[11]
انعامات دشمن بھی پیدا کرتے ہیں۔ مجھے سن 2012 کے لئے فروغ اردو ادب دوحہ قطر کے عالمی انعام سے نوازا گیا تو فیس بک پر گٹر کے کیڑے رینگنے لگے اور کیچڑ اچھالنے لگے۔ ۸ نومبر کو میرے ساتھ ادا کار نصیرا لدّین شاہ اور پاکستان کے ادیب عطا الحق قاسمی بھی نوازے گئے۔ نصیرا لدّین شاہ نے اردو افسانے کو ہندوستان اور ہندوستان سے باہر بھی اسٹیج کیا ہے اور غالب سیریل میں بھی ان کا رول بہت اہم رہا ہے۔ عطا الحق قاسمی کبھی امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے۔ جنگ میں کالم لکھتے ہیں اور اپنی شگفتہ تحریر کے لئے جانے جاتے ہیں۔ اس موقع پر ایک بین الاقوامی مشاعرے کا بھی انعقاد ہوتا ہے۔ اور مجلس فروغ اردو ایک مجلّہ بھی شائع کرتی ہے۔ مجھ سے مجلّہ کے لئے نمائندہ کہانیاں مانگی گئیں تو میں مشکل میں پڑ گیا مجلّہ پاکستان میں شائع ہوتا ہے۔ میں پاکستان میں بہت کم چھپا ہوں۔ آج کل وہاں میرے افسانوں کا بہت کریز ہے لیکن ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں میرے افسانوں کا ختنہ کر دیا جاتا تھا۔ اصل میں میں نے زیادہ تر مرد و زن کے رشتے پر لکھا ہے جس میں گلابی رنگ کچھ زیادہ ہی گاڑھا ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ میرے یہاں گلاب اپنے اصلی رنگ میں بہت کم کھلتا ہے۔ اس کی خوش بو میں آیوڈن کی بو بھی ملی ہوتی ہے جس سے رنگ کاسنی ہو جاتا ہے۔ جنس کا تعلّق اگر رنگوں سے ہے تو کاسنی رنگ سے ہو گا لیکن پاکستان کو صرف ہرا رنگ پسند ہے۔ پاکستانی مدیر میری تحریروں میں جگہ جگہ سیاہی پھیر دیتے تھے۔ یہاں تک کہ کراچی سے شائع ہونے والے رسالہ ’صریر‘ کے مدیر محترم فہیم اعظمی نے سنگاردان شائع کیا تو اس کے وہ جملے حذف کر دیئے جو کہانی میں دھار پیدا کرتے تھے۔ دوحہ کے مجلّہ کے لئے کہانیوں کا انتخاب پریشان کن تھا۔ سنگاردان، اونٹ عنکبوت اور ظہار جیسی کہانیاں جگہ نہیں پا سکتی تھیں۔ میں نے ٹیبل، آخری سیڑھی کا مسافر اور کاغذی پیراہن کو ترجیح دی جس میں دور دور تک عورت کا سایہ بھی نظر نہیں آتا ہے۔
لیکن دوحہ میں پاکستانیوں سے مل کر لطف آیا۔ یہ ایسے دقیا نوسی نہیں تھے جتنا میں سمجھ رہا تھا۔ عطا الحق قاسمی تو بہت بنداس آدمی تھے۔ میں انہیں عطا الحق بنداس کہنا پسند کروں گا۔ صبح صبح بے دھڑک میرے کمرے میں چلے آتے اور سگریٹ پھونکنا شروع کرتے۔ ہر کش پر مسکراتے اور بیٹھے بیٹھے کئی سگریٹ پھونک ڈالتے۔ کمرہ دھوئیں سے بھر جاتا۔ وہ جس محفل میں بھی جاتے دھوئیں کے مرغولے اڑاتے۔ ان کے لئے سموکنگ اور نان اسموکنگ زون میں فرق نہیں تھا۔ ان کی سگریٹ نوشی کا یہ انداز مجھے پسند آیا۔ ان کے ساتھ سگریٹ کے کش لگانے کا لطف کچھ اور ہی تھا۔ ایک دن صبح صبح انہوں نے پھلوں سے بھری ٹوکری بھی مجھے بھیجوا دی۔ معلوم ہوا ان کے کسی مدّاح نے پھل بھیجے تھے۔ وہ مجھ سے یہ تحفہ شیئر کر رہے تھے۔ مجلّہ کے مدیر اسلم کولسری بھی سگریٹ نوشی میں پیچھے نہیں تھے۔ انہوں نے مجھے پاکستانی سگریٹ کے دو پیکٹ سے نوازا۔ ’’دشمن‘‘ کی سگریٹ ہونٹوں میں دباتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ یہ سگریٹ نہیں دوستی کی طرف بڑھتے ہوئے ہاتھ ہیں۔ میں نے سگریٹ سلگائی اور ایک لمبا سا کش لگایا تو سگریٹ کے پھیلتے ہوئے دھوئیں میں مجھے دونوں ملکوں کی سر حدیں مٹتی سی نظر آئیں۔
میں ان لوگوں سے جلد ہی گھل مل گیا۔ پاکستانی شاعرہ بھی مجھے اچھی لگی۔ لیکن اس کی ایک بات چونکانے والی تھی۔ ناشتے کی میز پر جو کولڈ ڈرنک کی پیک بچ جاتی شاعرہ انہیں سمیٹ کر اپنے کمرے میں لے جاتی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ صرف اپنے حصّے کی ہی پیک نہیں دوسروں کی بھی بچی ہوئی پیک لے جاتی۔ ہو سکتا ہے یہ اس کی من پسند مشروب ہو جسے وہ اطمینان سے اپنے کمرے میں پیتی تھی۔ لیکن وہ اچھی شاعرہ تھی اور محفل میں توجہ کا مرکز بنی رہی۔ ہندوستان کی شاعرہ بھی کم خوب صورت نہیں تھی۔ دونوں کے ہونٹ ہر وقت لپ اسٹک سے رنگے رہتے تھے۔ ایسا لگتا تھا ان میں مقابلہ حسن جاری ہے۔ دونوں منٹ منٹ پر لباس تبدیل کرتی تھیں اور بالوں کو نئے ڈھنگ سے سنوارتی تھیں۔ میں کبھی اس کے پاس بیٹھتا تھا کبھی اس کے پاس اور میری بیوی مجھے گھور کر دیکھتی تھی۔ ہندوستان کی شاعرہ سونے کی چوڑیاں پہن کر آئی تھی لیکن چوڑیاں اسے پرانی لگ رہی تھیں۔ وہ بار بار کہہ رہی تھی انہیں فروخت کر نگ جڑے کنگن لے گی۔ آ خر فہیم احمد جو منتظمین میں سے تھے اس کو لے کر بازار گئے۔ وہ دوحہ کے کنگن پہن کر بہت خوش ہوئی۔ وہ خاص ادا سے ہاتھوں کو لہراتی کہ نظر ان چاہے بھی کنگن پر پڑ جاتی۔ میں نے محسوس کیا کہ پاکستانی شاعرہ کے سامنے وہ کچھ زیادہ ہی ہاتھوں کو جنبش دیتی تھی۔ کنگن اس کے ہاتھ میں خوش نما بھی لگ رہے تھے۔ وہ اتنی حسین تھی کہ پیتل بھی پہن لیتی تو قطر میں سونے کا بھاؤ گر جاتا۔ میں نے اپنی بیوی کے ساتھ دونوں کی تصویر کیمرے میں قید کی اور اس عنوان کے ساتھ فیس بک پر ڈال دیا ’’تین دیویاں۔۔۔۔ ایک میری والی ہے۔‘‘
جناب گوپی چند نارنگ نے اپنے کی نوٹس میں میری کہانی سنگھاردان کا تجزیہ پیش کیا تو نصیرا لدّین شاہ چونک پڑے۔ شاہ نے اسے اسٹیج کرنے کی تجویز رکھی تو میں نے اپنے افسانوں کا مجموعہ انہیں پیش کیا۔
د وحہ میں تین دن بے حد مصروف گذرے۔ ضیافتیں خوب ہوئیں۔ بھارت کے سفیر نے بھی ہمیں مدعو کیا اور پاکستان کے سفیر نے بھی۔ میں نے دونوں کو اپنی کتا بیں تحفہ میں دیں۔ نصیرا لدین شاہ کی بیگم رتنا پاٹھک نے بہت دلچسپ انداز میں اردو سے متعلّق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اپنی الجھنوں کاز کر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اردو لپی میں اتنے نقطے کیوں ہوتے ہیں کہ نیچے نقطہ ڈالو تو تلّفظ بدل جاتا ہے۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اردو اتنی نازک زبان ہے کہ نقطے کے پھیر سے خدا جدا ہو جاتا ہے۔ جلسے کے دوسرے دن مجھے اپنا خطبہ دینا تھا۔ میں یہاں مختصر میں اس کا اقتباس پیش کرتا ہوں۔
’’اکثر سوچتا ہوں کہ ہم ادب کیوں پڑھتے ہیں ؟ لیکن یہ سوال شاید زیادہ مشکل ہے کہ ہم ادب کیوں نہیں پڑھتے جب کہ ادب ذوق جمال کی تسکین تجربے کی تجدید اور فرط و انبساط سے عبارت ہے۔
اگر جمالیاتی تسکین کے لئے ہم ادب کی طرف مائل ہوتے ہیں تو یہ تسکین گھاس چھیلنے میں بھی ہے۔ ایک شخص اگر اس ترتیب سے گھاس کی کٹائی کرتا ہے کہ خوب صورت روش تیّّار ہوتی ہے تو اس میں بھی اس کے جمالیات کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ گھاس کا مخملی لمس بھی فرحت بخشتا ہے۔
میں نے بہت ڈھونڈا کہ ادب پڑھنے کے میرے ذاتی اسباب کیا ہیں لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔ میں پیشے سے انجینیر ہوں۔ جمالیات کی تسکین مجھے اس وقت بھی ملتی ہے جب میں کوئی اسٹرکچر یا پائپ نٹ ورک ڈیزائن کرتا ہوں۔ علم نجوم کا مطالعہ بھی مجھے سرور بخشتا ہے۔ دشت نجوم کی سیّاحی میں جب برج کواکب سے گذرتا ہوں اور ستاروں سے ہم کلام ہوتا ہوں تو کائنات کے اسرار و رموز پر حیرت ہوتی ہے۔ گر چہ یہ اسرار مجھ پر نہیں کھلتے لیکن مسرّت سے ہمکنار ضرور کرتے ہیں۔ انسانی زندگی پر ان کا اطلاق مجھے اور بھی حیرت میں ڈالتا ہے۔ مجھے صاف نظر آتا ہے کہ جناب عتیق احمد کی خندہ پیشانی میں ستارہ زہرہ کی کارفرما ئی ہے۔ جناب نارنگ کی شخصیت کا استحکام زحل کا عطیہ ہے اور جناب فہیم احمد کی آنکھوں کی چمک عطارد کی چمک جان پڑتی ہے۔
شاید حصول مسرّت کے لئے میں ادب کی طرف رجوع نہیں ہوا۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ پیشے کی یکسانیت سے گھبرا کر میں نے ادب میں پناہ لی۔ یکسانیت کا مسلہ میرے لئے پریشان کن نہیں رہا کہ مختلف علوم انسانیہ سے میری دلچسپی رہی ہے۔ پھر کیا ہے کہ میں ادب پڑھنے پر مجبور ہوا۔ ؟ میں نہیں سمجھتا کہ ادب پڑھنے کے انجینئر یا ڈاکٹر کے الگ وجوہات ہیں۔ آدمی لاشعوری سطح پر نجات کے لئے کوشاں ہے۔ نجات اگر لمحہ موجود میں ہے تو گرفت میں نہیں آتا۔ لمحہ موجود ایک چھلاوہ ہے جو سانس کے زیر و بم کے درمیانی وقفے میں کسی حسن بے پناہ کی طرح پھیلتا ہے اور نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔
بہ طور انجینئر میں اپنی داخلیت میں پل پل مرتا رہا ہوں۔ ٹھیکے داروں کا ناجائز مطالبہ، مزدور یونین کی کھچ کھچ بیوریوکریٹس کی انانیت اور منسٹر کی من مانی نے میری داخلیت میں کئی زخم لگائے۔ میرے اقدار کا چہرہ مسخ ہوا اور میں عدم تحفّظ کے احساس سے گھر گیا۔ داخلیت کو بچانا ضروری تھا۔ مجھے ادب میں پناہ ملی کہ ادب داخلیت کی بازیافت ہے اور نجات کا راستہ داخلیت سے ہو کر گذرتا ہے۔
تخلیق کا جذبہ انسان کی سائکی میں ہے۔ لیکن اس کے محرّکات کیا ہیں ؟ خدا کے محرّکات کیا تھے کہ اس نے کائنات کی تعمیر کی شاید اس نے خود کو آشکارا کرنا چاہا یا خود اس کو اپنے وجود کے امکانات کائنات کے مظہر میں نظر آئے۔
ادیب بھی اپنی دنیا کا خدا ہے۔ وہ بھی خلق کرتا ہے۔ اس کے بھی اپنے محرّکات ہیں۔ شاید خدا اور ادیب کے تخلیقی محرّکات میں کہیں نہ کہیں کوئی جذبہ مشترک ہے۔
انسان نے خدا کو بھی اپنے طور پر آسمانی صحیفوں میں خلق کیا۔ مذہبی اصول و عقائد اور ضابطے بنائے اور ان میں اپنی نجات کی راہ ڈھونڈی۔ لیکن انسان اپنی ہی تحریر کا اسیر ہوا۔ موت جبر نہیں ہے۔ موت برحق ہے۔ جبر ہے انسان کا تحریری نظام جس کے شکنجے میں فرد بھی ہے اور خدا بھی اور نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ انسان نے پھول کم کھلائے اور ہتھیار زیادہ بنائے تہذیبی ارتقا کا راستہ میدان جنگ سے ہو کر گذرا نسلی امتیاز سیاسی استحصال فسادات دہشت گردی اور معاشرے کی بدعنوانیاں دنیا سے کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں انسانی وجود کے امکانات کیا ہیں۔ یہی میرا تجسس ہے اور یہی میرا کرب جو مجھے ادب پڑھنے پر مجبور کرتا ہے اور کسی حد تک لکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔
بہ طور انجینئر سائنس فکشن سے میری دلچسپی کم رہی ہے۔ لیکن میرے پیشے کا میری تحریر پر اثر ہو ا۔ انجنیرینگ ڈیزائن میں اشیا کی کفایت شعاری پہلی شرط ہوتی ہے۔ افسانے کی کرافٹ میں میں نے الفاظ کی اکا نامی economy پر زور دیا۔ ادب سے میری دلچسپی بڑھی تو نفسیات نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔ انسانی رشتے بہت پے چیدہ ہوتے ہیں۔ انہیں سمجھنا اتنا آسان نہیں ہے۔ نفسیاتی ادب پڑھنے کی میں نے تھوڑی بہت کوشش کی۔ فرائڈ، یونگ، ہیو لاک الس، اڈلر اور کرافٹ ایبنگ کے نظریات سے خود کو واقف کرانے کی سعی کی۔ روسو کی کنفیشن میں مسوچیت پسندی کے باب نے مجھے پریشان کیا۔ لیکن کرافٹ ایبنگ نے سائکو پیتھی اسیکسولس میں روسو کی مسوچیت پسندی کا تجزیہ کیا تو مجھے حیرت ہوئی اور نفسیاتی ادب کی افادیت کا احساس ہوا۔ جنس کی نفسیات سے میری دلچسپی بڑھی۔ جنس میرے لئے ٹیبو نہیں رہا۔ ادب میں مجھے جنس کے جمالیات کی تلاش رہی ہے۔ اپنے دکھ مجھے دے دو کی اندو میں مجھے مکمّل عورت نظر آئی۔ منٹو کی جان کی میں یونانی متھ کی افروڈیٹ کو دیکھا۔ میں سمجھتا ہوں ادب کی اپنی اخلاقیات ہے۔ مذہب کی اخلاقیات شاید ادب کی اخلاقیات نہیں ہے۔
ادب میں تبدیلی برحق ہے۔ آج اگر مہابیانیہ زیر زمیں چلا گیا ہے تو تخلیقی بیانیہ کا دور شروع ہو گیا ہے۔ کوئی بھی چیز جدید ہونے سے پہلے ما بعد جدید ہوتی ہے۔ ستّر کی نسل تخلیقی بیانیہ کے ساتھ جس دور میں داخل ہوئی وہ ما بعد جدیدیت کا دور ہے۔
