مسعود حسین خاں
۱۔ تاریخ
اردو زبان صحیح معنوں میں ایک مخلوط زبان ہے، جیسا کہ اِس کے ایک تاریخی نام ’’ریختہ‘‘ سے بھی ظاہر ہے۔ یوں تو دنیا کی اکثر زبانیں دخیل الفاظ کی موجودگی کی وجہ سے مخلوط کہی جا سکتی ہیں ، لیکن جب کسی لسانی بنیاد پر غیر زبان کے اثرات اس درجہ نفوذ کر جاتے ہیں کہ اس کی ہیئتِ کذائی ہی بدل جائے تو وہ لسانیاتی اصطلاح میں ایک مخلوط یا ملِواں زبان کہلائی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے اردو کی نظیر کہیں ملتی ہے تو فارسی زبان میں ، جس کی ہند ایرانی بنیاد پر سامی النسل عربی کی کشیدہ کاری نے کلاسیکی فارسی کو جنم دیا۔ عربی کے اس عمل کی توسیع جب فارسی کے وسیلے سے تیرھویں صدی عیسوی میں ہندوستان کی ایک ہند آریائی بولی، امیر خسرو کی ’’زبانِ دہلی و پَیر امنش‘‘ پر ہوتی ہے تو اردو وجود میں آتی ہے۔ اس لِسانی عمل کی توسیع کی دیگر مثالیں کشمیری، سِندھی اور مغربی پنجابی ہیں ، لیکن ’’زبانِ دہلی‘‘ کی طرح یہ کبھی بھی کُل ہند حیثیت اختیار نہ کرسکیں۔
اردو کا نقطۂ آغاز ۱۱۹۳ء میں مسلمانوں کا داخلۂ دہلی ہے۔ اس کا پہلا مُستند شاعر امیر خسرو دہلوی ہے، جس کا بیشتر ہندوی کلام غیر مستند سہی لیکن جس کا شاعرِ ہندوی ہونا مُسلّم ہے۔ خسروؔ کی مثنوی ’’نہ سپہر ‘‘ میں ہمیں پہلی بار ہندوستا ن کی معروف زبانوں کی فہرست ملتی ہے۔ یہ تعداد میں بارہ ہیں : سندھی، لاہوری (پنجابی)، کشمیری، ڈوگری (دگر؟)، کنٹر، (دھورسمندری) ، تلنگی، گجراتی (گُجر)، تمل (معبری)، مغربی بنگالی (گوڑی)، مشرقی بنگالی (بنگال)، اَودھی (اَود)، اور سب سے آخر میں ’’زبانِ دہلی و پیرامنش‘‘ (یعنی دہلی اور اس کے نواح کی بولیاں )، ع
ایں ہمہ ہندویست کہ زایامِ کہن
یہ ’’مصطلحے خاصہ‘‘ ہیں ، ’’نہ از عاریتے‘‘ (یعنی اپنی انفرادی خصوصیات رکھتی ہیں )۔ ان کے علاوہ ایک اور زبان، برہمنوں کے نزدیک برگزیدہ ’’سنسکرت نام زعہدِ کہن‘‘ بھی ہے جس کے بارے میں خسرو رقم طراز ہیں ’’عامہ ندار دخبر از کُن مکنش‘‘_
خسرو نے ’’زبانِ دہلی ‘‘کے ساتھ ’’پیرامنش‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ ’’پیرامن‘‘ (اطراف) جاٹوں اور گوجروں کی زبان پر مشتمل تھا۔ جاٹوں سے منسوب کھڑی بولی اور ہریانوی ہیں اور گوجروں سے متعلق برج بھاشا۔ اِنھیں کے نسوانی حسن کے بارے میں خسروؔ اس طرح رطب اللسان ہیں:
گُجری کہ تو درحسن د لطافت چو مہی
ہر گاہ بگوئی کہ ’’دَہی لیہو دَہی‘‘
جاٹوں کی زبان کھڑی اور ہریانوی (ا) بنیاد بولیاں ہیں ، یعنی ان میں اسما، صفات اور افعال کا خاتمہ بالعموم (ا)پر ہوتا ہے۔ برج بھاشا ( او) بنیاد کہی جاسکتی ہے جس میں اسما، صفات اور افعال کا خاتمہ عموماً (او) پر ہوتا ہے۔ اِسی لیے ’’پرانی ہندی‘‘ کے مصنف چندر دھر شرما گُلیری نے اسے کھڑی کے مقابلے میں ’پڑی بولی‘ کہا ہے۔
دہلی اور نواحِ دہلی کی بولیوں کا یہ ملغوبہ پرانی دلّی کے بازاروں ، حصاروں اور خانقاہوں میں تقریباً سوسال تک اپنی ابتدائی شکل میں ارتقاء پاتا رہا تا آں کہ تیرھویں صدی کے رُبعِ اوّل میں یہ فتوحاتِ علائی و تغلق کے ذریعہ گجرات کے راستے دکن تک پہنچ جاتا ہے۔ گجرات میں اس کا مقامی نام ’گُجری‘ پڑا جو غالباً ’گزری‘ کا مُہنّد ہے۔ ’گزری‘ بازار کو کہتے ہیں۔ لیکن اس کا عمومی نام ہندی یا ہندوی قائم رہا۔ دکن میں سترھویں صدی عیسوی میں اس کا مقامی نام دکھنی یادکنی پڑتا ہے، حالاں کہ وجہیؔ کی ’’زبانِ ہندوستان‘‘ کی ترکیب اور فرشتہؔ کی ’ہندوستانی‘ میں یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ اس کا تعلق شمالی ہند سے ہے۔ سرزمینِ دکن میں جہاں یہ سلطنتِ بہمنیہ کے قیام کے بعد پھلی پھولی مراٹھی، کنٹر اور تلگو زبانیں رائج تھیں۔ پہلی کا تعلق ہند آریائی سے ہے جب کہ آخری دو دراویدی زبانیں ہیں۔ مراٹھی چوں کہ متجانس ہند آریائی زبان تھی اس لیے اس سے لین دین کا کاروبار زیادہ رہا۔ حالاں کہ جن محققین نے دکنی پر مراٹھی کے اثرات کا شدومد کے ساتھ ذکر کیا ہے وہ اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ جن الفاظ کی نشان دہی وہ مراٹھی سے کرتے ہیں ان میں سے بیشتر نواحِ دہلی کی بولیوں میں تلفّظات کے ہیر پھیر کے ساتھ آج تک رائج ہیں۔ ڈاکٹر عبدالستار دلوی نے ’دکنی اردو‘ میں ایسے کئی سوالفاظ کی فہرست دی ہے جن میں سے ۸۰ فی صد الفاظ کی شناخت شمال کی ’’ہندوی ‘‘میں بآسانی کی جاسکتی ہے۔ البتہ ڈوسا (بڈھا)، بڑ بڑا(بُلبلا)، یکٹ پن (اکیلا پن)، لٹی (بہت)، گُڑگا (گھٹنا)، سپڑنا (پانا)، پیلاڑ (پرے)، پاونا (مہمان)، دار (دروازہ) قسم کے الفاظ ضرور ایسے ہیں جو مراٹھی سے کلاسیکی دکنی میں بار پا گئے ہیں۔ مراٹھی نے دو اور ایسے لسانی ٹھپے دکنی اردو پر چھوڑے ہیں جو اس کے مخطوطات کی کلید بن کر رہ گئے ہیں۔ ایک (چ) تحضیصی جو قدیم سے لے کر تا حال بول چال تک کی دکنی میں ’ہی‘ کے معنوں میں مستعمل ہے اور جو لاحقے کے طور پر اسما، افعال اور حروف ہر جگہ بے دریغ استعمال ہوتی آئی ہے۔ شمالی ہند کے صرف ایک مصنف اسمٰعیل امروہوی نے اپنی مثنویات میں اسے دو تین بار استعمال کیا ہے۔ لیکن اس کی وجہ ظاہر ہے کہ وہ ملازمت کے سلسلے میں عالمگیری لشکر سے بیس سال تک منسلک رہا تھا اور اورنگ آباد اور اس کے نواح میں اس نے یہ زمانہ گزارا تھا۔ ایک دوسرا لفظ حرفِ انکار ’نکو‘ ہے جس کا ماخذ پھر مراٹھی ہے۔ شمالی ہند میں ولیؔ کے زیرِ اثر صرف ایک دو شاعروں نے اسے ایک دو بار استعمال کیا ہے، ہر چند اس کا کوئی تعلق دہلی اور اس کے نواح سے نہیں رہا ہے:
مجھ کوں واعظ نکو نصیحت کر
یار جس سے ملے بتاوو فَن
(یک رنگ)
مراٹھی سے قطع نظر تلگو اور کنٹر کے اثرات کا بھی دکن کے بعض محققین، ڈاکٹر زور وغیرہ نے تذکرہ کیا ہے۔ یہ اثر عام طور پر چند الفاظ اور محاورات پر مشتمل ہے اور وہ بھی تحریری نہیں تقریری زبان پر۔ میرے خیال میں اگر دکنی اردو کے لہجے پر کام کیا جائے تو ان زبانوں کے اثرات بدیہی طور پر نظر آئیں گے۔ مشکل یہ ہے کہ اس قسم کا مطالعہ تحریری یا ادبی دکنی کا ممکن نہیں۔
گجری اور دکھنی میں نمایاں فرق نہیں جس کا ثبوت احمد گجراتی کی مثنوی ’’یوسف زلیخا‘‘ ہے جو اس نے گولکنڈہ کے فرماں روا محمد قلی قطب شاہ کی دعوت پر گجرات سے گولکنڈہ آ کر لکھی تھی۔ جمیل جالبی کا یہ خیال کہ ’’یہ مثنوی گجری اردو کے ترقی یافتہ زبان و بیان کا قابلِ ذکر نمونہ ہے‘‘ محلِ نظر ہے۔ اس لیے کہ اس میں سوائے عربی فارسی لغات کی قلّت کے قواعد کی وہ تمام شکلیں پائی جاتی ہیں جو دکنی مصنفین کا امتیاز تھیں۔ حتیٰ کہ دکنی اردو کے کلیدی الفاظ ’نکو‘ اور (چ) تخصیصی تک موجود ہیں۔
