تو یہ حالات اور وجوہ تھے جنھوں نے ایک دن وامن وششٹھ کو ہمالیہ کے دامن میں پایا۔ اب تک وہ گھنے جنگلوں میں روشنی کی تلاش کرتے رہے تھے، وسعتوں کا انھیں تجربہ نہ تھا۔ اپنے اندر کی وسعت کو تو وہ متصور کر سکتے تھے لیکن کشادگی کی انتہاؤں اور بلندیوں کی ظالم بے نیازی سے انھیں واسطہ نہ پڑا تھا۔ برف نے باندھی ہے دستار فضیلت تیرے سر خندہ زن ہے جو کلاہ عالم تاب پر۔ اور لطف یہ تھا کہ اس بلندی اور بے نیازی کے باوجود انھیں اس طلسمی کوہستان میں سفر بالکل بار نہ لگتا تھا۔ تھکن یا اکتاہٹ انھیں دور سے چھوتی بھی نہ تھی۔
کئی دن کئی رات کے سفر نے انھیں کوہستان ہمالیہ کی گہرائیوں میں پہنچا دیا۔ یہاں چیڑ کے درخت تو بہت پہلے ہی پیچھے چھوٹ گئے تھے، اب مدت ہوئی وہ سیاہ قامت، تنومند، گھنی پتیوں والے دیودار بھی غائب تھے۔ پہاڑوں پر کہیں کہیں کچھ جھاڑیاں نظر آتی تھیں، لیکن پست قد اور پژمردہ۔ ان کی جگہ تمام گہرے یا کم گہرے غاروں پر برف کی مہر تھی۔ ہوائیں بہت تند تھیں لیکن دھوپ ذرا سی رہ گئی تھی، جیسے کسی کی آنکھوں میں نیند کا غلبہ ہو، آنکھیں ذرا ذرا کھلی ہوئی ہوں اور ان کی زرد سنہری روشنی فضا کو گرم کرنے کی کوشش کرتی ہو۔ ہوائیں، الاماں، اور دونوں طرف صف بستہ پہاڑوں کی دیواریں، ان کی بلندی بھی ٹھیک سے نظر نہ آتی تھی۔ وہ سارے چرند، درندے اور پرند جن سے نچلی وادیوں میں رونق تھی اب کہیں دکھائی نہ دیتے تھے۔ صرف برفانی تیندوا کبھی کہیں کسی چٹان کے سائے میں اپنی جھلک دکھا دیتا تھا۔ سب سے اونچی چوٹیوں پر بسنے والے دیووں کی جسامت والے سیاہ فام جھالر دار لباس میں ملبوس یاک کسی دور کی وادی میں دکھائی دیتے، لیکن صرف واہمے کی طرح، کہ خدا جانے وہ حقیقی تھے یا یا قوت تخیل نے انھیں بنایا تھا۔ انسان کا کہیں پتہ نہ تھا۔ نیم روشن فضا میں یہ بھی ٹھیک سے نہ معلوم ہوتا کہ یہ چاک گریبان صبح کی شفق ہے یا شام کے نشتر نے آفتاب کی فصد کھولی ہے اور اس کا لہو سارے آسمان پر پھیل گیا ہے۔
وششٹھ رشی نے لڑکھڑاتے ہوئے قدم آگے بڑھائے۔ سامنے ایک سیاہ چٹان پر کچھ پر اسرار سی، ہلکی لیکن غیر مرتعش روشنی سی نظر آئی۔ پیچھے کچھ نہ تھا، صرف اونچی نیچی بھوری سیاہ پہاڑیاں آسمان تک پھیلی ہوئی تھیں۔ مگر سریلی سی آواز آہستہ آہستہ فضا میں پھیلنے لگی تھی، جیسے کوئی وچتر وینا پر گا رہا ہو۔ وہ اور قریب گئے تو کوئی پری، یا شاید کوئی دوشیزہ، یا شاید پہاڑوں میں بسنے والی کوئی روح تھی۔ انھوں نے ہمت کر کے دو چار قدم آگے بڑھائے، گانے والی اب سامنے نظر آ رہی تھی۔ ایسی شکل! یہ سراپا، یہ قد و قامت، یہ قیامت جلوہ بدن۔ وششٹھ رشی نے یا کسی اور بھی رشی منی نے اپنے دور ترین اور بے قابو ترین خواب میں بھی ایسی شکل نہ دیکھی ہو گی اور نہ ایسی آواز سنی ہو گی۔ ہمت کر کے وہ اور قریب گئے کہ خال و خط کو اور صاف دیکھ سکیں، لیکن اس کی شخصیت کا افسوں ایسا تھا کہ وہ بہت آگے نہ بڑھ سکے۔ جس حد تک ممکن ہو ا، انھوں نے آنکھ اٹھا کر اس پری کو دیکھا۔ پھر وششٹھ منی کو محسوس ہوا کہ کہیں قریب ہی محفل سجی ہوئی ہے۔ داستان گو کسی کا سراپا بیان کر رہا ہے:
سراپا کا کیا بیان کیا جائے کہ صفحۂ فسانہ وقت تحریر وصف رخ، رشک گلزار بہشت بنتا ہے۔ قلم خود نکتہ چینی کرتا ہے۔۔۔مانگ جادۂ کہکشانِ فلک کو راہ بھلا دے، پیشانیِ نور آگیں صبح صادق کو کاذب بنا دے۔ خال ہندو رہزن ضمیر عاشقاں، بھویں وہ محراب جو سجدہ گاہ حسینان جہاں۔۔۔آنکھیں وہ جام سرشار محبوبی جو دل خستہ کو بریاں کریں۔۔۔رخسار تاباں گل سرخ کو ندامت سے آب آب کرے بلکہ چشمۂ خورشید کو بے آب و تاب کرے۔۔۔لب یاقوت رنگ لعل بدخشانی کا جگر خون کرے بلکہ یاقوت رمانی کو ہیرا کھلائے، مرجان غیرت سے مرمر جائے۔۔۔سینہ گنجینۂ نور چھاتیوں کا اس پر ظہور، نار پستاں کو دیکھ کر نار بستاں کا سینہ شق ہو، سیب بہی کا رنگ غیرت سے فق ہو۔ شکم صاف و شفاف تختۂ بلور، ناف کو گرداب بحر حسن کہنا پرانی بات ہے، یہ چشمۂ آب حیات ہے۔ موئے کمر آئینۂ حسن میں گویا بال آیا ہے، یا تار خطِ شعاعِ آفتابِ سپہرِ حسن برملا ہے۔ آگے عجب لذت کی چیز ہے، وہ ہنسنی ہے جو موتی چگتی ہے، یا وہ چور خانہ ہے جس کو کلید تمنا کھولتی ہے۔ وہ مضمون حجاب ہے جس پر مہر خط شباب ہے۔ وہ مورنی ہے جو کہ مستی میں رال مور کے منھ سے ٹپکے تو وہ اپنی منقار میں لے لے۔ وہ دیدۂ پر نور ہے جس میں وصل کی سلائی سرمہ لگائے گی، وہ غنچۂ تنگ سر بستہ ہے جس میں ہوائے تمنا بڑی مشکل سے جائے گی۔۔۔
