عنایہ کی صبح آنکھ کھلی تو آبیان کمرے میں نہیں تھا
تھوڑا ہوش آنے کے بعد عنایہ بلنکٹ ہٹانے لگی تو روم کا دروازہ کھلا
آبیان ناشتے کی ٹرے لے کر اندر آرہا تھا
عنایہ اسے دیکھ کر بیڈ پر بیٹھ گئی
“اٹھ گئی میری رائل پرنسیس”
آبیان اسکی طرف ٹرے کھسکاتے ہویے بولا
آبیان نے ٹرولی سے ناشتے کی ٹرے اٹھا کر بیڈ پر رکھی
“اپنے یہ سب کیوں کیا کوئی اور کردیتا”
عنایہ ناشتے کی طرف دیکھتی ہوئی بولی
“میں نے سوچا آج کیوں نہ اپنے ہاتھوں سے تمہارے لئے ناشتہ بناؤ ”
آبیان بلنکٹ ایک طرف رکھتے ہویے بولا
اور عنایہ کے سر پر اپنے لب رکھے
عنایہ مسکرا کر نظریں جھکا گئی
“میں فریش ہوجاؤ”
عنایہ اسے دیکھتے ہویے بولی
“ہاں فریش ہو جاؤ جب تک میں چائے بڑھتا ہو”
آبیان اسے دیکھتا ہوا بولا
“جی سہی ہے”
عنایہ کہ کر فریش ہونے چلی گئی
عنایہ واشروم سے نکلی تو آبیان بریڈ پر جیم لگا رہا تھا
عنایہ بیڈ پر اسکے بلکل سامنے بیٹھ گئی
آبیان نے اسکی طرف بریڈ پاس کی
“تمہارے لئے ایک سرپرائز ہے”
آبیان ناشتہ کرتے ہویے بولا
“کیسا سرپرائز”
عنایہ بریڈ کی بائٹ لیتی ہوئی بولی
“بتا دونگا تو سرپرائز کیسے رہیگا”
آبیان اسکو دیکھتا ہوا بولا
“پھر بھی کچھ تو بتادیں”
عنایہ کو دلچسپی ہورہی تھی
“رات تک انتظار کرو بےبی اور ہاں رات کو تیار رہنا ہمیں باہر جانا ہے میں رات تک آؤ گا”
آبیان پلیٹس واپس ٹرے میں رکھتے ہویے بولا
اور باہر چلا گیا
“ایسی کیا بات ہے جو وہ مجھے ابھی نہیں بتا رہے”
عنایہ سوچنے لگی
*****
“تم نے مجھے کیوں بلایا ہے”
سارہ اور سلمان دونوں ریسٹورانٹ میں بیٹھے تھے
تھوڑی انتظار کے بعد جب سلمان نے کچھ نہیں کہا تو سارہ بولی
“مجھے تمہاری راۓ چاہیے کیا تم مجھ سے شادی کرو گی”
سلمان صاف صاف کہنے لگا
سارہ کو تو شوق ہی لگ گیا تھا
“ابھی تو رشتہ پکا ہوا ہے اور ابھی ہی شادی”
سارہ حیرت سے بولنے لگی
“ہاں تم بتادو”
“میں پڑھنا چاہتی ہو ابھی”
سارہ کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا لیکن وہ سچ میں پڑھنا چاہتی تھی
“تم شادی بعد بھی پڑھ سکتی ہو کوئی مسلہ نہیں ہے”
سلمان اسکو سمجھانے لگا لیکن بنا اسکی مرضی کے وہ ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا اگر وہ بلکل تیار ہے شادی کے لئے تبھی وہ اپنی فیملی سے بات کرتا
“میں ابھی شادی سے لئے ریڈی نہیں ہو اور ابھی مجھے شادی نہیں کرنی اور میں ابھی پڑھنا چاہتی ہو”
سارہ اسکو سمجھانے لگی
