(چھٹی برسی کے موقع پر خراجِ تحسین)
نیلسن منڈیلا نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ’’سیاستدان اگلے الیکشن کے بارے میں سوچتا ہے اور رہنما آئندہ نسلوں کےبارے فکر کرتا ہے‘‘۔ رسول بخش پلیجو صاحب اس صدی کے ایک ایسی ہی عظیم رہنما تھےجنہوں نے اپنی ساری زندگی پاکستان میں ایک پوری نسل کی بھرپور سیاسی تربیت کرنے میں گزار دی۔ ان کی حیات مسلسل پرامن جمہوری جدوجہد کرنے ، سماج میں پسے ہوئے طبقوں خاص کر خواتین اور اقلیتی فرقوں کو قومی دھارےمیں شامل کرنے ، ترقی پسند ادب کی اشاعت و ترویج اور دہشتگردی و انتہاپسندی کو ختم کرنے کی کوششوں میں صرف ہوئی۔
آمروں سے الجھنے والے اور عام آدمی سے پیار کرنے والے رسول بخش پلیجو نے 1960ء کی دہائی سے ترقی پسند اور جمہوریت پسند کارکن کے طور پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ انہوں نے اپنی سیاست کی بنیاد جدلیاتی مادیت کے اصولوں پر قائم کی۔ اس کارعظیم کے لئے انہوں نے کارل مارکس، فریڈرک اینجلس، ولادیمیر ایلچ لینن، مائوزے تونگ، ہوچی منھ جیسی شخصیات کے افکار و کردار کا تجزیہ کرنے کے علاوہ دنیا بھر میں وقوع پذیر ہونے والے انقلاب و نظریات کا بغور مطالعہ کیا۔ انہوں نے یورپ کی روشن خیال تحریکوں کے فلسفیوں، عمانوئیل کانٹ، ہیگل، اردبریخت کے ادبی کام کا بھی نہایت باریک بینی سے مطالعہ کیا، وہ یونانی ادب، فلسفہ اور تاریخ کے بھی مستقل قاری و طالبعلم رہے۔
انہیں سندھ میں لطیفیات کا ماہر تسلیم کیا جاتا تھا، وہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے علاوہ بابا بھلے شاہ، شاہ حسین، وارث شاہ، خواجہ غلام فرید، سچل سرمست اور میاں محمد بخش کی شاعری کے بہترین شارح تصور کئے جاتے تھے۔ روایتی سندھی ادب پر انکی بے باک جارحانہ اور بے رحمانہ تنقیدی کتاب ’’اندھا اوندھا ویج‘‘ نے ادبی حلقوں میں تو تہلکہ مچا ہی دیا تھالیکن اس کتاب کی اشاعت نے سندھ میں عوام دوست اور عوام دشمن ادب کے درمیان انمٹ واضح لکیر بھی کھینچ دی تھی۔
1967ء میں سندھی طلبہ کی طرف سے چلائی جانے والی تاریخ ساز ون یونٹ مخالف تحریک کے ایام میں وہ نہ صرف اس میں سرگرم رہے، بلکہ اس تحریک کو فکری و علمی مواد بھی فراہم کرتے رہے۔ 1968ء میں ون یونٹ کی خاتمے اور انتخابی فہرستیں سندھی میں شائع کروانے کی تحریک میں بھی صفِ اول کے رہنما کے طور پر سندھ کی سیاست میں نت نئے انقلابی اقدامات اور رویوں کی بنیادیں رکھیں۔
1970ء کے عشرے میں انہوں نے عوامی تحریک کے نام سے سائنسی طریق پرترقی پسند نظریاتی تنظیم کی بنیاد رکھی اور سندھ کی سیاست میں نئے تجربات و نظریاتی بحث مباحثوں کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ وہ ایک روایت شکن سیاستدان کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ ایم آر ڈی کی تحریک، شہری نسلی دہشتگردی کے خلاف سخت مزاحمتی جدوجہد، کالاباغ ڈیم مخالف تحریک، عدلیہ بحالی