اردو کے افسانوی ادب میں راجندر سنگھ بیدی کا مرتبہ بلند ہے۔ انھیں اردو کا صفِ اول کا افسانہ نگار تسلیم کیا گیا ہے۔ بیدی کے بارے میں نقادوں کی یہ عام رائے ہے کہ وہ ایک اعلیٰ فن کار ہیں اور ان کے یہاں فن کی پختگی اور گہرائی پائی جاتی ہے۔ ان کے یہاں زندگی کا گہرا مشاہدہ اور انسانی فطرت اور نفسیات کا عمیق مطالعہ بھی پایا جاتا ہے، نیز ان کی کہانیاں اپنے اندر فنّی ندرت، ذہانت اور سماجی شعور رکھتی ہیں اور ذہن پر دیر پا اثر چھوڑ تی ہیں۔ ان کی کہانیوں کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ روس کے عظیم افسانہ نگار چیخوف کی یاد دلاتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیدی کی کہانیاں فنّی اعتبار سے بالکل منفرد ہیں۔ ان میں اچھی کہانیوں کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں اور بقولِ خلیل الرحمٰن اعظمی ’’ان کے کسی افسانے میں فنِ افسانہ نگاری کے اعتبار سے کوئی کور کسر نہیں ہے‘‘ (۱)
لیکن جہاں تک کہ بیدی کی زبان کا تعلق ہے یا اردو کے تقریباً نقادوں نے اس پر اعتراضات کیے ہیں۔ بعض نقادوں نے تو بیدی کی زبان کی کھُل کر نکتہ چینی کی ہے۔ پروفیسر اسلوب احمد انصاری اپنے مضمون ’’بیدی کا فن‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’زبان کے موثر استعمال کے لیے جس نزاکتِ احساس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی بیدی کے یہاں افسوس ناک کمی ہے۔ ‘‘(۲)
اسی مضمون میں وہ آگے چل کر لکھتے ہیں:
’’بیدی کے یہاں ایک خامی بہت کھٹکتی ہے، اور وہ یہ کہ انھیں زبان اور محاورے پر عبور حاصل نہیں ہے۔ ان کے یہاں استوار اور منضبط نثر نہیں ملتی۔ ‘‘(۳)
پروفیسر اسلوب احمد انصاری نے بیدی کی زبان پر یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ ان کے ’’اکثر جملوں کی ساخت میں ناپسندیدہ پیچیدگی اور طوالت نظر آتی ہے۔ ‘‘ نیز ’’ان کے بیان کا تکلف اور مصنوعی پن پوری کہانی کی فضا سے غیر آہنگ ہوتا ہے، اس لیے ابلاغ کے مقصد کو جھٹلا دیتا ہے۔ ‘‘ (۴) بیدی کی زبان کے بارے میں ان کا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ ’’وہ بعض جگہ ہندی کے نامانوس الفاظ غلط جگہوں پر لا کر عبارت کی سبک روی میں رخنہ ڈال دیتے ہیں۔ ‘‘(۵) بیدی کی زبان کے بارے میں اسلوب صاحب کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ وہ ’’الفاظ کے در و بست کا کوئی سلیقہ نہیں رکھتے‘‘ اور ’’زبان کو غلط اور بے ڈھنگ طور پر ‘‘ استعمال کرتے ہیں جس کا ان کے پاس کوئی ’’جواز‘‘ نہیں ہے۔
بیدی کی زبان کی کمزوری کا ذکر ہر اس نقاد نے کیا ہے جس نے بیدی پر کچھ نہ کچھ لکھا ہے خلیل الرحمٰن اعظمی اپنے تحقیقی مقالے اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک میں بیدی کی افسانہ نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بیدی کی کمزوری ان کے یہاں زبان کا کہیں کہیں غلط اور خام استعمال ہے۔ ‘‘(۶)
پروفیسر گوپی چند نارنگ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
’’بیدی کی زبان اردو کے بنیادی دھارے (Main stream) سے قدرے ہٹی ہوئی ہے۔ ‘‘(۷)
اردو کے افسانوی ادب کے معتبر نقاد وقار عظیم اپنی تصنیف نیا افسانہ میں بیدی کی زبان پر یوں تبصرہ کرتے ہیں:
’’بیدی کے فن کا ایک اور پہلو ان کی زبان ہے۔ عام طور پر ان کی زبان کے اس حصّے پر اعتراض کیا جاتا ہے جس پر مقامی اثرات غالب ہیں، اور ان میں سے بعض سے ان کی طرز کی شگفتہ سنجیدگی کی روانی میں فرق بھی پڑتا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں اس سے بھی زیادہ اہم ایک بات اور ہے جو ہر پڑھنے والا ان کے افسانوں میں محسوس کرے گا۔ جن باتوں کو آسان اور سیدھی سادی باتوں میں کہہ کر زیادہ موثر بنایا جا سکتا ہے انھیں بیدی نے دقیق اور مشکل زبان میں کہا ہے اور اس سے ہر جگہ افسانے کی فضا میں ایک بوجھل پن پیدا ہو گیا ہے، اس میں تصنع آگیا ہے اور بات میں شاید وہ تاثیر بھی باقی نہیں رہی جو افسانے کی مجموعی فضا کے لحاظ سے ضروری تھی۔ ‘‘(۸)
بیدی کی زبان پر پروفیسر آل احمد سرور ان الفاظ میں اظہارِ خیال کرتے ہیں:
’’چنانچہ بیدی کی زبان بڑی اکھڑی اکھری، ناہموار کہیں کہیں بے جا فارسیت لیے ہوئے اور زیادہ تر پنجابی اردو کہی جاتی تھی۔ ‘‘(۹٩)
یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ بیدی پنجاب کے رہنے والے تھے اور اقبال کی طرح ان کی مادری زبان بھی پنجابی تھی۔ وہ اردو کے اہلِ زبان نہ تھے۔ اردو ان کی اکتسابی زبان تھی اور ان کے نزدیک ثانوی یا دوسری زبان کا درجہ رکھتی تھی۔ یہ ایک بد یہی حقیقت ہے کہ تحریر و تقریر میں کوئی بھی شخص ثانوی زبان پر مادری زبان جیسی قدرت حاصل نہیں کر سکتا۔ خود اقبال کو پنجابی نژاد ہونے کہ وجہ سے اردو پر اہلِ زبان جیسی قدرت اور مہارت حاصل نہ تھی، اگر چہ انھوں نے داغ کی شاگردی اختیار کی تھی۔ چنانچہ ان کی زبان پر اہلِ زبان کی جانب سے مسلسل اعتراضات ہوتے رہے۔ اقبال کو اپنی اس کمزوری کا خود بھی احساس تھا۔ ان کی تحریروں میں کہیں کہیں ان اعتراضات کا ردِ عمل بھی پایا جاتا ہے، لیکن یہ ردِ عمل بقول پروفیسر مسعود حسین خاں بہت معتدل اور متوازن ہے۔ (۱۰)
’اہلِ زبان‘ (Native speaker) کی لسانیاتی اصطلاح سے مراد وہ شخص ہے جس نے کسی زبان کی تحصیل مادری زبان یا پہلی زبان کی حیثیت سے کی ہو۔ اگر کوئی شخص پہلی زبان (مادری زبان) سیکھنے کے بعد کسی دوسری زبان کا شعور حاصل کرتا ہے تو وہ ’زبان داں‘ کہلاتا ہے۔ اقبال کی طرح بیدی بھی اردو کے ’اہلِ زبان‘ نہ تھے بلکہ ’ زبان داں‘ تھے، کیوں کہ اردو ان کی ثانوی زبان تھی۔ بقول پروفیسر مسعود حسین خاں ’’زبان داں کو (چاہے وہ ہمسایہ بولی ہی کاکیوں نہ ہو) اہلِ زبان کے محاورے اور روز مرہ پر قدرت حاصل کرنے میں کئی دقتوں کا سامنا ہوتا ہے۔ اس کے یہاں اکثر قواعد کی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ وہ الفاظ و محاورات کے ان نازک اختلافات سے واقف نہیں ہوتا (یا کم تر ہوتا ہے) جن کا بر محل استعمال شاعری کی جان ہے۔ تذکیر و تانیث کا جھگڑا، فعالِ مرکبہ کا ہیر پھیر اور حروف کا برمحل استعمال، اس کے لیے ہمیشہ سوبانِ روح رہتا ہے اور اس لیے اسے اہلِ زبان کے استہزا کا شکار ہونا پڑا ہے۔ بید کی زبان کے جن نقائص کی طرف اردو کے نقادوں نے اشارہ کیا ہے ان کے پس پردہ ایک ’زبان داں‘ کی وہ تمام لسانی خصوصیات کارفرما ہیں جن کی طرف اقتباسِ بالا میں اشارہ کیا گیا ہے، زبان کے استعمال میں ایک زبان داں سے اہلِ زبان کی سی توقعات وابستہ کرنا کسی بھی طرح روا نہیں۔ اقبال بھی اہل زبان کی توقعات کو پورا نہیں کر سکے۔ اقبال کے مقابلے میں بیدی تو یقیناً کم پڑھے لکھے تھے۔ ان کا اساتذہ کے کلام کا مطالعہ بھی اقبال کے برابر نہیں رہا ہو گا۔ بیدی کو داغ جیسے استاد کی شاگردی بھی نصیب نہیں ہوئی تھی کہ اہلِ زبان کی سند ملتی۔ لہٰذا بیدی اپنے ادبی اظہار کے لیے ایک نیا محاورہ یا ایک نئی زبان جو اہلِ زبان کی کسوٹی پر پوری اترتی کہاں سے لاتے۔
