[10]
ادیبوں کو بڑھاپے میں شہرت کی ہوس بڑھ جاتی ہے۔ ہارے ہوئے تخلیق کار کہانی چوری کرتے ہیں اور ہوس کے شکار مدیر مسّودے۔
میرے ساتھ یہی ہوا۔ روندرکالیہ نے میری محنت پر اپنے نام کا لیبل چپکایا۔ میں کبھی ہندی میں کچھ کتابیں ترتیب دینا چاہ رہا تھا۔ مثلاً اردو کی پریم کہانیاں، اردو افسانے کی بے وفا عورتیں، پاکستان کی اردو کہانیاں ، فساد کی اردو کہانیاں۔ اردو کی نئی کہانیاں، اردو کی جدید کہانیاں وغیرہ۔ میں نے قریب سو سے زیادہ کہانیوں کا ہندی ترجمہ بھی کیا اور مسوّدہ گورکھ پور کے شیوال پرکاشن کو ارسال کیا۔ شیوال نے ہندی میں میرا ناول ’ مہاماری ‘ شائع کیا تھا۔ شیوال نے مہاماری کے فلیپ پر ان کا اشتہار شائع کر دیا۔۔ اشتہار پڑھ کر کالیہ نے میرے آئڈیا کی چوری کی اور گیا نودے کے بے وفائی نمبر کا اعلان کیا۔ اس دوران شیوال پر کاشن بند ہو گیا تو میں نے ’اردو افسانے کی بے وفا عورتیں ‘ کا مسودہ پٹنہ کے جاگرتی پر کاشن کو دے دیا۔ اس بیچ کالیہ کا فون آیا کہ وہ گیا نو دے کا بے وفائی نمبر نکالنا چاہتے ہیں۔ کالیہ نے مجھ سے تعاون کی در خواست کی اور کہا کہ وہ میرا نام معاون مدیر کی حیثیت سے شائع کریں گے۔ لیکن مجھے شک تھا کہ وہ میرا نام دیں گے کیوں کہ وہ فون پر کہہ رہے تھے کوئی خط نہیں لکھا تھا۔ خط لکھ کر وہ کوئی تحریری ثبوت چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ کالیہ یوں بھی موقع پرست ہیں اور اپنے مفاد کا کوئی موقع ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتے۔ انہوں نے مجھ پر دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ ادھر جاگرتی پرکاشن میں بھی تا خیر ہو رہی تھی۔ میں نے بہتر یہی سمجھا کہ گیانودے کو بھیج دوں تا کہ اردو کی کچھ کہانیاں ہندی کے بڑے فلک پر نمایاں ہو سکیں۔ ’’اردو افسانے کی بے وفا عورتیں‘‘ کا مسّودہ میں نے کالیہ کو ارسال کر دیا۔
گیا نو دے کا بے وفائی نمبر شائع ہوا۔ میرے نام کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔ کالیہ نے خوب دادو تحسین حاصل کی جب کہ اس نمبر کی سبھی کہانیاں میری ترتیب دی ہوئی ہیں۔ گیا نودے میں میری کئی کہانیاں شائع ہوئی ہیں۔ کالیہ نے مجھے کسی کا معاوضہ نہیں دیا۔ شروع میں رسالہ مجھے آتا تھا اب وہ بھی نہیں آتا۔
میں بے شرم کو بے شرم نہیں کہتا۔۔۔۔ لیکن روندر کالیہ پر مجھے رحم آتا ہے بچارے کالیہ جی۔۔۔۔ !
میرے ساتھ اکثر ایسا ہوا ہے۔ کہانیاں چوری ہوئیں اور پتہ نہیں چلا۔ بگولے کی چوری کا ذکر پہلے کر چکا ہوں۔ کہانی سنگاردان بھی لوٹ لی گئی۔ اچھا لکھنا گویا عذاب ہوا۔ سنگاردان کو علی گڑھ دہلی اور ممبئی میں کئی بار اسٹیج کیا گیا اور میری اجازت نہیں لی۔ اردو اکاڈمی دہلی نے بھی اسے اسٹیج کیا۔ کہیں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ یہ ڈرامہ شموئل احمد کے افسانے سنگھاردان پر مبنی ہے۔ کردار کے نام بھی بدل دیئے گئے۔ ڈرامہ نگار نے اکاڈمی سے پیسے بھی وصول کیئے اور مجھے کوئی خبر نہیں۔ میں نے سکریٹری اردو اکاڈمی کو خط لکھا کہ نسیم جان کا سنگھاردان تو بر جمو ہن نے لوٹا شمو ئل احمد کا سنگھاردان کس نے لوٹا۔۔۔۔ ؟
ممبئی کے ایک پرو ڈیو سر بشیر دیسائی نے سنگھاردان پر اکیاون قسطوں میں سیریل کی تعمیر کی اور مجھ سے اجازت نہیں لی اور میرا نام بھی سیریل میں کہیں شامل نہیں کیا۔۔ دہلی دور درشن کا اردو چینل اسے نشر کر نے جا رہا تھا کہ مجھے خبر ہوئی۔۔ میں نے اردو چینل کو نوٹس بھیجی کہ کہانی میری ہے اور بغیر میری اجازت کے نشر ہوئی تو رائلٹی کا مقدمہ دائر کر وں گا۔ نشر کا کام رک گیا۔ بشیر دیسائی دوڑ کر پٹنہ آئے۔ سیریل پر اس کے چھبیس لاکھ روپے خرچ ہو چکے تھے۔ اسے دیکھتے ہی میں نے سخت سست کہنا شروع کیا کہ مجھ سے اجازت کیوں نہ طلب کی۔ وہ چیخ چیخ کر رونے لگا۔ وہ اپنے جرم پر قطعی نادم نہیں تھا اور اس بات کے لئے رو بھی نہیں رہا تھا۔ وہ رو رہا تھا کہ اس کے چھبیس لاکھ روپے ڈوب گئے۔ آنسو اس کے رخسار پر ڈھلک رہے تھے اور میرا غصّہ بڑھ رہا تھا۔ اچانک آنسووں سے تر اس کے چہرے میں مجھے کامل کا چہرہ نظر آیا۔۔۔۔۔ کامل میرا نواسہ۔ جب گھر میں اس کو ڈانٹ پڑتی ہے تو اسی طرح چیخ چیخ کر روتا ہے اور پل بھر میں اس کا چہرہ آنسووں میں ڈوب جاتا ہے۔ اس کی آنکھیں بھی کامل کی آنکھوں کی طرح چھوٹی اور گول تھیں۔ آنسووں سے لبالب کٹوری میں کامل کا چہرہ ڈوب اور ابھر رہا تھا۔ کامل جب روتا ہوا میرے پاس آتا ہے تو اسے سینے سے لگا لیتا ہوں اور گھر میں سب کو برا بھلا کہتا ہوں کہ بچّے کو رلا یا کیوں ؟ اور ابھی میں خود اسے رلا رہا تھا۔۔۔۔ !
