[ 4 ]
بھاگلپور آ کر میں راحت محسوس کر رہا تھا۔ یہاں میرا گھر تھا اور ہر طرح کی سہو لتیں میسّر تھیں۔ نہ کرایہ کا مکان ڈھونڈنا تھا نہ چولہے چکّی کی فکر کرنی تھی۔ یہاں میں سو پرٹینڈینگ انجینئر کے پی۔ اے۔ کی پوسٹ پر تھا۔ فیلڈ کی ذمہ داری نہیں تھی۔ صرف فائل ورک تھا اور دفتر میرے گھر سے دو کیلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔
میرے آباء و اجداد خوبداد علی خان افغان سے ہجرت کر بھاگلپور کے بھیکن پور محلّے میں آ بسے تھے۔ ہمارا قبیلہ ترین قبیلہ ہے یہاں ترینوں کے مکان پہلو سے پہلو سجائے نظر آتے ہیں۔ سب کے آنگن میں ایک دروازہ ہے جو دوسرے کے آنگن میں کھلتا ہے۔ بڑی امّاں کے گھر سے آنگن ہی آنگن ہوتے ہوئے آپ قنبر علی کے آنگن میں اتر سکتے ہیں۔
مجھے ذات پات پر یقین نہیں ہے۔ میں نے اپنے نام میں خان کا لقب بھی نہیں لگایا ہے۔ لیکن میرے والد کو اپنے ترین ہونے کا بہت گمان تھا۔ وہ فخر سے کہا کرتے تھے کہ پاکستان کے ایوب خان بھی ترین تھے۔ والد کے پاس شجرہ بھی تھا جو خوبداد علی خان کے وقت سے چلا آ رہا تھا۔ والد سن ۶۴ ء میں بہار سول سروس سے سبکدوش ہوئے تھے اور بھاگلپور میں وکالت شروع کی تھی۔ تب ہمارا اپنا مکان نہیں تھا۔ ہم بڑی امّاں کے یہاں رہتے تھے۔ والد کے حصّے کی موروثی زمین اس گھر کے عقب میں تھی ، کچھ کھیت تھے اور آم کا باغ تھا لیکن الگ سے کوئی مکان نہیں تھا۔ بہار سرکار کی تنخواہ پر گذارا کرنے والا ایک ایمان دار مجسٹریٹ اپنے سات بچّوں کی پر ورش کرتا کہ مکان بناتا۔
میری چار پھوپھیاں تھیں۔ ایک پاکستان میں رہتی تھیں، ایک گذر گئی تھیں۔ میں نے دو کو دیکھا جو بھاگلپور میں رہتی تھیں۔ ایک استانی پھوپھی ایک حاجی پھوپھی۔ استانی پھوپھی کو لڑکیاں تھیں کوئی لڑکا نہیں تھا۔ تب وہ رات دن دعا مانگنے لگیں کہ یا اللہ ایک بیٹا دے کچھ نہیں تو لنگڑا لولا ہی بیٹا دے۔ ان کو ایک لنگڑا بیٹا پیدا ہوا جو پھوپھی کے اسکول میں ہی ماسٹر ہوا۔
حاجی پھوپھی نے سات بچّے جنے جو اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ایک تو بھری جوانی میں اٹھ گیا۔ پھر بھی وہ زندہ تھیں اور قسمت کی کج ادائی کا کوئی ماتم نہیں کیا۔ وہ نماز پڑھتیں اور خدا کا شکر ادا کرتیں اور سب کو دعائیں دیتیں۔ پھوپھی کا دو منزلہ مکان تھا اور بہت بڑا آنگن۔ مکان مٹّی اور گارے کا بنا ہوا تھا۔ اس مکان کے بازو میں ایک پختہ مکان تھا جس میں جبریہ اسکول چلتا تھا۔ سامنے کچھ پڑتی زمین تھی جس میں قاسم چچا سبزیاں اگاتے تھے۔ پھوپھی کی کوئی اولاد نہیں بچی تھی تو قاسم چچا کے خاندان کو اپنے دامن میں جگہ دی تھی اور زمین کا ایک ٹکڑا بھی ان کے نام کر دیا تھا۔ ان کے اہل و عیال ہی پھوپھی کی دیکھ بھال کرتے تھے اور ہم لوگوں نے بھی قاسم چچا کو گھر کا فرد سمجھا۔ ان کے ایک لڑکے کو میں نے اپنے محکمہ میں نوکری بھی دلا دی تھی۔
پھوپھی کی زمین میرے والد کے حصّے میں آئی۔ ریٹائر منٹ کے بعد والد نے اسی زمین پر چار کمروں کا ایک ڈھانچہ کھڑا کیا جسے ہم بھائیوں نے مل کر مکمّل کیا۔
