اس پرانے گھر کی سیڑھیاں کافی اونچی اور گھماؤ والی تھیں جن پر فرنیچر کو چڑھاتے وقت بار بار زاویہ بدلنا پڑ رہا تھا۔ چوتھی منزل تک پہنچتے پہنچتے ہم کتے کی طرح ہانپنے لگے۔ صوفہ کو اس کی مخصوص جگہ موزیک کے فرش پر رکھنے کے بعد میرے ساتھی نے انگوچھے سے اپنے چہرے کا پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا: ’’تو تم کہہ رہے تھے کہ تم مسلمان ہو اور تمہاری ماں ہندو تھی۔‘‘
’’نہیں، کیا میں نے ایسا کہا؟‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’وہ بھی مسلمان تھی۔ مگر مرنے کے بعد ان کی چتا کو آگ دی گئی۔ اور جن لوگوں نے یہ کیا وہ برے لوگ نہ تھے۔ ہم میں سے ہر کوئی وہی کام کرتا ہے جسے وہ اپنے طور پر اچھا سمجھتا ہے۔‘‘ مجھے اپنی بات پر حیرت ہوئی۔ میں کیسے اتنی لمبی بات کر پایا۔ کیا ماں کی موت کے ساتھ میری گویائی مجھے واپس مل گئی تھیں؟
’’تم بیوقوف تو نہیں ہو۔‘‘ میرے ساتھی نے کہا۔ ’’یا شاید مجھے بیوقوف سمجھتے ہو۔‘‘
ہم دونوں ہر صبح سڑک پر ایک خاص جگہ بیٹھ کر کام کا انتظار کرتے۔ ہماری کوشش ہوتی کہ ہم ایک ساتھ رہیں۔ ایسا کیوں تھا ہمیں اس کا علم نہ تھا۔ ایک بار ہم دونوں الگ الگ جگہ کام کرنے گئے تو سارا دن مجھے بڑی ویرانی کا احساس ہوا۔ دوسرے دن اس نے بھی کچھ ایسی ہی بات بتائی۔ ایسا نہیں تھا کہ ہم دونوں کے درمیان باتیں کرنے کے لئے بہت کچھ تھا۔ ہمارے درمیان زیادہ تر خاموشی کی حکمرانی ہوتی۔ مگر دھیرے دھیرے مجھے یہ احساس ہونے لگا تھا کہ میرے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہو رہا ہے، کہ نہ چاہتے ہوئے بھی میں کھلتا جا رہا ہوں اور اب ضروری ہو گیا ہے کہ میں اپنی جگہ بدل لوں۔ مگر وہاں پر جگہ بدلنے کے لئے نہیں تھی۔ دہائیوں سے یہ مزدوروں کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ اور پھر جس چینی دندان ساز کے مطب کے سامنے ہم بیٹھا کرتے وہ ہمارے لئے کافی سازگار بھی ثابت ہوئی تھی۔ تو کیا یہ میری اس سوچ کا نتیجہ تھا کہ ایک دن وہ اور پھر نظر نہ آیا؟ اور جب مجھے یقین ہو گیا کہ وہ ہمیشہ کے لئے غائب ہو گیا ہے تو مجھے یہ سوچ کر حیرت ہوئی کہ میرے اندر کبھی اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں جھانکنے کی خواہش کیوں نہ پیدا ہوئی؟ مگر خود میں نے اسے اپنی ماں کی موت کے علاوہ اپنے بارے میں اور کچھ بتایا کیوں نہیں تھا؟ خود اس موت کے بارے میں میں نے بات ہی کیوں کی جب کہ اس میں بتانے کے لائق کچھ نہ تھا سوائے اس کے کہ یہ لوگوں کو اور بھی حیران کر سکتی تھی۔ آج مجھے یاد نہیں آتا کہ وہ کیا وجہ تھی کہ ہمارے بیچ ماں کی موت کا تذکرہ آ نکلا تھا۔