لاہور اردو کا ایک اہم مرکز ضرور رہا ہے لیکن زبان کے معاملے میں اس سے وہی توقعات وابستہ کرنا جو اردو کے دوسرے مراکز مثلاً دہلی اور لکھنؤ سے وابستہ کی جاتی ہیں مناسب نہیں۔ یہ مرکز اردو کے اصل مراکز سے دور واقع ہوا ہے جہاں کی علاقائی زبان پنجابی ہے اردو کے پنجابی ادیب اپنی عام بول چال اور روز مرّہ کی گفتگو میں بہ طورِ مادری زبان جب پنجابی کا استعمال کرتے ہیں جو نہایت فطری عمل ہے تو انھیں اردو کے روزمرّہ سے کیوں کر واقفیت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح جب ان کے لاشعور میں پہلی زبان گھر کر چکی ہے تو وہ ثانوی زبان کے تغیر و تبدل، حزم و احتیاط اور صحتِ الفاظ کا شعور کس طرح حاصل کر سکتے ہیں۔ انھیں اکتسابی طور پر زبان کی بنیاد ہئیت اور نحوی قاعدوں کا علم تو حاصل ہو سکتا ہے جسے نوام چامسکی نے لسانی مہارت (Linguistic competence) کا نام دیا ہے، لیکن اصل سماجی اور تہذیبی سیاق وسباق میں زبان کی اس بنیادی ہئیت کو کس طرح بروئے کار لایا جائے۔ اس کا وجدان صرف اہل زبان کو ہی حاسل ہوتا ہے۔ سماجی لسانیات کے ایک امریکی عالم ڈیل ہائمز نے چامسکی کے اس نظریے کو چیلنج کرتے ہوئے زبان کی ترسیلی مہارت (Communicative competence) کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ (۱۱) زبان کی ترسیلی مہارت لسانی مہارت کے آگے کی منزل ہے جس میں زبان کی بنیادی ہئیت سے زیادہ اس کے روزمرّہ سے واقفیت ضروری سمجھی جاتی ہے، اور کہاں کب اور کس سے کیا بولا جائے اور کیسے بولا جائے کی اہمیت پر زور دیا جاتا ہے۔ زبان کی ترسیلی مہارت سماجی و تہذیبی سیاق و سباق میں زبان کے مناسب و موزوں اور موثر استعمال کے وجدانی شعور کا نام ہے۔ میرے خیال میں بیدی کے یہاں لسانی مہارت کی کمی نہیں بلکہ ترسیلی مہارت کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ان کی زبان میں کہیں کہیں جھول پیدا ہو گیا ہے اور بعض اوقات ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زبان پٹری سے اتر گئی ہے۔
کوئی بھی زبان جب غیر اہل زبان کے ہاتھوں بروئے جا پڑتی ہے اور اس میں ایک قسم کی مغائرت پیدا ہو جاتی ہے، نیز اس میں مقامی یا علاقائی رنگ جھلکنے لگتا ہے۔ بیدی کی زبان پر پنجابیت یا پنجابی پن کا جو اعتراض کیا جاتا ہے اس کی واحد وجہ یہی ہے۔ اقبال کی زبان بھی مقامی اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکی تھی۔ لاہور کی مرکزیت اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن وہاں کی علاقائی لسانی خصوصیات اردو زبان کا جزو کبھی نہیں بن سکیں ان کے خلاف اردو والوں میں ہمیشہ ردِ عمل رہا۔ اس کے برخلاف اردو کے دوسرے مراکز کی علاقائی لسانی خصوصیات اردو میں اس درجہ مدغم ہوئیں کہ وہ اردو زبان کی اپنی خصوصیات بن گئیں۔ اردو کا اصل مرکز قدیم زمانے سے شہر دہلی رہا ہے۔ لیکن سیاسی مصلحتوں کے زیرِ اثر اردو نے اپنا ایک دوسرا مرکز دور دراز خطۂ دکن کو بنایا۔ اردو کا ایک اور اہم مرکز لکھنؤ قرار پایا۔ لسانی اعتبار سے دکن مراٹھی اور دراوڑی زبانوں کا اور لکھنؤ اودھی کا مرکز تھا۔ قدیم اردو پر دکنی اثرات بہت واضح ہیں۔ انھیں قدیم اردو کی خصوصیات مان لیا گیا ہے، اسی طرح اُردو پر اودھی بولی کے اثرات آج بھی پائے جاتے ہیں جنھیں اردو ہی کی خصوصیات سمجھ لیا گیا ہے۔ کسی زمانے میں آگرہ بھی جو برج کے علاقے میں واقع ہے، اردو کا مرکز تھا۔ وہاں کے علاقائی لسانی اثرات بھی اردو میں مدغم ہو گئے۔ لیکن اردو کی ادبی تاریخ کا یہ نہایت اہم واقعہ ہے کہ اردو اپنے ایک اہم مرکز لاہور کے علاقائی لسانی اثرات کو ابھی تک اپنے اندر ضم نہیں کر سکی ہے۔ اس کی وجہ شاید اہلِ زبان اور اہل پنجاب کی روایتی لسانی چشمک ہے۔ اگر پنجاب کی علاقائی لسانی خصوصیات کو اردو نے اپنا لیا ہوتا تو بیدی کی زبان پر آج جو اعتراضات کیے جا رہے ہیں وہ شاید نہ کیے جاتے۔
(۲)
بیدی کی زبان کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے وقت یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ نہ صرف یہ کہ خود بیدی پنجاب کے رہنے والے تھے بلکہ ان کے افسانوں کے بیشتر کرداروں کا تعلق بھی سرزمینِ پنجاب سے ہے۔ زبان کے سلسلے میں یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ بیدی کے زیادہ تر کردار متوسط طبقے کے ہندو اور سکھ گھرانوں کے افراد ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کرداروں کی زبان اعلیٰ معیار اردو یا جسے نستعلیق اردو کہتے ہیں نہیں ہو سکتی تھی، ان کی زبان میں لکھنؤ کی شیرینی، تکلف اور تصنع کی تلاز بھی بے معنی ہے۔ اسی طرح ان کی زبان میں دہلی کی زبان کی سادگی اور پُرکاری کی جستجو بھی کارِ عبث ہے۔ دہلی کی زبان صدیوں کی تراش خراش اور کاٹ چھانٹ کے بعد’ چوکھی‘ ہوئی تھی۔ لکھنؤ کے مخصوص سماجی اور تہذیبی حالات اور ماحول و فضا نے زبان کے مزاج و منہاج پر بھی اثر ڈالا تھا اور وہاں کی زبان نے دہلی سے الگ ہٹ کر اپنا ایک مخصوص محاورہ، لہجہ، انداز اور رنگ متعین کر لیا تھا جو لکھنؤ کا اپنا رنگ تھا۔ ظاہر ہے کہ اہلِ لاہور اس کی پیروی نہیں کر سکتے تھے کیوں کہ انھیں وہ فضا اور ماحول کی وہ رنگینی کہاں سے ملتی جو اس قسم کی زبان کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری تھی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی زبان ایک الگ تھلگ راستے پر پڑ کر علاقائی لسانی اثرات کی زد میں آ گئی۔ بیدی کی زبان کا ’کھُردرا پن‘ یا ’اکھڑپن‘ اس کی بھرپور غمازی کرتا ہے۔
یہ بات نہایت اہم اور لائق ستائش ہے کہ بیدی نے اپنی کہانیوں میں زبان کے استعمال میں تصنع یا رکھ رکھاؤ سے کام نہیں لیا ہے۔ جس طرح وہ اپنے کرداروں کو ان کے حقیقی رنگ میں پیش کرتے ہیں اور ان کے جذبات و نفسیات کے بیان میں فطری انداز اختیار کرتے ہیں اسی طرح انھوں نے زبان کے استعمال میں بھی حقیقت پسندی سے کام لیا ہے اور کرداروں کی گفتگو، بول چال، طعنہ و تشنیع، نیز پیار و محبت اور نفرت و حسد کے جذبے کے اظہار میں انہیں کی زبان سے کام لیا ہے۔ یہاں باقر مہدی کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ’’بیدی کی زبان پر اکثر اعتراض کیا جاتا ہے۔ لیکن معترضین یہ بھول جاتے ہیں کہ بیدی اپنے کرداروں کے ذریعے خود ہم کلام نہیں ہوتے، بلکہ اکثر ان کی ہی زبان لکھتے ہیں۔ ‘‘(۱۲)
