اسلوبیاتی تنقید
اردو میں تنقیدی نظامِ فکر کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ اگر تذکروں سے قطع نظر کر کے دیکھا جائے اور بیان و بلاغت اور صنائع، نیر عروضی مباحث کے قدیم سرمائے کو ادبی تنقید میں جگہ نہ دی جائے تو حالی اور شبلی کی بعض تحریریں بجا طور پر ادبی تنقید کا نقطۂ آغاز قرار دی جا سکتی ہیں۔ بیسویں صدی میں سماجی علوم کے فروغ کے ساتھ ساتھ ادبی تنقید نئے جہات و ابعاد سے روشناس ہوئی، نئے علوم کی روشنی میں ادب کے مطالعے سے تنقید کو بین العلومیInterdisciplinary حیثیت حاصل ہوئی اور اردو میں تاثراتی تنقید، جمالیاتی تنقید اور رومانی تنقید کے شانہ بشانہ عمرانی تنقید، نفسیاتی تنقید اور فلسفیانہ تنقید بھی پروان چڑھنے لگی، مغربی فکر کے زیر اثر عملی تنقید، تجزیاتی تنقید، ساختیاتی تنقید اور سب سے بڑھ کر سائنٹفک تنقید کی اصطلاحیں عام ہوئیں۔ آج ادب کے تحلیل و تجزیے، تشریح و توضیح اور افہام و تفہیم کے نِت نئے انداز ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ اب ہر نیا نظریہ اور ہر نئی فکر ایک نئے تنقیدی زاویے کو معرضِ وجود میں لا رہی ہے۔ تقابلی تنقید کا رواج تو اُردو میں شروع سے ہی تھا ج کا نمونہ شبلی کی موازنۂ انیس و دبیر ہے۔ اب تخلیقی تنقید کا رجحان بھی پیدا ہو گیا ہے۔ کارل مارکس کے معتقدات اور فروئڈ کے نظریات کے زیر اثر جب ادب تخلیق ہونے لگا تو مارکسی تنقید اور تحلیلِ نفسی کا وجود بھی عمل میں آگیا ورنہ کچھ دنوں پہلے تک ان چیزوں سے بھلا کون واقف تھا!
ادبی تنقید کے ان تمام میلانات و رجحانات میں ادب کو خاص زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور ادب کا مطالعہ مخصوص نظریوں کے تحت کیا گیا ہے۔ ان میں سے بہت سے زاویے اور نظریے پہلے سے طے شدہ تھے۔ ادبی مطالعات میں محض ان کا اطلاق کیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس قسم کی تنقید میں ادب کے علاوہ بہت سی چیزیں راہ پا گئیں اور ادبی فن پارے کی حیثیت محض ثانوی بن کر رہ گئی۔ ویلک اور ویرن نے اپنی کتاب (۱ Theory of Literature ) میں ادبی تنقید کو دو حصّوں میں تقسیم کیا ہے۔
۱– Extrinsic Criticism
۲– Intrinsic Criticism
اول الذکر موٹے طور پر خارجی تنقید اور موخرالذکر کو داخلی تنقید کہہ سکتے ہیں۔ خارجی تنقید میں ادب کا مطالعہ خارجی اشیاء یا اجزاء کے حوالے سے کیا جاتا ہے اور ادب میں اور ان اشیاء میں ایک سببی رشتہ پایا جاتا ہے۔ یہ خارجی اشیا ہیں: ماحول، فضا، معاشرہ، مصنف، قاری، مخصوص متعقدات و نظریات وغیرہ۔ جب کہ داخلی تنقید میں ادبی فن پارے کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے اور اس کے تجزیے اور تشریح میں اس کی اندرونی ساخت اور تنظیم کو بروئے کار لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ادب کے مطالعے اور تنقید میں خارجی امور کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ نقّاد کسی شاعر یا ادیب کے احوال و کوائف سے کام لے سکتا ہے اور اس کی سماجی زندگی، گرد و پیش کے ماحول اور معاشرہ سے رجوع کر سکتا ہے۔ اسی طرح قاری کسی فن پارے کو پڑھ کر جن داخلی کیفیات اور جمالیاتی تجربات سے ہو کر گزرتا ہے اور اس کے ذہن و دماغ پر جو تاثر یا ردِّ عمل قائم ہوتا ہے اسے بھی نقّاد اپنے تنقیدی مباحث میں جگہ دے سکتا ہے اور ادب کی سماجی سطح پر جو کار پروازی ہو سکتی ہے یعنی معاشرے کو متاثر یا متحرک کرنے کا جو فریضہ ادیب انجام دیتا ہے اسے بھی وہ قلم کی حرکت کے تابع کر سکتا ہے لیکن یہ تمام باتیں ادب کے خارجی پہلوؤں سے تعلق رکھتی ہیں اور ادب کا ان سے محض ایک سببی رشتہ ہوتا ہے۔ ان تمام امور کے بیان میں نقّاد کی نظر فن پارے سے ہٹ جاتی ہے اور وہ فن پارے سے صرفِ نظر کر کے دوسرے مسائل و مباحث میں الجھ جاتا ہے۔ ادب کے خارجی اور داخلی مطالعے کے فرق کو یوں بھی واضح کیا جا سکتا ہے، مثلاً نقّاد کسی فن پارے میں پیچ کی گئی زندگی، کردار، ماحول اور فضا، نیز معاشرے کا مطالعہ بڑی باریک بینی اور تنقیدی نظر کے ساتھ کر سکتا ہے اور کرداروں کے جذبات و احساسات محبت و ایثار اور خلوص و انکسار کی قدر کر سکتا ہے اور ان کی نفرت و عداوت اور بغض و عناد کے جذبے کو اپنی تنقید کا نشانہ بنا سکتا ہے اس ماحول کا نقشہ کھینچ سکتا ہے اور اس کی خوبیوں اور خامیوں کو اجاگر کر سکتا ہے ان امور کے مطالعے کے لیے کسی خارجی زندگی اور ماحول کے حوالے کی ضرورت نہیں، ان چیزوں کا مطالعہ ادب کو خود مکتفی مان کر کیا جا سکتا ہے۔ یہ مطالعہ ادب کا داخلی مطالعہ کہلائے گا۔ اس مطالعے کو داخلی تنقید کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے لیکن جہاں نقاد نے یہ دیکھنا شروع کر دیا کہ ادبی فن پارے میں اصلی سماجی زندگی منعکس ہو رہی ہے یا نہیں، یا ادیب گردو پیش کے ماحول کی عکاسی میں کہاں تک کامیاب ہوا اور اس دور کے حالات کی کہاں تک تصویر کشی ملتی ہے، وہاں اس کا ذہن فن پارے سے ہٹ کر دوسری طرف پہنچ جاتا ہے۔ یہ بات بخوبی واضح ہو گئی ہو گی کہ ادب میں پیش کی جانے والی فضا، ماحول اور کرداروں کا مطالعہ اور بات ہے اور یہ دیکھنا کہ ادب میں سماج کی کہاں تک عکاسی پائی جاتی ہے اور بات۔ ادب میں پیش کیے جانے والے سماجی اور تہذیبی رویے کیفیتی اعتبار سے ان رویوں سے مختلف ہوتے ہیں جو ادب کا خارج کہلاتا ہے اور جن کا وقوع اصلی سماجی زندگی میں ملتا ہے۔ لیکن تنقید خواہ داخلی ہویا خارجی، نفسیاتی ہو یا عمرانی، تاثراتی ہویا جمالیاتی ان سب میں ادب کے لسانی پہلوؤں کے مطالعے کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ہے۔
(۲)