[طلسم ہوش ربا، جلد اول: داستان گو محمد حسین جاہ]
داستان گو کا بیان ابھی جاری تھا، لیکن اب مغنیہ کی آواز اس پر حاوی ہونے لگی تھی۔ وششٹھ رشی نے سنا:
ہمہ عمر با تو قدح زدیم و نہ رفت رنج خمار ما
چہ قیامتی کہ نمی رسیز کنار ما بہ کنار ما
چو غبار نالۂ نیستاں نہ زدیم گامے از امتحاں
کہز خود گذشتن ما نہ شد بہ ہزار کوچہ دوچار ما
نہ بہ دامنےز حیا رسد نہ بہ دستگاہ دعا رسد
چو رسد بہ نسبت پا رسد کف دست آبلہ وار ما
وامن وششٹھ کو تن بدن کا ہوش نہ رہا۔ انھوں نے دوڑ کر اس حسینہ کے پاؤں لیے اور بے ساختہ ان کی زبان پر جاری ہوا:
چہ کسی و چہ نام خوانندت
ور کدا می مقام دانندت
وہ مسکرا کر بولی،’’اور آپ؟ آپ کا گذر اس طرف کیونکر ہوا؟ میں تو یہیں رہتی ہوں، یہی میرا گھر ہے اور یہی میرا مدفن۔‘‘
’’میں خود کو ڈھونڈتا ہوں لیکن کامیابی نہیں ہوتی۔ کیا آپ۔۔۔؟ یہ کون سی تلاش ہے، کس کی تلاش ہے؟ یہ کلام آپ کو کس نے سکھائے؟‘‘
’’شاید آپ بھولتے ہیں۔ یہاں ہر شے ہر وقت موجود ہے۔‘‘
’’اور آپ نے یہ زبان کہاں سیکھی؟‘‘
وہ ہنسی۔’’جہاں سے آپ نے سیکھی ہو گی۔‘‘
’’میں نے؟ میں نے تو سیکھی نہیں۔ جب آپ محو نغمہ تھیں تو یہ الفاظ خود بخود میری سمجھ میں آتے جا رہے تھے۔ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس زبان کا نام کیا ہے اور یہ شاعر کون ہے۔ وہ ہے بھی کہ نہیں؟‘‘
’’چلیے، خود نگری کی کئی منزلیں تو آپ نے طے کر لی ہیں کہ آپ ماضی مستقبل کی ہر زبان سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن اس کے آگے کی راہیں آپ پر ابھی تک بند ہیں۔ خود کو حاصل کرنے کے پہلے، بہت پہلے، آپ کو خود نگری کے علاوہ بہت سی منزلوں سے گذرنا ہے۔ خود بینی، خود نگہداری، خود اختیاری، ترک خود، پھر ترک ترک۔‘‘
وامن وششٹھ نے کہنا چاہا،’’میں سمجھا نہیں۔‘‘ لیکن الفاظ ان کے منھ سے ادا ہونے کے پہلے اس حسینہ نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انھیں اپنے قدموں پرسے اٹھاتی ہوئی بولی:
’’چلیے، میں آپ کو اپنا گھر دکھاؤں، اپنے شوہر سے ملاؤں۔‘‘
’’مگر مجھے کہیں کچھ راستہ تو نظر آتا نہیں۔‘‘ وششٹھ رشی نے کچھ پریشان ہو کر کہا۔’’ہر طرف تو یہاں پہاڑ ہیں، گھاٹیاں ہیں، بند راہیں ہیں۔ راستے کا کیا ذکر؟‘‘
’’یہی تو میں نے کہا کہ ابھی آپ نے خود نگری کے آگے قدم رکھا نہیں۔ آپ نے اشیا کی حقیقت کا پہلا باب بھی نہیں پڑھا۔ میرے ساتھ چلیے، میرے قدم بقدم چلیے۔‘‘
وششٹھ رشی اب جو دیکھا تو وہ ہکا بکا رہ گئے۔ پہاڑ، بیابان، گھاٹی، ایسا کچھ تو وہاں نہ تھا۔ سامنے سبزار، پیچھے آبشار، دو رویہ پھولوں کی روش، بیچ میں جادہ جس پر نرم قدموں کے نشان صاف نظر آتے تھے۔ ان کا پہلا قدم بہزار دقت اٹھا، پھر سب آسان ہو گیا۔
’’میرا نام کلپنا ہے‘‘ اس حسینہ نے کہا۔’’مجھے میرے شوہر نے بنایا ہے۔ میری زندگی میں سب کچھ ہے مگر محبت نہیں ہے، یگانگت نہیں، حتیٰ کہ دسراتھ بھی نہیں۔ شوہر کے باوجود میں اکیلی ہوں، بانجھ ہوں۔ اس کنول کی طرح جسے پالا مار گیا ہو۔‘‘
’’شوہر نے بنایا۔۔۔؟‘‘ وششٹھ رشی کچھ کہتے کہتے چپ ہو گئے، شاید اس طرح کی کرید بد تہذیبی کے مترادف ہوتی۔
کلپنا نے وششٹھ کی ہچکچاہٹ کو گویا محسوس ہی نہ کیا اور کہا۔
’’میرے شوہر بہت دور سے آئے ہیں، جنوب میں کوئی علاقہ کیرا پترا نام کا ہے۔ انھوں نے ہر طرح کا علم حاصل کیا ہے اور وہ ہر طرح کی قوت کے مالک ہیں۔ وہ بود کو نابود اور نابود کو بود کر سکتے ہیں۔‘‘
اب وامن وششٹھ کو کچھ کہنے کی تاب ہی نہ تھی۔ وہ کوئی آسمانی قوت ہے؟ کوئی آسر یا دیو تو نہیں؟ میں نہ جانے کہاں پھنس گیا ہوں۔ اب دیکھیں نجات بھی ہوتی ہے کہ نہیں۔ یہ لڑکی خود کہہ رہی ہے کہ میں کوئی انسانی وجود نہیں ہوں، ان رشی کی قوت ارادی کا مرئی اور جسمانی روپ ہوں۔ پھر تو وہ غیر مخلوق ہوئی؟ مگر غیر مخلوق تو صرف پرمیشور ہے؟
