[ 7 ]
چار سال بعد میرا تبادلہ بھاگلپور سے سیتا مڑھی ہو گیا۔ ادھورا میں مجھے بھرشٹا چار کی پہلی خوراک ملی تھی سیتا مڑھی میں ڈبل ڈوز ملا۔ یہاں ایک مرغی کئی بار حلال ہوتی تھی۔ اسٹور کی مرغیاں تو سونے کے انڈے دیتی تھیں۔ میں نے ۱۷ مارچ کو سب ڈویژن کا چارج سنبھالا تھا۔ میرے ایکز کیو ٹو انجنیئر کلام صاحب تھے۔ میں خوش ہوا کہ ایکزکیوٹو اپنی قوم ہے۔ ان سے ملنے گیا تو مجھے دیکھ کر مسکرائے۔
’’آپ دیر سے آئے۔‘‘
’’دیر آید درست آید‘‘ میں بھی مسکرایا۔
’ دیر آئد نمی آید بھی ہوتا ہے۔ ‘ ان کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔ میں چپ رہا۔
’ بسنت تو بیت رہا خان صاحب۔۔۔۔ صرف تیرہ دن رہ گئے۔چلئے۔۔۔ بھاگتے بھوت کی لنگوٹی ہی سہی۔ ‘
ان کی بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی اس لئے میرا خاموش رہنا بہتر تھا۔ وہ بھی کچھ دیر چپ رہے۔ پھر مجھے گھور کر دیکھا اور اسی طرح مسکراتے ہوئے بولے۔
’ آپ نے سمجھ لیا کیا کیا پینڈ نگ کام ہے ؟ ‘
’ جی۔۔۔ !‘ میں نے مختصر سا جواب دیا۔
’ کتنا پیسہ چاہیئے۔۔۔ ؟ ‘
دفتر کی کچھ کرسیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ کچھ اسٹیشنری کی بھی ضرورت تھی۔ میں نے پانچ ہزار کی رقم کے لئے عرضی دی۔
قوم ہنسنے لگی۔ میں نے سبکی سی محسوس کی۔ شاید میں زیادہ مانگ بیٹھا تھا۔ اگر کرسیاں ٹوٹی تھیں تو ایک آدھ ہزار میں بن جاتیں اور کاغذ وغیرہ کے لئے بھی ایک ہزار کافی تھا۔
کلام صاحب نے چشمہ اتارا۔ سگریٹ سلگائی۔ دو چار لمبے کش لئے۔ ایک بار مجھے گھور کر دیکھا اور بولے۔
’ میک اٹ ففٹی تھاؤزنڈ۔۔۔۔ ! ‘
’ جی۔۔۔۔ ؟ ‘ مجھے عجیب لگا۔
’ آپ نے ابھی تک اپنے کام کا محاسبہ نہیں کیا ہے۔ آپ اپنے علاقے میں جا کر دیکھیئے کیا کیا کام ہو گیا ہے جس کی پے منٹ باقی ہے۔ اور کیا کیا کام ہو گا جس کا پے منٹ کرنا ہے۔ ‘
میں اٹھ کر جانے لگا تو روک کر کہنے لگے۔ ’ ابھی آپ پچاس ہزار لے جایئے۔ دو دن بعد پھر ملئے اور نئی عرضی دیجیئے۔ ‘
میں ایکز کیو ٹو کے چیمبر سے باہر نکلا۔ مجھے جونیئر انجنیئر نے سمجھایا کہ یہاں چاندی کی لہلہاتی فصلیں ہیں۔۔۔ کچھ تو کٹ گئیں پھر بھی جو باقی ہیں انہیں کاٹ لیجیئے۔ مارچ کے تیرہ دن باقی ہیں۔ ‘
شمالی بہار میں چاپا نل یعنی ہینڈ ٹیوب ویل ہی پانی پینے کا خاص ذریعہ ہے۔ گاؤں میں پائپ جلا پورتی یوجنا ہر جگہ بیمار تھی۔ بجلی نہیں رہنے سے پمپ نہیں چلتے تھے اور کہیں نلوں میں پانی دستیاب نہیں تھا۔ سارا زور چاپا نلوں پر ہی تھا۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں یہ نل لگائے جاتے اور ہر سال پرانے نلوں کی مرمّت ہوتی۔۔ محکمے کے انجینئر کو اختیار نہیں تھا کہ اپنی مرضی سے کہیں نل لگا سکیں۔ ایم۔ ال۔ اے۔ فیصلہ کرتے تھے کہ نل کہاں لگے گا۔ ایم۔ ال۔ اے۔ اسی گاؤں کا انتخاب کرتے تھے جہاں ان کو ووٹ ملتا تھا۔ ایسے سینکڑوں گاؤں تھے جہاں چاپا نل نہیں لگ سکے تھے اور پانی پینے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔۔ انہیں دور دور سے پانی ڈھو کر لانا پڑتا تھا یا پھر گاؤں کے پوکھر اور تالاب پر منحصر کرتے تھے۔
میرے جونیئر انجنیئر نے مجھے ال بائی تھری کا مشورہ دیا۔ یعنی لوٹ میں تین آدمیوں کا برابر کا حصّہ۔۔۔۔ جونیئر انجنیئر۔۔۔۔ اسٹنٹ انجنیئر۔۔۔۔ ایکز کیوٹو انجنیئر۔۔۔۔ !