جیسا کہ میں نے اپنی ماں کی چتا پر قسم کھائی تھی، مجھے اپنی زبان کو قابو میں رکھنا چاہئے۔ مگر شاید میں اپنی آزادی کا غلط استعمال کرنے لگا ہوں۔ ٹرین سے اترنے سے پہلے میں نے اپنا اصلی نام واپس حاصل کر لیا تھا۔ میں نے ایک اور بھی نام رکھ لیا تھا جس کا کوئی بھی مطلب نہیں نکلتا تھا۔ مجھ سے کہا گیا تھا کہ ایسے ایک نام سے کافی سہولت ہوتی ہے۔ سچ پوچھیں تو اس نام سے اگر لوگ مجھے ایک ماہ نہ پکاریں تو میں خود اسے بھول سکتا ہوں۔ مگر میری گلی میں ایک عورت ہے جو مجھ سے دس سال بڑی ہے۔ وہ نہ صرف میرے اصلی نام سے واقف ہے بلکہ اس نے میرے دونوں ناموں کو اچھی طرح سے سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ یہ گلی جس میں میں کرائے پر رہتا ہوں دو کشادہ سڑکوں کو ایک دوسرے سے ملاتی ہے۔ اس گلی کے ایک سرے پر جو سڑک ہے وہاں پولس کی چوکی سے بالکل لگ کر ہر رنگ و روغن کی طوائفیں کھڑی رہتی ہیں جن کی چھوٹی چھوٹی کوٹھریاں دو منزلہ سہ منزلہ گھروں کے اندر بنی ہیں۔ یہ طوائفیں اپنے گاہکوں کے ساتھ ان گھروں میں لوٹتی ہیں جب کہ گلی کے دوسرے سرے پر کھپڑیل کے ایسے ہی گھروں کے بیچ ایک دو منزلہ مسجد واقع ہے جس کا پھاٹک ایک دوسری کشادہ سڑک پر کھلتا ہے جہاں گوشت کی دکانوں اور بیف ہوٹلوں کی بھرمار ہے اور لنگی کرتا پہنے، سر پر ٹوپی چپکائے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد آدھی رات تک کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ اس جگہ وہ نوجوان لڑکے بھی بھیڑ لگاتے ہیں جو کانوں میں بالیاں لٹکائے، کھینی گھستے ہوئے طرح طرح کی گالیاں ایجاد کیا کرتے ہیں اور دکان کے سامنے بینچوں پر بیٹھ کر یا فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر گذرتی عورتوں اور لڑکیوں پر اپنی عقابی نظریں ڈالتے رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس دنیا میں ان کے آنے کا بس یہی مقصد رہ گیا ہو۔ گرچہ اس عورت کا رنگ میری ماں کی طرح ساؤنلا ہے مگر اس کا ناک نقشہ میری ماں کے مقابلے زیادہ پر کشش ہے۔ وہ طوائف والے سرے سے آئی ہے جہاں کچھ سال پہلے تک اس کی اپنی ایک کوٹھری تھی اور وہ سڑک پر کھڑی گاہکوں کا انتظار کیا کرتی تھی۔ مگر اب اس نے اس مسجد کے قریب اپنا ٹھکانہ بنا لیا ہے جہاں وہ اپنے طوطوں کی دیکھ بھال کیا کرتی ہے یا جائے نماز پر بیٹھی تسبیح گنتی رہتی ہے یا پھر پیر فقیر کے مزاروں کی زیارت کرتی پھرتی ہے۔ اس نے اپنے دروازے پر ایک سبز جھنڈا لٹکا رکھا ہے جس پر صندل سے ہاتھ کا نشان بنا ہوا ہے۔ وہ ہر جمعہ اور ہر تہوار پر کسی نہ کسی مولوی کو بلا کر کسی پیر یا فقیر کے نام پر نیاز یا فاتحہ خوانی کرواتی ہے اور اپنے گھر سے لے کر نکڑ تک لوگوں میں شیرنی تقسیم کرتی ہے جو زیادہ تر چینی یا بتاسے پر مشتمل ہوتی ہے۔ اسی بہانے اس نے مجھ سے بھی پہچان بنا لی ہے۔ ’’تمہیں ایک ایسی عورت کی ضرورت ہے جو عمر میں تم سے کافی بڑی ہو۔‘‘ اس نے ایک دن مجھ سے کہا۔ ’’کیا تم نے شادی کے بارے میں سوچا ہے؟ دن گذر جاتے ہیں۔ کیلے کے درخت میں دو بار پھول نہیں آتے۔‘‘
