آج وہ کالج سے تھکا ہوا گھر آیا تو گھر پر کوئی نہی تھا۔
اس نے سوچا شائد ممی امیمہ کے گھر گئی ہوں گی۔
اس لئے وہ کھانا کھاکر تھوڑی دیر بعد وہ ٹیوشن سنٹر چلا گیا تھا۔۔۔۔
شام کو تھکا ہوا گھر آیا تو رقیہ بیگم اسی کا انتظار کررہی تھی۔
کیا ہو ممی آپ۔ٹھیک تو ہیں۔۔۔۔
رقیہ بیگم مسکراتے ہوئے کہنے لگی۔میں ٹھیک ہوں میرے بچہ اندر آئو مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے۔
کیا ہوا ممی سب خیریت۔۔۔۔۔وہ ان کے ساتھ ہی اندر آگیا تھا۔۔۔۔۔
یہ لو پہلے منہ میٹھا کرو۔۔۔۔۔۔۔۔وہ مٹھائی کا چھوٹا سا تکڑا منہ میں رکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔
امیمہ کا رشتہ آیا ہوا ہے لنڈن سے اور لڑکا بھی کافی اچھی پوسٹ پر فائز ہے۔۔
آزلان کو اپنا حلق تک کڑوا ہوتا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔۔کتنی دن سے وہ اپنے اندر لڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔امیمہ سے دور اسکے خیالات سے خود کو دور کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
لیکن وہ جتنا اپنے خیالات کو جھٹکنے کی کوشش کرتا وہ اتنا اس پر ہاوی ہوتی جارہی تھی۔
اوہ یہ وقت بھی آخر کار آہی گیا ہے۔۔۔۔وہ سوچتے یوئے اپنے دل کی حالت پر قابو پاتا ہوا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
اسے خود جو تیار کرنا تھا۔۔۔۔۔کبھی نا کبھی تو یہ دن آنا ہی تھا لو ازان شاہ یہ دن بھی آگیا۔۔۔
وہ ساری رات انگاروں پر لوٹا تھا۔۔۔۔۔دوسری طرف امیمہ بھی خاموش ہقکر رہ گئی تھی۔
وہ کچھ دنوں میں پوری طرح سنجیدہ ہوکر رہ گئی تھی۔
وہ آج کالج نہی جانا چاہتا تھا۔۔۔۔۔لیکن نا چاہتے ہوئے بھی وہ کالج آگیا تھا۔۔۔لیکن امیمہ اسے کہی بھی نظر نہی آئی تھی۔
بلاآخر اسے ایک جگہ صبا کھڑی نظر آئی تھی۔
صبا کیا آج امیمہکالج نہی آئی۔۔۔۔
جی نہی اسکی طبعیت خراب ہے۔۔۔۔
وہ بے چین ہوکر رہ گیا تھا۔۔۔۔صبا کی بات سن کر۔
کیا ہوا ہے امیمہ کو وہ ٹھیک تو ہے۔۔۔
جی اسکا رشتہ آیا ہوا ہے۔۔۔۔صبا کا لہجہ عجیب تھا۔
جیسے وہ کچھ جتا رہی ہو۔۔۔
میں چلتا ہوں۔۔۔۔۔
اتنی آسانی سے آپ اپنی محبت کو کسی آور کا ہوتا دیکھ لیں گے۔۔۔۔
صبا کی بات پر ازلان کے قدم جم کر رہ گئے تھے۔۔۔
وہ سمجھ چکا تھا کے وہ سب کچھ جان چکی ہے۔
یہی بہتر ہے شائد امیمہ کی زندگی کیلئے وہ مجھ اے اچھا انسان ڈسرو کرتی ہے۔
آور آپکا کیا ہوگا۔۔۔۔۔میں تو جی لوں گا جیسے بھی ہو۔
وہ پلٹ کر کالج سے باہر نکل کر آگیا تھا۔ ۔۔
اسکا دل شدت سے رونا چاہتا تھا۔ ۔۔۔۔