میں نے بشیر کو معاف کر دیا۔
بشیر نے سی ڈی بدل دی ہے اور اس میں میرا نام ڈال دیا ہے لیکن نشر ابھی بھی التویٰ میں ہے۔
وہاب اشرفی کہا کرتے تھے کہ ہر طرح کی برائی ادیبوں میں ہوتی ہے۔ وہ شراب پیتا ہے، عورتوں کے پیچھے بھاگتا ہے لالچی ہوتا ہے، تخلیق چوری کرتا ہے، گروپ بندی کرتا ہے اور جینوئن ادیب کو ابھرنے نہیں دیتا ہے۔ ادبی سماج میں ہر بونا اپنے کو قد آور بتاتا ہے اور دوسرے کو ٹھگنا قد سمجھتا ہے۔ اور سنجیدہ ادیب کو ذلیل کرنے کے ہتھکنڈے اپناتا ہے۔
ایک بھائی صاحب کا عجب حال دیکھا۔ ایک دن اپنے بچّے کو اسکول چھوڑنے گیا تو دیکھا وہ بھی اپنے ننھے سے بیٹے کو لے کر موجود ہے۔ معلوم ہوا نر سری میں داخلہ کرایا ہے۔ پوچھا پا ٹلی پترا میں کہاں رہتے ہو تو کہنے لگا یہ بورژوا کالونی ہے۔ یہاں کا کرایہ ادا نہیں کر سکتا، اس لئے مہندرو سے ہی آتا جاتا ہو ں۔ وہ روز صبح بیٹے کو پہنچانے آتا اور گیارہ بجے بیوی لینے آتی۔ میں بہت متاثر تھا کہ بچّے کی اچھی تعلیم کے لئے یہ جوڑا کتنا جوکھم اٹھا رہا ہے باپ۔ بیس کیلو میٹر دور مہندرو سے بچّے کو اسکول پہنچاتا ہے ماں گیارہ بجے گھر لے جانے آتی ہے۔ میں نے اپنی بیوی سے ان کی تعریف کی تو اس نے مجھے گھور کر دیکھا۔
’’آپ افسانہ کیا لکھتے ہیں۔‘‘
’’کیوں ؟‘‘ مجھے بیوی کا لہجہ برا لگا۔
’’آپ اپنے کو ماہر نفسیات سمجھتے ہیں اور کچھ نفسیات نہیں جانتے۔‘‘
’’کیا بات ہوئی ؟‘‘ میں جھنجھلا گیا۔
’’آپ معلوم کیجیئے۔ یہ لوگ یہیں رہتے ہوں گے۔ میں مان نہیں سکتی کہ یہ مہندرو سے آتے ہیں۔‘‘
’’ایسا کیوں کہہ رہی ہو ؟‘‘
’’ایک دن یا دو دن آ سکتے ہیں۔ روز روز نہیں آ سکتے۔ آ خر وہ عورت ہانڈی چولہا بھی کرتی ہو گی۔ کھانا بھی بناتی ہو گی۔ شوہر کو ٹفن بھی دیتی ہو گی۔ گیارہ بجے بچّے کو لینے آتی ہے نو بجے گھر سے نکلتی ہو گی اور دو بجے واپس گھر پہنچتی ہو گی۔ پھر کھانا کب بنائے گی اور بچّے کو کب کھلائے گی۔ ؟‘‘ میں لا جواب ہو گیا۔
صمد پاٹلی پترا میں رہتے تھے۔ وہ ان سے واقف تھے ایک دن پوچھا کہ یہ شخص کہاں رہتا ہے تو اپنی بالکونی میں لے گئے اور سامنے مکان کی طرف اشارہ کیا۔ ’’دیکھیئے۔۔۔۔ اس کا بچّہ کھیل رہا ہے۔ وہ اس مکان میں پچھلے تین مہینوں سے رہ رہا ہے۔‘‘
مجھے اپنے احمق ہونے کا احساس ہوا۔ اور یہ پہلی بار نہیں ہے۔ میں اکثر لوگوں پر یقین کر لیتا ہوں اور بیوقوف بنتا ہوں۔
محترمہ رخشندہ جلیل انگریزی میں اردو کہانیوں کا مجموعہ شائع کرنا چاہتی تھیں۔ رخشندہ نے دو الگ الگ مجموعے کے لئے مجھ سے دو کہانیاں طلب کیں۔ میں نے سنگاردان اور بدلتے رنگ بھیج دی۔ پبلشر تھے روپا اینڈ کمپنی۔ میں نے پوچھا کہ کہانیوں کا معاوضہ کیا ملے گا تو ان کا ای میل موصول ہوا کہ اردو افسانہ نگاروں کو معاوضہ نہیں دیا جاتا ہے۔ میں نے کہانیاں واپس مانگ لیں۔
مدیر کو پیسہ ملے گا، پبلشر بھی پیسے کمائے گا لیکن اردو کا افسانہ نگار گویا کتّے کی ذات ہے۔ اسے ایڈیٹر اور پبلشر کے پیچھے دم ہلاتے رہنا چاہیئے۔ اردو تخلیق کاروں کو اپنی لڑائی خود لڑنی پڑے گی ورنہ ان کا استحصال ہوتا رہے گا۔
زبیر رضوی نے بھی یہی کیا ہندی میں۔ فساد کی اردو کہانیاں ایڈٹ کیں جسے راج کمل نے شائع کیا۔ معاوضہ تو دور کی بات ہے راج کمل نے کتاب کی اعزازی کاپی بھی عنایت نہیں کی۔
ادبی دنیا میں اپنی پہچان بنانا آسان نہیں ہے۔ دوسرے ہر وقت ٹانگیں کھینچنے میں لگے رہتے ہیں۔ خود دار تخلیق کار کو ادب کے مہنت قبول کرنا نہیں چاہتے۔ لیکن کب تک۔۔۔۔۔ ؟ میرا ماننا ہے کہ اگر تخلیق خود بولتی ہے تو اس کی آواز کو ان سنی نہیں کر سکتے اور اگر خود نہیں بولتی تو دوسرے کہاں تک بو لیں گے ؟