ان لسانی شہادتوں کے پیشِ نظر میرے اس خیال کی تائید ہوتی ہے کہ گجرات تا بیجاپور تا گولکنڈہ، ادبی حیثیت سے ایک محاورہ رائج تھا جسے ہم چودھویں صدی عیسوی کی ’’زبانِ دہلی‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ چوں کہ شمال سے نواحِ دہلی کی ایک سے زائد بولیاں دکن پہنچیں تھیں اس لیے کچھ عرصہ تک ان میں آنکھ مچولی ہوتی رہی تا آں کہ وجہیؔ، غواصیؔ اور نصرتیؔ جیسے با کمالوں کے ہاتھوں میں پہنچ کر ان کی معیار بندی ہو جاتی ہے۔
۱۶۸۶ء اور ۱۶۸۷ ء میں بیجاپور اور گولکنڈہ کے سقوط کے بعد اورنگ آباد ایک بار پھر سلطنتِ دہلی کا صدرمقام بن جاتا ہے۔ اورنگ زیب دکن میں ۱۶۸۲ ء میں لال قلعہ، دہلی کی سکونت ترک کر کے مستقل طور پر اورنگ آباد میں قیام پذیر ہو گیا تھا۔ شمال اور جنوب کے سارے دروازے ایک بار پھر کھل گئے۔ اورنگ آباد، شاہجہاں آباد کا ایک محلّہ معلوم ہونے لگا۔ ایسے میں ولیؔ دکن کی خاک سے اُٹھے۔ ۱۷۰۰ء میں دہلی پہنچے، اور شاہ گلشن کے مشورے پر ریختہ کو ’’بموافقِ محاورۂ شاہجہاں آباد‘‘ کرنے کی کوشش کی۔ دیکھتے دیکھتے پچاس سال کے عرصے میں دہلی میں ریختہ گویوں کی ایک کھیپ سی نکل پڑی ، ع
ولیؔ پر جوسخن لاوے اسے شیطان کہتے ہیں
کے عقیدے کے باوجود ولیؔ کی زبان میں دکنیت کی جو اجنبیت رہ گئی تھی اس پر ناک بھوں چڑھانے لگے۔ سوداؔہی کے ایک شاگرد قائمؔ نے اس طرح طنز کیا ہے:
قائم ؔ میں غزل طور کیا ریختہ ورنہ
اِک بات لچر سی بہ زبانِ دکنی تھی
مرزا مظہر جان جاناں اور حاتمؔ نے زبان کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ متروکات کے نام پر اور ’مرزایانِ دہلی‘ کی سند لے کربے شمار ہندی کے الفاظ پر خطِ تنسیخ پھیر دیا۔ حاتمؔ کو شرم آئی تو اپنے ضخیم دیوان سے ۱۷۵۵ء میں ایک ’دیوان زادہ‘ کی تولید کی۔ اس کے بعد سودانے اپنے قصائد کے ذریعے اس میں فارسی لغات کا دہانہ چھوڑدیا۔ میرؔ کہتے رہے کہ ، ع
معشوق جو ہے اپنا باشندہ دکن کا تھا
لیکن اس کے باوجود جامع مسجد کی سیڑھیوں کی زبان لکھتے رہے۔
(۲)
اس بڑی لسانی تبدیلی سے ہمارے ہندی کے دانشوروں کو، جن میں پریم چند کے سپوت امرت رائے پیش پیش ہیں ، یہ نکتہ ہاتھ آیا کہ ولیؔ سے قبل دکنی اردو کے ادب کے نام سے جو کچھ اردو کے محققین کی دیدہ ریزی کی بدولت بر سرِ عام آیا ہے، وہ ہمارا یعنی ’’ہندی‘‘ کا ادبی وَرثہ ہے۔ فسادِ خون شروع ہوتا ہے ولیؔ سے اور اس کے بعد ہندی /ہندوی کا گھر تقسیم ہو گیا۔ (۱)
اِس تقسیم کے پیچھے انھیں ایک گہری سازش نظر آتی ہے جس سے اُردو کا شاخسانہ پھوٹتا ہے اور ہندی کی چِندی ہونے لگتی ہے۔ لِسانی نُقطۂ نظر سے یہ علمی بددیانتی ہے۔ ماقبل دکنی اردو کا ادب اس قدر نرم لقمہ نہیں کہ ہندی اُسے ہضم کر لے۔ ’’سبؔ رس‘‘ یا نصرتی کے قصائد کی زبان، اردو کے ارتقا کے مدارج ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ’’سب رس‘‘ کو دیوناگری میں منتقل ہوئے آج پچیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن نہ تو اسے تاریخِ ادبیاتِ ہندی میں اب تک جگہ مل سکی ہے اور نہ وہ ہندی کی درسیات میں شامل کیا جا سکا ہے۔ ڈاکٹر گیان چند جین نے ۱۹۶۲ء میں سب سے پہلے یہ شوشہ چھوڑا تھا کہ دستورِ ہند بنانے والوں کی سب سے بڑی بھول یہ ہوئی کہ اُنھوں نے آٹھویں شیڈول میں ہندی کے دوش بدوش اُردو کو بھی ہندوستان کی ۱۴ مقتدر زبانوں کی فہرست بناتے وقت پنڈت جواہر لال نہرو کے اصرار پر جگہ دے دی۔ پنڈت جی سے جب دستور سازوں میں سے کسی نے یہ استفسار کیا کہ اردو کون بولتا ہے اور کہاں کی زبان ہے تو انھوں نے کہا کہ یہ میرے گھر میں کئی پیڑھیوں سے بولی جاتی رہی ہے۔ امرت رائے نے ڈاکٹر گیان چند جین کے اس خیال پریہ عمارت کھڑی کی کہ خیر اردو کے علاحدہ وجود کا اب آئینی جواز تو ہو گیا ہے لیکن اس ملک کی سا لمیت کے لیے وہ دن روزِ سیاہ ہو گا جب ووٹ کی طاقت پر اُسے ہندی ریاستوں میں دوسری زبان منوا لیا جائے گا، جس کا سلسلہ بہار سے شروع ہو گیا ہے۔ اردو کو ان نئے بے ننگ و نام کہنے والوں کے بارے میں صرف یہ کہا جا سکتا ہے، ع
یہ جس تھالی میں کھاتے ہیں اُسی میں چھید کرتے ہیں
(۳)
اس انداز پر سوچنے والے اس لسانی حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ دکنی اُردو کی شکل کو آپ لاکھ دکھنی ہندی کا روپ کہیں اور اسے دیوناگری رسمِ خط میں منتقل کیوں نہ کر لیں ، وہ اُردو ہی کا ابتدائی ادب رہے گا۔ ہندی اسے برج بھاشا اور اودھی کے ادب کی طرح اپنی تاریخِ ادب کا جزو نہ بنا سکے گی۔ بعینہٖ جس طرح برج بھاشا اور اودھی کے ادب کو اُردو رسمِ خط میں لکھ کر اردو تاریخِ ادب کی روایت میں نہیں لایا جا سکتا۔ اُردو کے ڈانڈے آج بھی گیت تا غزل پھیلے ہوئے ہیں لیکن کھڑی بولی پر اس کی اساس کو ہونا شرط ہے۔ اس کی رنگارنگی میر، نظیر، غالب اور پریم چندؔ سے لے کر رتن ناتھؔ سرشار اور اقبال تک قائم ہے۔
دراصل جدید اُردو کا ارتقا ایک مخصوص ڈگر پر تاریخی عمل میں ہوا ہے۔ مثلاً اس کی مصطلحاتِ علمیہ کا میلان ابتدا سے عربی کی جانب رہا ہے۔ اس کی شعری روایت کا ماخذ شعرِ فارسی ہے۔ اس کی تراکیب، تشبیہات اور استعارات پر فارسی کی گہری چھاپ ہے۔ اس کا عروض بھی انھیں کا مرہونِ منّت ہے۔ ’’ہندوستانی‘‘، بول چال کی زبان بن سکتی ہے لیکن یہ فلسفہ و فکر اور علوم و اصطلاحات کی سطح پر مفلوج ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اس کے رسمِ خط اور زبان میں گوشت اور ناخن کا رشتہ ہے۔ اس کی جگہ نہ لاطینی لے سکتا ہے اور نہ دیوناگری، جس کی تحریک ایک زمانے میں ترقی پسند ادیبوں کی جانب سے شدّومد کے ساتھ کی گئی تھی جس میں ڈاکٹر عبدالعلیم اور سردار جعفری پیش پیش تھے۔
تقسیمِ ہند سے قبل بیسویں صدی کے لضفِ اوّل میں اردو زبان کی ترقی ہمہ جہت انداز میں ہوتی رہی۔ پریم چند نے اسے کھینچ کر عوام کی سطح پر لا کھڑا کیا۔ اقبال نے فکر کے شہپر دے کر اسے فلسفے کی چوٹی پر پہنچا دیا۔ اسی زمانے میں جامعۂ عثمانیہ کے دار الترجمہ نے اپنی وضع کردہ اصطلاحاتِ علمیہ کے ذریعہ اسے اعلیٰ تعلیم کی گوں کا بنایا۔ اسی نسبت سے یہ ہندی سے دور ہوتی گئی جس نے اپنی توسیع کے لیے سنسکرت کا قبلہ منتخب کیا۔ کانگریس گاندھی جی کی قیادت میں ہندوستانی ’دونوں لکھاوٹوں میں ‘ کا پرچار کرتی رہی۔ ۱۹۲۵ء کے کانپور والے اجلاس میں کل ہند زبان کے لیے ’ہندوستانی‘ کاریزولیوشن تالیوں کی گونج میں پاس ہوا۔ لیکن ۱۹۳۷ء میں جب کانگریس نے سیاسی بازی مکمل طور پر مارلی تو ہندی اردو کا معاملہ دو ٹوک ہوتا گیا۔ آزادی ملنے کے فوراً بعد نومبر ۱۹۴۷ء میں گاندھی جی کی ایک مسلم چیلی، ریحانہ طیب جی نے ان کی لسانی پالیسی پر طعنہ زنی کرتے ہوئے انھیں لکھا:
’’اگر آپ نے ناگری کے ساتھ اُردو کو بھی قومی لکھاوٹ بنا لیا تو آپ ہندوستان کے اندر ایک دوسرا پاکستان کھڑا کر دیں گے۔ ‘‘
تو اِس مردِ دردیش کا جواب یہ تھا
’’اگر ہم ہندو کو یا مسلمان کو ایک ہی لکھاوٹ میں لکھنے کے لیے مجبور کریں تو ہم اس کے ساتھ ناانصافی کریں گے۔ اور جب یہ نا انصافی اقلّیت کے ساتھ ہو تو اکثریت کا گُنا ہ دگنا مانا جائے گا‘‘۔
گاندھی جی نے اپنے ان خیالات کو ایک جگہ ’’ریت کی رسّی بٹنے‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ تقسیمِ ہند پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنا مِشن پورا کر چکے تھے۔ زمامِ کار اب دوسروں کے ہاتھوں میں پہنچ چکی تھی۔ نفرت کا جو سمندر چاروں طرف ٹھاٹھیں مار رہا تھا اس سے نہ وہ خود بچ سکے اور نہ اپنی ’ہندوستانی ‘کو بچا سکے۔ اردو والوں نے وطن سے دور نئی بستیاں بسانے کے لیے فرار شروع کیا لیکن اس سیاسی افراتفری اور انتشار کا ایک مثبت پہلو بھی نِکلا۔ پنجاب سے آئے ہوئے شرنار تھیوں کی علمی و تعلیمی زبان اردو تھی۔ ان کی مادری زبان اگر چہ پنجابی تھی، لیکن علمی و تعلیمی زبان کی حیثیت سے وہ عرصۂ دراز سے اردو کو اپنا چکے تھے۔ ہندوستان میں اُنھیں جدید ہندی کی جو سوغات پیش کی گئی اُسے انھوں نے اپنے بچّوں کے لیے تو محفوظ کر لیا لیکن خود ذہنی کشمکش کے باوجود اردو میں حوصلۂ قلم و رقم کرتے رہے۔ صحیح معنوں میں یہ صورت نکلی گویا، ع
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
لہٰذا ان کی دلچسپی سے بہت جلد اردو نے پر و بال سمیٹے اور ایک نئی پرواز کے لیے تیار ہو گئی۔ اس عمل کو اُتر پردیش سے زیادہ دہلی میں دیکھا جا سکتا تھا جہاں نفرت کی جمنا زیادہ گہری تھی۔ سیکڑوں پنجابی نژاد شاعر اور افسانہ نویس نکل آئے اور ایک طرح سے اردو کی ادبی قیادت انھوں نے سنبھال لی۔ اِدھر جوں جوں سیاست میں ٹھہراؤ آنے لگا، فرار کے بجائے قرار ہندی مسلمانوں کی روش ہوتی گئی۔ اردو کے بد خواہوں نے اِس ہنگامِ باد آورد سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُردو ذریعۂ تعلیم کے اسکولوں اور اداروں کو تِہس نہس کرنا شروع کر دیا۔ پُرشوتم داس ٹنڈن نے ایک موقع پر ڈاکٹر ذاکر حسین سے کہا تھا:
’’ڈاکٹر صاحب اُردو کا جھگڑا بہت جلد فیصل ہو جائے گا، ہم لوگوں کو صرف پچیس سال کی مہلت چاہئیے۔ ‘‘
ان کی یہ پیش گوئی صحیح ثابت نہ ہو سکی۔ اردو برباد تو کر دی گئی لیکن بہت جلد اس کو آباد کرنے کی تحریک بھی چل نکلی۔ آزادی کے بعد ڈاکٹر ذاکر حسین ہی کی قیادت میں لاکھوں دستخطوں سے ایک محضر راشٹر پتی راجندر پرشاد کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ ساتھ ساتھ دستور کی دفعات۳۴۰ اور ۳۴۷ کے تحت اُردو کے بنیادی حقوق کا مطالبہ شروع ہوا۔ بالآخر ریاستِ بہار میں کامیابی ہوئی اور وہاں کے ریاستی لِسانی ایکٹ میں ترمیم کر کے ہندی کے ساتھ اردو کو بھی جگہ دی گئی۔ ریاستِ جمّوں و کشمیر اس سے بہت قبل اُردو کو ریاست کی واحد سرکاری زبان تسلیم کر چکی تھی۔ ہماچل پردیش نے اُردو کو ثانوی زبان کی حیثیت سے جگہ دی۔ آندھراپردیش میں اردو کو لسانی مراعات دی گئیں۔ معاملہ جا کر اٹکا تو اتر پردیش میں ، جہاں بہار کے نمونے پر اُردو کے لیے آرڈی نینس نکلتے نکلتے رہ گیا۔ اور اب تک اردو کا مقدمہ عدلیہ کی غلام گردش میں سرگرداں ہے۔ مرکزی سرکار نے چند سال قبل ترقیِ اُردو بورڈ (بعد کو بیورو)اردو کی درسی اور اشاعتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قائم کیا اور مختلف ریاستوں نے بھی اس غرض سے اردو اکادمیاں قائم کیں۔
لیکن اُردو کے بارے میں آج بھی اکثریت میں تعصّب کا دُھند باقی ہے۔ سی، پی، آئی(C.P.I.) جیسی روشن خیالی کی دعوے دار پارٹیاں بھی ٹھوکر کھا جاتی ہیں ، اور امرت رائے اور نامور سنگھ جیسے ترقی پسند ادیب بھی آج کل اردو کے درپے نظر آرہے ہیں۔ دوسری طرف خود اہلِ اُردو تا حال ہزیمت خوردگی کی ذہنیت کا شکار ہیں۔ چوں کہ انھیں اپنی زبان کی قدر کا احساس نہیں ، اس لیے خدمتِ لب کے علاوہ اس زبان کے سلسلے میں کچھ کرنے کو تیار نہیں۔
تاریخ لِسانیات شاہد ہے کہ زمانے کی گردشوں میں زبانیں پیدا ہوتی ہیں ، بنتی ہیں ، بگڑتی ہیں ، پھر جنم لیتی ہیں ، یا مٹ جاتی ہیں۔ ہندوستان میں اُردو کے سلسلے میں اہلِ اُردو کے سامنے دونوں صورتیں موجود ہیں ، اِس کی بقایا فنا؟ موت ہمیشہ زندگی سے آسان ہوتی ہے، لیکن __
زندگی نام ہے مَرمَر کے جیے جانے کا
۲۔ تشکیل
تشکیل کے نقطۂ نظر سے اردو زبان کے ارتقا کو چار واضح ادوار میں دیکھا جا سکتا ہے:
۱۔ دورِ اَوّل:قدیم اُردو شمال میں ، ۱۲۰۰ تا ۱۴۰۰ء
۲۔ دورِ دوم:قدیم اردو دکن میں ، ۱۴۰۰ تا ۱۷۰۰ء
۳۔ دورِ سِوم:درمیانی اردو، ۱۷۰۰ تا ۱۸۵۷ء
۴۔ دورِ چہارم:جدید اردو، ۱۸۵۷ ء تا حال
۱۔ دورِ اَوّل: قدیم اردو شمال میں ، ۱۲۰۰ تا ۱۴۰۰ء
اگر ہم اردو کا نقطۂ آغاز مسلمانوں کے داخلۂ دہلی کو قرار دیں تو ۱۲۰۰ تا ۱۴۰۰ سنہِ عیسوی اس کا دورِ اَوّل شمار کیا جا سکتا ہے۔ اِس عہد کے تحریری نمونے ہمیں امیر خسرو کے ہندوی کلام کے مستند حصّوں اور صوفیہ کے ہندی اقوال میں ملتے ہیں جو فارسی تالیفات میں بکھرے ہوئے ہیں۔ صوفیہ کے اقوال سے لسانی نتائج کا استخراج اِس لحاظ سے مُشتبہ رہتا ہے کہ اُن کے ادا کرنے والے صوفیوں کا تعلق ملک کے مختلف حصص سے رہا ہے ،تاہم ایسے صوفیہ کے ہندوی اقوال جن کا تعلق دہلی اور اس کے نواح سے رہا ہے، اِس سلسلے میں مستند تسلیم کیے جا سکتے ہیں۔ اس اعتبار سے بابا فرید شکر گنج اور شیخ حمید ا لدّین ناگوری کے اقوال لائقِ اعتبار نہیں۔
خسرو کے مستند ہندوی کلام اور ان صوفیہ کے اقوال کا تجزیہ کیجیے تو حسبِ ذیل قواعدی شکلوں کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے:
(۱) اُردو کا ابتدا سے (۱) بنیاد بولی / بولیوں پر مبنی ہونا: اِس اعتبار سے اس کا سلسلہ موجودہ کھڑی اور ہریانوی بولیوں سے ملتا ہے۔ اس خصوصیت کی مزید تائید پنجابی سے ہوتی ہے۔ دہلی میں داخل ہونے سے قبل مسلمان تقریباً ڈیڑھ سو سال تک لاہور میں قیام کر چکے تھے۔ مسعود سعد سلمان کے ہندوی کلام کا ذکر امیر خسرو تک نے کیا ہے۔ لیکن یہ غالباً لاہوری (پنجابی) میں ہو گا، زبانِ دہلوی میں نہیں۔ پروفیسر محمود شیرانی کا لسانی نظریہ__ اُردو پنجابی سے نکلی ہے، کُلّی طور پر مستند نہیں۔ لیکن ابتدائی اردو پر پنجابی کے اثرات ناگزیر ہیں۔ (ا) بنیاد ہونا اسی ضِمن میں آتا ہے۔
