کیا ہوا سوگئی در نجف…در نجف کو گھر لے آئے تھے آھاد لوگ بھی اپنے گھر چلے گئے تھے ابھی دعا کو در نجف کے روم سے نکلتے دیکھ کر مومن اور شاہ میر سعا کی طرف بڑے اور مومن بولا…
ہاں سوگئی تم مجھے بتاوگے کہ بات کیا تھی کیوں جاہلوں کی طرح پیش آئے تھے…دعا غراتے ہوئے شاہ میر سے بولی…
ماما میں….چھوڑے غلطی ہوگئی…شاہ میر سر جھکٹے بولا…
نہیں تم بتاو کس نے تمہیں گالی دی کس نے چوڑیاں بھیج دی…دعا پھر بولی…
ماما سوری بولا تو بس ختم کریں میں در سے بھی سوری بول لوگا….شاہ میر جھنجلا کر بولا…
اچھا بس کرو دعا لیکن میر اگر دوبارہ تم نے یہ حرکت کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا یہ بات یاد رکھنا….مومن گھورتے ہوئے…
جی بابا…شاہ میر فوری بولا…
چلو جاو میر دیر ہوگئی بہت…مومن اب نرم لہجے میں بولا تو وہ سر ہلاتا روم کی طرف بڑگیا…
🌟🌟🌟🌟🌟
یہ سالے صاحب کا تو دل چاہتا ہے سر پھاڑ دو….ڈی زیڈ ادھر سے ادھر روم میں چکر لگاتے ہوئے بولا…
نیلی نیلی روشی کمرے میں بند ہے…میں کیا کرو مجھے ڈی زیڈ پسند ہے….ارمان لوفرانہ انداز میں بولا تو ڈی زیڈ نے گھور کر دیکھا…
مت دیکھ ایسے میں پگھل جاؤگا….ارمان نے پھر ہانک لگائی…
کہاں سے آئے ہو جو یہ باتیں کررہے ہو…ڈی زیڈ اسے دیکھتے ہوئے بولا…
تم نے ہی بیجھا تھا ہوسپٹل وہاں سے گھر گیا تھا اب یہاں آیا ہوں…ارمان نس اسے یاد دلایا…
وہ ٹھیک ہے نہ…ڈی زیڈ نے فکرمندی سے سوال کیا…
ہاں بس ڈاکٹر بول رہے ہیں کسی خوف کی وجہ سے نروس بریک ڈاون ہوا اور یہ خوف شاید ایک جنگلی کا ہے…ارمنا نے آئبرو اچکائی…
اچھا بس جتنا پوچھا جائے اتنا بتایا کرو فضول کی مت ہانکا کرو ورنہ ابھی سچ میں جنگلی بن کر دیکھاوگا…ڈی زیڈ نے ڈپٹا تو وہ منہ بناتا سگریٹ لگانے لگا اس کے دیکھنے پر پیکٹ اس کی طرف بڑھایا تو ڈی زیڈ نے بھی اس کا ساتھ دیا اور سگریٹ سلگائی ایک گہری سانس لے کر ہوا میں چھوڑی…
🌟🌟🌟🌟🌟
مومن سب ٹھیک تو ہے…احمر کی کال پر مومن نیند سے جاگا…
ہاں سب ٹھیک ہے کیوں خیریت…مومن بولا…
میں دو تین گھنٹے پہلے کال کررہا تھا تمہیں لیکن تم نے کال رسیو نہیں کی تو گھر کے لین لائن پر کی تھی تو ملازم نے بتایا کہ تم لوگ در نجف کو لے کر ہاسپٹل گئے ہو…احمر پریشانی سے بولا…
ہاں بس وہ تمہیں شاہ میر کا پتہ تو ہے غصے کا تیز ہے پتہ نہیں دونوں کے بیچ کیا بات ہوئی اس ہی وجہ سے در نجف کا نروس بریک ڈاون ہوگیا تھا…خیریت تم کیوں کال کررہے تھے….مومن نے تفسیل بتاکر سوال کیا….
