شام کے وقت پرندے آسمان پر چہچہا کر اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے تھے- غزلان کے رویّے کو مدنظر رکھتے ہوئے ولیمہ کو کچھ دنوں کے لیے آگے بڑھا دیا گیا تھا – غزلان منہل کو قطعاً پسند نہیں کرتا تھا- مجبوری کے طور پر دونوں کو یہ رشتہ نبھانا تھا -اس نے اپنے رویے سے صاف ظاہر کر دیا تھا کہ یہ رشتہ فقط مجبوری ہے- دونوں نے یہ ظاہر کرنا تھا کہ دونوں اس رشتے سے خوش ہیں – وہ منہل کے بیوقوفانہ رویّے سے خار کھاتا تھا – اسے ایک نیا پروجیکٹ ملا تھا جو اس کیلئے بہت خاص تھا – جس کے لیے اسے اسلام آباد جانا تھا – بلاول صاحب سے وہ پہلے ہی ڈسکس کر چکا تھا – انہوں نے منہل کو بھی ساتھ لیجانے کیلئے کہا تھا جس کی وجہ سے اب وہ کوفت کا شکار تھا – غصے سے کمرے میں ادھر ادھر ٹہل رہا تھا کہ دروازے سے آتی منہل کو دیکھ کر اس کا غصہ مزید بڑھ گیا – لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس کے قریب گیا اور بازو کو جھٹکا دے کر پوچھا ” چاہتی کیا ہو تم – – ؟؟ اپنا نام دے دیا اتنا کافی نہیں کہ اب میرے سر پر مسلط ہونا چاہتی ہو – ” غزلان نے زور سے منہل کا بازو پکڑا ہوا تھا کہ تکلیف کے مارے اس کی آنکھوں میں نمی آ گئ –
” م – – مم – – م ” گھبرانے کے باعث اس سے کچھ کہا ہی نہیں جا رہا تھا –
” کیا میں میں لگا رکھی ہے ؟ مجھ سے بات کرتے ہوئے تمہاری بولتی بند کیوں ہو جاتی ہے ؟ ” غصے سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں گھاڑتے ہوئے پوچھا –
” مجھے تکلیف ہو – – ہو رہی ہے ” – آنکھوں سے آنسوں چھلک پڑے – غزلان اس کے آنسوں دیکھ کر کچھ نرم پڑ گیا اور فوراً اس کی بازو چھوڑ دی –
” پیکنگ کر لو ہمیں صبح اسلام آباد کے لئے نکلنا ہے ” – لیپ ٹاپ آن کرتے ہوئے کہا – منہل نے اپنے آ نسو صاف کیے اور ایک خفا نظر اس پر ڈال کر پیکنگ کرنے لگی – ☹️
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
صبح ڈائننگ ٹیبل پر حوریہ اور خازن کی نوک جھوک جاری تھی – شاہ مینشن کے تمام لوگ ناشتے کی ٹیبل پر موجود تھے – خازن اپنی پلیٹ چھوڑ کر کر حوریہ کی پلیٹ سے خوب انصاف کرنے کی کوشش کر رہا تھا –
سب شفقت اور نرمی سے ان کی شرارتیں دیکھ رہے تھے –
” امی جلدی کریں – لیٹ ہو رہا ہے – ” حوریہ نے جلدی جلدی کھاتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی ٹیبل کے نیچے سے خازن کو اپنی ہیل سے ہٹ کیا –
” بیٹا آج ڈرائیور کہیں اور مصروف ہے ہے آپ خازن کے ساتھ یونیورسٹی چلے جاؤ – ” اور ساتھ ہی خازن کی طرف دیکھا جیسے پوچھنا چاہ رہے ہو کہ بیٹا آپ کو کوئی مسئلہ تو نہیں –
” جی ماموں جان ،، مجھے کوئی مسئلہ نہیں – ” فوراً سے اثبات میں سر ہلایا اور حوریہ کی طرف دیکھا –
” جی بابا ،، ٹھیک ہے- ” زبردستی مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے کہا –
وقار شاہ اور بلاول شاہ آفس کیلیے روانہ ہوگئے – گھر کی خواتین کچن کے کاموں میں مصروف ہو گئیں – غزلان اپنے کمرے میں چلا گیا – منہل بھی ہاتھ بٹانے کے لئے کچن کی طرف بڑھ گئ –
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
خازن نے حوریہ کو راستے میں خوب زچ کیا – حوریہ نے بھی اس کا کچھ کم دماغ نہیں کھپایا – جیسے ہی پارکنگ ایریا میں ان کی گاڑی رکی اور جیسے ہی وہ دونوں کار سے نکلے آس پاس کھڑے اسٹوڈنس نے حیرانی سے ان دونوں کو دیکھا- کیونکہ سب جانتے تھے کہ حوریہ شاہ اور خازن آفریدی کے درمیان ہمیشہ چھتیس کا آکڑا رہتا تھا – دونوں کا ایک ساتھ ہونا سب کو مشکوک کر رہا تھا – سامنے سے آتی سارا اور زویا نے بھی حیرانی سے انہیں دیکھا- کچھ لڑکیوں نے حسرت سے ” King of the hearts ” ( خازن آفریدی ) کو اس پٹاخہ کے ساتھ دیکھا – حوریہ نے کنکھیوں سے اس کی طرف دیکھا – چھ آنچ سے نکلتا ہوا قد ، بھورے سلکی بال جنہیں جیل سے سیٹ کیا ہوا تھا ، گہری سیاہ بھرپور ذہانت لیے آنکھیں جو اپنا آپ منوانا جانتی ہوں ،، چورے شانے،، سفید رنگ اور وجاہت لیے کسی کا بھی دل درکار سکتا تھا- حوریہ نے دل ہی دل میں اس کی وجاہت کو سراہا – زویا نے سارہ کے کان میں کہا –