(۲) صوتیاتی نُقطۂ نظر سے عربی فارسی لغات کے داخلے کے ساتھ ق، ف، ز،خ، غ آوازوں (تجزصوتوں ) کا چلن: ان میں (ق) کے بارے میں تیقّن سے نہیں کہا جا سکتا۔ اِس لیے کہ اسے نہ پنجاب نے قبول کیا اور نہ دکن نے، لیکن باقی چار مُستعار آوازوں کا ’زبانِ دہلی‘ میں داخلہ کم از کم اعلیٰ اور تعلیم یافتہ طبقات میں یقینی ہے۔
(۳) ابتدا سے اردو زبان کی انفرادیت کی ایک نشانی اس کا رسمِ خط بھی ہے جو عربی فارسی رسمِ خط کی توسیع شدہ شکل ہے۔ توسیع کا یہ عمل کوز(Retroflex) آوازوں سے یقینی طور پر شروع ہو گیا تھا اور ہند آریائی ٹ، ڈ، ڑ آوازوں کے لیے تین نقطے لگا کر ت، د، ر، سے امتیاز کیا جانے لگا تھا۔ جہاں تک نفسنی آوازوں(Aspirates) کا تعلق ہے ابھی تک دو چشمی (ھ) ان کے لیے مختص نہیں ہوئی تھی اور ہائے مختفی کی مختلف شکلوں ہی سے کام لیا جاتا تھا، اس طرح کہ ’گھر‘ اور’ گہر‘، ’دھر‘ اور ’دہر‘ کا امتیاز صرف سیاق سباق سے کیا جاتا تھا۔
(۴) ہریانوی اور کھڑی کے زیرِ اثر تخفیفِ حرفِ عِلّت (جدید صوتیات کی اصطلاح میں تخفیفِ مصوتہ) کا رجحان عام تھا۔ یہ رجحان سفر کر کے دکن تک پہنچا اور دکنی اردو کا امتیازی نشان بن گیا۔ اُردو نے اپنے آگرہ کے ڈیڑھ سو سالہ قیام میں اس رجحان سے کسی قدر نجات پائی ہے لیکن صوفیہ کے اقوال میں کھٹ (کھاٹ)، لک (لاکھ) وغیرہ بعد کو بھی ملتے رہے۔
(۵) ’خیرالمجالس‘ کے ہندوی فقروں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت بول چال کی زبان میں /ڈ/ کو/ڑ/ پر فوقیت دی جاتی تھی مثلاً ’بڈا‘ بجائے بڑا اور ’چھڈا‘ بجائے چُھڑا۔
۲۔ دورِ دوم: قدیم اردو دکن میں ، ۱۴۰۰ تا ۱۷۰۰ء
قدیم اردو کے دوسرے یعنی دکنی دور (۱۴۰۰تا ۱۷۰۰ء) تک آتے آتے اردو کی قواعدی شکلوں اور رسمِ خط دونوں میں استقامت آ جاتی ہے۔ تین سو سال کے اس دور میں تصانیف کی اس قدر بہتات ہے کہ ہم ان کی بنیاد پر قطعی لسانی فیصلے کر سکتے ہیں۔
(الف) صوتی خصوصیات:
صوتیات کی سطح پر حسبِ ذیل نمایاں خصوصیات ہیں:
(۱) تخفیفِ مصوتہ: یعنی بڑے مصوتوں کو چھوٹے مصوتوں میں تبدیل کر دینا۔ یہ کھڑی اور ہریانوی کی صوتیات کے زیراثر ہے مثلاً
اَسمان (آسماں )، ہَت(ہاتھ)، بَدَل (بادل)،سُرج (سورخ)، پُھل (پھول)، سُنّا (سونا)، ہتّھی (ہاتھی) وغیرہ۔
(۲) مصوتوں کا انفیانا، یعنی غُنّہ کا اضافہ مثلاً
بولناں (بولنا)، بونٹی(بوٹی)، توں (تو)، منج (مج)، کو نچے کونچے (کوچے کوچے) وغیرہ۔
(۳) نَفَسیت (ہکاریت) کا حَذف مثلاً
چَڑنا، سوکا، باندنا (چڑھنا، سوکھا، باندھنا)۔
(۴) کوز آوازوں کو دندانی میں تبدیل کر دینا:
دُھنڈنا، تُٹنا، دانٹنا، دھنڈورا (ڈھونڈنا، ٹوٹنا، ڈانٹنا، ڈھنڈورا)۔
(۵) /ق/کی آواز کو/خ/ کی آواز کو میں تبدیل کر دینا، مثلاً
اَخلَ (عقل)، خطرہ (قطرہ) خلعہ (قلعہ)، وغیرہ یہ رجحان شمال کے عوام کی زبان میں بھی ملتا ہے۔
(ب) صرفی خصوصیات
صرفی سطح پر پائی جانے والی خصوصیات حسبِ ذیل ہیں:
(۱) جنس : موجودہ اردو کی رُو سے تذکیر و تانیث میں غتربود، مثلاً بعض مونث، مذکر ملتے ہیں مثلاً دعا، ہستی، بلندی، لذت، محبت، نیت، جان، آواز، مدد، چھاؤں ، تحریر، نماز، بات، مجلس، مسجد۔
(۲) تعداد: جدید اردو کے برعکس دکنی اردو میں جمع کی معروف علامت ’’اں ‘‘ ہے مثلاً عورتاں ، باتاں ، کتاباں ، لوگاں وغیرہ۔ ہرچند (وں ) اور (ن) کی جمع کی مثالیں بھی خال خال مل جاتی ہیں۔
(۳) اسمائے ضمیر: مخصوص اسمائے ضمیر میں ہَوں (= مَیں )، مُنج (مجھے)، ہمنا (ہمیں )، مُو (میرا)، اَپے آپ) ،تَیں (تو)، تُمن (تم)، اُو (وہ)، اُنے (وہ)، ون کا (اُن کا)، جِے (جو)، جِنوں (جنھوں ) ، کِن (کون)، یُو (یہ) اِے (یہ) اُنوں (اِن کو)، کُچ (کچھ) قابلِ ذکر ہیں۔
(۴) افعال: دکنی اُردو میں ماضیِ مطلق الف کے اضافے سے نہیں بلکہ (یا) کے اضافے سے بنتا ہے۔ یہ ہریانوی کی مستقل خصوصیت رہی ہے مثلاً
رکھیا (رکھا)، دیکھیا (دیکھا)، کریا (کیا)، اُٹھیا (اٹھا)، آئیا وغیرہ، ع:
مبارک باددینے آئیانوروز تُج دوبار (محمد قلی قطب شاہ)
دکنی اردو کے افعالِ ناقص موجودہ اردو سے خاصے مختلف ہیں۔ ہے، ہیں ، تھا، تھی، تھے کے ساتھ اَ ہے، اَہیں ، اَتھا، اَتھی اور اَتھے بھی رائج تھے۔
مستقبل بنانے کے لیے گا، گی، گے کے علاوہ دکنی اردو کی ایک خصوصی شکل (س) کے مرکبات سے بنتی ہے جیسے، مارسوں (ماروں گا)، مارسے (تویاوہ مارے گا)۔ یہ غالباً پنجابی سے مستعار ہے۔ ’خیرالمجالس‘ کے ایک ہندوی فقرے ’’ارے مولانا! یہ بڈاہوسی‘‘ (’’یعنی ایں مردِ بزرگ خواہد شد‘‘) میں یہ پہلی بار دکھائی دیتی ہے۔
(۵) متعلق فعل: دکنی کے مخصوص متعلقِ فعل حسبِ ذیل ہیں:
اِتا، اِتال (اب)، جدہاں (جب)، کَد، کَدھیں (کب)، جَم (ہمیشہ)، جاں (جہاں )، کاں (کہاں )، آنگیں (آگے)، بِھترال (اندر)، اُپرال (اوپر)، تَلار (تلے)، نَزِک (نزدیک) ،اِیلاڑ (اِدھر)، پیلاڑ (پرے)، کی (کیوں )، کے (کیوں )، اِیتا (اتنا)، یَتا (اتنا)،، ہَو (ہاں ) (لیکن اس کے ساتھ گردن نفی میں ہلتی ہے)۔
(۶) حروف:
= علامتِ اضافت کے لیے کا، کی، کے، کے علاوہ کیرا، کیری اور کیرے بھی آتے ہیں۔
= علامتِ مفعول: کوں اور تئیں۔
= حروفِ جار: مَنے (میں )، سُوں (سے)، سیتی (سے)، تیں (سے)، پُو (پر)،کدن (طرف)۔
= حروفِ عطف: ہُور۔
= حروفِ استدراک : پَن (پر)۔
= حروفِ استثناء: باجے، بِغرَ۔
= حروف تخصیص: (چ) تخصیصی، دکنی اردو کا خاص حرف ہے جو مراٹھی سے مستعار ہے۔ یہ اسم، فعل اور حرف ہر جگہ مرکب ہو سکتا ہے۔
(ج) نحوی خصوصیات:
دکنی اردو کی نثر پر عربی فارسی کے نحوی اثرات نمایاں ہیں۔ عام ترتیب میں فاعل پہلے، پھر مفعول اور آخر میں فعل آتا ہے۔ صفت موصوف سے قبل آتی ہے اور متعلقِ فعل سے قبل حروفِ تخصیص کلمے کے ساتھ آتے ہیں۔ البتہ مطابقت میں دکنی اور جدید اردو میں کافی فرق پایا جاتا ہے۔
(۱) موجودہ اُردو میں فعلِ متعدی اپنے مفعول کے تابع ہوتا ہے، مثلاً میں نے روٹی کھائی، ہم نے روٹی کھائی، ہم نے روٹیاں کھائیں۔
(۲) دکنی اردو میں فعلِ متعدی اپنے فاعل کے تابع ہوتا ہے، مثلاً
واحد مذکر واحد مؤنث جمع مذکر جمع مؤنث
لڑکا روٹی کھایا لڑکی روٹی کھائی لڑکے روٹی کھائے لڑکیاں روٹیکھائے/ کھائیاں
دکنی میں جمع مؤنث کا اثر امدادی فعل تک پنچتا ہے، مثلاً:
’’جو کچھ باتاں بولنے کیاں تھیاں ‘‘ (سب رس)
صفت اپنے موصوف کے تابع ہوتی ہے مثلاً، ع