اصل میں ایسے چاپا نل جن کی جالی کچھ دنوں میں بند ہو جاتی تھی بے کار ہو جاتے تھے۔ انہیں اکھاڑ کر نئی جالی کے ساتھ دوسری جگہ نئے ڈھنگ سے گاڑنا پڑتا تھا شیو ہر پر کھنڈ کے جونیئر انجنیئر نے مجھے بند نلوں کی جو فہرست دکھائی اس میں سو نل ایسے تھے جو چالو تھے لیکن بند نلوں کی فہرست میں درج تھے۔ جونیئر انجنیئر چاہتے تھے ان کی مرمّت کا جعلی بل بنائے۔ ایک نل کی مرمّت میں پانچ ہزار کا خرچ تھا۔ سو کی مرمّت کا خرچ پانچ لاکھ۔ پانچ لاکھ کا ال بائی تھری۔۔۔ یعنی ایک آدمی کے حصّے میں کم سے کم ایک لاکھ اسّی ہزار ! اور ایسے ایسے آٹھ پر کھنڈ تھے گویا آٹھ سو چاپا نلوں کا فرضی بھگتان۔۔۔۔ مارچ لوٹ میں ایک آدمی کے حصّے میں بارہ لاکھ اسّی ہزار۔
میری روح کانپ گئی۔ مجھے لال گھر نظر آنے لگا۔ سیدھا جیل۔۔۔۔ ! میں نے تجویز ردّ کر دی۔ لیکن چاندی کی لہلہاتی ہوئی فصل تھی۔
ایکز کیو ٹو نے راستہ نکالا۔ طے ہوا کہ جونیئر انجنیئر بل سیدھا ایکز کیو ٹو کو دیں گے۔ میرا کوئی رول نہیں ہو گا۔ میں دستخط بھی نہیں کروں گا۔ یعنی ال بائی ٹو۔۔۔۔ !آ ڈٹ ابجیکشن ہو گا تو ایکز کیوٹو سمبھا لیں گے اور پیسہ منتری کو بھی دیا جائے گا۔
میں نے ’ مہا ماری‘ میں لکھا ہے کہ سرکاری دفتروں کا نظام سماج وادی ہے۔ منتری سے لے کر چپراسی تک سبھی ایک ہی ڈور سے بندھے ہیں جس کی کھنک نقرئی ہے۔ یہ کھنک بالترتیب سب کے حصّے میں آتی ہے۔ اگر فرق پڑتا ہے تو بندھن ٹوٹنے لگتے ہیں۔ الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ تھانے میں رپورٹ درج کرانے کی نوبت آتی ہے۔
سو پر ٹینڈنگ انجنیئر تھے گوہا صاحب۔ انہیں جب نیپال کے بازار سے کچھ خریدنا ہوتا تو سیتا مڑھی آتے۔ وہ ساکچھات لکشمی تھے۔ وہ آتے تو فصلیں لہلہانے لگتیں۔ بر گنیہ نیپال کی سرحد پر تھا جو سیتا مڑھی سے پچیس کیلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ کسی جو نیئر انجنیئر کو ساتھ لیتے اور گوڑ یعنی نیپال کے بازار پہنچ جاتے۔ وہ کچھ بھی لیتے درجنوں میں لیتے۔ ایک درجن نیل کٹر۔۔۔۔ دو درجن بلینک کیسیٹ۔ ایک درجن ٹارچ چار ٹیبل لیمپ۔۔۔۔ دو درجن اسٹیل کی پلیٹ۔۔۔۔ کی رنگ۔۔۔ فوٹو فریم۔۔۔۔ کاس میٹکس کے لوازمات۔۔۔۔ دس ہزار تک کی خرید ہو جاتی تو جونیئر انجنیئر سے پو چھتے ’’پیسہ گھٹ تو نہیں رہا۔۔۔۔ ؟میں دوں۔۔۔۔ ؟‘‘