مجھے سنت گیانیشور کی یاد آتی ہے۔ گیانیشور نے تیرہ سال کی عمر میں گیتا کی بھاشا ٹیکا لکھی جو ’’گیا نیشوری‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ جو کتابیں میں سینے سے لگا کر رکھتا ہوں ان میں گیانیشوری بھی ہے۔ گیتا کی اب تک جتنی تشریح ہوئی ہے ان میں گیانیشوری اعلیٰ ہے۔ لیکن گیانیشور مہاراج کو بھی ان کے سمے کے پنڈتوں نے پریشان کیا اور ان کی نفی کرنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ ایک بار ان سے کہا گیا کہ اگر تم اپنے کل کو پاک کرانا چاہتے ہو تو اس بھینس کے منھ سے وید کی ریچائیں سنواؤ۔ گیانیشور مہاراج نے بھینس کا سر تھپتھپایا اور اس کے منھ سے وید کی ریچائیں پھوٹ پڑیں۔
سماج آج بھی وہی ہے جو رشی منیوں کے وقت میں تھا۔ ذہنی ارتقا میں آ دمی کے ناخن نہیں بدلے۔۔۔۔۔ وہی تیز دھار۔۔۔۔ وہی حسد۔۔۔۔۔ وہی غصّہ۔۔۔۔ وہی نفرت۔ آج بھی ہم دوسرے کو آسانی سے تسلیم نہیں کرتے۔ پٹنہ کے سنجے کمار کندن ایمان دار افسر ہیں اور ایمان دار شاعر بھی۔ کندن اپنی شاعری میں اردو الفاظ کا استعمال بہت خوب صورتی سے کرتے ہیں اور ان کا تلفّظ بھی صحیح ہے۔ ان کا لہجہ بنیادی طور پر اردو لہجہ ہے۔ کندن اردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے لیکن ان کی ہر نظم اردو نظم ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندی سماج انہیں قبول نہیں کرتا کہ یہ اردو کے شاعر ہیں اور اردو کے مہنت انہیں یہ کہہ کر ردّ کرتے ہیں کہ یہ تو اردو لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتے تو اردو کے شاعر کیسے۔۔۔۔ ؟ میں جب ان سے اس بات کا ذکر کرتا ہوں تو مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
ان کا شعری مجموعہ راج کمل سے شائع ہوا ہے جو ہاٹ کیک کی طرح بکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف لوگ انہیں پڑھنے کے لئے بے چین رہتے ہیں اور دوسری طرف انہیں قبول کرنا بھی نہیں چاہتے۔
آزادی کی جنگ میں اردو نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن آزادی کے بعد اردو اپنے ہی گھر میں پرائی ہو گئی۔ وجہ یہ کہ پاکستان میں اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا جس سے اردو مسلمانوں کی زبان سمجھی گئی۔ اتر پردیش میں جب اسے علاقائی زبان کی حیثیت دیے جانے کا امکان روشن ہوا تو نامور سنگھ کو باسی بھات میں خدا کا ساجھا نظر آیا۔ حیرت ہے کہ بام پنتھی سوچ بھی ایسی ہو سکتی ہے۔ لیکن جن وادی سنگٹھن نے اردو کے حق میں بیان جاری کئے۔ بیچاری اردو جس کے گیسو پنڈت رتن ناتھ سرشار نے سنوارے اور بیدی اور کرشن جس کی زلفوں کے اسیر ہوئے اپنے ہی ملک میں پرائی ہو گئی۔ شاید کچھ ایسے ہی عوامل ہیں کہ اردو معاشرہ عدم تحفظ کے احساس سے دوچار ہوا۔ اردو تخلیق کاروں کے لاشعور میں عدم تحفظ کا احساس آکاش میں شبد کی طرح نہاں ہے اور یہی ان کا تخلیقی منبع بھی ہے اور قوت اظہار بھی۔
۱۹۳۰ء کے آس پاس اردو میں رومان پسندی کا دور تھا۔ ہندی کے ادبی افق پر بھی کم و بیش یہی منظر تھا۔ سجاد ظہیر اور کچھ دوستوں نے رومان پسندی سے اپنی اکتاہٹ کا اظہار کیا اور سماج کی بد عنوانیوں کو نشانہ بناتے ہوئے نئے اسلوب کی تیکھی کہانیاں لکھیں اور انہیں ’انگارے‘ کے نام سے شائع کیا۔ ’انگارے ‘ نے انگارے کا کام کیا۔ حکومت نے اس کے نسخے ضبط کئے لیکن ترقی پسند ادب کی بنیاد پڑ گئی اور اردو میں سماجی حقیقت نگاری کا دور شروع ہوا۔
۱۹۳۶ء میں پریم چند کی صدارت میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا پہلا جلسہ منعقد ہوا اور پریم چند نے اپنی افسانہ نگاری کے آخری پڑاؤ پر ’کفن‘جیسی کہانی لکھی۔ اس سے پہلے بھونیشور نے انوکھے انداز میں کہانی ’بھیڑیے‘ لکھی جس میں ہندی کی نئی کہانی کے امکانات پوشیدہ تھے۔ کہانی علامتی تھی۔ بھیڑیا فرنگی جبر اور استحصال کا استعارہ ہے۔ بھیڑیے سے جنگ نسل در نسل جاری رہتی ہے۔ باپ بھیڑیے کے عتاب کا شکار ہوتا ہے اور اب بیٹا اس سے نبرد آزما ہے۔ کہانی آج کے تناظر میں بھی تازگی کا احساس دلاتی ہے اور اسے پڑھتے ہوئے ندرت کا احساس ہوتا ہے۔ بھلے ہی کفن سے کہانی میں حقیقت نگاری کا دور شروع ہوا ہو لیکن نئی کہانی تو’ بھیڑیے‘سے ہی شروع ہو تی ہے۔ بھونیشور جوانی میں ہی گزر گئے اس لئے بھی چرچے میں نہیں رہے۔