بیسویں صدی کے نصفِ اول میں کچھ ایسے نقاد سامنے آئے جنھوں نے فن پارے کی اہمیت کو تسلیم کیا اور فن پارے کی داخلی تنظیم اور لسانی ساخت کے مطالعے پر اپنی تنقید کی بنیاد رکھی جسے نئی تنقید، (New Criticism) یا عملی تنقید، (Practical Criticism) کا نام دیا گیا۔ ایسے نقادوں میں آئی اے رچرڈز، ولیم امپن، ایف۔ آر۔ لیوس، جے۔ سی۔ رینسم۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ اور کلینتھ بروکس کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔
بیسویں صدی میں لسانیات کے فروغ کے ساتھ ساتھ اس کی مختلف شاخیں بھی قائم ہوئیں اور اس کا اطلاق مختلف مضامین کے مطالعے میں کیا جانے لگا۔ ادب کے مطالعے میں لسانیات کے اطلاق کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ اس نے بہت جلد ایک شعبۂ علم کی حیثیت اختیار کر لی جسے اسلوبیات، (Stylistics) کہتے ہیں۔ اسلوبیات یا اسلوبیاتی تنقید زبان اور اس کی ساخت کے حوالے سے ادب کے مطالعے کا نام ہے، اسلوبیاتی تنقید میں ادبی زبان کا تجزیہ یا ادب میں زبان کے استعمال کا مطالعہ پیش کیا جاتا ہے اور فن پارے کے اسلوبی خصائص(Style- features) کا تعین کیا جاتا ہے جن کا ایک فن پارے کو دوسرے فن پارے سے ممتاز بنانے میں اہم رول ہوتا ہے، اسلوبی خصائص کی بنیاد پر ہم ایک ادیب یا شاعر کو دوسرے ادیب یا شاعر سے بھی ممتاز بنا سکتے ہیں۔ اسلوبیاتی تنقید کی بنیاد فن پارے کے لسانیاتی تجزیے پر قائم ہے۔ لسانیاتی تجزیے کے بغیر کسی فن پارے کی اسلوبیاتی خصوصیات کا تعیّن ممکن نہیں۔ ہر ادیب یا شاعر کے ہاں یا ہر فن پارے میں زبان کے استعمال کی کچھ خصوصیات کو اسلوبی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو دوسرے ادیب یا شاعر کے ہاں یا دوسرے فن پارے میں نہیں پائی جاتی ہیں۔ انھیں خصوصیات کو اسلوبی خصوصیات قرار دیا گیا ہے۔ یہ قابل ذکر ہے کہ زبان کا صرف لسانی تجزیہ اسلوبیات تجزیہ نہیں کہلا سکتا۔ اسلوبیاتی تجزیے کی بنیاد لسانیاتی تجزیہ پر ضرور ہے، لیکن خالص لسانیاتی تجزیے کو اسلوبیاتی تجزیہ نہیں کہہ سکتے کیوں کہ اس میں لسانیاتی تجزیے کے علاوہ اسلوبی خصائص کی شناخت بھی ضروری ہوتی ہے اور اسلوبی خصائص کا تعیّن اسی وقت ہو سکتا ہے جب فن پارے کا لسانیاتی تجزیہ کیا جائے لہٰذا اسلوبیاتی تنقید کو صرف لسانیاتی تنقید سمجھ لینا۔ کافی نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر اسلوبیاتی تجزیہ، لسانیاتی تجزیہ بھی ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اسلوبیاتی تنقید سے صرف لسانیاتی تجزیہ مراد لیتے ہیں۔ ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ تاوقتیکہ لسانیاتی تجزیے کے بعد اسلوبی خصائص کی شناخت نہ کی جائے یہ لسانیاتی تجزیہ اسلوبیاتی تجزیہ یا اسلوبیاتی تنقید کے دائرے میں داخل نہیں ہو سکتا، لہٰذا اسلوبیاتی تنقید کی مکمل صورت یہ ہو گی:
لسانیاتی تجزیہ + اسلوبی خصائص = اسلوبیاتی تنقید
