ادب کی تنقید ہمارے ذہنی و فکری رویّے کا ایک حصّہ ہے۔ اس رویّے میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ ادب کو سمجھنے اور پرکھنے، نیز اس کی افہام و تفہیم کے انداز بھی بدلے ہیں۔ ادب کا مطالعہ اب نئے علوم اور نئے علمی نظریات کی روشنی میں کیا جانے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادبی تنقید کو اب بین العلومی (Interdisciplinary) حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ ادبی تنقید اب محض تاثر یا وجدانی کیفیات کے اظہار ، تشبیہہ و استعارے کے بیان، نیز فصاحت و بلاغت کے ذکر تک محدود نہیں رہ گئی ہے، بلکہ اس میں ادب کے حوالے سے نفسیاتی، فلسفیانہ اور سماجی مسائل کو بھی بیان کیا جانے لگا ہے۔ اب ادب کی روایتی تنقید یعنی تاثراتی، رومانی اور جمالیاتی تنقید کے شانہ بشانہ نفسیاتی تنقید، فلسفیانہ تنقید اور سماجی تنقید بھی فروغ پا چکی ہے۔ یہ تینوں دبستانِ تنقید اپنے حربے اور طریقِ کار علی الترتیب نفسیات، فلسفہ اور سماجیات جیسے علوم سے اخذ کرتے ہیں۔ ادب کو نئے علوم کے تناظر میں رکھ کر دیکھنے کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔ اس امر کا اعتراف ہمارے بعض نقادوں نے کھل کر کیا ہے، مثلاً جمیل جالبی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
’’گذشتہ پچاس سال کے دوران میں ہماری تنقید نے بھی سماجی علوم کی مدد سے ادب کے مطالعے کی طرح ڈالی ہے۔ نفسیات کی اصطلاحات ہمارے ہاں بھی، ادبی اصطلاحات بن کر، عام و مروّج ہو گئی ہیں۔ فلسفۂ جمالیات نے بھی ہماری تنقید کو متاثر کیا ہے۔ طبیعیات، معاشیات و حیاتیات وغیرہ کے علاوہ آثار، لوک روایت، لفظیات، اسلوبیات و ساختیات نے بھی ہماری تنقید پر اثر ڈالا۔ اسی طرح ’روایت‘ کی باز یافت کا مسئلہ بھی ہماری تنقید کے سامنے آیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سارے اثرات ، خواہ وہ روایت کی بازیافت کا مسئلہ ہو یا نفسیات و عمرانیات اور دوسرے سائنسی علوم سے تنقید کے دائرۂ کار کو وسعت دینے کا مسئلہ ہو، ان سب کا مخرج و مبنع ’مغرب‘ ہے۔ ‘‘ (۱)
ایک اور شعبۂ علم جس نے بیسویں صدی کے نصفِ دوم میں ادبی تنقید کو گہرے طور پر متاثر کیا ہے ’لسانیات‘ (Linguistics) ہے۔ لسانیات یا لسانیاتِ جدید کا ارتقا بیسویں صدی کے آغاز میں یورپ میں فرڈی نینڈ ڈی سسیور کے بے مثل لسانیاتی افکار سے ہوتا ہے۔ ( ۲) بعد کے دور میں بلوم فیلڈ( ۴) کی تحریروں سے اس علم کو نظریاتی وسعت اور قطعیت حاصل ہوتی ہے۔ ۱۹۵۰ء کے آس پاس اس علم کے نئے نئے شعبے قائم ہوتے ہیں،اور اس دہائی کے اوا خر میں ’اسلوبیات‘ (Stylistics) کی بنیاد پڑتی ہے جس کے لئے امریکی ماہرینِ لسانیات و اسلوبیات ٹامس اے۔ سیبیوک، آرکی بالڈ اے۔ ہل، ڈیل ایچ۔ ہائمز، سال سپو ر ٹا، جان ہو لینڈر اور رولاں ویلز کی خدمات لائقِ ستائش ہیں۔ (۴)
(۲)
اسلوبیات دراصل ادب کے لسانیاتی مطالعے اور تجزیے کا دوسرا نام ہے۔ لسانیات میں چوں کہ زبان کا سائنسی مطالعہ و تجزیہ کیا جاتا ہے، اس لیے اسلوبیات بھی ادب کی زبان کے سائنسی مطالعے اور تجزیے سے ہی سروکار رکھتی ہے۔ چوں کہ ادب میں زبان کے مخصوص استعمال سے اسلوب تشکیل پاتا ہے، لہٰذا اسلوبیات کو مطالعۂ اسلوب بھی کہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی شاعر یا ادیب کے اسلوب کا مطالعہ زبان کے ہی حوالے سے کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح اسلوب کا جو مطالعہ لسانیات کی روشنی میں کیا جاتا ہے اور جس میں لسانیاتی طریقِ کار سے مدد لی جاتی ہے، اسے اسلوبیاتی مطالعہ کہتے ہیں۔ اسی مطالعے کو ’اسلوبیاتی تنقید ،‘ کا بھی نام دیا گیا ہے۔ جس طرح نفسیاتی تنقید نفسیات سے، فلسفیانہ تنقید فلسفے سے اور سماجی تنقید سماجیات سے روشنی اخذ کرتی ہے، ٹھیک اسی طرح اسلوبیاتی تنقید لسانیات سے مدد لیتی ہے۔ اسی لیے اسلوبیاتی نقاد کے لیے لسانیات کی مبادیات سے کماحقہٗ واقفیت نہایت ضروری ہے۔