آزادی کے آس پاس اردو اور ہندی میں حقیقت نگاری کا دور شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں جو تخلیق کار ابھر کر سامنے آئے ان کی فہرست لمبی ہے۔ کچھ پہلے سے بھی لکھ رہے تھے، کچھ نے لکھنا ترک کر دیا۔ اس دور میں احمد ندیم قاسمی اور یش پال کی ’پیڑھی ‘نے سماجی بد عنوانیوں کی طرف اشارہ کیا۔ یش پال کی کہانی ’دھرم یدھ‘قاسمی کی ’جوتا‘ وشنو پر بھاکر کی ’دھرتی اب بھی گھوم رہی ہے ‘۔ چندر گپت ودّیالانکر کی ’واپسی‘، سہیل عظیم آبادی کی ’الاؤ‘، علی عباس حسینی کی ’میلہ گھومنی‘، امرت لال ناگر کی ’پڑھے لکھے براتی‘، غلام عباس کی ’آنندی‘، امرت رائے کی ’گیلی مٹّی‘، بھیرو پرساد کی ’چائے کا پیالہ ‘، حسن عسکری کی ’چائے کی پیالی‘، رانگے راگھو کی ’گدل‘، حیات اللہ انصاری کی ’آخری کوشش‘ اور بہت سی دوسری کہانیوں کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ یہاں ہندی اور اردو کہانیاں ساتھ ساتھ چلتی نظر آتی ہیں۔
جینندر اور ممتاز مفتی کی کہانیوں کا محور نفسیاتی رہا۔ جینندر تو پریم چند کے زمانے سے ہی لکھ رہے تھے۔ جینندر اور مفتی کے یہاں اسلوب کا تنوع تھا۔ دونوں نے گھریلو بندھن کی کہانیاں لکھیں اور انسانی رشتے میں جنس کی کار فرمائی کی طرف اشارہ کیا۔ جینندر کی کہانی ’پتنی‘ اور مفتی کی ’آپا‘ تو اتنی مشہور ہوئی کہ وہ ساری زندگی ’آپا‘ سے دامن نہیں چھڑا سکے۔
۱۹۵۵ء کے قریب ترقی پسند ادب کا اثر پھیکا پڑنے لگا اور جدیدیت انگڑائیاں لینے لگی۔ نامور سنگھ نے بھی ہندی میں نئی کہانی تلاش کی۔ جدیدیت میں سماج کی جگہ فرد نے لے لی۔ فرد اور فرد کی ذات، ذات کی تنہائی اور تنہائی کا کرب جدید کہانی کا مرکز بنا۔ کہانی سے کردار غائب ہونے لگے۔ واقعات کی جگہ محسوسات نے لے لی۔ اور کردار اپنی ذات کے خول میں سمٹ گئے۔ جدید افسانہ نگاروں نے اسلوبیاتی سطح پر تجربے کئے اور کہانی کو تجریدیت کی شکل عطا کی۔ جدیدیت کے دور میں اردو کہانی ہندی کہانی سے الگ کھڑی نظر آتی ہے۔ جدیدیت کا تنہا آدمی نامور سنگھ کو نرمل ورما کی کہانیوں میں نظر آیا۔ نرمل ورما کی کہانی ’پرندے ‘ سے نامور سنگھ ہندی کی نئی کہانی کی شروعات مانتے ہیں، لیکن نرمل کے یہاں آدمی کا اکیلا پن لعنت سے زیادہ نعمت ہے۔ ان کے کردار اکیلے پن کا لطف لیتے ہوئے یادوں میں جیتے ہیں اور اکیلے پن کو اکیلے پن سے ختم کرتے ہیں۔
نامور سنگھ نے نئی کہانی کی جس بحث کو جنم دیا اسے کملیشور، موہن راکیش اور راجندر یادو نے آگے بڑھایا اور حقیقت کو نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی۔ نئی کہانی کے اس’ تکون ‘ نے اپنی پچھلی پیڑھی کی نفی کی اور’ بھوگے ہوئے یتھارتھ ‘ یعنی اس حقیقت پر زور دیا جو تجربے میں آئی۔ انہوں نے صاف لفظوں میں بیان کیا کہ کہانی میں حقیقت کا تصور نہیں، حقیقت کا نجی تجربہ چاہئے۔ ہندی میں نئی کہانی کا دور سنہری دور کہا جائے گا۔ پاکستان میں انتظارحسین اور انور سجاد اور ہندوستان میں سریندر پرکاش اور مین را جدید افسانہ نگاروں میں نمایاں ہوئے۔ انتظار حسین نے داستانی اسلوب کی داغ بیل ڈالی۔ سریندر پرکاش نے تجریدیت کا سہارا لیا۔ مین را اور انور سجاد نے فوٹو تکنیک میں کہانیاں لکھیں۔ دیوندر اسّر وجودیت کے قریب بھی آ گئے۔ بلراج کومل نے ’کنواں ‘جیسی جدید کہانی لکھی لیکن اقبال مجید نے جدیدیت کا رنگ قبول نہیں کیا، پھر بھی ان کے قلم سے ’دو بھیگے ہوئے لوگ‘ جیسا شاہکار افسانہ خلق ہوا۔ غیاث احمد گدی پر شب خون کا اثر ہوا۔ غیاث نے ’تج دو تج دو‘ اور پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘جیسی کہانیاں لکھیں۔ نیّر مسعود اپنے خوبصورت ڈکشن کے ساتھ ’طاؤس چمن کی مینا‘ لے کر اردو افسانے میں داخل ہوئے۔