اوو اچھا خیال رکھو میری بیٹی کا نازک سی تو ہے….ہاں وہ انکل کی کال آرہی تھی تم نہ انکل کی کال پک کررہے تھے کہ آنٹی کی اس لیئے انہوں نے مجھے کال کرکے پوچھا…احمر نے بتایا…
اففف ہاں یار موبائل گھر پر تھا اس لیئے خیر میں بات کرلوگا ابھی تو وہاں صبخ ہوگی میں کرتا ہوں کال.اور بتاو اپر ہی ہوتے ہو لیکن بات کرنے کا ٹائم نے ملتا خیر زوار کہاں ہے آج کل کتنے ارصے سے ملاقات نہیں ہوئی…مومن نے بتا کر سوال کیا
ہاں تھوڑے ارصے پہلے زوار بات ہوئی تھی بزنس کے سسلے میں وہ باہر گیا ہوا ہے لیکن بول رہا تھا اسُ کا بیٹا اسی شہر میں ہے…احمر بولا…
او اچھا چلو پھر کال کرکے پوچھنا کب آرہا ہے ملاقات کا دل کررہا…مومن بولا اور ایک دو باتیں کرکے کال کاٹ دی…
🌟🌟🌟🌟🌟
عینا سنو….شاہ میر شام کے وقت عینا کو در نجف کے روم سے اپر جاتے دیکھ کر جلدی سے بولا…
جی بولے…عینا بولی تو وہ قریب آکر بولا…
خیریت آج بڑی خوش لگ رہی…شاہ میر اس کی شکل پر شرارت اور الگ رونک دیکھ کر بولا…
کچھ نہیں پیپف ختم ہونے کی خوشی سے بڑی کوئی خوشی ہوتی ہے کیا…عینا شرارت سے بولی…
اووو اچھا ایک بات کرنی تھی کچھ مانگنا تھا…شاہ میر سنجدگی سے بولا…
حکم کریں آج میں بہت خوش اور آزاد ہوں ہر بات کا جواب اور ہر چیز دے دوگی…وہ شرارت سے بولی تو شاہ میر مسکرایا…
عینا….عینا میں…عینا میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں….شاہ میر نے اٹک اٹک کر کہا پہلے تو عینا حیران ہوئے پھر شرارت سے بولی…
اچھا کب…عینا کے جواب پر شاہ میر کی مسکراہٹ گہری ہوئی…
تم تیار ہو میرے ساتھ زندگی گزارنے کے لیئے….شاہ میر نے سوال کیا…
ہاں بلکل…عینا مذاق میں بولی یہ جانے بغیر یہ فضول مذاق کتنا مہنگا پڑھے گا اسے….عینا کے جواب پر شاہ میر پرسکون مسکراہٹ کے ساتھ مسکرایا اور اپر جاتنی عینا کو دیکھا…
🌟🌟🌟🌟🌟
بھائی آپ فارغ ہے تو بات کرسکتا ہوں…زامن آھاد کے روم میں آکر آھاد سے بولا جو اکیلا روم میں بیٹھا موبائل یوز کررہا تھا…
او بڑے لوگ آئے ہیں کیا ناول ختم ہوگیا تمہارا….آھاد نے میٹھا سا طنز کیا تو وہ ڈھٹائی سے مسکرایا…
اب ایسی بھی بات نہیں…آھاد کے بیٹھنے کے اشارہ پر وہ منہ بناتا بیٹھ کر بولا…
ہاں بولو کیا بات ہے…آھاد موبائل رکھ کر بولا…
بھائی وہ میں سوچ رہا تھا کہ زریاب سیٹ ہے پڑھائی بھی ختم ہوگئی اور آفس بھی جاتا ہے تو میں چارہا تھا کہ اس کی شادی کردی جائے میں نے ابھی کسی سے بات نہیں کی پہلے سوچا آپ سے پوچھلو….زامن بولا…
اچھا بات ہے کوئی لڑکی دیکھی…آھاد سنجدگی سے بولا….