خریداری کے بعد واپس مظفّرپور جاتے تو دس لاکھ کا سپلائی آرڈر ضرور کرتے تھے۔ سبھی نہال ہو جاتے۔ سپلائی سونے کی مرغی ہے۔ اس میں سب کا کمیشن تھا ان کا آنا کسی کو گراں نہیں گذرتا تھا۔ وہ آتے تو بہار آ تی تھی۔
گوہا صاحب حساب کے بہت پکّے تھے۔ کوئی بیس روپیہ بھی کم دیتا تو ڈائری میں نوٹ کر لیتے اور اگلی ملاقات میں فائل پر آرڈر کرنے سے پہلے یاد دلاتے۔ ایک بار سیتا مڑھی کا اردلی کچھ ڈاک لے کر ان کے دفتر گیا۔ وہ پردے کے پیچھے سے جھانکنے لگا۔ کوئی ٹھیکہ دار اندر بیٹھا نوٹ گن رہا تھا۔ پھر اس نے گڈّی گوہا صا حب کو دی۔ گوہا صاحب نے فائل پر دستخط کیئے۔ ٹھیکہ دار باہر آیا تو دوسرا گیا۔ اس نے بھی نوٹوں کی گڈّی دی اور باہر آ گیا۔۔۔۔ پھر تیسرا گیا۔۔۔۔ پھر چوتھا۔۔۔۔ پانچواں۔۔۔۔ ! اردلی نے اتنے پیسے کبھی دیکھے نہیں تھے۔ وہ بے ہوش ہو گیا۔
گوہا صاحب کا بہار میں کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں تھا۔ میڈم گوہا نے کلکتہ میں بہت سے بے نامی اکاونٹ کھول رکھے تھے۔۔۔۔۔ بملا چٹرجی۔۔۔۔ کملا مکھر جی ارپنا گھوش۔۔۔۔ پیسہ انہیں اکاؤ نٹ میں جمع ہوتے۔ پیسے بھیجنے کا طریقہ بھی انوکھا تھا۔ میڈم گوہا کبھی فرسٹ کلاس میں سفر نہیں کرتی تھیں۔ وہ جنرل بو گی میں سبزی کی بوریاں لے کر بیٹھتی تھیں جن میں نوٹ ٹھونسے ہوئے ہوتے تھے۔ اوپر سے آلو پرول رکھ کر بورا سیل کر دیا جاتا تھا۔ جو سامان وہ درجنوں کی تعداد میں لے جاتے تھے میڈم گوہا چینا مارکیٹ میں بیچ دیتی تھیں۔
ایک دن اچانک میڈم گوہا کو بخار چڑھا اور دوسرے دن جنّت سدھار گئیں۔ گوہا صاحب کو خبر ملی تو بے ہوش ہو گئے۔
سارا پیسہ تو بے نامی اکا ونٹ میں تھا جو گوہا صاحب حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ صدمے سے برین ہیمرج ہو گیا۔ جسم کے ایک طرف لقوہ مار گیا۔ وہ بچ تو گئے لیکن ٹھیک سے کھڑے نہیں ہو سکتے تھے۔ ایک آدمی کا سہارا لے کر لکڑی ٹیک کر چلتے۔
کلام صاحب کا تبادلہ ہو گیا تو رمیش یادو ان کی جگہ آئے۔ آپ بھی ماہر کھلاڑی تھے اور گوہا صاحب کے نقش قدم پر چلتے تھے۔ چاپا نلوں کی مرمّت کے لئے جس جو نیئر انجنیئر کو پیسے اڈوانس دیتے اسے پکڑ کر بازار سمیتی لے جاتے۔ ان کی خریداری تھی ایک من چاول ایک من پیاز چار پسیری آلو بیس کیلو چنا چوڑا تیل۔۔۔۔ ایک بار رمیش پر ساد ان کے پلّے پڑ گیا۔ رمیش کچھ زیادہ ہی اسمارٹ تھا۔ کچھ دیر ساتھ رہا پھر چپکے سے کھسک گیا اور ایک درخت پر چڑھ گیا۔ یادو جی نے باہر نکل کر اس کو بہت ڈھونڈا لیکن وہ پیڑ پر چھپ کر بیٹھا رہا۔ آخر پیسے انہیں ہی چکانے پڑے۔