کَچیاں ، کونلیاں کنوانریاں ناریاں کلیاں کو نوروز آیا
(محمد قلی قطب شاہ)
دکنی اردو میں جنس میں مطابقت کے علاوہ جمع مؤنث کی صورت میں علامتِ اضافت کی بھی جمع بنائی جاتی ہے، مثلاً ’’۔ ۔ محبت کیاں چارباتاں ‘‘، ’’نازکیاں باتاں ‘‘۔
علامتِ جمع کی کوئی مثال شمال کی اردو میں نہیں ملتی، البتہ جمع مؤنث کا اثر صفت اور فعل پر شمال کی اُردو میں بھی پایا جاتا ہے۔
۳۔ دورِ سِوم: درمیانی اُردو، ۱۷۰۰ تا ۱۸۵۷ء
اِس دور کا تمام تر ادب شمالی ہند سے متعلق ہے، اور بیشتر شاعری پر مشتمل ہے۔ شاہ مُبارک آبرو اور فائز اس عہد کے اولین شاعر ہیں ، لیکن زبان کی صفائی کے سلسلے میں مظہر جانجاناں اور شاہ حاتم نے زیادہ اہم کردار ادا کیاہے۔
(الف) صوتی خصوصیات:
(۱) تخفیفِ مصوتہ اِس دور کی بھی خصوصیت ہے لیکن اس حد تک نہیں جس حد تک دکنی اردو میں ملتی ہے۔ اس سلسلے میں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ۱۴۰۵ ء تا ۱۶۴۸ء آگرہ سلاطینِ لودھی اور مغلوں کا دارالسلطنت رہا ہے جو عین برج کے علاقے میں واقع ہے اور برج ایک غیر مشدّد، طویل مصوتوں والی زبان ہے۔ ’نوادرالالفاظ ‘(۱۷۵۱ء) میں خانِ آرزو کا جو ردِّ عمل عبدالواسع ہانسوی کے تلّفظ کے خلاف ملتا ہے وہ اسی بات کا غمّاز ہے۔ تاہم تخفیفِ مصوتہ کی خاصی مثالیں اِس دور کے مصنفین کے یہاں مل جاتی ہیں جن کی صفائی بعد کی اردو میں ہو گئی ہے، مثلاً چند نی، چدّریں ، سُرج، چُٹ (چوٹ)، گل (گال) وغیرہ۔
(۲) مصوتوں کو انفیانے کا رجحان بھی عام رہا ہے، مثلاً نِیں (نے)، سیں (سے)، مُلاّ ں (ملا)، کرناں (کرنا)، سانّون (ساون)، پریں (پری)، نانک (ناک)، ناپخ (ناچ)، تیریں (تیری)، میریں (میری)، گیاراں ، باراں (جو آج تک اہلِ دہلی کا تلفّظ ہیں )۔
(۳) ساکن کو متحرک بنا دینا عوام تک محدود نہیں۔ ’مرزایانِ دہلی‘ بھی اس کے مرتکب ہوتے رہے ہیں مثلاً نَذر، ع
دل کو نَذر کرو تب اُس پر نظر کرو
(حاتم)
(۴) درمیانی (ہ) اور نفسی (ھ) کو حَذف کر دینے کا رجحان تا حال جاری ہے۔ قدمائے دہلی کو بھی اس سے مفر نہیں رہا ہے، مثلاً نئیں (حاتم)، کا چن (فائز) ، پنکڑی (فائز)، راک (فائز) (نہیں ، کا چھن، پنکھڑی، راکھ)۔
اس کا الٹا رجحان یعنی ہائے مخلوط (ھ) کا اضافہ بھی ملتا ہے جو دکنی اردو میں ہم دیکھتے آئے ہیں ، مثلاً بگھولے (آبروؔ)، تڑپھنا (میرؔ) ، ہُونھ (ہوں _ قصۂ مہر افروز و دلبر)، کلّھ (کل_ کربل کتھا) بَھا بھی (نوادر)، مُچھلکلا (میرؔ) وغیرہ۔
(۵) (ڑ) پر (ڈ) کو ترجیح کی روایت گاہ گاہ جاری رہتی ہے، مثلاً کاڈھ (آبرو)، بڈھاونا (نوادر)، بڈھئی (کربل کھتا)، بڈبھُس (نوادر)، ڈیوڈھی (نوادر) وغیرہ۔
(ب) صرفی خصوصیات:
(۱) جنس کا غتربود دکنی اُردو کے پیمانے پرتو نہیں ، تاہم پایا جاتا ہے، مثلاً مذکر: بہار (فائز)، جان (آبرو، میر)، سوگند، غرض، اصل، آیت، راہ ، وحی، کمر، شام (میرؔ)۔
(۲) تعداد: جدید اُردو کی مُستند علامتِ جمع (۔ وں ) اس دور میں راسخ ہو گئی ہے۔ اس کا تعلق کھڑی بولی سے ہے۔ سہارن پور کے روشن علی نے ’’عاشورنامہ‘‘ (۱۶۸۸ء) میں اس کا بھر پور استعمال کیا ہے۔ شاہ حاتم کے دیوانِ قدیم میں (۔ وں ) کی جمع پر مُشتمل قافیہ میں ایک مکمل غزل موجود ہے۔ اَلبتہ کبھی کبھی بھنواں ، اَنکھیاں ، لٹاں ، دانتاں ، انجھواں جیسی جمعیں بھی مل جاتی ہیں۔
(۳) اسمائے ضمیر اس دور میں جدید ہو گئے ہیں سوائے اس کے کہ کہیں کہیں تُمن، تُمنا، تَیں ، ہَمن، ہمنا،وَے سے سابقہ پڑ جاتا ہے، ع
کہ جس کی نِگہ کے بندھے ہیں ہمن (آبروؔ)
تیں (تو) اس دور میں کمتر مگر برابر ملتا ہے۔ پلیٹس نے اپنی قواعد (۱۸۸۴ء) میں اِسے اسمائے ضمیر میں شامِل توکیا ہے اِس نوٹ کے ساتھ کہ یہ اب متروک ہو گئی ہے۔ اِس کی مثالیں سودا ؔ اور میرؔ تک کے کلام میں مل جاتی ہیں۔
(۴) ضمیر اِستفہامیہ: کِسو، کی ضمیر فضلی، عیسوی خاں ، میرؔ اور غالبؔ سب نے استعمال کی ہے۔ غالبؔ نے اس کو بعض مقامات پر خطوط تک میں روار کھا ہے۔ یو (یہ)، اِنو (اِن)، یے (جمعِیہ)، وے (جمعِ وہ)، وِس، وِن، اِناں وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
(۵)افعال: موجودہ اردو میں علامتِ مصدر ’نا‘ ہے، لیکن اٹھارہویں صدی تک ایسے مادے جو حروفِ عِلّت (مصوتوں ) پرختم ہوتے تھے ان میں اکثر ’نا‘ سے پہلے ایک ’و‘ کا اضافہ کر دیا جاتا تھا، مثلاً جاؤ نا، پیونا، کھاؤنا، گاؤنا، آؤنا۔ اِس صدی کے آخر تک یہ شکل غائب ہو جاتی ہے۔
مضارع میں متداول شکلوں کے علاوہ (و) کے اضافے کی شکلیں بھی اس دور میں رائج رہی ہیں جیسے، ہووے، دیوے، چھپاوے، لیوے۔ یہ عوام میں آج بھی رائج ہیں لیکن ٹکسال باہر ہیں۔
اِس دور کی اردو میں مستقبل کی سب سے دلچسپ شکل جمع مؤنث کی ملتی ہے جہاں علامتِ مستقبل بھی جمع کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ یہ اب قطعاً متروک ہے مثلاً:
’’ہم بغیر تیرے دنیا میں کیوں کر پھریں گیاں۔ ‘‘ (کربل کھتا)
مستقبل کی علامت گا، گی، گے کبھی کبھی زمانۂ حال کے لیے بھی استعمال کی جاتی تھی۔ یہ اب بھی عام بول چال میں مغربی یوپی میں سُنائی دیتی ہے،لیکن معیاری اردو سے ٹکسال باہر ہے، مثلاً:
’’ہم جاتے ہیں گے اپنے گھر‘‘۔ (کربل کھتا)
فعل کی یہ شکل میر تقی میر بلکہ ان کے بعد تک جاری رہی ہے۔
ماضیِ مطلق میں سب سے قابلِ توجہ شکل جمع مؤنث کی ہے جہاں فعل دیگر زبانوں کی طرح فاعل کے مطابق آتا ہے۔ میرؔ کی اس غزل کے قوافی ملاحظہ ہوں:
بارہاوعدوں کی راتیں آئیاں
طالعوں نے صبح کر دکھلائیاں
عشق میں ایذائیں سب سے پائیاں
رہ گئے آنسو تو آنکھیں آئیاں
اس غزل کے مزید قوافی چلوائیاں ، مرجھائیاں ، جھمکائیاں ، ٹھیرائیاں ، کھائیاں بتلائیاں اور دلوائیاں ہیں۔ انیسویں صدی کے آتے آتے یہ صیغہ متروک ہو جاتا ہے۔
(۶) متعلقِ فعل: اِس دور کے حسبِ ذیل متعلقِ فعل خصوصیت رکھتے ہیں ، مثلاًایدھر، دؤں ، (اِس طرح)، اودھر، تِدھر، پھیر، آگوں ، نپٹ (بہت)، جَد، تَولَوں کدَھو، کد(کب) ،اِیتا (اتنا) وغیرہ۔
(۷) حروف: حسبِ ذیل حروف لائقِ توجہ ہیں:
سیں ، سیتی، سوں ، تے، لک، نوں (تک)، کوں ، موں (میں )، مَنے (میں )۔
(ج) نحوی خصوصیات:
اُردو جملے میں فاعل، فعل سے قبل آتا ہے اگر فعلِ لازم ہو۔ لیکن اگر جُملے میں فعلِ متعدی ہوتو پہلے فاعل، اس کے بعد مفعول، اور سب سے آخِر میں فِعل آتا ہے۔ اٹھارہویں صدی کی اردو میں عربی فارسی کی نحوی ساخت کے زیرِاثر یہ ترتیب اکثر بدل جاتی ہے، مثلاً:
= اسباب تجارت کا بہت سالایا۔ ‘‘ (باغ و بہار)
= ’’اقلیم ہندوستان کی میں ایک شہر تھا۔ ‘‘ (قصّہ مہرافروز)