پہلے کہا جا چکا ہے کہ بیدی کے افسانوی کردار متوسط طبقے کے سکھ اور ہندو گھرانوں کے افراد ہیں جن میں سے بیشتر کا تعلق سرزمین پنجاب سے ہے، لہٰذا وہ اہلِ زبان کی جیسی شگفتہ، با محاورہ، ٹکسالی اور نستعلیق اردو جس کی نوک پلک ہر طرح سے درست ہو کیسے بول سکتے تھے۔ اور بیدی جو سکھ بھی تھے اور پنجابی بھی، زبان کے معاملے میں اہلِ زبان کی توقعات کس طرح پوری کر سکتے تھے۔ یہ توقعات تو پریم چند بھی جو یوپی کے رہنے والے تھے پوری نہ کر سکے۔ پریم چند کی اردو بھی ہندی اور اردو کی ایک ملواں شکل ہے جس میں مقامی اثرات بھی شامل ہو گئے ہیں۔ بقول پروفیسر گوپی چند نارنگ ’’پریم چند کی اردو ادنیٰ سی تبدیلی کے ساتھ ہندی بن جاتی ہے اور ان کی ہندی ادنیٰ سی تبدیلی سے اردو۔ ‘‘( ۱۳) اسی زبان کو عرفِ عام میں ’ہندوستانی‘ کہا گیا ہے۔ یہ زبان اہلِ زبان کی معیاری اردو پر پوری نہیں اترتی اور نہ ہی اردو کے بنیادی اسلوب کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پریم چند کے کردار سماج کے نچلے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور Rural-basedہیں۔ یعنی جن کی سماجی اور تہذیبی جڑیں دیہی علاقوں میں پیوست ہیں اور اردو کا مزاج جیساکہ ہم جانتے ہیںUrban-basedہے۔ لہٰذا بیدی کی طرح پریم چند کی بھی دشواری یہی تھی کہ وہ اعلیٰ معیاری زبان جسے اہل زبان استعمال کرتے ہیں اپنی کہانیوں میں نہیں برت سکتے تھے۔ مقامی لسانی اثرات سے پریم چند کی زبان بھی پاک نہیں، لیکن پھر بھی پریم دن کی زبان کو ٹھیٹھ اور ٹکسالی اردو کہا گیا ہے اور جو اعتراضات بیدی کی زبان پر کیے گئے وہ پریم چند کی زبان پر نہیں کیے گئے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پریم چند نے اردو کی تحصیل پہلی زبان کی حیثیت سے کی تھی اور بیدی نے دوسری یا ثانوی زبان کی حیثیت سے چنانچہ اردو کا جو لسانی شعور اردو زبان کے استعمال کا جو وجدان پریم چند کو ورثے میں ملا تھا وہ بیدی کو حاصل نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پریم چند کی اردو خارجی لسانی عوامل کی کارفرمائی کے باوجود اردو کا ایک معیار متعین کرتی ہے۔
جس طرح زبان پر اعتراضات کا ردِ عمل اقبال کے یہاں ملتا ہے اسی طرح بیدی کے یہاں بھی کہیں کہیں یہ رد عمل دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ لیکن اس معاملے میں بیدی کا انداز بھی اقبال کی طرح معتدل اور متوازن رہا ہے۔ بیدی نے کبھی اس کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی کہ لوگ ان کی زبان کے بارے میں کیا کہتے ہیں، بلکہ وہ اپنے فن کو نکھار نے اور سنوارنے میں لگے رہے اور اسی کی گہرائیوں میں اترتے چلے گئے۔ ورنہ آج وہ اعلیٰ فن کارانہ بن پاتے، بیدی یہ بات بہ خوبی جانتے تھے کہ وہ زبان پر اہلِ زبان جیسی قدرت تو نہیں حاصل کر سکتے البتہ اپنے فن کو ضرور نکھار سکتے ہیں۔ اسی لیے بیدی کی زبان کی خامیاں ان کے فن کی خوبیوں کے آگے ماند پڑ گئیں ورنہ اس معاملے میں تو اہلِ زبان نے اقبال کو بھی نہیں بخشا تھا۔ بیدی کے اعلیٰ فن کار ہونے کا اندازہ تو ان کے افسانوں کے پہلے مجموعے دانہ و دام کی ہی اشاعت سے ہو گیا تھا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ بیدی نے فن پر توجہ شروع ہی سے دینا شروع کر دی تھی۔ منٹو نے بیدی کے نام اپنے ایک خط میں اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’بیدی، تمہاری مصیبت یہ ہے کہ تم سوچتے بہت زیادہ ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ لکھنے سے پہلے سوچتے ہو، لکھتے ہوئے سوچتے ہو اور لکھنے کے بعد بھی سوچتے ہو۔ ‘‘( ۱۴)
بیدی نے نقشِ ثانی کو ہمیشہ نقش اول پر ترجیح دی۔ وہ اپنی لکھی ہوئی چیزوں میں ہمیشہ کاٹ چھانٹ اور ایراد و اضافہ کرتے رہے، اور بعض اوقات پھاڑ کر بھی پھینکتے رہے۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’میری کہانیوں میں کہانی کم اور مزدوری زیادہ ہے۔ ‘‘(۱۵) انھوں نے ایک جگہ اور کہا ہے کہ ’’سکھ اور کچھ ہوں یا نہ ہوں کاری گر اچھے ہوتے ہیں اور جو کچھ بناتے ہیں ٹھوک بجا کر اور چول سے چول بٹھا کر بناتے ہیں۔ ‘‘(۱۶) یہ تمام باتیں اس امر کی مظہر ہیں کہ بیدی فن میں پختگی اور گہرائی کے کس قدر متلاشی تھے۔
زبان پر اعتراضات کاردِ عمل بیدی کے اس جملے سے ظاہر ہوتا ہے جس میں طنز کے نشتر بھی ہیں۔
’’ایک طرف مجھے فن اور دوسری طرف زبان سے لوہا لینا تھا۔ اہل زبان اس قدر بے مروت نکلے کہ انھوں نے اقبال کا بھی لحاظ نہ کیا۔ ‘‘( ۱۷)
اہل زبان پنجابی لہجے کو جس طرح اپنے استہزا کا شکار بناتے تھے، بیدی کو اس کا پورا علم تھا۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’کسی سے پوچھا آپ اقبال سے ملے تو کیا بات ہوئی بولے، کچھ نہیں۔ میں جی ہاں، جی ہاں، کہتا رہا اور وہ ’ہاں جی‘ ہاں جی‘ کہتے رہے۔ ‘‘(۱۸)
بیدی کو اس بات کا پورا احساس تھا کہ ان کی زبان میں ’کھُردرا پن‘ اور ’’اُکھڑا پن‘ پایا جاتا ہے۔ لیکن افسانے کی زبان کے لیے وہ اس کو صرف جائز ہی نہیں بلکہ ضروری بھی سمجھتے تھے اپنی ایک تحریر میں وہ اس کا جواز یوں پیش کرتے ہیں:
’’شعر، فی الخصوص غزل میں آپ عورت سے مخاطب ہیں، لیکن افسانے میں کوئی ایسی قباحت نہیں آپ مرد سے بات کر رہے ہیں، اس لیے زبان کا اتنا رکھ رکھاؤ نہیں۔ غزل کا شعر کسی کھردرا پن کا متحمل نہیں ہو سکتا، لیکن افسانہ ہو سکتا ہے۔ بلکہ نثری نژاد ہونے کہ وجہ سے اس میں کھردرا پن ہونا ہی چاہیے، جس سے وہ شعر سے ممیز ہو سکے۔ دنیا میں حسین عورت کے لیے جگہ ہے تو اکھڑا مرد کے لیے بھی ہے، جو اپنے اکھڑ پن ہی کہ وجہ سے صنفِ نازک کو مرغوب ہے۔ فیصلہ اگرچہ عورت پہ نہیں، مگر وہ بھی کسی ایسے مرد کو پسند نہیں کرتی جو نقل میں بھی اس کی چال چلے، ہمارے نقادوں نے افسانے کو داد بھی دی تو نظم کے راستے سے ہو کر، نثر کی راہ سے نہیں، جس سے اچھے اچھے افسانہ نگاروں کی ریل پٹری سے اتر گئی۔ ‘‘(۱۹)
زبان اور تہذیب کا آپس میں بہت گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ زبان پر تہذیبی اثرات کا پڑنا امر لازمی ہے۔ اسی طرح زبان تہذیبی عوامل کو بھی متاثر کرتی ہے۔ لیکن اس سے زیادہ وہ تہذیبی اور سماجی اثرات کو قبول کرتی ہے۔ معاشرے میں رو نما ہونے والی گوناگوں تبدیلیاں زبان میں منعکس ہوتی رہتی ہیں جس سے نہ صرف زبان کا ڈھانچہ متغیر ہوتا ہے بلکہ اس کے ذخیرۂ الفاظ میں بھی حک و اضافے کا عمل جاری رہتا ہے۔ زبان کے مطالعے سے تہذیب کے مطالعے کا کام بھی لیا گیا ہے۔ زبان محض تہذیب کا جزو ہی نہیں، اس کی بنیاد بھی ہے۔ بیدی نے اپنی کہانیوں میں جس تہذیب و معاشرے کی عکاسی کی ہے وہ سکھ اور ہندو تہذیب و معاشرہ ہے جس کہ جڑیں اساطیری یا دیومالائی حدود سے بھی جا ملتی ہیں۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنے ایک مضمون میں ان تمام اساطیری عناصر کی نشان دہی کی ہے جن کے امتزاج سے بیدی کی کہانیوں کا تانا بانا تیار ہوتا ہے۔ ہندو تہذیب و معاشرے کی عکاسی اور اساطیری فضا کی نمائندگی کے لیے سنسکرت اور پراکرت کے لسانی اسلوب اور ذخیرۂ الفاظ کا ہی سہارا لیا جاتا تو اس مخصوص تہذیبی فضا کی صحیح اور سچّی نمائندگی نہیں ہو سکتی تھی اور نہ ہی اس تہذیبی اور اساطیری عناصر کی عکاسی ممکن تھی۔ کیوں کہ عربی اور فارسی کا لسانی سلسلہ بہرحال اسلامی تہذیب سے جا کر ملتا ہے۔ اردو اگرچہ ایک ہند آرائی زبان ہے لیکن اسلامی تہذیب کے ساتھ اس کی زبردست ہم آہنگی کے سبب سنسکرت، پراکرت اور اپ بھرنش کی قدیم لسانی روایتوں سے اس کا رشتہ بالکل ٹوٹ ساگیا ہے۔ بیدی کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی کہانیوں کی زبان کے ذریعے اس رشتے کو استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ صحیح معنوں میں بیدی کی کہانیوں کی اساطیری اور تہذیبی فضا اسی اسلوب میں منعکس ہوئی ہے۔ اسی لیے بیدی کی زبان کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ زبان اردو کے بنیادی دھارے سے ہٹی ہوئی ہے۔ اردو کے بنیادی دھارے میں عربی اور فارسی کے لسانی اشتراک کو امتیازی حیثیت حاصل ہے، جب کہ بیدی کی زبان میں سنسکرت اور پراکرت کی لسانی اور تہذیبی روایات کی حد درجہ پاسداری ملتی ہے۔
