مجھے بھوک لگ رہی ہے۔
زارا سے مزید برداشت نہ ہوا تو پھٹ پڑی۔
یہ فضول آدمی پچھلے دو گھنٹوں سے اسے گھما رہا تھا۔
مجال تھی کہ اس نے اسکو کھانے کو پوچھا ہو۔
شکر ہے محترمہ آپ بولی تو سہی۔
وہ گاڑی گھماتا مین روڈ کی طرف نکل گیا۔
اب وہ لوگ شہر سے باہر کی طرف جا رہے تھے۔
بھوک کے مارے زارا کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔
پونے گھنٹے بعد گاڑی ایک فارم ہاٶس کے باہر رکی تھی۔
معاذ پہلے اترا تھا۔ زارا کو لگا شاید وہ اسکے لیے دروازہ کھولے گا۔
مگر معاذ کو تمیز چھو کر گزری ہوتی تب نہ۔۔۔
اتنی لڑکیوں کو ڈیٹ پر لے جا چکا ہے مگر تمیز اسکو ابھی تک نہیں آٸ کہ لڑکی کے دروازہ کھولتے ہیں ایڈیٹ۔۔۔
مرغی اب آبھی جاٶ یا گاڑی میں ہی بیٹھے رہنا ہے۔
معاذ نے آگے جاتے ہوۓ ہانک لگاٸ۔
بدتمیز کہیں کا ۔۔۔ایڈیٹ۔۔۔ الو کا پٹھا۔۔۔
زارا غصے سے کھولتی ہوٸ باہر آٸ تھی۔
ہر طرف جھاڑ جھانکار تھی۔
انہی جھاڑیوں کے بیچ میں وہ ایک چھوٹا سا فارم ہاٶس بنا ہوا تھا۔
زارا منہ بناتی اندر چلی گٸ۔
یہ مجھے اتنی ویران جگہ پہ کیوں لایا ہے۔
کہیں مجھے قتل کر کے کہیں تو نہیں دفنانے والا۔
اس سوچ کے آتے ہی زارا کے پسینے چھوٹ گۓ اس کا ہاتھ شرت کے اندر بندھے ہولسٹر پر گیا تھا مگر واۓ ری قسمت ہولسٹر خالی تھا۔
شکر یہ تھا کہ چاتو اس کے پاس موجود تھا وہ آیتہ الکرسی پڑھتی ہوٸ آگے بڑھی تھی۔
ابھی اس نے دروازے پہ ہاتھ رکھا ہی تھا کہ اسے معاذ کی آواز سناٸ دی۔
میں اسے لے آیا ہوں تم اسے دیکھ کر یقیناً خوش ہو جاٶ گے۔
زارا نے واپس جانے کی ٹھانی۔
مگر متجسس بھی تھی۔
اس نے بالکل خاموشی سے دروازہ کھولا۔
اندر کوٸ بھی نہیں تھا۔ کمرہ بالکل خالی تھا۔
وہ آگے بڑھ رہی تھی کہ اسے دھاڑنے کی آواز سناٸ دی۔
زارا کے پسینے چھوٹ گۓ۔
اس آواز نے اسکے قدم منجمد کر دیے تھے۔ حلق بالکل خشک ہو گیا تھا۔
تبھی سامنے والا دروازہ کھلا تھا۔
زارا نے آنکھیں بند کر لیں آج اسے اپنی موت نظر آرہی تھی۔
ڈر گٸ ہو کیا مرغی۔
آنکھیں تو کھولو۔
معاذ اس کے بالکل پاس آکر بولا۔
زارا نے زور سے نفی میں سر ہلایا۔
کھولو تو سہی۔
ناچار اس نے ذرا سی اپنی آنکھیں کھولی تھیں پھر زور سے بند کر لی۔
نہیں پلیز نہیں آٸندہ میں تمہیں کچھ بھی نہیں کہوں گی پلیز مجھے جانے دو۔
ارے پہلے دیکھ تو لو۔
نہیں مجھے نہیں دیکھنا پلیزززز۔۔۔۔
مجھے تو لگا تھا تم بہت بہادر ہو۔
زارا نے اپنے اعصاب ڈھیلے کیے۔
وہ نیچے ہو رہی تھی۔ قریب ہی تھا کہ وہ چاقو نکالتی معاذ نے فوراً اسے پکڑ لیا۔
پاگل ہو کیا اسکا لنچ بننا چاہتی ہو کیا۔
ممم مععععع معاذ ییییی شششش شیر ہے۔
زارا کا برا حال ہو رہا تھا۔ قریب تھا کہ وہ گر کر بے ہوش ہو جاتی۔ معاذ نے اسے تھاما۔
آٶ میرے ساتھ۔۔۔
بڈی ہم ابھی آتے ہیں۔
معاذ شیر کو پچکارتا اسے لیے ساتھ بنے کمرے میں لے آیا۔
انتہاٸ شاندار بیڈروم تھا۔
معاذ نے اسے بیڈ پر بٹھایا۔ جلدی سے اسے پانی لا کر دیا۔
اسکے اعصاب کچھ بحال ہوۓ تو مغاذ کو غصے سے گھورنے لگی۔
مرغی تم تو بہت ڈرپوک ہو مجھے لگا تھا بہت بہادر ہو گی۔