مٹّی والا مکان مجھے پر اسرار لگتا تھا۔ اوپر کی منزل پر دو کمرے تھے جن میں کوئی رہتا نہیں تھا۔ یہاں بلّیاں رہتی تھیں جو مجھے دیکھ کر بھاگتی نہیں تھیں۔ لکڑیوں کے کچھ پرانے سامان بھی تھے۔ میں نے ایک کمرے میں اپنے لئے جگہ بنائی۔ یہاں چٹائی بچھا کر لیٹ جاتا اور ناول پڑھتا۔ ایک بوڑھی سی بلّی میرے پاس سٹ کر لیٹ جاتی۔ مجھے اچھا لگتا۔ میں اسے آہستہ سے چھوتا تو وہ ہلکی سی میاوں کے ساتھ آنکھیں کھول کر مجھے دیکھتی اور سو جاتی۔ مجھے لگتا ہے عورت اور بلّی دونوں ہی ایک پیار بھرے لمس کے لئے ہمیشہ ہی ترستی ہیں۔ یہاں کی فضا مجھے پر اسرار لگتی تھی۔ مٹّی کی موٹی دیواریں اور مٹّی کا فرش۔۔۔۔ دو چھوٹے چھوٹے دریچے بھی تھے جن میں لکڑی کی سلاخیں پرانی ہو کر ڈھیلی پڑ گئی تھیں۔ ہوا چلتی تو بہت سی دھول اڑ کر میرے بالوں میں بھر جاتی۔ مجھے لگتا میں پرانے زمانے میں سانس لے رہا ہوں۔ اس کمرے میں میں نے ایک پر اسرار کہانی ’’سبز رنگوں والا پیغمبر‘‘ لکھی تھی جسے مظہر امام نے پٹنہ ریڈیو سے نشر کیا تھا۔ یہ میری پہلی کہانی تھی جو ریڈیو سے نشر ہوئی تھی۔
سگریٹ پینے کے لئے بھی یہ جگہ مناسب تھی۔ یہاں کوئی آتا جاتا نہیں تھا۔ نیچے کے کمرے میں امّاں آ جاتی تھیں۔ ایک بار میں سگریٹ پی رہا تھا تو وہ اندر آنا چاہ رہی تھیں۔ میں نے ٹوک دیا تھا کہ اس وقت کمرے میں نہیں آئیں۔
’’کیوں۔۔۔ ؟‘‘ وہ کچھ غصّے سے بولی تھیں۔
’’میں ابھی سگریٹ پی رہا ہوں۔ میں آپ کے سامنے پی نہیں سکتا اور چھپ کر پیوں گا تو گناہ ہو گا۔ بہتر ہو گا آپ سامنے نہیں آئیں۔ امّاں تو ناراض ہوئیں لیکن والد خوش ہوئے کہ لڑکا ہیپو کریٹ نہیں ہے۔
امّاں کو ایک بار اور ناراض کیا تھا جب میں نے ماموں جان کو پہچاننے سے انکار کر دیا تھا۔ میرے دو ماموں تھے۔ چھوٹے ماموں کو تو دیکھا تھا اور ان سے گھلا ملا ہوا تھا لیکن بڑے ماموں کو کبھی دیکھا نہیں تھا۔ بزرگوں سے ان کے قصّے سنے تھے۔
ایک بیاہتا عورت اپنے تین بچّوں کو چھوڑ کر ان کے ساتھ پاکستان بھاگ گئی تھی۔ تب ان کی عمر بیس بائیس سال رہی ہو گی۔ وہ انٹر پاس کر چکے تھے۔ رشتے کی ایک چچی سے دل لگا بیٹھے۔ امّاں بتاتی ہیں کہ نجمہ کی ماں احمد کے دامن میں بارہ آنے پیسے باندھ کر بھاگی تھی۔ احمد سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔۔۔۔۔ محض چار سال کا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ بارہ آنے باندھ کر بھاگنے کا مطلب کیا ہے۔ امّاں نے سمجھایا کہ بچّہ روئے گا نہیں۔ پیسے دیکھ کر خوش ہو جائے گا۔۔۔۔۔ ماں کو نہیں ڈھونڈے گا۔ مجھے لگا ہلکی سرد ہوا چل رہی ہے اور میں سرمئی دھوپ میں بیٹھا ہوں۔
سوچتا ہوں۔ وہ عورت جب میرے ماموں کی محبّت میں گرفتار ہوئی ہو گی تو کس قدر کشمکش میں پڑ گئی ہو گی۔۔۔۔ کتنے تناؤ میں۔۔۔۔ ؟ بھاگنے سے پہلے کتنی بار سوچا ہو گا ؟ بچّے کی محبّت بار بار اس کے پاؤں میں بیڑیاں ڈالتی ہو گی۔ لیکن اس میں اپنی زندگی جینے کی تڑپ تھی۔ وہ ضرور بہت گھٹن میں جی رہی ہو گی۔ گھر کی سیاست۔۔۔۔ روز کی کھچ کھچ۔۔۔۔ ساس کے طعنے۔۔۔۔ شوہر کے ساتھ صرف جسم کا رشتہ ہو گا۔ وہ اپنا فرض نبھا رہی تھی اور گھٹ رہی تھی۔۔۔۔ لیکن محبّت زندگی سے بڑی ہوتی ہے۔ ساری بیڑیاں توڑ ڈالتی ہے۔ وہ اپنی زندگی جینا چاہتی تھی۔ محبّت کی خاطر اس نے سب کچھ تج دیا۔ لیکن بچّے کی محبّت نہیں تیاگ سکی۔ وہ دامن میں بارہ آنے پیسے باندھ گئی وہ اپنی ممتا باندھ گئی۔۔۔۔ بچّے اور اس کے درمیان یہ بارہ آنے ایک مضبوط کڑی کی طرح تھے۔
میں ماموں کی تعریف کروں گا کہ انہوں نے محبّت کی لاج رکھی۔ زندگی بھر ساتھ نبھایا۔ سوچتا ہوں کیا کیا پریشانیاں نہیں جھیلی ہوں گی انہوں نے۔۔۔۔ ؟بھاگ کر جب پاکستان گئے ہوں گے تو کوئی سہارا تو نہیں تھا۔ ؟ کس سے مدد لی ہو گی ؟ کہاں رکے ہوں گے ؟ نوکری کے لئے در در بھٹک رہے ہوں گے۔۔۔۔ بھوکے پیاسے۔۔۔۔ ان کے پاس کچھ بھی تو نہیں تھا۔۔۔۔ بس۔ آنکھوں میں ایک خواب تھا۔۔۔۔ ان کے ساتھ تھی ان کی محبّت۔
