پچھلے پینتیس برسوں سے میں لسانیات ، لسانیاتی اسلوبیات، اسلوبیاتی نظریۂ تنقید اور بعض دوسرے جدید تنقیدی رجحانات و میلانات پر مستقل لکھتا رہا ہوں۔ ان موضوعات سے متعلق اب تک میرے سو سے زائد مقالات اور ایک درجن سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ میرے اسلوبیاتی مضامین کا پہلا مجموعہزبان، اسلوب اور اسلوبیات آج سے بیس سال قبل شائع ہوا تھا، اگرچہ اس دوران میں دوسرے لسانیاتی موضوعات پر بھی میری کتابیں شائع ہوتی رہیں۔
’’زبان، اسلوب اور اسلوبیات‘‘کو اہلِ علم و نظر نے بہ نظرِ تحسین دیکھا اور تنقید کی دنیا میں اس کی خاطر خواہ پذیر ائی ہوئی۔ اردو میں یہ ایک نیا موضوع تھا۔ اگرچہ اس کی ابتدا گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی سے پروفیسر مسعود حسین خاں کے مضامین و مقالات سے ہو چکی تھی اور پروفیسر گوپی چند نارنگ نیز پروفیسر مغنی تبسم جیسے معتبر ادبی نقاد اسلوبیات موضوعات پر بھی لکھنے لگے تھے، لیکن اس وقت (۱۹۸۳ء) تک اس موضوع پر کوئی باقاعدہ کتاب شائع نہیں ہوئی تھی،بہ استثنائے مقدماتِ شعر و زبان(مسعود حسین خاں) اور فانی بدایونی: حیات، شخصیت اور شاعری (مغنی تبسم ) کہ جن میں اسلوبیات سے متعلق کچھ مواد ضرور موجود تھا۔ زبان ، اسلوب اور اسلوبیات کو بجا طور پر یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ اردو میں اُسلوبیاتی تنقید پر پہلی کتاب ہے جو بالتخصیص صرف اسی موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کتاب میں اسلوبیات اور اسلوبیاتی اصولِ نقد کا نہ صرف تفصیلی جائزہ پیش گیا ہے، بلکہ اسلوبیاتی تجزیوں کے مختلف نمونے بھی پیش کئے گئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کتاب نے مطالعہ ادب کی ایک ’نئی سمت‘ اور تنقید شعر کی ایک ’نئی جہت‘ متعین کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
مذکورہ کتاب کی اہمیت کا اندازہ ان گراں قدر آراء سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو ہندوستان اور پاکستان کی ممتاز علمی و ادبی شخصیتوں کی جانب سے راقم الحروف کو ان دنوں موصول ہوئیں، مثلاً:
اختر انصاری (مرحوم) نے اپنی ایک تحریر مرقومہ ۲۴ فروری ۱۹۸۴ء میں ان خیالات کا اظہار کیا :
’’لسانیاتِ جدید اپنے تمام شاخ در شاخ سلسلوں سمیت دنیا کی شاید سب سے کم عمر، اور اس کی عمری کے باوجود نہایت درجہ ترقی یافتہ سائنس کا نام ہے۔ اس کی ایک اہم شاخ ، اطلاقی لسانیات کے جس مخصوص شعبے کا ادبیات و شعریات سے براہِ راست تعلق ہے ، اسے ’لسانیاتی اسلوبیات‘ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر مرزا خلیل بیگ کی تصنیف زبان، اسلوب اور اسلوبیات اردو میں شعر و ادب پر لسانیات اور لسانیاتی تجزیہ و تحلیل کے اطلاق کی اولین عملی کوششوں کا مرقع ہے۔ اور اس اعتبار سے قطعی طور پر ایک منفرد الحیثیت کار نا مہ ہے۔ میری نظر میں اسلوبیاتی مقالات پر مستقل مقالات کا یہ مجموعہ نقدِ شعر اور ادب و فن کے ادراک و شعور اور افہام و تفہیم کی ایک نئی جہت کی دریافت اور تشخیص کے باب میں اولیت اور تقدم زمانی کے شرف سے ہمیشہ مشرف و ممتاز رہے گا۔ اور اس میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ اس کا شمار موجودہ دور کی یاد گار علمی و ادبی فتوحات میں ہو گا۔ ‘‘