تم پاگل ہو کیا وہ شیر وہ مجھے کھا جاتا تو۔
زارا غصے سے پھٹ پڑی۔
نہیں کھاۓ گا یار بڈی ہے وہ میرا چھوٹا سا تھا تب سے میرے پاس ہے۔ ہاں مگر جو حرکت تم کرنے والی تھی نہ اس سے وہ ضرور تمہیں نقصان پہنچا دیتا۔
معاذ کا اشارہ اسکے چاقو نکالنے کی طرف تھا۔
زارا کی مٹھیاں بھنچی ہوٸ تھیں۔
کم آن یار ریلیکس ہو جاٶ وہ دنیا میں کسی کو بھی نقصان پہنچا دے گا مگر تمہیں نہیں پہنچاۓ گا آٸ پرامس۔
وہ اسے ریلیکس کر رہا تھا مگر زارا ابھی بھی ڈر رہی تھی۔
اس نے کب اتنے قریب سے شیر دیکھا تھا۔
سواۓ ٹی وی اور چڑیا گھر کے وہ کبھی شیر کے پاس بھی نہ پھٹکی تھی اور آج معاذ اسے شیر کے اتنے پاس لے آیا تھا۔
مم مجھے گھر جانا ہے۔ پلیز۔۔۔۔
ڈر سے اسکی حالت خراب ہو گٸ تھی۔
اسکی ہارٹ بیٹ لو ہو رہی تھی۔
ماتھے پہ پسینے کے قطرے تھے۔
معاذ اسے کچھ کہتا اس سے پہلے وہ بے ہوش ہو گٸ تھی۔
اوہ شٹ۔۔۔
زارا زارا آنکھیں کھولو۔
زارا۔۔۔
معاذ اسے ہلا رہا تھا مگر زارا بے سدھ پڑی تھی۔
معاذ نے اسے فوراً اٹھایا تھا۔ اسے لیے وہ باہر آیا۔
بڈی میں بعد میں ملوں گا تم سے۔۔۔
غفور۔۔۔ نیاز۔۔
میں جا رہا ہوں بڈی کا دھیان رکھنا۔
معاذ زارا کو اٹھاۓ باہر آ گیا۔
وہ پریشان سا چل رہا تھا کہ زارا نے ذرا سی آنکھ کھول کر اسے دیکھا۔
اپنی ہنسی روک کر وہ پھر آنکھیں موند گٸ۔
ڈری تو وہ بہت تھی مگر معاذ کو سبق سکھانا بھی ضروری تھا۔
تبھی اس نے بے ہوشی کا ناٹک کیا۔
ظاہر ہے ٹرینڈ آفیسر تھی ناٹک کرنا خوب آتا تھا اسے۔
اپنے ڈر پہ قابو پا کے وہ اب معاذ کو سبق سکھا رہی تھی۔
کوٸ بھلا اپنی محبت کو شیر کے آگے لے جاتا ہے بھلا۔ ہونہہ چوزہ سا۔۔۔۔
معاذ نے اسے گاڑی میں بٹھایا اور وہاں سے نکل گیا۔ قریباً بیس منٹ بعد زارا کو بھوک نے ستایا۔
وہ بڑی مشکل سے بھوک برداشت کر رہی تھی مگر اب ناقابلِ برداشت ہو چکی تھی۔
اپنی ٹریننگ کے دوران اس نے ہر چیز پہ قابو پانا سیکھا تھا۔ نہیں سیکھ پاٸ تھی تو بھوک برداشت کرنا۔ وہ بھوک برداشت نہیں کر سکتی تھی۔
اور پھر اس نے کل رات کا کچھ نہ کھایا تھا۔
تبھی ناٹک چھوڑ کر اس نے معاذ کا بازو ہلایا۔
معاذ۔۔۔ مجھے بھوک لگی ہے۔
معاذ نے ایک جھٹکے سے گاڑی روکی۔
تمہیں ہوش آگیا زارا. پھینک گاڈ میں اتنا ڈر گیا تھا۔ ام سو سوری مجھے معلوم نہیں تھا تم شیر سے ڈرتی ہو۔۔۔
وہ کچھ اور بھی بولتا تبھی اسکی نظر زارا کے چہرے پہ پڑی جو ہنسی چھپاتی اسکی باتیں سن رہی تھی۔
اوہ تو اسکا مطلب تم بے ہوش نہیں ہوٸ تھی یہ سب ناٹک تھا۔
کیوں ناٹک کیوں تھا ڈری تومیں تھی نہ۔
زارا کے منہ سے سچ نکل گیا۔
تم ہو ہی ڈرامے باز اب یاد رکھنا تم اب سچ مچ کی بھی بے ہوش ہوٸ نہ تو میں نے پرواہ نہیں کرنی۔
معاذ نے ناراض لہجے میں کہہ کر گاڑی سٹارٹ کر دی۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
نادر کاکوروی اور آئرلینڈی شاعر تھامس مور کی نظم نگاری کا تقابلی مطالعہ
نادؔر کاکوروی اردو کے ممتاز شاعر اور تھامس مور آئرلینڈ کے انگریزی زبان کے شاعر ہیں، دونوں شعرا کی شاعری...