رات کی رانی کی خوشبو ہر سو چھائی ہوئی تھی – لان میں جھولا پر سرخ آنکھوں لیے وہ خاموش بیٹھی تھی – وہ خاموش تھی بالکل رات کی تنہائی کی طرح خاموش – وہ غزلان سے شکوہ بھی کرتی تو کسی بنا پر کرتی – غزلان نے تو اسے امید کی کوئی ڈور نہیں تھمائی تھی – مگر اس دل کا کیا کرتی جو اس کے نام کی مالہ جھپنے لگی تھی – وہ اسے چاہنے لگی تھی – کیوں نہ چاہتی وہ اس کا محرم تھا – اس کا مجازی خدا تھا – اسے ہر حق حاصل تھا – یہ پاک رشتہ تو اس کے چاہنے سے قبل ہی آسمان پر طے پایا گیا تھا – اس دشمن جاں کے بارے میں سوچنے کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے تھے – اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ چپ نہیں رہے گی بلکہ غزلان سے استحقاق سے اپنے حق کے بارے میں دریافت کرے گی – وہ اس سے قبل اٹھتی کوئی خاموشی سے اس کے ساتھ آ بیٹھا تھا – اس نے سرخ آنکھوں سے اس دشمن جاں کو دیکھا جو اس کے اس قدر قریب بیٹھا تھا – وہ جانے ہی لگی تھی کہ غزلان نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے روکا – منہل نے ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کی تھی مگر مقابل کی گرفت بھی مضبوط تھی – غزلان نے اس کے ہاتھ کو جھٹکا دے کر اپنی طرف کھینچا ۔ منہل توازن برقرار نہ رکھ پائی اور غزلان کے چوڑے وجود سے آ ٹکرائی – اس نے خفا انداز سے غزلان کی طرف دیکھا – جس کی آنکھوں میں منہل کیلئے جذبات لیے ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجود تھا – اس نے آہستگی سے منہل کے دونوں ہاتھوں کو تھاما –
” منہل ،، میرا شزا سے کوئی تعلق نہیں ہے – سوائے اس کے کہ وہ میری خالہ زاد ہے – میں نے کبھی بھی کسی بھی لڑکی سے تعلقات نہیں قائم کیے کیونکہ میں یہ بات اچھے سے جانتا تھا کہ مجھ پر اور میرے جذبات پر صرف میری محرم کا حق ہوگا – میں نے ہمیشہ خود کو اپنی شریک حیات کی امانت سمجھا ہے – شوہر اور بیوی کے تعلقات میں یقین و اعتماد کا ہونا بہت ضروری ہے – میں امید کرتا ہوں کہ تم،، تم مجھے سمجھو گی – ” اس نے نرمی سے منہل کے آنسوں صاف کیے اور اسی نرمی کے ساتھ اس پر نکاح کے رشتے کی اہمیت واضح کی – منہل بس خاموشی سے اسے دیکھتی رہی – اس کیلئے غزلان کا یہ روپ بہت انوکھا تھا –
” منہل ،، میں نہیں جانتا کہ کب ،، کیسے ,, کس طرح میں تمہیں چاہنے لگا ہوں – یقیناً یہ نکاح کے دو بول کا ہی اثر ہے – ” میں چاہتا ہوں کہ ہم دونوں مل کر اس رشتے کو دوسرا موقع دیں – ” غزلان نے اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا – جس پر منہل نے گھبرا کر اپنی نگاہیں جھکا لیں – منہل کے اس طرح کرنے پر غزلان کے چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ نے احاطہ کر لیا – غزلان نے جھک کر منہل کو اپنی مضبوط باہوں کے حصار میں لیا اور کمرے کی جانب بڑھ گیا – احتیاط سے منہل کو بیڈ پر بٹھایا اور اپنی شریک حیات کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام کر استحقاق سے اس کے ماتھے پر پہلی مہر محبت ثبت کی –
چاند بھی اس ملن پر شرما کر بادلوں کی اوٹ میں ہو گیا –
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
حوریہ اور سارہ ،، خازن اور شہریار کے ساتھ مل کر مہمانوں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے – ہال کو بہت خوبصورت طریقے سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا – آخر کو خازن ” The king of the hearts ” نے ڈیکوریٹ کروایا تھا – 😍
خازن چاکلیٹ کلر کی شلوار قمیض میں بہت وجیہہ لگ رہا تھا – اس کی شخصیت محفل پر چھائی ہوئی تھی – حوریہ بھی کچھ کم نہیں لگ رہی تھی – سکن کلر کے لانگ فراک میں خوبصورتی سے کیے گئے میک اپ کے ساتھ بہت پیاری لگ رہی تھی – سارہ اور روحان بھی بہت پیارے لگ رہے تھے – زویا کو حوریہ ور سارہ سٹیج پر لائی تھیں – جبکہ شہریار کو خازن اؤر روحان لائے تھے – تینوں جوڑے ایک ساتھ کھڑے بہت پیارے لگ رہے تھے – خیر و عافیت سے نکاح کی رسم سر انجام پائی گئی تھی – سب کے دلوں سے اس پیارے سے کپل کیلئے ڈھیروں دعائیں نکلی – خازن نے بھی گہری نظروں سے