فنکار کسی قوم کسی ملک کسی مذہب سے بندھا نہیں ہوتا۔ فنکار تنہا ہوتا ہے لیکن دوسرے کی تنہائی اس کی تنہائی ہوتی ہے۔ سارے جہاں کا درد اس کے جگر میں ہوتا ہے۔ جب کرّئے ارض پر کہیں بھی بربریت اپنے وحشی پنجے نکالتی ہے ، جب عراق میں بڑی طاقتیں بموں کی کارپٹ بچھاتی ہیں ، فلسطین، لبنان، افغانستان اور برّ صغیر میں بے گنا ہوں کا قتل عام ہوتا ہے تو وہ آنکھ جس سے آنسو کا پہلا قطرہ ٹپکتا ہے فنکار کی آنکھ ہوتی ہے سیاست داں کی نہیں۔ ادیب کی ذمہ داریاں اب بڑھ گئی ہیں۔ ادیب پر پہلے صرف سماجی ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں۔ لیکن اب سماجی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ سیاسی ذمہ داریاں بھی آن پڑی ہیں۔ ہم ایک پر آشوب دور سے گذر رہے ہیں۔ اس عالمی منظر نامے میں اردو افسانہ کو ایک نیا کردار نبھانا ہے۔ لیکن روح کی گہرائیوں میں جب تک کوئی کرب انتہا تک نہیں پہنچتا اس کا فنّی اظہار مشکل ہے۔ کہانی قدم قدم پر بکھری پڑی ہے۔ ہر آدمی کا چہرہ ایک کاغذ ہے جس پر اس کی زندگی کی کہانی لکھی ہوتی ہے۔ اس کاغذ کے بسیار رنگ ہیں۔ یہ کبھی آنسوووں سے بھیگا ہوتا ہے کبھی قہقہوں میں ڈوبا ہوتا ہے۔ کبھی روشنی یہاں ہالہ سا بنتی ہے کبھی تیرگی اپنے ناخن چبھوتی ہے۔ کبھی پھول کھلتے ہیں کبھی کانٹے اگتے ہیں۔ کہانی کار کو کوئی ایک رنگ بھاتا ہے تو کہانی ہوتی ہے کئی رنگوں کے انتخاب سے ناول کی تخلیق ہوتی ہے اور تمام رنگوں کو سمیٹنے کی کوشش مہابیانیہ کو جنم دیتی ہے۔ ایک افسانہ نگار لاکھ کچھ لکھ لے ایک کہانی اس کی زندگی میں ان دیکھی رہ جاتی ہے ان چھوئی رہ جاتی ہے۔ لا شعور کے نہاں خانے میں کسی محبوب کی طرح محو انتظار رہتی ہے۔ مسلسل دستک دیتی رہتی ہے کہ میں یہاں ہوں۔۔۔ تمہارے ارد گرد۔۔۔ میں موجود ہوں ہوا میں لمس کی طرح۔۔۔ پانی میں لہر کی طرح۔۔۔۔ لکڑی میں اگنی کی طرح۔۔۔ آکاش میں شبد کی طرح۔ وہ خوش قسمت ہوتے ہیں جنہیں یہ ان چھوئی کہانی نظر آ جاتی ہے۔ میں اپنی روح کی گہرائیوں میں مسلسل اس کی سرگوشیاں سن رہا ہوں لیکن مجھ میں ابھی اتنی بصیرت پیدا نہیں ہوئی کہ وہاں تک پہنچ سکوں۔ شاید محبوب تک پہنچنے کے لئے مجھے کرب لا متناہی سے گزرنا پڑے گا۔
مجھے اس گھڑی کا انتظار ہے۔‘‘
میں دوحہ سے ۸ نومبر کو لوٹا اور انٹر نیٹ پر بیٹھا تو فیس بک کے پنّے پر ایک کیڑا کلبلاتا نظر آیا۔ ایک نام نہاد افسانہ نگار نے نغمہ بانو کی فیک آئی ڈی بنائی ہے وہ فیس بک پر عورت بن کر سب کو لبھاتے ہیں۔ انہوں نے ایک میسج فلیش کیا۔
’’شمو ئل احمد ایک بد چلن آدمی ہے۔ میں اس کے فلیٹ میں اپنے دو بچّوں کے ساتھ اکیلی رہتی تھی۔ میرے شوہر دبئی میں رہتے ہیں۔ ایک رات شمو ئل احمد شراب پی کر میرے کمرے میں گھس آیا اور میرا ریپ کیا۔ مجھے حیرت ہے کہ ایسے بد چلن آدمی کو ایک مسلم ملک نے بلا کر انعام و اکرام سے کیسے نوازا ؟ میں اپیل کرتی ہوں کہ اس سے ایوارڈ واپس لیا جائے۔‘‘
دیکھتے دیکھتے بہت سے کیڑے رینگنے لگے اور گندگی پھیلانے لگے۔
’’یہ پاپی کون ہے۔ ؟ اس کو سزا ملے گی جس نے ایک پارسا عورت کے دامن کو داغ دار کیا۔‘‘
’’مجھے اس کا پتہ بتایئے محترمہ۔ میں اس کو سزا دلاؤں گا۔
’’شمو ئل احمد کو اللہ جہنّم رسید کرے گا۔‘‘
زہر کو زہر ہی کاٹتا ہے۔ میں نے جواب میں لکھا۔
’’یہ محترمہ خود چل کر میرے پاس آئی تھیں۔ اور کہنے لگیں میں نے بہت دنوں سے سیکس نہیں کیا ہے۔ میں اکیلی رہتی ہوں۔ میرے شوہر دبئی میں رہتے ہیں۔ آپ مجھ سے دوستی کیجیئے اور میری پیاس بجھایئے۔ میں ان سے ہم بستر ہوا۔ ان کے جو دو بیٹے ہیں ان میں سے ایک میرا ہے۔ آپ حضرات سے اپیل ہے کہ میرا بیٹا مجھے دلا دیں۔ میں ڈی۔ ان۔ اے ٹیسٹ کے لئے تیّار ہوں۔‘‘
کیڑا ہمیشہ کے لئے اسکرین سے غائب ہو گیا۔ تہلکہ میگزین کے لئے نرالہ میرا انٹر ویو لینے آئے تو میں نے ان سے اس واقعہ کا ذکر کیا۔ نرالہ نے اسے جون2013 کے شمارے میں شائع کر دیا۔
ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ کوئی سیڑھیاں چڑھتا ہے تو ان کے سینے میں دھواں اٹھتا ہے۔ ایک ایسے ہی نام نہاد ادیب ہیں جو بہت پیار سے ملتے ہیں اور آستین میں کہاں سانپ رکھتے ہیں پتہ نہیں چلتا ہے۔ مجھ سے بھی بہت پیار سے ملے۔ ان دنوں میرا ناول ندی شائع ہوا تھا۔ ادیب محترم نے ندی پر مذاکرے کی تجویز رکھی اور جلسہ آرگنائز کرنے کی ذمّہ داری بھی لی۔ طے ہوا کہ اردو اکاڈمی کے ہال میں جلسہ ہو گا جس کی صدارت وہاب اشرفی کر یں گے۔ کارڈ چھپ گئے۔ کارڈ تقسیم کرنے کی ذمّہ داری بھی ادیب محترم نے لی۔ میں جب اکاڈمی پہنچا تو وہاں ایک شخص بھی نہیں تھا۔ اکاڈمی والوں نے بتایا کہ جلسے کی کوئی خبر ان لو گوں کو نہیں ہے۔ میں نے ادیب کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ ان کے مقام خاص میں پھوڑا اگ آیا ہے، وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ سازش ہوئی ہے۔ سانپ سامنے پھنکار رہا تھا لیکن میں سانپوں سے ڈرتا نہیں ہوں۔ میں نے کچھ دوستوں کو فون کیا کہ اکاڈمی میں ندی پر مذاکرے کا انعقاد کیا گیا ہے۔ دیکھتے دیکھتے مدھو کر سنگھ، متھیلیش کماری مصرا، پریم کمار منی۔ مشتاق احمد نوری، صدّیق مجیبی اور شاہد جمیل وغیرہ پہنچ گئے۔ شاہد جمیل اور نوری نے کچھ اور دوستوں کو بھی بلا لیا۔ علیم اللہ حالی اور طلحہ رضوی برق اور قنبر علی بھی پہنچ گئے۔ جلسہ شروع ہوا جس کی نظامت نوری نے کی۔ ندی پر زور دار بحث ہوئی۔ مجیبی نے ندی کو دو کرداروں پر مبنی ایک انوکھی تخلیق بتائی۔ مجیبی نے کہا کہ ندی اپنی تخلیقی زبان کے لئے بھی جانی جائے گی۔ ندی میں کرداروں کے نام نہیں ہیں اس لئے قنبر علی نے انہیں حی اور شی سے منسوب کیا۔ علیم اللہ حالی کو اعتراض تھا کہ اس میں واقعات کی وہ تہیں نہیں ہیں جس کے لئے ناول جانا جاتا ہے۔ مدھو کر سنگھ نے اسے استری ومرش سے جوڑا۔ نوری نے کہانی کے بین السطور میں نہاں عورت کے لطیف احساسات کی بازیافت کی۔ طلحہ رضوی برق کو اعتراض تھا کہ شی والد محترم کے گھر کیوں بیٹھ گئی۔ ؟ میں نے تمام سوالوں کے جوابات دینے کی کوشش کی۔ حالی سے میں نے کہا کہ ناول میں تو واقعات ہی واقعات ہیں اور آخر آپ واقعہ کی کس طرح شناخت کرتے ہیں۔ مان لیجیئے گرمی سے السائی دو پہر میں ایک لڑکا اداس اپنے کمرے میں بیٹھا ہے۔ کمرے کی ایک کھڑکی باہر سڑک کی طرف کھلتی ہے۔ اچانک ایک خوب صورت سی لڑکی کھڑکی کے پاس آ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ لڑکے کو دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ کہتی ہے۔۔۔ آہستہ سے مسکراتی ہے اور پھر بھاگ جاتی ہے۔ لڑکا حیران ہے کہ کون تھی ؟ وہ بے چین ہو جاتا ہے۔ کھڑکی سے جھانکتا ہے لیکن دور تک سنّاٹا ہے۔ کتنا بڑا واقعہ ہے کہ ایک لمحے کے لئے کوئی اداس لڑکے کی تنہائی میں شریک ہوا اور اس کی داخلیت میں طوفان برپا ہو گیا۔ لیکن ایک پیشہ ور ناقد اسے واقعہ اسی وقت سمجھے گا جب وہ لڑکا کھینچ کر اس لڑکی کو کمرے میں لاتا ہے اور اس کا ریپ کرتا ہے۔
سینے کا دھواں کبھی کبھی بہت لطیف ہوتا ہے۔ آنکھوں میں تیرتا ہے لیکن نظر نہیں آتا۔۔۔ لیکن جو محبّت کرتے ہیں وہ کمال کرتے ہیں۔
ا حمد کلیم فیض پوری ان با کمال لوگوں میں ہیں جو دوستوں کی کامیابی کا جشن مناتے ہیں۔ کلیم بھساول میں رہتے ہیں۔ ان سے میری کو ئی ملاقات نہیں تھی لیکن ان کے افسانے میری نظر سے گذرے تھے۔ میں جب پونے میں تھا تو ان کا فون آیا کہ وہ میرے مدّاحوں میں ہیں اور مجھ سے ملنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ میں اسی دن پٹنہ جانے والا تھا۔ میں نے کہا کہ بھساول پلیٹ فارم پر ملاقات ہو سکتی ہے۔
میری نگاہیں جب پہلی بار انہیں پلیٹ فارم پر ڈھونڈ رہی تھیں تو مجھے ایک پل کے لئے تسنیم کی یاد آئی۔ جب میں پہلی بار اس سے ملنے ماریہ لوک گیا تھا تو بولی تھی کہ وہ مجھے میری آنکھوں سے پہچا نے گی کہ ان میں کسی کے تلاش کا تجسس ہو گا۔ میں آنکھوں میں تجسس کے تمام رنگ لئے احمد کلیم فیض پوری کو پلیٹ فارم پر تلاش رہا تھا۔ ہر آنے جانے والے پر میری نظر تھی۔ ایک درویش صفت آدمی سفید لباس میں نظر آیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک پیکٹ تھا اور چال میں ہلکی سی لنگڑاہٹ تھی۔ اس کے بال لمبے اور ادھ پکّے تھے جسے اس نے پیچھے کی طرف سمیٹ رکھا تھا۔ میں نے اسے ہاتھ کا اشارہ کیا تو اس نے مجھے چونک کر دیکھا۔ اس کی چال تیز ہو گئی اور لنگڑاہٹ کچھ بڑھ گئی۔ وہ قریب آیا تو مجھے لگا اس شخص پر ستارہ مشتری کا اثر ہے۔ آنکھیں روشن تھیں اور ہونٹوں پر مند مند سی مسکراہٹ تھی۔ وہ بہت تجسس سے ٹرین کے ڈبّے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے کہا۔