“کوئی مسلہ نہیں ہے تم پڑھ لو جتنا ٹائم چاہیے لے لو میں زبردستی کا قائل نہیں ہو لیکن آنا تمھیں میرے پاس ہی ہے یہ یاد رکھنا ”
سلمان اسکو بتانے لگا اور آخری بات پر شوخیہ ہوا
“ہاں جانتی ہو”
سارہ نظریں جھکاے بولی
جس کا۔ مطلب تھا وہ دل سے راضی ہے
*****
“میرے پاس تو کپڑے ہی نہیں ہے”
عنایہ اتنے سارے کپڑے دیکھتی ہوئی بولی
ہاں کپڑے تو ہے لیکن کوئی اچھا نہیں ہے”
عنایہ خود سے ہی باتیں کرتی ہوئی بولی
جب کپبورڈ کے سائیڈ حصے پر نظر پڑی تو ایک شوپر رکھی تھی
“اس میں کیا ہے”
عنایہ شوپر دیکھتی ہوئی بولی
شوپر کھولی تو اس میں پاؤ تک آتی میکسی نیوی بلیو کلر کی جس میں گلے اور ہاتھوں پر کڑھائی کی ہوئی تھی اور پری فرل والی تھی
“واہ کتنی اچھی لگ رہی ہے”
عنایہ نے مکسی دیکھ کر کہا
“یہ میرے لئے ہے”
عنایہ سوچ ہو رہی تھی کہ شوپر سے ایک چٹ گھری
“یہ تمہارے لئے ہی ہے جانا جلدی سے تیار ہو جاؤ مجھے تمھیں اس میں دیکھنا ہے مجھے یقین ہے اس میں تم بہت خوبصورت لگو گی”
عنایہ چٹ پڑھ کر شریر سی مسکرائی
اور مکسی پکڑ کر چنج کرنے چلی گئی
آبیان اسکو بلانے کمرے میں آیا تو مہبوت سا رہ گیا
عنایہ پر وہ مکسی بے حد خوبصورت لگ رہی تھی جیسے کوئی پری اتری ہو
“تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو ایسا کرتے ہے کہی نہیں جاتے ”
آبیان اسکے قریب اکر اسکے کان میں سرگوشی کرتے ہویے بولا
“نہیں نہیں چل رہے ہے نا مجھے سرپرائز دیکھنا ہے”
عنایہ شیشے میں سے دیکھ کر آبیان کو بولی
“اچھا رکو کھڑی رہو یہی”
آبیان جیب سے ایک لاکٹ نکلتا ہوا بولا اور عنایہ کے بال ہٹا کر اسکے گلے میں لاکٹ ڈالا
“اسکو کہی نہیں کھونے دینا ”
آبیان کہتے ہویے اسکا سرخ چہرہ دیکھ رہا تھا
“چل لو اس سے پہلے کہ میں بہک جاؤ”
آبیان کھوے ہویے لہجے میں بولا
گولڈ کا لاکٹ جس میں اے اور بی لکھا تھا
“اس میں اے اور بی کیوں لکھا ہے
عنایہ لاکٹ کو ہاتھ لگاتی ہوئی بولی
“کیوں کے تمہاری زندگی شروع تم سے ہوئی لیکن ختم مجھ پر ہوگی”
آبیان عنایہ کے کندھو پر اپنی تھوڑی رکھتے ہویے بولا
“یہ کیسی بات ہوئی”
عنایہ کو اس کی بات سمجھ نہیں ای تو کہنے لگی
“تم نہیں سمجھو گی یہ میرا طریقہ ہے مشکل تو ہوگا”
آبیان معنی خیز نظروں سے کہنے لگا
“اچھا چلیں”
عنایہ اسکی نظروں سے کنفیوز ہوتی کہنے لگی
*****
آبیان عنایہ کی آنکھوں پر پٹی بھادنے لگا
“یہ کیا کر رہے ہیں آپ”
عنایہ نے آبیان کو پٹی آنکھوں پر لے۔ جاتے ہویے فورن کہا
“بھروسہ رکھو کڈنیپ نہیں کر رہا”