تحریک، مارکس ازم اور شاہ لطیف کے پیغام کو عوامی اور نئے فکری اندازسے منظرِ عام پر پیش کرنے، قائد اعظم کی شخصیت کےسیکیولر پہلوؤں کو اجاگر کرنے،” محمد بن قاسم سندھ پر حملہ آور ہونے والا لٹیرا ہے ” جیسی تاریخی سچائی کو عام کرنے والی تمام فکری، نظریاتی مہمات و تحاریک میں پلیجو صاحب کا انتہائی بے باک و شاندار کردار رہا، جو کہ تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھے جانے کے قابل ہے۔
سندھ کے پانی کے مسئلے پر انکا باریک بینی سے مطالعہ، جائزہ اور اس حوالے سے ان کی جدوجہد سندھ کی نسلوں پر ایک بہت بڑا احسان ہے۔ پانی کی تقسیم کے متعلق انکی تحریریں ایک تاریخی سند کے طور پر یاد رکھی جائیں گی۔
وہ ساری عمر عملی سیاست میں ایک درخشاں ستارے کی مانند مثال سندھ کے سیاسی افق پر پوری آب و تاب کے ساتھ چھائے رہے۔ وہ زندگی بھر پیکرِ جدوجہد رہے، ان ک زندگی کا کوئی دن، ماہ و سال ظلم و ناانصافی کے خلاف احتجاجی دھرنوں، بھوک ہڑتالوں، مظاہروں، لانگ مارچ، سیمیناروں اور پریس کانفرنسوں سے خالی نہ رہا۔محترم رسول بخش پلیجو کی دور رس بصیرت نے تاریخی لحاظ سے زمین کی قدیم ترین اور سندھ کی دور افتادہ آبادیوں میگھواڑ، بھیل اور کولہن میں خواتین اور نوجوانوں کے لیے تعلیم و شعور اور سیاسی تربیت کا ہدف مقرر کیا۔ جس کے نتیجے میں ہی وشنو مل میگھواڑ، ہمیرو مل میگھواڑ، وسند تھری میگھواڑ، دیال صحرائی، پردیپ گلاب، کبیر بھیل، سارنگ بھیل، لچھمی بھیل، مگنو کولہی کو سندھ کی قومی تحریک کے رہنمابن کر سامنے آنے کا موقع ملا۔مختلف پارٹیوں کے اتحادوں کے جلسوں میں ان پسماندہ علاقوں کے پسے ہوئے لوگوں کو پیروں اور امیروں کے شانہ بشانہ کام کرنے کا موقع ملا۔ پلیجو صاحب کی شدید خواہش تھی کہ کوئی میگھواڑ یا بھیل عورت عوامی تحریک کی مرکزی صدر بنے۔مسٹر پلیجو کسی میگھواڑ یا بھیل کی دعوت ضرور قبول کرتے تھے میزبان کو یہ سہولت بھی حاصل ہوتی کہ اُن کی ضیافت کے لئےکسی خاص اہتمام کے ضرورت چنداں نہ تھی فقط سوکھی روٹی اور دودھ کا گلاس باقی دعوت کا اصل لطف تو کتابیں، شاعری اور نغمے اورگیت ہوتےتھے۔ ۔ لوگوں کے درمیان صدیوں پرانی نفرت کو ختم کرنے کے لیے ان کے گھر کا باورچی میگھواڑ یا بھیل ہی ہوا کرتا تھا۔ یہ اس عظیم انسان کی محبت اور مساوات کے فروغ کے لئےعملی اور شعوری کاوشیں تھیں۔ بچوں کی تحریک “سجاگ بار تحریک” کے مرکزی صدر کے طور پر کبیر بھیل کی تقرری امراء اور مذہبی قائدین کے نزدیک قابل اعتراض تھی، مولوی حضرات کا کہنا تھا کہ کیا اب کوئی بھیل ہماری نسل کا لیڈر ہوگا؟ لیکن پلیجو صاحب نے ان کے تمام اعتراضات یکسر نظر انداز کر دئیے۔ اس سے تھرپارکر کے دیگر اہم پارٹی رہنما گیان چند، پونجو بھیل، کرشنا کولہی اور دیگر کی سیاسی تربیت کا مرکز عوامی تحریک ہی قرار پائی۔