فاعلی ’نے‘ کے حَدف کی وجہ سے بھی اس عہد کی اردو میں ترتیبِ کلام میں فرق پڑجاتا تھا:
= ’’تب عباس کہے۔ ‘‘ (کربل کتھا)
فاعل جمع مؤنث ہو تو اس کا فعل بھی اس کے تابع ہوتا تھا:
= ’’یہ باتیں ہوتیاں تھیں۔ ۔ ۔ ‘‘ (باغ وبہار)
فاعل جمع مؤنث ہو تو صفت بھی جمع کی شکل اختیار کر لیتی تھی، ع
نہ میں کہتا تھا اے ظالم کہ یہ باتیں نہیں بھلیاں
(سودا)
اردو کے نحوی ارتقاء کی شکل کو نہایت خوبی سے اس جملے کی مدد سے دکھایا جاسکتا ہے:
۱۔ جواہرات کیاں رنگ برنگیاں کو ٹھریاں بھریاں تھیاں۔
(دکنی اردو، چودھویں پندرھویں صدی (شمالی ہند)
۲۔ جواہرات کی رنگ برنگیاں کوٹھریاں بھریاں تھیاں ۔ سترھویں صدی
۳۔ جواہرات کی رنگ برنگی کوٹھریاں بھریاں تھیں۔ (اٹھارہویں صدی)
۴۔ جواہرات کی رنگ برنگی کوٹھریاں بھریں تھیں۔ (انیسویں صدی)
۵۔ جواہرات کی رنگ برنگی کوٹھریاں بھری تھیں۔ (جدید دور)
غر ض یہ کہ انیسویں صدی کے آغاز تک اردو زبان اپنی صوتیات، صرف ونحواور کسی حد تک لغات کے نقطۂ نظر سے ایک ایسی معیار بندی اختیار کر چکی تھی کہ سارے ہندوستان کے شعراء وادیب اس کی پیروی ضروری سمجھتے تھے۔ ۱۷۹۲ء میں مرزاجان طپش دہلوی نے ڈھاکہ میں بیٹھ کر وہاں کے نواب کے حکم سے ایک مختصر سی لغت ’’شمس البیان فی مصطلحات الہندوستان‘‘ مقامی معاصروں کی رہنمائی کے لیے لکھی۔ سید انشاء اللہ خاں نے ۱۸۰۸ء میں اپنی معرکۃ الآرا تصنیف ’دریائے لطافت‘ تصنیف کی اور میر تقی میر کے ’’لہجۂ اکبر آباد و شمولِ الفاظِ برج و گوالیار در وقتِ تکلّم‘‘ کی جانب اشارہ کیا۔
اردو کی نوک پلک کی درستی بالآخر شیخ امام بخش ناسخؔ اور ان کے پیروؤں نے لکھنؤ میں کی۔ ناسخؔ (متوَفی۱۸۳۸ء) کی اردو دانی کے غالبؔ جیسے دلّی والے تک قائل تھے۔
(۱) مضارع کی (۔ تا) اور اس کی شکلوں پر مہر سند لگ جاتی ہے (حالاں کہ غالبؔ اس کے بعد بھی لکھتے رہے، ع
کھینچتا ہوں جس قدر مجھ سے وہ کھنچتا جائے ہے۔
(۲) ’و‘ زائدہ سے مرکب افعال کی شکلیں متروک ہونے لگیں جیسے دیوے، لیوے، ہووے، ہووے گا، دیویں گے، لیویں گے۔ حالانکہ مغربی یو پی اور اودھ کے خاص گھرانوں میں ان کا رواج بعد تک رہا ہے۔
(۳) علامت گا، گی، گے کا مضارع کے لیے استعمال یکم قلم متروک، ہو گیا۔
(۴) مؤنث جمع اسم سے فعل کا متاثر ہونا مثلاً ’’گھٹائیں چھائیاں ‘‘ متروک قرار پایا ،ہر چند میر انیس اپنے خاندان کی زبان کہہ کر آئیاں ، جائیاں ، بجائیاں لکھتے رہے۔
(۵) اِسماء ضمائر میں حسبِ ذیل متروک قرار پائے:
تیں (تو)، تِس (اُس)، ع
ایک دل تِس پر یہ نا اُمید واری ہائے ہائے (غالب)
کِسو (میرؔ اور غالبؔ)، وے (جمعِوہ) ،یے (جمعِ یہ)۔
(۶) حروف میں حسبِذیل متروک قرار پائے:
آگو، سیتی، کبھو، جوں ، نِت، پرے (میرو غالبؔ) ، بِن (غالب)۔
(۷)اسماء میں عرصۂ دراز سے مستعمل بعض الفاظ متروک قرار پائے:
دِوانہ (میرؔ)، جگ، پات (میر)، جاگہ (میر)، ماٹی (تمام متقدمینِ اردو) شور شرابا، پرواہ (ہائے مختفی کے ساتھ)، لوہو (میرؔ)، وغیرہ۔ دہلی میں غالبؔ اور لکھنؤ میں میر انیس نے ان اصلاحات کا ہمیشہ تبتع نہیں کیا۔ تاہم آخرا لامران سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے۔ غالبؔ رجب علی بیگ لکھنوی کی زبان دانی کے معترف تھے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ سر سید کے زمانے تک قواعدِ زبان کی سختی سے پابندی نہیں کی جاتی تھی۔ خاص طور پر اردو نحو پر فارسی کے اثرات قائم رہے۔ سر سید تک نے وے (جمع وہ) اور کر کر کا استعمال روا رکھا۔ انھیں سے بدعت انگریزی الفاظ کی چلی۔ ان کے معاصرین جو انگریزی میں شُدبد رکھتے تھے انگریزی کے الفاظ بے دھڑک استعمال کرنے لگے۔ صحافت نے اس رجحان کو مزید تقویت دی۔
انیسویں صدی کے ربعِ اوّل تک نذیر احمد، حالی، شبلی اور شرر کی بدولت ایک کل ہند معیار کی تشکیل ہو چکی تھی ’فرہنگِ آصفیہ‘ اور’ امیر اللغات‘ کے اجزا مرتب ہو چکے تھے اور بالآخر ۱۹۱۴ء میں مولوی عبدالحق نے ’اردو قواعد‘ کا پہلا ایڈیشن شائع کر کے اس کا قواعدی چوکھٹا متعین کر دیا۔
تاہم ذخیرۂ الفاظ کی توسیع کا سلسلہ جاری رہا۔ ابوالکلام آزاد اور اقبال نے اسے عربی و فارسی کا رنگ و آہنگ عطا کیا۔ پریم چند نے اس کے ڈانڈے ہندی سے جا ملائے۔ لیکن اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہم کام جامعۂ عثمانیہ کے دار الترجمہ نے کیا اور اصطلاحات سازی کے ذریعہ عربی کا دہانہ اس میں کھول دیا۔ اصطلاحات سازی کے سلسلے میں اس وقت بھی دو اندازِ فکر تھے اور اب بھی ہیں۔ بعض لوگ سائنسی مضامین میں بین الاقوامی اصطلاحات کے طرف دار ہیں۔ ہندی ڈائریکٹریٹ (مرکزی سرکار) کا اصرار رہا ہے کہ سنسکرت کی اصطلاحات کو قبول کر لیا جائے تاکہ کم از کم اس سطح پر ہندوستانی زبانوں میں یکسانی رہے، حالاں کہ تمل انھیں رد کر چکی ہے۔ اردو کے لیے بھی ان سنسکرت بنیاد اصطلاحات کا قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے چارۂ کار اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہم علومِ معاشرتی کے لیے اپنی اصطلاحات خود وضع کریں اور علومِ طبیعی میں کچھ اپنی اور کچھ بین الاقوامی، تلفظ کے ہیر پھیر کے ساتھ قبول کر لیں۔ بین الاقوامی اصطلاحات کو جوں کا توں قبول کرنے میں بڑی دقّت یہ پیش آتی ہے کہ اُردو کی صَرف پر ان کا زبردست بوجھ پڑتا ہے۔ علمی اصطلاح سے جو شاخسانے پیدا ہوتے ہیں وہ صرفی شکلوں کو اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں جو کسی بھی زبان کو مصنوعی بنا دینے کے لیے کافی ہیں۔ اِس سلسلے میں ہمیں پڑوسی ملک کی کارگزاری پر بھی نظر رکھنی پڑے گی جہاں اصطلاح سازی کا کام بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔ لاطینی بنیاد اصطلاحات کا اشتراک امریکن اور انگلستان کی انگریزی تک محدود نہیں ، یورپ کی تمام بڑی زبانیں ان کے زمرے میں آ جاتی ہیں۔
۳۔ تقدیر
لسانی مباحث میں ’تقدیر‘ کا لفظ زرا بے محل ساد کھائی دیتا ہے۔ لیکن میں نے اس لفظ کو ’ مُستقبل‘ پر اس لیے ترجیح دی ہے کہ اس کے ذریعہ تاریخ کے مقدّرات کی جانب اشارہ کرنا مقصود ہے، جن سے اردو زبان آج کل دوچار ہے۔
اردو زبان تاریخ کے ایک سَیل کی رَو میں پیدا ہوئی۔ آج یہ سیاست کی زد میں آ کر اپنے وجود پر پیچ و تاب کھا رہی ہے۔ ایک طرف اس کے بارے میں خوش فہمیاں ہیں جن کے سبب ہم اس کی صورتِ حال کو صحیح طور پر سمجھنے سے قاصر ہیں۔ دوسری جانب اغیار میں اس کے سلسلے میں کچھ ایسی غلط فہمیاں پھیل گئی ہیں اور اس کو اس قدر خطرناک مجرم قرار دے دیا گیا ہے کہ سیاسی اختلافات رکھنے والی پارٹیاں بھی اس کی مخالفت میں ایک رائے ہو جاتی ہیں۔
