ان کا نام وامن وششٹھ تھا۔ یا شاید وامن ان کا نام نہیں تھا بلکہ لقب تھا، کیوں کہ وہ بھی وامن اوتار کی طرح پستہ قد تھے، بلکہ کہا جائے کہ بونے تھے تو زیادہ صحیح ہو گا۔ وامن اوتار کی طرح وہ بھی وشنو جی کے بہت سچے اور پکے بندے تھے، بلکہ کچھ لوگ انھیں وشنو جی کا اوتار ہی سمجھ لیتے تھے۔ لیکن وہ ان وامن اوتار کی طرح نہیں تھے جو لوہے کی لاٹھ کی طرح زمین میں گڑے ہوئے ہیں اور اس کا سرا آسمان کو چھوتا ہے۔ لوگ کہتے تھے وہ زمین کو تھامے ہوئے ہیں نہیں تو لحظہ لحظہ اتنے زلزلے آئیں کہ ساری دنیا تہ و بالا ہو جائے۔ انھیں وامن اوتار نے ایک بار اپنے راجا سے کہا کہ مجھے رہنے سونے کے لیے کچھ زمین دے دو۔ راجا نے ان کے پستہ قد کو دیکھا تو مسکرا کر بولا،’’زمین کیا کرو گے، ہاں تین قدم چلو، اتنی زمین تمھیں مل جائے گی جتنی تم تین قدم میں طے کر سکو گے۔ وہی تمھارے لئے کافی ہو گی۔‘‘
وامن نے راجا کو رحم بھری نگاہ سے دیکھ اور کہا،’’اچھا، تو میں چلا۔ تم میرے قدم دیکھتے رہنا کہ تین سے زیادہ تو نہیں ہو رہے ہیں۔‘‘
پھر راجا کے سامنے زمین آسمان کے بیچ کہیں ایک کھڑکی سی کھل گئی۔ وامن اوتار اس میں سے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ پلک جھپکنے میں جتنا عرصہ لگتا ہے اس سے بھی کم مدت میں وامن نے جانی پہچانی کائنات، سورج، چاند، ستارے، سمندر پہاڑ، سب پار کر لیے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ دشت امکاں کو بھی پار کر گئے، یعنی اس سب کو، جو ابھی ہے نہیں لیکن ہو سکتا ہے، یا کبھی ہوا ہو گا اور اب وقت کے اس پار بہنے والے دھندلے پانیوں میں ان گنت صدیوں سے غرق ہے۔ پھر ان کا دوسرا قدم محسوس کائنات سے آگے، امکانات سے پرے، ان کائناتوں کو پار کر گیا جو وجود نہیں رکھتیں لیکن جو وجود میں آنے کے لیے بے قرار ہیں۔ یا در اصل ابھی وہ بے قرار بھی نہیں ہیں لیکن جب انھیں امکانات کا علم ہو گا تو ان کی روح میں ناتمامی کا احساس چبھنے لگے گا اور وہ خود کو مکمل کرنے کے لیے وجود میں آ جانے کے لیے مضطرب ہونے لگیں گی۔ راجا کے حواس گم ہونے لگے، لیکن اس کی آنکھیں وہیں کھڑکی کے پار ٹکٹکی لگائے ہوئے تھیں۔ وامن اوتار کا تیسرا قدم اندر لوک، پر لوک، کے آگے کائنات غیر وقت پر پڑا ہی تھا کہ راجا چیخ اٹھا:
’’بس مہاراج، بس۔ مجھ سے بڑی بھول ہوئی۔ اب آگے دیکھنے کی تاب نہیں ہے۔ میں دست بستہ معافی کا خواستگار ہوں۔‘‘
وامن اوتار مسکرائے۔ راجا نے اپنا تاج ان کے قدموں میں رکھ دیا اور گڑگڑا کر بولا:
’’یہ راج پاٹ سب آپ کا۔ میں اس کا مستحق نہیں۔ یہ سب آپ سنبھالیے، مجھے بن باس دیجیے۔‘‘