آ خر ان کو ریلوے میں ایک اچھی سی نوکری مل گئی۔
ماموں بھاگلپور بھی آئے۔ تب میں انجینیرنگ کا طالب علم تھا۔ گھر میں بہت شور ہوا کہ ماموں آئے ہیں۔۔۔۔ ماموں۔
امّاں نے کہا ’’سلام کرو۔ تمہارے ماموں ہیں۔‘‘
میں مسکرایا۔ ’’یہ آپ کے بھائی ہیں میرے ماموں نہیں۔‘‘
امّاں نے ناگوار نظروں سے مجھے دیکھا۔
کیسے ماموں۔۔۔ ؟ میں کبھی ان کی گود نہیں چڑھا۔ کبھی شرارت نہیں کی۔ ان کے ساتھ کبھی میلہ گھومنے نہیں گیا۔۔۔ ان کی ڈانٹ نہیں سنی۔ کبھی بزرگوں کی جھڑکیوں سے مجھے بچایا نہیں۔۔۔۔ کبھی میرے لئے کسی سے تکرار نہیں کی تو میرے ماموں کیسے۔۔۔۔ ؟
میرے ایک اور ماموں تھے۔۔۔۔ چھوٹے ماموں۔۔۔۔ اور میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا ہندوستانی سماج میں ایک شکونی موجود ہوتا ہے ؟
چھوٹے ماموں کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ تاتار پور میں ایک اچھی دکان تھی۔ لیکن ماموں خرّاچ تھے۔ ان میں پیشہ ور تاجر کے اوصاف نہیں تھے۔ پیسے اس طرح خرچ کرتے تھے کہ دکان بیٹھنے لگی۔ سولہ ہزار کا قرض ہو گیا۔ آج سے سا ٹھ سال قبل سولہ ہزار کی قیمت کیا رہی ہو گی۔ قرض کہلگا وں کے زمین دار کا تھا۔ قرض کیسے اترے۔۔۔۔ ؟
ماموں نے میرے ایک بھا ئی کو اغوا کیا اور زبر دستی ان کا نکاح زمین دار کی لڑکی سے پڑھا دیا ان کی نظر پہلے بھائی جان یعنی سب سے بڑے بھائی پر تھی لیکن وہ بہت اکھڑ تھے۔ ان پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں تھا۔ یہ اللہ میاں کی گائے تھے۔ انہیں صرف پڑھنے سے مطلب تھا۔ انہیں لالچ میں ڈال دیا گیا کہ تمہیں لندن بھیج دیں گے، پھر بھی انہوں نے بچنے کی بہت کوشش کی۔ ٹرین میں چھپ کر بھاگے لیکن ماموں نے راستے میں گھیر لیا۔ دھمکی دی۔ نکاح کے لئے مجبور کر دیا۔
ماموں کا یہ ایسا جرم تھا جسے معاف نہیں کیا جا سکتا تھا۔ میں تو نہیں معاف کرتا لیکن یہ والد کا دل تھا کہ معاف کر دیا اور ماموں سے کوئی شکایت نہیں کی۔
اصل میں والد امّاں کا اترا ہوا چہرہ نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اس واقعہ نے امّاں کا سر جھکا دیا تھا۔ جرم بھائی نے کیا تھا اور مجرم بہن بنی ہوئی تھی۔۔۔۔ میرے بھائی نے ایسا کیا۔۔۔۔ میرے بھائی نے۔۔۔۔ ! وہ چپ چپ رہنے لگی تھیں۔ ہر وقت چہکنے والی عورت اچانک گم صم ہو جائے تو کیسا لگے ؟ والد نے کہا ’’کوئی بات نہیں ہے۔ اللہ کو یہی منظور تھا۔۔۔۔۔ لڑکی ضرور اچھی ہو گی۔‘‘ ان دنوں ہم مظّفر پور میں تھے۔ ماموں ہمارے یہاں آئے تو ان کو خوش آمدید ہی کہا گیا۔ وہ امّاں سے عمر میں چھوٹے تھے۔ میں نے بھائی بہن میں ایسی محبّت کہیں نہیں دیکھی۔ امّاں انہیں نمّو کہتی تھیں۔
مظّفر پور سے والد کا تبادلہ جہان آباد ہوا تو نمّو وہاں بھی آئے۔ میں تب ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ ماموں کو اچانک سو روپے کی ضرورت پڑ گئی۔ کون دیتا ؟ کوئی نہیں۔۔۔۔ ؟ ایک بہن تھی جسے نمّو کے لئے سب کچھ گوارہ تھا۔ نمّو اداس چہرہ لئے آئے تو بہن کا کلیجہ کٹنے لگا۔ کہاں سے لائے سو روپے۔۔۔۔ ؟ شوہر کی تنخواہ دو سو روپے تھی۔ پاس میں زیور بھی نہیں تھے کہ بیچ سکتی۔ زیور بیٹی کی شادی میں صرف ہو چکے تھے۔ وہ کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھیں۔ میں دونوں کو سر جوڑے باتیں کرتے دیکھتا تھا۔۔۔۔ بہت فکر مند۔۔۔۔ بہت اداس۔۔۔۔ ان کی نیند اڑ گئی تھی۔ لیکن ایک امید کی کرن جھلملاتی نظر آئی۔۔۔۔ مسز ہدا۔۔۔۔ !