اردو کے بنیادی اسلوب اور بیدی کی زبان میں حد درجہ مغائرت پائی جاتی ہے۔ اس کی اصل وجہ غالباً یہی ہے کہ ان کے یہاں ہندی اور سنسکرت الفاظ کا تناسب نسبتاً زیادہ ہے جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ اردو کے اسلوب میں عربی اور فارسی کے ذخیرۂ الفاظ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، لیکن اس سے میری یہ مراد ہرگز نہیں کہ اردو میں ہندی نژاد الفاظ نہیں ہیں۔ اردو میں ہندی کے نرم و نازک، سبک و شیریں اور ٹھیٹھ الفاظ کی کمی نہیں، بلکہ ان کا تناسب عربی اور فارسی الفاظ سے کہیں زیادہ ہے، لیکن بول چال اور عام گفتگو کی زبان سے قطع نظر کسی بھی علمی اور ادبی کاوش میں عربی فارسی الفاظ و تراکیب کا استعمال ناگزیر ہے۔ انشاءاللہ خاں انشاء کی رانی کیتکی کی کہانی اور آرزو لکھنوی کی سریلی بانسری اردو میں لسانی اسلوب کے اعتبار سے مستثنیات کا درجہ رکھتی ہیں جن میں عربی اور فارسی الفاظ سے عمداً اور التزاماً بچنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ اردو کا فطری اسلوب نہیں ہے اور نہ ہی بنیادی یا معیاری اسلوب کہا جا سکتا ہے۔ اسی لیے یہ اسلوب مقبول نہ ہو سکا اور یہ ادیب خود بھی اس اسلوب کو اپنی دوسری تحریروں میں قائم نہ رہ سکے۔ جہاں اردو کے بنیادی اسلوب میں عربی اور فارسی الفاظ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے وہیں سنسکرت کے ’تتسم‘ الفاظ اور ہندی لفظیات سے یکسر گریز بھی پایا جاتا ہے۔ جدید اردو نے سنسکرت کے ’’تتسم‘ الفاظ کو بالکل نظرانداز کر دیا ہے۔ اور پراکرت اور اپ بھرنش کے صرف ان الفاظ کو اپنے دامن میں جگہ دی ہے جو ’تدبھو‘ کہلاتے ہیں اور صدیوں کی تراش خراش، کاٹ چھانٹ اور تغیر و تبدل کے بعد سبک ، شیریں اور نرم بن گئے ہیں۔ اس کے برخلاف بیدی کے یہاں سنسکرت اور ہندی نژاد الفاظ کا بے پناہ ذخیرہ پایا جاتا ہے۔ جو اردو کے کسی دوسرے ادیب حتیٰ کہ پریم چند کے یہاں بھی نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ بیدی کی زبان میں اجنبی پن پیدا ہو گیا ہے اور یہ اردو کے بنیادی لسانی اسلوب سے ہٹی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اس سے یہ ہرگز نہیں سمجھنا چاہیے کہ بیدی نے عربی اور فارسی الفاظ کا استعمال نہیں کیا ہے۔ ان کے یہاں ان الفاظ کا ایک خاص تناسب پایا جاتا ہے، بلکہ بعض جگہ تو ان الفاظ کا استعمال اتنا شدید ہوا ہے کہ بہت گراں گزرتا ہے جس کی وجہ سے عبارت ثقیل اور پیچیدہ ہو گئی ہے، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بیدی کے یہاں عربی فارسی اور ہندی الفاظ کا تناسب برقرار نہیں رہنے پایا ہے اور جب تک ان زبانوں کے الفاظ ایک خاص تناسب میں استعمال نہ کیے جائیں۔ اردو کے بنیادی اسلوب کا برقرار رکھنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس خیال کی تائید میں پروفیسر اسلوب احمد انصاری کے ایک مضمون ’’نثر کا آہنگ‘‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’اردو نثر کے بنیادی اسٹائل سے یہ مراد نہیں ہے کہ اس میں صرف فارسی یا صرف ہندی الفاظ کی مناسب ترتیب کو کام میں لایا جائے، بلکہ یہ کہ مختلف اجزاء کا ایسا تناسب اور توازن برقرار رکھا جائے جو زبان کی فطانت سے میل کھائے۔ ‘‘(۲۰)
لیکن بیدی نے تناسب اور توازن کی پروا کیے بغیر مخصوص تہذیبی اور اساطیری فضا کی نمائندگی کے لیے سنسکرت اور ہندی کی لسانی روایات سے بھرپور استفادہ کیا ہے اور ایسا کرنا ان کے لیے ناگزیر تھا کہ اس کے بغیر وہ اپنی کہانیوں کی تہذیبی اور اساطیری فضا میں نہ تو حقیقی رنگ بھر سکتے تھے اور نہ ہی معنی و اظہار میں ہم آہنگی پیدا کر سکتے تھے۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ نے بیدی کی کہانیوں کی استعاراتی اور اساطیری فضا پر بہت زور دیا ہے ،(۲ ۱) لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیدی کی کہانیوں کی تہذیبی فضا اساطیری فضا سے زیادہ اہم ہے ، کیوں کہ اساطیری عناصر و عوامل کی کار فرمائی ایک مخصوص تہذیبی سیاق و سباق میں ہی حقیقی روپ اختیار کرتی ہیں اور سماج کے چلتے پھرتے کرداروں کے اعتماد و حرکات اور فکری پس منظر میں ہی ان کا انعکاس ہوتا ہے۔ ’’گرہن‘‘ کے راہو اور کیتو اگرچہ اساطیری روایات کے حامل ہیں لیکن کہانی کے دو اہم کردار بھی ہیں۔ ہولی جو ’’گرہن‘‘ کا مرکزی کردار ہے، اس کی ساس راہو ہے اور اس کا شوہر کیتو۔ یہ دونوں اس مخصوص تہذیب و معاشرے کا حصہ ہیں جس کی نمائندگی بیدی نے اپنی اس کہانی میں کی ہے ہے۔ بلکہ اپنی مخصوص تہذیبی اور سماجی کارکردگی ہی کی وجہ سے انھیں راہو اور کیتو کی اساطیری حیثیت دی گئی ہے۔ ’’ اپنے دکھ مجھے دے دو ‘‘کی تہذیبی اور معاشرتی فضا کافی بسیط ہے۔ اس کی حدیں ہندوؤں کے مذہبی تصورات سے بھی جا ملتی ہیں جن کو سمجھے بغیر کہانی کو اچھی طرح نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس کے تمام اہم کردار اساطیری روایات کے بھی حامل نظر آتے ہیں۔ اندو اس کہانی کا مرکزی نسوانی کردار ہے جس سے بیدی نے بھر پور حسن مراد لیا ہے۔ کیونکہ اندو پورے چاند کو کہتے ہیں۔ وہ ’’حسن و محبوبیت‘‘ کا مرقع ہے۔ مدن اندو کا شوہر ہے جو عشق و محبت کے دیوتا کام دیو کا استعارہ ہے۔ اس کہانی میں بیدی کی تمام تر توجہ عورت(اندو) کی کردار نگاری پر صرف ہوئی ہے۔ عورت کو انھوں نے ہر زاوئے سے دیکھا ہے اور اسے ہر رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے، یہاں تک کہ ’’ازلی اور ابدی‘‘ عورت کے روپ میں بھی۔ ’’اپنے دکھ مجھے دے دو ‘‘ کی اندو کبھی دروپدی، کبھی ساوتری ، کبھی سیتا اور کبھی جسودھا کا روپ اختیار کرتی ہے۔ بیدی کے یہاں عورت کا ہمہ گیر اور آفاقی تصور پایا جاتا ہے جو بقول پروفیسر گوپی چند نارنگ ’’اپنی اصل کے اعتبار سے شیو مت کے شکتی اور تانترک عقائد سے ملتا جلتا ہے۔ (۲۲) لیکن جیسا کہ نارنگ صاحب کا خیال ہے کہ اس کہانی کی ساری فضا ویشنو مت سے ماخوذ ہے اور دروپدی ، ساوتری اور سیتا سب ویشنو تصورات ہیں۔ اس کے برخلاف ’’ایک چادر میلی سی ‘‘ کی ساری اساطیری فضا شیو مت سے ماخوذ ہے۔ بیدی نے اپنی مشہور کہانی ’’لاجو نتی‘‘ میں راماین کی کتھا اور سیتا کے اغوا کا ذکر کیا ہے، ’’ببّل‘‘ میں لڑکی کے کردار میں سیتا کے کردار کی جھلک پیش کی گئی ہے اور خود ننھا ببل بالک کرشن کی یاد دلاتا ہے۔ ’’ بلّی لڑکی‘‘ میں گیتا ہمیشہ دادی کے سرہانے کھلی رکھی رہتی ہے۔ کہانی کے شروع ، درمیان اور آخر میں کئی جگہ گیتا کا ذکر آتا ہے۔ گیتا کا ’’شیڈ شمایت ‘‘ اس وقت ہوتا ہے جب دادی اس دنیا سے اُٹھ جاتی ہے۔ بیدی نے اپنی دوسری کہانیوں میں ہندو اور سکھ گھرانوں کی تہذیب و معاشرت کا نقشہ کھینچا ہے اور کانی کی توسیع میں اساطیری فضا سے کام لیا ہے۔
