مولانا ابوالکلام آزاد محض ایک ادیب ، انشاءپرداز ، صحافی ، تذکرہ نگار، خطیب ، مترجم ، نیز مذہبی مفکر اور سیاسی مدبّر ہی نہیں، بلکہ ایک منفرد طرزِ نگارش اور امتیازی اسلوبِ تحریر کے مالک بھی تھے جس کی طرف ہر اس شخص کی توجّہ مبذول ہوتی ہے جو اُن کی تصانیف کا بہ نظرِ غائر مطالعہ کرتا ہے۔ مولانا آزاد کے اسلوبِ نثر کی انفرادیت کا اعتراف حسرت موہانی نے اپنے ایک شعر میں یوں کیا ہے:
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظمِ حسرت میں کچھ مزا نہ رہا
سجاد انصاری نے تو محشرِ خیال میں یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ میرا عقیدہ ہے کہ قرآن نازل نہ ہو چکا ہو تو مولانا ابوالکلام کی نثر اس کے لۓ منتخب کی جاتی‘‘۔ مولانا عبد الماجد دریابادی کے بہ قول مولاناآزاد ’’تحریر و انشاء میں اپنے اسلوب کے موجد بھی تھے اور خاتم بھی۔ ‘‘(۱) مولوی عبد الرزاق ملیحآبادی ذکرِآزاد میں لکھتے ہیں کہ ’’مولانا کی تحریر ایسی ہے کہ عش عش کرتے رہۓ، اعلیٰ انشاء و ادب کا نمونہ جس کی تقلید ممکن نہیں۔ ‘‘ (۲)
یہ تمام بیانات اس امر کی دلیل ہیں کہ مولاناآزاد کا اسلوبِ تحریر روشِ عام سے ہٹ کر تھا جس میں بلندآہنگی ، شان و شکوہ ، علمی وقار اور پاکیزگی کے ساتھ ساتھ ایک ادبی حُسن اور جمالیاتی کشش بھی پائی جاتی تھی۔ لسانی اعتبار سے مولاناآزاد کا اسلوب عہد بہ عہد بدلتا رہا ہے۔ آزاد کی پچاس سالہ تصنیفی زندگی میں ان کے اسلوب نے اپنے ارتقاء کی کئی منزلیں طے کی ہیں۔ آزاد نے اپنی نگارشات میں زبان کے اطلاعی(Informative) ، ہدایتی(Directive) اور اظہاری(Expressive) تینوں اسالیب سے کام لیا ہے۔ بحیثیتِ مجموعیآزاد کا اسلوب اردو کے بنیادی اسلوب سے انحراف کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ یہی ان کے اسلوب کی امتیازی شان ہے اور اسی میں ان کی انفرادیت مضمر ہے۔
(۲)
مولاناآزاد کے اسلوب کے ارتقاء کو سمجھنے کے لۓ ان کی تصنیفی زندگی کو چار ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے دور میں وہ الہلال اور البلاغ جاری کرتے ہیں۔ اور اپنی خود نوشت سوانح عمری ترتیب دیتے ہیں۔ دوسرے دور میں وہ قرآنِ کریم کے ترجمہ و تفسیر کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ تیسرے دور میں وہ مکتوب نما انشائیے لکھتے ہیں اور چوتھے اورآخری دور میں وہ بعض ایسے خطبات پیش کرتے ہیں جن کی کئی لحاظ سے بے حد اہمیت ہے۔ اسلوبیاتی اعتبار سے ان چاروں ادوار کی چار نمائندہ تصانیف کے نام ہیں: (۱) تذکرہ، (۲) ترجمان القرآن ، (۳) غبارِ خاطر اور (۴) خطباتِ آزاد۔
مولاناآزاد کی علمی اور تصنیفی زندگی تقریباً نصف صدی پر محیط ہے جس کاآغاز ۱۹۰۳ء میں کلکتہ سے لسان الصدق کے اجراء سے ہوتا ہے۔ اس وقت ان کی عمر میں صرف پندرہ سال کی تھی۔ لیکن اس اخبار کے اجرا سے قبل ان کی مضمون نگاری کا آغاز ہو چکا تھا اور ان کی نگارشات میں اس دورق کے معیاری رسائل مثلاً مخزنِ ، خدنگِ نظر اور احسن الاخبار ، میں شائع ہو چکی تھیں۔ لسان الصدق کے اجراء کے نو سال بعد مولاناآزاد نے پوریآب و تاب کے ساتھ میدانِ صحافت میں دوبارہ قدم رکھا اور جولائی ۱۹۱۲ء سے ایک ہفتہ وار جریدہ الہلال کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی۔ الہلال مولاناآزاد کی مذہبی فکر، سیاسی تدبّر اور ادبی احساسات کا ترجمان تھا۔ لیکن ان کی فکر و تحریر کی بے باکی اور انقلاب انگیز ی کی وجہ سے یہ اخبارِ حکومتِ وقت کی نظروں میں کھٹکنے لگا۔ بالآخر اخبار کی ضمانت ضبط ہونے پر مولانا آزاد کو نومبر ۱۹۱۴ء میں یہ اخبار بند کر دینا پڑا۔ لیکن اس کے ایک سال بعد نومبر ۱۹۱۵ء میں انھوں نے البلاغ کے نام سے ایک دوسرا اخبار جاری کیا۔ یہ اخبار الہلال کا نقشِ ثانی تھا۔ چنانچہ اس کا بھی وہی حشر ہوا جو الہلال کا ہوا تھا، یعنی اپریل ۱۹۱۶ء میں یہ اخبار بند ہو گیا اور مولاناآزاد رانچی میں بند کر دۓ گئے۔ اُسی زمانے میں انھوں نے الہلال اور البلاغ کے مہتمم فضل الدین احمد مرزا کے اصرار پر اپنی سوانح عمر میں لکھنا شروع کی جس نے ایک ضخیم کتاب کی شکل اختیار کرلی۔ اس کتاب کا پہلا حصّہ تذکرہ کے نام سے پہلی بار ۱۹۱۹ء میں کلکتے میں شائع ہوا جس میں انھوں نے اپنے خاندان کے ایک بزرگ شیخ جمال الدین بہلول کے حالات بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کۓ ہیں۔
رانچی ہی میں نظر بندی کے دوران مولانا آزاد نے ایک اور اہم علمی کارنامہ انجام دیا جسے ترجمان القرآن کہتے ہیں۔ یہ قرآن کریم کا اردو ترجمہ اور اس کی تفسیر و تشریح ہے۔ یہ کتاب ان کی زندگی میں دو جلدوں میں شائع ہوئی ، لیکن جس طرح تذکرہ نامکمل رہ گیا تھا اسی طرح قرآنِ کریم کا یہ ترجمہ بھی پورا نہ ہو سکا اور صرف ۱۸ پاروں تک پہنچ کر یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔
تذکرہ اور ترجمان القرآن کے بعد مولاناآزاد کی تیسری اہم تصنیف غبارِ خاطر ہے۔ یہ ان خطوط کا مجموعہ ہے جو انھوں نے قلعۂ احمد نگر کی اسیری کے دوران ۱۹۴۲ء اور ۱۹۴۳ء میں اپنے دوست حبیب الرحمن خاں شروانی ، رئیس بھیکم پور کے نام لکھے تھے۔ لیکن یہ خطوط مکتوب الیہ کو بھیجے نہیں گئے۔ بہ قولِ مولانا آزاد ’’یہ تمام مکاتیب نج کے خطوط تھے اور اس خیال سے نہیں لکھے گئے تھے کہ شائع کۓ جائیں گے ‘‘ لیکن قید سے رہائی کے محمد اجمل خاں کے اصرار پر مولاناآزاد نے ۱۹۴۶ء میں یہ خطوط غبارِ خاطر کے نام سے کتابی صورت میں شائع کرا دۓ۔ بہ قولِ احمد سعید ملیحآبادی مولاناآزاد نے یہ خطوط ’’ہم کلامی‘‘ اور اپنے ایک نئے طرزِ انشاء سے اردو ادب میں اضافے کی غرض سے لکھے۔ ‘‘ (۳) لیکن یہ در اصل مختلف موضوعات پر انشائیے ہیں جنھیں مکاتیب کی شکل دے دی گئی ہے۔
مولاناآزاد کے تصنیفیآثار میں خطباتآزاد کو بھی ایک قابلِ لحاظ اہمیت حاصل ہے۔ خطباتآزاد میں پندرہ خطبے شامل ہیں جن میں سیاسی، سماجی اور مذہبی مسائل نیز حالاتِ حاضرہ پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے زبان و بیان اور اسلوب کے لحاظ سے مولاناآزاد کے وہ خطبات بہت اہم ہیں جو انھوں نے ۱۹۴۰ء اور ۱۹۴۱ء کے دوران پیش کۓ تھے۔
(۳)
زبان کا بنیادی مقصد ادائے مطلب اور ترسیل و ابلاغ ہے۔ اپنے اس مقصد کے حصول کے لۓ زبان کئی اسالیب اختیار کرتی ہے جن میں تین اسالیب کو بنیادی اہمیت حاصل ہے:۔
۱۔ اطلاعی اسلوب
(Informative Style)
۲۔ ہدایتی اسلوب
(Directive style)
۳۔ اظہاری اسلوب
(Expressive style)
(۴)
ان اسالیب سے زبان مختلف کام لیتی ہے۔ زبان کا ایک نہایت اہم فریضہ اطلاع رسائی(Communication of information) ہے۔ یہ اطلاع سامع یا قاری تک اثبات میں پہنچائی جا سکتی ہے۔ اور نفی میں بھی زبان کا استعمال جب اثبات و نفی کی لۓ کیا جائے یا جب اس کے ذریعے استدلال پیش کۓ جائیں تو یہ زبان کا اطلاعی اسلوب کہلائے گا۔ ’’ اطلاع ‘‘ کا لفظ یہاں خالص اپنے لغوی معنی میں استعمال کیا گیا ہے یعنی سامع یا قاری کو کسی بات کی اطلاع (Information) بہم پہنچانا یا کسی بات سے مطلع کرنا۔ یہ اطلاع غلط بھی ہو سکتی ہے اور صحیح بھی۔ اسی طرح دلائل بھی صحیح اور غلط ہو سکتے ہیں۔ اطلاعی اسلوب بیانیہ ہوتا ہے۔ اس کا مقصد محض بیان واقعہ یاReportingہے سماجی اور سائنسی علوم کی زبان اطلاعی اسلوب کی بہترین مثال پیش کرتی ہے اسی طرح غیر افسانوی نثر میں بھی اطلاعی اسلوب کے بہت اچھے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