یادو جی زیادہ دن نہیں ٹکے۔ ان کی جگہ کے سی جھا آ گئے۔ آتے ہی انہوں نے کرسی کو گنگا جل سے پاک کیا۔ کہتے تھے ایک تو میاں بیٹھ کر گیا پھر یادو۔۔۔۔ ایسے آسن پر براہمن کیسے بیٹھ سکتا ہے۔ ؟ ان کا اردلی شدر تھا۔ وہ اس کے ہاتھ سے بھلا پانی کیسے پی سکتے تھے۔ انہوں نے اردلی بدل دیا۔ اس کی جگہ ایک برا ہمن نل کوپ خلاصی کو رکھ لیا اور اس شدر کو میرے دفتر میں پوسٹ کر دیا۔
ایک بار ان کے ساتھ سائٹ انسپکشن میں جانا پڑا۔ مسہر ٹولی میں نئے چاپا نل لگائے گئے تھے۔ میں نے ٹھیکہ دار سے کہا کہ نلوں کو اچھی طرح چلا کر پانی صاف کر دیں۔ جھا جی مجھے الگ لے جا کر بولے ’’ماریئے گولی خان صاحب۔۔۔۔ ارے کون پانی پیئے گا ؟ مسہر ہی نہ۔۔۔۔ ؟ یہاں کوئی برا ہمن تھوڑے ہی رہتا ہے‘‘۔
میں تو ملیچھ تھا۔ میرے لئے یہاں جگہ بنانا مشکل تھا۔ میں نے سوچا اس منو وادی کو منو واد سے ہی شکست دوں گا۔ میں نے جیوتش کا سہارا لیا اور اس کا موقع مجھے جلد ہی مل گیا۔ ایک دن ان کے یہاں گیا تو کوئی پنڈت جی کنڈلی دیکھ رہے تھے۔ جھا جی نے پوچھا کہ کچھ باتیں بتایئے تو پنڈت جی کہنے لگے کہ شنی جب گوچر میں مین راشی میں آئے گا تو سب کام پورا ہو گا۔ میں نے کنڈلی چکر پر نظر ڈالی اور پنڈت جی کو ٹوکا۔ ’’بغیر اشٹک ورگ کی استھتی جانے آپ گوچر کا پھل کیسے کہہ سکتے ہیں۔ مین میں تو شنی نیچ ابھیلاشی ہو جائے گا جو نیچ سے بھی برا ہوتا ہے اور کنڈلی میں مین راشی بادھک راشی بنی ہوئی ہے تو شبھ کیسے ہو گا ؟ پنڈت جی لا جواب ہو گئے۔ جھا جی نے مجھے حیرت سے دیکھا ’’آپ یہ سب کیسے جانتے ہیں ؟‘‘
’’سر۔۔۔ میں دیا نند سرسوتی کا شاگرد ہوں۔ انہوں نے آدمی کو ذات کی بنیاد پر نہیں کرم کی بنیاد پر بانٹا ہے۔ میں کرم سے برا ہمن ہوں۔ میں نے پراشر مت کا مطالعہ کیا ہے۔‘‘
جھا جی کا تجسس بڑھا۔ ’’آپ میری بیٹی کی کنڈلی دیکھ کر بتایئے کہ شادی کب ہو گی تو آپ کو جیوتشی مانوں‘‘
میں نے کنڈلی دیکھی۔ چوتھے خانے میں گیارویں گھر کے مالک کے ساتھ مشتری اپنے ہی گھر میں تھا اور ساتویں خانے سے جوگ کر رہا تھا۔ میں نے کہا کہ شادی اپنے گاؤں میں ہی ہو گی۔ لڑکا زیادہ سے زیادہ سو کیلو میٹر کے فاصلے پر ہو گا۔
