شگفتہ بیگم ماہا سے جتنی بھی ناراض تھی مگر نواسے کا سن کر خود پہ قابو نہ رکھ سکی اور کئی دن سے دل کو وہاں نہ جانے پہ قائل کرتی رہی مگر پھر وہ بے بس ہو گئی اور سونیا کو بھی کہہ سن کے تیار کر لیا
سونیا کا خود بھی دل چاہ رہا تھا کہ وہ اپنا بھانجا دیکھ کر آئے
ماہا سے جتنی بھی ناراضگی تھی مگر خالہ بننے کی خوشی اس سب پہ بھاری تھی
یاسر بھی بہت بے چین تھا کہ اسے کوئی ماموں کہہ کر بلائے اس لیے شگفتہ بیگم اس ننھے سے فرشتے کے لیے شاپنگ کرنے چلی گئی اور طے یہ پایا کہ نیکسٹ سنڈے کو سب ماہا کے گھر چلیں گے
__________________________
بابا جانی نام کیا رکھنا ہے اس کا صائم نے رات کو ٹی وی دیکھتے ہوئے پوچھا
بھئی جو ہماری بیٹی کہے گی وہی رکھیں گے
سہیل احمد نے شفقت سے ماہا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
نہیں بابا جانی یہ امی جان کا بیٹا ہے اس لیے نام بھی وہ رکھیں گی
ما ہا نے ساس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
اچھا بھئی پھر میں تو اس کا نام عبدالہادی رکھوں گی وہاں ہاسپٹل میں ایک ڈاکٹر تھا اس نام کا بڑا ہی نیک روز صبح مجھے بیڈ سے اٹھا کے اپنے ہاتھوں سے دوا کھلا کے جاتا کسی شریف ماں باپ کی اولاد تھا اللّٰہ تعالیٰ میرے پوتے کو بھی اس ڈاکٹر ہادی جیسا نیک اور رحم دل انسان بنائے
ماہا کی ساس نے ننھے ہادی کو گود میں لیتے ہوئے کہا
بہت پیارا نام ہے ماشاءاللہ
ماہا کو بھی بہت پسند آیا تھا
ارے ماہا تم میرے ساتھ آؤ ذرا وہ اندر والے کمرے کی سیف کا تالا مجھ سے نہیں کھل رہا
میری مدد کرو سارے گھر کی صفائی ہو گئی ہے بس وہی الماری رہتی ہے ماہا کی ساس نے اس سے کہا
جی امی جان میں بس ہادی کو سلا کر آئی ماہا نے ہادی کو گود میں لیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔
ارے بیٹا مت لٹاؤ اسے بستر میں مجھے پکڑا دو اتنی سردی ہے میں گود میں لے لیتا ہوں دادا جان کو اپنے پوتے سے لاڈ لڑانے کا بڑی مشکل سے وقت ملا تھا
ابا جان ایسے ہر وقت اسے گود میں لے کے رکھیں گے تو یہ بہت تنگ کرے گا اگر اس کو عادت ہو گئی تو
ماہا نے خدشہ ظاہر کیا
کوئی بات نہیں ابھی تو مجھے پکڑاؤ اسے دادا جان نے ہادی کو گود میں لے کر بیٹھ گئے ماہا ساس کے کمرے میں آئی تو وہ الماری کھول کے بیٹھی تھی ارے امی جان یہ سوٹ کیس کیسا ہے اس کے اندر ماہا نے سوٹ کیس باہر نکالا اور کھول کے دیکھا تو اس میں اتنے سارے جیولری بکس تھے ماہا نے جیولری بکس کھول کے دیکھے تو حیران رہ گئی امی جان مجھے یہ گولڈ کے سیٹ لگ رہے ہیں دیکھیں تو
ماہا کی ساس نے پکڑ کے دیکھنے لگ گئی
بیٹا یہ سارے میرے ہیں میری شادی پہ صائم کے چچا نے بنوا کے دیے تھے
چچا جان کو یاد کرتے ہی ماہا کی ساس کی پلکیں بھیگنے لگ گئی
تو امی جان کیا آپ بیاہ کر اس گھر میں آئی تھیں؟
ماہا نے حیرانگی سے پوچھا
جی بیٹا صائم کے دادا یعنی میرے سسر کوئی اچھے انسان نہ تھے جب صائم کے بابا دس بارہ برس کے تھے تو اس نے کسی آوارہ لڑکی کے عشق میں گرفتار ہو کے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے کے اس سے شادی کر لی
اور اس عورت نے نہایت چالاکی سے صائم کے دادا سے ساری جائیداد اپنے نام منتقل کروا کے ایک دن گھر سے فرار ہو گئی
صائم کے دادا کو اس صدمے سے ہارٹ اٹیک ہو گیا اور صائم کے بابا اس دنیا میں تنہا رہ گئے جسے ان کے چچا جان اپنے ساتھ لے آئے اسی گھر میں رکھا ان کی پرورش کی پھر شادی کی
چچا جان اور چچی جان دونوں ہی بہت اچھے تھے ہم دونوں سے بہت پیار کرتے تھے
پھر اپنی وفات سے کچھ ماہ پہلے چچا جان نے اپنی تمام جائیداد صائم کے بابا کے نام منتقل کر دی
اس بات کا خاندان کے سب لوگوں کو بہت دکھ تھا اور پتہ نہیں پھر کس نے چچی جان کو ہمارے خلاف پٹیاں پڑھانی شروع کر دیں کہ یہ لوگ تمھیں اب گھر سے نکال کے اس گھر پہ قبضہ کر لیں گے
اسی خوف سے چچی جان اپنے بھائی بھابھی اور ان کے جواں سال بیٹے کو یہاں لے آ ئی
اور ہمیں اس گھر سے نکل جانے کا حکم دیا
ہم کہاں جاتے ان دنوں شمس تمھارا باپ ہمارے گھر میں ڈرائیور تھا وہ ہمیں اپنے ساتھ لے کے اپنے گھر چلا گیا اور ہم کچھ دن وہاں رہے صائم میری گود میں تھا اور شمس کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی
صائم کے دادا نے ایک واحد وہ چھوٹا سا پلاٹ ہمارے لیے وراثت میں چھوڑا تھا جس پہ ہم نے اپنی جمع پونجی سے مکان بنا لیا اور وہاں منتقل ہو گئے شمس کے علاوہ کسی کو اس بات کا پتہ نہیں تھا پھر چند سال بعد چچی جان فوت ہو گئیں تو شمس بھائی نے صائم کے بابا سے چچی جان کے بھائی سے اپنی جائیداد واپس مانگنے کے لیے کہا مگر اتنی آسانی سے کون چھوڑتا ہے
ہم نے ان پہ کیس کر دیا اور کیس کا فیصلہ آتے آتے اتنے سال لگ گئے
پر شکر ہے کہ خدا نے ہمیں ہمارا گھر واپس دے دیا مجھے تو بالکل بھی امید نہیں تھی ایک شمس بھائی ہی تھے جو ہماری ڈھارس بندھاتے اللّٰہ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے
ماہا کی ساس نے ماہا کو اپنے ماضی کی ساری کہانی مختصر لفظوں میں سنائی
ماہا صفائی ختم کر کے جانے لگی
تو امی جان نے اسے آواز دی بیٹا یہ بھی لے لو اب میری کونسی عمر ہے انھیں پہننے کی
ماہا کی ساس نے ساری گولڈ کی جیولری اس کے حوالے کی
اور امی جان یہ ساڑھیاں بھی لے لوں
ماہا کی نظر ایک طرف رکھی بے حد خوبصورت اور قیمتی ساڑھیوں پہ تھیں
ارے بیٹا اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے
لے لو چچا جان میرے لیے دبئی سے لائے تھے مگر چچی جان میں ہمت نہ ہوئی کہ مجھے دے دیں
خود بھی پہننی نصیب نہ ہوئی یونہی تہہ لگی رکھی رہ گئیں الماری میں
ماہا نے وہ ساری اٹھائیں اور کمرے میں لے جا کے ان میں سے ایک بلیک کلر کی بنارسی قسم کی ساڑھی نکالی اور اسے پہن کے تیار ہونے لگی
صائم گیراج میں کھڑی دونوں پرانی گاڑیوں کی مرمت کروانے لے کے گیا تھا اور تھوڑی دیر بعد آنے ہی والا تھا
ماہا کا پروگرام تھا کہ وہ واپس آئے تو اس کے ساتھ لانگ ڈرائیو پر جائے گی۔
ماہا شادی کے بعد پہلی مرتبہ اتنی من سے سج دھج کے تیار ہوئی تھی
ابھی وہ صائم کو فون کرنے ہی والی تھی کہ سونیا کا فون آ گیا وہ سب ہادی کو دیکھنے آئے تھے
مگر پرانے گھر چلے گئے تھے اور اب انھیں گھر نہیں مل رہا تھا
اوہو مما وہ گھر تو ہم نے سیل کر دیا تھا
میں آپ کو نئے گھر کا ایڈریس بتاتی ہوں آپ یہاں آ جائیں ماہا نے جلدی سے اڈریس بتایا
شگفتہ بیگم نے دھیان سے اڈریس سمجھا اور سونیا کو راستہ بتانے لگی
مما ماہا نے گھر بیچ دیا
اور ہمیں بتایا بھی نہیں
اب دیکھنا کرایے کے ایک کمرے کے کواٹر میں کہیں دھکے کھا رہی ہو گی اور ہمارے سامنے اپنی مسکین اور مظلوم شکل بنا کے کھڑی ہو جائے گی تاکہ ہم اس پہ ترس کھا کے کچھ اضافی رقم اس کی ہتھیلی پہ رکھ دیں جسے وہ اپنے کنگلے اور نکمے شوہر کو دے کر داد وصول کر سکے
او مائی گاڈ پوری مشرقی فرمانبردار بیویوں کے گن ماہا میں پائے جاتے ہیں
شکر ہے میں نے صائم کے ساتھ شادی سے انکار کر دیا ورنہ میں بھی کسی ٹوٹے پھوٹے فرش پہ جھاڑو لگاتے آج ماہا کی جگہ اپنی قسمت کو رو رہی ہوتی
سونیا نے ناک بھوں چڑھاتے ہوئے کہا نخوت سے کہا
تھوڑی دیر بعد ہی ماہا کے بتائے ہوئے ایڈریس کے مطابق گاڑی ایک شاندار بنگلے کے گیٹ پہ رک گئی
شگفتہ بیگم اور سونیا گاڑی سے نیچے اترے
چلو جی یہ کام رہ گیا تھا کرنے والا
لازمی صائم اس گھر میں اپنی بیوی کے ساتھ ملازم لگ گیا ہے اور ماہا اپنی خاندانی شرافت کا یہاں نوکرانی بنی جنازہ نکال رہی ہو گی
سونیا نے غصے سے نیچے اتر کر گیٹ پہ بل بجائی
تو چوکیدار گیٹ کھول کے انھیں اندر لے گیا
سونیا اتنا شاندار گھر دیکھ کے حیرت زدہ کھڑی رہ گئی ابھی وہ ادھر ادھر کا جائزہ لے ہی رہی تھی کہ سامنے سے ماہا آتی نظر آئی
بلیک کلر کی شاندار ساڑھی زیب تن کیے
سونے کے زیورات سے لدی وہ بے حد خوبصورت لگ رہی تھی سونیا کبھی حیرت سے گھر کو دیکھتی اور کبھی ماہا کو
ماہا انھیں لے کر اندر آئی اور اپنی ساس سے ملوایا
چارپائی پہ مردوں کی طرح پڑی ساس کی تو آج ٹور ہی نرالی تھی ہاتھوں میں سونے کے کنگن کانوں میں چھوٹی سی جھمکی آف وائٹ سوٹ پہنے وہ بہت ہی نفیس لگ رہی تھی
ماہا یہ سب کیا ہے راتوں رات یہ سب چیزیں کہاں سے آ گئیں تمھارے پاس بینک میں ڈاکہ ڈالا ہے صائم نے یالاٹری لگ گئی ہے تمھاری
سونیا سے اب مزید حیرانگی چھپائی نہ گئی
نہیں آپی یہ سب کچھ ہمارا ہے
اور پھر ماہا کے انکشافات نے سونیا کے سب اندازوں پہ اوس گرا دی وہ حیرت سے پھٹی پھٹی نظروں سے کبھی وہ گھر کو دیکھتی اور کبھی ماہا کو
اتنے میں صائم بھی گاڑی لے کر آ گیا
اتنی شاندار کار اس کے سامنے کھڑی ماہا کی گاڑی یوں لگ رہی تھی جیسے جیسے برانڈڈ جیکٹ کے سامنے لنڈے کی جرسی
ارے سونیا ادھر دیکھو تمھارا بھانجا شگفتہ بیگم ہادی کو گود میں لیے سونیا کے نزدیک آئی سونیا نے ہادی کو گود میں اٹھایا
چھوٹا سا گول مٹول ہادی سویا ہوا مسکرا رہا تھا
سونیا نے پیار سے اس کے دونوں گال چوم لیے
ماشاءاللہ کتنا پیارا تھا وہ
اگر شعبان اس کے ساتھ شادی کے لیے مان جاتا تو اس کا بچہ بھی اس کی گود میں ہوتا اور وہ ماہا کی طرح اپنے گھر میں راج کر رہی ہوتی
سونیا کو اپنے سینے میں دکھ سے ٹیسیں اٹھتی محسوس ہوئی مگر اس کا بچہ تو دنیا میں سانس لینے سے پہلے ہی چلا گیا وہ کسی کو اپنا دکھ بتا بھی نہ سکتی تھی
سونیا ہادی کو گود میں لیے سوچ رہی تھی
اب جو بھی ہو جائے میں شعبان کو مجبور کر دوں گی کہ وہ مجھ سے شادی کر لے اور پھر میرا بھی ماہا سے اچھا گھر ہو گا بچے ہوں گے
سونیا نے دل میں مصمم ارادہ کیا اور گھر آتے ہی اس پلان پہ عمل شروع کر دیا
کیونکہ وہ ایک بار پھر ماں بننے والی تھی اور وہ اس بار اپنے بچے کو کسی قیمت پہ کھونا نہیں چاہتی تھی
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...