سریندر پرکاش اور مین را وغیرہ کی جدید کہانیوں کا ترجمہ ’ساریکا‘ میں شائع ہوا۔ ہندی کے کچھ ایک افسانہ نگاروں پر جدیدیت کا اثر دیکھا جا سکتا ہے۔ کرشن بلدیو وید کی کہانی ’اس چیز کی تلاش‘ ایک جدید کہانی ہے۔ نوین ساگر’اندھیرا پر ہسن ‘ اور دوسری کہانیوں میں سریندر پرکاش کے بہت قریب نظر آتے ہیں۔ رمیش اپادھیائے جیسے حقیقت پسند افسانہ نگار نے بھی ہوا، پانی اور مٹّی کو لے کر چار کہانیوں کی سریز داستانی اسلوب میں لکھی۔ ششانک ابھی بھی جدید ہیں۔ کملیشور پر انتظار حسین کا اثر دیکھا جا سکتا ہے۔ کملیشور ’راجہ بنسیہ‘ میں لوک کتھا کے پس منظر میں نچلے متوسط طبقے کی کہانی کہتے ہیں جس میں اسلوب کی جدّت ہے۔ کملیشور نے اپنے ناول ’کتنے پاکستان‘ میں متھ کو بھی شیلی کا حصہ بنایا ہے لیکن یہ چیز ان کے یہاں اوڑھی ہوئی لگتی ہے جب کہ انتظار حسین کے یہاں کہانی عصری آگہی لئے متھ کی گہرائیوں سے ابھرتی ہے۔
ستّر کی دہائی میں اردو کہانی جدیدیت کے چونچلے سے آزاد ہوتی نظر آتی ہے۔ جدید کہانی کا سب سے بڑا مسئلہ ترسیل کا تھا۔ کہانی قاری سے کٹ کر رہ گئی تھی ستّر کی نسل نے وقت کے تقاضے کو محسوس کیا اور کہانی کو مرکزی دھارے سے جوڑا۔ عبدالصمد، حسین، ساجد، انور، قمر، شفق، طارق، اشرف، انیس اور غضنفر وغیرہ اس دور کے اہم افسانہ نگار ہوئے۔ نیر مسعود پر اسراریت غالب رہی اور مظہر الزماں خاں انتظار حسین کے سائے سے نکلے تو رشید امجد کے قریب ہو گئے۔
ہندی کہانی میں چھوٹے موٹے آندولن ہوتے رہے ہیں۔ روندر کالیہ نے غیر کہانی کی مہم چلائی لیکن کالیہ کوئی مورچہ نہیں بنا سکے اور جلد ہی اس سے الگ ہو گئے۔ ڈاکٹر مہیپ سنگھ نے سچیتن کہانی کا جھمیلا کھڑا کیا، لیکن سچیتن کہانی میں تخلیقیت کا مسئلہ پیدا ہوا۔ نئی کہانی کے بعد کملیشور نے عام آدمی کا نعرہ اچھالا اور سمانتر کہانی کی مہم چلا ئی۔ ڈرائنگ روم میں صوفے پر دھنسے ہوئے آپ عام آدمی کے بارے میں سوچ سکتے ہیں لیکن اس کی کہانی نہیں لکھ سکتے۔ عام آدمی کی کہانی لکھنے کے لئے قالین سے باہر نکل کر عام ہونا پڑتا ہے اور پھر کہانی تو عام آدمی کی ہی ہوتی ہے۔ بھلے ہی نرمل ورما بورژوا طبقے کا دکھ بیان کرتے ہوں۔ لیکن کہانی کے محور میں عام آدمی ہمیشہ موجود رہا ہے۔ کملیشور، ’ساریکا‘سے الگ ہوئے تو سمانتر کہانی کی بحث بھی ختم ہو گئی۔ ہندی کہانی میں شاید یتھارتھ (حقیقت) کا سنکٹ ہمیشہ موجود رہا ہے۔ پریم چندی یتھارتھ ایک آدرش یتھارتھ ہے جو پریم چند سماج میں دیکھنا چاہتے تھے۔ نئی کہانی بھو گی ہوئی حقیقت پر زور دیتی ہے۔ جن وادی یتھارتھ کچھ الگ قسم کا یتھارتھ ہے جس میں مسئلے کا حل ضروری ہے، لیکن ایک حقیقت وہ بھی ہے جو نظر نہیں آتی اور نگاہوں سے ہمیشہ اوجھل رہتی ہے اردو کہانی اس حقیقت پر زور دیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہندی کہانی پریم چندی گھیرے سے باہر آنا چاہتی ہے لیکن ناقد ایسا ہونے نہیں دیتے۔ مدھوریش مانتے ہیں کہ ہندی کہانی کی مکھ دھارا جن وادی یتھارتھ وادی کہانی کی دھارا ہے جو اپنا تعلق پریم چند کی حقیقت نگاری کی روایت سے جوڑتی ہے۔ کلا واد یا اتّر آدھونکتا واد جمہوریت پسندوں کو پسند نہیں ہے۔ انہیں شکایت ہے کہ حقیقت پسندی کے خلاف کلاواد اور جن واد کے خلاف اتّر آدھونکتا واد کو کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، پھر بھی اگَے اور نرمل ورما، پریم چند کی زمین سے الگ کھڑے نظر آتے ہیں۔ نئی نسل کے اودے پرکاش نے اپنی کہانی کا مرکّب مغربی ادب سے تیّار کیا ہے۔ تاریخ کے بطون سے وہ کامیاب کہانی خلق کرنے پر قدرت رکھتے ہیں، لیکن ’ترچھ‘ میں جو شلپ گڑھا وہ ’پیلی چھتری والی لڑکی ‘ تک آتے آتے ان کے ہاتھ سے پھسل چکا ہے۔ اودے بہت گہرائی میں کہیں آرایس ایس سے متاثر نظر آتے ہیں۔ ان کی کہانی ’اورانت میں پرارتھنا‘ کا ڈاکٹر، آرایس ایس وادی ہے۔ کہانی میں سماج کی بد عنوانیوں کو نشانہ بناتے ہوئے ڈاکٹر کا مثالی کردار پیش کیا گیا ہے۔ کیوں نہیں سمجھا جائے کہ اودے آج کے نظام میں پھیلتی بیماریوں کا علاج آر ایس ایس کے طریقِ کار میں ڈھونڈ رہے ہیں ؟