اسلوبیاتی تنقید میں زبان کے ادبی اور تخلیقی استعمال کے مطالعے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ زبان کا تعلق ایک طرف ادب سے ہے تو دوسری طرف لسانیات سے۔ زبان ادبی و شعری اظہار کا ذریعہ (Medium) تو ہے ہی، لیکن یہی زبان لسانیات کا مواد و موضوع (Content and subject matter) بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادب اور لسانیات میں گہرا رشتہ پایا جاتا ہے۔ لیکن دونوں میں زبان کی نوعیت جداگانہ ہے۔ ایک ادیب یا شاعر جب زبان کو ذریعۂ اظہار کے طور پر استعمال کرتا ہے تو وہ اس میں طرح طرح کے تصرفات سے کام لیتا ہے اور ضرورت پڑنے پر وہ اس میں کاٹ چھانٹ اور توڑ پھوڑ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اس طرح وہ لسانی ضابطوں اور قاعدوں ، نیز زبان کے مروّجہ اصولوں (Norms) سے انحراف کرتا ہے جس کے نتیجے میں وہ نئے نئے لسانی سانچے تشکیل دیتا ہے، نئی نئی تراکیب اختراع کرتا ہے اور نت نئے نئے تلازمات و انسلاکات وضع کرتا ہے۔ یہ تمام باتیں اس کے اسلوب کی تعمیر و تشکیل میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ ان لسانی تصرفات و اختراعات سے وہ اپنی زبان خود تخلیق کرتا ہے اور اس کے وسیلے سے اپنا جدا گانہ اسلوب بھی تشکیل دیتا ہے۔ اسلوب کی اسی انفرادیت کے باعث ہم کسی ادیب یا شاعر کی پہچان قائم کرتے ہیں اور اسے دوسرے ادیب یا شاعر سے ممیّز قرار دیتے ہیں۔ اسلوب کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ کسی ادیب یا شاعر کی انفرادیت جاننے کے لیے ہمیں بالآخر اس کے اسلوب کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے، ورنہ موضوعات تو کسی کی ملکیت نہیں ہوتے۔ اس طرح زبان ایک طرف بہ طورِ ذریعۂ اظہار ادب سے اپنا رشتہ استوار کرتی ہے تو دوسری طرف وہ لسانیات کے لیے موادو موضوع فراہم کرتی ہے۔ لسانیات زبان کے مطالعے اور تجزیے کا کام اپنے اصولوں اور طریقوں کے مطابق سر انجام دیتی ہے۔ یہی اصول اور طریقے ادبی زبان کے مطالعے اور تجزیے میں بھی بروئے عمل لائے جاتے ہیں۔ چوں کہ ادبی و تخلیقی زبان کا یہ مطالعہ قطعیت کے ساتھ منظم طور پر کیا جاتا ہے، اور اس مطالعے میں سائنسی اور معروضی انداز اختیار کیا جاتا ہے ، نیز اس کی اپنی نظری بنیادیں اور عملی ضابطے ہیں،اس لیے اس کی حیثیت ایک باقاعدہ شعبۂ علم کی ہو گئی ہے جسے ’اسلوبیات‘ کہتے ہیں۔ گوپی چند نارنگ جن کی دلچسپی کا خاص میدان اسلوبیات ہے، اپنی گراں قدر تصنیف ادبی تنقید اور اسلوبیات میں اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’اسلوبیات وضاحتی لسانیات (Descriptive Linguistics) کی وہ شاخ ہے جو ادبی اظہار کی ماہیت ، عوامل اور خصائص سے بحث کرتی ہے۔ اور لسانیات چوں کہ سماجی سائنس ہے، اس لیے اسلوبیات اسلوب کے مسئلے سے تاثراتی طور پر نہیں، بلکہ معروضی طور پر بحث کرتی ہے، نسبتہً قطعیت کے ساتھ اس کا تجزیہ کرتی ہے، اور مدلّل سائنسی صحت کے ساتھ نتائج پیش کرتی ہے‘‘( ۵) ۔