آج جب وہ ہمارے ساتھ نہیں ہیں تو وہ بہت یاد آ رہے ہیں۔ جب سندھ کو اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے ایک پر اثر اور طاقتور آواز چاہئے اور زمینیں بیچنے کے خلاف ایک بھرپور احتجاج کی ضرورت ہے۔ اور اس ساری صورتحال میں سب ادیب ،حکمران جماعت اور ان کے موقف کے حمایتی ہو گئے ہیں اور حکمرانوں کے سامنے سچ کہنے والا کوئی نہیں ہے؛ اِس وقت عوامی تحریک تو وہی موقف لے کے چل رہی ہے لیکن اشاعتی ادارے اس کو اہمیت نہیں دے رہے۔ ادب کو سیاست کے ساتھ جوڑ کر چلنے والا کوئی نہیں ہے رہی سہی کسر ادب میں مزاحمت کے ختم ہونے سے پوری ہو گئی ہے۔ تو ایسے وقت میں سندھ کو ایک اور رسول بخش پلیجو چاہئیے ۔ جن کی قابلیت اور اہلیت کے سامنے حسد اور بغض نے ماتھا ٹیک دیا تھا۔ کالاباغ ڈیم کا نا بننا، ایم کیو ایم کی مقبولیت عامہقبول کرنا، غریب طبقے کی عورتوں کو مین اسٹریم سیاست میں لانا اور ادب و ثقافت کو سیاست کی ساتھ چلانا رسول بخش پلیجو کی جدوجہد اور حکمت عملی کی کامیابی کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔
یادوں کے نقوش
ہمیشہ مسحورکن مسکراہٹ لبوں پہ سجائے پر عزم و پرجوش انداز میں مصافحہ کرتے ہوئےپوچھا کرتے تھے کہ : ’’زندگی کیسی گزر رہی ہے؟ آج کل کونسی کتاب زیرِ مطالعہ ہے؟ کون سے نئے علاقوں کے دورے کئے؟۔۔۔۔وغیرہ‘‘۔ہر ملنے والے کارکن سے یہ معمول کا زبانی سوالنامہ ہوتا تھا، جبکہ دوسری جانب وہ تنظیمی معاملات میں انتہائی سخت گیر اور نظم و ضبط کے پابند انسان تھے۔
جب کہ ان کی شخصیت کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ روزمرہ زندگی میں ان کا رہن سہن اور کھانے پینے کی عادات بالکل سادہ تھیں ۔ ان کی محافل اورمجالس کا آغاز کارکنان کی طرف سے سے شعر و شاعری سے ہوا کرتا تھا وہ خود بھی شعر سناتے تھے۔اس طرح ان کی مجلس یا محفل کسی انقلابی گیت پر اختتام پزیر ہوا کرتی تھی ۔
دنیا کے عجیب و غریب واقعات سے لیکر عام انسانوں کی روز مرہ زندگی بارے دلچسپ اور معلوماتی گفتگو، بحث مباحثے، حسِ مزاح، حاضر جوابی، برجستگی، سحر انگیز عالمانہ گفتگو اور عام لوگوں سے مل کر انکو اپنا گرویدہ بنا لینے کا فن و ہنر تو کوئی ان سے ہی سیکھے۔ یاد داشت کے پکے، سخن ور، کبھی کسی کارکن یاعام انسان کی کسی خوبی یا کارنامے، محنت اور مہارت کو ضائع نہیں ہونے دیتے بلکہ سراہتے، یہاں تک کہ نظریاتی مخالفین کی بھی ہر اچھے قول و فعل کہ برملا تعریف کرنا اور داد دینا انکی خاص خوبیاں تھیں۔
عوامی تحریک اور پلیجو صاحب کی شخصیت کے بارے میں شہرت تو 90ء کی دہائی سے عام ہوچکی تھی ۔ میری ان سے مطالعاتی واقفیت کی ابتدا پلیجو صاحب کی کہانیوں کے مجموعے ’’پسی گاڑھا گل‘‘ (سرخ پھولوں کی محسوسیت) پڑھنے سے ہوئی جبکہ ہماری باضابطہ ملاقات 2004ء کو کراچی میں سندھیانی تحریک کے ایک اجلاس میں ہوئی اور پھر یہ سیاسی سفر کا سلسلہ دھرنوں، جلسوں، مظاہروں، احتجاجوں، لانگ مارچوں تک چلتا رہا۔
رسول بخش پلیجو صاحب نظرانداز کئے گئے عام لوگوں کے ساتھ میل جول میں خوشی محسوس کرتے تھے اور ان کی بنیادی سیاسی، نظریاتی و انقلابی تعلیم و تربیت خود کرتے تھے ان کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ عوامی تحریک یا سندھیانی پپتحریک کی مرکزی لیڈر یا صدر کولہی، مینگھواڑ یا بھیل قبیلے سے کوئی عورت ہو کیوں کہ وہ سندھی ہندوؤں خاص کر کولہی، بھیل اور مینگھواڑ کو اس دھرتی کا اصل وارث سمجھتے تھے اور ان کو اس حالتِ محرومی سے نکالنا چاہتے تھے۔
وہ ہمیشہ ’’اقلیت‘‘ کا لفظ کے استعمال کو ناپسند کرتے تھے۔ لیکن مجبوراً جب بھی اقلیت کی بنیاد پر کوئی نا انصافی، ظلم یا ناجائزی کسی کے ساتھ ہوتی وہ سینہ تان کر میدانِ عمل میں ڈٹ کر کھڑے ہوجاتے، میں نے دیکھا کہ وہ 1988ء میں سیتا کولہی اغوا واقعے کے احتجاجی سلسلوں سے شروع ہوکر رنکل کماری، آشا، لتا اور دیگر ہندو بچیوں کے اغوأ اور جبراََ تبدیلی مذہب تک جا پہنچتی ہے۔ مذہبی متعصبین نے جب بھورو بھیل کے لاش قبر سے نکال کر بے حرمتی کی تو پلیجو صاحب نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ: ’’رسول بخش پلیجو اور بھورو بھیل میں کوئی فرق نہیں اور مذہب کے نام پر درندگی ختم ہونی چاہئے۔‘‘
جیکب آباد میں عوام و جمہوریت کے لئے جدوجہد کرنے والے سدھام چند چاؤلہ کا جب مقامی دہشتگرد وڈیروں اور سرداروں کے ہاتھوں قتل ہوا تو اس وقت اس عظیم انسان نے آوازِ حق بلند کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر کے ساتھ ملکر سکھر میں اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کروایا اور قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا۔
ضلع شکارپور کے نواحی علاقے ’’چک‘‘ میں مذہبی منافرت کی بنأ پرچار ہندو بھائیوں کا انتہا پسندوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے خلاف بھی نا صرف احتجاج کیا بلکہ بااثر انتہاپسند جنونی قاتلوںکی گرفتاریاں کروائیں۔ہندوستان میں رام مندر کی تعمیر کی وجہ سے جب یہاں پاکستان میں انتشار پیدا ہوتا تھا توپلیجو صاحب کی پارٹی مندروں کی حفاظت پر معمور ہوتی تھی۔
میں سندھی تحریک میں مرکزی کمیٹی کی ممبر تھی، ایک اجلاس میں انہوں نے ہندو مذہب کی بنیادی معلومات کے متعلق کچھ سوالات کئے تو مجھ سمیت کئی کارکنان لا علمی کی وجہ سے خاموش رہے۔ چنانچہ انہوں نے ممبران کاہندو مت، جین مت، بد ھ مت، سکھ مت، اور دیگر مذاہب کے بارے میں مکمل با خبر رہنا، نا صرف لازم قرار دیا بلکہ انہوں نے تنظیمی طور پر سندھ کے مختلف اضلاع میں متواتر کئی سیمینار منعقد کروائے، جن میں بھگت کبیر، میراں بائی، کنور رام، ہیموں کالانی، روپلو کولہی، ہولی اور دیوالی کے تہواروں پر منعقدہ سیمینار قابلِ ذکر ہیں۔