وامن اوتار نے راجا کو تکبر اور خود نمائی سے حذر کرنے کی تلقین کی، کہا ’’ہم تاج گیر نہیں، تاج بخش ہیں۔‘‘ اور اپنی راہ لی۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ تین قدم جو وامن اوتار نے طے کیے تھے، حسب ذیل تھے: اول، نیند۔ دوم، نیند اور خواب۔ سوم، گہری نیند۔ یہ تینوں قدم روحانی طور پر شاید وہی تھے جو وامن نے راجا کی آنکھوں کے سامنے اپنے گوشت پوست کے جسم کے ساتھ طے کیے تھے۔ واللہ اعلم۔ لیکن جن وامن وششٹھ کا ہم ذکر رہے ہیں وہ ابھی اپنے ہم نام اوتار کے بہت پیچھے، کئی درجہ نیچے کہیں نفس مطمئنہ کی تلاش میں تھے۔ انھوں نے کنڈلنی کو اس درجہ اپنی گرفت میں کر لیا تھا کہ وہ اسے دوپٹے کے طور پر اپنی کمر میں لپیٹے رہتے تھے، لیکن ابھی وہ خود کو، یا اپنے داخلی وجود کو نامکمل سمجھتے تھے۔ وامن وششٹھ کے پاس سب کچھ تھا، وہ لا انتہا علوم کے مالک تھے اور اتھاہ اسرار کی گہرائیوں میں اتر چکے تھے۔ لیکن ابھی انھیں وہ نہ ملا تھا جو انھیں بے نیازی کی مملکت پر قابض و قادر کر دیتا۔
وہ اسی تلاش میں ملکوں ملکوں قریۂ و امصار، دشت و در میں سرگرداں رہے۔ ایک بار وہ تھک کر اور اپنی ہستی سے بیزار ہو کر ایک ٹیلے کے دامن میں چادر لپیٹ کر پڑ رہے۔ تو انھوں نے خواب میں کسی کو دیکھا، کچھ روشنی اور کچھ ابر مطیر کے لباس میں چھپا ہوا۔ وامن نے چاہا کہ ان (روح؟ جسم؟ تصور؟ ) سے پوچھیں کہ میری خلش کیا ہے اور اس کا علاج کیا ہے؟ لیکن رعب اور ہیبت نے زبان کھولنے کی قوت سلب کر دی تھی۔ پھر انھوں نے محسوس کیا (دیکھا؟ دل میں کہیں منعکس دیکھا؟ ) کہ وہ ہستی دور کسی بہت اونچی جگہ شمال کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ پھر ان کے دل میں خیال آیا، مجھے شمال کی طرف چلنا چاہیے۔ اس کے پہلے کہ ان کی آنکھ کھلتی (یا وہ ہوش میں آتے؟ )، انھوں نے سنا، کوئی کہہ رہا ہے، حجاب تم خود ہو، تمھارا علم اور فضل اس سے بڑا حجاب ہے۔ انھیں سکتہ سا آ گیا۔ یہ سب جو میں نے صدیوں کی تپسیا اور دھیان اور دشت و جبل میں مارے مارے پھر کر حاصل کیا ہے، یہی مجھ پر حجاب بن کر چھا گیا ہے؟ کیا اسی کی روشنی کی بدولت میں اندھا ہو گیا ہوں اور میری خلش یہی ہے کہ مجھے بصیرت کی تلاش ہے؟ آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے رہرو ذرا، دانہ تو کھیتی بھی تو باراں بھی تو حاصل بھی تو۔ آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے راہ تو رہرو بھی تو منزل بھی تو۔ ناخدا تو بحر تو کشتی بھی تو ساحل بھی تو۔ پھر میں کہاں جاؤں؟ کہیں نہیں، اپنے جھوٹے علم اور اپنی معصوم غلط فہمیوں کو ترک کر، دور وہ شمال کا فلک نشیمن تیرا منتظر ہے۔ تو نے ابھی اپنے آپ سے باہر نکلنا تو سیکھا نہیں ہے، یہ کنڈلنی جسے تو اپنا طرۂ امتیاز جانتا ہے، یہی تو تیری راہ کا بندھن ہے۔ تیرے ہاتھ پاؤں اسی نے باندھ رکھے ہیں۔ ان قیود سے ماورا ہو جا۔ تو اے شرمندۂ ساحل اچھل کر بیکراں ہو جا۔ یہ ہند و ایران کیا، صین و روم کیا، یہ سب قیود ہیں جو علم نے تجھ پر عائد کئے ہیں، ورنہ کائنات کی ہر شے ایک دوسری سے سے متحد ہے اور متحد نہیں تو متصل ضرور ہے۔