اسلوبیات کو ’ادبی اسلوبیات‘ ( Literary Stylistics) سے ممیّز کرنے کے لئے کبھی کبھی ’لسانیاتی اسلوبیات‘ (Linguistic Stylistics) کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔ ادبی اسلوبیات میں ادب کے مطالعے کا روایتی انداز پایا جاتا ہے، جب کہ لسانیاتی اسلوبیات کا تعلق براہِ راست لسانیات سے ہے جس میں ادبی متن یا فن پارے کی لسانیاتی خصوصیات و امتیازات (اسلوبی خصائص ) کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ یہ اسلوبی خصائص (Style-features) زبان کی صوتی، صرفی، لغوی ، نحوی اور معنیاتی سطحوں پر نشان زد کیے جاتے ہیں۔ مسعود حسین خاں جو اردو میں اسلوبیاتی تنقید کے بنیاد گزارہیں ’اسلوبیات‘ پر، ’لسانیاتی اسلوبیات‘ کی اصطلاح کو ترجیح دیتے ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک مضمون کا عنوان بھی ’’ لسانیاتی اسلوبیات اور شعر‘‘ رکھا ہے، جس میں وہ لکھتے ہیں:
’’ لسانیاتی اسلوبیات کے عنوان سے مجھے بحث کرنے میں دو قسم کی سہولتیں مل جاتی ہیں؛ ایک تو میرا روئے سخن صرف ان ماہرینِ لسانیات کی جانب رہتا ہے جنھوں نے جدید لسانیات (توضیحی لسانیات) کا اطلاق شعر کی افہام و تفہیم پر کیا ہے، دوسرے ان معترضین کا منہ بند ہو جاتا ہے جو لسانیات سے ناواقفِ محض ہیں اور ادبی ناقدین کے فقروں اور قولِ محال پر وجد کرتے رہتے ہیں۔ ‘‘ (۶)
لسانیاتی اسلوبیات کا سلسلہ ساختیات (Structuralism) سے بھی جا ملتا ہے۔ ادبی اسلوبیات کو فروغ دینے والوں میں لیو سپٹزر کا نام سرِ فہرست ہے۔ ادبی اسلوبیات اپنے مزاج کے اعتبار سے معروضی اور لسانیاتی کم ، اور داخلی اور ادبی زیادہ ہے۔
(۳)
یہاں اس امر کا ذکر ضروری ہے کہ اسلوبیات ادب کے مطالعے کا نام نہیں، بلکہ ادب میں زبان کے استعمال یا ادبی زبان کے مطالعے کا نام ہے جو لسانیات کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشیں رہنی چاہے کہ ہر لسانیاتی مطالعہ اسلوبیاتی مطالعہ قرار نہیں دیا جا سکتا،لیکن ہر اسلوبیاتی مطالعہ لسانیاتی مطالعہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ادب کے اسلوبیاتی مطالعے کی بنیاد لسانیاتی تجزیہ پر رکھی جاتی ہے، لیکن لسانیاتی تجزیہ کے بعد متن یا فن پار ے کے لسانی امتیازات کو جنھیں ’اسلوبی خصائص‘ (Style-features) بھی کہتے ہیں ، نشان زد کرنا ضروری ہوتا ہے۔ بعض اوقات ان اسلوبی خصائص کی توجیہہ بھی اسلوبیاتی تجزیے کا جزو قرار پاتی ہے۔ اس لیے اسلوبیات یا اسلوبیاتی تنقید کو ادب کا لسانیاتی تجزیہ اور اس تجزیے سے برآمد ہونے والے اسلوبی خصائص کی شناخت و دریافت قرار دینا بجا ہو گا۔
اسلوبی خصائص فن پارے کے لسانی امتیازات کے حامل ہوتے ہیں، جن کی شناخت کے بغیر اسلوبیاتی مطالعہ یا تجزیہ نا مکمل رہتا ہے۔ اسلوبی خصائص کو ہم کسی فن پارے کے لسانیاتی تجزیے کا نچوڑ کہہ سکتے ہیں۔ اسلوبی خصائص زبان کے مخصوص استعمال سے پیدا ہوتے ہیں۔ زبان سے متعلق ہر وہ خصوصیت اسلوبی خصوصیت کہی جا سکتی ہے جسے زبان کے عام دھارے سے الگ کیا جا سکے اور جو اپنے انوکھے پن کی وجہ سے قاری کی توجہ فوراً اپنی جانب مرکوز کر لے۔ اسلوبی خصائص ادیب کی جدتِ طبع کا بھی مظہر ہوتے ہیں اور اس کی تخلیق کو منفرد بنا دیتے ہیں۔ اسلوبی خصائص جن لسانی عناصر پر مشتمل ہوتے ہیں ان میں آوازیں ، الفاظ، فقرے اور جملے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ بعض آوازوں کے نمونے (Sound patterns) یا آوازوں کی مخصوص ترتیب و تنظیم ، نیز کوئی مخصوص لفظ، یا کسی لفظ کا مخصوص استعمال یا کسی فقرے اور جملے کا انوکھا استعمال اسلوبی خصوصیت کا حامل بن سکتا ہے۔ اسلوبی خصائص زبان کی تمام سطحوں پر جن میں صوتی، صرفی، لغوی، نحوی اور معنیاتی سطحیں شامل ہیں، پائے جاتے ہیں، ان تمام سطحوں پر زبان کے انوکھے ، منفرد، مخصوص اور تصرفانہ، نیز تخلیقی استعمال سے اسلوبی خصائص برآمد ہوتے ہیں۔ (۷ )