اصل میں اپنی نظریاتی وابستگی کو ایک دم سے طاق پر رکھ دینا تخلیق کار کے لئے مشکل ہے۔ ہندی کہانی کی ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ کسی بھی تخلیق کو سیاسی مسلک سے پرکھنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ کمیٹڈ تخلیق کاروں کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ وہ کسی بھی فن پارے کا محاسبہ کرتے ہوئے سب سے پہلے اپنے اختلاف کا مرکز تلاش کرتے ہیں۔ کہانی اگر ان کے نظریے سے ہم آہنگ ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اسے رد کر دینا چاہئے۔ رمیش اپادھیائے کو پریمبد کی کہانی، ’ندی ہوتی لڑکی‘ اس لئے پسند نہیں ہے کہ وہ سرخ پرچم کے نیچے کھڑی نہیں ہے۔ رمیش ’مہاماری ‘کو یہ کہہ کر ریجکٹ کرتے ہیں کہ اس میں مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ادب میں ایسے رجحانات خطرناک ہیں۔ اس سے تخلیقیت پر ضرب پڑتی ہے۔ دیکھنا چاہئے کہ اپنے رویے میں تخلیق کار کہاں تک ایمان دار ہے اور موقف کی پیش کش میں وہ قاری کو کس حد تک قائل کر سکا ہے۔
اردو کہانی نے ہمیشہ تخلیقیت پر زور دیا ہے۔ ہندی اور اردو کہانی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ہندی کہانی کنٹینٹ پر زور دیتی ہے اور اردو کہانی فن پر۔ جن وادی کہانی کی ایک مشکل کہانی کو اوزار بنانے کی مشکل بھی ہے۔ لیکن ایک حد تک ہی ہم کہانی سے ہتھیار کا کام لے سکتے ہیں کہ کہانی ایک آرٹ بھی ہے اور اس کی اپنی حدیں بھی ہیں۔
فساد کا موضوع اردو کہانی میں اہم رجحان کی صورت غالب رہا ہے۔ ۱۹۴۷ء کا فساد پہلا حادثہ تھا جس کے ردّ عمل میں بے شمار کہانیاں لکھی گئیں۔ لیکن زیادہ تر کہانیوں میں درد کا اظہار جذباتی سطح پر ہوا ہے، تخلیقی سطح پر نہیں۔ کرشن چندر نے ’پشاور اکسپریس‘ میں سرحد کے آر پار مرنے والوں کا بیان تمام ہولناکیوں کے ساتھ کیا ہے۔ عزیز احمد ’کالی رات‘ میں فساد کا وحشت ناک منظر بیان کرتے ہیں۔ حیات اللہ انصاری نے ’شکر گزار آنکھیں ‘میں ہمدردی بٹورنے کی کوشش کی ہے۔ بھیشم ساہنی کی کہانی ’امرت سر آ گیا ہے ‘ میں عمل کے بدلے رد عمل ہے۔ کرشن کا مسئلہ ہے کہ کتنے ہندو اور مسلمان مرے۔ منٹو کا مسئلہ ہے کہ کتنے لوگ مرے ؟(کہانی سہائے کی موت)۔ کرشن اور بھیشم ساہنی نے فساد کو فرقے کی نظر سے دیکھا لیکن منٹو نے فساد کو آدمی کی نگاہ سے دیکھا۔ بیدی اور اگَے اسے انسانی روح میں رِستے ناسور کی طرح دیکھتے ہیں۔ عصمت نے اس کا حل اپنی زمین میں پیوست تہذیبی جڑوں میں ڈھونڈا ہے۔ اشفاق احمد اسے مذہبی المیے کے روپ میں دیکھتے ہیں۔
لیکن وقت کے بدلتے آئینے میں آج فساد کی نوعیت بدل گئی ہے۔ اب یہ حادثہ نہیں ہے جو رونما ہوتا۔ آج فساد ایک منصوبہ ہے جو عمل میں لایا جاتا ہے۔ اس لئے آج کہانیوں میں اظہار کے ڈھنگ بدل رہے ہیں۔ پہلے جان و مال کے لٹنے کا غم تھا۔ آج اپنی وراثت سے محروم ہونے کا خدشہ ہے۔ پہلے فساد کی وحشت ناکیوں کا ذکر ہوتا تھا، آج فساد کی سیاست اور اس سے پیدا شدہ مسائل کا بیان ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے سریندر پرکاش کی ’بالکونی‘حسین الحق کی ’نیو کی اینٹ‘ اور اودھیش پریت کی ’ہم زمین‘ قابلِ ذکر کہانیاں ہیں۔ سکھ دنگے پر پنّی سنگھ کی کہانی ’شوک‘ کانگریسی نیتا کو بے نقاب کرتی ہے۔ سوئم پرکاش کی کہانی ’کیا تم نے کبھی کوئی سردار بھکاری دیکھا ہے‘ بیر راجہ کی ’ارتھی‘، ہر دئیش کی ’افواہ‘، مردولا گرگ کی ’اگلی صبح‘ اور تیجندر کی ’اپنا چہرہ ‘کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ فساد پر بھیشم ساہنی کی ’سلمیٰ آپا‘، ’جھٹپٹا‘، ’سردارنی‘ اور’ ظہور بخش‘ جیسی کہانیوں کی معنویت ہے کہ اس میں انسانی رویّے قائم ہیں لیکن ’امرت سر آ گیا ہے ‘ جیسی کہانی وقت کے بدلتے مزاج میں اپنی معنویت کھو چکی ہے۔ فرقہ پرستی کے موضوع پر لکھی گئی یہ کہانی آج خود فرقہ پرست ہو گئی ہے۔ اس میں ایک آدمی کا فعل دوسرے فرقے کے آدمی میں ردّ عمل پیدا کرتا ہے۔ ایسی کہانی آج فرقہ پرستی کو بڑھاوا دے گی۔ کچھ لوگ پڑھ کر خوش ہو سکتے ہیں کہ نیوٹن کا تیسرا قاعدہ ظہور پذیر ہوا ہے۔