ہدا صاحب پی ڈبلو ڈی میں انجینیئر تھے۔ ان کے گھر سے دوستانہ تھا۔ امّاں نے ان کے نام چٹّھی دی۔ بولیں ’’کسی سے کچھ کہنا نہیں۔۔۔۔ چپکے سے جاؤ۔۔۔۔ ان سے سو روپے مانگ کر لے آؤ۔۔۔۔ اور بیٹا۔۔۔۔ پیسے رو مال میں باندھ لینا اور پینٹ کی جیب میں رکھ لینا۔‘‘
بیٹا مسز ہدا سے ملا۔ ان کو چٹّھی دی۔ مسز ہدا نے پچاس روپے دیئے۔ وہ پچاس روپے آج دس ہزار کے برابر ہوں گے۔ یہ امّاں کا ایک دم نجی قرض تھا جو چکا نہیں سکتی تھیں۔ یہ میرے سینے پر ایک بوجھ تھا جو میرے ماموں نے مجھ پر لادا تھا۔ اس کا کوئی راز دار نہیں تھا۔
کوئی بیس سال بعد ہدا صاحب سوپر ٹینڈینگ انجینئر بن کر بھاگلپور آئے۔ میں ان دنوں ادھورا میں اسٹنٹ انجنیئرتھا۔ میں چھٹّی میں بھاگلپور آیا تو مسز ہدا سے ملا۔ مجھے دیکھ کر وہ خوش ہوئیں۔ سب کی خیریت پوچھی۔ میں نے کہا۔
’’آپ کو یاد ہے بیس سال پہلے جب آپ جہان آباد میں تھیں۔‘‘
’’یاد ہے۔ وہاں تم لوگ بھی تھے۔‘‘
’’یہ بھی یاد ہو گا امّاں کی ایک چٹّھی لے کر میں آپ کے پاس آیا تھا۔‘‘
’’مجھے یاد نہیں ہے۔ اتنے برس پہلے کی بات۔۔۔۔ ؟‘‘
’’آج پھر امّاں نے چٹھی دی ہے۔‘‘ میں نے جیب سے لفافہ نکالا جس میں پچاس کا نوٹ تھا اور ان کے ہاتھ میں دیا۔ پھر ایک پل بھی وہاں نہیں رکا اور گھر چلا آیا۔
لکھنا منجھلے بھیّا شرجیل احمد خان نے بھی شروع کیا لیکن تاخیر سے۔ وہ بہت پڑھا کو ہیں۔ انہوں نے کیا نہیں پڑھا ہے۔ زو لوجی میں علی گڑھ سے ایم اس سی کیا لیکن ادب اور فلسفہ بھی مطالعہ میں رہا۔۔ ان کے آگے ہم سب اپنے کو بونا محسوس کرتے ہیں۔ ریٹائر منٹ کے بعد اردو میں لکھنا شروع کیا۔ ادب میں تراجم کے دروازے سے داخل ہوئے۔ ان کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ڈھیر ساری انگریزی کہانیوں کا ترجمہ کیا۔ یونانی اساطیر پر بھی ان کا کام ہے۔ اساطیر کی ایک لغت بھی ترتیب دی ہے۔ اردو ادب میں ان کے بیش بہا اضافے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
میرا ننیہال ہم بھائیوں کے لئے پیرس تھا۔ ہم وہاں رومانس کرنے جاتے تھے۔ میرے سنجھلے بھائی تمثیل احمد خان چھوٹے ماموں کی لڑکی پر عاشق تھے۔ وہ تھی بھی بہت خوب صورت اور زندگی سے بھر پور۔ وہ امرائیوں میں دوڑتی پھرتی اور ڈال پتّہ کھیلتی۔ یہ کھیل آم کی شاخوں پر ہی کھیلا جاتا ہے۔ وہ دوڑ کر پیڑ پر چڑھ جاتی اور شاخ پکڑ کر نیچے جھول جاتی۔ بات بات پر قہقہے لگاتی اور تالیاں بجاتی اور بھیّا دل تھام کر بیٹھے دیکھتے رہتے۔ ماموں کا بزنس پوری طرح فیل ہو گیا تو وہ سب کو لے کر پاکستان چلے گئے۔ بھیّا نے جب تعلیم مکمّل کر لی تو پاکستان گئے، اس سے بیاہ کیا اور وہاں بس گئے۔
تمثیل بھیّا افسانہ نگار تھے اور دیپ بھاگلپوری کے نام سے لکھتے تھے۔ ان کے افسانے جمالستان میں شائع ہوتے تھے۔ بعد میں تمثیل احمد کے نام سے لکھنے لگے۔ اسی نام سے وہ شاہراہ میں بھی چھپنے لگے۔ ان کی وجہ سے ہی گھر میں شاہراہ فن کار اور شاعر جیسے رسائل آتے تھے جنہیں میں شوق سے پڑھتا تھا۔ فن کار کا تو میں ایک ایک ورق چاٹ جاتا تھا۔ تب میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ کرشن چندر اور غلام عبّاس وغیرہ کو میں نے اسی زمانے سے پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ ان دنوں میں نے دو کہانیاں لکھیں۔۔۔ ’’ شب برات کا حلوہ‘‘ اور ’’چچا کا تار‘‘۔ جو پٹنہ کے روز نامہ صدائے عام میں شائع ہوئی تھیں۔ مجھے یاد ہے چچا کے تار میں میرا ایک جملہ تھا ’’وہ آنکھیں جن میں آنسو بھرے تھے چھلک پڑیں۔۔۔۔‘‘ بھیّا نے اس میں ترمیم کر دیا ’’وہ آنکھیں جن میں پہلے سے آنسو بھرے تھے گنگا جمنا کی دھار بن کر پھوٹ پڑیں۔‘‘ والد نے اس کہانی کی بہت تعریف کی خاص کر اس جملے کی۔ لیکن میں بالکل خوش نہیں ہوا۔ اس میں بھیّا کا قلم لگ چکا تھا۔ میں نے سوچا اب کسی سے اصلاح نہیں لوں گا۔ اسی زمانے میں بوا کی شادی ہوئی تھی۔ میرے یہاں بڑی بہن کو بوا ہی کہتے تھے۔ والد نے کہا الوداع لکھ کر لاؤ۔ میں نے الوداع لکھ کر سنایا تو سب کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ کچھ مہمان بھی آئے ہوئے تھے۔ والد نے ان کو بھی سنانے کے لئے کہا۔ گھر کے کسی بزرگ نے یہ سوچ کر میری تحریر میں کچھ ردّ و بدل کر دیا کہ اردو اچھی ہو جائے گی تو باہر والوں پر رعب پڑے گا۔ میں نے ترمیم شدہ تحریر سنائی تو کسی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ والد نے کہا کیا واہی تباہی سنا رہے ہو۔۔۔۔۔ وہ سناؤ جو تم نے لکھا ہے۔ اس دن میں نے اس بات پر مہر لگا دی کہ زندگی میں کبھی کسی سے اصلاح نہیں لوں گا۔