برصغیر کی تاریخ میں صرف رسول بخش پلیجو ہی واحد انقلابی، سیاسی رہنما تھے، جنہوں نے گھریلو عورتوں کو گھر کے آنگن سے باہر نکال کر عوامی سیاست میں داخل کیا اور نظریاتی و انقلابی عورت کے روپ میں مردوں کے شانہ بشانہ حقوق کی جنگ لڑنے کے لئے میدان میں اتارا۔ جنہوں نے نا صرف احتجاج اور ہزاروں کلومیٹر طویل لانگ مارچوں کی قیادت کی، بلکہ حقوقِ انسان کے حصول کی خاطر زندانوں میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں اور ثابت قدمی و مستقل مزاجی سے اپنے نظریے اور فکر پر کاربند رہیں اور ہیں۔
کبھی کبھار اُن مسلسل،جدوجہد، سرگرمیوں،اور بھاگ دوڑ سے اکتاکر میں سوچتی تھی کہ ’’پلیجو صاحب پر ایک مقدمہ دائر کیا جائے کہ ہم عورتوں کو گھر کےآرام و سکون سے نکال کر بیرونی مسائل کی مصیبت و عفریت میں ڈال دیا ہے؟‘‘ لیکن ان کا پیغام تو آفاقی تھا کہ عورت اور مرد دونوں کو اپنی آنے والی نسلِ نوع کی بقأ اور انسان ذات کی ترقی، خوشحالی اور آزادی کےلئے انقلابی جدوجہدکرنا فرض ہے۔
ہمیشہ کی طرح سندھیانی تحریک کے ایک اجلاس میں انہوں نے شاہ لطیف کی شاعری سنانے کا مطالبہ کیا تو ہم کارکنان نے دو چار اشعار سنانے پر اکتفا کیا۔ جس پر انہوں نے کہا کہ یہ گھسے پٹے پرانے اشعار تو سندھیانی تحریک کے جلسوں میں ۱۹۷۰ء سے پڑھے جا رہے ہیں، لیکن ۲۰۱۸ء میں ہمیں شاہ لطیف کے رسالے سے نئے اشعار یاد کرنا چاہئے۔ شاہ لطیف ہی ہے جو کہ اشعار کی صورت میں، جرأت، ہمت، پیش قدمی، مایوسی کے اندھیروں سے نکال کر ہمیں نئے عزم اور نئی راہوں کا رہنمأ بنائیگا۔نئی دنیا کا نیا انسان بنائیگا۔ بعد میں انہوں نے لطیف سائیں کے کئی نئے اشعار بمعہ تشریحات کے ہمیں سنائے۔
ایک شعر جو مجھے آج بھی یاد ہے کہ :
نه مون ناناڻا کٽيو، نه ئي ڏاڏاڻا،
پرين جي پاران، وڏا ئي وڙ ٿيا
ترجمہ : ’’ نہ کچھ ننھیال سے ملا، ناہی ددھیال سے۔ لیکن جو ملا (شان، شوکت، عزت، ناموس) محبوب سے ملا اور بے حساب ملا۔‘‘
نجانے وہ کہاں کہاں سے نئے عزم و حوصلہ پیدا کرنے والے اشعار کر ڈھونڈ نکالتے تھے اور ہمارے ادبی ذوق میں اضافہ کرتے تھے۔ جب ہی تو لوگ عوامی تحریک کے کارکنوں سے بحث کرتے وقت محتاط رہتے ہیں یا گریز کرتے ہیں، شاہ لطیف کی شاعری کا پلیجو صاحب نے بہت گہرا اور وسیع مطالعہ کیا ہے وہ ان کے اشعار تمام تر باریک بینی کے ساتھ منفرد تشبیہی انداز میں پڑھتے تھے ۔ شاہ لطیف کے انقلابی و عوامی پہلو کو اجاگر کرکے سرکاری کانفرنسوں سے نکال کر ’’جشنِ لطیف‘‘ کے بینر کے تلے نگر نگر، پھیلانا ان ہی کا شیوہ تھا۔
مجھے سارک ممالک گھومنے کا موقع ملا تو میں جہاں ج بھی گئی مجھے ان کی حوالے اور ان کی شخصیت کےمعترف لوگ ملے ۔ میں نے 2008ء میں کھٹمنڈو (نیپال) میں اقلیتی خواتین کے حقوق و مسائل کے موضوع پر منعقد تقریب میں تقریر کرتے ہوئے رسول بخش پلیجو صاحب اور سیاسی حوالے سے سندھیانی تحریک کا بھی ذکر کیا۔ تو وہاں ’’کوسلو اک رکی‘‘ نامی کو شخص مجھ سے ملا اور اپنا تعارف مائوئسٹ پارٹی کے ورکر کے طور پر کروایا، اور پلیجو صاحب کے بارے میں پوچھنے لگا۔ دورانِ گفتگو بتایا کہ پلیجو صاحب، وزیرِ اعظم کامریڈ پرچندہ کے دور میں اسٹیٹ گیسٹ ہوتے تھے اور کمیونسٹ لیڈر مادھو کمار، پلیجو صاحب کے بڑے مداح تھے، اس کی وجہ پلیجو صاحب کا دنیا کی کمیونسٹ تاریخ کے علم پر دسترس رکھنا تھی۔