مولاناآزاد الہلال ، البلاغ ، تذکرہ اور خطبات میں اطلاعی اسلوب یعنی بیانیہ اندازِ تحریر سے کام لیا ہے، کیوں کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو جو مذہبی اور سیاسی پیغام وہ لوگوں تک پہنچانا چاہتے تھے وہ شاید نہیں پہنچا سکتے تھے ترجمان القرآن اور غبارِ خاطر کی زبان کی زبان اگر چہ مختلف انداز کی ہے ، لیکن اس میں بھی اطلاعی اسلوب کے نمونے دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ اطلاعی اسلوب لسانی اعتبار سے سادہ بھی ہو سکتا ہے اور مشکل اور پیچیدہ بھی رسمی اور پُر تکلف بھی ہو سکتا ہے اور غیر رسمی بھی جامد(Frozen) بھی ہو سکتا ہے اور متحرک بھی خطباتِآزاد کا اطلاعی اسلوب لسانی اعتبار سے بالعموم ایک سادہ اور سہل اسلوب ہے اور کافی حد تک اردو کے بنیادی اسلوب سے قریب ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر کی حیثیت سے رام گڑھ (بہار) میں ۱۹۴۰ء میں انھوں نے جو خطبہ پیش کیا تھا، اسے دیکھ کر بالکل یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ تذکرہ اور غبارِ خاطر کے مصنف کی زبان ہے۔ کیوں کہ اس کی زبان کافی حد تک عام فہم ، مانوس اور غیر رسمی زبان ہے۔ اسی طرح تقسیمِ ملک کے فوراً بعد اکتوبر ۱۹۴۷ء میں دہلی کی جامع مسجد میں مسلمانوں کے ایک اجتماعی سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے جو زبان استعمال کی ہے وہ بھی سادگی اور سلاست کا ایک عمدہ نمونہ ہی۔ اس ضمن میں مولانا آزاد کے اس صدارتی خطبے کا ذکر بھی بیجا نہ ہو گا، جو انھوں نے گاندھی جی کے سانحۂ قتل کے چند روز بعد کانسٹی ٹیوشن کلب، نئی دہلی کے ایک جلسہ میں فروری ۱۹۴۸ء میں پیش کیا تھا۔ ان خطبات کی زبان میں سادگی ، صفائی اور سلاست بدرجۂ اتم موجود ہے۔ ان میں الفاظ و تراکیب کی وہ گھن گرج موجود نہیں۔ جو اس سے پہلے کی تصانیف کا طرۂ امتیاز ہے اور نہ ہی وہ رنگینی ، آراستگی اور مرصع کاری ہے جسے بعض نقادوں نے اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ خطبات کی زبان میں عربی فارسی کے غریب اور مغلق الفاظ سے پرہیز کیا گیا ہے جن کی تذکرہ میں بھرمار ہے۔ ان خطبات میں اضافی اور عطفی ترکیبیں بھی بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔ فارسی اور عربی کے صرف وہی مرکبات استعمال کۓ گئے ہیں جو عام فہم اور مانوس ہیں اور اردو زبان جزو بن گیے ہیں۔ صرف دو یا تین خطبات کو چھوڑ کر بقیہ تمام خطبات کی زبان عربی اور فارسی کے فقروں ، جملوں ، مصرعوں ، اشعار اور امثال سے بڑی حد تک مبرّا ہے۔ آخری دور کے خطبات میں تو یہ چیزیں بالکل دیکھنے کو نہیں ملتیں۔
مولانا آزاد انگریزی زبان پر کامل عبور نہیں رکھتے تھے، لیکن وہ انگریزی الفاظ کے مناسب ، موزوں ، برجستہ اور بر محل استعمال سے بہ خوبی واقف تھے۔ رام گڑھ کے خطبے میں انھوں نے پہلی بار انگریزی الفاظ کاآزادانہ استعمال کیا ہے۔ جس سے اُن کے اسلوب کی جدت کا پتہ چلتا ہے۔ اس خطبے میں ہمیں ڈپلو میسی(Diplomacy) ، ڈسپلن(Discipline) ، ری ایکشن(Reaction) ڈومی نین (Dominion) ، اسٹیس(Status) ، ڈاکومنٹ(Document) ، ریزن(Reason) ، کوآپریشن(Cooperation) کانسٹی ٹیوشن(Constitution) ، فیکٹر(Factor) ، فیڈریشن(Federation) ریوائول(Revival) ، ٹریجڈی(Tragedy) اور انٹرنیشنل(International) جیسے الفاظ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ خطبات کی زبان نہ صرف الفاظ کی سطح پر ایک سادہ اور عام فہم زبان ہے، بلکہ نحوی اعتبار سے بھی یہ سہل نگاری کا ایک اعلا نمونہ ہے۔ ان میںآزاد کے فقرے بالعموم چھوٹے اور سادہ ہیں جن میں وہ اور ، لیکن، کہ ، جو ، بلکہ ، غیر ہ جوڑ کر ربط پیدا کرتے ہیں۔ آزاد کے اسی سلیس اور سہل اسلو ب کی ایک مثال ان کے ایک خطبے ’’گاندھی جی کی یادگار ‘‘ (فروری ۱۹۴۸ ء) سے پیش ہے:
’’گاندھی جی ہندو تھے اور ہندو ہی رہے، لیکن انھوں نے ہندو دھرم کی اتنی اونچی جگہ بنائی تھی کہ جب وہ اس بلندی پرسے دیکھتے تھے تو دنیا کے تمام جھگڑے ان کو مٹے ہوئے نظر آتے تھے۔ ان کے سامنے ایک کھلی ہوئی سچائی تھی جو کسی ایک ورثہ نہیں ہے ، بلکہ سورج اور اس کی شعاعوں کی طرح سے سب کے لۓ ہے۔ ‘‘(۵)
خطبات کے اسلوب کی سادگی کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ اسلوب آزاد کی شعوری کو شش کا نتیجہ نہیں، بلکہ زبان کے فوری اور برجستہ استعمال کے نتیجے میں معرض ِ وجود میںآیا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان خطبات کے مخاطب مختلف طبقوں اور جماعتوں کے لوگ ہوتے تھے ، اس لۓ انہیں زبان کو ممکن حد تکآسان رکھنا پڑتا تھا۔ تاکہ سامعین ان کی بات بآسانی سمجھ سکیں۔ مالک رام نے خطباتِ آزاد کے دیباچے میں لکھا ہے کہ مولانا آزاد ’’اپنے سامعین کے مطابق زبان بھی بدل لیتے ہیں۔ ‘‘ یہی وجہ ہے کہ ’’اتحادِ اسلامی‘‘ ، ’’جمیعت العلماۓ ہند‘‘ اور ’’خلافت کانفرنس ‘‘ جیسے خطبات کی زبان نسبتاً مشکل ہے ، کیوں کہ ان کے مخاطب صرف مسلمان تھے۔ لیکن دوسرے خطبات کی زبان بہتآسان ہے جیسے ہم بلاشبہ اردو کا بنیادی اسلوب کہہ سکتے ہیں۔
اس کے برعکس الہلال اور البلاغ بالخصوص تذکرہ میں اُنھوں نے نہایت مشکل اور بوجھل زبان استعمال کی ہے جسے مولاناآزاد کی نثر کا ’علمی اسلوب‘ کہہ سکتے ہیں۔ علمی اسلوب میں ایک طرف صرف و نحو اور قواعد کی پیچیدگیاں نظرآتی ہیں تو دوسری طرف عربی اور فارسی کے ذخیرہ الفاظ و تراکیب اور مصطلحات کاآزادانہ استعمال ملتا ہے۔ تذکرہ کی زبان عربی فارسی کے ثقیل اور متعلق الفاظ اور مشکل و پیچیدہ تراکیب سے حد درجہ بوجھل ہے۔ یہی نہیں بلکہ جا بجا عربی کے ٹکڑے ، فقرے، اقوال و امثال اور اشعار ، نیز قرآن و حدیث کے اقتباسات بھی پیش کۓ گئے ہیں جن کی اردو نثر متحمل نہیں ہو سکتی۔ تذکرہ میں فارسی کے مصرعے ، اشعار اور اقوال بھی کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
مولاناآزاد عربی کے منتہی اور فارسی کے جیّد عالم تھے، بلکہ عربی تو ان کے لۓ مادری زبان کی حیثیت رکھتی تھی، لہٰذا وہ عربی اور فارسی سے کسی بھی طرح صرفِ نظر نہیں کر سکتے تھے۔ انھوں نے مذہبی دعوت و تبلیغ اور خطابت میں ان زبانوں سے خاطر خواہ استفادہ کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عربی فارسی زبانوں سے گہرے اخذ و استفادے میں ان کے نزدیک اظہاری سہولت مدِ نظر رہی ہو گی ، لیکن اس سے ان کے اسلوب کی امتیازی شان اور ان کی شخصیت کے انوکھے پن کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اردو میں کسی سنجیدہ یا علمی موضوع پر اظہارِ خیال کے لۓ عربی فارسی کا سہار از بس ضروری ہے اور مذہبی مسائل و مباحث اور استدلال کے لۓ ان زبانوں کا سہارا اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ لیکن مولاناآزاد کے یہاں عربی فارسی عناصر کا تناسب اپنی حد سے بہت زیادہ تجاوز کر گیا ہے۔ اسی اسلوب کو مولانا عبد الماجد دریایادی نے ’’اثقل ‘‘ کہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’شروع میں اسلوب بیان ذرا ثقیل تھا اور تذکرہ میں تو ثقیل سے گزر کر اثقل ہو گیا۔ ‘‘(۶)
الہلال ، البلاغ اور تذکرہ کی زبان اور اندازِ بیان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مولاناآزاد کا تخاطب صرف خواص اور مسلمانوں کے پڑھے لکھے طبقے سے تھا نہ کہ عوام سے۔ مالک رام غبارِ خاطر کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
’’ان پرچوں کا خاص مقصد تھا، اور ان کے مخاطب بھی تعلیم یافتہ لوگ بلکہ بہت حد تک طبقۂ علماء افراد تھے۔ ان اصحاب سے توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ نہ صرف ان تحریر وں کو سمجھ سکیں گے بلکہ ان سے لطف اندوز بھی ہوں گے۔ لیکن اس کے باوجود یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ مطالب اس سے آسان تر زبان میں بیان نہیں ہو سکتے۔ پس ظاہر ہے کہ عوام تو در کنار ، متوسط طبقہ بھی ان سے پورے طور پر مستفید نہیں ہو سکتا تھا۔ ‘‘
مولاناآزاد بھی یہ بات سمجھتے تھے۔ چنانچہ ۱۰ جون ۱۹۲۷ء کو الہلال کا جب دوبارہ اجراء عمل میںآیا تو انھوں نے اس میں لکھا:
’’یہ ظاہر ہے کہ الہلال کے فوائد عام نہیں ہو سکتے۔ جب تک کہ اس کا دائرہ بحث و نظر عام فہم نہ ہو۔ اور عام فہم جبھی ہو سکتا ہے جب مطالب کے سہل ہونے کے ساتھ ان کا اسلوبِ بیان اور زبان بھی سہل ہو۔ ‘‘
الہلال کی اسی روز کی اشاعت میں وہ مزید لکھتے ہیں:
’’ آئندہ الہلال میں دونوں قسم کے مضامین درج کۓ جائیں بڑا حصہ تو سہل و عام فہم ہو، لیکن کچھ حصّہ بلند اور خاص قسم کا بھی ہو۔ اس طرح عوام و خواص دونوں ذوقِ نظر کا سامانِ مہیّا ہو جائے گا۔ ‘‘
مولانا آزاد نے جو اسلوبِ بیان اپنی تصنیفی زندگی کےآغاز میں اختیار کیا ہے اس کی مثال ان کے ہم عصر وں میں بھی نہیں پائی جاتی۔ آزاد کے عہد میں ڈاکٹر ذاکر حسین ، خواجہ غلام السیدین ، سید عابد حسین اور محمد مجیب جیسے دانشور موجود تھے جن کی گہری دل چسپی علم و ادب ، مذہب و سیاست اور تعلیم و تدریس کے مسائل سے تھی، لیکن ان میں سے کسی نے بھی مولاناآزاد کا سا اسلوب اختیار نہیں کیا۔ اسی عہد میں سید سلیمان ندوی اور مولاناآزاد کا اسلوب اختیار نہیں کیا۔ اسی عہد میں سید سلیمان ندوی اور مولانا عبد الماجد دریابادی جیسے عالم بھی موجود تھے ، لیکن ان کے اسلوب میں بھی الفاظ کی وہ گھن گرج ، بلندآہنگی اور ادبی مرصع کاری نہیں پائی جاتی جوآزاد کے اسلوب کا امتیازِ خاص ہے، بلکہ ان مصنفین کا اسلوب سادگی کی طرف زیادہ مائل تھا۔ آزاد کے پیش روؤں میں سر سید نے عصری تقاضوں اور ضرورتوں کے تحت ایک نئے اسلوب کی بِنا ڈالی تھی ، جو نثر میں رنگینی ، مرصّع کاری اور آراستگی کے شدید ردِ عمل کے طور پر سامنےآیا تھا جس کی جڑیں میر امّن کی باغ و بہار سے جا کر ملتی ہیں۔ سر سید مسلمانوں میں جدید علوم کو فروغ دینا چاہتے تھے جس کے لۓ شعر و ادب کی زبان قطعی ناموزوں تھی۔ اسی لۓ انھوں نے ایک سادہ اسلوب سے کام لیا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مولاناآزاد نے سر سید کی سیاسی فکر کو قبول نہیں کیا تھا ، اسی طرح انھوں نے ان کے لسانی اسلوب کو بھی رد کر دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ نظریاتی اعتبار سےآزاد علامہ شبلی سے بہت قریب تھے اور یہی قربت جو انھیں کشاں کشاں ندوہ لےآئی ، جہاں انھوں نے کچھ عرصے تک شبلی کے علمی رسالے الندوہ کی ادارت کے فرائض بھی انجام دۓ۔ آزاد نے شبلی کی تصانیف الفاروق ، المامون، الغزالی ، اور سیرة النعمان ،وغیرہ کا ضرور مطالعہ کیا ہو گا۔ اور یہ عین ممکن ہے کہ انھیں اپنے خاندان کے بزرگوں کے تاریخی اور سوانحی حالات لکھنے کا خیال ان تصانیف کو پڑھنے کے بعدآیا ہو اور جیل کے فرصت کے اوقات اس خیال کو عملی جامہ پہنانے میں معاون ثابت ہوئے ہوں۔ لیکن تذکرہ میں شبلی کے اسلوبِ تحریر کی بھی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔ اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ تذکرہ کا اسلوبآزاد کے اپنے ذہن کی ایجاد و اختراع ہے، جس میں اُن کے تبحر علمی، عربی فارسی پر عبورِ کامل اور اسلامی فلسفہ و فکر سے گہرے شغف اور قرآن و حدیث سے غیر معمولی اخذ و استفادے کو زیادہ دخل ہے۔ اس کے علاوہ ان کی شخصیت کے انوکھے پن نے بھی ان کے اسلوب کی تعمیر و تشکیل میں ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ یہ تمام چیزیں مل کر ان کے اسلوب کو مشکل ،بوجھل اور اثقل بنا دیتی ہیں جس کا انھیں خود بھی احساس تھا اور وہ بالآخر اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ زبان اور اندازِ بیان ممکن حد تکآسان اور عام فہم ہونا چاہۓ۔ الہلال کے دوبارہ اجراء پر اس کی ۱۰ جون ۱۹۲۸ء کی اشاعت میں انھوں نے لکھا:
’’باقی رہا زبان کا معاملہ تو وہ ہر حال میں حتی الوسع سہل اور صاف اختیار کی جائے گی۔ کسی درجہ کا موضوع ہو لیکن اسلوبِ بیان مشکل اور دیر فہم نہ ہو گا۔ ‘‘
مولاناآزاد کے خیال میں اسلوبِ بیان اس وجہ سے مشکل ہو جاتا ہے کہ دقیق اور علمی مطالب ‘‘ بیان کر نا پڑتے ہیں۔ الہلال کی ۱۰ جون ۱۹۲۷ء کی ہی اشاعت میں وہ لکھتے ہیں:
’’مشکل یہ ہے کہ ہر طرح کی مطالب کا عام فہم طریقے پر بیان کرنا آسان نہیں۔ بعض دقیق اور علمی مطالب ایسے ہوتے ہیں کہ انھیں کتنا ہی گھُلا کر بیان کیا جائے ایک حد تک مشکل اور گراں ضرور ہوں گے۔
(۴)
اطلاعی اسلوب کے بعد زبان کا دوسرا بنیادی اسلوب ہدایتی اسلوب(Directive style) ہے۔ یہ اسلوب اس وقت اختیار کیا جاتا ہے جب کسی فعل کو سرانجام دینے کی ہدایت (Direction) دی جاتی ہے یا کسی عمل سے باز رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ ہدایتی اسلوب کی بہترین مثالیں حکم اور استدعا کے لۓ استعمال کی جانے والی زبان میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایسے اسلوب میں فعلِ امر و نہی کی صیغوں اور امرِ تعظیمی کا استعمال زیادہ ہوتا ہے ترجمان القرآن میں جہاں ایک طرف اطلاعی اسلوب کے نمونے ملتے ہیں وہیں یہ کتاب ہدایتی اسلوب کی مثالوں سے بھی پُر ہے۔ ترجمان القرآن کا یہ جملہ :’’ حق کے سِوا کچھ اور نہ کہو ‘‘ (ص ۵۷۶) کوئی اطلاع بہم نہیں پہنچاتا اور نہ ہی اس سے کسی جذبے یا تاثر کا پیدا کرنا مقصود ہے بلکہ ایک مخصوص عمل کے لۓ مخاطب کو آمادہ کرنا ہے اور اس میں تحریک پیدا کرنا ہے کہ اس سے وہ عمل سرزد ہو۔ ہدایتی اسلوب کا مقصد حصولِ نتائج ہے نہ کہ اطلاع دہی۔ ترجمان القرآن کے یہ جملے ملاحظہ ہوں:
’’اپنے دین میں غلو نہ کرو (ص ۵۷۶)
’’اللہ پر ایمان لاؤ‘‘(ص۵۴۹)
’’جب گواہی دو تو صاف صاف بات کہو‘‘(ص ۵۴۹)
’’فتح و کام یابی کے بعد ظلم و شرارت نہ کرو‘‘ (ص ۵۶۵)
’’جو کوئی برائی کرے اس کی مدد نہ کرو‘‘(ص ۵۸۷)
’’احکامِ حق کی اطاعت کا عہد پورا کرو‘‘(ص ۵۹۶)
’’خدا نے جو چیزیں تم پر حلال کر دی ہیں، انھیں اپنےاوپر حرام نہ کرو (۵۶۱)