دوسرے تمام دبستانِ تنقید کسی نہ کسی انداز سے مواد و موضوع پر زور دیتے ہیں جب کہ اسلوبیاتی تنقید اسلوب اور اسلوبی خصائص کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے۔ بقول شمس الرحمٰن فاروقی موضوعات کسی کی ملکیت نہیں ہوتے۔ ہمیں کسی مصنف کی انفرادیت کو جاننے کے لیے پایانِ کار اس کے اسلوب کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے (۲) کسی مصنف کے اسلوب کی تشکیل، ادب میں زبان کو مخصوص طور پر بروئے کار لانے سے ہی ہوتی ہے اور زبان سے متعلق اس کا اپنا شعری و ادبی استعمال ہی اس کے اسلوب کی انفرادیت کا ضامن ہوتا ہے۔ بعض ادبی نقاد ادب کے مطالعے میں لسانیات کے اطلاق کو بے جا تصوّر کرتے ہیں۔ ایسے نقاد یہ بھول جاتے ہیں کہ ادب اور لسانیات کے درمیان زبان کے متعلق سے گہرا رشتہ پایا جاتا ہے۔ ادب ایک فنّی اور تخلیقی سرگرمی کا نام ہے جسے دوسری فنّی اور تخلیقی سرگرمیوں کی طرح میڈیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ادب کا میڈیم زبان ہے۔ ادب زبان کو ذریعۂ اظہار کے طور پر استعمال کرتا ہے اور اگر ذریعۂ اظہار نہ ہو تو اظہار کی تجسیم ناممکن، ہو جائے گی۔ اپنے اظہار کی خراد پر پورا اتارنے کے لیے شاعر زبان میں اکثر کتر بیونت، تراش خراش اور کانٹ چھانٹ اور رد و بدل سے کام لیتا ہے۔ اس عمل سے شاعرانہ زبان عام بول چال کی زبان سے مختلف ہو جاتی ہے شاعرانہ زبان کی اس نُدرت، جدّت یا انوکھے پن کو زبان کے وضع کردہ اصولوں سے انحراف کا نام دیا گیا ہے۔ نلس ایرک انکوسٹ نے اپنے مضمون (٣“On Defining Style”) میں زبان کی وضع کردہ اصولوں سے انحرافDeviation from the norm کو تشکیل اسلوب کا ایک اہم عنصر قرار دیا ہے۔ ہر دور کے شاعروں نے زبان کے مروّجہ اصولوں سے انحراف کیا ہے جس سے زبان کے استعمال کا دائرہ وسیع ہوا ہے نیز نئی نئی لفظیات، نئی نئی تراکیب اور نِت نئے تلازمات معرض وجود میں آئے ہیں۔ الفاظ کےConnotation اورCollocation تک بدلے اور معنی میں بھی تبدیلی واقع ہوتی ہے اور بحیثیتِ مجموعی ایک نئی شعری لسانیات وجود میں آئی ہے۔ زبان کے استعمال میں جدّت طرازی اور اظہار کے نت نئے طریقوں کی عمل پذیری نے ہر دور میں لوگوں کو چونکا یا اور اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ یہی نئے اظہار کی پہچان اور نئے شعری اسلوب کی شناخت ہے۔ غالب کی زبان پر آغا جان عیش اور اقبال کے لہجے پر پیارے صاحب رشید ہونے کا اعتراض اس بات کی علامت ہے کہ ان دونوں شاعروں نے اپنے عہد کی زبان کے مروّجہ معیاروں(Norms) سے انحراف کر کے ایک نیا شعری لہجہ اور ایک نیا اسلوب خلق کیا تھا۔
یہ بات کہی جا چکی ہے کہ زبان ادب کا ذریعۂ اظہار یا میڈیم ہے لیکن یہی زبان لسانیات کا مواد موضوع یعنیContent بھی ہے۔ لہٰذا ادب اور لسانیات دونوں کا واسطہ زبان سے پڑتا ہے۔ ادب اور لسانیات کے رشتے کی ایک مضبوط کڑی اسلوبیات ہے جس کی حد ایک طرف لسانیات سے ملتی ہے تو دوسری طرف ادب سے۔ زبان جو لسانیات کا مواد و موضوع ہے کس طرح ادب کے ذریعۂ اظہار کے طور پر استعمال کی جاتی ہے اور کس طرح اس میں انحراف پیدا ہوتا ہے اور کس طرح یہ انحراف انفرادی خصوصیات کا حامل بن جاتا ہے اور کس طرح یہ انفرادیت اسلوب کی انفرادیت کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور کس طرح اسلوبی خصائص کی بنیاد پر ایک فن پارہ دوسرے فن پارہ سے اور ایک ادیب دوسرے ادیب سے ممتاز ہو جاتا ہے۔ یہ تمام باتیں اسلوبیات اور اسلوبیاتی تنقید کے دائرے میں آتی ہیں۔ زبان اور ادب، زبان اور لسانیات۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زبان اور اسلوبیات اور ادب اور لسانیات کے درمیان رشتوں کو یوں ظاہر کیا جا سکتا ہے:
زبان
مواد موضوع ذریعۂ اظہار
لسانیات ادب
اسلوبیات
اسلوبیاتی تنقید کا آغاز بیسویں صدی کے وسط سے ہوتا ہے اگرچہ روسی ہیئت پسندوں اور امریکی نئی تنقید کے مبلغوں کے ہاں اس کی ابتدائی صدارت دیکھی جاتی ہے تاہم ۱۹۶۰ء میں امریکہ سے ٹامس اسے سبیوک کی مرتّب کردہ کتابStyle in Language کی اشاعت سے اس کے خط و خال متعیّن ہوتے ہیں اور اس کے بعد کے مطالعے اور تجزیے سے اطلاقی لسانیات(Applied Linguistics) کی ایک اہم شاخ کی حیثیت سے اس اہمیت مسلم ہو جاتی ہے(۴) ۔ اس کتاب کی اشاعت اگر ایک طرف ادبی تنقید میں ایک نئی جہت کی بازیافت کہی جا سکتی ہے تو دوسری طرف اسے لسانیات کے اطلاق کے ایک رُخ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس کتاب میں ادب کے مطالعے میں جن لسانیاتی طریقۂ کار کو پیش کیا گیا ہے ان کا اطلاق دوسری زبانوں کے ادب کے مطالعے اور تجزیے پر آج بھی جاری ہے۔ اس کتاب کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ماہرین لسانیات اور مروی ناقد یعنی دونوں کی نگارشات شامل ہیں۔ اسلوبیاتی تنقید کا ارتقاء دراصل انھیں دونوں کی مجموعی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ماہرین لسانیات کی توجہ ہمیشہ اس امر کی جانب مرکوز رہی تھی کہ متعلقہ میدانوں میں لسانیات کے اطلاق کا دائرہ کس طرح وسیع کیا جائے۔ دوسری جانب ادب اور زبان کے درمیان مضبوط اور گہرے رشتے کی بنیاد پر ادبی اسکالرز کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ ادب کی افہام و تفہیم اور تشریح و تجزیے میں کس طرح لسانیاتی طریقِ کار سے مدد لی جائے۔ چنانچہ انگریزی اور دوسری زبانوں میں اسلوبیاتی تنقید کا جو کچھ بھی سرمایہ اکٹھا ہوا ہے اس میں زیادہ تر ایسے اسلوبیاتی نقادوں کی نگارشات شامل ہیں جو بنیادی طور پر ادیب یا ادبی اسکالرز تھے اور ادب کا صحیح ذوق رکھتے تھے لیکن انھوں نے لسانیات کے مطالعے کے بعد ادب پر اس کے اطلاق کی ضرورت محسوس کی جس سے ایک نئے دبستانِ تنقید کی بنیاد پڑی۔ اردو میں بھی ادب پر لسانیات کے اطلاق کی پہل ادبی اسکالروں کے ہی جانب سے ہوئی۔
(۳)