تمثیل بھیّا مجھ سے نو دس سال بڑے تھے۔ رسالہ بیسویں صدی پڑھنے سے منع کرتے تھے۔ کہتے تھے بیسویں صدی پڑھو گے تو گھٹیا کہانی لکھو گے جس میں رومانس ٹھونس ٹھونس کر بھرے جاتے ہیں۔ ایک بار میں نے کہا تھا کہ کرشن چندر بھی بیسویں صدی میں لکھتا ہے تو بھیّا بہت ناراض ہوئے۔ میرے کان کھینچتے ہوے بولے کہ کرشن چندر کرشن چندر بن جانے کے بعد بیسویں صدی میں لکھتے تھے اور میاں تم کیا ہو ؟ پدّی کا شوربہ۔۔۔۔ ؟ وہ جاسوسی دنیا بھی پڑھنے کے لئے کہتے تھے۔
میٹرک تک آتے آتے میں نے اردو کی بہت ساری اچھی کہانیاں پڑھ لی تھیں۔ میرا ذہن بنانے میں تمثیل بھیّا کا بہت ہاتھ ہے۔ کہتے تھے اردو سیکھنی ہے تو ملّا رموزی کی گلابی اردو پڑھو۔ وہ پاکستان گئے تو غم روز گار میں الجھ گئے۔ ان کا لکھنا بند ہو گیا۔ لیکن میں نے اردو با قاعدہ نہیں سیکھی۔ یہی وجہ ہے کہ مجھ سے املا کی غلطیاں ابھی بھی ہوتی ہیں۔ میں نے اردو خط پڑھ کر سیکھی۔ گھر میں کوئی خط پڑھ کر سناتا تھا تو مجھے مضمون یاد ہو جاتا تھا۔ پھر میں خط اٹھا کر دیکھتا کہ ’’جناب‘‘ اس طرح لکھا ہوا ہے ’ والد ‘ اس طرح لکھا ہوا ہے۔
اس لفظ کی ساخت میرے ذہن میں بیٹھ جاتی۔ ایک بار پرانا پوسٹ کارڈ پڑھ رہا تھا تو والد نے دیکھ لیا۔ ان کو بہت حیرت ہوئی کہ میں نے اردو کہاں سے سیکھی۔ ؟ انہوں نے دوسرا پوسٹ کارڈ پڑھنے کو دیا۔ وہ میرا سنا ہوا تھا۔ فر فر پڑھ کر سنا دیا۔ اب تو سب کو حیرت ہوئی کہ یہ معجزہ کیسا ہے۔ ؟ والد نے جب نئی چٹھی دی تو پورا نہیں پڑھ سکا۔ لیکن کچھ الفاظ پہچانتا تھا وہ میں نے پڑھ دیئے۔ والد سمجھ گئے کہ میں لفظوں کو ان کی ساخت سے پہچانتا ہوں۔ انہوں نے الگ الگ پرزوں پر کچھ الفاظ لکھے مثلاً چھپّر، ٹم ٹم، گھوڑا اور مجھے بتایا کہ یہ الفاظ کیا ہیں۔ پھر سب پرزوں کو مکس کر دیا اور کہا کھول کھول کر پڑھو۔ میں ایک ایک پرزہ اٹھا کر کھولتا اور اترا اترا کر پڑھتا ’’یہ بیٹا چھپّر۔ یہ بیٹا ٹم ٹم۔۔۔۔ یہ بیٹا۔۔۔۔ سب بہت خوش ہوتے اور تالیاں بجا بجا کر ہنستے۔ امّاں گود میں اٹھا لیتیں۔۔۔۔ میرا ہیرا بیٹا۔۔۔۔ کسی کی نظر نہ لگے۔۔۔۔ اور جھٹ کالا ٹیکہ لگا دیتیں۔ تب میری عمر چار سال کی تھی۔ والد مجھے مدرسہ لے گئے۔ اردو کا قاعدہ تو مجھے سن کر ہی یاد تھا۔ مولوی نے قاعدہ کھولا ایک لفظ پر انگلی رکھی اور کہا پڑھو تو میں نے پڑھا ’’گائے‘‘۔ مولوی صاحب نے کہا ہجّے کرو۔ میں نے پھر پڑھا گائے۔ حرف کون سا ہے ؟ میں نے پھر کہا گائے تو مولوی صاحب نے میرے کان اینٹھے۔ ’’احمق کہیں کا۔۔۔۔ حرف بھی نہیں پہچانتا ہے۔‘‘ میں روتا ہوا گھر آیا اور پھر مدرسہ نہیں گیا۔ میں کیا کہتا کہ کون سا حرف ہے میں نے ابجد تو پڑھا نہیں تھا۔ اردو میں نے گھر پر ہی کٹر مٹر سیکھی۔ یہی وجہ ہے کہ مجھ سے ابھی بھی املا کی غلطیاں ہوتی ہیں۔ میں فارسی بھی با قاعدہ نہیں پڑھ سکا۔ عربی قران کی حد تک پڑھنا جانتا ہوں۔ فارسی کے وہی اشعار یاد ہیں جو والد گنگناتے تھے۔ وہ بولتے ’’در دشت جنون من۔۔۔۔‘‘ مجھ سے کہتے آگے بولو۔ میں کہتا ’’جبریل زبوں صیدے۔۔۔۔۔‘‘ اصل میں میری یاد داشت غضب کی تھی۔ ایک بار کچھ بھی پڑھتا مجھے کوما فل اسٹاپ تک یاد ہو جاتا۔ لیکن یہ بات صرف شعر و ادب تک ہی تھی۔ سائنس کے ساتھ بہت مغز ماری کرنی پڑتی۔ پھر بھی والد نے مجھے انجنیرنگ پڑھنے پر مجبور کیا جس کی پھانس ابھی بھی میرے دل میں ہے۔
