رات دس بجے میں ٹرالی ڈھکیلتے ہوئے واپس لوٹتا تو ہوٹلوں کے علاوہ زیادہ تر دکانیں بند ہو چکی ہوتیں۔ قریب ہی طوائفوں کا محلہ ہونے کے سبب ان ہوٹلوں میں آدھی رات تک رونق رہا کرتی۔ مجھے کسی بھی ہوٹل کے باہر رکنے کی اجازت نہ تھی کیونکہ ہر ہوٹل کا اپنا آئس کریم کا کونا تھا جہاں کمسن طوائفیں گاہکوں کے ساتھ آئس کریم کی میز پر ہنسی ٹھٹھول کیا کرتیں۔ میں جب ٹرالی بچے کھچے آئس کریم کے ساتھ فیکٹری کے حوالے کر کے گھر لوٹتا تو یہ وقت سڑک چھاپ کتوں کا ہوتا جو میری بو سونگھ کر ہمیشہ مجھے رد کر دیا کرتے۔ در اصل اس مقصد کے لئے انھیں سڑک پر کوئی نہ کوئی پاگل یا بھکاری آسانی سے مل جاتا جس کا وہ اسٹریٹ لیمپ کی ناکافی روشنی میں دور تک پیچھا کیا کرتے۔
ماں نے مرنے کے لئے مزید تین دن کیوں لگائے یہ آج بھی میری سمجھ سے باہر ہے۔ در اصل انھیں تو اسی دن مر جانا چاہئے تھا جس دن انھوں نے مجھ سے میرے باپ کے سلسلے میں وعدہ لیا تھا۔ شاید ان کے لئے مرنا کوئی خاص واقعہ نہ ہو۔
سچ بات تو یہ تھی کہ میں ان کے مرض کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ بس ایک دن ان پر شدید دورا پڑا اور وہ بدن اینٹھتے ہوئے بلبلا نے لگی۔ بستر سے اٹھنے کے لئے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھی۔ وہ بار بار اپنے بریسیز کی طرف ہاتھ بڑھا رہی تھی جنھیں میں نے انھیں پہننے میں مدد دی۔ مگر ان بریسیز کے باوجود وہ پھر کبھی بستر سے اٹھ نہیں پائی۔ وہ ساری رات کراہتی اور ٹھٹھرتی رہی جیسے سردی اپنے شباب پر ہو جب کہ پاس پڑوس کے تمام گھروں میں بجلی کے پنکھے چل رہے تھے۔ صبح میں نے دیکھا ان کے جسم میں جگہ جگہ نیلے گومڑ نکل آئے تھے۔ دو دن تک اسی طرح وہ بستر پر پڑے پڑے چھٹپٹاتی رہی۔ جب محلے کے کچھ لوگ ترس کھا کر اسے سرکاری اسپتال لے گئے جہاں ان پر پانی چڑھا دیا گیا۔ ان کے خون کی جانچ کی گئی اور سرکاری ڈاکٹر نے بتایا، یہ گومڑ کسی کتر کر کھانے والے میمل کے کاٹنے کا نتیجہ ہے، مگر اصلی بیماری تو کچھ اور ہے۔ اور یہ ایک خاص قسم کا مچھر ہے جس کے پیرا سائٹ خون کے راستے سیدھے انسان کے دماغ پر حملہ کرتے ہیں اور دیر ہو جانے پر ڈاکٹروں کے کرنے کے لئے کچھ نہیں بچتا۔ پھر اس نے میری طرف دیکھا اور میرے کان میں سرگوشی کی: بیٹا، تم بڑے ہو گئے ہو۔ بہتر ہو گا کہ تم اپنی ماں کی موت کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو جاؤ۔
جو میں اس دن بھی تیار تھا جب ماں چٹاگانگ کی بندرگاہ میں جیٹی سے کچھ دور ہٹ کر پانی کے بالکل قریب کھڑی تھی جہاں جانے کس امید میں ہم لوگ ہر مہینے ایک آدھ بار بس میں دھان کے کھیتوں کے بیچ ایک لمبی مسافت طئے کر کے آیا کرتے۔ اس دن آسمان پر کئی رنگ کھیل رہے تھے اور نیچے سمندر کے پانی میں خس و خاشاک ڈول رہے تھے جیسے سمندری مچھلیوں کی طرح ان کی بھی اپنی ایک الگ زندگی ہو۔ اس دن ماں بالکل خاموش تھی۔ شاید نا امیدی نے دھیرے دھیرے ان کے اندر گھر کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ جن نظروں سے سمندر کے پانی کو پشتے کی دیوار سے ٹکراتے دیکھ رہی تھی اس سے ایک پل کے لئے مجھے لگا ماں سمندر میں کود جانے کا ارادہ رکھتی ہو۔ میں نے سختی سے ان کی ساڑی کے کنارے کو اپنی انگلیوں سے پکڑ رکھا تھا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ میرے اس عمل کا نتیجہ ہو کہ ماں مزید نو برس زندہ رہی اور ایک ایسے اسپتال میں ان کا انتقال ہوا جہاں کے ڈاکٹر مریضوں سے زیادہ ان کے رشتے داروں سے باتیں کرنے کے عادی تھے۔
تمہیں یاد ہے ارسلان۔۔۔ ماں نے مرنے کے ایک دن قبل کہا۔ اس وقت وہ اسپتال میں لوہے کے پلنگ پر لیٹی ہوئی چھت کی چوبی بلیوں کی طرف تاک رہی تھی جن پر رکھی اینٹیں جگہ جگہ سے پلستر جھڑ جانے کے سبب ننگی ہو گئی تھیں۔۔۔ تمہیں یاد ہے وہ دن جب ہم لوگ مجیب الرحمان کو دیکھنے گئے اور لوگوں کا جوش و خروش دیکھ کر تم پھولے نہیں سما رہے تھے۔ تم نے دو کافی بڑے غبارے تھام رکھے تھے جو ہوا میں اڑنا چاہ رہے تھے۔ تم کتنے خوفزدہ تھے کہ کہیں یہ غبارے تمہارے ہاتھ سے اڑ نہ جائیں! ان دنوں ہم لوگ ڈھاکہ میں تھے۔ اور تمہیں وہ دن بھی یاد ہو گا جب فوج نے لوگوں پر قہر ڈھا رکھا تھا اور ہم نے ایک دن ایک زخمی آدمی کو دیکھا جسے رضا کاروں نے ناریل کے ایک درخت کے ساتھ باندھ دیا تھا اور کسی فوجی گاڑی کے گذرنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ آدمی دشمن ملک کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہا تھا۔ وہ آدمی اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا جب بھیڑ اپنے صبر کا دامن کھو بیٹھی اور کسی نے ایک اسکرو ڈرائیور نکال کر اس کے حلق میں پیوست کر دی۔ حملہ آور نے اسکریو ڈرائیور واپس باہر نکالنے کی کوشش کی تو اس کا لکڑی کا دستہ اس کے ہاتھ میں رہ گیا۔ اور شاید تمہیں یہ بھی یاد ہو کہ جب ملک آزاد ہو چکا تھا تو کس طرح ملیشیا ایک پبلک پارک میں جوان لڑکوں کو گھاس پر گرا کر ان کے سینوں میں بیونٹ گھونپ رہی تھی اور یہ ہماری طرح ہی ہندوستان سے بھاگ کر آئے ہوئے لوگ تھے فرق صرف یہ تھا کہ یہ تمہارے باپ کی زبان بولتے تھے۔ بعد میں ہمیں سرکاری ریڈیو سے پتہ چلا کہ ان لوگوں نے جنگِ آزادی کے خلاف پاکستانی فوج کو تعاون دیا تھا۔
میری سمجھ میں آج تک یہ نہیں آیا کہ مرنے سے قبل ماں نے کیوں ان نا خوشگوار واقعات کو یاد کرنے کی کوشش کی۔ سچ بات تو یہ تھی کہ نہ تو مجھے کسی غبارے کی یاد تھی نہ ان واقعات کی جن کا ذکر ماں نے کیا تھا۔ وہ ہمارے بڑے ہی افراتفری کے دن تھے جب ہم لوگ ہمیشہ سفر پر رہا کرتے، کبھی ڈھاکہ، کبھی چٹاگانگ اور کبھی نواکھالی۔ نرس نے مجھ سے کہا کہ میری ماں پر ہذیانی کیفیت طاری تھی، کہ مجھے ان کی باتوں کا بھروسہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس حالت میں سنا اور دیکھا ہوا کا فرق بالکل مٹ جاتا ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...