وہ ان خیالات میں گم تھے کہ لڑکی بولی۔’’گھبرائیے نہیں، اب گھر بہت دور نہیں۔ لیکن یہ تو بتائیں کہ آپ تو وامن اوتار کے پہلے ہی قدم میں کھوئے گئے ہیں۔ ابھی آپ نے دشت امکاں کو بھی ٹھیک سے نہیں طے کیا ہے۔ اور اگر باطنی انداز میں کہیں تو آپ ہنوز نیند کی منزل میں ہیں۔ پھر آپ یہاں کہاں؟‘‘
وامن وششٹھ کو یہ پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ ابھی وہ جواب کے لیے مناسب الفاظ تلاش کر رہے تھے کہ وہ حسینہ بولی۔’’آپ کو میرے شوہر نے بلایا تو نہیں؟ یہ میں اس لیے پوچھتی ہوں کہ کسی باطنی تصرف کے بغیر کسی بھی ذی وجود کا یہاں تک پہنچنا محال تھا۔‘‘
’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘ وامن وششٹھ نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔’’ہاں مجھے ایک اشارہ ضرور ملا تھا کہ شمال کی طرف چلو۔ ادھر ہی تمھارا مدعا حاصل ہو گا۔‘‘
’’جی تو پھر بات وہی ہے۔ کلپت رشی نے آپ کو ضرور اشارہ بھیجا ہو گا۔‘‘
’’کلپت؟‘‘
’’جی ہاں، میرے شوہر کا نام کلپت ہے۔ کلپنا اور کلپت کی جوڑی اچھی ہے نہ؟‘‘ وہ عجیب پر اسرار سی ہنسی ہنس کر بولی۔’’دیکھیے وہ ہمارا گھر ہے۔‘‘
غار کا دہانہ بہت کشادہ نہ تھا، لیکن ذرا گردن جھکا کر کوئی انسان بآسانی داخل ہو سکتا تھا۔ اور وامن وششٹھ تو کوتاہ قد تھے، ان کے لیے کوئی مسئلہ نہ تھا۔ غار سے ہلکی ہلکی روشنی باہر آ رہی تھی، اس طرح نہیں جیسے اندر کوئی چراغ روشن ہو بلکہ اس طرح جیسے کہیں دور الاؤ جل رہا ہو اور اس کے شعلے دیوار سے منعکس ہو کر ہر طرف پھیل گئے ہوں۔ کلپنا کے قدم دیکھتے ہوئے وہ اندر داخل ہوئے۔ غار کی روشنی کہاں سے آ رہی تھی وہ اس بات کو متعین نہ کر سکے لیکن روشنی نہایت لطیف تھی۔ انھوں نے دیکھا کہ غار کی چھت کہیں اونچی کہیں نیچی ہے لیکن اس کی لمبائی بہت ہے، بلکہ یوں کہیں تو غلط نہ ہو گا کہ غار کا سرا نظر نہ آتا تھا۔ کلپت رشی غار میں ایک طرف چکنے فرش پر دو زانو بیٹھے تھے، اس طرح گویا کوئی مجلس ہو اور وہ میر مجلس ہوں۔
غار کے دہانے سے ذرا دور آخر تک بیچوں بیچ ایک چھوٹی سی نہر بہہ رہی تھی، بہت شفاف پانی، تہہ میں رنگ برنگ پتھر۔ لیکن نہیں، شاید وہ مچھلیاں تھیں، اٹکھیلیاں کرتی، غوطے لگاتی، ادھر سے ادھر اچھلتی، ایک تماشے کا سماں تھا۔ یہ نہر کہاں سے آئی ہے اور اس کا سرا کدھر ہے، وامن وششٹھ نے سوچا۔ لیکن وہ ابھی کچھ بول نہ پائے تھے کہ کلپت رشی نے کہا:
’’بیٹھو، تم اچھے آئے۔ میں نے تمھیں ادھر آنے کا اشارہ دیا تھا، ملا ہو گا۔‘‘
’’جی ہاں‘‘ وششٹھ رشی نے پھنسی پھنسی آواز میں جواب دیا۔
’’بات یہ ہے تم بھی میرے ہمسفر ہو، لیکن تمھیں راستہ ٹھیک سے نہیں معلوم، بلکہ یوں کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ تم منزل سے بھی بے خبر ہو۔‘‘
وامن وششٹھ کچھ کہنے والے تھے کہ کلپنا نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر انھیں چپ رہنے کا اشارہ کیا۔ کلپت رشی کی آنکھیں بند تھیں لیکن وہ اس طرح گفتگو کر رہے تھے گویا سب کچھ دیکھ رہے ہوں:
’’تم تو بالکل ہی گم کردہ راہ ہو۔ جن کے نام پر تمھارا نام ہے وہ عارف تھے، لیکن کامل نہیں۔ بنانا اور مٹانا دونوں ایک ہی عمل ہیں لیکن مٹانے میں دیر لگتی ہے۔ وقفے یا مدت کے معنی میں دیر نہیں، اس تغیر کے معنی میں جو مٹانے کے بعد آہستہ آہستہ رو پذیر ہوتا ہے۔ رہسیہ سمراٹ نے مجھے یہی بتایا تھا۔ تم نے مٹنے کے عمل کا پہلا حرف ابھی ابھی دیکھا، اسے سیکھنا اور زبان سے ادا کرنا تو دور کی بات ہے۔‘‘
وامن وششٹھ کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ کلپنا بھی ذرا متعجب نگاہوں سے اپنے شوہر کو دیکھ رہی تھی۔
’’یہ نہر دیکھ رہے ہو؟ اور یہ مچھلیاں؟‘‘ انھوں نے سوال کیا۔ پھر جواب کا انتظار کیے بغیر انھوں نے کہنا شروع کیا۔’’یہ نہر میری بنائی ہوئی ہے، اور یہ مچھلیاں بھی۔ لیکن یہ میرے ہاتھ پاؤں کی محنت سے نہیں، میری قوت تخلیق سے بنی ہیں۔ پہلے یہاں کچھ نہ تھا۔ تم سوچ رہے ہو گے اس پانی کا سر چشمہ کہاں ہو سکتا ہے؟ سر چشمہ میں ہوں۔‘‘
کلپنا نے چونک کر اپنے شوہر کو دیکھا۔ یہ بات شاید اسے بھی نہیں معلوم تھی۔
