وہ غصے سے کمرے میں ادھر ادھر ٹہل رہی تھی – اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیا کر گزرے – وہ کچھ دنوں کیلئے لندن گئی ہوئی تھی – اس ہی وجہ سے وہ منہل کا نکاح اٹینڈ نہیں کر سکی تھی – جب سے اسے یہ معلوم ہوا کہ منہل کا نکاح غزلان سے ہوا ہے وہ جلے پیر بلی کی طرح بےچین تھی – اسے منہل سے بے پنہاں نفرت محسوس ہوئی – اس نے اپنی زندگی میں طرح طرح کے مرد دیکھے تھے – وہ جانتی تھی کہ وہ بہت خوبصورت ہے – شاید اس ہی بات کا اسے غرور تھا – اس نے غزلان کو بھی شیشے میں اتارنے کی کوشش کی تھی مگر وہ اپنے نام کی طرح ہی سب سے مختلف تھا – وہ تو اس وجاہت کے شاہکار کو دیکھتے ہی کھو گئی تھی – لڑکے شزا مراد کی اک نظر کو ترستے تھے – مگر غزلان نے کبھی سیدھے منہ اس سے بات تک نہیں کی تھی – اپنا آپ رد ہو جانا اسے پسند نہیں آیا تھا – اس نے بھی غزلان کو حاصل کرکے ہی دم لے گی اور وہ جانتی تھی کہ اسے اب کیا کرنا تھا – ایک مکروہ مسکراہٹ اس کے چہرےپر چھا گئی –
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
حوریہ لیکچر اٹینڈکر کے لائبریری کی طرف بڑھ رہی تھی کہ اچانک اسے ایک جونیئر نے کہا آپ کو زویا سائنس ڈیپارٹمنٹ کے بیک سائیڈ پر اسے مدد کیلیے بلا رہی تھی – کیونکہ اس کے پاؤں پر موچ آئ تھی – کہہ کر وہ وہاں سے فوراً چلی گئی – حوریہ کو لگا کہ وہ لڑکی گھبرائ ہوئی تھی – یا شاید اس کا وہم تھا – اس نے سر جھٹکا اور بیک سائیڈ پر چلی گئی – زویا کا یہ لیکچر اس کے ساتھ نہیں تھا – مگر اس نے اچنبھے سے سوچا کہ زویا وہاں کیا کر رہی تھی – اس نے بیگ سے اپنا فون نکالا اور زویا کو فون کیا – مگر اس کے فون کی بیٹری کم تھی تو فوراً ہی اس کا فون بند ہوگیا- وہ زویا کو یہاں وہاں ڈھونڈ رہی تھی مگر اسے زویا کہیں بھی نظر نہ آئی- اچانک وہ واپس مرنے لگی تبھی کسی نے اینستھیزیا سے بھرا رومال اس کے چہرے پر رکھ دیا – جس کی وجہ سے وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی –
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
غزلان،، منہل کے جاگنے سے قبل ہی آفس جا چکا تھا – منہل کی جب آنکھ کھلی تب دس بج رہے تھے – وہ فریش ہونے کے بعد سیدھا کچن میں گئی – کچن میں کھانے پینے کی تمام اشیاء موجود تھیں- اس نے بہت وقت لگانے کے بعد ناشتہ بنایا اور نوش فرمایا – آج سے گھر کا سارا گھر کام اسے ہی کرنا تھا – اسے کام کرتے کرتے چار سے پانچ گھنٹے لگ چکے تھے- اب وہ بالکل ماسی لگ رہی تھی- اس لئے فوراً ہی شاور لینے کے لیے واشروم میں گھس گئی – جب وہ نکلی تب ہی اسے غزلان کے کار کا ہارن سنائی دیا – وہ اپنے ہی دیہان میں سیڑھیاں اتر رہی تھی کہ اچانک اوپر آتے غزلان سے بری طرح ٹکرا گئی- اب غزلان کے ہاتھوں اس کی عزت افزائی متوقع تھی – مگر حیرانی کی بات یہ تھی کہ غزلان اسے گہری نظروں سے دیکھے جا رہا تھا – منہل کو اپنے سامنے نکھرا نکھرا دیکھ کر اسے لگا کہ اس کی تمام تھکان اڑن چھو ہو چکی تھی – مگر منہل اسے دیکھ کر بوکھلا گئی تھی – اچانک فون کی بیل نے اس کی نظروں کا تسلسل توڑا – مگر منہل کو گھوری سے نوازتے ہوئے اوپر کی جانب بڑھ گیا – جاتے جاتے پلٹا اور اسے ٹیبل پر کھانا لگانے کیلیے کہا – منہل نے گھبرا کر اثبات میں سر ہلایا- دونوں نے خاموشی سے کھانا کھایا – اسے رات میں کافی پیے بغیر نیند نہیں آتی تھی- اسی لیے اس نے منہل کو مخاطب کیا –
” مجھے ایک کپ کافی بنا دو – ” اچٹتی نگاہ اس پر ڈال کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا –
منہل اپنے لیے چاءے اور غزلان کیلئے کافی بنا رہی تھی – اجازت لے کر کمرے میں داخل ہوئی – غزلان بالکونی میں کھڑا تازہ ہوا لے رہا تھا – منہل کے داخل ہونے پر بے ساختہ اس نے مڑ کر دیکھا – رات کا خمار سر چڑھ کر بول رہا تھا مگر اس نے خود کو کنٹرول کیا – نہ جانے کیوں اسے اب منہل کو دیکھ کر کوفت نہیں ہوتی تھی –
بلکہ اسے منہل کا اپنے آس پاس ہونا اچھا لگنے لگا تھا –
منہل اس کی گہری نظروں سے گھبرا رہی تھی – تبھی بوکھلاہٹ میں کافی کا گرم گرم کپ اس کے ہاتھوں پر گر گیا – غزلان فوراً آگے بڑھا اسے لے کر واشروم کی طرف بڑھا – نل کھول کر پانی اس کے ہاتھوں پر گرایا – تکلیف کے باعث اس کی آنکھوں سے آنسوں چھلک پڑے –
” منہل ،، تم کوئی بھی ٹھیک سے نہیں کر سکتی کیا ؟؟ تمہارا دیہان کہاں ہوتا ہے ہاں – – ؟؟ ” اس کے زخم پر آئنمینٹ لگاتے ہوئے پوچھا – ہاتھ منہل کا جلا تھا مگر نہ جانے کیوں تکلیف اسے محسوس ہو رہی تھی – منہل کیلیئے غزلان کے دل میں نرم گوشہ پیدا ہوا تھا – منہل نے سسکتے ہوئے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی تھی مگر بقول منہل کے اس ظالم انسان کی گرفت مضبوط تھی – غزلان نے احتیاط سے اسے اپنے ہی بیڈ پر لیٹا دیا – دماغ بار بار اس بات کی نفی کر رہا تھا کہ وہ اسے پسند کرنے لگا ہے – وہ پہلے ہی تھکن سے چور تھا – سر جھٹک کر کار کی کیز اٹھا کر گھر سے باہر نکل گیا –
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
رات کی چاندنی آسمان پر بکھری ہوئی تھی – خازن فون کی سکرین پر ایک تصویر کو گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا – وہ تصویر تو نہ جانے کب سے اس کے دل کی سر زمیں پر براجمان تھی – اس کا ایک ایک نقش اسے اچھے سے ازبر تھا – تصویر کو دیکھتے ہی دیکھتے اس کے چہرے پر ایک دلفریب مسکراہٹ چھا گئی –
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...