مجھے اس کی گفتگو پر کوئی حیرانی نہ تھی۔ سچ کہا جائے تو ان دنوں میں ہر وقت شادی کے بارے میں سوچنے لگا ہوں۔ در اصل لا شعوری طور پر میں یہ سوچنے لگا ہوں کہ کیا اپنے باپ کی طرح میں اپنے ہونے والے بچے سے پیچھا چھڑا سکتا ہوں؟ میں نے اس عورت کو ایک مرد کی نظر سے بھی دیکھا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے اس کا ناک نقشہ کافی پر کشش ہے۔ صرف اس کا پیٹ کافی بڑا ہے جیسے اس کے اندر کوئی ٹیومر پل رہا ہو۔ اس جیسی بڑے پیٹ والی عورتوں کے لئے ایک خاص طرح کے مردوں کے اندر کافی کشش ہوتی ہو گی، مگر میں وہ مرد نہیں تھا۔ اور فی الحال میں اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں رہا ہوں۔ میں تو صرف شادی کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ نہیں میں شادی کے بارے میں بھی نہیں سوچ رہا ہوں بلکہ اس شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ لیکن شاید میں اپنے ہونے والے بچے سے زیادہ یہ سوچ رہا ہوں کہ اس سے پیچھا چھڑانا کیسا رہے گا۔ اور میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ میں جو اتنا کچھ سوچتا ہوں اور اتنا کم بول پاتا ہوں کیا میں اس کا اہل بھی ہوں کہ مجھ سے کسی عورت کا حمل ٹھہر جائے، خاص طور پر ایک ایسی عورت کا جس کے پیٹ میں ٹیومر پل رہا ہو۔ کچھ دنوں سے وہ میرے لئے اچھی اچھی چیزیں پکا کر لانے لگی ہے کیونکہ میرے کمرے تک پہنچنے کے لئے اسے صرف گلی پار کرنی پڑتی ہے۔ اس کے گھر میں ایک چھوٹا سا آنگن ہے اور ایک برامدہ جہاں کئی لوہے کے پنجڑے چھپر کے کنڈوں سے لٹکتے رہتے ہیں۔ ان پنجڑوں کے اندر سبز رنگ کے طوطے بند ہیں جو رہ رہ کر کرخت آوازیں نکالنے کے عادی ہیں۔ باقی وقتوں میں یا تو وہ چپ کھڑے رہتے ہیں یا پانی اور چنے کے پیالوں میں چونچ ڈالتے نظر آتے ہیں۔ ان طوطوں کے سبب نیچے کا فرش ہمیشہ گیلا رہتا ہے جسے صاف رکھنے کے لئے اسے کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔ وہ ان طوطوں کو کبھی کوئی زبان نہیں سکھاتی۔ ’’میں نے ان کے کاروبار میں اچھا پیسہ بنایا ہے۔ یہ طوطے کرشمے دکھاتے ہیں۔‘‘ ایک دن اس نے مجھے بتایا۔ ’’میں نے بہت گناہوں بھری زندگی گذاری ہے۔ کیا سمجھتے ہو خدا مجھے معاف کرے گا؟ لیکن میں نے کافی دکھ بھی اٹھائے ہیں۔ کیا میرے ساتھ انصاف ہو گا؟‘‘
’’مجھے نہیں معلوم خدا کیا سو چتا ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...