’’میں نے یہاں کتنی عمریں گذاریں، مجھے اس کا اندازہ تو ہے، لیکن پورا علم نہیں۔‘‘ کلپت رشی نے کہا۔’’تم گرد و پیش میں کیا دیکھ رہے ہو، بتاؤ۔‘‘
وششٹھ رشی اب تک عاجزانہ سر جھکائے ہوئے کھڑے تھے۔ اب انھوں نے نگاہ اٹھائی تو دیکھا کہ بظاہر جہاں مچھلیوں والا چشمہ ختم ہوتا تھا، اس کے کچھ آگے، یا کچھ اوپر، پورا نظام شمسی قائم تھا۔ سب سیارے اپنے اپنے کام میں محو تھے۔ سورج کی گردش سے نگاہیں خیرہ ہو رہی تھیں لیکن تمازت ان تک نہیں پہنچ رہی تھی۔ لیکن چشمے کے بعد تو بظاہر کچھ نہ تھا، غار وہیں ختم ہو چکا تھا، بظاہر اس پر وہاں کوئی باندھ بندھا ہوا تھا، لیکن باندھ کا پانی وہاں کہیں جمع نہ ہوتا تھا۔ نہ جانے اس کا پانی اور یہ مچھلیاں کہاں چلی جاتی ہیں، انھوں نے سوچا۔ اب تو اس غار کی چھت بھی دکھائی نہ دیتی تھی۔ لیکن کہیں، جہاں چھت ہونی چاہیے تھی، ایک اور کائنات نظر آ رہی تھی جس میں کوئی سیارہ، کوئی نظام شمسی نہیں تھامگراس کے باوجود ایک کے بعد ایک کئی کہکشائیں سامنے سے گذر رہی تھیں۔ ان کے بہت آگے، یا بلندی پر، یا پیچھے، کئی روشن ستارے چکا چوندھ کر رہے تھے، لیکن ان کی روشنی کبھی دور جاتی ہوئی محسوس ہوتی، کبھی اپنی جگہ پر قائم دکھائی دیتی اور کبھی کبھی تو کسی کہکشاں کے جم غفیر میں وہ ستارہ ہی نظر نہ آتا تھا۔
وامن وششٹھ نے گھبرا کر اپنے ہاتھ پاؤں کو دیکھا۔ سب کچھ وہیں تو تھا جہاں ہونا چاہیے تھا۔ وہ کسی اور دنیا میں نہیں پھینک دیے گئے تھے، اپنی جگہ محفوظ تھے۔ محفوظ؟ کیا واقعی یہاں کوئی محفوظ ہے؟ کچھ دھندلی سی آواز انھوں نے سنی، اس میں عجب طرح کا غیر انسانی زور تھا، جیسے کوئی کسی خطرے سے آگاہ کر رہا ہو۔ انھوں نے دھیان دے کر سنا۔ نہیں، کوئی خطرے والی بات نہیں تھی۔ کلپت رشی کہہ رہے تھے:
’’یہ سارے آسمان، اور ان کے سارے سورج اور ستارے، ہوائیں اور بادل، روشنیاں اور اندھیرے، سب میرے بنائے ہوئے ہیں۔ اور یہ وہی ہیں اور وہی نہیں بھی ہیں جنھیں تم اوپر انسانی آسمان میں دیکھتے یا تصور کرتے ہو۔‘‘
وامن وششٹھ نے ہمت کر پوچھا:
’’م۔۔۔مگر کیوں؟‘‘
کلپت رشی کچھ شرمندہ سی مسکراہٹ مسکرائے (شرمندہ مسکراہٹ اور ان کے ہونٹوں پر؟ وششٹھ نے حیرت سے سوچا)۔’’ہاں، کیوں کہ میرا جی اس دنیاوی کائنات میں اکتا گیا تھا۔ میں اتنا سارا علم حاصل کر چکا، پھر وہ سب بھلا بھی چکا اور اپنے دل دماغ ہی نہیں پورے وجود کو علم، اطلاع، گمان، وہم سب سے پاک کر چکا تو بھی جن سوالوں کے جواب کی مجھے تلاش تھی، وہ بے نیاز جواب ہی رہے۔ کہتے ہیں ایک کائنات عظمیٰ ہے جس میں سب کائناتیں جمع ہیں، یا مدغم ہیں۔ تو پھر اس کی شکل کیا ہے؟ وہ تکونی ہے کہ چوکور ہے کہ دائرہ ہے، یا زنجیرہ ہے؟ کیا کوئی قانون قاعدے ہیں جن کے تحت یہ کائنات زندہ اور عمل پذیر ہے؟ اور یہ زندہ ہے بھی کہیں؟ اپنی معمولی دنیا میں تو میں زمان، مکان، علت معلول، سب جانتا ہوں، لیکن یہ کس طرح عمل کرتے ہیں؟ اچھا اگر کو ئی کائنات عظمیٰ نہیں ہے، صرف ہماری کائنات ہے، تو پھر وہ سب کہاں ہیں؟ وہ جمب دویپ، وہ کوہستان سمیرو، وہ بے ازل اور بے ابد کنول کا پھول کہاں سے آیا؟
’’جب میرا جی ان سوالوں سے گھبرا جاتا تو میں اپنا دل بہلانے کے لیے نئے نئے آسمان اور آفاق بنا کر دل بہلاتا، یا وقت گذاری کرتا۔ لیکن نہیں۔ مجھے کسی اور کی تلاش تھی۔ حسن کی، زندہ حسن کی، جسے میں دیکھ سکوں، سن سکوں، چھو سکوں، جسے میں صرف اور صرف اپنا کہہ سکوں۔ اور وہ حسن ارادے اور ذہن کا بھی مالک ہو۔ اسے تکلم پر قدرت ہو، اسے ہواؤں، آبشاروں، طیور، ابر و باراں، صاعقہ، ان سب کی موسیقی کا بھی شعور ہو۔
وامن وششٹھ ہی نہیں، کلپنا بھی کلپت رشی کا منھ دیکھ رہی تھی۔ دونوں چاہتے تھے کہ کچھ کہیں، لیکن مداخلت کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ کلپت رشی کے الفاظ ہوا کی طرح سارے غار میں بہ رہے تھے۔
