[1]
مجھے سگریٹُ پینے والی عورتیں اچھی لگتی ہیں۔۔۔۔۔
لیکن میرے حلقہ احباب میں کوئی ایسی تخلیق کارہ نہیں ہے جسے سگریٹ نوشی کا شوق ہو۔ ساجدہ زیدی سگریٹ پیتی تھیں لیکن وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ مذہب سے میری دلچسپی کم ہے لیکن مذہبی صحیفے مجھے بھاتے ہیں۔ ان کی زبان مجھے کھینچتی ہے۔ زبور میں حضرت داؤد کی غزل الغزلات کی قرات مجھے نشے میں لا دیتی ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا بائبل کا ہندی ترجمہ کیسا ہے لیکن اردو ترجمہ غضب کا ہے۔۔۔۔۔ نثری نظم کی بہترین مثال۔ گیتا کے اشلوک بھی مجھے رومانچت کرتے ہیں با لخصوص وہ عبارت جہاں کرشن کہتے ہیں کہ میں تجسٍّوی کا تیج ہوں، یشسّوی کا یش ہوں، درختوں میں پیپل ہوں تو مجھ پر سحر طاری ہوتا ہے۔ نثر کی ایسی مٹھاس اور ایسی روانی کہیں دیکھنے کو نہیں ملی۔ لیکن یہ بات مجھے گیتا پریس والے تراجم میں ہی ملی۔ میں نے گیتا کے اور تراجم کا بھی مطالعہ کیا ہے لیکن وہ اس طرح گرفت میں نہیں لیتے۔ مولانا مودودی نے جو قران پاک کا اردو ترجمہ کیا ہے وہ بھی سرور بخشتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ایسے صحیفوں کا مطالعہ تخلیقیت کو جلا بخشتا ہے۔
بات شروع ہوئی تھی سگریٹ پینے والی عورتوں سے۔۔۔۔ تو ایسی عورتوں میں ایک طرح کا کھلا پن ہوتا ہے۔ آپ ان سے بہت نجی باتیں شیئر کر سکتے ہیں۔ کسی ریستوراں کے نیم اندھیرے گوشے میں مشروبات کی ہلکی ہلکی چسکیوں کے ساتھ ان سے گفتگو کا لطف کچھ اور ہی ہے۔ میرے افسانوں میں اگر صنف نازک کے لطیف احساسات کی درون بینی ہے تو اس کی وجہ میری ان سے والہانہ گفتگو ہے جہاں ان کے ذاتی تجربات سے رو بہ رو ہونے کا موقع ملتا ہے۔ آپ اسے میری آوارگی سے تعبیر کر سکتے ہیں لیکن یہ آوارگی میری طاقت بھی ہے اور میری تخلیقیت کا منبع بھی۔۔۔۔۔ تھوڑی بہت آوارگی تو فن کار میں ہونی ہی چاہیئے۔ آپ ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر مقالہ لکھ سکتے ہیں افسانہ یا ناول نہیں۔۔۔۔۔۔ افسانہ لکھنے کے لئے گھر سے باہر زمین پر چلنا پڑتا ہے۔ جس نے سڑکوں پر مٹر گشتی نہیں کی، اپنے شہر کو ہر رنگ میں نہیں دیکھا ، نہ اس کا اجالا نہ اندھیرا نہ رات کا سنّاٹا نہ میلے ٹھیلے، نہ گلیاں نہ ریلیاں وہ کہانی کیا لکھے گا ؟ بہت محفوظ زندگی جینے والوں کی تخلیقیت آہستہ آہستہ مرنے لگتی ہے۔ کہانی لکھنے کے لئے کتابوں سے زیادہ آدمی کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہر آدمی کا چہرہ ایک کاغذ ہوتا ہے جس پر اس کی زندگی کی کہانی لکھی ہوتی ہے۔ ادیب اپنی دور رس نگاہوں سے اسے پڑھتا ہے اور لفظوں کے دھاگے میں موتی پروتا ہے۔