اردو میں پروفیسر مسعود حسین خاں پہلے ادبی اسکالر ہیں جنھوں نے اسلوبیاتی نوعیت کے مضامین لکھے اور اُردو میں باقاعدہ طور پر اسلوبیاتی تنقید کی بنیاد ڈالی۔ بعد کے دو اسلوبیاتی نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ اور پروفیسر مغنی تبسم بھی ادب کے ہی راستے سے اسلوبیاتی تنقید کے میدان میں داخل ہوئے۔ راقم الحروف نے اسلوبیاتی تنقید کے جو نمونے پچھلے دس پندرہ سال کے دوران پیش کیے ہیں اس میں ادبی ذوق اور لسانیات کے ٹھوس علم کے علاوہ پروفیسر مسعود حسین خاں کی تربیت کا بھی خاص دخل رہا ہے۔
پروفیسر مسعود حسین خاں نے اپنے مضامین میں اسلوبیاتی تجزیے کی معروضیت(Objectivity) اور اس کے سائنسی انداز کے ساتھ ساتھ اس کے جمالیاتی پہلوؤں پر بھی زور دیا ہے اور ادب کے لسانیاتی تجزیے میں رچے ہوئے ذوق کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے یعنی اسلوبیاتی نقاد فن پارے کے اسلوبی خصائص اور دیگر لسانی جمالیاتی باریکیوں کی اسی وقت شناخت کر سکتا ہے جب اس کے اندر ادب کا رچا ہوا ذوق بھی ہو۔ پروفیسر مغنی تبسم بھی اسلوبیاتی تنقید میں ادبی ذوق کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ایک اچھا اسلوب شناسی وہی ہے جو ادب کا سچا ذوق بھی رکھتا ہو ورنہ محض لسانیاتی اوزاروں(Linguistic Tools) سے کام لینے سے فن پارے کا تجزیہ میکانکیت کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے ذوق کی اہمیت کو ہمارے مغربی اسلوبیاتی نقادوں نے بھی تسلیم کیا ہے اسی لئے وہ اسلوبیات کو ادبی مطالعہ و تجزئے کا لسانی جمالیاتی رویّہ یعنی(Lingua-Aesthetic approach) قرار دیتے ہیں۔
اردو میں اسلوبیاتی تنقید کو عہدِ حاضر میں کافی فروغ حاصل ہوا ہے جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ اس کی ابتدا پروفیسر مسعود حسین خاں کے مضامین و مقالات سے ہوتی ہے اور وہ اس کے بنیاد گزارہیں۔ انھوں نے اس علم کی سائنسی بنیادیں فراہم کیں۔ اس کے اصول مرتب کئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ، اس ضمن میں مسعود صاحب کا مقالہ ’’مطالعہ شعر:صوتیاتی نقطۂ نظر سے ‘‘ (۵) اولیت کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ غالباً اسلوبیات یا اسلوبیاتی تنقید پر سب سے پہلا مقالہ ہے جو اُردو میں لکھا گیا۔ اس سے اور لوگوں کو بھی اس موضوع پر لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی۔ مسعود صاحب نے غالب کے قوافی و ردیف کے صوتی آہنگ کا ایک نہایت جامع اسلوبیاتی تجزیہ بھی پیش کیا ہے (۶) ۔ اس کے علاوہ میر ، اقبال ، نظیر اکبر آبادی کے صوتی آہنگ پر بھی مسعود صاحب کا مطالعہ نہایت معروضی اور سائنسی ہے۔ فانی کے ہاں غم کی فراوانی اور یاس و حرماں نصیبی کی توجیہہ ان کے صوتی آہنگ سے بھی کی جاتی ہے کیونکہ فانی کے ہاں طویل مصوّتوں کا استعمال بہت زیادہ ملتا ہے۔ اس کے علاوہ ہکار یا نفسیآوازوں کے استعمال سے بھی فانی غم کی شدّت کو ظاہر کیا ہے مسعود حسین صاحب کے نظریے کے مطابق ہکار آوازیں اور طویل مصوتے اپنے اندر ایک صوتی رمزیت(Sound) Symbolismرکھتے ہیں۔ طویل مصوتوں کے حوالے سے مسعود صاحب نے میر کی غم انگیزی کی بھی توجیہہ کی ہے۔ چند دوسری آوازوں مثلاً کوز آوازوںRetroflex Soundsکی اظہاری(Expressive) کیفیات کا پتا انھوں نے بہ خوبی لگایا ہے۔ اکبر الٰہ آبادی اور انشاءاللہ خاں انشا کے ہاں کوز آوازوں کے تاثر کو بھی انہوں نے نہایت خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مسعود صاحب کی حالیہ تصنیفاقبال کی نظری و عملی شعریات (۷) ہے اس کتاب کے آخری نصف حصّے میں انھوں نے اقبال کی شاعری کا اسلوبیاتی محاکمہ کیا ہے اور ان کی بعض نظموں کے اسلوبیاتی تجزیے پیش کئے ہیں۔ یہ کتاب اسلوبیاتی تنقید میں ایک گراں قدر اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔
پروفیسر مسعود حسین خاں کے بعد اسلوبیاتی تنقید کے ضمن میں دوسرا نام پروفیسر گوپی چند نارنگ کا آتا ہے۔ انھوں نے اُردو میں اسلوبیاتی تنقید کے بڑے اچھے نمونے پیش کیے ہیں۔ میر کی اسلوبیات پر انھوں نے جو لیکچرز دیے وہ اُردو اسلوبیاتی تنقید میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میر کے اسلوب کے کئی ایسے گوشے ہیں جو پہلی بار اجاگر کیے گئے۔ (۸) اسی طرح میر انیس کے مرثیوں کے اسلوبیاتی تجزیے سے انھوں نے انیس کے ہاں ایک مخصوص صوتی آہنگ کی شناخت کی ہے اور اس تجزیے سے بڑے اہم اور دلچسپ نتائج مرتّب کیے ہیں۔ اسی طرح اقبال کے کلام کا مطالعہ بھی انھوں نے مختلف صوتیاتی اور اسلوبیاتی پہلوؤں سے کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ اسلوبیاتی نقاد کی حیثیت سے اردو کے انتقادی ادب میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ اردو کے ایک دوسرے اہم اسلوبیاتی نقّاد پروفیسر مغنی تبسم ہیں۔ انھوں نے فانی کی شاعری کا صوتیاتی اور اسلوبیاتی مطالعہ تجزیہ پیش کر کے اسلوبیاتی تنقید میں اپنے لیے ایک مستقل جہت بنا لی ہے۔ (۹) فانی کی شاعری کا جس تفصیل کے ساتھ مغنی صاحب نے لسانیاتی تجزیہ کیا ہے اور ان کے اسلوب کی شناخت میں جو لسانی طریقہ کار اختیار کیا ہے وہ ہر لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس شرح و بسط کے ساتھ اُردو کے کسی بھی ادیب یا شاعر کا اسلوبیاتی تجزیہ تا حال نہیں کیا گیا۔ فانی پر اپنی کتاب کی اشاعت کے بعد سے بھی وہ اسلوبیاتی موضوعات پر برابر لکھتے رہے اور اسلوبیاتی تنقید سے اُردو والوں کو روشناس کراتے رہے ہیں۔ چند سال قبل پروفیسر مغنی تبسم کی ایک اور کتابآواز اور آدمی (۱۰) شائع ہوئی جو اسلوبیاتی مضامین کا ایک اہم مجموعہ ہے غالب، میر اور چند دوسرے شاعروں کے لسانیاتی اسالیب کا بہت اچھا تجزیہ ان مضامین میں موجود ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے اسلوبیاتی تنقید کی سمت و رفتار اور جہات و ابعاد کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔
اسلوبیاتی تنقید کے ضمن میں راقم الحروف کی کتاب زبان، اسلوب اور اسلوبیات (۱۱) کا ذکر بھی بے جا نہ ہو گا۔ اس کتاب میں اسلوبیاتی تنقید کے ارتقا اور اس کے طریقۂ کار سے بحث کی گئی ہے اور اقبال، غالب، اختر انصاری، فیض احمد فیض اور رشید احمد صدیقی کی نگارشاتِ نثر و نظم کا اسلوبیاتی تجزیہ پیش کیا گیا ہے اور اسلوبیاتی خصائص کی شناخت کے بعد ان کی توجیہہ بھی کی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں اُردو داں حلقوں میں اس کتاب نے گہرا نقش چھوڑا ہے۔
اسلوبیاتی تنقید سے متعلق اردو میں کچھ اور لوگوں نے بھی لکھنے کی کوشش کی ہے لیکن علمِ لسانیات سے کماحقّہٗ واقفیت نہ ہونے کے سبب ان کی تحریروں میں اسلوب شناسی سے متعلق وہ قطعیت اور معروفیت اور وہ طرزِ استدلال نہیں پیدا ہو سکا ہے جو دوسرے اسلوبیاتی نقادوں کے ہاں پایا جاتا ہے۔
حواشی و حوالے:
۱۔ رینے ویلک اور آسٹن ویرن (Rene Wellek and Austin Werren) ، ۱۹۶۵ء(دوسرا ایڈیشن) ، Theory of Literature (نیو یارک: ہارکورٹ، برپس)
۲۔ شمس الرحمٰن فاروقی، ’’مطالعۂ اسلوب کا ایک سبق‘‘ مطبوعہ اردو ادب (علی گڑھ: انجمن ترقی اردو ہند) ،شمارہ ۲ ( ۱۹۷۲ ء) ، ص ۵۔
۳۔ نلز ایرک انکوسٹ (Nils Erik Enkvist) ، ۱۹۶۴ء، “On Defining Style” مشمولہLinguistics and Style (نلز ایرک انکوسٹ اور دیگر) ، لندن: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔
۴۔ ٹامس اے، سیبیوک(Thomas A. Seebok) کی مرتبہ کتابStyle in Language (کیمبرج، ملیسا چوسٹس: MIT، ۱۹۶۰ء) ان مقالات کا مجموعہ ہے جو امریکہ کی انڈیانا یونیورسٹی کی سوشل سائنس ریسرچ کونسل کے زیر اہتمام ۱۹۵۸ء میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں پیش کیے گئے تھے۔ اس کانفرنس میں مقالہ نگاروں نے ادبی و شعری اسلوب کے صوتی، صرفی، نحوی اور معنیاتی پہلوؤں نیز بحور و اوزان سے متعلق مسائل پر لسانیاتی نقطۂ نظر سے روشنی ڈالی تھی۔ اس کانفرنس میں دوسرے بہت سے عالموں کے اے۔ ملر، جان ہولینڈر، آرکی بالڈ اے۔ ہل، سال سپلورٹا، رینے ویلک، ڈیل ایچ۔ ہائمز اور ٹامس اے۔ سپیوک نے بھی مقالات پیش کیے اور بحث میں حصّہ لیا۔
۵۔ مسعود حسین خاں، ’’مطالعۂ شعر: صوتیاتی نقطۂ نظر سے‘‘ مشمولہ شعر و زبان (مسعود حسین خاں) ، حیدرآباد: شعبۂ اردو، عثمانیہ یونیورسٹی، ۱۹۶۶ء۔
۶۔ مسعود حسین خاں، ’’کلام غالب کے قوافی و ردیف کا صوتی آہنگ‘‘ مطبوعہ شعر و حکمت (حیدرآباد) ، شمارہ ۲۵ ص ۱۳ تا ۲۰۔
۷۔ پروفیسر مسعود حسین خاں، اقبال کی نظر و عملی شعریات (سری نگر: اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونیورسٹی،۱۹۸۳ء)
۸۔ دیکھیے گوپی چند نارنگ کی کتاباسلوبیاتِ میر (کراچی : انجمن ترقی اردو پاکستان، ۱۹۸۵ء)
۹۔ مغنی تبسم، فانی بدایونی: حیات، شخصیت اور شاعری (حیدرآباد، ۱۹۶۹ء)
۱۰۔ مغنی تبسم، آواز اور آدمی (حیدرآباد)
۱۱۔ مرزا خلیل احمد بیگ، زبان، اسلوب اور اسلوبیات (علی گڑھ: ادارۂ زبان و اسلوب، ۱۹۸۳ء)