میں نے ایک رات گھر چھوڑ دیا۔ میرا باپ ہماری جھونپڑی کے دروازے پر کھردرے فرش پر سویا ہوا تھا۔ میری ماں کہیں اندر رسوئی کی چوکھٹ کو تکیہ بنا کر معصوموں کی نیند سو رہی تھی۔
میرا باپ؟ میری ماں؟ کیا میں بھی اپنے باپ کی قوت ایجاد کا ایک مظہرہ تھا؟ کیا اس نے اپنا نطفہ میری ماں کے رحم میں ڈالا تھا اور میں نے ہستی کے خفیف ترین ذرے سے لے کر مکمل ہوش و حواس والے وجود کی منزلیں اس آرام گاہ میں محفوظ گذاری تھیں؟ شاید وہی چند لمحے تھے جب میں دکھ سے بے خبر تھا۔ یا پھر میری ماں۔ کیا میری ماں بھی اس چاند کی طرح تھی جسے میرے باپ نے آناً فاناً ہماری جھونپڑی کی چھت سے معلق کر کے پھر اسے میرے دل میں اتار دیا تھا؟ تو پھر نہ کوئی میرا باپ تھا، نہ کوئی میری ماں۔ میں اس پورے برہمانڈ میں اکیلا تھا۔
پھر بھی، میں چل پڑا۔ ہمارے بھارت کے جنوبی خطے میں ایک ملک ہے، جس کا نام ایک زمانے میں کیرالا پترا کہا جاتا تھا۔ کیرالا یعنی تاڑ کا پیڑ اور پترا بمعنی بیٹا۔ اس کے نام بدلتے گئے، یہاں تک کہ اس کے کئی علاقے متعین ہوئے اور ان کے نام بھی الگ الگ رکھے گئے اور بدلتے گئے۔ بہر حال مجھے تو کیرالا پترا ہی نام اچھا لگتا ہے۔ میں نے اب تک جتنے علوم حاصل کیے تھے، ان میں موسیقی اور رقص کو خاص اہمیت تھی۔ لیکن کیرالا پترا میں ایسے کئی رقص تھے جنھیں وہاں جا کر ہی سمجھا اور ممکن ہوا تو سیکھا جا سکتا تھا۔
اثنائے راہ میں مجھے کئی بار یہ خیال آیا کہ یہ سب سیکھنے سے کیا فائدہ؟ مجھے تو اپنا ہی علم ابھی کچھ نہ تھا، دنیا بھر کی غیر ضروری چیزیں جان لینے کے بعد میں خود کو سمجھ لوں گا؟ کنڈلنی کو جگانا بے شک میری دسترس میں تھا۔ لیکن کیا دکھ کا کوئی علاج وہاں تھا بھی کہ نہیں؟ مگر خیر، چلو آگے بڑھو۔ ناگ کنڈلنی تو میرے بس میں تھا ہی، آگے چلتے ہیں، دیکھیں کیا دکھائی دیتا ہے۔
ایک قصر نادر روزگار مثل آسمان بلند ہے۔۔۔ایک دریچہ طلائے احمر کا اس قصر میں نمایاں ہے۔ صبح کو جب آفتاب نکلتا ہے۔۔۔ایک ہوا آتی ہے وہ پردے کو اڑاتی ہے۔ پردہ اڑ کر میخ ہائے طلا پر نصب ہو جاتا ہے۔ چالیس دروازے اس دریچے کے دہنے اور بائیں بنے ہیں۔ وہ بھی وا ہو جاتے ہیں۔ ہر دروازے میں ایک ایک عورت حسین، منقل آتشیں لیے، مشک و عنبر سلگتا ہوا، آ کر کھڑی ہوتی ہے۔ بعد اس کے ایک نازنین مہ جبین، مہر تمکین، نمونۂ برق طور، از سر تا پا دریائے جواہر میں غرق، اس دریچۂ طلائی میں کرسی جواہر نگار پر آ کر بیٹھتی ہے، کرشمہ و ادا میں طاق، حسن و جمال میں شہرۂ آفاق۔۔۔گلے میں ہیکل الماس کے نگینوں کی پڑی ہے۔۔۔جو اس نازنین کو دیکھتا ہے، دلدادہ، شیفتہ و فریفتہ ہوتا ہے۔۔۔وہ نازنین [ترنج کو] مجمع عشاق میں پھینکتی ہے۔ جو شخص اس ترنج کو اٹھا کر سونگھتا ہے، گریبان چاک کرتا ہے، اپنے کو ہلاک کرتا ہے۔ ایک سمت ایک برج نظر آتا ہے۔ اس برج پر ایک کبوتر باز لباس زریں پہنے، چھیپی طلائی ہاتھ میں، کبوتر اڑاتا ہے۔ ایک زنجیر طلائی اس برج سے لٹکی رہتی ہے۔ ہر شخص [جو] اس ترنج کو سونگھ کر دیوانہ ہو جاتا ہے، جوش جنوں میں بڑھتا ہے، زنجیر طلائی کو پکڑ کر چڑھتا ہے۔ جب قریب برج کے پہنچتا ہے کہ اوپر چڑھ جائے اپنے کو اس نازنین تک پہنچائے، اس برج میں ایک سوراخ پیدا [ہوتا] ہے۔ اس سوراخ سے ایک ہاتھ نکلتا ہے، اس شخص کو اندر سوراخ کے کھینچ لیتا ہے۔ بعد ایک ساعت کے اس شخص کا سر کٹا ہوا، سوراخ سے وہی ہاتھ باہر پھینک دیتا ہے۔ پھر وہ نازنین نظر نہیں آتی، کھڑکی بند ہو جاتی ہے۔
[ایرج نامہ، جلد اول: داستان گو، شیخ تصدق حسین]
معلوم نہیں میں ہوش میں ہوں یا مجھ میں کسی قسم کا سحر تاثیر کر گیا ہے۔ یا شاید میں خواب دیکھ رہا ہوں؟ میں ہڑ بڑا کر جاگا۔ میں کسی ندی کے کنارے پہاڑی کی چھاؤں میں سو گیا تھا۔ وہاں خدا جانے مجھ پر کیا معرکہ گذرا۔ کیا میرا باپ اپنی قوتیں استعمال کر کے مجھے واپس بلا رہا تھا؟ یا اس نے یہ طلسمات صرف مجھے چکر میں ڈالنے کے لیے خلق کیے ہیں؟ میں پھر سو گیا۔ اب۔۔۔
ایک صحرائے پر خار دشت پر آزار سے گذر ہوا جہاں کی زمین بھی تابش آفتاب سے سیاہ تھی، تیرہ بختی مسافران صحرا کی گواہ تھی۔۔۔پانی نام کو نہیں چشمۂ چشم بھی اشکوں سے خالی، زبان مژگاں سے سوکھی سناتے۔۔۔کہیں کہیں جانور جو نظر آتا لخلخاتا پانی کی تلاش میں پھڑپھڑاتا زبان باہر نکالے تڑپتا۔۔۔دو تین چیلیں پوٹے ٹیکے آنکھیں بند کیے بیٹھی تھیں اور ہانپ رہی تھیں، سوز جگر کی سرد مہری سے کانپ رہی تھیں۔
تالاب اور جھیلیں برنگ آئینہ مصفا ہیں۔ بگلے ایک پاؤں سے بغلوں میں چونچ دابے کھڑے ہیں۔۔۔مینڈک جھیل چشمے میں ارّاتا ہے۔ جھینگر کی چیں چیں ہے، ٹٹیری ٹراتی ہے۔۔۔ ہوا سرد چلنے لگی۔ درختوں کی کھڑکھڑاہٹ سے ہرن کی ڈاریں دامان کوہ اور بیہڑ سے نکلیں۔۔۔کسی طرف سے پاڑھے کسی جانب سے نیل گائیں ظاہر ہوئیں۔ کچھا رمیں شیر ڈکارا، ہاتھی چنگھاڑا، درختوں میں مرغ جھنڈ کے جھنڈ بولنے لگے۔ ڈھیٹر چہکارے، جھیلوں پر بگلوں نے پھریری لی، مچھلیاں دم مارنے لگیں۔
جوانان بوستاں مثل صالح پاک روش و نیک رو، پنجۂ مرجاں برنگ دست دعائے عابد خوشخو، صد برگ میں سبحۂ صد دانہ کا شمار، جعفری مطیع جعفر تیار۔ نسیم سحر میں متبرک نفس زاہداں کا اثر، دفتر قدرت خدا کا ورق، ہر برگ سوسن زبان شکر کنندگانِ داور، مہندی برنگ روشن ضمیران صاف باطن، بوئے گل مشام اہل راز کی ساکن، غنچہ مثل دہانِ حقیقت آگاہان خاموش، قمریوں کی زبان پر حق سرہٗ کا جوش، کلیاں صومعہ زادان خوشبو، سنبل یاد کدیورِ قدرت میں آشفتہ مو۔۔۔