کتابوں کے مطالعہ سے بہت سوچ کر لکھی جانے والی کہانی اودئے پرکاش لکھتے ہیں۔ ان کی خوبی ہے کہ تاریخ کے بطن سے کہانی نکالنے میں قدرت رکھتے ہیں جس میں عصری حسّیت موجود ہوتی ہے۔ اودھیش پریت کی کہانی ’ہم زمین‘ بھی سوچ کر لکھی گئی کہانی ہے۔ اصل میں وقت کبھی کبھی ایک خاص قسم کی کہانی کی مانگ کرتا ہے۔ ہم زمین فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر لکھی گئی خوب صورت کہانی ہے جس میں اسلوب کا تنوّع موجود ہے۔
میں کہانی سوچ کر نہیں لکھتا، مجھے کہانی سوجھتی نہیں ہے۔ مجھے کہانی مل جاتی ہے۔ کہانی قدم قدم پر بکھری پڑی ہے۔ بس دیکھنے والی نظر چاہیئے۔ ’ بگولے ‘ رانچی جانے والی بس پر ملی۔ تب میں طالب علم تھا اور رات کی بس سے رانچی جا رہا تھا۔ میری سیٹ کھڑکی کے قریب تھی۔ آگے کی سیٹ پر تین عورتیں آپس میں چہل کر رہی تھیں۔ ان میں سے ایک نے مڑ کر دیکھا بھی۔۔۔۔۔ مجھے اس کی نظر عام سی نہیں لگی۔ بس چلی تو کنڈکٹر نے روشنی گل کر دی۔ وہ عورت میری طرف پھر مڑی اور پوچھا وقت کتنا ہوا ہے ؟ وقت پوچھتے ہوئے میں نے اس کی آنکھوں میں چمک سی دیکھی۔ بس کچھ دور چلی تو وہ پھر مڑی اور پوچھا کہ ہسڈیہہ کب آئے گا۔ سوال بے تکا تھا لیکن آنکھوں کی چمک بے تکی نہیں تھی۔ یہ نزدیک آنے کا اشارہ تھا۔۔۔۔۔ اور عورتیں اسی طرح اشارے کرتی ہیں۔ میں نے ہاتھ آگے بڑھایا اور اس کو چھونے کی کوشش کی۔ مجھے یقین تھا وہ برا نہیں مانے گی۔ میں نے اپنی انگلیوں کے پوروں پر اس کی کمر کا لمس بہت صاف محسوس کیا۔۔۔۔ اور اس نے جھک کر اپنی سہیلی سے کچھ کہا اور ہنسنے لگی۔ سہیلی نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور مسکرائی۔ اس کی مسکراہٹ معنی خیز تھی۔ میں نے اپنا ہاتھ نہیں ہٹایا۔ مجھے اپنے دل کی دھڑکن تیز سی ہوتی محسوس ہوئی اچانک اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے پیٹ پر کھینچ لیا۔۔۔۔ میں سہر اٹھا۔۔۔ میری سانس جیسے رک گئی۔۔۔۔ ایک تھرل۔۔۔۔ ایک اجنبی عورت کا رسپانس۔۔۔۔۔ ایسی سہرن میں نے زندگی میں کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ بس سڑک پر تیزی سے بھاگ رہی تھی۔ اندر سرمئی اندھیرا تھا اور باہر ہیڈ لائٹ کی روشنی میں پیڑ لب سڑک جھوم رہے تھے۔ ہوا میں پتّوں کی سرسراہٹ دل کی دھڑکنوں میں گھل رہی تھی۔۔ وہ میرا ہاتھ سہلانے لگی اور مجھے لگا میں سمندر کنارے کھڑا ہوں اور لہریں میرے پاؤں بھگو رہی ہیں۔۔۔۔ میری انگلیوں کی پوروں پر چیونٹیاں سی رینگنے لگیں۔۔۔۔ میں ہوش کھونے لگا۔۔۔ !
