وہ منہل شاہ سےغزلان شاہ بن چکی تھی-قسمت بھی کیسے پلٹا کھاتی ہے کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا- بے شک قدرت کے فیصلے کوئی نہیں جانتا – حوریہ اور اس کی کزنس غزلان کے کمرے میں چھوڑ گئی تھیں- بے ساختہ اس نے نظر اٹھا کر کمرے کو دیکھا- کمرہ نفاست سے سے آراستہ تھا- ہر چیز ترتیب سے رکھی ہوئی تھی- وہ ایک کمرے سے رخصت ہو کر دوسرے کمرے میں آ گئی تھی- رات کے دو بج رہے تھے مگر غزلان ابھی تک کمرے میں نہیں آیا تھا- بھاری لہنگا اور جیولری اسے ڈسٹرب کر رہی تھی- اچانک دروازہ کھلا اور غزلان اندر داخل ہوا – سامنے منہل کو دیکھ کر ٹھٹک گیا – وہ شاید بھول گیا تھا ایک اور وجود اس کی زندگی میں داخل ہوگیا تھا- منہل کو نظرانداز کرتے ہوئے وہ ڈریسنگ روم کی طرف گیا اور چینج کرکے باہر آیا- حیرت سےمنہل کی طرف دیکھا-
” چینج کر لو،، بہت رات ہو گئی ہے- ” سپاٹ چہرے سے کہا-
” جج،، جی ۔ ۔ ۔ ” جھٹکے سے بیڈ سے اتر کر چینجنگ روم کی طرف بڑھی-
عائشہ بیگم اور رخسانہ بیگم نے مل کر منہل کا سارا سامان اس کمرے میں سیٹ کر دیا تھا- جہاں سلمان کے انکار کرنے کی وجہ سے سب پریشان تھے وہی منہل اور غزلان کے نکاح پر سب خوش تھے اور مطمئن تھے – غزلان خاموشی سے چھوٹے سےصوفے پر بیڈ سے تکیہ اٹھا کر لیٹ گیا- جہاں پر اس کا لمبا چوڑا وجود مشکل سے پورا بھی نہیں آرہا تھا- 😂
منہل خاموشی سے غزلان کی ساری کاروائی دیکھتی رہی- جو کبھی ادھر کروٹ بدل رہا تھا اور کبھی ادھر- غزلان نے گھور کر منہل کی طرف دیکھا جہاں وہ آرام سے اس کےبیڈ پر لیٹی ہوئی تھی – اٹھ کر لائٹ آف کی کی واپس اپنی جگہ پر آ کر لیٹ گیا- منہل اتنا جان گئی تھی کہ غزلان نے خاندان کی عزت بچانے کیلئے اس سے نکاح کیا تھا – ایک تلخ مسکراہٹ اس کے چہرےپر نمودار ہوئی اور پھر اس نے تھکان سے آنکھیں بند کر لیں – ☹️
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
نفیسہ بیگم اور وقار شاہ منہل اور غزلان کے نکاح سے بہت مطمئن تھے- وہ جانتے تھے کہ غزلان ، ان کی بیٹی کے لیے ایک بہترین ہمسفر ثابت ہوگا- غزلان کو انہوں نے ہمیشہ اپنا بیٹا مانا تھا – غزلان بھی بلاول شاہ کی بجائے وقار شاہ سے زیادہ قریب تھا- انہوں نے سکون سے آنکھیں موند لیں اور ان دونوں کے مستقبل کیلئے ڈھیڑو ں دعا کی-
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
حوریہ کو نیند نہیں آ رہی تھی- اس نے بیڈ کے دوسری جانب دیکھا جہاں جگہ خالی تھی – بیک وقت اس کی آنکھوں میں نمی اور چہرے پر مسکراہٹ آئی – اسے منہل کیلئے غزلان کا انتخاب بہترین لگا تھا – خوش دلی سے اس نے غزلان کو جیجو کے طور پر قبول کیا – 😍وہ غزلان کو اپنا بھائی مانتی تھی- اس نے بھی ہمیشہ حوریہ کے لاڈ اٹھاءے تھے- اس نے ان دونوں کی آنے والی زندگی کیلئے خلوصِ دل سے دعا کی-
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
غزلان فجر کے وقت جاگنگ کیلئے ڈریسنگ روم سے چینج کرکے نکلا جب اس کی نظر سامنے بیڈ پر لیٹے وجود پر پڑی – سنہرے سٹیکس کیے ہوئے بال کمر پر آبشار کی طرح بکھرے ہوئے تھے ،، پانچ فٹ سے نکلتا ہوا قد ،، قدرتی گلابی دودھیا رنگت اور بچوں جیسی معصومیت لیے نینوں کے کٹورے بند کیے نیند کی وادی میں مگن تھی – وہ ہمیشہ لڑکیوں سے الرجک رہا تھا – وہ وجاہت سے بھرپور مرد تھا- لڑکیاں اسکی اٹینشن حاصل کرنے کے لیے مکھیوں کی طرح اس کے ارد گرد منڈلاتی تھیں – اس نے کبھی بھی اس سے قبل کسی لڑکی کو ایسے نہیں دیکھا تھا – یقیناً یہ نکاح کے دو بول کا اثر تھا جو اسے اب اسحاق بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا – اسے ایسے بچوں جیسا سوتا دیکھ کر اس کے چہرےپر مسکراہٹ دوڑ گئی- جاگتے ہوئے ہمیشہ سے بیوقوفیاں ہی کرتی تھی بقول غزلان شاہ کے – 😂