’’کیسے ہیں کلیم صاحب ؟‘‘
’’ارے۔۔۔ آپ شمو ئل صاحب ہیں ؟‘‘ اس کے لہجے میں حیرت تھی۔
’’خاکسار کو شموئل احمد کہتے ہیں۔‘‘ میں مسکرایا۔
ٍٍ ’’آپ نے مجھے پہچانا کیسے ؟‘‘
’’آپ کی خوشبو مجھ تک آئی۔‘‘
’’کمال ہے جناب !‘‘
کلیم سمجھ رہے تھے کہ میں نے ان کی تصویر کہیں دیکھی ہو گی۔۔ میں نے بتایا کہ ہر آدمی اپنی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے اور ان پر تو مشتری کا اثر صاف نظر آ رہا ہے۔۔ جب میں نے کہا کہ میرے لئے لنچ کا پیکٹ لے کر آ رہے ہیں تو ان کو اور بھی حیرت ہوئی۔ تب میں نے مشتری کے لئے توصیفی کلمات کہے۔
’’مشتری صادق ہے اور ستو گن کے لئے جانا جاتا ہے۔ آپ نے سوچا ہو گا کہ میں پونے سے پٹنہ اتنی دور کا سفر کر رہا ہوں تو میرے ساتھ کچھ کھانے پینے کی بھی چیز ہونی چاہیئے۔‘‘
’’کمال ہے۔۔۔ آپ تو ولی معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ کلیم ہنستے ہوئے بولے۔
’’میں شیطان ہوں اور اس وقت ولی میرے چکّر میں آ گیا ہے۔‘‘
کلیم نے زور کا ٹھہاکہ لگایا۔ وہ ٹھہاکے اسی طرح لگاتے ہیں۔ فون پر ان کا ٹھہاکہ اور زور دار ہوتا ہے۔
ہماری ملاقاتیں پلیٹ فارم پر ہونے لگیں۔ میں جب بھی پٹنہ پونے کا سفر کرتا وہ پلیٹ فارم پر موجود ہوتے۔ بھساول کا ریلوے پلیٹ فارم ہماری عاشقی کا گواہ ہے۔ ہم چائے کی چسکیاں لیتے اور کہانیوں کا چرچہ کرتے۔ یہاں ان کی کہانی بھی سنی ہے اور تبصرہ بھی کیا ہے۔ گرچہ گاڑی کے رکنے کا وقفہ تین منٹ سے زیادہ نہیں ہے لیکن ہم جب بھی ملے گاڑی کچھ تا خیر سے ہی کھلی۔ کلیم کی کہانیوں میں مقامی رنگ کے ساتھ گہرا سماجی شعور ہے۔ زندگی کے ہر چھوٹے بڑے واقعہ پر ان کی نظر گہری ہے۔
کلیم نے اپنے افسانوں کا مجموعہ ’’سا گوان کی چھاؤں‘‘ میرے نام معنون کی ہے اور رسم اجرا کی ادائگی بھی میرے ہاتھوں سے ہی ہوئی تھی۔ ان کا اصرار تھا کہ جلسے کے بعد بھی میں کچھ دن بھساول میں رکوں۔ لیکن بھساول کے سرکٹ ہاوس میں بات چیت کا وہ لطف نہیں تھا جو ریلوے پلیٹ فارم پر آتا تھا۔ پلیٹ فارم پر وقت کی قید تھی اور جب آپ کسی اپنے سے ملتے ہیں اور والہانہ گفتگو میں محو ہوتے ہیں اور کوئی جلّاد کھڑا رہتا ہے کہ چلو۔۔۔ چلو۔۔۔ وقت ہو گیا تو آپ عجیب سی تشنگی لئے لوٹتے ہیں۔ پلیٹ فارم کی ملاقاتوں میں تشنگی کا مزہ تھا۔
کلیم کے دوستوں نے جلگاؤں میں بھی شان دار جلسے کا انعقاد کیا جس کی صدارت عبدا لکریم سالار نے کی۔ سالار مجھے جلگاؤں کے سر سیّد لگے۔ تعلیم کے شعبے میں ا ہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ جلسے کی نظامت نو جوان صحافی مشتاق کریمی نے کی۔ مشتاق نے اپنی کتاب بھی مجھے عنایت کی جس میں ان کے فکر انگیز مضامین ہیں۔ مشتاق نے سماج کے اہم مسائل پر روشنی ڈالی ہے اور ان کا حل بھی تلاشنے کی کوشش کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں مشتاق جیسے صحافیوں کی سماج میں ضرورت ہے۔
کچھ دنوں بعد معلوم ہوا کہ کلیم کو ان کے افسانوی مجموعہ کے لئے مہا راشٹر اردو اکاڈمی نے انعام سے نوازا ہے۔ میں نے مبارک باد دی اور کہا کہ انعام آپ کا اور رقم میری کہ جب بھساول آؤں گا تو اپنے طور پر خرچ کروں گا۔ میں نے یہ بات از راہ مذاق کہی تھی لیکن کلیم نے یہ رقم الگ کھاتے میں ڈال رکھی ہے اور میرے بھساول آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