اچانک بس رکی۔۔۔۔ کوئی اسٹاپ تھا۔ کنڈکٹر نے روشنی کی۔ میں نے ہاتھ کھینچ لیا۔ وہ ہنسی اور سہیلی سے کچھ بولی۔ میں چائے پینے نیچے اترا۔ چائے پی کر واپس آیا تو ایک شخص میری جگہ بیٹھ گیا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اس کی طبیعت متلا رہی ہے۔ اس لئے وہ کچھ دیر کھڑکی کے پاس بیٹھنا چاہتا ہے۔ میں نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور اس کی جگہ بیٹھ گیا۔ اصل میں وہ کیفیت ابھی بھی طاری تھی اور میں اس احساس کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔ بس چلی تو پھر اندھیرا ہو گیا۔ سیٹ کی پیٹھ سے سے ٹیک کر میں اسی ترنگ میں ڈوب گیا کہ اس نے کس طرح میرا ہاتھ۔۔۔۔۔
اچانک وہ زور سے چلّائی۔ ’’گاڑی روکو۔۔۔ !‘‘
کنڈکٹر نے روشنی کی۔۔۔۔ بس رک گئی۔ وہ اس شخص کی طرف مڑی اور برس پڑی۔ ’’حرامی۔۔۔۔۔ مجھے چھوتا ہے۔۔۔ سور کا جنا۔۔۔ !‘‘
کہانی یہاں تھی۔ اس کا ریکٹ کرنا۔۔۔۔ ’’کیا میں اتنی بری ہوں کہ مجھے ہر کوئی ہاتھ لگا سکتا ہے۔۔۔۔؟‘‘ اسی جذبے کو لے کر میں نے کہانی ’’بگولے‘‘ لکھی۔ کہانی ہٹ ہوئی۔ اس کا بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ بگولے میں لتیکا رانی ایک کمسن لڑکے کو پھانستی ہے اور اسے گھر بلاتی ہے اور سوچتی ہے کہ اس معصوم کلی کو پیار کرنا سکھائے گی۔ لیکن لڑکا خود پہل کرتا ہے اور اس کو ہاتھ لگاتا ہے۔ وہ آگ بگولہ ہو جاتی ہے اور اس کو دھکّے مار کر باہر نکال دیتی ہے۔ پٹنہ کے ایک ہندی ادیب نے کہانی چوری کر لی۔ میں نے پریس کانفرنس کی اور چوری کی خبر ہر جگہ چھپی۔ راجندر یادو نے بھی ہنس کے اداریہ میں اس چوری کا ذکر کیا لیکن اودھیش پریت نے چور کا ساتھ دیا اور ہندی روز نامہ ھندوستان میں لکھا کہ کہانی ایسی نہیں ہے کہ چوری کی جائے۔ اصل میں اودھیش نے اس چور ادیب سے دوستی نبھائی۔
کہانی سنگھاردان مجھے راحت کیمپ میں ملی۔ بھاگلپور فساد میں طوائفوں کا بھی راحت کیمپ لگا تھا۔ وہاں ایک طوائف نے رو رو کر مجھے بتایا تھا کہ دنگائی اس کا موروثی سنگاردان لوٹ کر لے گئے۔۔۔۔ یہی تو ایک چیز آباء و اجداد کی نشانی تھی۔۔۔۔ کہانی یہاں پر تھی۔۔۔۔ موروثی سنگاردان کا لٹنا۔۔۔۔۔۔ اپنی وراثت سے محروم ہو جانا۔۔۔۔ پہلے جان و مال کے لٹنے کا خوف تھا۔۔۔ اب وراثت سے محروم ہونے کا خدشہ تھا۔ میں نے کہانی شروع کی تو بچپن کا ایک واقعہ میرے تخلیقی عمل میں شامل ہو گیا۔
میری عمر سولہ سترہ سال رہی ہو گی۔ اپنے بھائی سے ملنے بتیا گیا تھا۔ سردی کا موسم تھا۔ ٹرین رات تین بجے پہنچی۔ اسٹیشن سے باہر آیا تو دیکھا ایک جگہ خیمہ گڑا تھا۔ معلوم ہوا نوٹنکی چل رہی ہے۔ میں اندر بیٹھ گیا۔ ایک بالا ناچ رہی تھی۔ عمر دس بارہ سال ہو گی۔ وہ لہک لہک کر گا رہی تھی۔ اس کا جسم سانپ کی طرح بل کھا رہا تھا۔ اس نے بالوں میں گجرا لپیٹ رکھا تھا۔ ہاتھ مہندی سے سرخ تھے اور آنکھوں میں کاجل کی گہری لکیر کچھ اس طرح کھنچی ہوئی تھی کہ نیئن کٹاری ہو گئے تھے۔
سانپ کی طرح بل کھاتا ہو اس توبہ شکن کا جسم۔۔۔۔ گھنگھروؤں کی رن جھن۔۔۔ مہندی سے لہکتے ہوئے ہاتھ۔۔۔۔ اور تیکھی چتون۔۔۔۔ رات جیسے ٹھہرسی گئی تھی اور میں ہوش کھو بیٹھا تھا۔