اسی طرح سن 2009ء میں ڈھاکہ (بنگلادیش) میں بھی بہت ہی سینیئر سیاسی لوگ ان کے قدردانوں میں سے تھے۔ ایک دانشور مظہر حسین کے مطابق عوامی لیگ والے پلیجو صاحب کے مؤقف کو بہت پسند کرتے ہیں۔ اور آج بھی ان کے بیانات غور سے پڑھتے ہیں۔
افغانستان کے صدر شہید ڈاکٹر نجیب بھی ان کے بہت بڑے مداح تھے، کابل کے دانشور پلیجو صاحب کی بین الاقوامی علمیت و قابلیت اور مؤقف کے بڑے معترف تھے۔ اس دور افغانستان میں بھی پلیجو صاحب اسٹیٹ گیسٹ ہوا کرتے تھے۔
رسول بخش پلیجو برصغیر کے وہ پہلے انسان تھے جنہوں نے عام فرسودہ نظام، رسم و رواج اور روایات شکنی کی ابتدأ اپنے ہی گھر سے کی۔سب سے پہلے اپنی ماں ’’لاڈ بائی‘‘ کو جدت پر مبنی نصابی و غیر نصابی کہانیاں پڑھ کر سنائیں بعد میں بہنوں کو بھی پڑھوائیں۔ اپنے مؤقف کے باعث جیل جانا پڑا تو پہل ان کے خاندان اور بہنوں سے ہوئی۔ دوسرے لیڈروں کی طرح ان کے اپنے گھر کے لوگ ڈرائنگ رومز میں اور کارکن سڑکوں اور جیلوں میں نہ ہوتے تھےبلکہ احتجاجی ریلیوں اور لانگ مارچ کے دوران ان کا خاندان بھی ان کےساتھ چلتا تھا ۔ انہوں نے اس طرح ایک نئے اور منفرد سیاسی و علمی اور عملی سماج کی بنیاد رکھی، جس میں ہر ایک من و عن اپنے دل کی بات بیان کر سکتا تھا۔ خاندان اور گھر کا دکھ سکھ بانٹ سکتا تھا۔ انہوں نے عوامی تحریک کی صورت میں ایک سیاسی خاندان کی بنیاد ڈالی ایک ہی گھر کا بچہ گر سجاگ بار تحریک میں تھا تو اسی گھر کا نوجوان سندھی شاگرد تحریک کا کارکن تھا، ماں گر سندھیانی تحریک میں تھی تو باپ عوامی تحریک/ مزدور تحریک یا ہاری تحریک کا حصہ تھا۔
عوامی تحریک تنظیم کو عملاََ ایک گھر کی مانند تشکیل دیا۔ جس میں رہنے والے تمام افراد ایک خاندان/ کنبے کی طرح ہیں۔ جس میں کسی بھی نسل، مذہب، رنگ یا جنس کے فرق سے بالاتر ایک ہی سوچ کے ناطے سب برابر ہیں اور چھوٹے بڑے،بوڑھے بزرگ سب کو اپنے حقوق و فرائض کا شعور اور ادراک دیکر رسول بخش پلیجو نے اس فرسودہ نظام کے خلاف ایک نئی دنیا تشکیل دی ہے۔ گر یہ کہا جائے کہ وہ اپنی سوچ و فکر کے عملی پیمانے پر ایک کامیاب رہنماء تھے تو بیجا نہ ہوگا۔
ان کی سوچ اور عملی اقدامات نےنام نہاد مذہبی ٹھیکے داروں، مہاراجاؤں، ملاؤں اور پنڈتوں کی مصنوعی ذات پات و دھرم کے نام پر ہتھکنڈوں کا شکار بھیل، باگڑی، میگھواڑ، کولہی اور سماج کے دیگر نظرانداز کئے گئے لوگوں کو بھی رہنمأ و لیڈر بنا دیا ۔اکثر تنظیمی اجلاسوں میں پلیجوصاحب کے اصرار پر کھانے پینے کے انتظامات میگھواڑ اور بھیلوں کے سپرد و حوالے کئے جاتے تھے اور پھر ان ہی کے ہاتھوں کے پکائے ہوئے کھانے ان کے سمیت تمام لیڈران و کارکنان مل بیٹھ کر اکٹھا تناول فرماتے تھے۔ یہی انکی انسانیت شناسی اور اپنے نظریاتی فلسفے کے عین مطابق روایات شکنی کی انقلابی پیش قدمیاں تھیں، اور اسی وجہ سے پلیجو صاحب کو ’’قائد ِ انقلاب‘‘ کا لقب ملا۔