ان تمام باتوں کا اظہار اردو کے بنیادی اسلوب کے ذریعے ممکن نہیں تھا۔ اردو کا بنیادی اسلوب جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے ایک مناسب حد تک ہندی نژاد الفاظ متحمل ہو سکتا ہے، لیکن بیدی کی مشکل یہ تھی کہ ان کی کہانیوں میں جس طرح کے کردار نظر آتے ہیں اور ان میں جو تہذیبی اور اساطیری فضا پائی جاتی ہے اس کی صحیح اور سچی عکاسی ور سنسکرت اور ہندی الفاظ کے ایک مخصوص تناسب کا سہارا لیے بغیر نہیں کر سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بیدی کہانی کے ماحول اور اس کے تہذیبی پس منظر کی عکاسی میں جتنے کامیاب نظر آتے ہیں ، اردو کے بنیادی اسلوب کو برقرار رکھنے میں اتنے ہی ناکام رہتے ہیں۔ اردو کے بنیادی اسلوب سے یہ انحراف بیدی کا اپنا اسلوب بن گیا۔ یہ چیز بیدی کو ان کو ہم عصروں کرشن چندر ، منٹو وغیرہ سے ممتاز کرتی ہے۔ نلز ایرک انکوسٹ کے نزدیک اسلوب کی تعریف بھی یہی ہے۔ وہ زبان کے مروجہ اصولوں سے انحراف کو اسلوب کا نام دیتا ہے (۲۳) ۔ یہ انحراف صوتی سطح پر بھی ہو سکتا ہے، الفاظ کی سطح پر بھی اور نحوی، قاعدوں سے جب بھی انحراف ہوتا ہے، ایک نئے اسلوب کی بنیاد پرتی ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جب کوئی ادیب یا شاعر کسی نئے انداز، کسی نئے آہنگ یا کسی نئے اسلوب کی تشکیل کرتا ہے تو لوگ اس کا اعتراف نہیں کرتے اور ناک بھوں چڑھانے لگتے ہیں۔ غالب نے اپنے دور کی مروجہ زبان اور اندازِ بیان سے ہٹ کر جب ایک نئے اسلوب کی بنیاد ڈالی تو آغا خان عیش کو یہ چیز بہت ناگوار معلوم ہوئی۔ اسی طرح اقبال نے جب روایتی انداز و آہنگ کو ترک کر کے زبان اور اسلوب کا ایک نیا آہنگ اختیار کیا تو پیارے صاحب رشید کو اقبال کا کالم سمجھنے میں سخت دشواری پیش آئی کیوں کہ وہ فطری طور پر اس نئے آہنگ سے مانوس نہیں تھے۔ جس طرح غالب اور اقبال نے مروجہ زبان اور اسلوب سے انحراف کے بعد ایک نئے اندازِ بیان اور ایک نئے اسلوب کی بنیاد ڈالی تھی اسی طرح بیدی نے بھی سنسکرت اور ہندی کی لسانی روایات کا سہارا لے کر اردو افسانے کو ایک نیا محاورہ (Idiom) اور ایک نیا اسلوب دیا۔ بیدی نے اپنے اسلوب اور زبان کے ذریعے ایک تہذیب کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ بیدی کے اسلوب کو اچھا یا برا کہنا درست نہیں۔ کوئی ادیب نہ تو اسلوب کو بگاڑتا ہے اور نہ زبان کو مسخ کرتا ہے۔ بلکہ وہ اپنے تخلیقی اظہار کے لیے اس میں جدت پیدا کرتا ہے، زبان کے نئے امکانات ڈھونڈ تا ہے، الفاظ کے نئے تلازمات تلاش کرتا ہے اور نئے لسانی تجربے بھی کرتا ہے یہی جدت اور رسم درہِ عام سے انحراف ایک نئے اسلوب کی تشکیل کا سبب بنتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیدی نے ایک نئے اسلوب کی تشکیل کی ہے۔ اس کا اندازہ صرف انھیں نقادوں کو ہو سکتا ہے جو اسلوب کا مطالعہ توضیحی (Descriptive) نقطۂ نظر سے کرتے ہیں نہ کہ تاثراتی یا داخلی نقطۂ نظر سے اسلوب کا تعلق فن پارے میں زبان کے استعمال سے ہے۔ ایک اسلوبیاتی نقاد مطالعۂ اسلوب کو اسی وقت سائنٹیفک اور معروضی بنا سکتا ہے جب وہ صرف یہ دیکھے کسی شاعر یا ادیب نے زبان کا استعمال کس طرح کیا ہے۔
اسلوب کا اس نوع کا مطالعہ توضیحی مطالعہ کہلاتا ہے ، لیکن جہاں نقاد نے یہ حکم لگانا شروع کر دیا کہ شاعر یا ادیب کو زبان کا استعمال کس طرح کرنا چاہیئے اور کس طرح نہیں کرنا چاہیئے، وہاں اس کا مطالعہ توضیحی کے بجائے ہدایتی (Prescriptive) اور امتناعی (Proscriptive) بن جاتا ہے۔ ادبی نقادوں نے اسلوب کا مطالعہ زیادہ تر اسی نقطۂ نظر سے کیا ہے اور ان کی تنقیدوں میں توضیحی انداز بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔
(۳)
بیدی کے اسلوب کو سمجھنے کے لیے ان کے ذخیرۂ الفاظ کا تجزیہ بہت ضروری ہے، بیدی نے عربی اور فارسی الفاظ کے علاوہ جو الفاظ استعمال کیے ہیں ان میں کثیر تعداد تتسم، یعنی خالص سنسکرت الفاظ کی ہے۔ اس کے بعد پراکرتی یا ہندی نژاد الفاظ میں جو تدبھو کہلاتے ہیں۔ یہ تمام الفاظ جنہیں آج اردو کا بنیادی اسلوب نظر انداز کر چکا ہے قدیم اردو کا قیمتی سرمایہ تھے۔ (۲۳) یہ صرف قدیم دکنی ادب بلکہ شمالی ہند کی قدیم تصانیف میں بھی ان الفاظ کی بہتات ہے۔ اٹھارویں صدی کے نصف میں شاہ حاتم اور مرزا مطہر جانِ جاناں نے تحریکِ اصلاحِ زبان کے نام پر ان تمام الفاظ کو چھانٹ چھانٹ کر اردو سے خارج کر دیا، اور آج ہمارے لیے یہ بالکل اجنبی بن گئے، بیدی کے یہاں ان الفاظ کی باز آفرینی پائی جاتی ہے۔
بیدی کے سنسکرت اور ہندی نژاد الفاظ کو ذیل کے تین زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: (الف) وہ الفاظ جو مخصوص مذہبی طبقے کے افراد کے نام ہیں جن سے ان کے مذہب کی شناخت ہوتی ہے۔ انھیں ’طبقاتی الفاظ‘ کہہ سکتے ہیں (ب) وہ الفاظ جو مخصوص تہزیبی اور مذہبی فکر کے نمائندہ ہیں انھیں ’تہذیبی الفاظ‘ کہہ سکتے ہیں (ج) وہ الفاظ جو بذاتِ خود تہذیبی الفاظ تو نہیں، لیکن تہذیبی سیاق و سباق میں استعمال ہوتے ہیں۔ انھیں و سیاقی الفاظ، کہہ سکتے ہیں ان تینوں زمروں کو ذہن میں رکھتے ہوئے بیدی کی چھے نمائندہ کہانیوں ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘،’’ گرہن‘‘، ’’لاجونتی‘‘، ’’ببّل‘‘، ’’ٹرمینس سے پرے‘‘ اور ’’ لمبی لڑکی‘‘ کے الفاظ ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں:
(الف) طبقاتی الفاظ:
· مدن، اندو، کندن، دُلاری، دھنی رام، دروپدی، ساوتری، ستیہ وان، جسودھا، نند لال، رام۔ (اپنے دکھ مجھے دے دو)
· ہولی، سیتل، وشنو، سدرشن، کتھو رام، راہو، کیتو، (گرہن)
· سندرلال، لاجونتی، نیکی رام، سیتا، رام چندر جی، کالکا پرشاد، لال چند، لہنا سنگھ، نیتو، (لاجونتی)
· درباری لالا، سیّا، گردھاری لال، بہاری لال، ستونتی، گن وتی، راما سوامی، گوپی، کنھیّا، لچھمن دئ، حُمد، جگ موہن۔ (ببّل)
· موہن، سومترا، اچلا، رام گدکری، دیبی، رام، رادھا، کیلاش، سیتا۔ (ٹرمینس سے پرے)
· شیلا، دیوندر تیاگی، جمنا، جگن ناتھ تیاگی، رلیا رام جمراج، گوتم، راجا جنک، سیّا، تلسی جی۔ (لمبی لڑکی)
(ب) تہذیبی الفاظ:
· دیوی، پرماتما، بھگوان، پرارتھنا، سمادھی، شمشان، وجے دشمی، پرساد، ارتھی، ڈنڈوت، جنم داتا، پرنام، چتا، شگن، اماوس، جناردھن، جنک دُلاری۔ (اپنے دکھ مجھے دے دو)