سر جھٹک کر بلینکٹ اس پر اوڑھایا جو کہ آدھا سے زیادہ نیچے زمین پر بکھر کر اسکی صفائی کر رہا تھا اور لائٹ آف کر کے باہر کی طرف بڑھ گیا-
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
ڈائننگ ٹیبل پر سب مل جل کر ناشتہ کر رہے تھے- لیکن خازن کی رگ شرارت بار بار پھڑک رہی تھی جو اسے چین لینے نہیں دے رہی تھی- حوریہ نے یونی سے آج آف کیا تھا – حوریہ خازن کے سامنے والی کرسی پر بیٹھے اسے کوفت سےگھور رہی تھی – جبکہ خازن اسے شریر نظروں سے دیکھ رہا تھا – حوریہ خلاف توقع آرام سے ناشتہ کر رہی تھی – 😂
جوس کا سپ لیتے ہی اسے ایسا لگا جیسے کسی نے کالی مرچ کی چٹنی بنا کر اس کے جوس میں بھردی ہو – کھانسی کا دورہ پڑنے کہ باوجود بھی وہ خازن کو غصے سے گھورنے سے باز نہ آئی -عائشہ بیگم نے آگے بھر کر پانی کا گلاس اسے تھمایا – جسے وہ غناغٹ ایک ہی سانس میں پی گئی-
” لگتا ہے جوس کو بھی حوریہ کہ پیٹ میں جانا پسند نہیں آیا تبھی تو وہ کھانسی کی صورت ڈیئر کزن سے سے دو دو ہاتھ برابر کر رہا ہے – ” طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا – جیسے کہہ رہا ہو اوہ مائی ڈئیر کزن میرے نال پنگا از ناٹ چنگا – 😂
اپنے اوپر نظریں محسوس کر کے منہل نے بے ساختہ سامنے دیکھا – غزلان بلیک شلوار قمیض میں چھایا ہوا تھا-
” کھڑوس ،، نہ ہو تو – ” کہا تو منہل بیچاری نے دل میں تھا مگر سامنے بیٹھے غزلان نے اپنی تیز سماعت سے بخوبی سن لیا تھا –
” کیا ؟ ،، کچھ چاہیے ؟ ” ایک ابرو اچکاتے ہوئے پوچھا-
” ن ،،نن ،، نہیں – ” گھبراتے ہوئےجواب دیا اور چپ چاپ ناشتہ کرنے لگی-
رخسانہ بیگم نے پیار سے اپنی بہو اور بیٹے کی طرف دیکھا اور دل میں ان کی دائمی خوشیوں کے لیے دعا کی – ان کی دل کی مراد جو پوری ہو چکی تھی-
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️
” ہاں بولو روحان ،، کیا خبر ہے؟ ” خازن نے کافی کا مگ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئےپوری توجہ سے متوجہ ہو کر پوچھا-
” خبر کچھ اچھی نہیں ہے – سننے میں آیا ہے کہ ارحم آفندی نے یونیورسٹی میں غیر قانونی سرگرمیاں جاری کر رکھی ہیں – ” دوسری جانب سے روحان نے کہا- ”
یونیورسٹی میں لڑکیوں کو بھلا پھسلا کر غلط مقصد کے لئے استعمال کرتا ہے- کبھی دوسرے ملک بھیج دیتا ہے اور کبھی ان لڑکیوں کو یہی رکھ کر ان سے غیرقانونی کام کرواتا ہے- ” روحان مزید معلومات دیتے ہوئے کہا-
” ہمم ،،، جلد ہی کچھ کرنا پڑے گا- ورنہ اس جیسے رئیس زادے جو کہ ملک کیلئے ناسور ہیں ،، ملک کو کھوکھلا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے – ” آنکھوں میں چٹانوں جیسی سختی رکھتے ہوئے کہا – اس وقت وہ بالکل بھی شوخ و چنچل خازن آفریدی نہیں لگ رہا تھا – وہ یونیورسٹی کا بہترین اسکالرشپ پر پڑھنے والا سٹوڈنٹ تھا – جس کی نظر یونیورسٹی میں تمام ہونے والی ہے غیر قانونی سرگرمیوں پر تھی –
اس سے قبل بھی اس نے بہت سی لڑکیوں کو رئیس زادہوں کا نشانہ بننے سے بچایا تھا – وہ اور اس کا گروپ خاموشی سے یونیورسٹی میں ہی اپنا کام کرتے تھے – سائیڈ ٹیبل پر رکھی ہوئی کافی اب ٹھنڈی ہو چکی تھی اور وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا – نہ جانے آنے والا کل کیا لے کر آنے والا تھا –
♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️