اس کا رقص ختم ہوا تو ایک ادھڑ عمر کی عورت اسٹیج پر آئی اور عجب بھدّے طریقے سے کمر لچکانے لگی۔ اس کی آواز بھونڈی تھی اور کولہے بھاری تھے۔ اس نے بھی بالوں پر گجرا لپیٹ رکھا تھا۔ وہ اسٹیج پر زور سے پاؤں پٹکتی اور کولہے مٹکا تی۔ میرے دل و دماغ میں دھواں سا اٹھنے لگا۔۔۔۔ جیسے کسی نے گلاب کی کلیوں پر باسی گوشت کا لوتھڑا رکھ دیا ہو۔۔۔۔ اور جب اس نے اپنی بھونڈی آواز میں گانا شروع کیا کہ بھرت پور لٹ گیو ہائے میری امّاں۔۔۔۔ تو میں نے الجھن سی محسوس کی اور وہاں سے اٹھ گیا۔ گھر آیا تو طبیعت مکدّر تھی۔ میں برسوں اس کیفیت سے آزاد نہیں ہو سکا۔ جب بھی اس بالا کو یاد کرتا وہ عورت گلاب میں آ یوڈن کے قطرے ملانے لگتی۔ مجھے نجات اس وقت ملی جب کہانی سنگاردان لکھی۔ تخلیق عمل میں لا شعور کا ہاتھ ہوتا ہے۔ کہانی لکھتے ہوئے اچانک باسی گوشت کی تیز بو میرے نتھنوں میں سرسرائی۔۔۔ اس عورت کے مٹکتے ہوئے کولہے۔۔۔۔ گیت کے بول۔۔۔۔ بھرت پور لٹ گیو۔۔۔۔ کہانی میں خود بہ خود وہ عبارت در آئی۔۔ ’’ہائے راجہ لوٹ لو بھرت پور۔۔۔۔ ‘ برجموہن کی بیوی کی جو تصویر کشی ہوئی ہے وہ اسی عورت کی تصویر ہے۔
ساہیتیہ اکاڈمی نے انڈین لٹریچر میں سنگاردان کا انگریزی ترجمہ شائع کیا ہے۔ ایشین اسٹدیز کے اینوئل میں عمر میمن نے بھی اس کا انگریزی ترجمہ شائع کیا ہے جو اسد محمّد نے کیا ہے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے دیوندر چوبے نے اپنی کتاب ’’سمکالین کہانی کا بھاشا شاستر‘‘ میں سنگھاردان کی زبان کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ کلکتّہ علی گڑھ ممبئی میں اس کا کئی بار منچن ہوا۔ دہلی اردو اکاڈمی نے بھی اسے اسٹیج کیا لیکن اکاڈمی کے ڈرامے میں کردار کے نام بدل دیئے گئے اور کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ ڈرامہ سنگھاردان شموئل احمد کی کہانی پر مبنی ہے۔ میں نے اکاڈمی کو خط لکھا کہ نسیم جان کا سنگھاردان تو برجموہن نے لوٹا شموئل احمد کا سنگھاردان کس نے لوٹا ؟
کہانی ’ بہرام کا گھر ‘ بھی بھاگلپور فساد کی کہانی ہے۔ ہمارے محلّے میں ایک نوجوان تھا اسلم۔ وہ فساد میں شہید ہوا۔ وہ بہرام کے گھر جانا چاہتا تھا جہاں محفوظ رہتا۔ لیکن وہاں تک پہنچ نہیں سکا۔ فسادیوں نے اسے چوک پر ہی گھیر لیا۔۔۔۔۔ کچھ دنوں بعد پتہ چلا کہ اس کی لاش کنویں میں پھیکی گئی ہے۔ کنویں سے جب لاش نکالی جا رہی تھی تو اسلم کی ماں چوک پر پہنچی اور بہرام کے گھر کا پتہ پوچھنے لگی۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ بہرام کا گھر چوک سے کتنی دور رہ گیا تھا کہ بچّہ وہاں پہنچ نہیں سکا۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں حسرت تھی اور کہانی یہیں پر تھی۔۔۔ تشدّد سے عدم تشدّد کی دوری کیا ہے ؟ اس کہانی کا پنجابی زبان میں ترجمہ ہوا۔ پنجابی میں میری دس نمائندہ کہانیوں کا انتخاب مرگ ترشنا کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔
مصری کی ڈلی ہنس میں چھپی تو ایک جن وادی لیکھک نے اسے کنڈم کیا۔ اصل میں انہیں وہی کہانی پسند ہے جو جن وادی پرچم کے نیچے کھڑی ہے۔ اس طرح کا تعصّب تخلیقیت کا قتل کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں تخلیقیت نام کو بھی نہیں ہے۔ ان کی بھاشا ٹھس ہے۔ یہ بہت سوچ کر لکھتے ہیں اور کہانی میں مسئلے کا حل پہلے ہی ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ان کی کہانیاں پڑھتے ہوئے لگتا ہے ایسے کمرے میں بند ہیں جہاں بوڑھے چادر اوڑھ کر مسلسل کھانس رہے ہیں۔ لیکن ایک خاتون نے بہت تعریف کی اور خط لکھا کہ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے اپنا فون نمبر بھی لکھا تھا۔ میں بہت خوش ہوا کہ کسی پری وش سے ملاقات ہو گی۔ میں نے انہیں لورز پوائنٹ پر بلایا۔ اس شہر میں کوئی لورز پوائنٹ نہیں ہے۔ میں نے ڈھونڈا ہے۔۔۔۔ ڈھونڈا کیا ایجاد کیا ہے۔ انہیں فریزر روڈ کے ریڈرز کارنر میں بلایا۔ اس جگہ ایک ریستوراں ہے جہاں اندھیرے کی جنّت آباد ہے۔ میں ان کے ساتھ یہاں کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے کہانی پر بات کرنا چاہتا تھا۔
وہ آئی۔۔۔۔ اور مجھے کاٹھ مار گیا۔۔۔۔ ! وہ اسپ چہرہ تھی۔۔۔۔ اس کی شکل تکونی تھی۔ جبڑے چوڑے تھے اور ڈھلان لئے ہوئے ٹھڈّی پر تکون بنا رہے تھے۔ اس کے بال رنگے ہوئے تھے اور ہونٹ موٹے تھے جس پر لپ اسٹک کی تہہ بھدّی لگ رہی تھی۔ میں کسی کو بد صورت نہیں کہتا لیکن میرے ذوق جمال کو وہ گوارہ نہیں تھی۔ میں نے زیادہ دیر بات نہیں کی اور گھر چلا آیا۔ میری بیوی نے وہ خط پڑھ لیا تھا۔ اس کو فکر ہوئی کہ میں کس سے ملنے گیا تھا۔ میں نے اگر کسی سے محبّت کی ہے تو وہ میری بیوی ہے۔ میں اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔ میں نہیں چاہتا اس کے دل میں ذرا بھی شک پیدا ہو۔ اس خاتون کو گھر بلایا اور بیوی سے ملایا۔ اس کو دیکھ کر بیوی کو اطمینان ہوا۔ وہ میری جمالیاتی حس سے واقف ہے۔ سمجھ گئی میں اس کے پیچھے بھاگنے والا نہیں ہوں۔
ایک بار مجھے ساجدہ زیدی کو ڈھال بنانا پڑا۔ ان دنوں لکھنو کی ایک شاعرہ میری کہانیوں پر عاشق تھی۔ وہ تھی بھی بہت حسین۔ روز فون کرتی اور کہانیوں پر بات کرتی۔ ایک بار فون بیوی نے اٹھایا۔ پوچھا کون تھی ؟ میں نے بہانہ بنایا کہ بڑھیا ہے، اسکول میں پڑھاتی ہے اور کہانیاں پڑھنے کا شوق ہے۔ لیکن اس کو اطمینان نہیں ہوا۔ کہنے لگی بڑھیا کیسی ہے۔۔۔ ؟ آواز بہت کھنکتی ہوئی ہے۔ اب میں کیا کہتا ؟ اس کی آواز تو واقعی کھنک دار ہے۔ اسی دن ڈاک سے شاعر کا شمارہ ملا جس میں اس کی تصویر تھی۔ تصویر میں وہ اور بھی حسین لگ رہی تھی۔ میں نے جلدی سے رسالہ چھپایا کہ اگر بیوی کی نظر پڑ گئی تو غضب ہو جائے گا۔
کچھ دنوں بعد علی گڑھ گیا۔ بیوی ساتھ تھی وہاں بازار میں ساجدہ زیدی مل گئیں جو ان دنوں حیات تھیں۔ وہ بوڑھی تھیں۔ ان کے سارے بال سفید ہو گئے تھے۔ رنگت سانولی تھی۔ پاؤں میں بھی درد رہتا تھا۔ لا ٹھی ٹیک کر چل رہی تھیں۔ مجھے دیکھ کر خوش ہوئیں اور گھر بلایا۔ ان سے مل کر ہم آگے بڑھے تو بیوی نے پوچھا۔ ’’کون تھیں۔۔۔۔ ؟‘‘
میں نے جھٹ سے کہا۔ ’’یہی نہ وہ شاعرہ ہے جو فون کرتی ہے۔‘‘