میں یہاں حسن امام کا ذکر کرنا چا ہوں گا۔ حسن امام کی دلچسپی ادب میں نہیں ہے۔ کبھی کراٹے چیمپین ہوا کرتے تھے۔ اب پھلوں کی تجارت کرتے ہیں۔ وہ اپنی قسمت کا حال جاننے آئے تھے۔ مجھ سے بہت عقیدت سے ملے۔ ان کے رویّے میں کہیں کوئی تصنّع نہیں تھا اور مجھے حیرت ہوئی کہ آدمی اتنا سادہ لوح بھی ہو سکتا ہے۔ آتے ہی میرا ہاتھ چوما اور آنکھوں سے لگایا جیسے میں کوئی پیر ہوں۔ میں انہیں دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ آنکھیں بہت ہنستی ہوئی تھیں جیسی کرک راشی والوں کی ہوتی ہے۔ ہونٹوں پر دلنواز مسکراہٹ رینگ رہی تھی۔ جب زہرہ اپنے ہی خانے میں مرکز میں رہ کر امل جوگ بناتا ہے تو ایسی ہی مسکراہٹ ہوتی ہے۔ حسن نے کسی نئے آدمی کے ساتھ کارو بار شروع کیا تھا اور جاننا چاہتے تھے کہ اس کا ساتھ کس حد تک سود مند رہے گا۔ میں نے کہا وہ دھوکہ دے گا۔ حسن مجھے پیسے دینا چاہتے تھے لیکن میں نے قبول نہیں کیا۔ کچھ دنوں بعد وہ پھر آئے اور ہنستے ہوئے کہنے لگے وہ ان کے بیس ہزار روپے لے کر کہیں چمپت ہو گیا۔ میں یہ سوچ کر مسکرایا کہ یہ شخص اپنی بربادی کے قصّے بھی ہنس ہنس کر سنا رہا ہے۔ اس دن وہ اور بھی عقیدت سے ملے اور میرے ہاتھوں کو دیر تک اپنی آنکھوں سے لگائے رکھا۔۔ میں مخمصے میں تھا۔ ان کا بھرم توڑنا ضروری تھا۔ ورنہ پیر مرشد کے تئیں ان کی جو عقیدت تھی تو کوئی پیر بن کر ان کا استحصال آسانی سے کر سکتا تھا۔ میں نے اس دن ایک بے تکی سی بات کہہ دی تا کہ یہ مجھے جھوٹا سمجھیں اور مجھ سے ان کا موہ بھنگ ہو سکے۔ میں نے کہا آج جب آپ گھر جائیں گے تو بارش ہو گی۔ بارش کا موسم نہیں تھا اور نہ ہی آسمان میں کالے بادل منڈرا رہے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ جب حسن گھر جائیں گے اور بارش وارش کچھ نہیں ہو گی تو مجھے پاکھنڈی سمجھنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ دوسرے دن وہ صبح صبح پھلوں کی ٹوکری لئے میرے گھر آ دھمکے۔ میرے ہاتھوں کو چوما آنکھوں سے لگایا اور بہت عاجزی سے بولے۔
’’آپ نے کہا اور بارش ہوئی۔‘‘
مجھے سارتر کی کہانی ’’وال‘‘ یاد آتی ہے۔ فوجی ایک شخص کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ وہ کہیں چھپ کر بیٹھا ہے۔ فوجی اس کے ساتھی کو پکڑ لیتے ہیں اور اس شخص کا پتہ پو چھتے ہیں۔ ساتھی کو خود نہیں پتہ کہ وہ کہاں چھپ کر بیٹھا ہے۔ لیکن اذیت کے ڈر سے ایک جھوٹ گڑھتا ہے کہ وہ قبرستان میں ایک تابوت کے اندر چھپا بیٹھا ہے۔ فوجی قبرستان جاتے ہیں اور اس شخص کو تابوت کے اندر سے بر آمد کرتے ہیں۔ انگس ولسن اسے مائنڈ کا ایکس فیکٹر بتاتا ہے۔ اس نے اپنی کتاب ’’اہ کلٹ‘‘ میں اس موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے۔
حسن کا آنا جانا بڑھ گیا۔ لیکن میں محتاط رہنے لگا تھا۔ میں اب کوئی پیشن گوئی نہیں کرتا تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ مجھے اپنا پیر سمجھیں اور اس طرح کا کوئی رشتہ استوار کریں۔ لیکن وہ اسی عقیدت سے ملتے اور ہمیشہ کچھ نہ کچھ لے کر آتے۔ وہ اب اپنے بارے میں کچھ پوچھتے نہیں تھے۔ ادھر ادھر کی باتیں کرتے اور چلے جاتے۔ وہ کہتے تھے ’’آپ کو دیکھ لیا میری تسلّی ہو گئی۔‘‘
حسن کی ایک لڑکی ٹینس کھیلتی ہے اور اسٹیٹ لیول کی کھلاڑی ہے۔ ایک بار وہ کچھ پریشان نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ معین الحق اسٹیڈیم میں ٹینس کا کوئی میچ تھا جس میں اس کے ساتھ بے ایمانی ہوئی اور وہ میچ ہار گئی۔ اس دن کے بعد وہ ایک دم چپ رہنے لگی تھی اور اسکول جانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ حسن کو کسی مولانا نے بتایا کہ اس پر کوئی جن عاشق ہو گیا ہے۔ وہ مولوی سے دعا تعویذ کرا رہے تھے۔ میں نے حسن سے کہا کہ ایسی حماقت نہیں کریں۔ اس لڑکی کو صدمہ پہنچا ہے وہ اپنی ہار سے شرمندہ ہے۔ میں نے سائکیٹرسٹ سے ملنے کی صلاح دی اور ڈاکٹر وینئے کو فون کیا کہ میرے ایک دوست جا رہے ہیں انہیں وقت دے دیں۔ حسن لڑکی کو لے کر وہاں گئے۔ دو چار دن کی کاونسلنگ کے بعد وہ ٹھیک ہو گئی۔