آبیان اسکی آنکھوں پر پٹی بھاند کر عنایہ کی کان میں سرگوشی کرنے لگا
وہ ایک ہال تھا جہاں آبیان عنایہ کو لے۔ کر آیا تھا
آبیان عنایہ کو آرام سے گاڑی سے اتارا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر ہال کی طرف لیجانے لگا
ہال کی سب لائٹس بند تھی جیسے انہی کا انتظار ہو
جیسے دنوں ساتھ ہال کے اندر اے سپاٹ لائٹ ان پر پڑی اور دنوں ایک دوسرے کے لئے مکمل لگ رہے تھے
آبیان نے عنایہ کی آنکھوں سے پٹی ہٹائی
اور پورا ہال روشن ہوگیا
عنایہ بس سب کو دیکھ ہی رہی تھی سب اس کے اپنے تھے عنایہ کی پوری فیملی آج اس کے پاس تھی
عنایہ کی آنکھیں نم ہونے لگی سب کو دیکھ کر
“جاؤ ملو سب سے لیکن یہ آنسو اب خوشی کے ہونےچاہیے”
آبیان اسکی نم آنکھیں دیکھ کر بولا اور اپنے ہاتھوں سے اسکا ہاتھ آزاد کیا
عنایہ ہاں میں سر ہلا کر سب سے پہلے اپنی ماں کے گلے لگی
نم آنکھیں اپنو کو دیکھ کر بہنے کے لئے تیار تھی
اپنی ماں کے گلے لگ کر عنایہ خوب روی
اپنو کی محبت ہی الگ ہوتی ہے ہم اسکے اندازہ بھی نہیں لگا سکتے
عنایہ باری بری سب سے ملی اور پھر نظر آبش اور سارہ پر پڑی
دونوں اسکی طرف بڑھی اور ایک ساتھ گلے لگایا
اور جتنا دل بوجھل تھا تینو نے۔ رو کر پورا کیا
“ہم نے تجھے بہت یاد کیا”
آبش اور سارہ نے روتے ہویے ایک ساتھ کہا
“میں نے بھی تم لوگوں کو بہت مس کیا”
تینوں ایک دوسرے کے آنسو صاف کر رہی تھی
“ویسے ہمارے جیجو ہے بہت اچھے انہوں نے بھی سب کو بتایا تیری امی تو بہت ناراض تھی تیرے بھائی نے اتنا غصہ کیا کتنا کچھ بولا لیکن اسنے کچھ بھی نہیں کہا بہت۔ مشکل سے سب کو منایا ہے تیرے یار نے”
سارہ اسکو پوری داستان بتا رہی تھی
عنایہ تو حیرت میں ہی تھی اتنا سب کیا وہ تو کسی کو سوری بھی نہیں کہتا
عنایہ سوچ ہی رہی تھی کہ آبیان پیچھے سے آیا
“چلو کیک کٹنگ کرنی ہے”
آبیان نے کہ کر اسکا ہاتھ پکڑ کر لے جانے لگا
“میں ای”
عنایہ کہ کر اسکے ساتھ جانے لگی
“آج کا فنکشن میری جان کے نام”
آبیان اسٹیج پر چڑھ کر عنایہ کا ہاتھ تھامے کہنے لگا
عنایہ نے محبت سے آبیان کی طرف دیکھا اور اونی قسمت پر رشک کیا اور دل میں اللّه کا شکر ادا کیا
“چلو کیک کاٹو”
عنایہ کو سوچو میں گھوم پا کر آبیان نے کہا
تین فلور کا کیک جس میں عنایہ اور آبیان کی تصویر تھی
عنایہ نے کیک کاٹ کر آبیان کو کھلایا اور پھر اپنی پوری فیملی کو
عنایہ اشتیحاق سے سب کو دیکھ رہی تھی سب ہی بہت خوش تھے اور اسکا شوہر جو اسکے لئے اپنی جان سے بڑھ کر ہو گیا تھا وہ شاید مجھ سے زیادہ خوش ہے