بھائی میں سوچ رہا تھا کہ….کہ در نجف کیسی رہے گی…زامن کے بولنے پر آھاد نے فوری گیٹ کی طرف دیکھا تھا جہاں سے ضیغم داخل ہورہا تھا آھاد کبھی زامن تو کبھی ضیغم کو دیکھ رہا تھا اور ضیغم کے چہرہ سے لگ رہا تھا وہ سن چکا ہے اب طوفان قریب ہی آرہا تھا…
🌟🌟🌟🌟🌟
ض…ضیغم تم گئے نہیں آج تو ویک اینڈ ہے…آھاد گڑبڑا کر بولا…
نہیں بابا بس جارہا تھا لیکن اچھا ہوا رک گیا…ضیغم زامن کو دیکھتے ہوئے آھاد سے بولا…
بتائے بھائی آپ بات کرے گے مومن سے…زامن بولا…
ضیغم تم جاو زریا…نہیں تم اپنے روم میں جاؤ….آھاد زریاب کے پاس بیجھتے بیجھتے رکا ضیغم کا کیا بھروسہ زریاب کی ہڈی پسلی نہ توڑ دے…
بابا میں یہاں ہی ہوں آپ جواب دے چاچو کو…ضیغم ضبط سے بولا…
ہان بھائی کیا ہوگیا…زامن بولا…
زامن وہ میں در نجف کو ضیغم کے لیآے سوچ رہا تھا…آھاد کی گھوری پر وہ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتا باہر کی طرف جارہا تھا تاکہ وہ آہستہ آہستہ جاتے ہوئے سن سکے آھاد کے بولنے پر مسکراہٹ اس کے لبو پر آئی…
او اچھا اچھا کوئی بات نہیں ضیغم یا زریاب دونوں ہی میرے بیٹے ہیں مجھے خوشی ہے در نجف ضیغم کی دلہن بن کر ہمارے ہی گھر آئے….زامن خوش دلی سے بولا تو آھاد پرسکون ہوا وہئی ضیغم کے چہرے کی مسکراہٹ گہری ہوئی…
سب سن لیا تو اب بوڈر پار بھی کرلو…آھاد جل کر بولا تو ضیغم زبردست قہقہ لگاتا تیزی سے نکلا…
تمہیں پتہ ہے زامن یہ شروع بہت ضدی اور غصے کا تیز ہے اب جب اس نے در نجف کا مجھ سے کہا تو مجھے اندازہ ہوا یہ در نجف کے لیئے بہت پزیسوز ہے تم سمجھ رہے ہو نہ….آھاد سنجدگی سے بولا…
جی بھائی معلوم ہے میرا شیر ہے ہونا بھی ایسے ہی چاہیئے…زامن محبت بھرے لہجے میں بولا تو آھاد مسکرایا…
لیکن بھائی اس نے سوچا ہے یہ سب مطلب اگر مومن یا شاہ میر نے معنے…زامن نے خدشہ بیان کیا شاہ میر اور ضیغم کی کبھی نہیں بنتی تھی…
تم نہیں جانتے اسےُ جہاں ہم سب کی سوچ ختم ہوتی ہے وہاں اسُ کی سوچ شروع ہوتی ہے…آھاد سنجدگی سے بولا…
جی بھائی…زامن بولا…
ویسے میں سوچ رہا تھا حنان آرہا ہے تو تم سحر کے لیئے بات کرو سحر اچھی بچی ہے اگر تمہیں صیح لگے تم اریبہ سے اور زریاب سے مشورہ کرنا پہلے پھر حنان سے بات کرنا تاکہ اگر وہ مان گیا تو شادی کی بات کرلینا اچھا ہے ایک ہی بار میں سب ہوجائے ورنہ حنان کو بار بار آنے میں پریشانی ہوگی…آھاد نے مشورہ دیا…