ایک بار بہار اردو اکاڈمی نے میرے اعزاز میں جلسہ کیا۔ جلسے کا اعلان اخبار میں شائع ہوا۔ میں اکاڈمی گیا تو وہاں حسن موجود تھے۔ مجھے دیکھتے ہی شکایت کی کہ انہیں خبر کیوں نہیں کی۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس بات پر رنجیدہ تھے کہ میں انہیں اپنی خوشیوں میں شریک نہیں کرتا۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ شخص مجھ سے محبّت کرتا ہے۔
جلسے میں جب مجھے شال اوڑھایا گیا تو میں نے مائک پر کہا۔
’’میں بے حد شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے اتنی عزّت بخشی لیکن اس مجمع میں ایک ایسا شخص بھی ہے جو میرے لئے محرّک ہے اور میرے فن کو جلا بخشتا ہے۔ ان سے ملنے کے بعد میں ہمیشہ تخلیقی توانائی سے سرشار ہوتا ہوں۔ ان کا نام حسن امام ہے۔ یہ میری تخلیق کے پہلے قاری ہیں۔ مجھے جو اعزاز دیا گیا ہے وہ میں ان کے ساتھ بانٹنا چاہتا ہوں۔
میں نے حسن امام کو منچ پر بلایا اور اپنا شال انہیں اوڑھا دیا۔
میری ٹیلی فلم مرگ ترشنا کی جب شوٹنگ شروع ہوئی تو میں نے انہیں گورکن کا رول دیا جسے انہوں نے بہ خوبی نبھایا۔ لیکن مجھ سے ایک حماقت بھی سر زد ہوئی۔ میں ان کے ایک کام سے بہت خوش تھا۔ وہ مجھ سے ملنے آئے تو میں نے مذاق میں کہا ’’حسن امام صاحب ! میں آپ کا کلیجہ کھاؤں گا۔‘‘
حسن امام چونک کر بولے۔ ’’کیوں ؟ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں۔۔۔۔ ؟‘‘
’’ایسا اس لئے کہہ رہا ہوں کہ آپ کا کلیجہ بہت بڑا ہے۔ میں کھاؤں گا تو میرا کلیجہ بھی بڑا ہو جائے گا۔‘‘
حسن چپ رہے۔ پھر کس وقت چپکے سے چلے گئے مجھے پتہ نہیں چلا۔
دوسرے دن ان کے بھائی کا فون آیا کہ میں نے حسن امام سے ایسی بات کیوں کہی ؟ انہیں بہت دکھ ہوا ہے۔ وہ بیمار پڑ گئے ہیں۔ ‘
میں سکتے میں آ گیا۔ اس دن گیا سے افسانہ نگار سیّد احمد قادری آئے ہوئے تھے۔ انہیں یہ واقعہ بتایا تو وہ سنجیدہ ہو گئے۔ اور بولے کہ میں اس سے مل کر غلط فہمی دور کروں ورنہ وہ شخص دکھ سے مر جائے گا۔ میں قادری کے ساتھ حسن امام کے گھر گیا۔ وہ گھر پر نہیں تھے۔ گھر والے بتا بھی نہیں سکے کہاں ملیں گے ؟ فون بھی ملایا تو نہیں ملا۔ مجھے فکر ہوئی کہ کہیں دکھ سے مر نہ جائے۔ میری بات کو انہوں نے دل سے لیا تھا۔ وہ میری ہر بات کو پتّھر کی لکیر سمجھتے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ میں کوئی تنتر کروں گا اور ان کا کلیجہ نکال لوں گا۔
کچھ دنوں بعد پھر فون ملایا تو مل گیا۔ میں نے معافی مانگی اور انہیں سمجھایا کہ آپ نے مذاق کو دل سے لے لیا۔ انہیں احساس ہوا کہ میں اس بات کو لے کر پریشان ہوں۔ وہ مجھ سے ملنے آئے تو میں نے انہیں سمجھایا کہ یہ تو محاورہ ہے کہ دل لے لیا یا کلیجہ نکال لیا۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپر یشن کیا اور کلیجہ نکال کر رکھ لیا۔ اور میں کوئی ڈائن تو نہیں کہ ایسا کروں گا ؟ مجھے غصّہ آ رہا تھا کہ یہ شخص اتنا سادہ کیوں ہے کہ میری ہر بات کو خدا کا فرمان سمجھتا ہے۔
حسن اب پہلے کی طرح آتے ہیں اور مجھے بھی سبق مل گیا کہ جو تم سے محبّت کرتے ہیں ان سے کبھی منفی مذاق مت کرو۔ یہاں میں پٹنہ کے دگھا نواب کوٹھی والے جمال سعید کا بھی ذکر کرنا چا ہوں گا جو میرے دوستوں میں ہیں لیکن جنہیں میں نے کبھی دیکھا نہیں کبھی ملاقات نہیں کی۔ یہ شان دار شخصیت کے مالک ہیں۔ دبئی میں رہتے ہیں اور میرے فیس بک کے دوست ہیں۔ میں جب اوب جاتا ہوں تو انہیں فیس بک پر ڈھونڈتا ہوں۔ ان سے بے تکی باتیں ہوتی ہیں جن کی ادبی حیثیت نہیں ہے۔ لیکن یہ باتیں رس دار ہوتی ہیں ہ۔ دوستی اپنا مول الگ رکھتی ہے۔
فیس بک پر میرے چار ہزار سے زیادہ دوست ہیں جن میں زیادہ تر عورتیں ہیں۔ اصل میں مجھے کہانی کی تلاش رہتی ہے۔ میں کبھی چیٹنگ کے جنگل میں بھٹکتا تھا۔ وہاں سے کہانی نکالی ’’عنکبوت‘‘۔ اب فیس بک پر ناول لکھنا چاہ رہا ہوں۔ یہاں کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ !
٭٭٭