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ ادبی زبان تخلیقی ہوتی ہے۔ یہ عام بول چال یا روز مرّہ کی زبان سے مختلف ہوتی ہے۔ عام بول چال کی زبان اپنی مروّجہ ڈگر پر چلتی ہے اور لسانی ضابطوں اور قاعدوں کی پابند ہوتی ہے۔ اس میں روایت اور چلن کا بھی پاس ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ادبی اور تخلیقی زبان اکثر مروجہ لسانی ضابطوں اور اصولوں سے انحراف (Deviation) کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ اس میں اکثر زبان کے معیارات (Norms) کی دانستہ اور منظم طور پر خلاف ورزی پائی جاتی ہے۔ اس میں روایت اور چلن کی پاسداری کا بھی فقدان ہوتا ہے، نیز لفظوں کو جملوں میں ترتیب دیتے وقت انتخابی پابندیوں (Selectional restrictions) کی بھی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ادبی اور تخلیقی سطح پر زبان کو برتنے کا ادیب کا رویّہ ’’ڈھیٹ‘‘ (۸) ہوتا ہے۔ لسانیات کے دبستانِ پراگ Prague Schoolکے ممتاز ماہرِ لسانیات اور ادبی نقاد مکارووسکی نے زبان کے اسی تخلیقی عمل کوForegroundingسے تعبیر کیا ہے (۹) ، کیوں کہ ادب میں زبان کا استعمال اس کے اپنے Backgroundکے برعکس ہوتا ہے۔ یہ بات بد یہی ہے کہ عام بول چال میں زبان کا استعمال غیر شعوری اور خود کارانہ (Automatized) طور پر ہوتا ہے، لیکن ادب و شعر میں زبان کا استعمال شعوری کو شش و عمل کا نتیجہ ہوتا ہے اور غیر خود کارانہ (De-automatized) ہوتا ہے۔ مکارووسکی کا خیال ہے کہ شاعری کی زبان کو روایتی، یا خود کارانہ نہیں بلکہ غیر خود کارانہ اور Foregroundedہونا چاہیے(۱۰) ۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب زبان کے مروجہ اصولوں ، ضابطوں اور معیاروں سے انحراف کیا جائے۔
ادبی یا تخلیقی زبان لسانی انحرافات کے علاوہ لسانی نمونہ بندی (Verbal patterning) کی بھی حامل ہوتی ہے۔ لسانی نمونہ بندی متن میں حسنِ ترتیب پیدا کرنے کا نام ہے۔ ایک ادبی فن کار مختلف آوازوں، لسانی سانچوں، نیز لفظوں اور ترکیبوں کے نادر نمونوں سے اپنے فن پارے میں حسنِ ترتیب پیدا کرتا ہے۔ رومن یاکولبن نے اسی چیز کو متن کے ’Well-ordered‘ ہونے سے تعبیر کیا ہے۔ یہ چیز متن کی صوتی سطح سے لے کر معنیاتی سطح تک پائی جاتی ہے جس کی شناخت اور مطالعہ اسلوبیاتی تنقید کا ایک اہم حصّہ ہے۔ ہر زبان کے ادب میں صوتی ، صرفی، لغوی، نحوی/ قواعدی، اور معنیاتی سطح پر بے شمار اسلوبیاتی طریقے (Stylistic devices) اختیار کیے جاتے ہیں جن سے ادبی فن پارے میں حسن پیدا ہوتا ہے۔ ان تمام اسلوبیاتی طریقوں کا مطالعہ اسلوبیاتی تنقید کے دائرے میں آتا ہے۔ ہر زبان کی شاعری میں صوت و معنی کے اتصال اور ان کے درمیان رشتوں سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ اسلوبیاتی تنقید کا کام ہے کہ وہ صوت و معنی کے باہمی رشتوں کا پتا لگائے اور اس کی توجیہہ بیان کرے۔
ممتاز انگریزی نقاد اور دانشور آئی۔ اے۔ رچرڈز نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ نظم ایک ’سوٹ کیس‘ کی مانند ہوتی ہے جسے شاعر’ ’ pack‘‘ کرتا ہے اور بعد میں قاری اسے’’unpack‘‘ کرتا ہے( ۱۱) ۔ یہاں سوٹ کیس کو ’’پیک ‘‘کرنے سے مراد نظم کو مختلف النوع اسلوبیاتی اور لسانیاتی خصوصیات سے پُر کرنا یعنی آراستہ کرنا ہے جو شاعر کا کام ہے اور سوٹ کیس کو ’’اَن پیک‘‘ کرنے سے مراد ان خصوصیات کی دریافت اور شناخت ہے جو قاری کا کام ہے۔ نقاد بھی ایک قاری ہوتا ہے۔ ایک ذہین قاری کسی نظم کو پڑھ کر جمالیاتی تجربے سے گزرنے کے علاوہ لسانیاتی تجربے سے بھی گزرتا ہے جس سے نظم کی زبان اور اس کے اسلوب سے متعلق بہت سے خصائص کا اسے ادراک ہو جاتا ہے، لیکن ان خوبیوں یا خصائص کو منظم طور پر نشان زد کرنے اور بیان کرنے کا کام نقاد انجام دیتا ہے۔ نقاد نظم یا فن پارے کا باریک بینی کے ساتھ مطالعہ و تجزیہ کرتا ہے اور اس کے اسلوبی خصائص کی شناخت کرتا ہے۔ گویا ’سوٹ کیس‘ کو ’’ اَن پیک‘‘ کرنے میں وہ قاری کی مدد کرتا ہے۔