ہاں بھائی آپ نے صیح کہا مجھے سحر کا خیال پہلے کیوں نہیں آیا میں بات کرتا ہوں…زامن خوشی سے بولا…
کیونکہ تم ہر دوسرے دن تو کسی نہ کسی ہیرو کے موت کے سوگ میں ہوتے ہو…آھاد نے پیچھے سے طنز کیا…
سب جلتے ہے بس…زامن بڑبڑاتا نکل گیا…
🌟🌟🌟🌟🌟
وہ جم میں ایکسوسائز کررہا تھا کہ موبائل پر بیل بجی اسُ نے رک کر موبائل پر آنے والا کا نام دیکھا تو مسکرا کر کال اٹینڈ کی…
اسلام و علیکم کیسے ہیں آپ…ڈی زیڈ خوشگوار لہجے میں بولا…
وعلیکم سلام میں ٹھیک تم بتاؤ سب ٹھیک چل رہا ہے…مقابل پیار سے بولا…
جی بلکل یہاں سب ٹھیک آپ بتائے کب واپس آرہے ہیں یار میں بہت مس کررہا ہوں یہاں آپ کو…ڈی زیڈ منہ بناکر بولا…
ارے یار تمہیں پتہ ہے بزنس کا…مقابل بولا…
یار بس آپ واپس آئے جلدی اب آپ کا بیٹا ہے نہ چھوڑے بزنس وزنس کو ابھی آپ کا بیٹا زندہ ہے…ڈی زیڈ نے ایموشنل بلیک میل کیا…
اچھا خیر دیکھتا ہوں اور میرے دوستوں سے ملاقات ہوتی ہے تمہاری…مقابل بولا…
ہاں کبھی انجانے میں ہوجاتی ہے…ڈی زیڈ شرارتی سے بولا…
بس ڈی زیڈ کسی کو زیادہ تنگ نہ کرنا…مقابل سجندگی سے بولا…
اچھا نہ بس آپ واپس آجائے…ڈی زیڈ بولا اور ادھر ادھرُ کی باتیں کرکے فون رکھ دیا…
🌟🌟🌟🌟🌟
کیا ہوا تم اتنے پریشان کیوں بیٹھے ہو…مومن کب سے احمر کو سنجدہ دیکھ کر بولا…
یار مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا…احمر بولا…
کیا ہوا بتاؤ تو…مومن فائل رکھ کر بولا…
یار آرزو بار بار سالار کا پوچھے جارہی ہے مجھے سمجھ نہیں آرہا کیا کرو کہاں سے لاکر دو اسے سالار ہر دوسرے دن دورہ اٹھتا ہے اسےُ…احمر پریشانی سے بولا…
یار ہم نے کوشش تو کی نہ اسےُ ڈھوڈنے کی اب کیا کریں وہ مل ہی نہیں رہا…مومن بولا سالار کے نام سے ہی چڑ تھی…
بس یار ہر وقت خود بھی پریشان رہتی ہے اور ہمیں بھی کرتی ہے…احمر سر جھٹک کر بولا…
🌟🌟🌟🌟🌟
تم واقعی اندھی ہو…شہیر کلاس سے نکل رہا تھا کہ نور سے ٹکر ہوئی تو شہیر غرایا…
او ہیلو تمیز سے ہاں…نور روعب سے بولی…
او ہیلو تمیبز سے ہاں…نہیں سمجھتی کیا ہو اپنے آپ کو…شہیر پہلے اس کی نکل اترتے ہوئے بولا…
مسٹر ان یور لمیٹ…نور غرائی…
ارے جاؤ یار چلو شاباش ویسے تمہیں تو ابھی 8 کلاس میں ہونا چاہیئے تھا یونی میں کیسے آگئی او ماما بابا پریشان ہورہے ہوگے نہ کیا کرتی ہو یار ابھی اعلان کرواتا ہوں…شہیر اس کے چھوٹے قت کو دیکھ کر بولا تو وہ جل بھن گئی…
یو مسٹر برج خلیفہ ایفی ٹاور ہٹو میرے راستے سے…نور جل کر بولی اور آگے بڑی…