انہی انقلابی اقدامات کی بنا پر پھر جہاں جہاں عوامی تحریک یا سندھیانی تحریک کی سرگرمیوں کا اثر بڑھنے لگا تو وہاں ’’کاروکاری، زبردستی کی یا بے جوڑ کی شادیاں اور وٹے سٹے جیسی حرکتیں اور انسان دشمن مظالم کم ہوگئے یا بالکل بند ہوگئے۔ لوگ ایک دوسرے کا سہارا بن جاتے ہیں، اور یوں ایک چھوٹی سطح کے انقلابات برپا ہوجاتے اور ایک نیا سماج تیار ہوجاتا ہے۔ نئی سوچ و نئے آدمی بن جاتے ہیں۔پلیجو صاحب نے کئی خواتین کارکنان کو ’’سیلف ڈیفنس‘‘ اور خود کفیل ہونے کے لئے قانوندان بننے کے مشورے دئیے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کئی خواتین و مرد وکیل بھی بن گئے۔ کئی خواتین کو اپنے پسند کی شادی کرنے کا بھی حق دلوایا۔
وہ کبھی بھی مفروضات پر مبنی غلط بات پر خاموش نہیں بیٹھے، ہر صورت میں کسی کی پرواہ کئے بغیر کھرا اور کڑوا سچ بول دیتے۔ یہی وجہ تھی کہ نقلی ترقی پسندوں،جعلی قوم پرستوں اور نام نہاد جمہوریت پسندوں نے مل کر انہیں ہر دم تنہا کرنے کی ناکام کوششیں کیں۔ لیکن وہ خاموش بیٹھنے والوں میں سے تو تھے نہیں، انہوں نے اپنے وسیع علم، عمل، دلائل، اور حکمتِ عملیوں سے جدوجہد کے ذریعے ان تمام سازشیوں کو سیاسی میدان میں پیچھے چھوڑ دیا اور اپنے آپ کو ایک ’’انقلابی‘‘ کے طور پر تاریخ میں ہمیشہ سرخرو کر دیا۔
سندھ اور پنجاب کے بڑے بڑے جید ترقی پسندوں کے ساتھ سخت نظریاتی بحث کی، کئی لوگوں کو انکی باتیں اور خیالات اس وقت سمجھ میں نہیں آئے لیکن وقت نے ثابت کیا کہ آخری فتح پلیجو صاحب کے مؤقف کی ہی ہوئی۔ ڈرائنگ روم کی سیاست دم توڑ گئی، کوئی صوفی بن گیا، تو کسی نے خود کو کیش کروادیا، کسی نے این جی اوز کا سہارا لیا، تو کسی نے گمنام زندگی گزارنے میں عافیت جانی، تو کسی نے سامراجی ممالک میں خود ساختہ جلا وطنی اپنا لی اور کئی تو کالم نویسی کے ذریعے سماج میں مایوسیت پھیلانے کی ڈیوٹی پر بھی فائز ہوگئے۔
رسول بخش پلیجو نے ایک پسماندہ علاقے اور عام رواجی و روایتی خاندان میں آنکھ کھولی اپنے ارد گرد کے گھٹن زدہ ماحول سے مانوس ہونے کی بجائے روایتوں کے باغی بنے۔ نہ انہیں کوئی اوپر والے کی دین تھی، نہ کوئی بڑا وڈیرہ، سردار یا سرمایہ دار ان کی پشت پر تھا بلکہ دن رات اپنی محنت کی بدولت ہزاروں کتابوں سے علم حاصل کرکے یہ دانش و عقل حاصل کی تھی۔ انہیں کبھی نہ کھانے کا، نہ پینے یا پہننے کا اور ناہی آرام کا شوق رہا۔ انکی پسند و نا پسند، نیند، آرام، سکون اور قلبی راحت صرف اور صرف کتابوں میں تھی۔ انہوں نے اپنی علمی و عملی قابلیت، ذہانت، جدوجہد پر کامل یقین اور سیاسی جدت سے نا صرف سندھ بلکہ پاکستان و بیرونِ ملک پذیرائی حاصل کی اور اپنے کارناموں اور کاوشوں سے برِصغیر میں جو لازوال نقوش چھوڑے ہیں وہ صدیوں تک تاریخ میں رقم رہیں گے۔