پہلے اپنی خوش فہمیوں سے بحث کر لی جائے:
اردو والے اب تک اسے ایک ہمہ گیر زبان سمجھتے ہیں اور ۱۹۴۷ء سے قبل کی زبان میں اسے ایک کُل ہند حقیقت تسلیم کرانے پر اصرار کرتے ہیں ، جب کہ ہندوستان کا ایک ضلع بھی ایسا نہیں ہے جہاں اس کو مادری زبان لکھوانے والے اکثریت میں ہوں۔ یہ ضرور ہے کہ یہ ہندوستان کی چھٹی بڑی زبان ہے، جس کے بولنے والوں کی مجموعی تعداد ۱۹۸۱ء کی مردم شماری کے مطابق تین کروڑ ترپن لاکھ تیئیس ہزار دوسو اٹھائس (۲۲۸،۲۳،۵۳،۳) ہے جو ہندوستان کی پوری آبادی کا تقریباً سوا پانچ فی صد ہے۔ یہ تعداد گجراتی، کنّڑ، ملیالم، اڑیا، پنجابی، اَسمیا اور کشمیری زبانیں بولنے والوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر مردم شماری میں اس سے متعلق دھاندلی ہوتی آئی ہے اور اس کے بولنے والوں کے اندراجات میں صحت کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ صرف ۱۹۷۱ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار کو لے لیجئے، اور دیکھئے کہ بعض ریاستوں میں کس طرح اس کو بولنے والوں کی تعداد اتنی بھی نہیں لکھی گئی جتنی کہ اس ریاست کی مُسلم آبادی کا اندراج ملتا ہے۔
مسلم آبادی اردو آبادی تفادت
۱۔ اترپردیش ایک کروڑ ۳۶ لاکھ ۹۲لاکھ ۷۳ ہزار ۴۳لاکھ۷۶ہزار
۲۔ بہار ۷۵لاکھ ۹۴ ہزار ۴۹لاکھ ۹۳ ہزار ۲۶لاکھ
۳۔ مہاراشٹر ۴۲لاکھ ۳۳ ہزار ۳۶لاکھ ۶۱ ہزار ۶لاکھ
۴۔ آندھراپردیش۳۵لاکھ ۲۰ ہزار ۳۲لاکھ ۹۹ ہزار ۳لاکھ
۵۔ کرناٹک ۳۱لاکھ ۱۳ ہزار ۲۶لاکھ ۳۶ ہزار ۵لاکھ
دونوں قسم کی آبادی کا فرق اترپردیش اور بہار میں ، جنوب کی ریاستوں مہاراشٹر، آندھراپردیش اور کرناٹک سے بہت زیادہ ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ مذہب کے خانے میں اسلامی ناموں میں دھاندلی اس قدر آسانی سے نہیں کی جا سکتی جتنی کہ ہندی اردو کو ایک زبان بتا کر۔ پھر اُردو کو مادری زبان تسلیم کرنے والے غیر مسلموں کی تعداد اب ’چند در چند‘ سہی تاہم کچھ تو ہے۔ اس جدول سے آپ کو اس بات کا بھی علم ہو جائے گا کہ اردو سے دھاندلی کا دھندہ ہندی کی ریاستوں میں زیادہ ’کالا‘ ہے۔ غیر ہندی ریاستوں میں مُسلم آبادی اور اردو کے اندراجات میں اس قدر فرق نہیں ملتا۔
اردو کے سلسلے میں ایک اور تاریخی حقیقت کا اظہار بھی یہاں بے مصرف نہیں ہو گا۔ مشترکہ زبان کی حیثیت سے اردو کا نقطۂ عروج ۱۹۰۰ء کے قریب ملتا ہے، حالاں کہ ہندی اردو جھگڑے کا آغاز ہنگامہ غدر کے فوراً بعد سے ہو گیا تھا، جب سر سید جیسے محبِ وطن کو بنارس میں اِس سلسلے پر ۱۸۶۷ء میں پہلا دھکّا لگا تھا۔ یہ بات حالیؔ کی زبان میں سُنیئے:
’’چنانچہ ۱۸۶۷ء میں بنارس کے بعض سربرآوردہ ہندوؤں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ جہاں تک ممکن ہو تمام سرکاری عدالتوں میں سے اردو زبان اور فارسی رسم الخط کے استعمال کو موقوف کرانے میں کوشش کی جائے اور بجائے اس کے بھاشازبان جاری ہو جو دیوناگری میں لکھی جائے‘‘۔
سرسیّد کہتے تھے کہ ’’یہ پہلا موقع تھا جب کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اب ہندو مسلمانوں کا بطور ایک قوم کے ساتھ چلنا اور دونوں کو مِلا کر سب کے لیے ساتھ ساتھ کوشش کرنا محال ہے۔ ‘‘
لیکن وہ غیر مُسلم جو اردو کے دائرے میں داخل ہو چکے تھے ان کی اس سے محبت کسی طرح کم نہیں ہوئی۔ رتن ناتھ سرشارؔ، برج نرائن چکبست، پریم چند، سرتیج بہادر سپرو، پنڈت د تاتریہ کیفی، آنند نراین ملّا ایسے بیسیوں نام ہیں جن کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔ ان کے دم سے اردو کا خم باقی ہے۔
اسی زمانے میں بیشتر غیر مسلموں نے اپنے لسانی دائرے بدلنا شروع کر دیئے۔ انھیں جدید ہندی کے ارتقاء میں اپنی ’پراچین سبھیتا‘ کا ایک نشان نظر آیا، اور یہ حقیقت بھی تھی۔ لہٰذا بیسویں صدی میں اردو کے حلقے سے ہندی کے حلقے میں داخل ہونے کا یہ عمل تیز تر ہو گیا۔ کانگریس نے گاندھی جی کی قیادت میں ’ہندوستانی دونوں لکھاوٹوں میں ، کا پروگرام تیار کیا۔ ۱۹۲۵ء کے کانپور کے کانگریس سیشن میں اس مقصد کے یے ایک باقاعدہ ریزولیوشن بھی پاس کر دیا گیا، لیکن پُرشوتم داس ٹنڈن اور ان کی ہندی ساہتیہ سمیلن نے اس نکتہ پر ’پوجیہ‘ گاندھی جی کی بات تک نہیں مانی اور انھیں سمیلن سے استعفیٰ دینا پڑا۔
اِدھر سر سید کے زمانے سے اردو اپنے دفاع کی جدوجہد میں مصروف تھی۔ یہ محسن ا لملک ہی تو تھے جو لفٹنینٹ گورنر میکڈانل کی ایک دھمکی میں اُردو کے محاذ سے یہ شعرِ فاتحہ پڑھتے ہوئے دستبردار ہوئے تھے،ع
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
دراصل اہلِ اردو کی یہ کوتاہ نظری رہی ہے کہ انھوں نے ابھرتی اور بڑھتی ہوئی ہندی کے مقام کو نہیں پہچانا اور اسی نسبت سے دبتی اور گھٹتی ہوئی اردو کا مقام ایک لسانی اقلیّت کے طور پر متعین کرنے سے ا غماض کرتے رہے۔ فلموں اور مشاعروں کے حوالوں سے وہ اردو کی برتری قائم رکھنے کی کوشش کرتے رہے اور اپنے تعلیمی اداروں میں اسے ایک علمی زبان بنانے سے غفلت برتتے رہے۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی باک نہیں ہے کہ علی گڑھ نے سر سیّد سے لے کر تا حال اُردو کے حق کو ادا نہیں کیا ہے۔ اس کے سربراہوں نے اُردو کی لڑائی کالج کی چہار دیواری کے باہر تو لڑی اپنے صحن میں نہیں۔ یہی حال جامعہ ملّیہ اسلامیہ کا ہے جو ایک اُردو اساس ادارے کے طور پر وجود میں آئی اور رفتہ رفتہ اپنے اصل کردار کو کھوتی گئی۔
یہیں سے یہ تکلیف دہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا اردو، اہلِ اردو کے لیے ایک ’قدر‘ کا حکم رکھتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو خاص طور پر ہمارا تعلیم یافتہ اور متوسط طبقہ اپنے بچوں کی تعلیم میں اس کی جانب سے اغماض کیوں کررہا ہے؟ غیر مسلموں کے ذہنی رویے کو تو سمجھا جا سکتا ہے۔ اردو کے ایک غیر مُسلم معروف پروفیسر نے ایک بار بڑی صفائی سے کہا تھا کہ اردو میری پیشے کی زبان ہے تہذیبی زبان نہیں ، حالاں کہ غیر مُسلم حضرات میں معدودے چند ایسے حضرات بھی ہیں جن کے رگ و پے میں اُردو اسی طرح سرایت کیے ہوئے ہے جس طرح کسی اردو کو چاہنے والے مسلمان میں __ میں آنند نرائن مُلّا کا وہ بیان کبھی نہیں بھول سکتا جو انھوں نے اردو کانفرنس میں آزادی ملنے کے فوراً بعد دیا تھا:
’’میں اپنا مذہب چھوڑ سکتا ہوں ، لیکن اپنی مادری زبان نہیں چھوڑ سکتا‘‘!