دیکھ کر کسی کے قدموں میں دب نہ جانا…شہیر نے پیچھے سے ہانک لگائی…
مس تین فٹ…شہیر بڑبڑایا اور آگے بڑگیا…
🌟🌟🌟🌟🌟
کیا خبر ہے کچھ نئی…ڈی زیڈ گاڑی ڈرائف کرتا ہوا بولا…
یار وہ اپنا ہوٹل ہے نہ اسُ کا مالک بول رہا ہے کہ وہ تمہارا مال نہیں لے گا اور وہ کسی ڈی زیڈ سے نہیں ڈرتا…ارمان بولا تو ڈی زیڈ نے جبڑے بیچھ لیئے…
اس کو تو بتانا ہی پڑھے گا ڈی زیڈ کون ہے…ڈی زیڈ ہوٹل کے روڈ پر گاڑی ڈالتے ہوئے بولا اتنے میں اس کا موبائل رنگ ہوا…
ہاں بولوں کیا خبر ہے پتہ چلا کچھ…ڈی زیڈ کال پر ،قابل سے بولا ارمان اور یہ دونوں ڈی زیڈ کے ساتھی اور راز دار تھا لیکن مقابل زرہ منظر سے ہٹ کر کام کرتا تھا اس لیئے ارمان ساتھ ہوتا تھا اس کے ہر وقت…
ڈی زیڈ پکی رپوٹ ہے وہ امریکہ کے شہر میں کسی انڈر گرونڈ پلیس میں موجود ہے…مقابل نے خبر دی اور یہ خبر نے ڈی زیڈ کی رگو میں جوش مارا کیا کچھ نہیں یاد آیا تھا اس کے زکر پر بدلے کی آگ دھوکہ کچھ پل خاموشی کے بعد وہ سمبھل کر سرد لہجے میں بولا…
تم کچھ بھی کرو اسُ کی فیملی کو ڈھونڈو وہ یقینن پاکستان میں ہے کسی بھی طرح بلیک میل کرکے اسُ پاکستان واپس بلاؤ…ڈی زیڈ کی سرد آواز سے ایک پل کے لیئے پاس بیٹھا ارمان بھی کانپ گیا تھا…
ہممم….کرتا ہوں کچھ فکر نہ کرو جتنا تمہیں اسُ کا انتظار ہے اتنا مجھے بھی ہے…مقابل نفرت سے بولا کر کال کاٹ دی…
🌟🌟🌟🌟🌟
کیا ہوا ماما کہاں جارہی ہے…شاہ میر دعا کو تیار باہر جاتا دیکھ کر بولا…
ارے میر تم آگئے…دعا چونک کر بولی…
ہاں آپ بتائے کہاں جانے کی تیاری…شاہ میر بولا…
وہ کل رشتے والے آرہے ہے نہ تو میں آرزو کے ساتھ جارہی ایسے ہی تھوڑی گروسری وغیرہ کرنے…
اچھا کس کے رشتے والے در کے…شاہ میر نے حیرت سے کہا مطلب اپنے بہن کے رشتے کے لیئے لوگ آرہے اور اسے پتہ ہی نہیں…
ارے نہیں در کے نہیں تمہیں بتایا تو تھا احمر بھائی کے دوست کی فیملی عینا کے رشتے کے لیئے آرہے…دعا نے گویا شاہ میر پر دھماکہ کیا شاہ میر کے ہاتھ سے پانی کا گلاس گرتے گرتے بچا…
واٹ…اچھا عینا سے پوچھا آپ لوگوں نے…شاہ میر سمبھل کر بولا شاید عینا کو نہ پتہ ہو…
ہاں بیٹا اسےُ پتہ ہے پوچھا تھا اسےُ کوئی مسلئہ نہیں…دعا بولی…
کب…آخری کوشش گلاس پر گرفت سخت ہوئی…
صبح ہی…اور اب شاہ میر کے عزاب سے عینا کو کوئی نہیں بچا سکتا تھا…
اچھا میں چلتی ہوں در گھر ہے خیال رکھنا…دعا ہدایت دیتی نکل گئی…اور شاہ میر نے گلاس زور سے دیوار پر مارا…