کتنا مشکل تھا اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی محبت کو کسی اور کا ہوتے دیکھنا۔۔۔۔۔صبا کو ازلان کو دیکھ بہت دکھ ہوا تھا۔ ۔۔۔
وہ جلد سے جلد امیمہ کو سب کچھ بتانا چاہتی تھی۔
آج وہ کالج سے سیدھا امیمہ کے گھر آگئی تھی۔ ۔۔۔
امیمہ گم سم سی بیٹھی ہوئی تھی۔
صبا کو دیکھ اسکے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی تھی۔
صبا بیٹا کیسی ہو۔۔۔۔زرمینہ بیگم پوچھنے لگی
میں ٹھیک ہوں آنٹی آپ کیسی ہیں۔ میں بھی ٹھیک ہوں
لیکن یہ امیمہ کو پتہ نہی کیا ہوگی ہے۔۔۔۔
خوموش ہوکر رہ گئی سب پریشان یوگئے ہیں اسے کچھ پوچھوتو بتاتی نہی ہے۔
اگر تمہی ںکچھ پتا ہے تو بتادو بیٹا۔ ۔وہ فکر مندی سے کہنے لگی۔
مما آپ بھی خوامخواہ پریشان ہورہی ہیں۔
صبا تم میرے کمرے مین چلو ۔ دونوں امیمہ کے کمرے میں آگئے تھے۔
صبا کو وہ سچ مین بہت سنجیدہ لگی تھی۔
پہمے کی طرح مزاق مستی غصہ کچھ نہی تھا اسکے لہجہ میں وہ بھی پریشان ہوگئی تھی۔
سنا ہے تمہارے رشتہ آیا ہوا ہے۔۔۔۔
امیمہ نے صبا کو دیکھا تھا۔ ۔۔۔۔
ہاں۔۔۔۔تو تم نے ہان کہ دیا۔۔۔۔
ہاں۔۔۔۔۔۔کیا تم۔ خوش ہو اس رشتہ سے امیمہ۔
پتا نہی صباوہ بے خیالی میں کہنے لگی۔
اس کا کیا جس سے تم محبت کرتی ہو۔ ۔۔۔
امیمہ صبا کی جانب دیکھنے لگی۔ ۔۔۔
اور صبا کے گلے لگ گر توٹ کر روئی تھی پچھلے دنوں سے وہ جتنا خود سے لڑھ رہی تھی اسکے اندر جتنا غبار بھرا ہوا تھا۔ ۔۔۔وہ سب آب آنسوئوں میں بہہ رہا تھا۔
جب بہت دیر تک رونے کے بعد من ہلکا ہوا تو صبا مسکراتے ہوئے امیمہ کو دیکھنے لگی۔
تمہیں پتہ ہے امیمہ ازلان بھی تم سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔۔۔۔۔۔امیمہ اسے دیکھنے لگی۔
نہی صبا وہ مجھ سے محبت نہی کرتا۔۔۔۔۔وہ تو میری طرف دیکھنا بھی گوارہ نہی کرتا ہے۔
غلط سوچ ہے تمہاری۔۔۔۔۔۔صبا نے ساری سچائی امیمہ کے گوش گزار دیا تھا۔ ۔۔۔وہ حیران رہ گئی تھی۔
اور اسکی آنکھوں سے شدت سے آنسوں بہنے لگے تھے۔
جس آگ کو وہ اپنے اندر دبا کر چل رہی تھی۔وہ دونوں جانب برابر کی لگی ہوئی تھی۔
باہر کھڑی زرمینہ بیگم نے ساری گفتگو سن لیا تھا۔
وہ خوش تھی کے انکی بیٹی کی زندگی برباد ہونے سے پہلے بچ گئی تھی۔
کیونکہ وہ جلد بازی میں غلط شخص سے اگر اسکی شادی کروادیتی تو شائد زندگی بھر امیمہ خوش نہی رہ پاتی تھی۔آج وہ وقت سے پہلے کالج کیلئے تیار ہوگئی تھی۔آج اسے کالج جاکر ازلان کی خبر لینی تھی۔
کالجن پہنچنے کے بعد وہ ازلان کو ڈھونڈتی ہوئی اسکی کلاس تک آئی تھی۔۔لیکن وہ کہی نظر نہی آیا تھا۔
وہ مایوس ہوکراپنی کلاس کی طرف لوٹ رہی تھی۔
جب اسے ایک کونے سے نکل کر ازلقن آتا ہوا نظر آیا تھا۔