ترجمان القرآن کے علاوہ مولاناآزاد کے بعض خطبات کا اسلوب بھی ہدایتی ہے۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء میں مسلمانانِ دہلی کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے یہی اسلوب اختیار کیا تھا۔ اس خطبے کا ایک ٹکڑا ملاحظہ ہو:
’’یہ فرار کی زندگی جو تم نے ہجرت کے مقدّس نام پر اختیار کی ہے، اس پر غور کرو ،اپنے دلوں کو مضبوط بناؤ اور اپنی دماغوں کو سوچنے کی عادت ڈالو اور پھر دیکھو کہ تمہارے فیصلے کتنے عاجلانہ ہیں۔ آخر کہاں جا رہے ہو اور کیوں جا رہے ہو؟‘‘
اسی خطبے سے ایک اور مثال پیش ہے:
’’عزیزو! تبدیلیوں کے ساتھ چلو۔ یہ نہ کہو کہ ہم اس تغیر کے لۓ تیار نہ تھے۔ بلکہ اب تیار ہو جاؤ۔ ستارے ٹوٹ گئے لیکن سورج تو چمک رہا ہے ، اس سے کرنیں مانگ لو اور ان اندھیری راتوں میں بچھا دو جہاں اُجالے کی ضرورت ہے۔ ‘‘
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ حکم اور استدعا دونوں ہی ہدایتی اسلوب کی شکلیں ہیں۔ امرِ تعظیمی کے استعمال اور ’’تم‘‘ کی جگہ’’ آپ ‘‘ کے استعمال سے حکم کو استدعا میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ترجمان القرآن میں امرِ تعظیمی کی شکلیں بالکل مفقود ہیں۔ اس کے برعکس خطبات میں ان شکلوں کا بار ہا استعمال ہوا ہے۔
ہدایتی اسلوب پر تکلف اور رسمی بھی ہو سکتا ہے اور بے تکلفانہ اور غیر رسمی بھی۔ تقسیم ملک کے بعد دلّی کی جامع مسجد سے انھوں نے مسلمانوں کو جو خطبہ دیا تھا۔ وہ بے تکلفانہ اسلوب کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس خطبے میںآزاد کا تخاطب صر ف مسلمانوں سے ہے جس میں انھوں نے شروع میں صرف ایک بار ’’آپ‘‘ اور باقی ہر جگہ ’’ تم ، تمھیں ، تمھارا ، تمھارے ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ اس طرح اس خطبے میں ہر جگہ فعلِ امر کے صیغے استعمال کۓ گئے ہیں اور کسی ایک جگہ بھی امر تعظیمی استعمال نہیں ہوا ہے۔ اس کی ایک عمدہ مثال یہ ہے:
’’یہ دیکھو مسجد کے بلند مینار تم سے اُچک کر سوال کرتے ہیں کہ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کر دیا ہے؟ ابھی کل کی بات ہے کہ جمنا کے کنارے تمھارے قافلوں نے وضو کیا تھا اور آج تم ہو کہ تمھیں یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے۔ حالآنکہ دہلی تمھاری خون سے سینچی ہوئی ہے۔ ‘‘
(۵)
زبان کا تیسرا بنیادی اسلوب، اظہاری اسلوب(Expressive Style) ہے۔ جس طرح سائنس کی زبان اطلاعی اسلوب کی بہترین مثال ہے۔ اسی طرح شاعری اظہاری اسلوب کی بہترین مثال پیش کرتی ہے۔ اظہاری اسلوب کے ذریعے شاعر اطلاعی رسی یا معلومات کی ترسیل کا کام انجام نہیں دیتا بلکہ جذبے اور احساس کی ترجمانی اس کا اصل مقصد ہوتا ہے۔ شاعر اس لۓ شعر تخلیق نہیں کرتا کہ وہ معلومات کا خزانہ قاری کو دینا چاہتا ہے یا کوئی اطلاع بہم پہنچاتا چاہتا ہے، بلکہ اس لۓ کہ وہ اپنے داخلی جذبے اور تاثر کو پیش کر سکے اور اگر ہو سکے تو وہی جذبہ اور تاثر وہ قاری کے اندر بھی پیدا کر سکے۔ زبان سے جب داخلی تاثر ، جذبے اور احساس کی ترجمانی کا کام لیا جاتا ہے تو یہ زبان کا اظہاری استعمال کہلاتا ہے جو اظہاری اسلوب کی شکل کا تعلق صرف شاعری ہی سے نہیں بلکہ نثر میں بھی یہ اسلوب برتا جا سکتا ہے اور ’’غبارِ خاطر ‘‘ اس کی ایک نہایت عمدہ مثال ہے۔