عورتوں سے دوستی کا مطلب ہمیشہ سیکس نہیں ہوتا ہے۔ جو ایسا سمجھتے ہیں وہ بیمار لوگ ہیں۔ کسی سے نئی دوستی ہوتی ہے تو میں حسین سے فون پر اس کی بات ضرور کراتا ہوں۔ وہ پوچھتا ہے کون تھی یار۔۔۔ تو میں ہنستا ہوں۔ صمد تو کہتے ہیں مجھے بھی ملاؤ لیکن میں نہیں ملاتا۔ صمد آدمی خوب صورت ہیں۔
رینو گپتا میری بہترین دوست ہے۔ لیکن ادب میں اس کی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ جیوتش پریمی ہے اور کنڈلی دکھانے میرے جیو تش کیندر میں آئی تھی۔ اس کے زائچے کے دوسرے خانے میں زہرہ کیتو کے نچھتّر میں بیٹھا تھا۔ میں نے پوچھا کیا وہ سگریٹ بھی پیتی ہے ؟ اس نے کہا وہ شراب بھی پیتی ہے۔ مجھے اچھا لگا۔ مجھے وہ لوگ پسند ہیں جو اپنی بدعتی قبول کرتے ہیں۔ ہم جلد ہی دوست بن گئے۔ میں نے اس سے بہت سی باتیں سیکھیں۔ میری کہانیوں پر اس کا بہت اثر ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بیوی جو ہر وقت گھر کے کاموں میں لگی رہتی ہے بہت جلد کشش کھو بیٹھتی ہے۔ بیوی کو چاہیئے کہ ہمیشہ دائی بن کر نہیں رہے۔ اس کو کبھی عورت بن کر بھی رہنا چاہیئے۔ کہتی ہے کہ بہت حسین بیوی نہیں ہوتی۔ بہت حسین طوائف ہوتی ہے۔ اس کی نظر میں میاں بیوی کا رشتہ مالک اور غلام کا رشتہ ہے جس میں مالک کوئی نہیں ہے دونوں غلام ہیں۔ سیاسی سر گرمیوں پر بھی اس کی نظر گہری ہے۔ بابری مسجد ٹوٹنے کا اس کو بہت دکھ ہے۔ اس کا خیال ہے کہ خود اڈوانی اس غلطی پر پچھتا رہے ہیں۔ گجرات میں قتل عام کے وقت وہاں تھی۔ وہاں کا ایک ایک منظر اس کو یاد ہے۔ جواب میں میں نے کلیم عاجز کا ایک شعر سنایا۔
خنجر پہ کوئی داغ نہ دامن پہ کوی چھینٹ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
افضل گرو اور بھگت سنگھ کو وہ ایک ہی خانے میں رکھتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بھگت سنگھ انگریزوں کے لئے دہشت گرد تھے۔ افضل بھی دہشت گرد تھا۔ بھگت سنگھ نے اسمبلی پر حملہ کیا۔ افضل گرو نے پارلیا منٹ پر حملہ کیا۔ بھگت سنگھ کو پھانسی کی سزا ہوئی۔ افضل کو بھی پھانسی پڑی۔ ہندوستان آزاد ہوا تو بھگت سنگھ ہیرو ہو گئے۔ کشمیر الگ ہوا تو افضل بھی ہیرو ہو جائے گا۔ افضل گرو کشمیر کا بھگت سنگھ ہے۔
اندھیرے کی جنّت کے ایک گوشے میں بیٹھے ووڈکا کی چسکیوں کے ساتھ اس سے باتیں کرنے کا اپنا ایک لطف ہے۔
لیکن وہ دو پیگ سے زیادہ نہیں لیتی ہے۔ مجھے بھی دو پیگ کا مشورہ دیتی ہے۔ کہتی ہے شراب انجوائے کرنے کی چیز ہے۔ نشے میں بہکنا شراب کی توہین ہے۔ فریزر روڈ پر ریڈرز کارنر کے آگے ایک ریستوراں ہے۔ اندھیرے کی جنّت وہیں بستی ہے۔ ریستوراں کی خوبی ہے یہاں کا اندھیرا۔۔۔۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا ہے۔۔۔۔ پھر بھی سمجھنے میں دیر نہیں ہوتی کہ کس میز پر کون سا چہرہ موجود ہے۔ بوس و کنار کی آواز ہمیشہ کونے والی میز سے آتی ہے جس میں اکثر چوڑیوں کی کھنک بھی شامل ہوتی ہے۔ مدھم ہنسی کی آواز بھی دوسرے کنارے سے آتی ہے اور میز سے ٹکرانے اور گلاس کے ٹوٹنے کی آواز بھی۔۔۔۔ نو جوانوں کے زور زور سے بولنے کی آواز ہال کے بیچ والے حصّے سے آتی ہے۔ جام کی گردش کے ساتھ آوازوں کا شور آہستہ آہستہ بلند ہوتا ہے جس میں پاپ مو سیقی کا شور گھلا ہوتا ہے۔