· مندر، شاستر، پرماتما، باپ، شنکھ، امرت، جات (گرہن)
· مندر، شاستر، پُران، شردّھالو، رماین، پریرنا، مہاستونتی، رام راج، شلوک، دید، دیوی۔ (لاجونتی)
· بھگوان، شاستر، ہنومان، دھنیہ داد (ببّل)
· نمستے، بھگوان، رکھشا بندھن، اشٹمی، پرارتھنا۔ (ٹرمینس سے پرے)
· گیتا، مہاتما، سنیاس، یوگی، کِرتن، نمسکار، دیوی، پُران، شاستر، ایشور، وید، آشیرواد، منتر، شلوک، دیو، سنسکار، مندر۔ (لمبی لڑکی)
(ج) سیاقی الفاظ:
· بھاگ، پاتال، پتا، شبد، من، سواگت، رسوئی، کارن، پاپ، وچن، دھنیہ، جیو، دُکھ، دکھی، چھایا، سمے، شانتی، دیا، کرونا، بھیانک، دھرتی، دھرم، شرن، چھما، پربت، لاج۔ (اپنے دکھ مجھے دے دو)
· سُندرتا، بیاج، کُل ودھو، اشنان، دیا، دان، مالا، دیس، پتنی، بیسوا۔ (گرہن)
· پربھات، سیوا، سمے، سہاگ دنتی، پرچار، کتھا، گربھوتی، ورنن، مان مریادا، نیتا، سیّہ، مہارانی، وشواس، پتنی، مہانتا، سنسار، نردوش، بدھائی، شُدھی، بن باس، دیپ، سورن مورتی، استھاپت، سماج، ہانی، من، سُدھارک۔ (لاجونتی)
· شُدھ، سمے، من، انیک، پتی، پَتا، راج، سویم، انگ، دکھ، چھما، وشواس، جنم، دھرتی، امرت، سواد، سیما، اپار، سُکھ، شانتی۔ (ببّل)
· مایا، لیلا، سمے، انش، سنگ، پتی، پتنی، سنسار، پاپ، شریر، تیوہار۔ (ٹرمینس سے پرے)
· پران، سمے، سواس، سماپتی، پاسٹھ، بھاگ، چرتر، شریر، گُپھا، سنسار، روگ، بھاشن، جیو، انت، ارتھ، اچّھا، کارن، شبد، درشن، مورکھ، بھید، انتر، وچار، پرکاش، شروتا، آکاش، کیندر، جیوتی، روپ، سپنا، سیما، گراس، دستر، بُدھوا، سویم، دان، اچارن، سواگت، اُچت، سبھا، ادھیائے، سماپتی، دھرتی، دھرم، ارتھی، سنسکار، داتاورن۔ (لمبی لڑکی)
بیدی کی تقریباً ہر کہانی میں مذکورہ تین قسم کے الفاظ مل جائیں گے۔ جو مذہبی ، تہذیبی و فکری نیز سیاق و سباق کے اعتبار سے ایک دوسرے سے پیوست ہیں۔ معنوی اعتبار سے ان میں اتنا گہرا رشتہ ہے کہ انھیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ پہلے زمرے کے الفاظ پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے ایک مخصوص مذہبی معاشرے میں سانس لینے والے افراد کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے اور جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے یہ ہندو اور سکھ معاشرہ ہے۔ دوسرے زمرے کے الفاظ اس معاشرے کی تہذیبی اور فکری نمائندگی کرتے ہیں۔ اور تیسرے زمرے کے الفاظ مخصوص سیاق و سباق میں استعمال ہو کر اس مخصوص تہذیب و معاشرے کی تصویر کشی میں حقیقی رنگ بھرتے ہیں۔ بیدی ان الفاظ کی جگہ عربی فارسی الفاظ بھی استعمال کر سکتے تھے، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا کیوں کہ اس سے ہندو تہذیب و معاشرت کی، جس کا نقشہ انھوں نے اپنی کہانیوں میں کھینچا ہے سچّی عکاسی ممکن نہیں تھی۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ بیدی کے یہاں عربی فارسی الفاظ بھی یہ کثرت استعمال ہوئے ہیں لیکن یہ تمام الفاظ عمومی الفاظ کے زمرے میں رکھے جا سکتے ہیں۔ عربی فارسی کے تہذیبی الفاظ بیدی نے بہت کم استعمال کیے ہیں کیوں کہ ان کی جگہ تو سنسکرت و ہندی نژاد الفاظ نے لے لی ہے۔ بیدی نے عربی فارسی (یا ترکی) کے تہذیبی الفاظ صرف وہیں استعمال کیے ہیں جہاں کسی مسلمان کردار کو پیش کیا ہے۔ مثال کے طور پر ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ میں ایک جگہ ایک مسلمان کردار سبطے کا ذکر آیا ہے۔ بیدی نے اس کی بیوی کے لیے ’بیگم‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، ’بیگم‘ ایک تہذیبی لفظ ہے جو صرف اس وجہ سے آیا ہے کہ سبطے کا ذکر کیا گیا ہے۔ ورنہ ہندو اور سکھ کرداروں کی بیوی کا بیدی نے جہاں کہیں بھی ذکر کیا ہے وہاں بالعموم لفظ ’پتینی‘ استعمال کیا ہے۔ ’’ اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو جس میں بیدی نے بیوی کے لئے لفظ ’بیگم‘ استعمال کیا ہے:
’’سبطے نے اس وقت اپنی بیوی سے بات چیت کی جب اس کی بیگم نے مدن کو مثالی شوہر کی حیثیت سے سبطے کے سامنے پیش کیا؛ پیش ہی نہیں کیا بلکہ منھ پر مارا۔ اس کو اٹھا کر سبطے نے بیگم کے منھ پر دے مارا۔ ‘‘
لیکن ’’لاجونتی‘‘ میں جہاں کی تہذیبی فضا بالکل بدلی ہوئی ہے، بیدی نے بیوی کے لیے ’پتنی‘ کا لفظ استعمال کیا ہے:
’’نارائن بابا نے اپنی داڑھی کی کھچڑی پکاتے ہوئے کہا ’’اس لیے کہ سیتا ان کی اپنی پتنی تھی، سندرلال! تم اس بات کی مہانتا کو نہیں جانتے۔ ‘
اسی طرح بیدی نے ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ میں ایک جگہ سلام دین گوجر کا ذکر کیا ہے اور اس کی مناسبت سے لفظ ’اللّٰہ‘ استعمال کیا ہے۔ ورنہ اپنی کہانیوں میں بیدی نے جہاں ہندو کرداروں کا ذکر کیا ہے، ان کی مناسبت سے، ’پرماتما‘ یا ’بھگوان‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ’’ اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ کے دو اقتباسات ملاحظہ ہوں:
’’اور پھر ایک دن سلام دین گو جر نے فرمائش کر دی۔ اندو سے کہا۔ ’’بی بی! میرا بیٹا آر۔ ایم۔ ایس۔ میں قلی رکھوا دو، اللّٰہ تم کو اجر دے گا۔ ‘‘
’’اور پھر سے لیٹے ہوئے بابو دھنی رام آسمان پر کھلے ہوئے پرماتما کے گلزار کو دیکھنے لگتے اور اپنے من کے بھگوان سے پوچھتے۔ ‘‘
ذیل میں بیدی کی کہانیوں سے چند جملے پیش کیے جاتے ہیں جن سے اندازہ ہو گا کہ مخصوص سیاق و سباق اور مخصوص تہذیبی و فکری پس منظر میں بیدی کے لیے ان الفاظ کا استعمال کتنا ناگزیر تھا۔ اسے تہذیبی تناسبات کا نام بھی دیا جا سکتا ہے بیدی کے یہاں دو یا دو سے زیادہ الفاظ کے استعمال میں زبردست تہذیبی تناسب پایا جاتا ہے۔ بیدی جب کسی طبقاتی لفظ کا انتخاب کرتے نہیں تو اس کی مناسبت سے انھیں تہذیبی لفظ کا بھی انتخاب کرنا پرتا ہے۔ اور پھر تہذیبی لفظ کی مناسبت سے سیاقی لفظ کا انتخاب ان کے لیے ناگزیر ہو جاتا ہے۔ کہانی کا تانا بانا طبقاتی لفظ سے تیار ہوتا ہے۔ تہذیبی لفظ گوشت پوست کا کام دیتے ہیں اور سیاقی الفاظ کہانی کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ بیدی کے ذخیرۂ الفاظ کی اوپری پرت طبقاری الفاظ پر مشتمل ہے، درمیان میں تہذیبی الفاظ اور نچلی سطح پر سیاقی الفاظ آتے ہیں۔
طبقاتی الفاظ تعداد میں بہت کم ہوتے ہیں۔ یعنی کسی کہانی میں جتنے کردار یا اشخاص ہوتے ہیں اتنے ہی طبقاتی الفاظ پائے جاتے ہیں۔ تہذیبی الفاظ طبقاری الفاظ سے زیادہ ہوتے ہیں۔ سیاقی الفاظ کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے۔ ان کی تعداد مذکورہ دونوں قسم کے الفاظ کی تعداد سے زیادہ ہوتی ہے۔ ذیل کے مثلث سے طبقاری، تہذیبی اور سیاقی الفاظ کے حجم اور سطحات کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے:
طبقاتی الفاظ |
تہذیبی الفاظ |
سیاقی الفاظ |
