آج ہلدی تھی۔ امیمہ ایلو سوٹ پہنے ہاتھو اور بالوں میں گجرے لگائے اپنی جون میں چل رہی تھی۔
جب کسی سے بری طرح سے ٹکرائی تھی۔
دکھائی نہی دیتا اندھے ہوگئے ہو۔اپنی آنکھوں کا علاج کروائو وہ بنا دیکھے ہی بولتی جارہی تھی۔
اسکے ہاتھ کے گجرے پھسل کر نیچے گر چکے تھے۔ وہ گجروں کو اُٹھائے اپنی کلائی میں باندھنے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔
سامنے کھڑے شخص کے تو ہوش اُڑچکے تھے وہ بس ایک ٹک اسے دیکھے جارہا تھا۔۔۔
اسکے ہاتھ سے گجرے لیکر خود باندھنے کیلئے آگے بڑھا تھا۔۔۔۔تبھی امیمہ کی نظر اسکی جانب اُٹھی تھی۔
سفید کرتا سلوار میں بہت ہانڈسم لگ رہا تھا۔
پتا نہی کیوں پہلی بار آج ازلان کو دیکھ اسکا دل زور سے دھڑکا تھا۔۔۔۔وہ بنا کوئی چوں چرا کئے ااپنے ہاتھوں میں گجرے بنوانے لگی۔
ازلان کا دل اپنے قابو میں نہی رہا تھا۔وہ بس ایک ٹک امیمہ کو دیکھ رہا تھآ۔۔۔۔
امیمہ بچی نہی تھی جو اسکی نظروں کا مفہوم سمجھ نا پائی ہو۔۔۔۔وہ اپنی کلائی کو اسکے ہاتھ سے چھڑا کر آگے بڑھ گئی تھی۔
آپنی حالت اسے خود سمجھ نہی آرہی تھی۔ آج کیوں اسکا دل ازلان کی جانب کھینچا چلا گیا تھا۔
وہ سارے فنکشن میں کنفیوز سی پھرتی رہی تھی۔
ْزلان نے اسکے پعد اپنے ایموشنز کو قابو میں رکھا تھا۔
سارے فنکشن میں دونوں ایک دوسرے کے سامنے نہی آئے تھے۔۔۔۔
رات کو اپنے کمرے میں آکر امیمہ اس پل کو یاد کرنے لگی تھی۔اور اسے اپنے اندر عجیب سا احساس ہوا تھا۔لیکن وہ اس احساس کو سمجھنا نہی چاہتی تھی۔
امیمہ اپنی ساری سوچوں کو جھٹک کر بستر پر لیٹ گئی تھی۔ لیکن نیند بھی آج اسکا ساتھ دینے سے منع کررہی تھی۔وہ سونے کی کوشش کرنے لگی تھی۔
رات کے کس پہر اسکی آنکھ لگی اسے پتہ ہی نہی چلا تھا۔۔۔۔
آج نکاح تھا۔۔۔۔۔۔آج اس نے ریڈ لہنگا پہنا ہوا تھا۔۔۔
وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔دلہا دلہن کے بعد وہ اس محفل کی جان بن گئی تھی۔لوگوں کی نظروں میں اسکے لئے ستائش ابھری تھی۔
وہ سب سے لاپرواہ اپنی دھن میں تھی۔۔۔۔۔
کئی لڑکوں کی نظروں میں بھی وہ اتری تھی۔۔۔ازلان کو وہ آج کل سے بھی زیادی پیاری لگی تھی۔
لیکن لوگوں کی ستائشی نظر ازلان شاہ کو اندر ہی اندر کھارہی تھی۔ اسکا دل اداس ہوگیا تھا۔
اسکا دل چاہ رہا تھا کے وہ لوگوں کی نظروں سے امیمہ۔کو ہٹادے کہی دور لیکر چلا جائے۔
وہ اپنی اداسی پر زبردستی کی مسکراہٹ سجاتا ہوا رقیہ بیگم کے پاس آکر بیٹھ گیا تھآ۔
کوئی تین چار عورتیں رقیہ بیگم سے امیمہ کا پوچھ رہی تھی۔
بہن مجھے آپکی بھتیجی بہت پسند ہے۔میرا بیٹا لنڈن میں رہتا ہے بہت اچھی جاب پر فائز ہے۔آپ ہاشم بھائی سےبات کریں۔۔۔۔
ازلان کو وہاں بیٹھنا بہت مشکل لگ رہا تھا۔وہ اپنے آپ کو قابو کرتا ہوا وہاں سے چلا آیا تھا۔
گھر آکر بھی اسکا موڈ کئی دیر تک خراب رہا تھا۔
ازلان تمہیں کیا ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔۔!!!!