’’مجھے معلوم تھا کہ کائنات کا آخری سرا چھو لینے ہی پر میرا دکھ دور ہو سکے گا۔ اور یہ دکھ تمام دکھوں کا بادشاہ تھا، اور کائنات کا سرا کہاں ہے، مجھے اب تک معلوم نہ ہو سکا تھا۔ تو میں نے پہلی خوبصورت شے جو بنائی وہ مور تھا۔ طاؤس لاہوتی بھی اس قدر حسین، اس قدر دلربا کیا ہو گا۔ میں تو ایک لمحے کے لیے مبہوت رہ گیا۔ یہ میں نے بنایا ہے؟ لیکن اس نے وجود میں آتے ہی پر پھڑپھڑاتے ہوئے غار کے اس سرے سے اس سرے تک کا چکر لگانا شروع کر دیا۔ اس قدر وحشت تو شاید حیوانی طاؤس میں بھی نہ ہو گی۔ اور اس کی آنکھیں، وہ دلفریب کہ تکتے رہیے، لیکن ان میں فہم اور فکر اور ارادے کی روشنی نہ تھی۔ افسوس کہ ان کا حسن میرے کسی کام کا نہ تھا۔
’’میں نے طاؤس کو باہر نکل جانے کا اشارہ دیا۔ اشارہ کیا دیا، اسے غار کا باہری دہانہ دکھا دیا اور وہ خوشی خوشی اڑ کر باہر کی چٹان پر جا بیٹھا اور اپنی آئندہ معشوقوں کو اپنی جھنکار بھری آواز میں پکارنے لگا۔ لیکن وہاں مورنیاں کہاں تھیں؟ وہاں کی ہوا ہی اور تھی، زمیں اور تھی۔ اس نے تھوڑی ہی دیر میں سمجھ لیا کہ یہاں کچھ سرسبز نہ ہو گا اور کچھ تھکی ہوئی سی رفتار کے ساتھ نشیب کی وادیوں کی طرف اڑ گیا۔
’’میں مایوس نہ ہوا، میں جانتا تھا کہ جو کچھ مجھے درکار ہے، وہ بن ہی جائے گا اور بنانے کی اس کوشش میں بھی ایک لذت تھی۔ کچھ اور وقت گذرا (اگر وقت کا کوئی تصور اس جگہ ممکن تھا) اور میں نے پانی کا یہ چشمہ بنایا جو تم دیکھ رہے ہو۔ یہ اچھا شگون تھا، کہ پانی منبع اور علامت ہے زندگی اور تحرک کی۔ جیتی جاگتی زندگی اب کچھ دور نہ ہونا چاہیے، میں نے سوچا۔ ایک مدت تک میں لہروں کے گذرنے، لہرانے اور جوش کرنے کا منظر دیکھتا رہا۔ ہر بار نیا پانی، ہر بار نئی لہر۔ اور ہر بار روشنی کے کھیل یا شرارت کی وجہ سے لہروں کے نئے رنگ۔ میں نے سوچا کیوں نہ میں اس زندہ، تقریباً تکلم پر قادر، زندگی سے بھر پور پانی کو اپنے پاس بلاؤں، اس کی باتوں سے دل بہلاؤں، اس کے رنگوں سے لطف اندوز ہوں۔ لیکن توبہ، وہ لہریں میری کب سننے والی تھیں؟ اور ان میں قوت سامعہ شاید تھی بھی نہیں۔ پھر میں نے چشمے کے پانی میں رنگ برنگی چھوٹی بڑی مچھلیاں بنائیں۔ لیکن اب ایک نیا مسئلہ سامنے تھا۔ میرا یہ غار بہت لمبا، بہت گہرا سہی، لیکن پانی اس کے آخری سرے پر جمع ہوتا رہا تھا۔ اب یا تو وہ واپس میری طرف واپس آئے یا اٹھنا شروع ہو۔ مجھے یہ دونوں صورتیں منظور نہ تھیں، کیوں کہ رخ بدلنے یا انداز و رفتار بدلنے کے نتیجے پانی کچھ کا کچھ ہو سکتا تھا۔ پھر یہ مچھلیاں کہاں جائیں گی؟ میرے رہنے اور پاؤں پھیلانے کی بھی جگہ رہے گی کہ نہیں؟‘‘
وامن وششٹھ نے ہمت کر کے مداخلت کی۔ ’’لیکن۔۔۔ لیکن اب تو ایسا نہیں ہے۔ غار کے آخری سرے پر کوئی اور غار، یا حوض بنا ہے کیا؟‘‘ کلپنا مبہوت کھڑی سن رہی تھی۔ اس غار اور غار کے بنانے والے کی تاریخ سے وہ واقف نہ تھی، سمجھتی تھی کلپت رشی نے اسے یوں ہی پایا ہو گا اور اس میں اقامت اختیار کر لی ہو گی۔ اب اسے لگ رہا تھا کہ کچھ بھی ایسا نہیں ہو جو در اصل ویسا ہی ہو جیسا کہ نظر آتا ہے۔ غار کی اونچائیوں پر وہ دنیائیں، دشت و صحرا، کہکشائیں، پوری پوری کائنات کو شروع سے قائم دیکھتی آ رہی تھی۔ اور باہر جو آسمان و زمین تھے وہ اپنی ہی طرح کے آسمان و زمین تھے۔ کیا معلوم کتنی دنیائیں ہیں اور کہاں ہیں اور کس نے بنائی ہیں۔ کلپت رشی نے آنکھیں کھول کر کلپنا کو دیکھا، کچھ عجب سی مسکراہٹ مسکرائے اور پھر کہنے لگے:
’’ہاں، تو میں نے اپنے غار کے سرے پر چھوٹا سا حوض بنایا۔ مچھلیوں کو اور چشمے کے پانیوں کو ایک اور جولاں گاہ مل گئی۔ پھر میں نے اس نئے حوض کے پرلے سرے پر ایک چھوٹی سی نہر نکالی کہ حوض جب بھر جائے تو پانی اور مچھلیاں اس کے کناروں پر سیلاب کا سا ڈھنگ نہ اختیار کر لیں۔ اب سب بالکل ٹھیک تھا۔ پانی نہر کے سر چشمے سے نکل کر میرے غار میں آتا رہتا اور حوض میں جمع ہو کر باہر نئے غاروں اور گہرائیوں کی طرف نکل جاتا۔ لیکن وہ مچھلیاں، ہزار رنگ کی تھیں اور رنگ بدلتی بھی رہتی تھیں اور ان کی تعداد گھٹتی بڑھتی رہتی۔ سطح سے لے کر تہہ تک اور تہہ سے لے کر سطح تک ان کے انگنت نقش و نگار بنتے۔ چشمہ اپنی سریلی، کچھ سر خوش سی آواز میں آتا اور جاتا اور گاتا رہتا۔ لیکن میں بات کس سے کرتا؟ کون میرے غار کے فرش پر نازک قدموں سے چلتا اور اس کے نقش پا پھول کی طرح کھلتے جاتے؟ کس کے گنگنانے یا گانے کی آواز میرے دھیان میں خلل ڈالتی اور مجھے نیند آنے لگتی؟ کس کے بدن کے خطوط کبھی کہیں جھلک دکھا جاتے کبھی کہیں اور کسی شمع کی لو کی طرح روشن نظر آتے؟ میں کس سے پوچھتا کہ تم نے کھانا کھایا کہ نہیں؟ مچھلیوں کو اپنا کھانا خود ہی اس نہر میں مل جاتا تھا۔ اور کچھ نہیں تو چھوٹے موٹے کیڑے مکوڑے پانی کے ساتھ باہر سے بہہ کر آتے، وہی ان کے لیے کافی تھے۔ مچھلیوں کی خوب چین سے گذر رہی تھی۔ چشمہ بھی اپنے نغمے کے بہاؤ میں مگن تھا۔ مضطرب تھا تو میں تھا۔‘‘