بیدی جب کوئی ’طبقاتی لفظ‘ استعمال کرتے ہیں تو وہ اس کی مناسبت سے دوسرا ’تہذیبی لفظ‘ استعمال کرنے کے پابند ہو جاتے ہیں ‘اور تہذیبی لفظ کے ساتھ ساتھ ’سیاقی لفظ‘ کی پابندی بھی ان پر عائد ہو جاتی ہے۔ الفاظ کو بروئے کار لانے کی اس پابندی کو لسانیات کی قواعدی اصطلاح میں انتخابی پابندی (Selectional restrictions) کہتے ہیں۔ مذکورہ مثالوں میں سبطے اور بیگم، سلام دین گوجرا اور اللّٰہ، دھنی رام اور بھگوان اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ بیدی کی کہانیوں سے انتخابی پابندیوں کی چند مثالیں ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:
· اُس کی موت کا خیال مدن کے دل میں آتا تو وہ آنکھیں موند کر پرارتھنا شروع کر دیتا۔ ‘‘
· ’’اور اب دیوی بن کر دیا اور کرونا کے پرساد بانٹ رہی ہے۔ ‘‘
· ’’مدن ارتھی پر پڑے ہوئے جسم کے سامنے ڈنڈوت کے انداز میں لیٹ گیا۔ یہ اس کا اپنے جنم داتا کو آخری پرنام تھا۔ ‘‘
· ’’سبھی سر جھکائے اندو ہی کی شرن میں آتے تھے اور اسی سے چھما مانگتے تھے۔ ‘‘
(اپنے دکھ مجھے دے دو)
· ’’رسیلا کی بات تو دوسری ہے۔ شاستروں نے اسے پرماتما کا درجہ دیا ہے۔ ‘‘
· ’’گرہن کے موقع پر جی کھول کر دان پُن کیا جاتا ہے۔ عورتیں اکھٹی ہو کر ترویدی گھاٹ پر اشنان کے لیے چلی جاتی ہیں۔ ‘‘
· ’’چند لمحات کے لیے چاروں طرف خاموشی اور پھر رام نام کا جاپ ہوتا ہے۔ ‘‘
· ’’کتھو رام نے آہستہ سے جواب دیا، ’’میری پتنی ہے۔ ‘‘
· ’’نرم دل ہندو دان دیتا ہے تاکہ غریب چاند کو چھوڑ دیا جائے۔ ‘‘
(گرہن)
· ’’پربھات پھیری کے سمے ایسی ہی باتیں سندرلال کو یاد آئیں۔ ‘‘
· ’’مندر کے باہر پیپل کے پیڑ کے ارد گرد سیمنٹ کے تھڑے پر کئی شردھالو بیٹھے تھے اور راماین کی کتھا ہو رہی تھی۔ ‘‘
· لوگ رامائن کی کتھا اور شلوک کا ورتن سننے کے لیے ٹھہر چکے تھے۔ ‘‘
· ’’آج ہماری سیتا نردوش گھر سے نکال دی گئی۔ ‘‘
· ’’سندرلال نے لاجو کی سورن مورتی کو اپنے دل میں استھاپت کر لیا تھا۔ ‘‘
(لاجونتی)
· ’’درباری حوصلہ پاکر بولا۔ ’’تمہیں کیا سچ مجھ پر وشواس نہیں۔ ‘‘
· ’’اور لپک کر اس نے ببّل کو اٹھا لیا اور اسے سینے سے لگا کر ہلنے لگی، جیسے کسی اپار سُکھ اور شانتی کے جھولے میں پڑی ہے۔ ‘‘
· “اسے ہی تو مایا کہتے ہیں یا لیلا۔ ‘‘
· ’’جانے وہ سمے کا کون سا انش تھا جس میں……..۔ ‘‘
· ’’میں نے کوئی بھی پاپ کیا ہو بھگوان، تو میرے شریر میں کیڑے پڑیں۔ ‘‘
· ’’رادھا نے اس کا نوٹ اپنی آنکھوں سے لگایا اور پرارتھنا کی۔ ‘‘
(ٹرمینس سے پرے)
· ’’رحیمنا اور گلوّ کے سے شروتا مل جائیں تو اور کیا چاہئیے۔ “
· ’’ہوش میں آتے ہی جس پہلے شبد کا اچارن سناکرتی ’منو‘ ہوتا۔ ‘‘
· ’’پہلا ہی گراس بابو جی کے منھ میں رُکا۔ ‘‘
· ’’پھر گیتا کے پنّے کھلے، پھر سترھویں ادھیائے کا پاٹھ ہوا۔ ‘‘
· ’’لیکن من سو ہی کا بھگوان پر پورا وشواس تھا۔ ‘‘
· ’’اس کے بعد واتاورن میں ہوا کا تتو پربل ہو گیا۔ ‘‘
· ’’دادی نے دیول میں مورتی کے لیے دستروں کی منّت مانی ہی تھی۔ ‘‘
(لمبی لڑکی)
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ بیدی نے ہندی اور سنسکرت الفاظ کے استعمال میں تہذیبی سیاق و سباق کے علاوہ تہذیبی تناسبات کا بھی خیال رکھا ہے۔ بیدی کی کہانیوں کے مذکورہ اقتباسات میں تہذیبی تناسبات کی بڑی واضح مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یعنی مثالوں میں ایک لفظ کی تہذیبی رعایت سے دوسرا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اوپر کی مثالوں میں چند تہذیبی تناسبات یہ ہیں :
دیوی/دَیا؛ مدن/پرنام؛ شرن/چھما؛ گرہن /دان پُن؛ رام نام /جاب ؛ ہندو/دان؛ راماین /کتھا ؛ سیتا/ نردوس؛ مورتی/ استھاپت؛ رادھا/ پرارتھنا؛جمنا/شروتا؛ شبد/اچارن؛ بھگوان/وشواس؛ مورتی/ دستر؛ گیتا/ پاٹھ، وغیرہ
بیدی نے ہندی اور سنسکرت کے مفرد الفاظ کے علاوہ مرکب الفاظ کا بھی آزادانہ استعمال کیا ہے۔ یہاں بھی کہانی کی تہذیبی فضا کی حقیقی عکاسی ہی بیدی کے مد نظر رہی ہے۔ سنسکرت اور ہندی مرکبات معنی و اظہار میں توہم آہنگی پیدا کرتے ہی ہیں، معنی کی توسیع میں بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ان مرکبات میں ’’کہیں پہلا لفظ صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے اور کہیں بحیثیتِ اسم۔ سابقوں اور لاحقوں کی مدد سے بھی مرکبات بنائے گئے ہیں۔ کہیں کہیں دو لفظوں کو ’ہندی‘ کے طریقے پر ترکیب دیا گیا ہے جس سے مرکبِ امتزاجی کی تشکیل عمل میں آئی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
وچتر گھٹنا، بھاگ ہین، چرتر ہین، جیو جنتو، دُردَشا، بھوگ بِلاس ، شاسترارتھ، پرم دھرم، واہ سنسکار، چھتر چھایا،جنم داتا ، کپال کریا، من ہونا، لوکسیوا، پتی پتنی، دان پُن، انگ انگ، جنک دلاری ، وغیرہ۔
بیدی کی زبان کی ایک نمایاں خصوصیت صوتیت اور لفظی تکرار ہے۔ لفظ کی ابتدائی اور آخر حالتوں میں آوازوں کی تکرار اور جملوں میں الفاظ کی تکرار سے بیدی کی زبان میں ایک مخصوص قسم کا آہنگ اور حسن پیدا ہو گیا ہے۔ بیدی اپنے جملوں میں بالعموم دو ایسے لفظ استعمال کرتے ہیں جن کی ابتدا ایک ہی آواز سے ہوتی کبھی کبھی تین الفاظ ایک ہی آواز سے شروع ہوتے ہیں۔ اس قسم کی صوتی تکرار کو تجنیسِ صوتی Alliterationکہتے ہیں۔ صوتی تکرار کبھی کبھی دو لفظوں کے آخر میں بھی پائی جاتی ہے جس سے الفاظ مقفیٰ بن جاتے ہیں۔ بیدی نے صوتی تکرار سے بڑے خوبصورت آوازی پیکروں کی تشکیل کی ہے۔
پیکر ہموار سماعی لہریں پیدا کرتے ہیں جو نثری آہنگ میں اور ترنم پیدا کر دیتی ہیں۔ صوتی تکرار، قافیہ بندی اور اس قسم کے خو ش آہنگی یہ آوازی دوسرے سماعی پیکروں کا استعمال عام طور پر شعری اظہار میں زیادہ ہوتا ہے ، لیکن اُسے کیا کیا جائے کہ بیدی کے یہاں نثر میں بھی اس کی مثالیں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ ترنم خوش آہنگی اور آوازی پیکروں کے اعتبار سے بیدی کی نثر کے بعض شعری آہنگ سے قریب تر ہو جاتے ہیں۔
’’دادی نے اسے چھاتی سے میں چھپا لیا۔ ‘‘
’’اب وہ چب ہیں تو سارا سنسار چپ ہے۔ ‘‘
’’آنکھوں سے جوت جاتی رہی۔ ‘‘
’’اس کے بعد تو کوئی بھی مرد اس گھر میں نہ گھستا۔ ‘‘
(لمبی لڑکی)
’’بابو جی کے اندر کوئی جناردھن جگا دیا تھا۔ ‘‘
’’وہ جگہ جہاں صندل کا ضدوق پڑا تھا۔ ‘‘
’’پورا آسمان انھیں درد کا ایک دریا دکھائی دینے لگا۔ ‘‘
(ددد)
’’گھر میں ماتا کی موت نے مدن کے بڑا ہونے کے کارن سب سے زیادہ اثر اسی پر کیا تھا۔ ‘‘
’’جبھی ایک چمک سی ، اس کے چہرے پر آئی اور وہ بولی‘‘۔
’’اب ساوتری کی نہیں ستیہ وان کی باری ہے۔ ‘‘ (سس)
’’آج خس کی خوشبو نے بوکھلا دیا۔ ‘‘ (خخ)
(اپنے دکھ مجھے دے دو)
’’لا جو نے شہری کے ایک لڑکے سے لو لگا لی۔ ‘‘
’’سندر لال نے کہا۔ ’’جانے دو بیتی باتیں۔ ‘‘(ب/ب)
’’سیتا کے ستیہ اور استیہ کی بات ہے یا راکشس راون کے وحشی پن کی۔ ‘‘ (لاجونتی)
’’وہ پلیٹ فارم کا ٹکٹ ٹٹول رہا تھا۔ ‘‘
’’اس کا چہرہ کسی اندرونی تمازت سے تمتمایا ہوا تھا۔ ‘‘
’’ان مردوں کا کیا پتا، کسی سوتن کے سنگ راس رچا رہے ہوں۔ ‘‘
