بے انصافیوں کا ملک ہے۔ بے رحمیوں کا ملک ہے۔ ظالمانہ رسموں کا ملک ہے۔ غافل پجاریوں کا ملک ہے۔ افلاس اور ناداری کا مُلک ہے۔ اسی میں جینا ہے اور اسی میں مرنا ہے۔ اس لیے یہ ملک تمہاری ہمتوں کے امتحان، تمہاری قوتوں کے استعمال اور تمہاری محبت کی آزمائش کی جگہ ہے۔ ‘‘ (قومی تعلیم)
۲۔ ذاکر صاحب کے اسلوب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ نثر کا ایک مخصوص آہنگ برقرار رکھنے کے لیے یا مخصوص نحوی توازن کے خیال سے جملوں کے اختتام میں مختلف افعال کی ایک ہی تحریفی شکلیں استعمال کرتے چلے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ذیل کے اقتباس میں ان کے جملے لیں، کریں، دھونڈیں، اور ڈالیں پر ختم ہوتے ہیں جو مختلف افعال کی ایک ہی تحریفی شکلیں ہیں:
’’بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے کام کا جائزہ لیں، اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں دونوں سے سبق حاصل کریں، اور نصف صدی کے تجربے کی روشنی میں آگے کی راہ دھونڈیں، یعنی اپنے پچاس سال کے تعلیمی کام پر ایک تنقیدی نظر ڈالیں۔ ‘‘ (مسلمانوں کی ثانوی تعلیم)
اسی قسم کا ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو:
’’کیا اسی سماج میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی گیت نہیں جو سب مل کر گائیں کوئی تہوار نہیں جو سب مل کر منائیں، کوئی شادی نہیں جو سب مل کر رچائیں، کوئی دکھ نہیں جسے سب بٹائیں۔ ‘‘ (بنیادی تعلیم)
۳۔ جس طرح ذاکر صاحب افعال کی یکساں صورتیں استعمال کرتے چلے جاتے ہیں اسی طرح اسم کی یکساں صورتیں (بالعموم جمع کی صورتیں) بھی وہ تکرار کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ذیل کے اقتباس میں جمع کی صورت وں مختلف اسماکے ساتھ ایک ہی جملے میں ساتھ بار استعمال کی گئی ہے:
’’اس لیے کہ قوم کے عام نصب العین کو بدلنے کا کام اس کے مدبّروں اور مفکروں، اس کے ادیبوں اور شاعروں اس کے دینی خادموں اور سیاسی کارکنوں کا بھی ہے اور اس کے اعلیٰ اداروں کا بھی۔ ‘‘
(مسلمانوں کی ثانوی تعلیم)
ایسی ہی ایک اور مثال ملاحظہ ہو:
’’کیا حیاتِ ملّی کے تمام گوشے جنھیں پست مقصدی نے اجاڑ دیا ہے، نئ امنگوں اور نۓ ولولوں، نئ کوششوں اور نئ امیدوں۔ ، غرض ایک نئ زندگی کی بہار سے لہلہانے لگیں گے۔ ” (مسلمانوں کی ثانوی تعلیم)
۴۔ ذاکر صاحب اپنی بات کو وضاحت کے ساتھ اور پھیلا کر کہنے کے عادی ہیں۔ ان کا یہ وضاحتی انداز بہت فطری معلوم ہوتا ہے۔ وہ بعض اوقات فقرے پر فقرہ بِٹھاتے چلے جاتے ہیں۔ ذیل کے اقتباس میں فقرۂ شرطیہ جو “اگر” سے شروع ہوتا ہے، کئي بار استعمال ہوا ہے۔
“اگر ہم مسلمانوں کی حیثیت سے حرّیت خواہ ہونے پر مجبور ہیں، اگر ہم دنیا سے ہر قسم کی غلامی مِٹانے پر مامور ہیں،۔ اگر ہم انسانیت کی ایسی معاشی تنظیم چاہتے ہیں جس میں امیر و غریب کا فرق انسانوں کی اکثریت کو انسانیت کے شرف سے ہی نہ محروم کر دے، اگر ہم دولت کی شرافت کی جگہ تقوے کی شرافت کا قیام چاہتے ہیں، اگر ہم نسل اور رنگ کے تعصّبات کو مِٹانا اپنا فرض سمجھتے ہیں تو ان سب فرائض کو پورا کرنے کا موقع سب سے پہلے خود اپنے پیارے وطن میں ہے” (مسلمانوں کی ثانوی تعلیم)
ایک اور اقتباس میں “کب تک” سے شروع ہونے والے فقرے ملاحظہ ہوں:
“ہم کب تک اس سیاسی ریگستان میں ہل چلائیں، کب تک شبہے اور بدگمانی کے دھوئیں میں تعلیم کو دَم گھُٹ گھُٹ کر سِسکتے ہوۓ دیکھیں، کب تک ہم اس ڈر سے تھرّاتے رہیں کہ ہماری عمر بھر کی محنت کو کوئ سیاسی حماقت، کوئ ایک سیاسی ضد بھسم کر دے گی۔ ” (بنیادی تعلیم)
۵۔ ذاکر صاحب کے یہاں بعض اوقات الفاظ اور ترکیبیں تکرار کے ساتھ واقع ہوتی ہیں۔ مثلاً:
“درخت میں ہی ڈالی اور پتّی بھی اپنا ایک وجود رکھتی ہے، لیکن ڈالی یا پتّی کے ٹوٹ جانے سے درخت ختم نہیں ہوتا۔ درخت سے الگ ہو کر ڈالی اور پتّی کے لۓ سواۓ فنا کے اور کچھ نہیں۔ ” (قومی تعلیم)
اس مختصر سے اقتباس میں درخت، ڈالی اور پتّی کو تین تین بار دہرایا گیا ہے۔
۶۔ ذاکر صاحب کے یہاں محاوروں کا وہ استعمال تو نہیں پایا جاتا جو ڈپٹی نذیر احمد اور خواجہ حسن نطامی کے یہاں ملتا ہے۔ لیکن ان کی نثر محاوروں سے عاری بھی نہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
“یہ بڑا پِتّا مارنے کا کام ہے۔ “
“یوں مل جل کر کام کرنے میں کھوے سا کھوا چھِلتا ہے۔ “
جس میں اپنے کو بدلتے رہنے کی طاقت نہیں وہ بھی موت کے ہی گھاٹ اترتا ہے۔ “
سب کو ایک ہی لکڑی سے ہانکا جاتا ہے۔ “
کیاا اس وقت بھی ہمارا نساب ایسا ہی چوں چوں کا مربّا ہو گا؟”
“خوشامد کا جادو بڑے بڑے گھاگھوں پر چل جاتا ہے۔ “
“تمدّنی زندگی میں دیے سے دیا یوں ہی جلتا رہتا ہے۔ “
“اور کون سی سرسوں ہے جو ہتھیلی پر جم جاتی ہے۔ “
“نئی دواؤں کو برتتے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوۓ ہیں۔ “
“جو خود تھالی کے بینگن کی طرح اِدھر اُدھر لڑھکتا ہو، وہ دوسروں کو ایک سمت میں کیسے چلا سکتا ہے؟”
“وہ اس دشمن سے چوکنّا رہے کہ ذرا آنکھ جھپکی اور اس نے وار کیا۔ “
“مسلمان ہونے کے یہ معنی نہیں کہ آدمی ایک خاص جماعت سے تعلق رکھتا ہے اور اسی کے دنیاوی اور سیاسی مفاد کی اُدھیڑ بُن میں لگا رہتا ہے۔ “
۷۔ ذاکر صاحب نے اپنی تحریروں میں میں بعض جگہ ہندی نژاد الفاظ بڑی خوب صورتی کے ساتھ کھپاۓ ہیں۔ ہندی الفاظ کے استعمال میں انھوں نے اگر ایک طرف سیاق و سباق کا خیال رکھا ہے تو دوسری طرف ترسیل کی آسانی بھی ان کے پیشِ نظر رہی ہے، یعنی کہ جو بات وہ کہنا چاہتے ہیں اسے اچھّی طرح سے کہہ سکیں۔ ہندی الفاظ کے استعمال سے انھوں نے نثر کے آہنگ کو کہیں بھی مجروح نہیں ہونے دیا۔ اسی لۓ یہ الفاظ گراں نہیں گزرتے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
“سخت بیماری کی حالت میں جسم اپنے روگ کو دور کرنے کے لۓ کچھ نہ کچھ کرتا ہے”
“ہر ہندوستانی کے دل میں یہ بات بیٹھ جاۓ کہ قوم کی سیوا کر کے ہی وہ اپنی ترقّی کی راہ نکال سکتا ہے۔ “
“اپنی قومی زندگی کے تحفّظ و ترقّی کے لۓ ایک نۓ نظام کی داغ بیل ڈالنے کا کٹھِن مگر ضروری کام شروع کریں۔ “
” کلکتّے کے ایک کالج میں ۱۳ ہزار ودیارتھی تعلیم پاتے ہیں۔ “
“ہماری رنگارنگ دنیا میں ایسی چیزوں کی کیا کمی ہے، جنھیں دیکھ کر آدمی اچنبھے سے انگلی دانتوں میں دبا لے۔ “
“جو پھر سنسار کے اندھیرے میں ہر تاریک گوشے کو اجاگر کرنے میں مدد دیتا ہے۔ “
کوئ دنیا کو بنانے والے اور پالن ہار کے دھیان میں سرشار ہے۔ “
“جسم کا دکھ بالکل میکانکی طور پر ہماری ساری توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ “
حواشی اور حوالے:
۱۔ رشید احمد صدّیقی،ذاکر صاحب (دہلی، کتابی دنیا لمیٹیڈ، س ن) ص ۳۵۔
۲۔ ایضاً، ص ۲۵
۳۔ ایضاً، ص ۳۵
۴۔ دیکھئے گوپی چند نارنگ کا مضمون “ذاکر صاحب کی نثر: اردو کے بنیادی اسلوب کی ایک مثال” مشمولہ “ادبی تنقید اور اسلوبیات” (گوپی چند نارنگ) دہلی، ایجوکیشنل بک ہاؤس، ۱۹۸۹ء۔
۵۔ آل احمد سرور، “نثر کا اسٹائل”،مشمولہ “نظر اور نظرئے” (آ؛ احمد سرور) ، نئ دہلی، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، ۱۹۷۳ء، ص ۴۶
۶۔ ایضاً، ص ۴۸
۷۔ محمّد مجیب، “پیش لفظ”۔ “تعلیمی خطبات” (ذاکر حسین) ، نئ دہلی، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، ۱۹۸۴ء ، ص ۱۰۔
۸۔ یہ اور اس کے بعد کی تمام مثالیں ڈاکٹر ذاکر حسین کی تصنیف “تعلیمی خطبات” (نئ دہلی: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، ۱۹۸۲ء) سے لی گئ ہیں۔