تمثیل بھیّا پاکستان تو بس گئے لیکن ان کی سانسوں میں ہندوستان کی خوش بو رچی رہی۔ وہاں جا کر ہم لوگوں کو رات دن یاد کرتے۔ ہر ہفتے ان کی چٹّھی آتی تھی۔ اپنا رونا روتے اور ہماری خیریت پوچھتے۔ ایک بار پاکستانی پاسپورٹ سے بھاگلپور آئے تو حسرت سے درو دیوار کو تکتے اور کہتے تھے میں اپنے ہی گھر میں اجنبی ہوں۔ تھانے میں رپورٹ درج کرانی پڑی کہ بھاگلپور پہنچ گئے ہیں جس سے ان کو بہت تکلیف ہوئی۔ میرے والد کو اسی لئے پاکستان سے چڑ تھی۔ کہتے تھے پاکستان میرے بچّوں کو نگل گیا۔ بھائی جان بیماری کے عالم میں پاکستان چلے گئے تھے اور حادثے کا شکار ہو گئے تھے۔ تمثیل احمد خان کے بعد ایک بہن ہیں زکیہ خانم۔ سادہ لوح اور محبّتی۔ کبھی اونچی آواز میں بات کرتے نہیں دیکھا۔ ان کے بعد ایک بھائی تھے ڈاکٹر عقیل احمد خان اور ان کے بعد ترسیل احمد خان۔
ڈاکٹر عقیل اپنی طرح کے انوکھے آدمی تھے۔ مرض دور سے ہی سونگھ لیتے۔ ان کے ہاتھ میں شفا تھی۔ والد کی بہت تمنّا تھی کہ بھاگلپور میں اپنی کلینک کھولتے لیکن انہیں انگلینڈ جانے کا شوق تھا۔ یہ بر منگھم میں بس گئے اور وہیں اپنی سرجری کھولی۔
ترسیل مجھ سے دو سال بڑے ہیں۔ ترسیل نے ہمیشہ فیملی یو نیٹی پر زور دیا۔ میں نے جب انجنیرینگ میں داخلہ لیا تھا تو وہ گریجوئٹ ہو چکے تھے۔ انہوں نے ریلوے میں نوکری کر لی اور میری پڑھائی کا سارا خرچ سنبھا لا۔ میری کتابیں بہت سنبھال کر رکھتے ہیں۔
ننیہال میں مزہ آتا تھا۔ چھوٹے ماموں کے سات بچّے تھے۔ شرارت میں کوئی کسی سے کم نہیں تھا۔ خوب دھما چو کڑی مچتی۔ وہاں ہر طرح کی آزادی تھی۔ کچھ بھی کرو کوئی ٹوکنے والا نہیں تھا۔ ہم امرائیوں میں گھومتے اور پتّھر سے مار کر آم توڑتے۔ پیڑ پر چڑھ کر یا لگّی سے آم توڑنا بڑی بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔ کمال تھا پتّھر سے نشانہ لگاؤ اور آم گرے تو دوڑ کر لپک لو۔ شمعون اس میں ماہر تھا۔ وہ مجھ سے چھ سال بڑا تھا لیکن میرا بہت دوست تھا۔ مجھے کچّے امرود اور آم توڑ کر دیتا تھا۔ ہم کچّے امرود کو کیری امرود کہتے تھے۔ مجھے نہیں معلوم ’’کیری‘‘ کس زبان کا لفظ ہے۔ وہاں ایک بارہ تیرہ سال کی نوکرانی تھی جسے وہ کیری امرود کہہ کر بلاتا تھا اور وہ مسکراتی تھی۔ میں شمعون سے پوچھتا کہ اس کو کیری امرود کیوں کہتے ہو تو ہنس کر کہتا تھا ’’دیکھو۔۔۔ دو پٹّے کے پیچھے کیا ہے۔۔۔ ؟‘‘
پاس ہی چھوٹے نانا کی حویلی تھی۔ یہ امّاں کے اپنے چچا تھے اور بہار سرکار میں سول اس ڈی او کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے۔ انگریزوں نے انہیں خان بہادر کا لقب دیا تھا۔ حویلی کے احاطے میں آم کے آٹھ دس درخت تھے۔ ہم ان درختوں پر ڈال پتّہ کھیلتے تھے اور شمعون پیڑوں پر نشانہ لگاتا تھا۔ آم ٹوٹنے کی آواز ہوتی تو چھوٹے نانا باہر نکل کر دیکھتے۔ شمعون پیڑ کے پیچھے چھپ جاتا اور کھی کھی کی آواز کے ساتھ ہنستا اور منھ پر ہاتھ رکھ کر کہتا ’’بڈھا سوتا نہیں ہے۔‘‘
چھوٹے نانا کی حویلی شان دار تھی۔ ایک بڑا سا ہال تھا جس میں خوب صورت جھاڑ فانوس لگے تھے۔ دیواریں جگہ جگہ ہرن کی سینگ بارہ سنگھے کا سر اور شیر کی کھال سے سجی تھیں۔ شیشے کے بڑے بڑے فریم میں تغرے بھی آویزاں تھے۔ میں نے سن رکھا تھا کہ نانا بہت شکاری تھے اور ان کا علاقے میں بہت دبدبہ تھا۔ میں ہال میں آتا تو مجھے لگتا کسی جنگل سے گذر رہا ہوں۔ مجھے یہاں کی فضا اجنبی لگتی تھی۔ نانا کے پاس ایک فورڈ موٹر تھی جو ہینڈل سے اسٹارٹ ہوتی تھی۔ میں اس موٹر پر کبھی نہیں چڑھا۔ اصل میں اس گھرانے سے ہم لوگوں کے بہت دیرینہ تعلّقات نہیں تھے۔
شمعون کی ماموں زاد بہن کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ شمعون نے مجھے بتایا کہ اس کا دلہا اسے روز کھاتا ہے۔ اس کی بات میری سمجھ میں نہیں آئی تو اس نے کہا ایک دن مجھے دکھائے گا۔ گرمی کی ایک دو پہر میں وہ مجھے حویلی میں لے گیا اور جس کمرے میں وہ رہتی تھی اس کی جھلملی سے جھانکنے لگا۔ پھر اس نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے قریب بلا یا اور سرگوشی کی ’’دیکھو۔۔۔۔ کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔ ؟‘‘ میں نے جھلملی سے آنکھیں لگا دیں۔ دونوں ہی ننگے تھے اور ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے تھے۔ اچانک شمعون زور سے چلّایا۔ ’’ابے سالے۔۔۔۔ کتنا کھائے گا۔۔۔۔ ؟‘‘ اور میرا ہاتھ پکڑ کر بھاگا۔ ہم پیڑ کے پیچھے چھپ گئے۔