غرض کہ زبان اور اس کی تمام سطحات کے حوالے سے شعر و ادب کا کسی بھی نوع کا مطالعہ جو لسانیات کی روشنی میں کیا جاتا ہے، اسلوبیاتی مطالعہ کہلاتا ہے۔ اسلوبیاتی تنقید بھی اسی کا نام ہے۔ اب جب کہ ادبی تنقید اپنے داخلی اور تاثراتی خول سے باہر نکل رہی ہے ، توقع کی جاتی ہے کہ آنے والے دور میں ادب اور لسانیات کے درمیان باہمی رشتے مزید استوار ہوں گے اور ادب کے مطالعے میں لسانیات کے اطلاق کا دائرہ اور وسیع ہو گا اور اسی کے ساتھ اسلوبیاتی مطالعۂ، ادب نئے جہات و ابعاد سے روشناس ہو گا۔
(۴)
جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ اسلوبیات کا سلسلہ ساختیات (Structuralism) سے بھی ملتا ہے، لہٰذا اس امر کا ذکر یہاں، بیجا نہ ہو گا کہ روایتی نظریۂ ادب یا روایتی تنقید میں ’مصنف‘ (Author) کو مرکزی حیثیت حاصل تھی، لیکن دھیرے دھیرے مصنف کا طلسم ٹوٹتا گیا اور مصنف کی جگہ ’متن‘ (Text) کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی۔ یہیں سے ساختیاتی نظریۂ ادب یا ساختیاتی تنقید کی ابتدا ہوتی ہے۔ روایتی تنقید سے ساختیات یا ساختیاتی تنقید تک کا ذہنی سفر کافی لمبا ہے۔ اس کے لیے اگر ایک طرف فرانسیسی ہئیت پسندی (French Formalism) نے راہیں ہموار کیں تو دوسری طرف روسی ہئیت پسندی (Russian Formalim) اس کے لیے معاون ثابت ہوئی۔ فرانسیسی ہئیت پسندی فرڈی نینڈ ڈی سسیور کی مرہونِ منّت ہے۔ ڈی سسیور کی کتاب Course in General Linguisticsجو اس کی وفات کے بعد ۱۹۱۶ ء میں شائع ہوئی، ساختیاتی نظریے کا نقطۂ آغاز ہے۔ روسی ہئیت پسندی نے ما سکو لنگوسٹک سرکل (Moscow Linguistic Circle) کے زیرِ اثر پندرہ سال تک (۱۹۱۵ء تا ۱۹۳۰ ء) فروغ پایا۔ اس تنظیم سے وابستہ بہت سے دانشور سیاسی بندشوں کی وجہ سے بعد میں دبستانِ پراگ (Prague School) سے وابستہ ہو گئے جن میں سے رومن یا کوبسن نے کافی شہرت پائی۔ مکارووسکی کا تعلق بھی اسی دبستان سے تھا۔ روسی ہئیت پسندی اور ساختیات سے اس کے رشتے کے بارے میں ناصر عباس نیّر لکھتے ہیں:
’’ایک تحریک کے طور پر ہئیت پسندی روس میں کم و بیش دس برس تک فعال رہی۔ یہی زمانہ روس میں مار کسزم / سوشلزم کے ہمہ جہت فروغ کا بھی ہے جس میں کسی انفرادی، فکری، تخلیقی اور غیر افادی سرگرمی کی گنجائش نہیں تھی۔ چنانچہ ہئیت پسندی جو ایک سائنسی طرز کی خالص ادبی تھیوری کی جستجو میں تھی سٹالن کے زیر عتاب آئی ، اور اس پر پابندی لگا دی گئی۔ نتیجۃً ہئیت پسندوں کو یا تو جلا وطن کر دیا گیا یا خاموش، اور ان کے کام کی اشاعت ممنوع قرار دے دی گئی۔ یہی سیاسی جبر بعد ازاں بھیس بدل بدل کر ان تمام تنقیدی تصورات اور تعقلات سے متصادم ہوتا رہا ہے جو مارکسی تنقیدی فکر سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ روسی ہئیت پسندی نے چوں کہ ادب کے بنیادی سوالات کو جدید عہد کے مجموعی فکری مزاج کے تحت چھیڑا تھا، اور ادب کی بنیادی حقیقت یعنی ’ادبیت‘ (Literariness) کو سائنسی ضابطوں میں بیان کرنے کی کوشش کی تھی، اس لیے روس میں اس پر سیاسی بندشیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں، اور بیسویں صدی کے نصفِ آخر میں جب ساختیات کا چلن ہوا تو روسی ہئیت پسندی، ایک مخفی خزانے کی طرح دریافت کر لی گئی۔ اسے نہ صرف ’نئی تنقید‘ سے ہم آہنگ بلکہ ’ساختیات‘ کا پیش رو بھی تسلیم کر لیا گیا‘‘۔ (۱۲)