وامن وششٹھ نے گھبرا کر دیکھا۔ کلپت رشی کی آنکیں کچھ سرخ، کچھ نم ہو رہی تھیں۔ سرخی تو ٹھیک ہے، لیکن یہ نمی کیوں؟ وششٹھ کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ انھوں نے سوچا کہ کسی طرح ان کی گفتگو فی الحال روک دی جائے تو کیسی رہے؟ ایسا نہ ہو کہ ان تمام دلپذیر اور دلدوز باتوں کو دو بارہ اپنے لفظوں کے ذریعہ زندہ کرنے میں ان کی زندگی پر کچھ آنچ آئے۔ انھوں نے سوال بھری آنکھوں سے کلپنا کو دیکھا اور انھیں حیرت ہوئی کہ وہ بھی رو رہی تھی۔ آنسو اس کے رخسار پر ڈھلک آئے تھے لیکن وہ انھیں خشک کرنے کی بھی زحمت نہ کرنا چاہتی تھی۔ اس اثنا میں کلپت رشی کا بیانیہ جاری تھا:
’’۔۔۔میں اس اضطراب کے عالم میں نہیں جینا چاہتا۔ جی ہی نہیں سکتا۔ یہ سب میرے اکتسابات، یہ میرے دور ترین دنیاؤں کے روحانی سفر، میرے کوئی کام نہ آئیں گے؟ میں نے سارے ماحول سے خود کو جدا کر لیا۔ بند آنکھوں کو کھول دیا۔ اب وہ آنکھیں مردہ اور بے نور تھیں۔ سارا نور، ساری قوت ایجاد میرے ذہن میں مرتکز ہو گئی تھی۔ عورت کے بدن، اس کے حسن، اس کے حسن کے مزاج کے بارے میں جو کچھ میں نے دیکھا اور سمجھا اور تصور کیا تھا، وہ سب میرے تصرف میں تھا۔ بس جان ڈالنے کی دیر تھی۔ مجھے نہیں معلوم مجھے کتنی دیر لگی، لیکن ایک دن، یا شاید ایک رات میری آنکھوں کی روشنی واپس آ گئی اور کلپنا میرے سامنے کھڑی تھی۔‘‘
وامن وششٹھ کے منھ سے نکلا:’’یہی کلپنا؟ یہ تو۔۔۔یہ زندہ ہیں؟ بالکل زندہ۔ ان کے خون کی گرمی، ان کی سانسوں کی دھڑکن، میں یہاں سے بھی سن سکتا ہوں!‘‘
کلپنا اچانک بول اٹھی:’’مہاراج، اور یہ پانی کا چشمہ، یہ مچھلیاں، جو آپ کے سامنے ہیں، یہ زندہ نہیں ہیں کیا؟ کیا آپ کی مت بالکل ہی ماری گئی ہے؟‘‘ وہ تھوڑی سی ہنسی ہنس کر بولی،’’شاید ابھی کچھ زیادہ سفر نہیں کیا ہے۔ عالم کو آپ نے بہت کم دیکھا ہے۔‘‘ اچانک وہ بپھر کر بولی،’’ہاں، اسی زندگی نے تو مجھے تباہ کر ڈالا۔ آپ کس خیال میں ہیں اور کس دنیا کے باسی ہیں؟‘‘
کلپت رشی نے یہ سب شاید سنا ہی نہیں۔ وہ کہہ رہے تھے،’’میں نے اسے تکلم اور ذہن پر بھی قادر تصور کیا تھا۔ دل دماغ اور تمامی اعضائے رئیسہ تو تھے ہی۔ لیکن مجھے یہ خبر نہ تھی، یا شاید تھی، لیکن میں لوبھ کی شدت میں اس بات کو نظر انداز کر گیا تھا کہ اگر دل ہے تو جہاں وہ سارے جسم میں خون دوڑاتا ہے، وہاں وہ جذبات اور درد اور تقاضا بھی پیدا کرتا ہے۔ سب کچھ جانتے ہوئے میں اس دل میں جو گوشت کا لوتھڑا ہے اور اس دل میں فرق کرنا بھول گیا تھا جو انسان کو انسان بناتا ہے، جسے کمی، زیادتی، روح کی بھوک اور جسم کی پیاس کا بھی احساس ہوتا رہتا ہے۔‘‘
کلپنا کچھ کہنا چاہتی تھی، لیکن کلپت رشی پر اس وقت وہ عالم طاری تھا کہ دیو اور راکھشس بھی مداخل ہونے کی جرأت نہ کرتے۔
میری آنکھیں دیکھتے ہی وہ بولی:’’میں کون ہوں؟‘‘
مجھے جواب نہ پڑا تو اس نے دوسرا سوال کر دیا:’’میرا نام کیا ہے؟‘‘
’’تمھیں میں نے بنایا ہے۔ تمھارا ابھی کوئی نام نہیں ہے۔‘‘
’’اس کی پیشانی پر ناراضی کی شکن نظر آئی تو میں نے بے سوچے سمجھے کہہ دیا، تم کلپنا ہو۔‘‘
’’اچھا تو پھر آپ کون ہیں۔ ہیں بھی کہ نہیں؟‘‘
’’میں ہوں، لیکن میرا کوئی نام نہیں ہے۔ باپ ماں نے اگر کوئی نام مجھے دیا تھا تو میں اسے بھول چکا ہوں۔‘‘
’’اچھا، اگر میں کلپنا ہوں تو آپ کلپت ہیں۔‘‘ وہ جھٹ بولی۔’’حساب برابر ہوا۔‘‘
’’کلپت بھی اچھا نام ہے۔ میں نے کچھ تذبذب کے بعد اس کی پسند کو اپنی پسند بنا لیا۔‘‘
’’مجھے کیا کرنا ہو گا؟ میں کس لیے بنائی گئی ہوں؟‘‘
’’تمھارا کوئی کام نہیں۔ تم اس غار کو اپنی موج خرام سے روشن کرو، اپنے تبسم سے شفق گوں کرو، اپنی آواز سے چرند و پرند کو، اور مجھے بھی مسحور کرو۔‘‘