امیمہ اسے دیکھ وہی رک گئی تھی۔ازلان اسکے قریب آگیا تھا۔۔۔۔۔
ہائے امیمہ کیسی ہو۔۔۔۔۔۔
کل کالج کیوں نہی آئی تمہاری طبعیت تو ٹھیک ہے نا وہ کل تمہاری دوست بتارہی تھی تم بیمار ہو۔۔۔۔
تم خود سے نہی پوچھ سکتے تھے۔
مجھے کلاس کیلئے وقت ہورہا ہے میں چلتا ہوں۔۔
وہ اس کے سوالوں اور اسکی نظروں کو خود پر محسوس کرتا ہوا کہتے ہوئے آگے بڑھنے لگا تھا۔۔۔
رکو مجھے تم سے بات کرنی ہے۔۔
لیکن مجھے کلاس کیلئے دیر ہورہی ہے۔
ٹھیک ہے میں دوپہر کو تمہارا کالج کے باہر انتظار کروں گی۔۔۔۔
سوری میں نہی آسکتا مجھے آج کچھ ضروری کام سے باہر جاناہے۔
مجھ سے بھی ضروری کام ہے تمہارے لئے وہ اسے گھورتے ہوئے کہتی ہوئی چلی گئی تھی۔
ازلان کو اسکی آنکھیں کچھ اور کہتی دکھائی دے رہی تھی وہ وہی کھڑا اسکے بارے میں سوچنے لگا۔
اپنی سوچوں کو جھٹکتا وہ کلاس میں آگیا تھا۔آج اسکا دل ہی نہی لگ رہا تھا۔۔۔کالج میں وہ امیمہ کا سامنا نہی کرنا چاہتا تھا۔اگر وہ سامنا کرتا تو شائد آپنی محبت کو چھپانا بہت مشکل ہوجاتا پچھلے یچھ دنوں میں کس حال سے گزرا ہے۔یہ صرف وہی جانتا تھا۔
کچھ دن بعد امیمہ کی انگیجمنٹ تھی۔یہ بات رقیہ بیگم نے اسے بتائی تھی۔ اس لئے بہتر تھا۔ وہ ابھی اور اسی وقت سے اس سے دور رہے۔
کلاس میں دل نہی لگا تھا اسکا دوگھنٹی بعد ہی کالج سے نکل گیا تھا۔امیمہ سے بنا ملے ہی۔
کئی دیر سڑکوں پر گھوم کر جب وہ گھر آیا تو شام کے ساتھ بج رہے تھے۔آج وہ ٹیوشنس سینٹر بھی نہی گیا تھا۔
رقیہ بیگم اسے دیکھ کر اسکے قریب آگئی تھی۔
ازلان تم ٹھیک تو ہونا بیٹا مجھے تم کچھ دنوں سے بہت الجھے الجھے سے لگ رہے ہو۔۔۔کیا بات ہے بیٹا اپنی ماں کو نہی بتائوگے ۔۔۔۔۔
ازلان انکی گود میں سر رکھے آنکھیں موند چکا تھا۔کچھ نہی مما بس کچھ طبعیت بوجھل سی ہورہی ہے۔
میں ٹھیک ہوں آپ پریشان نا ہوں۔
وہ ماں تھی اپنی اولاد کی ہر ادا کو جانتی تھیں۔
میں اپنے بچے کیلئے گرم گرم روٹیاں لیکر آتی ہوں بہت تھکا ہوا لگ رہا ہے۔اخ
رقیہ بیگم اُٹھ گئی تھی۔۔۔۔
ازلان شام یو اپنے کمرے میں آیا تو اسکی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔خیال صرف امیمہ کی طرف بھٹک رہا تھا۔
وہ بنا ملے ہی کالج سے آگیا تھا۔۔۔۔۔۔
اپنی ڈائیری کھولنے لگا تھا۔۔۔۔۔سامنے ہی اسکی خوبصورت سی تصویر تھی اس میں وہ تصویر کو ہاتھ میں لئے حسرت سے امیمہ کو دیکھنے لگا۔
آے زندگی تجھے کیا کہوں۔
میرے ساتھ تونے کیا کیا
جہان آس کا کوئی دیا نہی
مجھے اس جہان میں بسا دیا
نہ میں بڑھ سکوں نہ میں رک سکوں
نا یہ دل کو میں سمجھا سکوں
نہ کسی کو کچھ بتا سکوں
تجھے کیا کہوں تونے کیا کیا!