زندگی کے یہی رنگ ہے کبھی خوشی تو کبھی گم انسان کو ثابت قدم رہنا چاہیے ہر مشکل سے نِکلنے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور ہوتا ہے بس انسان دیکھ نہیں پاتا
******
“آبیہ کہاں ہو”
عنایہ اسکو پورے گھر۔ میں ڈھونڈ رہی تھی
جب نظر ای تو وہ پودو کے ساتھ کھیل رہی تھی اور پوری مٹی مٹی ہوگئی تھی
“آبیہ آپ کو کتنی بار منا کیا ہے مٹی میں مت کھیلو آپ سنتی ہی نہیں ہو”
عنایہ آبیہ کو اٹھاے کہنے لگی اور روم میں لا کر اسکے کپڑے چنج کرنے لگی
آبیان نے دنوں کے نام کو ملا۔ کر اسکا نام رکھا تھا
“ماما میں پاپا تھی ہو نہ”
آبیہ بیڈ پر کھڑی کہنے لگی
“ہاں بھئی تم پاپا کی ہی ہو انکی ہی طرح ضدی”
عنایہ چر کر کہنے لگی
وہ سچ میں باپ کی ہی تھی جب آبیان گھر اتا تو وہ ماں کو مر کر بھی نہیں دیکھتی تھی
تین سال بعد اللّه نے دونو کو ایک رحمت سے نوازہ تھا جو بلکل اپنے باپ کی کوپی تھی حرکتیں بھی ایسی اور کام بھی ایسے
اور آبیان نے اسے اتنا چڑھا دیا تھا کہ وہ ضدی ہوتی جارہی تھی
“میری گڑیاں کہاں ہے”
آبیان گھر اکر سب سے پہلا سوال یہی کرتا تھا
“یہ رہی اس نے کہا جانا ہے”
عنایہ جل کر بولی اور آبیہ کے کپڑے رکھنے لگی
“پاپا کی جان کیسی ہے ماما نے زیادہ تنگ تو نہیں کیا”
آبیان اسکو اٹھاے پوچھ رہا تھا
“ہاں ماں ہی تو تنگ کرتی ہے یہ تو بہت سیدھی ہے ہر بات میری مان لیتی ہے”
آبیان کے کہنے پر تو عنایہ کی ہٹ گئی تو فرن بولی
“ماما جل رہی ہے”
آبیان اسکے کان میں کہنے لگا جس سے وہ کھلکھلا کر ہسنے لگی
*****
آبش کو اللّه نے نعمت سے نوازہ تھا
آبش کے یہاں جلد ہی اولاد کی پیدائش ہوئی تھی
حسنین بہت سیدھا بچہ تھا جو بہت کم گو تھا
اپنے ماں باپ کا۔ اور سب سے زیادہ اپنی دادی کا لاڈلہ تھا
اور جب حسنین اور آبیہ ملتے تھے تب بیچارے حسنین کی شامت آتی تھی
آبیہ اسکو مار کر اتنی معصوم بنتی تھی جیسے اس سے زیادہ دنیا میں کوئی معصوم نہیں ہے
حسن ہمیشہ حسنین کو ویڈیو کال کرتا
اسکے پاس اتنا ٹائم بھی نہیں ہوتا تھا کہ وہ سکون سے اپنی فیملی سے بات کر سکے
آبش بہت صبر شکر سے چل رہی تھی کیوں کے حسن آبش کو سب کچھ بتا چکا تھا اپنی جاب کے حوالے سے
اور آبش کو اندازہ ہورہا تھا کہ ایک ایئرفورس کی بیوی ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے
لیکن اپنے بیٹے کی پیدائش پر بہت۔ سمبھل گئی تھی
اور زندگی کا نام ہی تو گزرنا ہے وہ گزر ہی جاتی ہے
ختم شد