جھا جی اچھل پڑے۔ ’’آپ صحیح کہہ رہے ہیں خان صاحب۔ ایک جگہ بات چل رہی ہے۔ لڑکا گاؤں کا ہی ہے۔‘‘
’’بس تو سمجھیئے رشتہ طے ہے۔‘‘
’’ایسا ہو گیا تو آپ کو انعام دوں گا۔‘‘
میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ بس آپ کی شفقت چاہیئے۔ آپ کے جیوتشی پنڈت جی ہیں۔ انہیں انعام دیجیئے اور مجھے بھی جیوتشی کی فہرست میں رکھیئے۔‘‘
شادی وہیں ہوئی۔ پھر بھی جھا جی مجھے جیو تشی ماننے کے لئے تیّار نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں مسلمان ہوں اس لئے شناخت نہیں ہو گی۔ اگر ہندو ہوتا تو مجھے مالا پہناتے۔ پھر بھی ان سے میرے تعلّقات خوشگوار رہے۔ لیکن ایک واقعہ ایسا ہو گیا کہ ان سے بے پناہ نفرت محسوس ہوئی۔
انہوں نے میرے سداما کی نفی کر دی۔
سہہ دیو منڈل میرے محلّے کا تھا۔ اس کا باپ کھیت میں مزدوری کرتا تھا۔ منڈل گریجوئٹ تھا۔ کہیں نوکری نہیں ملی تو میں اس کو ساتھ لے آیا اور کلام صاحب کو کہہ کر اس کو مسٹر رول پر چاپا نل خلاصی میں بحال کرا دیا۔ منڈل کو بیس روپے روز ملتے تھے۔ وہ میرے ساتھ رہتا تھا اس لئے اس کے پیسے بچ جاتے تھے۔ وہ ہر ماہ اپنے گھر چار سو روپے منی آرڈر کرتا تھا۔ وہ میرا کھانا بھی بناتا تھا۔ کبھی کبھی میں اس سے لکھنے پڑھنے کا کام بھی لیتا تھا۔ میں اس تاک میں تھا کہ اگر سپر وائزر کی جگہ خالی ہوئی تو پیروی کر اس کو بحال کرا دوں گا۔ اتّفاق سے میرے دفتر میں ورک سرکار کی جگہ خالی ہوئی۔ ان دنوں راجیو رنجن چیف انجنیئر تھے جن سے میرے دیرینہ تعلّقات تھے۔ میں ان سے ملا۔ انہوں نے منڈل کو ورک سرکار کے عہدے پر بحال کر دیا۔
منڈل کو جھا جی کے دفتر میں جوائن کرنا تھا اس کے بعد وہ اس کو میرے دفتر میں پوسٹ کر دیتے کیوں کہ جگہ میرے یہاں خالی ہوئی تھی لیکن وہ جب جوائن کرنے گیا تو جھا جی اس کا تقرری نامہ دیکھ کر جل بھن گئے۔ اور اس کی جوائننگ لینے سے انکار کیا کہنے لگے کہ منڈل تو میاں ہے۔ مسلمان کے ساتھ رہتا ہے تو ہندو کیسے ہو گیا۔ مجھے بہت غصّہ آیا۔
میں نے منڈل کو ان کے سامنے بلا کر کہا۔
’’منڈل۔۔۔ اپنے کپڑے کھول کر دکھاؤ کہ تم کٹوا نہیں ہو۔۔۔۔ !‘‘
منڈل ابھی بھی سیتا مڑھی میں مسٹر رول پر چاپا نل خلاصی ہے۔
٭٭٭