ساختیات یا ساختیاتی نظریۂ ادب و تنقید کو اس وقت تک مکمل فروغ حاصل نہیں ہوا جب تک کہ امریکی ساختیاتی لسانیات (American Structural Linguistics) کا ارتقا عمل میں نہیں آگیا۔ اس کے ارتقا کا سہرا بلوم فیلڈ کے سر ہے جس کی عہد آفریں کتاب Language ۳۳۱۹ء میں نیویارک سے شائع ہوئی۔ بلوم فیلڈ کا طلسم ۱۹۵۰ء کی دہائی تک قائم رہا۔ اس کے بعد امریکی ساختیاتی لسانیات کے افق پر نوام چامسکی نمودار ہوا جس کی کتاب Syntactic Structuresکی ۱۹۵۷ء میں اشاعت سے دنیائے لسانیات میں ایک زبردست انقلاب پیدا ہو گیا۔ چامسکی کا فسوں ۱۹۷۰ء کی دہائی تک قائم رہا۔
ساختیاتی نظریۂ ادب ہی کے زیرِ اثر عملی تنقید (Practical Criticism) اور ’نئی تنقید‘، (New Criticism) یا ’امریکی نئی تنقید‘(American New Criticism) وجود میں آئی جس سے وابستہ نقادوں میں۔ آئی اے۔ رچرڈز، ایف۔ آر۔ لیوس، ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ۔ ولیم امپسن ، نارتھروپ فرائی اور کلینتھ بروکس خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ نئی تنقید معروضی تنقید (Objective Criticism) ہے جس میں متن (Text) کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور متن کاہی معروضی مطالعہ (Objective reading) اس تنقید کا بنیادی مقصد ہے۔ مصنف اور اس کے عہد یا دیگر خارجی عوامل سے اس کا کوئی سروکار نہیں۔ نئی تنقید میں لفظ کے حوالوں سے معنی کی تعبیر پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ اس کا انداز تشریحی (Interpretive) ہوتا ہے اور ادبی متن کی تشریح پر سارا زور صرف کیا جاتا ہے۔ کلیم الدین احمد نئی تنقید کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’نئی تنقید الفاظ کی ایک دوسرے پر اثر اندازی سے متعلق ہے۔ نئے نقاد نے نفسیات کے آلے لے کر الفاظ اور تخیلی پکروں کی تعبیرات اور ان کی جانچ کی………… یہ لفظ پہلی بار Springarnنے اپنے لکچرThe New ‘ ’Criticismمیں استعمال کیا اور John Crowe Ransonنے اسے دہرایا۔ ایلیٹ، رچرڈز اور Leavisاس نئی تنقید کے بانی ہیں۔ ‘‘ (۱۳)
اسلوبیاتی تنقید میں بھی متن کا معروضی مطالعہ کیا جاتا ہے ، لیکن اس کا انداز توضیحی (Descriptive) ہوتا ہے۔ اسلوبیاتی تنقید میں زبان کی تمام سطحوں (صوتی ، صرفی لغوی، نحوی قواعدی اور معنیاتی) کے حوالے سے متن کے اسلوبی خصائص کی توضیح پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔
ساختیات سے ماپس ساختیات (Post-structuralism) ، کی کونپلیں پھوٹیں جس کے تحت فروغ پانے والے نظریات میں ’ردِّ تشکیل، (Deconstruction) کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ نظریۂ ردِّ تشکیل میں ’ متن ‘ اور متنیت ‘ (Text and Textuality) کے تصورات کو بیحد اہمیت حاصل ہوئی۔ دریدا اس نظریے کا بانی ہے جس کی کتاب Of Grammatologyکو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔ ( ۱۴)
پس ساختیات کے زیر اثر’ قاری۔ رسپانس نظریہ‘ (Reader-Response Theory) کو فروغ حاصل ہوا جس میں قاری کی مرکزیت پر زور دیا گیا(۱۵) ۔ پس ساختیاتی نظریے کے فروغ میں دریدا کے علاوہ رولاں بارت ، کرسٹو فرنورس ، لاکاں ، جو لیا کرسٹیوا ، فوکو ، اسٹینلے فش، ولف گانگ ایزر اور جونا تھن کلر کی خدمات لائقِ ستائش ہیں۔
(۵)
اسلوبیاتی تنقید جہاں بعض امور میں ساختیاتی نظریۂ ادب یا ساختیاتی تنقید سے مماثلت رکھتی ہے وہیں یہ کئی لحاظ سے ادبی تنقید سے مختلف ہے۔ ذیل میں اسلوبیاتی تنقید اور ادبی تنقید کے درمیان فرق کو واضح کیا گیا ہے :
ا۔ اسلوبیاتی تنقید معروضی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس ادبی تنقید خالص داخلی ہوتی ہے جس کی بنیاد ذاتی زاوئے اور ذاتی پسند و نا پسند پر قائم ہوتی ہے۔