میری منزلوں کی کوئی خبر نہی
مجھے ایسے روستوں میں الجھا دیا۔
آئے زندگی تجھے کیا پتا!
یہان کس نے کس کو گنوا دیا
آئے زندگی تجھے کیا کہوں
میرے ساتھ تونے کیا کیا۔
ازلان کی آنکھوں سے ایک موتی ٹوٹھ کر امیمہ کی تصویر پر گرا تھا۔اس نے تصویر ڈائری میں رکھ کر بند کردی تھی۔ساری رات وہ بس تڑپتا رہا تھا۔
آخر وہ دن بھی آگیا تھا آج امیمہ کی انگیجمنٹ تھی۔
رقیہ بیگم اسے کال کرکرکے تھک چکی تھی۔
لیکن اس نے انکی کال رسئیو نہی کیا تھا۔۔۔۔
وہ اتنا مضبوط نہی تھا شائد اندر سے کے اپنی محبت کو اپنی ہی آنکھوں کے سامنے کسی آور کا ہوتے دیکھ لیتا۔
دوپہر سے رقیہ بیگم نے اسے کوئی پچیس دفعہ کال کرلیا تھا۔۔۔۔لیکن وہ بے حس بنا بیٹا رہا تھا۔
پھر اسکے فون پر ہاشم مامو کی کال آنے لگی تھی۔
ازلان کچھ دیر اپنے موبائل کو دیکھتا رہا تھا۔۔۔۔اسکے بعد نا چاہتے ہوئے بھی کال رسئیو کرلیا تھا۔
اسلام و علیکم مامو۔۔۔۔۔۔۔
وعلیکم اسلام کہاں ہو برخوردار فون تک رسئیو نہی کررہے ہو۔۔۔۔
جی مامو وہ کام سے باہر آی ہوا تھا تو میں کال رسئو نہی کرسکا۔۔۔۔۔
تم ابھی اور اسی وقت گھر آجائو۔۔۔۔۔
مامو وہ میں۔۔۔۔۔میں نے جو کہا بس وہ کرو۔۔۔۔
انہوں نے اپنی بات ختم کرکے فون بند کردیا تھا۔۔۔
ازلان کو ناچاہتے ہوئے بھی مامو کے گھر آنا پڑا تھا۔۔۔۔
لیکن یہاں ایسا کوئی فنکشن ہوتا ہوا دکھائی نہی دے رہا تھا۔۔۔ہوسکتا ہے فنکشن ختم ہوچکا ہو۔۔۔۔
وہ اپنی سوچوں میں گم اندر کی جانب بڑھ رہا تھا۔ جب اسکا ٹکرائو امیمہ سے ہوا تھا۔
اسکی انکھیں سرخ تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے روئی ہوئی ہو۔۔۔۔۔
وہ پریشان ہوگیا تھا اس نے کبھی اسے روتے ہوئے نہی دیکھا تھا۔۔۔
امیمہ تم رو کیوں رہی ہو۔۔۔۔۔کیا بات ہے۔۔۔
وہ گھر میں چھایا سناٹا دیکھ اور امیمہ کی روئی روئی سی آنکھیں دیکھ پوچھنے لگا۔جو اسے دیکھ کر اور بھی شدت سے رونے لگی تھی۔
کیا ہو ہے امیمہ بتائو تو سہی وہ اب سہی معانوں میں بہت پریشان ہوگیا تھا۔اسکے ہاتھ تھام کر پوچھنے لگا تھا۔
ڈونٹ ٹچ می۔۔۔۔۔۔امیمہ نے اسکے ہاتھوں کو زور سے جھٹکا تھا۔۔۔۔۔
ازلان حیرانی سے اسکی جانب دیکھنے لگا۔۔۔۔یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔۔۔۔
میری وجہ سے میں نے کیا کیا ہے امیمہ۔۔۔۔وہ اپنی جانب انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے پوچھنے لگا۔