سیکس کا موضوع اردو ادب میں ترقی پسند رجحان سمجھا گیا ہے۔ منٹو کے یہاں سیکس ایک وسیلہ ہے جس سے وہ اندر کے آدمی کو بے نقاب کرتا ہے۔ پرانی نسل کے ہندی کتھا کار یش پال، اشک اور منم ناتھ گپت کی بعض کہانیوں میں سیکس کی آمیزش دیکھی جا سکتی ہے۔ مردولا گرگ کے یہاں ایک بولڈنیس ہے۔ بلّبھ سدھارتھ، کاشی ناتھ سنگھ، پریمبد اور لولین کی کہانیوں میں بھی سیکس کا رنگ ہے۔ اردو کی نئی نسل نے اس سے دامن بچایا ہے لیکن انور قمر، طارق چھتاری مشتاق احمد نوری اور عبدالصمد کی حالیہ کہانیوں میں اس کی جھلک ملتی ہے۔ شاہد اختر کے یہاں اس کا رنگ گہرا ہے۔ لیکن جن وادی پیڑھی سیکس کو اچھوت سمجھ کر کتراتی رہی ہے۔
تانیثیت کی سطح پر ہندی اور اردو کہانیاں بہت پاس پاس نظر آتی ہیں۔ قرۃ العین حیدر، ہاجرہ مسرور، کشنا سوبتی اور ممتا کالیہ سے لے کر ذکیہ مشہدی، منیشا کلسریشٹھ اور غزال ضیغم کا قلم بھی دھار دار ہے پھر بھی نسوانی تحریک کا اثر اس طرح نظر نہیں آتا۔ ’استری ومرش‘ ان دنوں ہندی ادب میں موضوعِ بحث ہے، لیکن رمیش اپادھیائے استری آندولن کی بات کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ استری ومرش کھائے پئے نٹھلّے لوگوں کا کام ہے اور استری ومرش تو استری آندولن کے بعد آیا اور اسے بیکار کرنے کے لئے آیا۔
کسی بھی زبان میں دوسری زبان کے الفاظ چپکے چپکے دَر آتے ہیں کہ پتہ نہیں چلتا۔ یہ اس کے زندہ رہنے کی علامت ہے اور توسیع کی ضامن بھی۔ ہندی اور اردو دونوں نے ایک دوسرے کا اثر قبول کیا ہے اور خود کی توسیع کی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ناقد زبان کی سیاست کرتے ہوں، لیکن تخلیق کار نہیں کرتے۔ تخلیق کار خود اپنی دنیا کا خدا ہے اور خدا بے نیاز ہوتا ہے۔ اودے پرکاش کا اردو قاری سے زبیر رضوی نے تعارف کرایا اور حیدر جعفری سید سے اودے کی کہانیوں کے تراجم کرائے۔ گری راج کشور نے ’آکار‘ کا اردو نمبر شائع کیا۔ کملا پرشاد نے ’سویدھا‘کا اردو نمبر نکالا۔ ’کتھا دیش ‘نے بھی اردو افسانے کا خاص نمبر شائع کیا۔ ’ادبھاونا ‘نے پاکستانی ادب شائع کیا۔ ’جن مت‘ نے بھی اردو کا خاص نمبر شائع کیا اور اب ’روندر کالیہ‘ نے ’نئے گیان اودے ‘ کا اردو نمبر شائع کیا ہے۔ پاکستانی رسالہ’ آج ‘نے تو جیسے خود کو ہندی کہانیوں کے لئے وقف کر دیا ہے۔ ’ایوان اردو‘ نے بھی ہندی افسانوں کا خاص نمبر شائع کیا۔ انتظار حسین کہتے ہیں کہ ان کی ایک بغل میں الف لیلیٰ ہے تو دوسری بغل میں کتھار سرت ساگر۔ بہت پہلے پرکاش پنڈت ’اردو ساہتیہ ‘ نکالتے تھے۔ آج ان کی جگہ حسن جمال نے لے لی ہے۔ ان کا رسالہ ’شیش‘ اردو فن پارے کو ہندی اسکرپٹ میں پیش کر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حسن جمال اردو کا رسم الخط دیوناگری کرنے کے حق میں ہیں کیوں کہ وہ اردو کے مشکل الفاظ کا بھی ترجمہ نہیں کرتے جسے ہندی قاری کے لئے پڑھنا مشکل ہوتا ہے۔ پر کاش پنڈت کے سا تھ یہ بات نہیں تھی۔ اردو ساہتیہ میں وہ مشکل الفاظ کا ہندی ترجمہ کر دیتے تھے۔