لیکن میری زیادہ دلچسپی بہرو نانی میں تھی۔ میری دو نانیاں تھیں۔ پہلی نانی کو ہمیشہ پلنگ پر لیٹے ہوئے ہی دیکھا۔ وہ بیمار رہتی تھیں۔ ان سے زیادہ بات نہیں ہوتی تھی۔ دوسری سے میرے نانا نے ان دنوں نکاح کیا تھا جب وہ بہار سرکار میں ا یجو کیشن افسر تھے۔ وہ کہیں نرس تھیں اور سنتا ہوں بہت خوب صورت تھیں۔ نانا کبھی بیمار پڑے تھے تو انہوں نے جی جان سے خدمت کی تھی۔ ان کی تیمار داری نے نانا کے دل میں جگہ بنا لی تھی۔ نکاح سے پہلے نانا نے گھر سے اجازت لی تھی۔ بڑی نانی نے ان کی محبّت کو صدق دلی سے قبول کیا تھا۔۔ امّاں بتاتی ہیں کہ دونوں سگّی بہنوں کی طرح رہتی تھیں۔ ان میں ملّت اتنی تھی کہ مثال دی جاتی تھی۔ لیکن ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ میں نے جب ہوش سمبھالا تو کافی بوڑھی ہو چکی تھیں۔ سنائی بھی نہیں دیتا تھا۔ ہم کہانی سننے کے لئے انہیں حلقہ میں لئے رہتے تھے لیکن مشکل یہ تھی کہ کچھ سنتی ہی نہیں تھیں تو اپنا مدّعا کیسے کہتے۔ا مّاں نے راستہ نکالا۔ ہمیں سمجھایا کہ بدھنا دکھاؤ اور آسمان کی طرف دیکھو اور پانی گراؤ۔ ہم یہی کرتے اور وہ سمجھ جاتیں تو ہماری خوشی کی انتہا نہیں ہوتی۔ ہمیں لگتا ہم نے ایک معرکہ سر کیا ہے۔ وہ گلفام کی کہانی سناتیں کہ کس طرح پری دیو کی قید میں ہوتی تھی اور شہزادہ گلفام دیو کا قتل کرتا اور پری سے شادی کرتا۔ وہ کہانی کہنے کے فن سے واقف تھیں۔ وہ آنکھوں کو چمکاتیں۔۔۔۔ کبھی آنکھیں چھوٹی ہو جاتیں کبھی بڑی ہو جاتیں، کبھی ہاتھ لہراتیں۔ جب دیو کا ذکر آتا تو بال چہرے پر بکھرا لیتیں اور بھاری آواز میں کہتیں۔۔۔۔ ’’وہ آیا دیو۔۔۔۔‘‘ میں ڈر کر ان کے سینے سے چپک جاتا تھا۔ لیکن وہ ہمیشہ یہی کہانی سناتی تھیں۔ انہیں اور کہانیاں ضرور آتی ہوں گی لیکن ہم جس طرح سے انہیں سمجھاتے تھے تو ہو سکتا ہے وہ اس سے یہی کہانی مراد لیتی ہوں گی۔ لیکن یہ راز میری سمجھ میں نہیں آ یا کہ بدھنے کا کہانی سے کیا تعلّق ہے۔ مجھے دیو کا ذکر پسند نہیں تھا۔ میں ان سے پوچھنا چاہتا تھا کہ آپ کی کہانی میں دیو کیوں ہوتا ہے لیکن کیسے پو چھتا ؟ آخر ایک دن میں نے امّاں سے پو چھا تو وہ ہنسنے لگی تھیں اور بولی تھیں کہ جہاں پری ہو گی وہاں دیو بھی ہو گا اور ایک شہزادہ بھی جو پری کو دیو کی قید سے نجات دلائے گا۔
میں جب مہاماری میں ڈھانچو کی کردار نگاری کر رہا تھا تو مجھے یہ کہانی یاد آئی تھی اور میں نے ایک نظم لکھی تھی جو مہاماری میں شامل ہے۔ اس نظم کو پاکستان کی سیّدہ فضا گیلانی نے ڈیزائن کر فیس بک پر پوسٹ کیا ہے۔
ماں بچپن میں سناتی تھی کہانی
کہانی میں پری ہوتی
دیو ہوتے
اور ہوتے شہزادے
پری دیو کی قید میں ہوتی
اور میں پو چھتا
ماں کیوں ہوتا ہے تمہاری ہر کہانی میں ایک دیو
ماں ہنستی تھی اور کہتی تھی
جہاں پری ہو گی وہاں دیو ہو گا
اور ایک شہزادہ بھی
ماں شہزادے کو نجات دہندہ بتلاتی تھی
مجھے یاد ہے میں خوف سے آنکھیں بند کر لیتا
کہیں ایسا تو نہیں دیو ڈھونڈ لے گا شہزادے کو ؟
ماں سناتی ہے اب میرے بچّوں کو کہانی
کہانی میں پری ہوتی ہے
دیو ہوتے ہیں
نہیں ہوتے شہزادے
کہاں گئے شہزادے ؟
کسی بھی خاندان کی شان و شوکت بہت دنوں تک قائم نہیں رہتی۔ میں سمجھتا ہوں تیسری نسل سے زوال شروع ہو جاتا ہے۔ چھوٹے نانا کا خاندان آہستہ آہستہ بکھرنے لگا۔ ان کی اولاد کچھ تو پاکستان چلی گئی کچھ کینسر کے مرض میں مبتلا ہو گئی۔ اس گھر کے لوگ جو ہندوستان میں رہ گئے اقبال مند ثابت نہیں ہو سکے۔ میں نے اس حویلی کو آہستہ آہستہ کھنڈر میں تبدیل ہوتے دیکھا۔