غبارِ خاطر میں مولاناآزاد نے جو مکتوب نما انشائیے پیش کۓ ہیں ان میں معنی کے بجائے لفظ اہم ہے اور بیان کے بجائے طرزِ بیان۔ ان میں مواد کی وہ اہمیت نہیں جو اظہار کی ہے۔ مولاناآزاد نے اظہاری اسلوب کے ذریعے غبارِ خاطر کی نثر میں وہی داخلی تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جو شاعری میں ملتا ہے۔ غبارِ خاطر کے بعض نثر پارے قاری کو ایک مخصوص جمالیاتی تجربے کا احساس دلاتے ہیں ’’حکایتِ زاغ و بلبل ‘‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’زمستاں کی برف باری اور پت جھڑ کے بعد جب موسم کا رُخ پلٹنے لگتا ہے اور بہار اپنی ساری رعنائیوں اور جلوہ فروشیوں کے ساتھ باغ و صحرا پر چھا جاتی ہے ، تو اس وقت برف کی بے رحمیوں سے ٹھٹھری ہوئی دنیا یکایک محسوس کرنے لگتی ہے کہ اب موت کی افسردگیوں کی جگہ زندگی کی سرگرمیوں کی ایک نئی دنیا نمودار ہو گئی۔ انسان اپنے جسم کے اندر دیکھتا ہے تو زندگی کا تازہ خون ایک ایک رگ کے اندر اُبلتا دکھائی دیتا ہے۔ اپنے سے باہر دیکھتا ہے تو فضا کا ایک ایک ذرہ عیش و نشاطِ ہستی کی سرمستیوں میں رقص کرتا ہوا نظرآتا ہے۔ آسمان و زمین کی ہر چیز جو کل تک محرومیوں کی سوگواری اور افسردگیوں کی جانکاہی تھی، آجآنکھ کھولیے تو حسن کی عشوہ طرازی ہے۔ کان لگائیے تو نغمے کی جاں نوازی ہے۔ سونگھۓ تو سر تا سر خوشبو کی عطر بیزی ہے۔ ‘‘(۷)
’’غبارِ خاطر‘‘کی نثر ادبی مرصع کاری اور رنگینی عبارت کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ اس کے علاوہ لفظی رعایات و مناسبات ،فقروں کی صوتی در و بست ،جملوں کی متوازن ترکیب و ترتیب، اظہار کے بدلے ہوئے پیرائے ، نت نئے تلازمات اور نادر ترکیبات نے اس کی دلآویزی اور دل کشی میں اور بھی اضافہ کر دیا ہے۔ ’’حکایت بادہ و تریاک ‘‘ سے رعایات و مناسباتِ لفظی اور مرصع کاری کی ایک خوب صورت مثال ملاحظہ ہو:
’’جس قید خانے میں صبح ہر روز مسکراتی ہو، جہاں شام ہر روز پردۂ شب میں چھُپ جاتی ہو، جس کی راتیں کبھی ستاروں کی قندیلوں سے جگمگانے لگتی ہوں کبھی چاندنی کی حُسن افروزیوں سے جہاں تاب رہتی ہو، جہاں دوپہر ہر روز چمکے ، شفق ہر روز نکھرے ، پرند ہر صبح و شام چہکیں ، اُسے قید خانہ ہونے پر بھی عیش و عشرت کے سامانوں سے خالی کیوں سمجھ لیا جائے۔ ‘‘(۸)
یہاں ڈاکٹر سید عبد اللہ کے اس خیال سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ غبار خاطر ایک لحاظ سے ’’بیکاری کا مشغلہ ‘‘ ہے جس میں ابوالکلام کا قلم ’’بیمار‘‘ اور ’’ضعیف ‘‘ معلوم ہوتا ہے۔ (۹) لیکن حقیقت یہ ہے کہ زبان کا جتنا جمالیاتی اور تخلیقی استعمال غبارِ خاطر میں ملتا ہے ، مولاناآزاد کی کسی اور تصنیف میں نہیں ملتا ہے۔ یہاںآزاد کا قلم نہ تو بیمار ہے اور نہ ضعیف ، بلکہ ایک متحرک و توانا قلم جسے ایک نئے پیرایۂ اظہار اور ایک نئے اسلوبِ بیان کی تلاش ہے۔
حواشی و حوالے:
۱۔ عبدالماجد دریا بادی ، اردو کا ادیبِ اعظم ، ص ۲۵
۲۔ عبد الرزاق ملیحآبادی، ذکرِآزاد، ص ۴۱۲۔
۳۔ احمد سعید ملیحآبادی، ’’ مولاناآزاد کے چند اہم مسودات‘‘ مشمولہ مولانا ابوالکلامآزاد : شخصیت اور کارنامے مرتبہ خلیق انجم (دہلی : اردو اکادمی ، ۱۹۶۸ ء) ، ص ۳۶۶)
۴۔ اطلاعی ، ہدایتی اور اظہاری ،یہ تینوں اسالیب در حقیقت زبان کے تینFunctions) ہیں لیکن جب زبان انFunctionsکے لۓ استعمال کی جاتی ہے تو یہ اسالیب کی شکل اختیار کر لیتے ہیں کیوں کہ ان تینوں اسالیب میں زبان کا استعمال جداگانہ ہوتا ہے۔
۵۔ ابوالکلامآزاد ، خطباتِآزاد مرتبہ مالک رام (نئی دہلی : ساہتیہ اکادمی ، ۱۹۷۴ء) ، ص ۳۵۔
۶۔ عبد الماجد دریابادی ، محولہ کتاب ، ص ۲۵
۷۔ ابوالکلامآزاد، غبارِ خاطر مرتبہ ، مالک رام (نئی دہلی : ساہتیہ اکادمی ، ۱۹۶۷ ء) ، ص ۶۰۲
۸۔ ایضاً ص ۶۹۔
۹۔ سید عبد اللہ ، انوارِ ابوالکلام ، ص ۸۷