حوریہ کی طرف دیکھا – جو مشکل سے فراک سنبھالے سہج سہج کر چل رہی تھی – عادت جو نہ تھی اسے ایسے لانگ فراکس پہننے کی – وہ اندر روم سے گفٹس لینے کیلئے بڑھ رہی تھی جب کارپٹ میں اس کا پاؤں اٹکا اور اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی – اس سے قبل کہ زمین بوس ہوتی خازن کے مضبوط بازوؤں نے اسے گرنے کے لیے بچا لیا تھا – حوریہ کو لگا جیسے وہ کسی بلڈوزر سے ٹکرا گئی ہو – اپنا ماتھا سہلاتے ہوئے اس نے نگاہ اٹھا کر اس بلڈوزر جیسی جسامت رکھنے والی شخصیت کو دیکھا – لو جی کوئی اور نہیں یہ تو ہمارے” King of the Hearts ” ہیں – جو حوریہ کیلئے ” Iron in the heart ” ثابت ہوئے ہیں – 😂
” توبہ،، ڈئیر کزن !! کتنا کھاتی ہو ۔۔ ابھی تم سے ٹکرا کر مجھے کچھ ننھا منا سا ہارٹ اٹیک ہو جاتا تو ۔۔؟؟ ” اس نے تو کو کافی کھینچتے ہوئے کہا – جس پر حوریہ نے دانت پیستے ہوئے اسے دیکھا جیسے کہہ دانتوں میں وہ ” King of the hearts ” ( خازن آفریدی) ہو – 😂
یہ الگ بات تھی کہ دونوں کو اپنی جون میں واپس لوٹتے دیکھ کر ان کے گھر والوں اور دوستوں کو کس قدر خوشی محسوس ہو رہی تھی – اس واقع کے بعد دونوں کافی چپ چپ سے ہو گئے تھے – گھر والوں نے بہت بار پوچھا مگر دونوں ٹال گئے – عائشہ بیگم نے دل ہی دل میں دونوں کی دائمی خوشیوں کی دعا کی – بہرحال خیریت سے فنکشن سر انجام پایا گیا تھا –
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
صبح کے اجالے کی ہی طرح ہر چیز منہل کی زندگی میں نکھری نکھری ہوئی تھی – چھن سے کھڑکی سے آتی سورج کی روشنی سے اس کی آنکھ کھلی تھی – ساتھ لیٹے غزلان کی طرف دیکھا جو سویا ہوا کسی ریاست کا شہزادہ معلوم ہو رہا تھا – ماتھے پر بکھرے سلکی بال اسے مزید خوبصورت بنا رہے تھے – منہل نے پیار سے غزلان کے بکھرے بالوں کو سنوارا – اس کے چہرے پر ایک الگ ہی چمک دکھائی دے رہی تھی – کچھ انمول احساس کی چمک محسوس ہو رہی تھی – وہ فریش ہونے کیلئے واش روم کی طرف بڑھی – سنگھار میز کے سامنے کھڑے ہو کر بال بنائے اور غزلان کی طرف بڑھ کر گیلے بال اس پر جھٹکے – غزلان کی آنکھیں بند تھیں مگر چہرے پر دلفریب مسکراہٹ رقص کر رہی تھی – وہ دونوں بہت خوش لگ رہے تھے – غزالاں نے ہاتھ کھینچ کر منہل کو خود پر گرایا – منہل کا چہرہ ہاتھوں کے پیالوں میں تھام کر اس کے ماتھے پر بہت پیار سے مہر محبت ثبت کی – منہل نے پر سکون ہو کر آنکھیں بند کر لیں اور غزلان کے سینے پر سر رکھ دیا – غزلان کے مضبوط حصار میں وہ مان بھرا تحفظ محسوس کر رہی تھی –
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
واپسی پر حوریہ اور خازن زویا اور شہریار کے پاس رک گئے تھے – باقی شاہ فیملی کے تمام افراد گھر جا چکے تھے – سارہ اور روحان بھی وہی تھے – ان سب کا پروگرام ادھر دیر تک ڈیرہ جمانے کا تھا – مگر وقار شاہ نے انہیں گھر بلا لیا تھا کیونکہ صبح منہل اور غزلان شاہ مینشن واپس آ رہے تھے –
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
وقار صاحب اور نفیسہ بیگم اپنے کمرے میں آرام فرما رہے تھے جب عائشہ بیگم اندر داخل ہوئیں – عائشہ بیگم نے مان بھری نگاہوں سے اپنے بھائی جان کی طرف دیکھا –
” کہو ،، عائشے !! کیا بات ہے ؟؟ ” وقار صاحب انہیں بچپن سے ہی عائشے کہہ کر پکارتے تھے – انہوں نے ہی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا –
” بھائی جان میں آپ سے اپنے خازن کیلئے حوریہ بیٹے کو مانگنے آئی ہوں – ” انہوں نے امید بھری نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا – جن کے چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ احاطہ کر گئی تھی – نفیسہ بیگم کا بھی چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا – جیسے کہ ان کو عائشہ بیگم کی بات بہت پسند آئی ہو –
” ہمیں آپکی بات دل و جاں سے منظور ہے عائشے ۔ ”
انہوں نے نرمی سے جواب دیا – ان کی دونوں جگر کے ٹکڑے ان کے سامنے رہیں گی – وہ بہت خوش تھیں – ان کی دونوں بیٹیوں کو بہت اچھے ہونہار ہمسفر جو مل رہے تھے –
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...