🌟🌟🌟🌟🌟
ہاں بھئی شکور کیا بول رہے تھے کہ تم کسی ڈی زید کو نہیں جانتے تو میں نے سوچا خود اپنی پیچھان کرانے آجاؤ…ڈی زیڈ ٹانگ پر ٹانگ چڑہائے آرام سے شکور کے آفس میں کرسی پر بیٹھا تھا اور شکور اسُ کی شخصیت وہ رعب دبدبہ کو دیکھ کر کاپنے پر مجبور ہوگیا تھا سیاہ شلوار قمیض پر ہری شال شانے پر ڈالے بالے گھنے بال جیل سے سیٹ کیئے نیلی سحر جیسی آنکھیں ہلی ہلی داڑھی ہلی ہلی موچھوں اپرُ سے ورزشی جسم کا مالک اس سے کسی کو بھی اس کی طاقت کا انداز کرنا مشکل نہ ہوتا تھا اپرُ سے دائے گال پر پڑھتا ڈمپل کسی کو بھی دیوانہ بنا ڈالے…
س…س…سر….پلیز….مجھ…مجھے….معاف…کردے…میں…دوبارہ…کبھی ایسی….غلطی…نہیں…کرو..گا…پلیز….آخری…موقعہ…دے…دوبارہ آپ کا ہی مال لوگا….شکور خوف سس لرزتے ہوئے اٹک اٹک کر بول وہ مشہور ہوٹل کا مالک جو لوگوں کو اپنے قدموں کی دھول بھی نہیں سمجھتا تھا اس نے اپنے ہوٹل میں ایک انڈر گرونڈ ایریا بنایا ہوا تھا جہاں بگڑے ہوئے امیر زادے نشہ شراب ڈرگز وغیرہ جیسا اور حرام چیزیں یوز کرتے تھے اس وقت اس کا مالک ڈی زیڈ کے آگے اپنی زندگی کی موت مانگ رہا تھا…
نہ نہ یار تمہیں پتہ تو ہے کہ ڈی زیڈ کسی کو دوسرا موقعہ نہیں دیا کرتا…ڈی زیڈ نے سرخ آنکھوں سے اسے گھورا گویا آنکھوں سے ہی قتل کردے گا…
پلیز…سر…پلیز…شکور گڑگڑایا…
نہ…اوو…سوری تم تو کسی ڈی زیڈ کو جانتے ہی نہیں تو تمہیں کیسے پتہ ہوگا ڈی زیڈ کیا کہتا ہے کیا کرتا ہے کون ہے…ڈی زیڈ افسوس سے بولا اور شکور نے اسُ لحمہ کو کوسہ جس میں اسُ نے یہ بات بولی اور ڈی زیڈ سے پنگا لیا…
خیر افسوس رہے گا تم مجھے جان نہ سکے تم ایک مشہور شخصیت تھے….وہ بولتے بولتے رکا اور کھڑا ہوا…
لیکن تھے…
اور تین گولیاں نے ایک پل میں سانسے چھن لی تھی…ساری شہورت مہشورت دولت سب اس ہی دنیا میں رہے گئی…ڈی زیڈ نے گن ارمان کی طرف اچھالی اور ایک ٹھوکر مارتا ہوا نکل گیا…
بہت دن ہوگئے ملاقات نہیں ہوئی…ڈی زیڈ آسمان کو دیکھ کر تصورات میں در نجف سے بولا اور ملنے کا سوچنے لگا…
🌟🌟🌟🌟🌟
افف…شاہ میر اور ضیغم کا زبردست تصادم ہوا…
ایک تو تمہاری بیچ میں آنے کی عادت بہت ہے…ضیغم شاہ میر سے بولا…
سوری غلطی سے ہوا میں نے دیکھا نہیں…شاہ میر اس کی بیزاریت نظرانداز کرتا ہوا بولا…
دیکھتے ہی تو نہیں تم کچھ…ضیغم بڑبڑایا لیکن چونکا شاہ میر کی شکل دیکھ کر اس کے چہرہ پر کیا کچھ نہ تھا غصہ بےعتباری جنون اور طوفان…