(ٹرمینس سے پرے)
قافیہ بندی کی مثالیں بھی بیدی کی کہانیوں میں جا بہ جا ملتی ہیں۔ وہ جملوں میں دو ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جن کی آخری آوازیں یکساں ہوتی ہیں۔ اس قسم کی صوتی تکرار الفاظ کو مقفّیٰ بنا دیتی ہے اور یہ ایک خاص قسم کے سماعی اور آوازی پیکروں میں ڈھل جاتے ہیں جن کی ہموار لہریں زبان میں خوشی آہنگی کا حسن پیدا کر دیتی ہیں۔ بیدی نے ان آوازی پیکروں سے اظہاریت کا کام بھی لیا اور معنی کی توسیع کا بھی۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
’’ایک پہراوا بھگوان دیتا ہے اور دوسرا انسان۔ ‘‘
’’جس میں ادب کی حد سے پر ے اور ننگے پن کی سیما سے ورے کی باتیں ہوتیں۔ ‘‘
’’لیکن آدھی ہی میں وہ ساری معلوم ہو رہی تھی۔ ‘‘
’’جیجے کو بھی سالیاں ملتی ہیں ایک ایک سالی ، آدھی گھر والی۔ ‘‘
’’اور یوگیشور انہیں کے ساتھ آنگن، انہی کے ساتھ پریم کھیلن کے لئے مچل جاتا۔ ‘‘
’’انسان دنیا میں جس کو سجن سمجھتا ہے وہ کتنا بڑا دشمن ہوتا ہے۔ ‘‘ (لمبی لڑکی)
’’ایک بار میں سوہی کو ہنستے ، بستے دیکھ لوں۔ ‘‘
’’کبھی وہ ان کی دُلاری تھی جو پلک جھپکتے ہی نیاری ہو گئی۔ ‘‘
’’بابو جی پاس سے گزرتے تو اسے جگانے اور اٹھانے کو ذرا بھی کوشش نہ کرتے۔ ‘‘ (اپنے دکھ مجھے دے دو)
’’پہلے سے بھی صاف شفاف ، چمکیلی ، نوکیلی….‘‘
’’دونوں بالکل ایسے تھے جیسے جذبات اور خیالات۔ ‘‘
’’مایا۔ جس کے بارے میں سوچیں کہ رام ہوئی، وہیں حکمت ناکام ہوئی۔ ‘‘
’’کیوں کہ یہ رشتہ بھگوان نے نہیں انسان بنایا تھا۔ ‘‘
(ٹرمینس سے پرے)
’’وہ کہہ نہ سکی ساری بات اور چپکی دبکی پڑی رہی۔
’’تشدد اب تاجروں کی نس نس میں بس چکا ہے۔ ‘‘
(لاجونتی)
بیدی بعض جملوں میں آخری الفاظ کچھ اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ وہ جملہ یا فقرہ مقفیٰ بن جاتا ہے۔ بیدی کے مقفی جملے فسانۂ عجائب کی مقفیٰ و مسجع عبارات کی یاد دلاتے ہیں۔ خطوطِ غالب اور جوش کی یادوں کی بارات میں بھی یہی انداز ملتا ہے بیدی کی کہانیوں سے ذیل کی مقفیٰ عبارت ملاحظہ ہوں:
’’وہی لوری جو دُلاری مُنی کو سلا رہی تھی، مدن کی نیند بھگا رہی تھی۔ ‘‘
(اپنے دکھ مجھے دے دو)
’’منھ میں میٹھے کا ایک ٹکڑا ڈالا، موہن نے جیب سے دس روپے کا ایک نوٹ نکالا۔ ‘‘
(ٹرمینس سے پرے)
’’کیوں کہ موت اسے لوٹ چکی ہے، زندگی ایک بار اس کے ہاتھوں چھوٹ چکی ہے۔ ‘‘
’’اور اب جہاں جائے گی، تباہی اور بربادی لائے گی۔ ‘‘
’’مجال ہے جو گھر میں دیر سے بتی جلے ، کھانے میں نمک زیادہ پڑے۔ ‘‘
’’سر بادلوں میں چھپائے ،کہیں اوپر کی اوپر چلی جائے۔ ‘‘
’’تم جانوروں کی طرح سے نہیں رہو گے، بے موسم کا بھوگ بلاس نہیں کرو گے۔ ‘‘
(لمبی لڑکی)
بیدی کے یہاں تکرار کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ ایک ہی لفظ سے مشتق دو ایسے لفظ لاتے ہیں جو عبارت میں ایک لطف پیدا کر دیتے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
’’پھر وہ وہیں بستر پر پڑی گھر کی اس ستار کی کمر میں باز و ڈال کر اس کے تار درست کرنے لگے۔ ‘‘
’’اس نے سوچا اَچّی ہنسے گی اور لطیفے سے پورا لطف لے گی۔ ‘‘
’’ہائے ری سو ہی۔ تو کِسے سو ہے گی۔ ‘‘
’’مجھ سے اب کسی کے مرنے نہیں مرے جاتے۔ ‘‘
’’دادی کے پلیت کئے ہوئے کپڑے منّی دھوتی تھی۔ اس پر شیلا ناک پر ڈوپٹہ رکھے ہوئے اندر آتی باہر جاتی۔ دیوندر کو یہ نظارہ بہت نک چھڑا معلوم ہوتا۔ ‘‘
بیدی کی زبان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ جہاں انھوں نے کم پڑھے لکھے یا ان پڑھ لوگوں کی زبان سے عربی اور فارسی کے الفاظ کہلوائے ہیں ، وہاں ان کا تلفظ بدل کر ان کی فطری بول چال کے مطابق کر دیا ہے۔ یہ تبدیلی عربی فارسی سے آئی ہوئی پانچ آوازوں خ، ز(ض، ظ) ، غ، ف، اور ق کو علی الترتیب کھ ، ج ، گ ، پھ اور ک میں ڈھال کر کی گئی ہے۔ کہیں کہیں ش کی آواز کو س میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ بیدی کی مختلف کہانیوں سے اس صوتی تبدیلی کی چند مثالیں یہ ہیں:
جرورت (ضرورت) باجو(بازو) ،جادی ( زادی ) ، جیادہ (زیادہ) ، سریپھ(شریف) ، جرا،(ذرا) ،کھرسید(خورشید) ، جور (زور) ، جندگی(زندگی) ، جرور (ضرور) ، سکل (شکل) ، کھبر(خبر) ، کھراب (خراب) ، جلم(ظلم) ، مجا(مزہ) ، گریب(غریب) ، جات(ذات) ، آواج(آواز) وغیرہ۔
حواشی و حوالے:
۱۔ خلیل الرحمن اعظمی،اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک (علی گڑھ : انجمن ترقی اردو ہند) ، ۱۹۷۲ء، ص ۲۲۷
۲۔ اسلوب احمد انصاری ، ’’بیدی کا فن ‘‘ مشمولہ ادب اور تنقید (اسلوب احمد انصاری) ، الٰہ آباد: سنگم پبلشرز، ۱۹۶۸ء۔ ص ۲۹۰
۳۔ ایضاً ، ص ۳۱۵۔
۴۔ ایضاً
۵۔ ایضاً
۶۔ خلیل الرحمن اعظمی، محولہ کتاب ، ص ۲۲۷۔
۷۔ گوپی چند نارنگ ، ’’بیدی کے فن کی استعاراتی اور اساطیری جڑیں‘‘ مطبوعہ ہندوستانی زبان(بمبئی، سال ۴، نمبر ۲ (اکتوبر ۱۹۸۲ء) ص ۵۲
۸۔ وقار عظیم ، نیا افسانہ (علی گڑھ : ایجو کیشنل بک ہاؤس، ۱۹۸۳ء) ص ۲۶
۹۔ آل احمد سرور، ’’بیدی کے افسانے: ایک تاثر ‘‘مشمولہ راجندر سنگھ بیدی اور ان کے افسانے (مرتبہ اطہر پرویز) ، علی گڑھ : ایجو کیشنل بک ہاؤس ، ۱۹۸۳ء۔ ص ۲۶۔
۱۰۔ مسعود حسین خاں ، اقبال کی نظری و عملی شعریات، مشمولہ اقبال کی نظری و عملی شعریات (سری نگر: اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونیورسٹی ، ۱۹۸۳ء) ص ۶۴ و ۶۵۔
۱۱۔ ڈل۔ ایچ۔ ہائمس (Dell H. Hymes) ، ۱۹۸۲ء”On Communicative Competence“مشمولہ Sociolinguistic : Selected Readingsمرتبہ جے۔ بی۔ پڑائڈ اور دیگر) ،ہارمنڈوزورتھ: پنگوِن بکس ، ۱۹۷۲ء ص ۲۶۹تا ۲۹۳۔
۱۲۔ باقر مہدی ، ’’راجندر سنگھ: بھولا سے ببّل تک‘‘ مشمولہ راجندر سنگھ بیدی اور ان کے افسانے (مرتبہ اطہر پرویز) ، علی گڑھ : علی گڑھ ایجوکیشنل بک ہاؤس ، ۱۹۸۳ ء۔ ص ۶۱۔
۱۳۔ گوپی چند نارنگ ، محولہ مضمون ، ص ۲۸۔
۱۴۔ بحوالہ راجندر سنگھ بیدی، ’’افسانوی تجربہ اور اظہار کے تخلیقی مسائل ‘‘ مشمولہ راجندر سنگھ بیدی اور ان کے افسانے (مرتبہ اطہر پرویز) ، علی گڑھ : ایجو کیشنل بک ہاؤس ، ۱۹۸۳ء ص ۲۳۔
۱۵۔ راجندر سنگھ بیدی ، محولہ مضمون ، ص ۲۳۔
۱۶۔ بحوالہ گوپی چند نارنگ ، محولہ مضمون ، ص ۲۹۔
۱۷۔ راجندر سنگھ بیدی ، محولہ مضمون ، ص۲۳۔
۱۸۔ ایضاً، ص ۲۳۔
۱۹۔ ایضاً ، ص ۲۰۔
۲۰۔ اسلوب احمد انصاری، محولہ کتاب، ص۱۱۵۔
۲۱۔ گوپی چند نارنگ ، محولہ مضمون ، ص ۲۸ تا ۵۳۔
۲۲۔ ایضاً ، ۳۵۔
۲۳۔ دیکھئے نلزایرک انکوسٹ (Nils Erik Enkvist) کا مضمون “On Defining Style“مشمولہ Linguistics and Style(نلزایرک انکوسٹ اور دیگر) ، لندن: آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، ۱۹۶۴ ء) ص ۱۲
۲۴۔ دیکھئے مرزا خلیل احمد بیگ کا مضمون ’’قدیم اردو کا سرمایۂ الفاظ‘‘ مشمولہ اردو کی لسانی تشکیل (مرزا خلیل احمد بیگ) ، تیسرا ایڈیشن (علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، ۲۰۰۰) ، ص ۱۶۷ تا ۱۸۳۔ ۱۹۸۸ء)