اسکے اندر سے آواز ابھری تھی۔۔۔۔
آگر تمہیں امیمہ کو پانا ہے تو پہلے اسکے لائق بنو۔۔۔۔کیا تم وہ ساری خوشیاں دے سکو گے۔۔۔۔
جسکی وہ عادی ہے۔وہ دولت اور عیش و ارام میں پلی بڑھی ہے۔۔۔۔اور تم اس کو کیا دے سکتے ہو۔۔۔۔
کیا وہ تمہارے محبت کو ایکسپٹ کرے گی جو کسی کو بھی خاطر میں نہی لاتی ہے۔
کیا تم اسکے لئے سہی ہو۔۔۔۔۔اسکے اندر بہت سارے سوال اُٹھ رہے تھے۔
جس کا جواب شائد ابھی اس کے پاس نہی تھآ۔
تم اسکے قابل نہی ہو ازلان شاہ۔۔۔۔۔تم اسکی خواہشات، اسکی توقع کے بر عکس ہو۔۔۔وہ تم سے کبھی محبت نہی کرسکتی ہے۔
بھول جائو اسکو جیسنے دو اپنی زندگی کسی ایسے انسان کے ساتھ جو اسے خوش رکھ سکتا ہو اس کی ہر خواہشات کو پورا کرے۔۔۔۔
ازلان ساری رات سو نہی سکا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج وہ کالج آیا تھا۔۔۔۔۔۔ سامنے ہی اسے دشمن جان نظر آگئی تھی۔ وہ اسے پوری طرح اگنور کرتا کلاس کی جانب چل دیا تھا۔۔۔
امیمہ۔کو اسکا یہ انداز بلکل اچھا نہی لگا تھا وہ بھی پیر پٹکتی اپنی کلاس کی جانب چل دی تھی۔
کھڑوس کہی کا سمجھتا کیا ہے اپنے آپکو وہ سارا دن کلاس میں کڑتی رہی تھی۔
اس پر فہد پھر سے اسکے سامنے آگیا تھا۔۔۔۔اس بار امیمہ کو اتنا غصہ چڑا تھا کے وہ اپنے پیر سے جوتا نکال کر کھڑی ہوگئی تھی۔
فہد سر پر ہاتھ لگائے دو منٹ میں وہاں سے غائب ہوچکا تھا۔۔۔۔۔۔پتہ نہی کیوں اسے آج اتنا غصہ آرہا تھا۔
صبا صبح سے اسکی حرکتوں کو نوٹ کرنے لگی تھی۔
آج صبح سے پوری جلاد بنی بیٹھی ہو ہوا کیا ہے۔۔۔۔
صبا اسے کھوجتی نظروں سے دیکھتی ہوئی کہنے لگی۔
کچھ نہی میرا دماغ خراب ہوگیا ہے۔۔۔۔
اچھا شانت ہوجائو۔۔۔۔۔۔یہ۔لو پانی پی لو۔۔۔۔۔
صبا اسے اپنا بوتل تھماتی کہنے لگی۔۔۔۔۔امیمہ نے بوتل لبوں سے لگا لیا تھا سارا بوتل پانی پیکر بھی اسکا غصہ کم نہی ہورہا تھا۔۔۔۔۔آب بتائو کیا بات ہے تم صبح سے اتنے غصہ میں کیوں ہو۔
پتہ نہی سمجھتا کیا ہے وہ کھڑوس اپنے آپ کو صبح جب میں کلا س کیلئے آرہی تھی تو وہ مجھے جان بوکھ کر اندیکھا کرکے آگے بڑھ گیا تھا۔
اوہ صبا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی تھی۔۔۔۔
چلو امیمہ جی اپکے اندر بھی فیلینگز جاگ رہی ہیں اب ازلان کیلئے وہ بچارا تو تمہیں کبھی بتآئے گا نہی۔
میں خود بتادیتی ہوں لیکن ابھی نہی دونوں جانب آگ برابر تو لگے۔۔۔۔
ارے تم تو اسکو بھی خاطر میں نہی لاتی تھی تو آج کیا۔ہوگیا ہے۔۔۔۔
صبا کی بات سچ تھی وہ سچ میں ازلان شاہ کو بھی کسی خاطر میں نہی لاتی تھی۔اورآج اسکا یو اگنور کرنا اسے اتنا برا کیوں لگا تھا۔۔۔۔امیمہ نے کوئی جواب نہی دیا تھا۔۔۔۔
وہ کالج سے گھر آگئی تھی کل ولیمہ تھا۔۔۔۔
ولیمہ میں اس نے ہاف وائٹ انارکلی ڈریس پہنا تھا۔۔۔
وہ بہت دل سے تیار ہوئی تھی۔۔۔ولیمہ ہوٹل میں منعقد کیا گیا تھا۔۔۔۔وہ آج بھی محفل کی جان بنی تھی۔لیکن اسکی نظریں جس کو ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔۔
وہ اسے کہی بھی دکھائی نہی دے رہا تھا۔۔۔۔
امیمہ کا موڈ آف ہوگیا تھا۔۔۔وہ اپنی فیلینگز سمجھ نہی پارہی تھی۔۔۔۔۔اسے سمجھ نہی آرہا تھا وہ کیوں ازلان کی غیر موجودگی پر اتنا پریشان ہوگئی تھی۔۔۔۔
صبا نے اس سے پوچھا تو وہ کچھ نہی کہکر چلی گئی تھی۔
رات کو اسے نیند ہی نہی آرہی تھی بار بار خیال ازلان کے پاس بھٹک رہا تھا۔۔۔
وہ کیوں نہی آیا تھا ولیمہ پر کل سنڈے تھا اس نے سوچ لیا ےھا کے کل وہ پھو پھو سے پوچھ لے گی۔
صبح تیار ہوکر وہ ڈرائیور کے ساتھ پھوپھو کے گھر آگئی تھی۔۔۔۔جہاں پھوپضو ناشتہ بنارہی تھی۔
وہ سید ھا ازلان کے کمرے میں آگئی تھی۔۔۔۔ووہ بیڈ پر ترچھا لیٹا بلینکٹ کو سر تک تانے سورہا تھا۔
امیمہ نے اسکی بلینکٹ کو گھسیٹ دیا تھا۔۔۔۔وہ انکھیں مسلتا ہوا اُٹھ بیٹھا تھا۔۔۔۔۔
یہ کیا حرکت ہے۔۔۔۔وہ ناگواری سے کہنے لگا۔
آور جو کل تم نے کیااس کا کیا جواب دوگے۔۔۔۔
کل میں نے کیا کیا۔۔۔۔۔۔وہ سوچتے ہوئے کہنے لگا۔
کل تم ولیمہ پر کیوں نہی آئے تھے۔۔۔
کل میں آکر چلا گیا تھا۔۔۔۔۔
جھوٹ مت بولو ۔۔۔۔۔۔۔
میں کیوں جھوٹ بولوں گا۔۔۔۔۔
امیمہ تھوڑی دیر اسے دیکھتی رہی تھی اسکے بعد نیچے چلی گئی تھی۔ازلان اسے جاتا ہوا دیکھتا رہ گیا تھا۔
کاش امیمہ میں تم پر کوئی حق جتا پاتا۔۔۔۔
وہ سوچتے ہوئے واش روم مین گھس گیا تھا۔۔۔۔
اسکے بعد اسکی اور امیمہ کی کوئی ملاقات نہی ہوپائی تھی۔۔۔دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کتراتے تھے۔