کیا کوئی مسلمان اردو کے عشق میں یہاں تک جا سکتا ہے؟ حالاں کہ اردو کا خلقیہ(Ethos) بیشتر اسلامی ہے اور آزادی کے بعد مذہب کی طرح یہ اسلامی تشخّص کی سب سے بڑی علامت بنتی جا رہی ہے۔ لیکن ہمارے قائدین مِلّت اِس نکتے سے تا حال بے خبر ہیں۔ وہ فروعات کو اصل اسلام سمجھتے ہیں ، ان کے لیے بڑی بڑی تحریکیں چلاتے ہیں لیکن اردو زبان کے سلسلے میں نہ کوئی جلوس نکالتے ہیں اور نہ دھرنا دینے کے قائل ہیں۔
اردو کی لڑائی ہمیں دو محاذوں پر لڑنی ہو گی۔ سیاست کے میدان میں اور اپنے گھر کے آنگن میں۔ میں گھر کے آنگن کی لڑائی کو بُنیادی سمجھتا ہوں۔ اس لیے کہ کسی بھی تہذیب کی اساس میں زبان کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ عربی کے بغیر اسلام کا، سنسکرت کے بغیر ہندو دھرم کا اور عبرانی کے بغیر اسرائیلیت کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔ بیشتر قومیتوں کی بنیادیں زبان پر قائم ہیں۔ زبان کھو کر کوئی جماعت اپنے خُلقیہ(Ethos) کو قائم نہیں رکھ سکتی۔
اگر اردو والوں کا اعتقاد ایک بار اپنی زبان پر راسخ ہو جائے اور وہ اسے اپنے تشخص کے لیے ایک لازمی عنصر گرداننے لگیں تو اس کے تحفّظ و بقا کے کئی پروگراموں پر عمل کیا جا سکتا ہے، مثلاً:
(۱) اردو کے آئینی حق کو تسلیم کرانے کے لیے ریاستِ بہار کے انداز پر اُترپردیش اور دیگر ریاستوں میں جہاں اردو بولنے والے کافی تعداد میں موجود ہیں اُس ریاست کی زبان کے ایکٹ میں ترمیم کرا کے اردو کا ثانوی حیثیت سے اس میں شمول کرانا:(۱) اس راہ میں سنگِ گراں حائل ہیں۔ البتہ اس کے لیے ہمیں ہر سیاسی جماعت کے روشن خیال طبقے کا تعاون حاصل کرنا ہو گا۔ بائیں بازو کی جماعتیں جو خود کو اس کا دعویدار کہتی ہیں ، اس کے لیے زیادہ جواب دہ ٹھہرائی جائیں۔ افسوس کی بات ہے کہ چند برس پہلےCPI حاوی ترقی پسند مصنفین کی انجمن نے لکھنؤ میں اردو کو دوسری زبان بنانے کی تجویز کی پُر زور مخالفت کی۔ اس مکتبِ فکر کے ایک سرگرم رکن پروفیسر نامور سنگھ، ساری ترقی پسندی اور روشن خیالی کو بالائے طاق رکھ کر آج کل اردو کے خلاف خوب زہر اُگل رہے ہیں۔ کانگریس کا رویہ اردو کے سلسلے میں آزادی ملنے کے بعد سے اب تک لطائف الحیل کا رہا ہے۔ الیکشن کے قریب غزل کے سے وعدہ و وعید شروع ہو جاتے ہیں۔ الیکشن مینی فیسٹو میں اُردو کے حقوق کا شد و مد کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے لیکن بعد کو ایک واسدیو اُترپردیش کی وزارت کے فیصلے کو کھٹائی میں ڈال دینے کو کافی ہوتا ہے۔ لہٰذا اُردو کے حقوق کے سلسلے میں سیاسی دباؤ ہی نہیں ، مناسب وقت پر سیاسی سودے بازی سے بھی اجتناب نہیں کرنا چاہئیے۔
(۲) اردو کے تعلیمی نظام کی از سرِ نو تشکیل کی ضرورت :اتر پردیش میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تین اسکولوں کو چھوڑ کر ایک بھی اردو میڈیم کا ہائی اسکول باقی نہیں رہا۔ متوسط طبقے کے بچّے یا تو انگریزی میڈیم کے اسکولوں کا رُخ کرتے ہیں یا جن کے والدین ان کے اخراجات کے کفیل نہیں ہو سکتے وہ سرکاری ہندی میڈیم کے اسکولوں میں داخلہ لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس ریاستِ بہار، آندھراپردیش، اور مہاراشٹر میں بڑی تعداد میں اردو ذریعۂ تعلیم کے اسکول کامیابی کے ساتھ سرکاری امداد سے چل رہے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ہمارے مکتبوں میں ، دینی تعلیم کے رہنماؤں کی بدولت اردو کے ذریعہ سے تعلیم دی جا رہی ہے لیکن ان میں تعلیم حاصل کرنے والے بچّوں کا تعلق بالعموم نچلے اور نادار طبقے سے ہے۔ یہ بچّے جب ثانوی اسکول کے درجوں میں آ کر اپنا ذریعۂ تعلیم بدلتے ہیں تو درجے میں پھسڈّی رہ جاتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اردو ذریعۂ تعلیم کی از سرِ نو تشکیل کی سخت ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں ایسے ادارے جن کے آگے ’مسلم‘ یا ’اسلامیہ‘ کے الفاظ لگے ہوئے ہیں ، اُن کا یہ فرض ہو جاتا ہے کہ وہ اردو ذریعۂ تعلیم کی تشکیل کا آغاز اپنے یہاں سے کریں۔
(۳) دراصل ہم جب بھی ذریعۂ تعلیم کے بارے میں سوچتے ہیں تو روزی روٹی کمانے کے لیے سرکاری ملازمتوں کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ لیکن یہ بات اعداد و شمار سے ثابت کی جا سکتی ہے کہ سرکاری ملازمتیں بیس فی صد سے بھی کم روزی روٹی کا بندوبست کرتی ہیں۔ اردو والوں کے سلسلے میں تو ۳، ۴ فی صد سے بھی کم، لہٰذا کمائی کا وسیلہ درحقیقت دیگر پیشے ہیں جن کے لیے مادری زبان کے ذریعہ دی ہوئی تعلیم سے بخوبی کام چل سکتا ہے۔ البتہ اس تعلیم کو جدید انداز کا ہونا چاہئیے__ دینی کے ساتھ دنیوی بھی۔
(۴) اُردو ذریعۂ تعلیم کے نظام میں ہمیں دوسری ملکی اور غیر ملکی زبانوں کی تعلیم کا بھی مناسب بندوبست کرناہو گا۔ انگریزی کا وہ مقام قائم نہیں رہ سکتا جو اب تک رہا ہے۔ ہندی زندگی کے ہر شعبے میں رابطے کی زبان کی حیثیت سے انگریزی کی جگہ نہیں لے سکتی۔ اُردو والوں کے لیے دونوں کا اپنااپنا مقام ہو گا جو ان کی عملی ضروریات کے پیشِ نظر متعین کرناہو گا۔ غیر ہندی کے علاقے کے اردو والوں کو وہاں کی علاقائی زبان (تمِل،تِلگو، مراٹھی وغیرہ) بھی سیکھنا ہو گی۔ اِسی نسبت سے ان کو ہندی جاننے کی ضرورت کم ہو گی۔
(۵) میرے لیے اس کا تصوّر بھی نا ممکن ہے کہ روزی روٹی کے نام پر یاسرکاری ملازمتوں کی لالچ میں کوئی گروہ اپنی نئی نسل کو اپنے لسانی وَرثے اور تَرکے سے محروم کردے۔ میں اسے اخلاقی دیوالیہ پن کہوں گا۔ ہر جماعت کی زبان اس کے تشخّص اور شناخت کامرکزی نقطہ ہوتی ہے۔ یہ بعض اوقات عقائد سے بھی زیادہ مؤثر اور قومی تربن جاتی ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے بنگلہ دیش کی مثال ہے۔ میں خالصتان کی تحریک میں بھی پنجابی زبان اور گورمکھی رسمِ خط کے تحفّظ کو بنیادی نکتہ سمجھتاہوں۔ جب کوئی تامل سربراہ یہ کہہ اٹھتا ہے کہ میں پہلے تامل ہوں اور بعد کو ہندوستانی، یا دستورِ ہند کی جلدوں کو نذرِ آتش کرتا ہے تو اس کے پیچھے بھی مذہبی نہیں لسانی تحفّظ کا جذبہ کارفرماہوتا ہے۔
یہ اردو والوں کی بدقسمتی ہے کہ اپنی زبان کے بارے میں وہ اس شدّت سے محسوس نہیں کرتے۔ ہندی ریاستوں میں اُن کے تعلیمی نظام کوبرباد کر دیا گیا ہے۔ اردو بولنے والے بچوں کو ابتدائی تعلیم تک دینے کی سہولتیں ان کی مادری زبان میں فراہم نہیں کی جاتیں جو دستورِ ہند کی ہدایات اور دفعات کے عین منافی ہے۔ اگر ہم لب کُشا ہوتے ہیں تو ہماری حب الوطنی اور وفاداری کو مُشتبہ قرار دیا جاتا ہے۔ الیکشن کے موسم میں وعدے کیے جاتے ہیں لیکن وہ ایفا نہیں ہوتے۔ ہماری توجہ کو بنیادی مسائل سے ہٹاکر اکاد میوں کے مناصب اور انعامات کی فروعات میں اُلجھا دیا جاتا ہے۔ خود اردو بولنے والوں کو اس بات کا احساس نہیں رہا کہ ہم کیا کھوکرکیا پارہے ہیں ؟ ہم اردو زبان کو کھو کرکیا رہ جائیں گے؟ لِسانیات کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں اس کے تصوّر سے بھی کانپ اٹھتاہوں ، لیکن شکست خوردگی کا احساس تو ہمارے اندر آزادی کی صبح پیداہو گیا تھا۔ یقین نہ آئے تو گاندھی جی کی چیلی ریحانہ طیب جی کے اُس خط کا اقتباس سُنیے جو اُنھوں نے ’پوجیہ‘ باپوجی کو لکھا تھا، لکھتی ہیں:
’’جب تک ہندوستان سالم تھا، اسے سالم رکھنے کی امید تھی۔ تب تک ناگری لکھاوٹ کے ساتھ اردو لکھاوٹ کو چلانا میں مناسب بلکہ ضروری جانتی تھی۔ آج ہندوستان پاکستان دو الگ مُلک بن گئے ہیں۔ ۔ ۔ پھر ناگری کے ساتھ اردو کو بھی قومی لکھاوٹ (بنانے کی)کیا ضرورت؟۔ ۔ ۔ اگر آپ نے ناگری کے ساتھ اردو کو بھی قومی لکھاوٹ بنالیا تو آپ ہندوستان کے اندر ایک دوسرا پاکستان کھڑا کر دیں گے۔ ۔ ۔ اب ایک مُسلم ہندوستانی کی حیثیت سے میری التجا ہے کہ خدا کے لیے مسلمان ہندوستانیوں کو اپنے ہی ملک میں پردیسیوں کی طرح رہنے کے لیے بڑھاوا نہ دیجیے۔ ‘‘
ہندوستان میں اردو سے متعلق یہ ذہنیت آج بھی کام کررہی ہے۔ اکثریت کا خیال ہے کہ اُردو کو بڑھاوا دینے سے ہندوستان کی سا لمیت خطرے میں پڑ جائے گی۔ اقلیت اپنی انفرادیت کی تلاش میں ہے لیکن اس کے سربراہ جن کا تعلق متوسط طبقے سے ہے، خوف یا مصلحت کی بناء پر کچھ کرنا نہیں چاہتے۔ ہم نے اپنے دل ودماغ کی گہرائیوں میں ، ایسا معلوم ہوتا ہے، مذہب کو زبان سے علیٰحدہ کر لیا ہے۔ ایک میدان میں ہم خوب بھڑکنا جانتے ہیں اور دوسری جگہ پھڑکنے کے مذبوحی عمل کے سوا ہم سے کچھ سرزد نہیں ہوتا۔ لیکن وہ لوگ جو اپنے تہذیبی ورثے کی حقیقتِ بسیط کا ایک کلّی تصور رکھتے ہیں ، خوب جانتے ہیں کہ کسی ایک کی قیمت پر دوسرے کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔ اقبالؔ سے اعتذارکے ساتھ:
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے اے ’اردو زباں ‘ والو!
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
(خطبۂ پروفیسر ایمریٹس، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ، ۱۳! جنوری ۱۹۸۸ء)
___ نظرِ ثانی شدہ، ۲۷! مئی ۲۰۰۴ء
***