’’مجھے یہ سب کچھ نہیں آتا۔‘‘ وہ اٹھلا کر بولی۔’’نہ مجھے کھانا پکانا آتا ہے، نہ میں آپ کی چادر میں پیوند لگا سکتی ہوں، نہ میں رات کو گیت سنا کر آپ کو سلا سکتی ہوں۔ اور گانا تو مجھے بالکل ہی نہیں آتا۔‘‘
’’ٹھہرو، ذرا ٹھہرو۔ موسیقی میں تمھیں دکھاؤں گا، تمھاری آواز کو پرندوں کی چہچہاہٹ سے، ٹھنڈی ہواؤں سے ہم آہنگ ہونا، میں تمھیں سکھاؤں گا۔ تمھیں بس میرے لیے رونق حیات بننا ہے۔‘‘
اب کلپنا سے نہ رہا گیا۔’’جی ہاں، آپ نے مجھے سب کچھ سکھایا، سب کچھ بنایا، لیکن کبھی محبت کی نگاہ سے مجھے نہ دیکھا۔۔۔‘‘
’’محبت کی نگاہ؟‘‘ کلپت رشی نے کچھ متعجب ہو کر پوچھا۔
’’آپ دماغ کی، دل کی، حقیقت جانتے ہیں۔ ابھی آپ نے خود ہی کہا۔ پھر اس دل کے تقاضے بھی جانتے ہوں گے۔‘‘ کلپنا تیز لہجے میں بولی۔’’مجھے کسی کی بھی رونق حیات نہیں بننا۔ میری بھی کوئی زندگی ہے؟ میری زندگی کی رونق کون بنے گا؟ کون بن سکتا ہے؟ کیا میں کوئی بے جان کھلونا ہوں؟‘‘
اب کلپنا کے آنسو ندی کی طرح بہہ رہے تھے۔ وششٹھ تو ایک طرف رہے، کلپت رشی کو بھی لب کھولنے کی جرأت نہ تھی۔
’’آپ نے اتنا کچھ گیان حاصل کیا لیکن یہ نہ جانا کہ چاہت کے بغیر کچھ نہیں؟ مجھے چاہنے والا تو کوئی آپ نے بنایا نہیں۔ اور کیوں بناتے؟ آپ کو اپنی دلبستگی کے لیے گڑیا بنانی تھی تو کچھ اور بناتے۔ آپ نے ادھوری مخلوق پیدا کر دی اور اسی پر آپ کو تسخیر فطرت کا، تسخیر کائنات کا جنون تھا؟ نہیں، معاف کیجئے گا، آپ تو تخلیق کائنات کا دعوی رکھتے تھے؟‘‘
وششٹھ رشی کو لگا، وہ اچانک نیند سے بیدار ہو گئے ہیں۔ انھوں نے آنکھیں مل کر دیکھا۔ سب کچھ تو ویسا ہی تھا، وہیں تھا۔ لیکن انھیں یہ وہم کیوں ہو رہا تھا جیسے کچھ بدل گیا ہے، یا بدلنے ولا ہے؟ یوگ وششٹھ (جس کے نام سے انھوں نے اپنا نام مستعار لیا تھا، یعنی ان کے دونوں نام مستعار تھے) میں تو لکھا ہے کہ کہ سب کچھ انسان کے ذہن میں ہے اور وہ حقیقت، یا وہ وجود، جو انسان اپنے ذہن میں اور پھر اپنے ذہن سے پیدا کرتا ہے، اس میں پہاڑ کی ایسی چوٹیاں، ایسے کوہسار بھی ہیں جو لچک دار ہیں۔ انھیں بڑھایا جائے تو پتہ لگتا ہے کہ ایک اتھاہ، بے انت سلسلہ ہے جس میں سب کائناتیں لپیٹی پڑی ہوئی ہیں۔ تو کیا یہ پیاز کے چھلکے کی طرح ہیں، یا پیاز کے چھلکے ہی ہیں؟ مگر یہ کلپنا تو سمجھتی ہے کہ سب کچھ حقیقی ہے۔ ایک میں ایک بندھا ہوا یا مدغم نہیں ہے۔ ہر انسان اپنی جگہ پر حقیقی ہے۔ مگر مجھے کیا خبر، مجھے کیا علم؟ ابھی تو میں نے وامن اوتار کا پہلا قدم بھی نہیں پورا کیا ہے۔ میں تو راہ میں کہیں معلق ہوں۔ یوں کہیں کہ میں ابھی نیند ہی میں ہوں۔ میں تو ابھی نیند اور خواب کے علاقے کی طرف قدم زن بھی نہیں ہوا ہوں۔ کلپنا اور کلپت جن اسرار سے واقف ہیں، مجھے ان کی بھنک بھی نہیں مل سکی ہے۔ کلپنا کو تو کلپت نے بنایا ہے، یہ بات وہ خوب جانتی ہے۔ لیکن مجھے کس نے بنایا، اس سوال کے جواب کا سایہ بھی مجھ تک ابھی نہیں پہنچا۔ مجھے کلپت نے اپنی قوت کے بل بوتے پر کھینچ بلایا تھا۔ لیکن مجھے لگتا ہے یہ سفر بھی۔۔۔
مگر کچھ بدل ضرور گیا ہے، مجھے یقین ہے۔ یا میں ہی کچھ بدل گیا ہوں؟ کچھ نہیں، بہت کچھ۔ وامن وششٹھ نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔ کیا کوئی نیا شخص ادھر آنے والا ہے؟ کیا وہ کلپت رشی سے بھی زیادہ قوتوں کا مالک ہے؟ مگر کیا کلپت رشی کی قوتیں ان کے لیے مخصوص ہیں، اور یا ہر ایک میں مشترک ہیں؟ اور قوت ہے کیا؟ کیا نجات اور نروان کی راہ، جسے یوگ وششٹھ میں موکش پایہ (راہ آزادی) کہا گیا ہے، سب کے لیے ہے؟ یعنی کیا ہم میں سے کوئی بھی اس راہ پر چل سکتا ہے اگر اسے راہ کا سرا، یعنی اس کا پہلا قدم، معلوم ہو؟ لیکن یہ موکش کیوں لازم ہے؟ ہمیں کس نے یہاں (یا کہیں بھی) قید کیا اور پھر نجات کی راہ ڈھونڈنے پر مکلف کیا؟ کیا کلپت رشی کو نجات کی راہ مل گئی ہے؟ اور کلپنا کو؟