چھوٹی نانی کی شان و شوکت کے قصّے امّاں سناتی تھیں۔ انہوں نے کبھی زمین پر قدم نہیں رکھے۔ جہاں بھی جاتیں پالکی میں جاتیں اور قالین پر چلتی تھیں۔ کہار چوبیس گھنٹے دروازے پر تعینات رہتے تھے۔ا مّاں کہتی ہیں نانی نے کبھی ہل کر پانی نہیں پیا۔ یہ محاورہ ہے ’’ہل کر پانی نہیں پینا‘‘ جو اس وقت کی رئیس خواتین میں رائج تھا۔ یعنی باندیاں اتنی تھیں کہ کوئی کام خود سے کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ بڑی بات سمجھی جاتی تھی کہ گھر کی مالکن ہل کر پانی نہیں پیتی ہے۔ لیکن میں نے چھوٹی نانی کو جو ہل کر پانی نہیں پیتی تھیں اور پالکی میں چلتی تھیں کسی آسیب کی طرح اس کھنڈر ہوتی حویلی میں بھٹکتے ہوئے دیکھا۔
بات سن ساٹھ کے آس پاس کی ہے۔ا مّاں نے مجھے کچھ پکے ہوئے آم دیئے کہ چھوٹی نانی کو دے آ ؤ ں۔ میں سائکل سے وہاں گیا تو جاتے جاتے شام ہو گئی۔ حویلی سنّاٹے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ درو دیوار پر دھول کی پرتیں مستقل وہم کی طرح جمی ہوئی تھیں اور شام کا اندھیرا پاؤں پسار رہا تھا۔ برآمدے میں ہر طرف سوکھے پتّے بکھرے ہوئے تھے۔ سیڑھی کے پاس سائکل لگائی اور برآمدے میں آیا تو قدموں کے نیچے سوکھے پتّے چر مرائے۔۔۔۔ دروازہ بند تھا۔ کھٹکھٹایا لیکن دستک کی آواز سنّاٹے میں ڈوب گئی۔ کئی بار دستک دی۔۔۔۔ سنّا ٹا بڑھ گیا۔ کوفت ہو رہی تھی کہ اندر کوئی ہے تو سنتا کیوں نہیں۔ ؟ معلوم تھا وہ اکیلی رہتی ہیں اور اونچا سنتی ہیں مزید دستک فضول تھی۔ ایک ترکیب سوجھی۔ دروازے میں جو جھلملی تھی اس کے اندر ہاتھ ڈال کر ایک پتھر پھینکا۔ پتّھر اندر ہال میں کچھ دور تک گیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ وہ پتّھر گرنے کی آواز تو نہیں سنیں گی لیکن نظر پڑے گی تو سمجھ جائیں گی کہ کوئی دروازے پر ہے۔ دوسرا پتّھر کچھ قوت سے پھینکا جو ہال سے ہوتا ہوا اندر کمرے تک چلا گیا۔۔ ترکیب کام کر گئی۔ نانی کی نظر پتّھر پر پڑ گئی۔ وہ لاٹھی ٹیکتی ہوئی ہاتھ میں لالٹین لئے ہال تک آئیں تو میں نے جھلملی کو زور سے ہلایا۔ وہ سمجھ گئیں۔ دروازہ کھولا اور ادھ میچی آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے پہچاننے کی کوشش کی۔ میں نے ہاتھ اٹھا کر سلام کیا اور کان کے پاس چلّا کر بولا۔ ’’رضیہ کا بیٹا ہوں۔۔۔۔۔‘‘ آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں سر ہلا کر بو لیں ’’ہاں۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ پہچان رہی ہوں۔۔۔۔ اندر آؤ !‘‘
کمرے سے دروازے تک آنے میں ان کی سانسیں پھول رہی تھیں۔ میں نے اندازہ لگایا۔ عمر اسّی سے تجاوز کر رہی ہو گی۔ مجھے عجیب سا احساس ہو رہا تھا۔ ایک سنسان کھنڈر نما حویلی میں اکیلی بھٹکتی ہوئی ضعیفہ۔۔۔۔ ہاتھ میں لالٹین۔۔۔ لاٹھی ٹیکتی ہوئی۔۔۔۔ آم کی تھیلی ان کے ہاتھ میں تھمائی۔ ’’امّاں نے آم بھیجے ہیں۔‘‘
انہوں نے تھیلی ایک طرف تخت پر رکھ دی اور مجھے بیٹھنے کو کہا اور لاٹھی ٹیکتی ہوئی ورنڈے کے کونے کی طرف چلی گئیں اور نگاہوں سے او جھل ہو گئیں۔ میں اکیلا کرسی پر بیٹھا چھت کو گھورنے لگا جس کا پلستر جگہ جگہ سے ادھڑ گیا تھا۔ وہ کچھ دیر تک نہیں آئیں اور کونے سے دھواں اٹھنے لگا تو میں نے ادھر جھانکا۔ چولہے پر چائے کی کیتلی چڑھی ہوئی تھی اور نانی سوکھے پتّوں میں پھونک مار رہی تھیں۔
’’نانی آپ کیا کر رہی ہیں ؟‘‘ میں اٹھ کر ان کے پاس گیا۔
’’بیٹا۔۔۔ تم چائے پی لو۔‘‘
’’اس کی کیا ضرورت ہے نانی ؟ آپ کیوں تکلّف سے کام لے رہی ہیں ؟‘‘ میرا دل پسیج گیا۔
لیکن وہ چولہے میں پھونک مار تی رہیں۔
’’میں چائے بنا دیتا ہوں۔‘‘ میں نے زبر دستی انہیں وہاں سے اٹھایا۔
’’آپ اکیلی کیوں رہتی ہیں نانی۔۔۔۔ ؟‘‘
’’ایک کام والی آتی ہے۔ شام کو چلی جاتی ہے۔‘‘
میں چائے پی کر پیالی دھونے لگا تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’کام والی آتی ہے نہ۔۔۔ ! وہ صبح دھو دے گی۔‘‘
وہ مجھے چھوڑنے دروازے تک آئیں۔ انہیں دروازہ لگانا بھی تھا۔
ان کی ایک لڑکی میرے محلّے میں ایک رشتے دار سے بیاہی تھی۔ وہ ایک دم آخری دنوں میں ان کے پاس رہنے لگیں۔
٭٭٭