۲۔ اسلوبیاتی تنقید میں فن پارے کے سائنٹفک تجزئے سے کام لیا جاتا ہے ، جب کہ ادبی تنقید میں قاری کے اس تاثر کو تنقید کی بنیاد بنایا جاتا ہے جو فن پارے کے مطالعے سے اس کے ذہن پر پیدا ہوتا ہے۔ اسی لئے اس تنقید کو ’ تاثر اتی تنقید ‘ بھی کہتے ہیں۔
۳۔ اسلوبیاتی تنقید مشاہداتی (Observational) ہوتی ہے ، جب کہ ادبی تنقید میں تخیل آمیزی سے کام لیا جاتا ہے اور ذوق اور وجدان کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے۔
۴۔ اسلوبیاتی تنقید مبنی بر متن (Text-Oriented) ہوتی ہے جس میں متن کو مرکزی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علی الرغم ادبی تنقید میں متن یا فن پارے کے علاوہ ادیب کی شخصیت ، اس کی ذاتی زندگی ، اس کے عہد کے حالات و واقعات ، نیز سماجی کوائف اور دیگر خارجی عناصر کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔ اسی لئے ادبی تنقید کو ’سوانحی تنقید‘ بھی کہتے ہیں۔
۵۔ اسلوبیاتی تنقید میں ادب میں کام آنے والی زبان کی کار پردازیوں اور اس کے تخلیقی امکانات سے بحث کی جاتی ہے ، نیز فن پارے کے لسانی امتیازات یا اسلوبی خصائص کو نشان زد کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس ادبی تنقید میں پلاٹ ، کا انٹر پلاٹ ، کلائمکس ، اینٹی کلائمکس ، ہیرو، ہیروئن ، ویلن ، نیز شاعری کے حوالے سے تخیل ، فکر اور جذبے کو بحث کا موضوع بنایا جاتا ہے۔
۶۔ اسلوبیاتی تنقید میں سادہ زبان ، راست اظہار اور توضیحی (Descriptive) انداز سے کام لیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس ادبی تنقید میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے ، نیز مبالغہ آمیز تعمیمات پیش کی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں خوب صورت ترکیبیں اور دلچسپ فقرے بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔
یہاں اسلوبیاتی تنقید کی غرض و غایت اور اس کے مفہوم اور مقاصد پر بھی روشنی ڈالنا بیجا نہ ہو گا:
ا۔ زبان و اسلوب کے حوالے سے ادب کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔
۲۔ لسانیات کی مختلف سطحوں پر ادبی فن پارے کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔
۳۔ زبان کے ادبی و تخلیقی استعمال سے بحث کی جاتی ہے۔
۴۔ ان لسانی عوامل سے بحث کی جاتی ہے جو کسی شاعر یا ادیب کے
اسلوب کی تشکیل کرتے ہیں۔
۵۔ صرف فن پارے ہی کو مطالعے کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ خارجی مو ثرات
سے کوئی بحث نہیں کی جاتی۔
۶۔ ذوق ، وجدان، تاثر اور داخلیت کو کوئی جگہ نہیں دی جاتی اور اقداری
فیصلوں سے گریز کیا جاتا ہے۔
ذیل میں اسلوبیاتی تنقید کے طریقِ کار کی بھی نشان دہی کی جاتی ہے :
ا۔ ادب کے لسانیاتی تجزیے سے کام لیا جاتا ہے۔
۲۔ فن پارے کے اسلوبی خصائص کو نشان زد کیا جاتا ہے۔
۳۔ متن یا فن پارے کے حوالے سے ادیب کے لسانی روئے سے بحث
کی جاتی ہے۔
۴۔ تجزیاتی انداز اور معروضی نقطۂ نظر اختیار کیا جاتا ہے۔
آخر میں اس امر کا ذکر بیجا نہ ہو گا کہ اسلوبیات یا اسلوبیاتی تنقید نے کبھی بھی ادب کے ہمہ جہتی مطالعے کا دعوا نہیں کیا ، اور کوئی بھی تنقید اس طرح کا دعوا نہیں کر سکتی ، خواہ وہ سائنٹفک تنقید ہی کیوں نہ ہو۔ تنقید خواہ نفسیاتی ہو یا فلسفیانہ ، سماجی ہو یا تاریخی ، یہ اپنے اپنے حدود اور دائرہ کار میں رہ کر ہی اپنا فریضہ انجام دے سکتی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی تنقید مطالعۂ ادب کے تمام تر پہلوؤں اور رخوں کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ اسلوبیاتی تنقید اِ س کلیے سے مستثنیٰ نہیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسلوبیاتی تنقید ادب کی تحسین و تفہیم میں ادبی تنقید کی خاطر خواہ معاونت مدد کر سکتی ہے۔