انقلابی شاعری و موسیقی کے دلدادہ اس جاذبِ نظر شخصیت سے جو بھی شخص ملنے آتا ان سے صرف انقلابی، علمی، اور عملی کام کے بارے میں حال احوال پوچھنا/کرنا، اگر کوئی اچھی شاعری ترنم کے ساتھ سناتا تو بڑے ہی محظوظ و مسرور ہوتے۔ ان کو شاعری ور موسیقی سے بہت لگاؤ تھا۔ ہمارے گھر آتے تو صرف اور کالی داس کبیر اور میرا کی بات چلتی تھی۔
وہ استاد جمن، استاد محمد ابراہیم اور بہت سے فنکاروں سے خود جاکر ملتے، گھنٹوں مختلف شاعری پر محفلیں سجاتے، شیخ ایاز، استاد بخاری، سرویچ سجاولی، گدائی اور کئی دیگر شعرأ کرام کی شاعری گانے کا اسرار کرتے۔ زرینہ بلوچ کو دن رات محنت کرکے ایک لوک فنکارہ سے’’انقلابی فنکارہ‘‘ بنا دیا، کئی شعرا خصوصاََ شیخ ایاز کی شاعری پر دھنیں ترتیب دلوا کر تیار کرکے عوامی اجتماعات و پروگراموں کے ذریعے عوام کی سماعتوں تک پہنچائے اور عام لوگوں کی سوچ کو تبدیل کرکے لاکھوں لوگوں کو اکٹھا کیا۔
وفات سے ۲ ماہ قبل یعنی ۱۴ ۔اپریل ۲۰۱۸ء کو میری بیٹی روشنی راجا کے جنم دن کی خوشی میں خصوصی طور پر ہمارے گھرتشریف لائے اور بہت خوش تھے، اس اعزاز کی وجہ سے ہمارا خاندان پھولے نہ سماتا تھا، انہوں نے اس وقت کہا کہ ’’ہندو مسلم کی اصطلاح تو ابھی کل ہی کی بات ہے، ہم تو ازل سے ایک تھے اور ایک ہیں۔ فرق پیدا کرنے والا ملا ہو، پنڈت ہو یا پادری، ہمیں انکے ان فرسودہ خیالات، سوچوں اور نظریات کو شکست دینی ہوگی‘‘۔ لیکن افسوس ۔۔۔۔صد افسوس کہ میرے خاندان کی ان کے ساتھ یہ آخری ملاقات رہی۔ اور 8-جون اس دھرتی کا سفر پورا کر گئے۔
علالت کے دنوں میں ہسپتال کے بیڈ پر بھی ان کے حوصلے بلند تھے، ایک ہفتہ پہلے انکی مزاج پرسی کے لئے ہسپتال گئی تو کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھے پاس ہی ایک کھلی ڈائری و قلم اس بات کی گواہی تھی کہ وہ مطالعے کے ساتھ ساتھ کچھ لکھ بھی رہے تھے۔ رسمی سلام و دعا کے بعد میں نے ان سے کہا کہ: ’’سر! آپ کو اس حالت میں آرام کی سخت ضرورت ہے، آپ کو آرام کرنا چاہیئے‘‘ تو انہوں نے حسبِ عادت مسکراتے ہوئے بولے کہ: ’’لینن اور ماؤ میرے سامنے بیٹھے ہیں، جو مجھے، سونے نہیں دیتے‘‘ چند لمحوں کے لئے خاموشی اپنا دایاں بازو ہوا میں لہراتے ہوئے نعرے لگانے لگے کہ: لینن کی جے ہو،مارکس کی جے ہو،اور لال جھنڈے کی جے ہو۔
پھر ہماری طرف دیکھتے ہوئے مخاطب ہوئے، ’’میرے ارادے اور اعصاب ابھی بہت مضبوط ہیں لیکن جسم عارضی طور پر ضعیف ہے، جو جلد بہتر ہوجائے گا، اورپھر ہم سب مل کر میدانِ عمل میں ساتھ ہونگے‘‘
رسول بخش پلیجو جیسے عظیم المرتبہ انسان کو خراج پیش کرنے کی لیئے میں نے یہ کتاب “رسول بخش پلیجو، نشانِ جہد مسلسل” کے نام سے مرتب کی ہے جو کہ ان کی علمی، ادبی، سیاسی اور انقلابی شخصیت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے میری ادنٰی سی کوشش ہے۔
Email: [email protected]
Cell No. +92 333 2491188
https://www.facebook.com/kalavanti.raja?mibextid=LQQJ4d