مجھے ایک بار پھر ماں کی موت کی طرف لوٹ جانا چاہئے۔ ایک عورت جس کے دماغ پر ملیریا کا حملہ ہو چکا ہو کیسے اتنی یاد داشت کے لائق ہو سکتی ہے۔ وہ شاید روشنی کے ہوتے ہوئے اندھیرے میں جینے لگی تھی اور پرچھائیوں کو دیکھنے کی عادی ہو گئی تھی۔ تمہیں یہ سن کر دکھ ہو گا ارسلان، ماں نے بند آنکھوں کے ساتھ کہا تھا جیسے وہ اپنے اندر مجھے دیکھ رہی ہو۔ اب جو میں سوچتی ہوں تو مجھے لگتا ہے یہ تم تھے جس کے سبب تمہارے باپ نے پھر واپس لوٹنے کا نام نہیں لیا۔ ممکن ہے اس کے بعد بھی ماں نے اور بھی بہت سارے جملے کہے ہوں مگر اس جملے کو ہی میں بار بار کیوں یاد کر رہا تھا؟ اس لئے نہیں کہ اس سے میرے دل کو چوٹ پہنچی تھی۔ میں جانتا تھا ماں کا یہ ارادہ ہرگز نہ تھا۔ شاید ان کا کوئی ارادہ نہ تھا یا شاید ان کا ارادہ تھا کہ میرے دل میں اپنے باپ کے لئے کوئی گوشہ باقی نہ رہے۔ مگر یہ بیکار تھا۔ میں نے کبھی اپنے باپ کے بارے میں سوچا ہی نہ تھا۔ میری ماں میرے لئے اتنی زیادہ تھی، اتنی وافر تھی، انھوں نے چاروں طرف سے اس طرح مجھے گھیر رکھا تھا کہ میرے باپ کو اندر آنے کی اجازت ہی نہ تھی۔ میرے باپ کو شاید میری کم گوئی اور دھیمی حرکتوں سے مایوسی ہوئی تھی اور لڑائی نے انھیں ایک دوسری دنیا میں فرار ہونے کی سہولت عطا کی تھی۔ ماں اگر یہ بات مجھے نہ بھی بتاتی تو بھی میں اسے سمجھ سکتا تھا۔ مگر مجھے اس سے کوئی فرق پڑنے والا نہ تھا۔ میں ہر حال میں اس حقیقت کے ساتھ سمجھوتہ کر چکا تھا۔ خدا انھیں ایک نئے ملک میں خوش رکھے! اس دنیا میں ہر کوئی اپنی اپنی قسمت کے ساتھ جیتا ہے۔ مگر ماں نے اپنے دل کی آخری پھانس ابھی شاید نکالی نہ تھی۔ ’’مجھے افسوس ہے ارسلان۔۔۔‘‘ انھوں نے اپنی بڑی بڑی زرد آنکھوں کو پوری طرح کھول کر میری طرف آخری بار دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’میں تمہیں ایک اچھی دنیا میں چھوڑ کر نہیں جا رہی ہوں۔‘‘
میرے دل نے کہا، شاید وہ یہ فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتی۔ اچھی یا بری، مجھے اس دنیا کو اپنے طریقے سے جاننے کا حق ہے۔ ماں صرف یہ کہہ سکتی تھی کہ یہ دنیا اس کے لئے بری ثابت ہوئی، یا پھر یہ کہ اسے اس سے مایوسی ہوئی تھی یا اور کوئی جملہ جس سے انھیں تشفی ہوتی۔ مگر ان کی یہ کوشش کہ میری آخری روشنی بھی بجھ جائے میری سمجھ سے باہر تھی۔ ان کی موت کے بعد میں ان کے ٹھنڈے جسم کے سامنے جانے کب تک بیٹھا رہا۔ آس پاس کے بستروں میں اس بات کے سبب بڑی بے چینی تھی کہ مردہ کو ہٹانے میں اسپتال کے عملے کافی سستی سے کام لے رہے تھے۔ اسٹریچر پر منتقل کرنے سے پہلے نرس جب چادر سے میری ماں کے چہرے کو ڈھک رہی تھی تو اس نے میری طرف دیکھے بغیر کہا ’’تمہارے لوگ ڈاکٹر سے سرٹیفکٹ لینے گئے ہیں۔‘‘۔ وہ ایک پل کے لئے چپ ہو گئی۔ پھر اس نے میرے کان میں سرگوشی کی۔ ’’سرٹیفکیٹ لینا نہ بھولنا۔ کیا تم ان کی اکیلی اولاد ہو۔‘‘ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’مجھے سمجھ لینا چاہئے تھا۔‘‘ نرس نے مجھے اسٹریچر کے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ محلے کے لوگ ماں کو کریا کرم کے لئے جس دریا کے کنارے لے گئے وہ کوئی دریا نہ تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے دبیز گھاس سے ڈھکی ہوئی زمین اچانک پھٹ گئی ہو اور اس میں پانی بھر گیا ہو۔ دریا کے کنارے ایک پتھر پر بٹھا کر جو شاید اسی مقصد سے اس جگہ لا کر رکھا گیا تھا کیونکہ اس کے نیچے کی زمین بالوں سے سیاہ ہو رہی تھی حجام نے میرا سر گھونٹا اور جب لوگوں نے میرے ہاتھ سے ماں کے منہ میں آگ ڈلوائی تو میں رو پڑا۔ مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ میں دنیا میں اکیلا ہو گیا ہوں۔ ماں، میں نے کہا، تم نے کیا کبھی سوچا ہو گا کہ مرنے کے بعد لوگ تمہارے ساتھ یہ حرکت بھی کریں گے؟ اس واقعے نے ایک طرح سے مجھے بدل دیا۔ میں نے ان کی چتا پر قسم کھائی کہ ایک دن میں اپنے باپ کو ڈھونڈ نکالوں گا اور انھیں بتاؤں گا کہ کیسے ہم نے ایک فرضی نام کے اندر انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا ہے۔ ماں کی موت کے بعد میرے لئے اب اس شہر کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی تھی۔ میں نے جب گھر چھوڑا تو میرے ساتھ وہی چرمی سوٹ کیس تھا جو اب بری طرح گھس چکا تھا۔ اس میں اور دوسرے سامان کے ساتھ کاغذ کا وہ ٹکڑا بھی تھا جس کی پیشانی پر اسکول کا نام درج تھا اور نیچے ہیڈ ماسٹر کے دستخط کے اوپر میرا اور میرے باپ کا فرضی نام، اس شہر کا ٹھکانہ اور پیدائشی تاریخ لکھی تھی۔ اس کاغذ پر مجھے اپنی ماں کا اصلی یا نقلی نام نہ دیکھ کر مایوسی ہوئی۔ میں نے اپنی پہلی فرصت میں اسے جلا ڈالا۔ یوں بھی یہ ہر لحاظ سے ایک بیکار کاغذ تھا جس میں دو فرضی نام لکھے ہوئے تھے۔ میں نے ایک لوکل ٹرین پکڑی جو دھندلے تاروں کے نیچے ٹھنڈی ہوا کو چیرتی ہوئی واپس میرے نانا کے شہر کی طرف جا رہی تھی۔ کمپارٹمنٹ کے اندر بیٹھا میں دیکھ رہا تھا لوگوں کے چہرے کس قدر ستے ہوئے تھے، جیسے ہر کوئی اپنی کہانی دونوں جبڑوں کے درمیان دبائے بیٹھا ہو۔ اس دن میں نے فیصلہ کیا اس دنیا میں جہاں ہر کسی کی اپنی کہانی ہے، میں اپنی کہانی کسی کو نہیں بتاؤں گا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...