وہ ہاتھ میں موبائل پکڑے سکرین پر نظر ڈالے ساتھ ساتھ ہی سست روی سے سیڑھیاں اترنے میں مگن تھی-جب نیچےسے آتے غزلان کے ساتھ بری طرح ٹکرا گئی-وہ ابھی آفس سے تھکا ہارا گھر لوٹا تھا-اس ٹکراؤ پر مزید جھنجھلا کررہ گیا-پیشانی پر مزید بل پڑ گئے-
” کیا ہمیشہ کی طرح آج بھی آنکھیں تم نے کرائے پر دے رکھی ہیں؟ ” کڑے تیور لیےاس کے موبائل کی طرف اشارہ کیا-
” وہ، وہ—میں جلدی میں تھی-” غزلان کے غصے سے بچتے ہوئے جلدی سے کہا اور بھاگ گئی-” بےوقوف– ” وہ غصے سے بڑبڑا کر اپنے کمرےا کی طرف بڑھ گیا –
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
غزلان واش روم سے فریش ہو کر نکلتا ہے – تبھی اسے بالکونی میں آہٹ سنائی محسوس ہوتی ہے -جسے وہ نظر انداز کر دیتا ہے اور جھک کر سائیڈ ٹیبل سے اپنا فون اٹھاتا ہے کہ کوئی پیچھے سےاسے جھپٹ لیتا ہے-غزلان کے چہرے پر ایک شریر مسکراہٹ بسیرا کر لیتی ہے – جو کہ صرف ایک ہی شخص کے بنا پر آتی ہے جسے خازن آفریدی کہتے ہیں -😎
” تم کبھی نہیں سدھر سکتے buddy کبھی انسانوں والی عادات اپنا لیا کرو-” گرمجوشی کے ساتھ بغلگیر ہوتا ہے-
” تو جانتا ہے خازن آفریدی کا انسانوں والی عادات سے کوئی تعلق نہیں ہے-😜
غزلان اور خازی بچپن ہی سے ایک دوسرے کے بہت قریب تھے- تبھی تو یہ دونوں دوستی کی مثال پر پورا اترتے تھے –
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
چمکتے دمکتے سورج کی کرنیں شاہ مینشن میں بھرپور طریقے سے روشن تھیں-ناشتے کی انتہا انگیز خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھیں- ناشتے کی میز پر وقار شاہ نے بلاول شاہ سے منھل کیلیے آئے گئے رشتے کے بارے میں ذکرکیا-جو کہ ان کے قریبی بزنس پارٹنر حمدان قاضی کے بیٹے سلمان قاضی کا تھا -وقار صاحب نے غزلان سے سلمان کاظمی کے بارے میں چھان بین کرنے کے لیے کہا-
” جی چاچو جیسا آپ کہیں- ” غزلان نے فرمانبرداری سے جواب دیا-کیونکہ معاملہ ان کی لاڈلی کے مستقبل کا تھا- حوریہ نے شرارتی نگاہوں سے منہل کی جانب دیکھااور منہل نے شرما کر چہرہ دوسری سائیڈ پر کر لیا-
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
حوریہ اپنی دو بیسٹیز سارا اور زویا کے ساتھ لیکچر اٹینڈکرکے کیفے کی جانب بڑھی-سامنے نظر پڑھتے ہی اس کی آنکھیں غصے سے بڑھ گئیں-کیونکہ سامنے ارحم آفندی ایک بگڑا ہوا رئیس زادہ ایک لڑکی کے ساتھ بدتمیزی کر رہا تھا- حوریہ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ارحم کو گریبان سے پکڑ لیا اور کھینچ کر تھپڑ لگایا-پاس کھڑے تمام اسٹوڈنٹ کو گھور کر دیکھا جو صرف کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے -لڑکی حوریہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے آگے بڑھ گئی جبکہ ارحم نے قہر بھری نگاہوں سے دیکھا –
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
غزلان آفس میں بیٹھے لیپ ٹاپ پر اپنا کام کرنے میں مصروف تھا کہ تبھی انٹرکام پر اس کے سیکریٹری نے شزا مراد کے آ نے کی اطلاع دی- جو کہ غزلان کی خالہ زاد تھی – اپنے والدین کی اکلوتی بگڑی ہوئی اولاد جو ہمیشہ غزلان کے ارد گرد منڈلاتی رہتی تھی-
بلااجازت دروازہ کھول کر بجلیاں گراتی غزلان کے سامنے تھی –
” ہیلو غزلان کیسے ہو؟غزلان اکتائے ہوئے لہجے میں جواب دیتا ہے ” میں ٹھیک ھوں- تم سناؤ؟ ” اور ہاتھ میں پہنی ہوئی رسٹواچ کی طرف دیکھتا ہے-
” ہمم،،یہ تو تمہارا لنچ ٹائم ہے نا غزلان تو کیوں نہ لنچ پر چلیں؟” دل ہی دل میں میں غزلان کی شخصیت کو سراہتی ہے-
غزلان مرتے کیا نہ کرتے ہاں میں اورجواب دیتا ہے-
” ہمم — چلو چلتے ہیں ڈیئر ” اور جھک کر میز سے اپنا والٹ، چابیاں اور فون اٹھاتا ہے-
شزا غزلان کے ساتھ ایک پر لطف لنچ کے بعد ڈھیر ساری شاپنگ کیے گھر کی طرف روانہ ہوتی ہے-
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
خازن جو کہ شریر اور شوخ و چنچل قسم کا لڑکا ہے- فلرٹ کرنے میں جیسےاس نےڈگری لے رکھی ہے-لڑکیوں کو ڈیٹ کرنے اور انہیں کے پیسوں سے لنچ کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ ہے – آج بھی وہ کسی ٹینا، مینا،نینا کے ساتھ ڈنر پر آیا ہے- 😂
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
شام کے وقت شاہ ٹینشن میں چائے کا دور چل رہا ہے- موسم پرچھائی پثمردگی کو برسات نے دھو ڈالا ہے-لان میں لگے تمام قسم کے پھول کھل اٹھے ہیں-
ہر طرف پھولوں کی مہک رچی ہوئی ہے- ہر کوئی پکوڑے،کباب،فرائز،املی اور پودینے کی چٹنی سے انصاف کرنے میں مصروف ہے -بلاول شاہ اور وقار شاہ آج آفس سے جلدی لوٹ آئے ہیں غزلان سے منہل کے لیے آئے گئے پرپوزل کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں-
خازن منہل کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے ” بنو رے بنو میری میری چلی سسرال کو—- “گنگناتے ہوئے ہوئے شرارت سے منہل کو دیکھتا ہے- جس سے سے سب کے چہرے پر پر ایک دل فریب سے مسکراہٹ آ جاتی ہے
خازن کی شرارتی طبیعت کی وجہ سے ہر کسی کے چہرے پر دلفریب مسکراہٹ ہے-
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️