ہاں یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔۔۔۔۔
وہ رورہی تھی۔۔۔۔۔۔ازلان کو کچھ سمجھ نہی آرہا تھا۔
تم نے مجھے بہت رلایا ہے ازلان شاہ۔۔۔۔۔۔
امیمہ اسکے سینے پر مککے برسانے لگی تھی۔۔۔۔ازلان اب بھی حیرانی سے اسکی جانب دیکھ رہا تھا۔
اپنی محبت کو صرف اپنے تک رکھا اور میں سمجھتی رہی کے تم سے محبت میں صرف اکیلے کرتی ہوں۔
ازلان پہلے تو اسکی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا جب اسکی بات کی سمجھ آئی تو۔۔۔۔اسکے ہاتھوں مارتے ہوئے ہاتھوں کو روک لیا تھا۔
کیا کہا تم نے امیمہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اسکی جانب منتظر نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔۔۔
وہی جو سچ ہے لیکن تم نے مجھے بہت رلایا ہے۔۔۔۔
اب میں تم۔سے محبت نہی کرتی اب تو میں تم سے بات بھی نہی کروں گی۔
تم سے بہت دور۔۔۔۔۔ازلان نے اسکے منہ پراپنا ہاتھ رکھ دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
پلیز امیمہ ایسے مت کہو۔۔۔۔ورنہ میں مرجائوں گا۔
اس بار امیمہ نے اسکے ہونٹوں پر اپنی ہتھیلی رکھ دی تھی۔۔۔۔
مجھے بتایا کیوں نہی تم نے ازلان اگر صبا نے مجھے بتایا نہی ہوتا تو آج میں کسی آور کے نام کی انگھوٹی پہن چکی ہوتی۔
دونوں کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی تھی۔۔۔۔
ازلان تم آگئے بیٹا۔۔۔۔رقیہ بیگم اسے پکارتی ہوئی چلی آئی تھی۔
ازلان نے امیمہ کے ہاتھ چھوڑ دئے تھے۔اور رقیہ بیگم کے ساتھ اندر چلا آیا تھا۔۔۔
کچھ دیر بعد امیمہ کو اسکے بغل میں لاکر بٹھایا تھا۔۔۔
اور منگنی کی رسم شروع کردی تھی۔آج ایک سے بڑھ کر ایک جھٹکے لگے تھے۔۔۔
بیٹا جی ہمیں آپ سے بہتر داماد نہی مل سکت اپنی بیٹی کیلئے۔۔۔۔ہاشم مامو اس سے گلے ملتے ہوئے خوشی سے کہ رہے تھے دونوں کی منگنی کردی گئی تھی اور تین سال بعد شادی طئے ہوگئی تھی۔
امیمہ بہت خوش تھی اور ازلان بھی اسکی محبت کہی نہی گئی تھی اسکے پاس ہی تھی۔
امیمہ اپنے کمرے میں چلی گئی تھی تھوڑی دیر بعد نیچے آئی تو اسکے ہاتھ میں ازلان کی بلیک ڈائری تھی۔
وہ حیران ہوگیا تھا یہ۔کہاں سے ملی تمہیں۔
مجھے یہ ڈائری پھو پھو نے لاکر دی تھی۔اور میں نے تمہاری ساری شاعری پڑھ لی ہیں۔جو تم نے میرے لئے لکھی ہوئی ہیں۔
دونوں کھل کھلا کر ہنسنے لگے تھے۔۔۔۔