میں جب پہلی بار وہاں گیا تو گھبرا گیا۔ میں کسی اندھے آدمی کی طرح کرسیاں ٹٹولتا ہوا آگے بڑھا تو بیرے نے میرا ہاتھ تھام لیا اور اکیلی کرسی والی خالی میز تک لے گیا۔ اصل میں جو اکیلے ہوتے ہیں انہیں اسی طرح کی میز دی جاتی ہے۔ ایسی میزیں ہال کی ایک طرف قطار میں بچھی ہوتی ہیں۔ ہال کا دوسرا حصّہ فیملی اور خواتین کے لئے مخصوص ہے لیکن اصل میز کونے والی ہے جو تنگ نہیں ہے۔ یہاں ٹانگیں میز سے ٹکراتی نہیں ہیں۔ دو آدمیوں کے بیٹھنے کے لئے گدّے دار صوفہ ہے۔ صوفے پر لیٹ کر بھی راحت اٹھائی جا سکتی ہے۔ اس میز کی الگ فیس ہے۔ یہاں بیٹھنے کا حساب دو سو روپے فی گھنٹہ ہے۔ میز کے اوپر ایک لیمپ آویزاں رہتا ہے جو ہمیشہ بجھا رہتا ہے۔ صرف بل ادا کرتے وقت مدھم سی روشنی ہوتی ہے۔ لیمپ کا زاویہ ایسا ہوتا ہے کہ روشنی چہرے پر نہیں پڑتی صرف پیسے گنتے ہوئے ہاتھ نظر آتے ہیں۔ راحت کے طلب گار اسی میز کا رخ کرتے ہیں۔ اس شہر میں اور بھی فیملی ریستوراں ہیں جس میں چھوٹے چھوٹے کیبن بنے ہوتے ہیں۔ یہاں صرف دو آدمیوں بھر بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے۔ لکڑی کا ایک دبلا سا بنچ جس پر ریکسن مڑھا ہوتا ہے اور مائکا ٹاپ والی چھوٹی سی میز۔۔۔۔ جگہ اتنی تنگ ہوتی ہے کہ بیٹھنے میں ٹانگیں میز کی دیواروں سے ٹکراتی ہیں۔ کوئی گود میں بیٹھ جائے تو ہل ڈل نہیں سکتا۔ اس ریستوراں میں فیملی کا مطلب بچّہ نہیں ہے۔
اندھیرے کی جنّت میں اپنے خاص دوستوں کو ہی بلاتا ہوں۔ ایک بار ہندی کے ایک مقامی افسانہ نگار میرے ساتھ آئے۔ اس دن ایک جوڑا سامنے کی میز پر بیٹھا تھا۔ لڑکی ڈینم کی جینس اور سفید لیس لگی شرٹ میں تھی۔ اس نے کمر کے نچلے حصّے سے جینس پہن رکھی تھی۔ شرٹ کی نیک لائن ناف کے پاس ختم ہوتی تھی۔ اس کے ہونٹ کالے اور گال نیلے تھے۔ ناخن پر اسٹیکر لگے ہوئے تھے۔ لڑکا بار بار لڑکی کا بوسہ لے رہا تھا۔ یہ دیکھ کر میرے افسانہ نگار دوست غصّے سے کھول رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ جنّت میں غصّہ حرام ہے۔ وہ مجھ سے جنم کنڈلی بھی دکھاتے رہتے ہیں۔
میں کیا کروں میرے اندر دو شخصیتیں ہیں۔ ایک جیوتشی دوسرا کہانی کار۔ دونوں میں جنگ ہوتی رہتی ہے۔ کبھی کہانی کار حاوی ہو جاتا ہے، کبھی جیوتشی۔۔۔۔ کہانی کار حاوی ہوتا ہے تو کہانی لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جیوتشی حاوی ہوتا ہے تو زائچے بنانے لگتا ہوں۔ میں جانتا ہوں دونوں کی جنگ میں مرے گا کوئی نہیں۔۔۔۔۔ دونوں لہو لہان ہو کر بھی زندہ رہیں گے۔ مر رہا ہوں میں۔ میں نے سوچا ہے علم نجوم پر ایک مفصّل کتاب لکھوں گا۔ میں نے پر اثر مکتب فکر سے استفادہ کی کوشش کی ہے۔ کچھ نسخے مہابھارت میں بھی ڈھونڈنے کی سعی کی ہے۔ ایک جگہ ’’ودر اوواچ‘‘ میں آیا ہے ’’آکاش میں کالے بادل منڈرا رہے ہیں۔ شنی روہنی نچھتّر کا ویدھ کر رہا ہے۔ مہا یدھ کو اب ٹالا نہیں جا سکتا۔‘‘ نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ جب جب روہنی میں ستارہ زحل داخل ہو گا ہندوستان کی سیاست میں اتھل پتھل ہو گا۔ میں نے اس کی کھوج کی ہے۔ اندرا گاندھی نے جب ایمرجنسی لگائی تھی تو زحل برج ثور کے روہنی نچھتّر میں تھا اور اندرا کا زوال ہوا تھا۔ میں نے عربوں کے فرمودات بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے اور مغربی افکار کا بھی تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے۔ علم نجوم کے بہت سے اسرار میرے سینے میں دفن ہیں۔ میں انہیں صفحہ قرطاس پر پھیلانے کا حوصلہ رکھتا ہوں۔ مہا بھارت میں ارجن نے کرشن کے لئے سروتو بھدرو چکر کھینچا تھا۔
کرشن میرے محبوب ہیں۔ میں ان پر ایک لمبی نظم لکھنا چاہتا ہوں۔۔۔ ایک مہا کا ویّہ۔۔۔۔۔ لیکن یہ رادھا کی قربت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پہلے مجھے رادھا کو روح میں اتارنا ہو گا۔ کرشن پُرش ہے اور رادھا پرکرتی۔ دونوں کے اتصال سے مایا کی تخلیق ہوئی۔ پران میں کہیں آیا ہے کہ رادھا کو کرشن اپنی بائیں پسلی سے پیدا کرتے ہیں اور راس رچاتے ہیں اور پھر رادھا کو خود میں ضم کر لیتے ہیں۔ اور میں نے سلمیٰ کو کرشن کے دائیں پہلو میں دیکھا۔ سلمیٰ عید میں سویئاں بناتی ہے اور کرشن کا انتظار کرتی ہے۔ سلمیٰ کو کرشن سے شکایت ہے کہ اٹھا لیا تم نے کنشٹھا پر نندن پربت اٹھا لیتے ترجنی پر مسجد کی مینار۔۔
مجھے اس کی فکر نہیں ہے کہ مہا کاوّیہ کب مکمّل ہو گا۔ فکر کرشن کو ہونی چاہیئے۔ نظم ان کی ہے۔ میں وسیلہ ہوں۔ وہ لکھائیں گے۔۔۔۔ میں لکھوں گا۔ وہ خود کہتے ہیں کہ تم مجھے جس طرح بھجتے ہو میں تمہیں اسی طرح بھجتا ہوں۔ میں کہنا چاہتا ہوں۔ اے کرشن ! میں تجھے حضرت داؤد کی غزل الغزلات کی طرح بھجتا ہوں۔
میں نے امریندر کمار کا مضمون پڑھا کہ امرتا پریتم ساحر لدھیانوی کے عشق میں مبتلا تھیں اور بغیر شادی کیئے امروز کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان کے پسر عزیز نے ایک بار پوچھا کہ کیا میں ساحر لدھیانوی کا لڑکا ہوں ؟ میرے ساتھی مجھے چڑاتے ہیں کہ میری شکل ان سے ملتی ہے۔ امرتا نے جواب دیا ’’اگر تم ساحر انکل کے لڑکے ہوتے تو میں چھپاتی نہیں ، بتا دیتی۔ جب تم پیٹ میں تھے تو ساحر انکل کی تصویر میری میز پر رہتی تھی۔ میں ان سے محبّت کرتی تھی۔ شاید اسی لئے ان کے چہرے کا عکس تمہارے چہرے پر آ گیا ہے۔‘‘
پربھا کھیتان بھی ڈاکٹر صراف سے محبّت کرتی تھیں اور ان کی رکھیل بن کر رہتی تھیں۔ پربھا کھیتان نے اپنی آتم کتھا میں اس کا اعتراف کیا ہے۔
کیا یہ عورتیں آوارہ تھیں ؟ آوارگی کی عمر نہیں ہوتی۔ آدمی عمر کے ہر حصّے میں کہیں نہ کہیں آوارہ ہے۔ آدمی ختم ہو جاتا ہے آوارگی بچی رہتی ہے۔ اس کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ آوارگی ابدی ہے۔
دیکھتا ہوں کہ دوستوں کے بالوں میں چاندی کے تار اگنے لگے ہیں۔ کچھ ایک پر مذہب کا رنگ بھی چڑھنے لگا ہے۔ مذہب بڑھاپے کا لباس ہے۔ کیا مجھے یہ لباس اوڑھ لینا چاہیئے۔۔۔۔ ؟ میں کہاں جاؤں۔۔۔۔ ؟ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ کچھ دیر میں منظر نامہ بدل جائے گا۔ میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں۔
اور کچھ دیر میں لٹ جائے گا ہر بام پہ چاند
اس گھڑی اے دل آوارہ کہاں جاؤ گے
٭٭٭