” آج یہ دونوں ساتھ ہیں تو باقیوں کی خیر نہیں – ” 😂
خازن ،، شہریار اور روحان کی طرف بڑھ گیا اور حوریہ ،، سارہ اور زویا کے ساتھ اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گئی –
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
غزلان اور منہل ناشتہ کرنے کے بعد پیکنگ مکمل کرکے سب سے ملنے کے بعد اسلام آباد کیلئے روانہ ہوگئے تھے – انہیں یہاں لاہور سے آتے آتے تقریبا تین گھنٹے لگ گئے – غزلان نے ایک شاندار گھر کے سامنے گاڑی روکی – چوکیدار نے ہارن کی آواز سن کر مین گیٹ کھول دیا – بلاول شاہ نے اسلام آباد میں یہ گھر خرید رکھا تھا کیونکہ انہیں بزنس کے سلسلے میں یہاں رکنا پڑتا تھا – غزلان نے پورچ میں کار روکی اور باہر نکل کر گاڑی سے سامان نکالا – منہل بھی غزلان کے نکلنے کے ساتھ ہی باہر نکل آئ – غزلان نے منہل اور اپنا سامان الگ الگ کمرے میں رکھوایا – ساتھ خاموش کھڑی منہل کو اسکا کمرہ دکھایا – وہ بھی تھکان اتارنے کے لیے فریش ہونا چاہتی تھی – صبح پریشانی میں اس نے ناشتہ بھی ٹھیک سے نہیں کیا تھا اور اب اس کے پیٹ میں چوہے مٹرگشت کر رہے تھے – لیکن اس نے غزلان سے اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہا اور کمرے کی طرف بڑھ گئی- غزلان بھی فریش ہونے کے لئے شاور لینے چلا گیا-
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
غزلان منہل کو کھانے کے لیے بلانے نے آیا تھا تبھی واش روم سے منہل شاور لے کر نکلی- لیمن کلر کے ڈریس میں نکھری نکھری منہل جس کے گیلے سنہری بال کمر سے چپکے ہوئے تھے- ایک لمحے کیلئے غزلان اسے دیکھ کر کھو گیا – منہل نے بوکھلا کر سامنے بیڈ سے ڈوپٹہ اٹھا کر شانوں پر پھیلایا – غزلان نے منہل سے کہا کہ آ کر کھانا کھا لو –
” جج ،، جی چلیں – ” منہل نے آہستہ سے کہا –
کوک موجود نہیں تھا تو غان نے کھانا باہر سے آرڈڑ کیا تھا –
” کل سے سارے گھر کے کام تم ہی کروگی ” – غزلان نے اسے ستانے کیلئے کہا تھا – حلانکہ جانتا تھا کہ اسے کوئی خاص کھانہ بنانا نہیں آتا – بس اسے ستانے کے لیے کہا تھا – مگر ناجانے کیوں دل باغی ہو رہا تھا – بار بار اس کی نظرمنہل کے چہرے پر بھٹک رہی تھی – اس نے سر جھٹکا اور کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا –
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
خازن ،، شہریار اور روحان کے ساتھ کیفے کی طرف بڑھ رہا تھا جب اس کی نظر ارحم آفندی پڑی – غصے سے اس نے اپنے جبڑے بھینچ لیے –
” جلد ہی اس کا کچھ کرنا پڑے گا – ” شہریار نے خازن سے کہا –
” ہمم ،،،، صحیح کہہ رہے ہو – ” خازن نے ارحم پر نظریں گاڑھتے ہوئے کہا –
ان تینوں کی نظر حوریہ، زویا اور سارہ پر پڑی – زویا اور شہریار کزنس تھے اور ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے – مگر دونوں نے ابھی تک ایک دوسرے سے اظہار نہیں کیا تھا –
اس آفت کی پرکالہ کو دیکھتے ہی خازن کی شرارتی رگ پھرکنے لگی – خازن اٹھ کر ان کی ٹیبل پر آ گیا – حوریہ نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا – حوریہ اسے اگنور کرتے ہوئے آرڈر کرنے چلی گئی- فراءیز کے ساتھ ملنے والی چٹنی کو اس انداز میں ٹیبل پر رکھا کہ وہ پلیٹ اچھل کر خازن کی ٹی شرٹ پر گری – خازن نے کچا چبا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا –
” Ooops !! Sorry my dear cousin . . . ”
آنکھوں پٹپٹاتے معصومیت سے ہوئے کہا –
شہریار اور روحان بھی ان ہی کے کی ٹیبل پر آچکے تھے- چاروں نے خازن کی یہ حالت دیکھ کر قہقہ لگایا –
حوریہ نے بھی ہنس کر اسکی عجیب سی نقشہ پیش کرتی ٹی شرٹ کو دیکھا – اس بات سے یکسر انجان کے دو آنکھیں مسلسل اس پر نظریں گاڑھے ہوئے تھیں – جن سے چنگاریاں پھوٹ رہی تھیں –
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️