پروفیسر گوپی چند نارنگ نے ۱۰ اکتوبر ۱۹۸۴ء کو یہ رائے لکھ کر بھیجی:
’’اردو میں اسلوبیات اب بعض لوگوں کی چڑ بننے لگی ہے۔ اس سے اتنی بات تو ثابت ہے کہ اردو میں اسلوبیات اپنے وجود کی شناخت کرا رہی ہے۔ ایک طرف تو وہ کشادہ ذہن لوگ ہیں جو اس باخبری کی قدر کرتے ہیں جو اسلوبیات کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، اور جو جانتے ہیں کہ جس طرح تنقید فلسفہ ، نفسیات ، تاریخ اور عمرانیات سے مدد لیتی ہے اسی طرح اسلوبیات سے بھی مدد لے سکتی ہے، کیونکہ تنقید کی تجزیاتی بنیادیں تو اسلوبیات ہی کی مدد سے حتمی طور پر سامنے آ سکتی ہیں۔ دوسری طرف وہ تنگ ذہن لوگ ہیں جو علوم کے نئے آفاق سے ناواقف محض ہونے کی وجہ سے اپنے جہل پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں، یا ان کو یہ خوف ہے کہ اسلوبیات کے چلن سے ان کی چودھراہٹ ختم ہو جائے گی یا تنقید کی دنیا میں وہ از کار رفتہ ہو جائیں گے۔ ایسے لوگ اسلوبیات کے خلاف مسلسل کچھ نہ کچھ ارشاد فرماتے رہتے ہیں۔ اس کشا کش کے ماحول میں جو ادبی اعتبار سے خاصا حوصلہ شکن ہے، کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو خاموشی سے اپنا مطالعہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے نوجوانوں میں ڈاکٹر مرزا خلیل بیگ قدر افزائی کے مستحق ہیں کیونکہ انھوں نے اپنی تصنیف زباں، اسلوب اور اسلوبیات میں نظری مسائل پر بھی غور و فکر کیا ہے اور اطلاقی نوعیت کے تجزیے بھی کئے ہیں۔ انھوں نے جتنا بھی کام کیا ہے پورے انہماک اور سنجیدگی سے کیا ہے، اور اردو میں اسلوبیات کو فروغ دینے میں قابلِ خدمت انجام دی ہیں۔ ‘‘
جناب مشفق خواجہ نے راقم الحروف کے نام اپنے ایک مکتوب مورخہ ۲۷ مارچ ۱۹۸۵ء میں تحریر فرمایا:
’’میں نے آپ کی کتاب کا مطالعہ کیا، اور خوش ہوں کہ ایک نئی دنیا کی سیر کی۔ اور اس سے میرے علم میں اضافہ ہوا۔ آپ کے اسلوبیاتی مطالعے آپ کے گہرے علم میں اضافہ ہوا۔ آپ کے اسلوبیاتی مطالعے آپ کے گہرے علم کے ساتھ ساتھ آپ کے اعلیٰ ذوق کے بھی عکاس ہیں، ورنہ عموماً صرف لسانی دلچسپی ادب سے جمالیات پہلوؤں کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر خلیق انجم نے بھی راقم الحروف کے نام اپنے ایک خط مورخہ ۲ جولائی ۱۹۸۵ میں ان الفاظ میں دادِ تحسین دی:
’’میرا یہ خیال بلکہ عقیدہ ہے کہ لسانیاتی اسلوبیات کے موضوعات پر یہ اردو میں پہلی کتاب ہے جو سائنٹی فک انداز سے، اور ادبی نہیں بلکہ لسانیاتی نقطۂ سے لکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں آپ نے جو لسانیاتی تجزیے کئے ہیں وہ ہر لحاظ سے قابل قدر ہیں اور اردو میں یہ ایک اہم اضافہ ہے۔
پروفیسر حامدی کاشمیری نے کتاب کی رسید سے مطلع کرتے ہوۓ اپنے یکم اگست ۱۹۸۴ء کے خط میں ان خیالات کا اظہار کیا:
’’آپ کی کتاب دیکھ کر مسرت ہوئی۔ آپ نے لسانیات اور تنقید کے رشتوں کی خاطر خواہ صراحت کی ہے۔ آپ کے کام کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے واضح اور مدلل انداز میں ادب سے تعلق رکھنے والے لسانیاتی اور اسلوبیاتی نظریات و مسائل کا احاطہ کیا ہے لسانیات جیسے سائنسی شعبۂ علم سے گہری وابستگی سے آپ نے اپنی تحریر میں جو توازن، اختصار اور سادگی قائم کی ہے اس سے آپ کا اسلوب جاذِب توجہ ہو گیا ہے۔ ‘‘
سہیل بخاری (مرحوم) نے راقم الحروف کو ۳۰ اگست ۱۹۸۴ء کو خط لکھ کر ان الفاظ میں کتاب کی ستائش کی:
’’بہ حیثیتِ مجموعی یہ کتاب ادبی تنقید میں سوچ بچار کی نئی راہ کھولنے کی ایک دلچسپ کوشش ہے۔ ‘‘
علاوہ ازیں اردو کے بعض دوسرے ممتاز عالموں اور ناقدوں نے بھی زبان، اسلوب اور اسلوبیات کے بارے میں نیک خیالات کا اظہار کیا اور اس علمی کاوش کی دل کھول کر داد دی، مثلاً”
· پروفیسر مسعود حسن خاں نے لکھا کہ ’’اردو میں یہ مجموعۂ مضامین وقت کی ایک اہم ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ ‘‘(۲۸دسمبر ۱۹۸۳ء)
· پروفیسر گیان چند جین نے لکھا کہ ’’آپ کی کتاب کو پڑھ کر اس موضوع سے آشنا ہوں گا‘‘ (۱۴ مارچ ۱۹۸۴ء)
· پروفیسر مغنی تبسم نے لکھا کہ ’’بڑا اچھا کام آپ نے کیا ہے‘‘ (۱۶ جون ۱۹۸۴)
· پروفیسر حنیف کیفی نے لکھا کہ دوکتاب کی اپنی ایک خاص افادیت ہے‘‘ (۱۰ کتوبر ۱۹۸۴)
· پروفیسر اشرف رفیع نے لکھا کہ ’’کتاب میں شامل مضامین ایک آفتابی تاثر کے حامل ہیں‘‘(۲۸ مئی ۱۹۸۵ء)
· پروفیسر نذیر احمد ملک نے لکھا کہ دو واقعی کتاب بہت اچھی ہے اور آپ کا استدلالی اور معروضی اندازِ فکر بہت متاثر کن ہے‘‘ (۱۸ اپریل ۱۹۸۴ء)
اسی طرح زبان ، اسلوب اور اسلوبیات کے بارے میں معاصر اخبارات و رسائل نے جو تبصرے شائع ہوئے وہ بھی کچھ کم حوصلہ افزا نہ تھے:
· ماہنامہ قومی زبان (کراچی) نے لکھا :
’’کتاب میں نثری اور شعری اسالیب کا جو تجزیہ پیش کیا گیا ہے وہ کافی دقتِ نظر اور عرق ریزی کا نتیجہ ہے۔ ‘‘ (دسمبر ۱۹۸۳ء)
· روزنامہ قومی آواز (نئی دہلی) کے ضمیمۂ ہفتہ وار میں شائع ہونے والے تبصرے میں کہا گیا:
’’زبان، اسلوب اور اسلوبیات ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ کے اسلوبیاتی تنقیدی مضامین کا ایک قابلِ قدر مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر بیگ کا شمارہ اردو کے ممتاز اسلوبیاتی نقادوں میں ہوتا ہے…….. وہ اسلوبیاتی تنقید کی تمام باریکیوں اور اس کے تمام پہلوؤں اور جہات و ابعاد سے واقف ہیں، اور اس نئے دبستانِ تنقید کی نمایاں خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ” (۱۶ فروری ۱۹۸۶ء)
· ماہنامہ آجکل (نئی دہلی) کے تبصرہ نگار نے اِن الفاظ میں داد دی:
’’کتاب کے تمام مضامین مصنف کی محنت اور کاوش کے آئینہ دار ہیں ، جیسا کہ ان کے مفید حواشی سے بھی ظاہر ہے۔ ‘‘ (فروری ۱۹۸۵ء)
· ہفت روزہ ہماری زبان (نئی دہلی) کے تبصرے کے الفاظ یہ تھے:
’’ڈاکٹر مرزا خلیل بیگ کی زیرِ تبصرہ کتاب اردو میں اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔ بیگ صاحب لسانیات اور اسلوبیات کے استاد ہیں اور برسوں سے ان علوم کی درس و تدریس میں مصروف ہیں……..ادب پر ان کی اچھی نظر ہے۔ گویا اسلوبیات کے فن اور اسلوبیاتی تجزیوں پر مقالے لکھنے کے لئے جن بہترین صلاحیتوں کی ضرورت ، وہ سب ان میں موجود ہیں۔ ‘‘ (یکم دسمبر ۱۹۸۵ء)
· مجلۂ بازیافت (سری نگر) میں جو تبصرہ شائع ہوا اس میں کہا گیا:
’’یہ کتاب اردو میں ایک گراں قدر اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب کی اشاعت کو اردو ادبی تنقید میں ایک اہم موڑ سے تعبیر کیا جانا چاہئے، اس لئے کہ یہ اردو تنقید میں ایک نئی تنقیدی جہت کا نقطۂ آغاز ہے۔ ‘‘(دسمبر ۱۹۸۵ء)
· سہ ماہی روشن (بدایوں) نے اپنے تبصرے میں کہا:
’’ڈاکٹر مرزا خلیل بیگ گزشتہ چند سالوں سے مستقل لسانیات پر لکھتے رہے ہیں۔ ان کی تحریروں نے علم داں طبقے کو متاثر کیا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ موضوع پر بڑے اعتماد اور وضاحت سے لکھتے ہیں۔ مبہم اور بے معنیٰ باتیں جو بعض ادیبوں کے یہاں علمیت کی نمائش کے جذبے کے تحت در آتی ہیں، ان سے بیگ صاحب کے مضامین پاک ہیں۔ ‘‘(دسمبر ۱۹۸۴ء)
زبان، اسلوب اور اسلوبیاتکی طرح زیر نظر کتاب بھی اسلوبیات اور اسلوبیاتی تصورِ تنقید کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کے شروع کے تین مضامین اسلوبیات کی مبادیات ، اسلوبیاتی تنقید کے طریقۂ کار نیز دیگر نظری مباحث سے متعلق ہیں۔ اس حصے کے ایک مضمون میں اسلوبیاتی نظریۂ تنقید سے متعلق چند بنیادی باتوں کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تنقید کا یہ انداز روایتی اصولِ نقد سے کس درجہ مختلف ہے۔ دوسرے حصے کے پہلے مضمون میں یورپ اور امریکہ میں لسانیاتی اسلوبیات کے ارتقاء اور فروغ پر روشنی ڈالی گئی ہے اور وہاں کے بعض اسلوبیاتی نظریہ سازوں کی علمی کاوشوں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے جن کے اثرات اردو اسلوبیات پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔ اس حصے کے بعد کے دو مضامین میں پروفیسر مسعود حسین خاں اور پروفیسر گوپی چند نارنگ کی اسلوبیاتی خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے اور ان کے نظریوں سے بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کے تیسرے حصے کے چھ مضامین خالص تجزیاتی نوعیت کے ہیں جن میں شعری و نثری دونوں طرح کے تجزئے شامل ہیں ان مضامین میں نیاز فتح پوری، بیدی ، ابو الکلام آزاد ، ذاکر حسین، اور اکبر الٰہ آبادی کی نگارشات کے خالص اسلوبیاتی انداز سے تجزئے پیش کئے گئے ہیں۔ کتاب کے آخری حصے کے تین مضامین نقدِ ادب کے بعض دوسرے نئے رجحانات و میلانات کا احاطہ کرتے ہیں۔
مجھے قوی امید ہے کہ اس مجموعۂ مضامین کو بھی اہلِ علم و نظریہ نظر تحسین دیکھیں گے اور آخری علمی حلقوں میں اس کتاب کی بھی خاطر خواہ پذیرائی ہو گی۔
علی گڑھ
۱۹ جنوری ۲۰۰۴ء
مرزا خلیل احمد بیگ
پروفیسر و صدر شعبۂ لسانیات
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی