[ 6 ]
میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ میرے اندر دو شخصیت ہے۔ ایک فکشن نگار دوسرا نجومی۔ میں نے ادھورا پہاڑ پر علم نجوم کا جو مطالعہ کیا تھا اسے عملی جامہ پہنانے کا وقت آ گیا تھا۔ میں نے بھاگلپور میں اپنے گھر پر ہی جیوتش کاریالیہ کا بورڈ لگا دیا اور آفس سے آنے کے بعد شام کو پیشہ ور نجومی کی حیثیت سے بیٹھنے لگا۔ میں نے بھٹّو کی پھانسی کی پیشن گوئی کی جو حرف بہ حرف صحیح نکلی اور میرا کار یا لیہ چل پڑا۔ پیشہ ور نجومی کی حیثیت سے میرے تجربات دلچسپ ہیں۔
ایک لڑکی ونیتا جھا کنڈلی دکھانے آئی۔ کنڈلی کے ساتویں خانے میں زہرہ عطارد اور را ہو تھے جن پر قمر کی نظر تھی اور قمر پر زحل کی نظر تھی۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ اس کی شادی کسی غیر برا ہمن سے ممکن ہے یا نہیں۔ سالک کے سوال سے ہی نجومی کو نتائج اخذ کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ظاہر تھا کہ اس کا معاملہ کسی غیر ذات کے لڑکے سے چل رہا تھا اور وہ جاننا چاہتی تھی کہ رشتہ استوار ہونے کے ممکنات کیا ہیں۔ میں نے بر جستہ کہا کہ اس کی شادی کسی ملیچھ سے ممکن ہے۔ را ہو ملیچھ ہے۔ ہندو کی کنڈلی میں را ہو مسلمان کا رول ادا کرے گا اور مسلمان کی کنڈلی میں ہندو کی نمائندگی کرے گا۔
میرے نجومی دوست پرکاش سوریہ ونشی مجھ سے ملنے آئے۔ وہ ونیتا کو جانتے تھے۔ ان سے معلوم ہوا کہ ونیتا کی جان پہچان کسی مسلم لڑکے سے تھی جو پی۔ ڈبلو۔ ڈی۔ میں ٹھیکہ داری کرتا تھا لیکن معاملہ اتنی دور تک نہیں گیا تھا کہ وہ اس سے شادی کر لیتی۔ ایک دن وہ بینک میں پیسے جمع کرنے جا رہا تھا۔ اس نے اپنی زمین بیچی تھی اور اس وقت اس کے بیگ میں ایک لاکھ روپے تھے۔ راہ میں ونیتا سے ملاقات ہو گئی۔ اس نے ونیتا کے سامنے بیگ کھولا اور دوسرے پل بند کر دیا۔ ونیتا نے اس میں نوٹ ٹھونسے ہوئے دیکھے۔ دوسرے ہی دن اس نے شادی کی تجویز رکھی اور مسلمان ہو گئی۔ اس کی ساس نے اسے گوشت خور بنا دیا اس نے کباب لگانا بھی سیکھ لیا اور بازار سے گوشت بھی لانے لگی۔ وہ ایک سال تک گھٹتی رہی اور پھر مر گئی۔
ہندوستانی معاشرے میں اندھ وشواس اتنا گہرا ہے کہ اسے آسانی سے ختم نہیں کر سکتے۔ جیوتش ہندوستانی تہذیب کا حصّہ ہے۔
جیو تش کو وید کی آنکھ بتا یا گیا ہے۔ جنم سے لے کر مرن تک زند گی کی تمام سر گرمیاں گرہوں اور نچھتّر کی چال سے طے ہوتی ہیں۔ شادی تو بغیر مہورت کے طے ہو ہی نہیں سکتی۔ علم نجوم کے کچھ ویدک نظریات ایسے ہیں جسے سائنس نے محض صحیح ثابت کیا ہے۔ اس سے آگے کوئی نئی بات نہیں کر سکا۔ را ہو اور کیتو کی تفصیلات بہت دلچسپ ہیں۔ سمندر منتھن کے واقعات پر غور کیجیئے۔ جب امرت باہر آیا تو ایک راکشس چپکے سے دیوتا کی صف میں شامل ہو گیا۔ چاند کی نظر پڑ گئی۔ اس نے وشنو سے چغلی کھائی کہ ہماری صف میں راکشس بھی چوری سے آ گیا ہے۔ بس وشنو نے چکر سے راکشس کے دو ٹکڑے کر دیئے۔ سر را ہو ہوا اور دھڑ کیتو۔ تب سے را ہو اور کیتو چاند کے دشمن ہوئے۔ چاند سے بدلہ لینے کے لئے الٹی سمت میں گھومتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب را ہو یا کیتو چاند کو لقمہ بناتا ہے تو گرہن لگتا ہے۔ اور سائنس اسے صحیح ثابت کرتا ہے۔
اصل میں را ہو اور کیتو کوئی سیّارہ نہیں ہے۔ نظام شمسی میں یہ فرضی نقطہ ہے جسے چھایا گرہ کہتے ہیں۔ زمین سورج کے چاروں طرف گھومتی ہے اور چاند زمین کے گرد گھومتا ہے۔ ان کے مدار جہاں ایک دوسرے کو کاٹتے ہیں تو ایک نقطہ را ہو ہے دوسرا کیتو۔ اسی لئے یہ ہمیشہ ایک دوسرے سے ایک سو اسّی ڈگری کے فاصلے پر رہتے ہیں۔ جب چاند اور زمین گردش کرتے ہوئے سورج کی ایک دم سیدھ میں ہوتے ہیں اور جس عشرے پر چاند ہوتا ہے ٹھیک اسی برج میں اتنے ہی عشرے پر را ہو ہوتا ہے تو گرہن لگتا ہے یعنی دونوں کا ایک ہی برج میں ایک ہی عشرے پر ہونے کا مطلب دوسرے لفظوں میں لقمہ بنانا ہے۔
سائنس کی حد جہاں ختم ہوتی ہے علم نجوم کی حد وہاں سے شروع ہوتی ہے۔ نجومیوں نے ہزاروں سال قبل کہا کہ زحل یعنی شنی نظام شمسی میں سب سے دور واقع ہے اور بہت سست رفتار ہے۔ اس لئے اس کا نام شنی پڑا شنی جو شنئے شنئے یعنی دھیرے دھیرے چلتا ہے۔ سائنس نے اسے صحیح بتایا۔ سائنس نے اس کی پیمائش خارجی سطح پر کی یعنی اس کی جسامت کیا ہے۔ سائنس زحل کے جسم میں ہی الجھا رہا لیکن نجومی اس کی روح میں اترا۔ زحل کے رنگ و روپ اور مزاج کی بازیافت کی کہ زحل رنگت میں سیاہ ہے اور ہستی کا دکھ ہے اور موت کا استعارہ ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ہم کسی کی موت کا سوگ مناتے ہیں تو سیاہ رنگ کا استعمال کرتے ہیں۔ ماتمی لباس سیاہ ہوتا ہے۔ نجومیوں نے مہذّب انسان کو نہیں سکھایا کہ دکھ کا مظاہرہ سیاہ رنگ سے کرو۔ لیکن نسل انسانی نے جب موت کا سامنا کیا تو سیاہ رنگ سے مطابقت محسوس کی۔ ہر چیز اپنی جگہ ارتعاش کو جنم دیتی ہے۔ ڈارون کا اصول ارتقا صرف طبیعی نہیں ذہنی بھی ہے۔ ہزاروں سال سے زحل کی کرنیں انسانی ذہن کو متاثر کر رہی ہیں اور انسان کے ذہن نے موت کے تصوّر میں سیاہ رنگ سے ہم آہنگی محسوس کی اور سیاہ کو موت کی علامت سمجھنے پر مجبور ہوا۔ اسی طرح سفید رنگ امن و سلامتی کا ستارہ ہے۔ علم نجوم میں زہرہ کا رنگ سفید ہے اور اسے محبّت اور امن سے منسوب کیا گیا ہے۔ مہذّب انسان جب امن کی بات کرتا ہے تو سفید پرچم لہراتا ہے۔ نجومیوں نے نہیں کہا کہ تم امن کے لیئے سفید رنگ اپناؤ سالہا سال سے زہرہ کی کرنیں انسانی ذہن کو متاثر کر رہی ہیں اور وہ سفید رنگ کو امن کی علامت سمجھنے پر مجبور ہے۔ اب اگر زہرہ کو سبز رنگ سے منسوب کیا جاتا تو علم نجوم لغو اور مہمل علم ہوتا۔
میں نے پٹنہ میں بھی اپنا دفتر کھولا اور یہاں دلچسپ واقعات ہوئے۔
بنگلور سے ایک شخص مجھ سے ملنے آیا۔ میرے متعلّق اس نے دہلی میں کسی سے سن رکھا تھا۔ اس کا نام تھا کلیم ملّا۔ اس کی عجب کہانی تھی۔
وہ ممبئی میں اپنے ایک پارسی دوست کے یہاں رہتا تھا اور چھوٹی سی نوکری کرتا تھا۔ دوست کی بیوی اس پر عاشق ہو گئی۔ لیکن اس کو یہ گوارہ نہیں تھا کہ دوست کی بیوی سے تعلّقات استوار کرے۔ اس نے دامن بچانے کی کوشش کی تو اس عورت نے اس پر عملیات چلانا شروع کیا۔ اس نے دھمکی دی کہ اس پر شیطان چھوڑ دے گی کہ ساری زندگی پریشان رہے گا۔ اس درمیان اس کو دبئی میں نوکری ہو گئی تو اس نے ممبئی چھوڑ دیا۔ لیکن دبئی آ کر پریشان ہو گیا۔ اسے ہر وقت لگتا جیسے ایک سایہ سا اس کے ساتھ چل رہا ہے۔ کمرے میں درو دیوار پر بھی کالی چھایا سی رینگتی۔ وہ عورت اس کو محبّت بھرے خطوط بھی لکھتی تھی جس میں خون کے دھبّے ہوتے تھے۔
اس بار وہ چھٹّیوں میں بنگلور آیا تو اس کی ملاقات گیتا بھارگو سے ہوئی۔ اس نے گیتا سے کورٹ میرج کیا۔ لیکن اس کا سماج اس کو اسی وقت قبول کرتا جب وہ مسلمان ہو جاتی۔ گیتا نے جب بتایا کہ وہ مسلمان ہے اور اس کا نام عائشہ سلطان ہے تو اس کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ گیتا سے معلوم ہوا کہ اس کی ماں بچپن میں فوت کر گئی تھی تو باپ نے اسے خالہ کو سونپ دیا۔ لیکن خالو بھی مر گیا تو خالہ نے کسی مسٹر بھارگو سے شادی کر لی۔ بھارگو صاحب نے اسے کورٹ سے گود لے لیا اور اس کا نام گیتا رکھ دیا۔ اس طرح وہ عائشہ سلطان سے گیتا بھارگو ہو گئی۔
گیتا نے یہ بھی بتایا کہ اس کا باپ محمّد سلطان ممبئی کے میرا روڈ میں ایک ریستوراں میں منیجر ہے۔ وہ اس بات کی تصدیق کے لئے گیتا کو لے کر میرا روڈ گیا۔ سلطان دونوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اس بات کی اس کو بے حد خوشی تھی کہ اس کی بیٹی کا ہاتھ کسی مسلمان نے تھاما ہے اور وہ ایک بار پھر سے مسلمان ہو گئی ہے۔ سلطان نے دونوں کا نکاح پڑھایا۔
اس نے عائشہ سلطان کے نام سے گیتا کا پاسپورٹ بنوایا اور یہ کہہ کر دبئی چلا گیا کہ وہاں سے اس کے ویزے کا انتظام کرے گا۔ سلطان سے اس نے کہا کہ جب تک عائشہ اس کے پاس بہ طور امانت رہے گی۔
ویزا مل جانے کے بعد بھی جب عائشہ دبئی نہیں پہنچی تو وہ ممبئی آیا۔ معلوم ہوا خالہ کے پاس کولکتہ چلی گئی ہے۔ وہ کولکتہ پہنچا تواس کے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی۔ عائشہ گھر پر نہیں تھی۔ خالہ نے بتایا کہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ گھومنے گئی ہے اور دبئی نہیں جائے گی۔ کسی نے اس کو پانی تک کے لئے نہیں پوچھا۔ وہ چپ چاپ باہر دروازے پر بیٹھا اس کا انتظار کرتا رہا۔ عائشہ جب گھر لوٹی تو اس کو دیکھ کر خوش نہیں ہوئی اور اندر کمرے میں چلی گئی۔ خالہ نے اس کو عائشہ سے ملنے نہیں دیا۔ اس نے جب غصّے سے کہا کہ وہ طلّاق دے دے گا تو خالہ ہنسنے لگی۔ خالہ نے کہا کہ اسے دو بار طلّاق دینا ہو گا کہ اس نے دو بار شادی کی ہے اور وہ طلّاق نامے پر دستخط بھی نہیں کرے گی۔ اور اگر وہ چاہتا ہے کہ گیتا طلّاق نامے پر دستخط کرے تو اسے پانچ لاکھ کی رقم دینی ہو گی۔
گھبرا کر وہ میرے پاس آیا تھا کہ میں کوئی ایسا عمل کروں کہ عائشہ سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارا مل جائے۔ میں نے کہا پہلے وہ شیطان جلاؤں گا جو دوست کی بیوی نے اس پر چھوڑ رکھا ہے۔۔ در اصل اس پر نفسیاتی اثر ڈالنا ضروری تھا ورنہ اس کا الیوژن دور نہیں ہوتا۔
میں نے نیلے رنگ کا آدھا میٹر کپڑا منگوایا۔ اور اس پر لال روشنائی سے وہ آیت لکھی جو جن کو جلانے میں عمل میں آتی ہے۔ اور تب اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بھاری آواز میں بولا۔
’’دیکھو۔۔۔۔ میں یہ کپڑا جلاؤں گا۔۔۔۔ جیسے جیسے کپڑا جلے گا شیطان جلے گا۔‘‘
میں نے کپڑے کو آگ دکھائی۔
وہ سہر اٹھا۔۔۔۔۔ میں اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس پر کپکپی طاری ہو گئی۔
میں نے اسے بازوؤں میں کس لیا۔
’’ڈرو نہیں۔۔۔۔ شیطان جل رہا ہے۔۔۔۔ تم محفوظ ہو۔۔۔۔ شیطان جل رہا ہے۔۔۔۔ !‘‘
کپڑا پوری طرح جل گیا تو میں اس سے الگ ہوا اور ایک بار پھر اس کی آنکھوں میں گھورتا ہوا بولا۔
’’شیطان جل گیا۔۔۔۔۔ ناؤ یو آر سیف۔۔۔۔ !‘‘
’’مجھے کمزوری لگ رہی ہے۔‘‘ وہ اسی طرح کانپتے ہوئے بولا۔
’’لیٹ جاؤ۔‘‘ میں نے اسے لٹا دیا۔
اس نے آنکھیں بند کر لیں۔
کچھ دیر وہ بستر پر آنکھیں بند کیئے پڑا رہا۔ اس کی کپکپی رکی تو اس نے آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’سر۔۔۔۔۔ آئی ایم فیلینگ بیٹر ناؤ۔‘‘
’’گڈ۔۔۔۔ اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
پھر یہ کہتے ہوئے میں نے اس سے وداع لی کہ کل آؤں گا تو اس عورت سے چھٹکارہ دلاؤں گا۔۔۔ اب وہ آرام کرے۔
دوسرے دن ایک کورا کاغذ لے کر میں اس کے ہوٹل آیا اور اس سے مخاطب ہوا۔
’’دیکھو۔۔۔ یہ کاغذ منتر سے چارج کیا ہوا ہے۔ اسے دیکھتے ہی وہ تمہارا پیچھا چھوڑ دے گی۔۔۔۔ لیکن اس کاغذ پر تمہیں اپنے ہاتھ سے وہ لکھنا ہے جو میں تمہیں بتاؤں گا۔‘‘
وہ حیرت سے کاغذ الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔
میں نے کہا۔ ’’تم اپنے شہر کے اس۔ پی۔ کے نام عرضی لکھو گے۔ تم لکھو گے کہ تم نے گیتا بھارگو نامی لڑکی سے شادی کی لیکن وہ پاکستانی ایجنٹ ہے۔ اس کا دوسرا نام عائشہ سلطان ہے اور اس نے دو نام سے پاسپورٹ بنا رکھے ہیں۔ میری جان کو اس سے خطرہ ہے۔ برائے مہربانی میری حفاظت کی جائے۔ میں اسے طلّاق دینا چاہتا ہوں لیکن وہ طلّاق نامے پر دستخط نہیں کرتی ہے اور مجھے بلیک میل کرتی ہے۔‘‘
وہ خوش خوش چلا گیا۔ پندرہ دنوں بعد دبئی سے اس کا فون آیا کہ اس عورت سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارہ مل گیا ہے۔ وہ کاغذ دیکھتے ہی ڈر گئی اور طلّاق نامے پر دستخط کر دیئے۔
ایک اور دلچسپ واقعہ۔۔۔۔۔ !
ایک عورت کنڈلی دکھانے آئی۔ عورت خوب صورت تھی۔ بال بوائے کٹ تھے۔ ہونٹوں پر لپ اسٹک کی گہری تہیں۔۔۔۔ عمر چالیس پینتالیس کے قریب رہی ہو گی۔ اس نے اپنی کنڈلی میرے سامنے رکھ دی۔
’’کیا مسئلہ ہے آپ کا ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہ تو آپ بتائیں گے‘‘ وہ مسکرائی۔
میں بھی مسکرایا اور ایک نظر کنڈلی پر ڈالی۔ وہ ورشچک لگن کی تھی۔ ساتویں خانے میں را ہو زہرہ اور زحل کا اتصال تھا اور قمر زہرہ کے نچھتّر میں تھا۔
’’آپ اپنے بارے میں سچ سننا چاہتی ہیں ؟‘‘ میں اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔۔
’’سچ ہی سننے تو آئی ہوں۔‘‘
’’آپ کے تعلّقات ایک غیر مرد سے ہوں گے جو آپ کے تردّد کا سبب ہو گا۔‘‘
وہ ذرا بھی نہیں چونکی۔ بہت اطمینان بھرے لہجے میں اس نے پوچھا۔
’’کیا آگے تعلّقات بنے رہیں گے ؟‘‘
’’اس کے لئے نوانش چکر دیکھنا ہو گا اور ڈیکان کے آنکڑے کی ضرورت ہو گی جو اس کنڈلی میں نہیں ہے۔‘‘
اس نے ہزار کے نوٹ میرے سامنے رکھ دیئے۔
’’آپ تفصیل سے میرا زائچہ کھینچیں اور مجھے بتلائیں۔ میں کل آؤں گی۔‘‘
اس کے جانے کے فوراً بعد میرے ایک دوست آئے۔ ان کی دلچسپی بھی علم نجوم میں ہے۔ انہوں نے اس عورت کو میرے آفس سے نکلتے دیکھا تھا۔ پوچھا کس لئے آئی تھی تو میں نے جواب دیا کہ لوگ کس لئے آتے ہیں۔ تب میرے دوست نے اس عورت سے متعلّق دلچسپ باتیں بتائیں۔
’’میں اسے جانتا ہوں۔ یہ بورنگ روڈ میں رہتی ہے۔ میں اس کے مکان میں کرایہ دار تھا۔ اس کا ایک عاشق تھا جو اس سے چھپ کر ملنے آتا تھا۔ وہ جب بھی آتا چہرہ اخبار سے ڈھک لیتا اور چپکے سے گھر میں گھس جاتا۔‘‘
’’بس۔۔۔۔ بس۔۔۔ بس۔۔۔ میں سمجھ گیا۔ کہ اس محبّت کا انجام کیا ہے ؟ اب کنڈلی دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ عاشق ڈرپوک تھا۔ جو منھ چھپا کر محبوبہ سے ملنے جاتا ہو اور چور کی طرح گھر میں گھستا ہو وہ عشق میں کہاں تک ساتھ نبھائے گا۔
میرے دوست نے مزید بتایا کہ اس کا خاوند بینکر ہے۔ گل چھرّے اڑانے کے لئے اس نے شوہر کا تبادلہ کولکتہ کرا دیا اور سات سال کے بیٹے کو بورڈنگ میں بھیج دیا۔ ایک بار شوہر کولکتہ سے اچانک رات دس بجے گھر پہنچ گیا اس عورت نے عاشق کو بیک ڈور سے میرے دوست کے آنگن سے ہو کر باہر نکالا۔ ایک بار جب دونوں کمرے میں بند تھے تو بیٹے نے دروازہ کھٹکھٹایا کہ بھوک لگی ہے۔ عورت نے دروازہ کھولا اور بیٹے کو ایک زور کی لات ماری۔ بیٹا سیڑھیوں سے لڑھکتا ہوا نیچے گرا اور پیٹ پکڑ کر چیخنے لگا۔۔۔ رنڈی۔۔۔۔ کتیا۔۔۔۔ !
اس کا بیٹا اپنی ماں کو کتیا ہی کہا کرتا تھا۔
جب میرے دوست نے عاشق کا نام بتایا تو میں دنگ رہ گیا۔۔۔۔ وہ میرا قریبی رشتے دار تھا۔
دوسرے دن وہ آئی تو میں نے اس سے کہا۔ ’’پریمی تو آپ کو چھوڑ چکا۔ اب آپ اس کو بھول جایئے۔‘‘
وہ رو پڑی۔ ’’کیسے بھول جاؤں ؟ اس کے لئے میں نے ہسبنڈ کو نکالا بیٹے کو نکالا۔۔۔ اور اب چڑیل کی طرح اتنے بڑے گھر میں اکیلی رہتی ہوں۔۔۔۔ !‘‘
’’دیکھیئے میڈم۔ آدمی کی ترجیحات وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ اس کا بھی گھر بار ہو گا۔ بچّے بڑے ہو گئے ہوں گے۔ بیٹی کی شادی کا مسئلہ ہو گا۔ اب آپ کے ساتھ وہ زندگی نہیں گذار سکتا۔ اگر بدنامی ہو گئی تو اس کے بچّوں کی کہیں شادی نہیں ہو گی۔ وہ کبھی سیٹل نہیں ہو سکیں گے۔ ان باتوں کو لے کر وہ اب آپ سے کبھی ملنا نہیں چاہے گا۔‘‘
’’تو اب میں کہاں جاؤں۔۔۔۔۔ ؟ کیا کروں۔۔۔۔ ؟ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
’’آپ اپنے ہسبنڈ کے پاس واپس چلی جایئے۔ بیٹے کو بھی بلا لیجیئے اور ایک نئی زندگی شروع کیجیئے۔ زندگی اسی کا نام ہے۔‘‘
’’میں اس کا قتل کیوں نہ کر دوں ؟‘‘ اچانک اس کا لہجہ بدل گیا۔
میں مسکرایا۔ ’’محبّت رسوا ہو گی۔۔۔۔۔۔ آپ نے محبّت کی ہے تو اس کو رسوا نہیں کیجیئے۔‘‘
مجھے نہیں معلوم اس کا کیا حشر ہوا۔ میرے رشتے دار اب بیمار رہتے ہیں۔ ان کے سب بچّوں کی شادی ہو چکی ہے۔ سب اپنی جگہ بس چکے ہیں۔
میں جب جہان آباد میں تھا تو میری شہرت ایک تانترک کی تھی۔ ان دنوں میں ایکز کیوٹو انجنیئر کے عہدے پر فائز تھا۔ محکمہ جنگلات نے مخدوم پور میں ایک ریسٹ ہاؤس کی تعمیر کی تھی۔ اس میں پانی کا نظم کلکٹر نے اپنے طور پر کیا تھا۔ ایک ٹیوب ویل لگا کر پمپ لگایا گیا اور ٹیوب ویل کو پائپ کے ذریعہ ریسٹ ہاوس سے جوڑا گیا۔ لیکن پانی پہنچ نہیں سکا۔ اس ریسٹ ہاؤس کا افتتاح مکھ منتری کو کرنا تھا۔ کلکٹر نے مجھے فون کیا کہ میں ریسٹ ہاؤس کا معائنہ کروں کہ پانی کیوں نہیں فراہم ہو سکا۔ میں صبح صبح کارندوں کے ساتھ سائٹ پر پہنچا۔ پائپ غلط ڈھنگ سے بچھایا گیا تھا۔ میں پائپ کھلوا کر صحیح طریقے سے نٹ ورک بچھانے لگا۔ اتنے میں مکھ منتری کا ہیلی کاپٹر آ گیا۔ ان دنوں جناب لالو پرساد بہار کے وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے۔ لالو جی ہیلی کاپٹر سے اتر کر سیدھا ریسٹ ہاؤس گئے اور باتھ روم میں گھس گئے۔ وہ باتھ روم میں بیٹھ تو گئے لیکن نل کھولتے ہیں تو ایک بوند پانی نہیں۔۔۔۔ ! لالو جی اس حالت میں نہیں تھے کہ باتھ روم سے باہر نکل سکتے۔ وہیں سے چلّائے۔۔۔۔۔ پانی لاؤ۔۔۔۔ پانی لاؤ۔۔۔۔ ! عملے نے دوڑ کر دو بالٹی پانی پہنچایا اور ادھر نیتا مجھ پر ٹوٹ پڑے۔
آپ ہی ہیں ایکز کیو ٹو انجنیئر۔۔۔۔ ؟‘‘
’’ان پر اف۔ آئی۔ آر۔ کرو۔۔۔۔ ‘
’’مکھ منتری کو پانی نہیں ملا تو یہ جنتا کو کیا پانی دیں گے ؟‘‘
’’یہ ہے کون۔۔۔۔ ؟ اس کے بال تو دیکھو۔‘‘
’’تانترک ہے۔۔۔ اپنے کو جیو تشی کہتا ہے۔‘‘
’’سب تنتر ان میں گھس جائے گا۔‘‘ ان کو ہتھکڑی لگاؤ۔‘‘
ہر طرف سے یلغار۔۔۔۔۔۔ نرغے میں کافروں کے اکیلا حسین تھا۔
مکھ منتری کا محافظ آیا۔ ’’آپ کو سی ایم بلا رہے ہیں۔‘‘۔
’’گیا کام سے۔۔۔۔ اب کون بچائے گا۔ ؟‘‘
’’سی ایم کا پاؤں پکڑ لیجیئے گا تو بچ جایئے گا۔‘‘ ایک چاپلوس نے دانت کھسوڑتے ہوئے کہا تو مجھے غصّہ آ گیا۔
’’کیوں۔۔۔ ؟ میں کیوں پاؤں پکڑوں۔۔۔۔ ؟ قصور میرا نہیں ہے۔ یہ کام کلکٹر نے اپنے طور پر کرایا ہے تو نقص پیدا ہو گیا۔
مجھے آج ٹھیک کرنے کے لئے کہا گیا تو میں آیا ہوں۔‘‘
’’چلئے۔۔۔ چلئے۔۔۔ !‘‘ محافظ نے اشارہ کیا۔
میں نے اوپر والے کو یاد کیا۔۔۔۔ یا اللہ۔۔۔۔ تیرے حوالے۔۔۔۔ !‘‘
اور جیسے کسی نے سرگوشیوں میں کہا۔ ’’ابھی مائی [ مسلم +یادو ] کا سمی کرن ہے۔ سی ایم کو بتاؤ کہ تم مسلمان ہو۔‘‘
مجھ میں طاقت آ گئی۔ میں بے خوف لالو جی کے کمرے میں داخل ہوا۔ ان پر نظر پڑتے ہی خاص انداز میں آداب کہا کہ وہ مجھے میرے کلچر سے پہچانیں اور پھر ان کو اپنا نام بتایا۔ ’’سر۔۔۔ مجھے شموئل احمد خان کہتے ہیں۔ پمپ میں تھوڑا سا فاولٹ ہے۔۔۔۔ ابھی ٹھیک کرتا ہوں۔۔۔۔۔ دو منٹ میں پانی ملے گا۔‘‘
لالو جی سمجھ گئے میں کیا کہہ رہا ہوں۔ انہوں نے ایک ہاتھ کو موڑ کر چاپڑ سا بنایا اور ہاتھ کو اس طرح لہرایا جیسے گردن کاٹ لیں گے۔
’’تم ہمیں کو پانی نہیں دو گے۔۔۔۔ ہمیں کو۔۔۔۔ ؟‘‘ اور میں جیسے خوشی سے اچھل پڑا۔ یہ بات وزیر اعلیٰ کسی ایکز کیوٹو سے نہیں کہہ رہا تھا۔ یہ بات ایک سیاست داں اپنے ووٹر سے کہہ رہا تھا کہ تمہاری گردن تو رام رتھ کے نیچے کچلی جاتی۔ ہم نے تمہیں بچایا اور تم ہمیں کو ووٹ [ پانی ] نہیں دو گے۔۔۔ ؟‘‘
میرے منھ سے برجستہ نکلا۔ ’’سر۔۔۔ پانی۔۔۔۔ ؟ پانی کیا چیز ہے۔۔۔ ؟ آپ خون مانگیئے۔۔۔ ہم آپ کو خون دیں گے۔‘‘
لالو جی چونک پڑے۔ پھر زور کا قہقہہ لگایا۔ ’’یہ تو سیانا ہے مردے۔۔۔۔ !‘‘
لالو جی نے میری پیٹھ ٹھو نکی اور کہا۔
’’آج دونوں بھائی یہاں رہیں گے تم جاؤ۔۔۔ کام کرو۔۔۔ !‘‘
میں چیتے کی چال چلتا ہوا لالو جی کے کمرے سے باہر نکلا۔ سبھی حیران تھے کہ میں نے ایسا کون سا منتر پڑھا کہ لالو جی نے قہقہہ لگایا اور پیٹھ ٹھو نکی۔ ’’یہ سچ میں تانترک ہے۔‘‘ کسی نے کہا۔
جو مجھ پر ایف آئی۔ آر۔ کر رہے تھے میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو گئے۔ میں نے سینہ تان کر کہا۔
آپ سب لوگ یہاں سے دفع ہوں اور مجھے کام کرنے دیں اور سن لیجیئے تانترک سے کبھی الجھنے کی کوشش نہیں کیجیئے گا نہیں تو نقصان ہو گا۔‘‘
میں جہان آباد میں تانترک مشہور ہو گیا۔ اس دن سے کسی نیتا نے مجھے پریشان نہیں کیا بلکہ مجھ سے صلاح لینے کے لئے آنے لگے۔ کسی کا بیٹا بیمار۔۔۔۔ کسی کو اولاد نہیں۔۔۔۔ کسی کو جائداد کا جھگڑا۔۔۔۔ میں سب کو جنتر بنا کر دیتا اور پیسے لیتا۔
جب تک بیوقوف زندہ ہے عقلمند بھوک نہیں مر سکتا۔۔۔۔۔ !
٭٭٭