حواشی و حوالے:
ا۔ جمیل جالبی ،’’ نئی تنقید کا منصب‘‘ ، مشمولہ ’نئی تنقید‘ (جمیل جالبی ) مرتبہ خاور جمیل (دہلی : ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس ، ۱۹۹۴ ء) ، ص ۲۴۔
۲۔ فرڈ ی نینڈ ڈی سسیور (Ferdinand de Saussure) کے لسانیاتی
افکار کے لئے دیکھئے اس کی کتاب Course in GeneralLinguisticsجو اس کی وفات کے بعد ۱۹۱۴ء میں پیرس سے شائع ہوئی۔ اصل کتاب فرانسیسی زبان میں ہے۔ ویڈ بیسکن (WadeBaskin) نے اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا جو ۱۹۵۹ء میں نیویارک سے شائع ہوا۔
۳۔ اس ضمن میں دیکھئے بلو م فیلڈ) (Leonard Bloomfieldکی عہد آفریں کتاب Languageجو پہلی بار ۱۹۳۳ء میں نیویارک سے شائع ہوئی۔
۴۔ ان ماہرینِ لسانیات و اسلوبیات کے مقالات ٹامس اے۔ سیبیوک
(Thomas A Sebeok) کی مرتب کردہ کتاب Style inLanguage(کیمبرج ، میساچو سٹس : ایم آئی ٹی۱۹۴۰ء) میں شامل ہیں۔
یہ کتاب اُس کانفرنس میں پیش کئے گئے مقالات کا مجموعہ ہے جو زبان و اسلوب کے موضوع پر امریکا کی سو شل سائنس ریسرچ کونسل کے زیرِ اہتمام انڈیا نا یونیورسٹی میں ۱۹۵۸ء میں منعقد ہوئی تھی۔
۵۔ گوپی چند نارنگ ، ’’ادبی تنقید اور اُسلوبیات‘‘ (دہلی : ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس ، ۱۹۸۹ ء) ،ص ۱۵۔
۶۔ مسعود حسین خاں ، ’’لسانیاتی اسلوبیات اور شعر ‘‘ ، مشمولہ ’’مضامینِ مسعود‘‘ (مسعود حسین خاں ) ،علی گڑھ : ایجو کیشنل بک ہاؤس ، ۱۹۹۷ء ص ۴۶۔
۷۔ اسلوبی (اسلوبیاتی ) خصائص کی شناخت و دریافت سے متعلق تفصیلات کے لیے دیکھئے راقم الحروف کا مضمون ’’ اسلوبیات: ادبی مطالعہ و تنقید کی ایک نئی جہت ‘‘ مشمولہ’’ زبان، اسلوب اور اسلوبیات‘‘ (مرزا خلیل احمد بیگ ) ، علی گڑھ ۱۹۸۳ ءص ۱۴۲تا ۱۵۰۔
۸۔ یہ لفظ ادبی زبان کے حوالے سے پہلی بار شمس الرحمن فاروقی نے استعمال کیا۔ دیکھئے شہریا ر کے مجموعۂ کلام’’ نیند کی کرچیں‘‘ (علی گڑھ: ایجو کیشنل بک ہاؤس ، ۱۹۹۵ء) پر فاروقی کا ’’ پیش لفظ ‘‘۔
۹۔ دیکھئے مکارووسکی (Jan Mukarovsky) کا مضمون Standard’Language and Poetic Language‘مشمولہ Linguistics and Literary Styleمرتبہ ڈونلڈ سی۔ فریمن (Donald C. Freeman) نیویارک : ہولٹ ، رائن ہارٹ اینڈ ونسٹن ، ۱۹۷۰ ء۔
۱٠۔ اردو میں Foregroundingکا کوئی متبادل لفظ نہ مل سکا۔ اردو کے اسلوبیاتی نقادوں نے یہ اصطلاح ہر جگہ اسی طرح استعمال کی ہے۔ ادبی اور لسانیاتی اصطلاحات کی موجودہ فرہنگوں (انگریزی۔ اردو ) میں بھی یہ لفظ نا پید ہے۔ بعض نقاد اسکا ترجمہ ’پیش منظر‘ کرتے ہیں جو صحیح نہیں ہے۔
۱۱۔ آئی۔ اے۔ رچرڈز (I.A. Richards) ،’Poetic Process and‘ Literary Analysis مشمولہ Style in Language، مرتبہ ٹامس اے۔ سیبیوک (Thomas A. Sebeok) ، ص ۱۲۔
۱۲۔ ناصر عباس نیر ، ’’ روسی ہیئت پسندی ‘‘ ،مشمولۂ شعرو حکمت ، کتاب : ۳ و ۴ ، دور ِ سوم (۲٠٠۲) ، ص ۴۸۔
۱۳۔ کلیم الدین احمد ، فرہنگ ِ ادبی اصطلاحات (انگریزی۔ اردو ) ، نئی دہلی : ترقی اردو بیورو ، ۱۹۸۴ ء، ص ۵۳۔
۱۴۔ ساختیاتی اور پس ساختیاتی نظریات کے لیے دیکھئے گوپی چند نارنگ کی مفصل کتاب ’’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات ‘‘(دہلی : ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس ، ۱۹۹۳ء)۔
۱۵۔ قاری۔ رسپانس نظریے کا بالتفصیل جائزہ گوپی چند نارنگ نے اپنی کتاب قاری اساس تنقید ( علی گڑھ: ایجو کیشنل بک ہاؤس ، ۱۹۹۲ ء) میں پیش کیا ہے۔