کیا ہوا…ضیغم نرمی سے بولا…
کچھ نہیں پھر ملتے ہیں ویسے تمہیں کوئی کام…شاہ میر آہستے سے بولا…
نہیں میں کاضم سے ملنے آیا تھا آفس کی ڈیل میں کچھ مسلآہ تھا…ضیغم نے آنے کا مقصد بتایا…
او وہ آگیا…شاہ میر نے گاڑی سے نکلتے کاضم کو دیکھ کر بولا اور اندر بڑگیا…
دونوں بابا بیٹے الگ ہی چیز ہے…ضیغم بڑبڑاتا ہوئے کاضم کی طرف بڑھا…
🌟🌟🌟🌟🌟
در کیا کررہا ہے میرا بچا…دعا در نجف کے کمرے میں آکر پیار سے بولی اور اسُ کے ساتھ بید پر بیٹھی…
کچھ نہیں ماما بس کل ٹیسٹ ہے نہ اسُ کی تیاری…در نجف کتابیں پھلائے بیٹھی تھی…
اوو…در نجف وہ احمر بھائی کے چاچو کا انتقال ہوگیا ہے تو ہم لوگ کل صبح حیدرآباد جائے گے تم بھی چلو گی نہ…دعا بولی…
او…نہیں ماما کل میرا امپورنٹ ٹیسٹ ہے طبیت کی وجہ سے ویسے ہی بہت نقصان ہوگیا ہے…در نجف افسوس سے بولی…
تو تم گھر اکیلی کیسے رہوگی عینا شہیر سب جارہے اور آتے آتے اچھی رات ہوجانی ہے…دعا فکرمندی سے بولی…
ماما میر بھیا تو ہوگے نہ گھر پر…در نجف بولی…
نہیں کاضم اور میر کل میٹنگ کے سسلے میں اسلام آباد جارہے…دعا بولی…
او…تو کوئی بات نہیں ویسے بھی شام تک ٹیسٹ ختم ہوگا پھر میں نور کی طرف جاوگی تھوڑی دیر اور ویسے بھی ماما گھر ملازمہ گارڈ وغیرہ ہے کوئی فکر نہ کریں…در نجف سکون سے بولی…
لیکن ڈریئوار تو کل نہیں آگئے گا انُ کی طبیت ٹھیک نہیں…دعا پریشانی سے بولی…
کوئی بات نہیں میں نور کے ساتھ آجاو گی میر بھیا چھوڑتے ہوئے چلے جائے گے…در نجف بولی تو دعا کو مانا ہی پڑھا مجبوری تھی…
چلو ٹھیک ہد خیال رکھنا اپنا اور رات سے پہلے گھر آجانا…دعا بولی اور پیار کرتی نکل گئی…
🌟🌟🌟🌟🌟
اچھر میری بات سو…شاہ میر عینا کو لان میں دیکھ کر قریب آکر بولا…
جی…عینا نے چونک کر اسے دیکہا جو سرخ آنکھوں سے اسے گھور رہا تھا…
تم نے رشتے کے لیئے ہاں بولا بڑے ابو کے دوست کی فیملی کو…شاہ میر ضبط سے بولا…
ہاں کیوں…عینا نہ سمجھی سے بولی…
اور تم نے میرا پروپزل قبول کیا تھا…شاہ میر نے یاد دلایا…
او…شاہ میر بھائی وہ تو مذاق تھا آپ بھی کیا سریس…عینا بول ہی رہی تھے کہ نظر اٹھا کر اس کے غصب ناک چہرہ پر دیکھ کر رکی…
مذاق….رائٹ…مذاق اب میں تمہاری زندگی کو ایک مذاق نہ بنا ڈالو تو بولنا…شاہ میر دھاڑتا ہوئے بولا اور نکل گیا عینا ہکا بکا کھڑی تھی اسے اندازہ نہیں تھا ایک مذاق کیا کرنے والا ہے اس کے ساتھ…
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...