ایک زمانے میں شانی نے الزام لگایا تھا کہ آزادی کے بعد ہندی کہانی میں مسلم کردار نہیں ملتے۔ لیکن ستّر کی نسل نے نہ صرف یہ کہ مسلم کردار کو اپنی کہانیوں میں پیش کیا بلکہ معاشرے کو بھی کہانی کا پس منظر بنایا۔ اودھیش پریت، ہرشی کیش سلبھ۔ سوئم پرکاش، ارون پرکاش، اکھلیش، پریم کمار منی اور سنتوش دکشت وغیرہ کی بعض کہانیاں اس کی مثال ہیں۔ سنتوش دکشت کی ’مرغیاچک میں عید‘، سلبھ کی ’فجر کی نماز ‘ اودھیش کی ’ہم زمین‘ اور سوئم پرکاش کی ’پارٹیشن ‘ دل کو چھو لینے والی کہانیاں ہیں۔
ہم جس دور میں جی رہے ہیں وہ تخریب کاری کا دور ہے۔ آہستہ آہستہ سب کچھ ٹوٹ پھوٹ گیا…غریبی ہٹاؤ کے خواب بکھر گئے، سماج واد کا سپنا چور ہو گیا، تاریخ کے سینے میں فاشزم نے اپنے پنجے پیوست کئے، سیاست میں جرم دودھ میں شکر کی طرح گھُل گیا، فرقہ پرستی جنون کی حد میں داخل ہو گئی۔ ہم ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جس کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ آج ادیب پر سماجی ذمہ داری سے زیادہ سیاسی ذمہ داری آن پڑی ہے۔ اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اسے اپنی شناخت کو بچائے رکھنا ہے۔ ہندی اور اردو کی نئی پیڑھی نے اس چیلنج کو قبول کیا ہے اور اپنی کہانیوں میں پر زور احتجاج بلند کیا ہے۔ اس اعتبار سے حسین کی کہانی ’ندی کنارے دھواں ‘، عبدالصمد کی ’ہونی انہونی، ساجد کی ’مکڑی‘، سلام کی ’اک لبیہ‘، اشرف کی ’آدمی‘ طارق کی ’باغ کا دروازہ‘ غضنفر کی ’ختنہ‘، شاہد اختر کی ’برف پر ننگے پاؤں ‘، ذوقی کی ’اصل واقعے کی زیروکس کاپی‘ خورشید اکرم کی ’بلینک کال‘ قاسم خورشید کی پو سٹر، مشتاق احمد نوری کی کہیں ایسا تو نہیں، احمد صغیر کی انّا کو آ نے دو صغیر رحمانی کی گاؤں کا چاند اودے پرکاش کی ’پال گومڑا کا اسکوٹر‘، سنجیو کی ’ جو ایک ہی پد کا ارتھ لگاوے ‘، تیجندر کی ’اپنا چہرہ‘، شیو مورتی کی ’تریا چتر‘، ارون پرکاش کی ’منجدھار کنارے ‘ پردیپ پنتھ کی ’مہا مہم ‘، اصغر وجاہت کی ’میں ہندو ہوں ‘ اکھلیش کی ’چٹھی، سرنجئے کی ’کامریڈ کا کوٹ‘ قابل ذکر کہانیاں ہیں۔ اودھیش کی کہانی ’ہم زمین‘ انسان دوستی کی کہانی ہے اور عبدالصمد کی ’ہونی انہونی‘فاشسٹ قوتوں کے آگے سینہ سپر نظر آتی ہے۔ ’ہم زمین‘ میں حکومت کا عملہ فساد میں مارے گئے لوگوں کو ایک جگہ دفن کر دیتا ہے۔ ایک ہندو اور ایک مسلمان کی لاش پاس پاس دفن ہوتی ہے۔ ہندو اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں مسلمان ہونے کے دھوکے میں مارا جاتا ہے اور مسلمان بھی ایک ہندو بیوہ کی مدد کرنے کے پاداش میں اپنے لوگوں سے قتل ہوتا ہے۔ دونوں لاشیں ایک دوسرے سے ہم کلام ہیں اور اپنے دکھ کا اظہار کرتی ہیں۔ قبر اتنی تنگ ہے کہ آرام سے لیٹنا بھی دشوار ہے۔ ہندو لاش مسلمان لاش سے کہتی ہے کہ بہتر ہے کہ ہم اپنے بیچ کی دیوار گرا دیں تاکہ جگہ کی تنگی ختم ہو اور ہم آرام سے پاس پاس لیٹ سکیں۔ اودھیش اشارہ کرتے ہیں کہ جس طرح مغربی اور مشرقی جرمنی ایک ہو گئی اسی طرح ہندو پاک کی سرحدیں اگر مٹ جائیں تو ہم سکون سے ساتھ ساتھ رہ سکتے ہیں۔ عبدالصمد کی کہانی ’ہونی انہونی ‘ میں سماج کے تخریبی عناصر ایک شخص کو اس کے موروثی مکان سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں اور اسے قتل کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ لیکن وہ شخص خوف زدہ نہیں ہوتا بلکہ ان سے لوہا لینے کے لئے گھر کی پرانی چیزوں کو جمع کرتا ہے جس میں داداجی کا ڈنڈا، گھر کی پرانی اینٹ کے ٹکڑے اور طاق پر رکھی موٹی کتاب بھی شامل ہے۔ عبدالصمد کہنا چاہتے ہیں کہ فاشزم سے جنگ کرنے کے لیے ہمیں اپنی ویلوز سے کام لینا ہو گا۔ کہانی اس بات کی بھی تلقین کرتی ہے کہ ہم جن ویلوز پر یقین کر رکھتے ہیں ان کے مطابق ہمیں اپنی زندگی بھی گزارنی ہو گی۔ اصل میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد اردو اور ہندی کہانیاں ایک ہی مورچے پر آ گئی ہیں اور کندھے سے کندھا ملا کر چل رہی ہیں۔ اس کی ضرورت بھی تھی کہ فاشزم دبے پاؤں نہیں ڈنکے کی چوٹ پر بڑھتا چلا آ رہا ہے۔
٭٭٭