ہر سمت شاہدان طناز پائینچے کلائیوں پر ڈالے دوپٹے کاندھوں پر ڈھلکائے ہوئے ہزاروں ناز و انداز سے پھرتے، دم خرام محشر بپا کرتے۔ رات کا وقت، شمع و چراغاں روشن، صحن میں چوکا لگا، پلنگوں پر جوبن۔ کوئی نیند میں غافل کوئی لہو و لعب کا شاغل۔ کہیں چوسر کہیں گنجفہ۔ کہیں ستار بجتا، بائیں کا ٹھیکا۔ کہیں کہانی ہو رہی ہے کہیں شعر خوانی ہو رہی ہے۔ کہیں پردے پڑے ہوئے چاہنے والے در پردہ مزے اڑاتے، شام ہی سے پہنچے ہوئے۔ کہیں ووئی کی صدا، کسی جا قہقہے اڑتے، پھبتیاں کہنے کی آواز بر پا۔ قلماقنیاں داغستانیاں کاندھے پر رکھے پہرے پر ٹہلتیں۔ باری دارنیاں اوٹوں کے قریب جاگ رہیں۔
[طلسم ہوش ربا، جلد اول: داستان گو، سیدمحمد حسین جاہ]
میرے خدا، یہ کون سے ملک ہیں جن کے مناظر میں نے دیکھے؟ کیا واقعی ایسی جگہیں جسمانی، طبیعی وجود رکھتی ہیں؟ یا ان کا وجود محض ذہنی ہے؟ اچھا فرض کیا ذہنی ہی وجود سہی، لیکن کہیں تو کوئی چیزیں ایسی ہوں گی جن کی بنا پر میں ان کا تصور کر سکا، خواب ہی میں سہی۔ یا کیا واقعی میں نے خواب دیکھے تھے یا ان جگہوں پر میں کبھی نہ کبھی آیا گیا تھا؟ کہا جاتا ہے ہم ایسی چیزوں کا تصور نہیں کر سکتے جو موجود نہ ہوں۔ یہ ہمارے فلسفے کا بنیادی اصول ہے۔ تو پھر، وہ جو کچھ میں نے دیکھا، کیا تھا؟ دیکھا بھی کہ نہیں؟ لیکن یہاں تو دیکھنے اور تصور میں لانے میں کوئی فرق نہیں؟ اب میں کیا کروں؟ چلو فرض کیا وہ سب جگہیں، وہ سب مناظر، وہ سب ماحول، وہ ہوائیں، وہ آوازیں، وہ موسیقی، وہ سب ہیں نہیں لیکن ہو سکتے ہیں۔
میں نے مانا ہم لوگ عجائبات اور حجابات سے گھرے ہوئے ہیں۔ اور جب ہم ہی لوگ بے وجود ہیں تو پھر ان متفرق، متلون دنیاؤں کا کیا ڈر؟ کوئی مجھے واپس بلائے یا میں خود گھبرا کر واپس چلا جاؤں، یا یہیں یا کہیں اور اپنی ہتیا کر لوں، کسی کا کیا بگڑتا ہے؟ میں جانتا ہوں کہ مجھے کوہستان ہمالیہ پر بھی جانا ہے۔ مانا کہ وہ جگہ یہاں سے بہت دور ہے۔ اور ابھی چند لمحوں کے جو خواب میں دیکھ کر جاگا ہوں، ان کی ان مراحل کے آگے کوئی حقیقت نہیں جو مجھے کوہستان ہمالیہ کی راہ میں مجھے درپیش ہوں گے۔ مجھے معلوم ہے وہاں میرے خوابوں کی طرح دیو لوک بھی ہیں اور اسر لوک بھی۔ اژدہے اور مگر مچھ بھی ہیں اور رقاصان سیماب منظر بھی۔ وہاں کی بھول بھلیاں ایسی ہیں کہ پوری پوری قومیں ان میں داخل ہو کر گم ہو جاتی اور پھر نابود ہو جاتی ہیں۔ بڑے بڑے محلوں کے محافظ ہیں جن کے سر آسمان کو چھوتے ہیں اور جن کے ایک ہاتھ میں کل عالم کی موت ہے اور ایک ہاتھ میں کل عالم کی حیات۔ جو کوئی ان کے سوالوں کے جواب نہ دے سکے، ان کے ایک اشارے میں فنا ہو جائے گا۔