ابھی وہ ان سوالوں میں الجھے ہوئے تھے کہ انھوں نے دیکھا، کلپنا کے سر کے چاروں طرف کچھ آگ کے سے شعلے ہیں۔ کیا یہ کلپنا کے سر سے اٹھ رہے ہیں؟ یا کوئی نئی آگ ہے؟ چشم زدن میں انھیں ایسا محسوس ہوا کہ چشمے میں پانی کی لہریں نہیں ہیں، آگ کی لپٹیں ہیں۔ اور یہ لپٹیں شعلہ بن کر ہر طرف لپک رہی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ شعلے گویا زندہ ہو کر غار میں ہر طرف دوڑنے لگے۔ غار کے آخری سرے پر جو آسمان تھا، (یا جو چھت تھی؟ ) اس پر جگمگانے والی، ڈرانے والی، بے چین کر دینے والی ساری دنیائیں، سب دشت و صحرا، سب سمندر اور سب آسمان، جلنے لگے۔ صرف کلپت رشی اور کلپنا اپنے اپنے دھیانوں میں غرق تھے گویا کچھ بدلا ہی نہیں ہے۔ یا شاید انھیں آگ کی گرمی ابھی تک پہنچی نہیں ہے۔
وامن وششٹھ نے لڑکھڑاتے ہوئے قدم پیچھے ہٹائے۔ وہ آگ شاید ان کا پیچھا کر رہی تھی۔ نہیں، سارے شعلے ابھی اسی غار تک محدود تھے۔ اچانک انھوں نے محسوس کہ ان کے اندر سے کچھ کم ہو گیا ہے۔ انھوں اپنے جسم کو ٹٹولا۔ کنڈلنی، جسے وہ ہمیشہ کردھنی کی طرح کمر سے باندھے رہتے تھے، وہ سانپ غائب تھا۔
جیسے کسی نے دن دہاڑے ان کی آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ دی ہو۔ انھیں آگ کی گرمی اور اس کی چمک تو محسوس ہو رہی تھی، لیکن انھیں نظر کچھ نہ آتا تھا۔ یہ بھی سمجھ میں نہ آتا کہ وہ غار کے باہر ہیں یا اندر ہیں۔ ایک مرتبہ انھیں ایسا لگا کہ وہ آگ غار سے باہر نکل کر ان کے وجود پر مسلط ہونے والی ہو۔ انھوں نے گھبرا کر ایک اور قدم پیچھے ہٹایا اور اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔ کیا یہی انجام ہے؟ کیا اسی کو نجات، نروان، موکش کہتے ہیں۔
نہ معلوم کتنی دیر ہو گئی تھی۔ انھوں نے ہمت کر کے آنکھیں کھولیں تو وہاں کچھ بھی نہ پایا۔ آگ نے سب نگل لیا تھا، یا خاک کر دیا تھا اور کوہستانی برفیلی ہوا اچانک گرم آندھی بن کر سب کچھ اڑا لے گئی تھی؟ نہ کلپنا نہ کلپت رشی، نہ وہ پانی کا چشمہ، نہ وہ مچھلیاں۔ نہ وہ خاک نہ پتھریلی چٹانیں، نہ غار کی گہرائیاں، حد نظر تک ایک اونچی پہاڑی تھی جو دور کسی ڈھلان میں گم تھی اور وہ نہر وجود، جو اس سب کا منبع تھی؟ وہ خود سے شرمندہ ہوئے۔ انھیں اپنے ہی وجود کے سرچشمے کا پتہ نہ تھا، اور اب وہ ناگ بھی انھیں چھوڑ گیا تھا۔ انھیں کسی اور وجود کے حق یا باطل ہونے کا سوال اٹھانے کا حق ہی کیا تھا؟
ایک زمانے میں انھیں صوفیوں کے بعض حلقوں میں اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا تھا۔ ان میں سے ایک صوفی کا قول تھا کہ ہر آن وجود ہے اور ہر آن فنا ہے۔ تو پھر ایسی صورت میں کسی مقررہ ذات کے سرچشمے کی تلاش فضول تھی۔
وششٹھ رشی نے تھکے ہوئے قدموں سے نیچے اترنا شروع کیا۔ اب وہ سبزہ زار تھا نہ آبشار، نہ وہ سرو اور دیودار کے پیڑ۔ راستہ ناہموار تھا، جیسا کہ پہاڑوں میں ہوتا ہی ہے۔ وہ ذرا اور نیچے اترے، موسم کچھ گرم ہو چلا تھا۔ غار کے آس پاس تو سرد ترین موسم تھا اور غار کے ذرا اوپر ہر جگہ برف بندی تھی۔ یہاں سورج تو ابھی نہیں دکھائی دیتا تھا لیکن آسمان دور تک نیلا تھا۔ وہ اترتے گئے۔ دفعۃً انھیں شک ہوا کہ کہیں کوئی چیز چمک رہی ہے۔ ادھر اُدھر تو کچھ بھی نہ تھا۔ اوپر اونچا پہاڑ تھا۔ نیچے، جہاں وہ کھڑے ہوئے تھے، دشوار گذار گھاٹیاں اترتی چلی گئی تھیں۔ انھوں نے ہمت کر کے بائیں طرف کی کگر پر سے جھانکنا چاہا۔ ان کا سر چکرانے لگا۔ نہیں، کچھ بھی نہ تھا۔ پھر انھوں نے دو قدم اتر کر دائیں جانب دیکھا۔ ہرا سنہرا رنگ چمک رہا تھا۔ انھوں نے نظریں جمانے کی کوشش کی اور دیکھا کہ بہت کچھ نیلا رنگ بھی تھا۔ یہ تو مور تھا۔ وہی مور تو نہیں جو کلپت رشی نے بنایا تھا؟ عام طور پر مور اتنی بلندی پر نہیں پائے جاتے۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ وہی مور تھا، کسی بنا پر اس کی قوت پرواز ختم ہو گئی تو وہ گھاٹی کے شگاف میں اتر گیا۔ غالباً دم لینے کے لیے۔ لیکن پھر وہ اس شگاف سے باہر نہ آ سکا، شاید پر پھیلا کر اڑ جانے کی جگہ نہ تھی۔ کیا کلپنا اور مچھلیوں سے بھری نہر کی طرح وہ مور بھی کلپت رشی کی راہ پر چلنے پر مجبور ہو گیا تھا؟
وامن وششٹھ کے گالوں پر دو قطرے بہہ نکلے۔ دھند ہر طرف بہت تیزی سے چھائی جا رہی تھی۔ بھاری دل کے ساتھ انھوں نے ٹٹول ٹٹول کر قدم رکھنا آغاز کیا۔ تھوڑی دیر بعد دھند نے انھیں بالکل پوشیدہ کر لیا۔