فرانس کا ایک مردم خیز قصبہ چہر بورگ (Cherbourg)جو نارمنڈی (Normandy )کی حدود میں واقع ہے حسن فطرت میں ایک بلند مقام رکھتا ہے ۔ا س قصبے سے 12 نومبر 1915کو ایک ایسا درخشاں ستارہ طلوع ہو ا جس کی تابانیوں سے سفاک ظلمتیں کافور کرنے میں مدد ملی اور اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتما م ہوا۔یہ نیر تاباں رولاں بارتھ تھا ۔جس نے ایک ادبی نظریہ ساز ،فلسفی ،نقاد ،ماہر لسانیات اور رجحان ساز تخلیق کار کی حیثیت سے پوری دنیا میںاپنی دھاک بٹھا دی ۔اس کے افکار کی ضیاپاشیو ںسے علم و ادب کا گوشہ گوشہ منور ہو گیا اور افکار تازہ کی ایسی نوید سنائی دی جس نے فکری اضمحلال اور جمود کا خاتمہ کردیا ۔اس نے فکر و فلسفہ پر بڑے صدیوں کے تار عنکبوت ہٹا کر اسے جہان تازہ سے آشنا کیا ۔تقلید کی مہلک روش کے باعث تاریخی صداقتوں ، تاریخ کے مسلسل عمل اور عصری آگہی پر ابلق ایام کے سموں کی جو گرد پڑ چکی تھی وہ سب اس نابغہ ء روزگار دانش ور کے فکر و فن اور فلسفیانہ افکار کی جولانیو ں سے چھٹ گئی اور دلوں کو ایک ولولہ ء تازہ نصیب ہوا۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
تقدیر نے رولاں بارتھ کو عجیب حالات سے دوچار کردیا ۔یہ حالات ہی تو ہیں جو قدم قدم پر انسانی تدبیر کی دھجیاں اڑا کر اسے ہجوم یاس میں تنہا آگے بڑھنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور اس یاس و ہراس کے عالم میں فرد اندھیرے میںٹامک ٹوئیے مارتا پھرتا ہے ۔اسی کا نام تقدیر ہے جو انسان کی بے بسی کے بارے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہنے دیتی۔رولاں بارتھ کی عمر ابھی ایک سال سے بھی کم تھی جب اس کا والدشمالی سمندر کے علاقے میں ایک جنگ میں مارا گیا ۔رولا ںبارتھ کی ما ںہینریٹ بارتھ(Henriette Barthes)کا سینہ و دل حسرتو ں سے چھا گیا بیوگی کی چادر اوڑھے ،اپنے یتیم بچے کو وہ آلام روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھنے کی آرزومند تھی ۔اپنے قصبے سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد رولاں بارتھ اپنی ما ں کے ہمراہ پیرس پہنچا ،اس وقت اس کی عمر گیارہ برس تھی ْ۔ایک فعال ،مستعد اور زیرک طالب علم کی حیثیت سے رولاں بارتھ نے ہر امتحان میںنمایاں کامیابی حاصل کی ۔اس کی تعلیمی زندگی کا یادگار دور وہ تھا جب وہ شہرہء آفاق مادر علمی سور بون(Sorbonne)میں 1935 سے 1939تک زیر تعلیم رہا۔یہاںایسا تعلیمی ماحول تھا جس کے اعجاز سے ذرے کو آفتاب بننے کے فراواں مواقع میسر تھے ۔سخت محنت ،اعصاب شکن حالات اور جذباتی شکست و ریخت نے رولاں بارتھ کی صحت پر منفی اثرات مرتب کیے اور اسے تپ دق کا عارضہ لاحق ہو گیا۔اس کے باوجود اس نے عزم و ہمت کی چٹان بن کر حالات کا خندہ پیشانی سے مقابل کیا اور ایام کا مرکب بننے کے بجائے ایام کا راکب بن کر لوح جہاں پر اپنی عظیم اور فقید المثال کامیابیوں اور کامرانیو ںکے انمٹ نقوش ثبت کر دئیے۔اس کی تصانیف کی تعداد بیس کے قریب ہے جو فکری تنوع اور جدت افکارکا اعلیٰ ترین معیار پیش کرتی ہیں ۔فرانس کی اہم جامعات کے علاوہ دنیا کی ممتاز درس گاہو ں نے اس یگانہء روزگار فاضل کے افکار سے اکتساب فیض کیا ۔اس نے اپنی پوری زندگی درس و تدریس میں گزاری اور فرانس کی صف اول کی جامعات میں اس نے تدریسی خدمات انجام دیں ۔رولاں بارتھ کو اپنی ماں سے بہت محبت ،قلبی وابستگی اور عقیدت تھی ۔یہ اس کی ما ںہی تھی جس نے اس کی تعلیم و تربیت کی خاطر ہر قسم کی تکالیف اور صبر آزما حالات کا سامنا کیا۔نا مساعد حالات کی بھنک تک اپنے فرزند کو نہ پڑنے دی ۔25نومبر 1977کی شام رولاں بارتھ کے لیے شام الم ثابت ہوئی جب اس کی ما ںکا انتقال ہو گیا۔ ا س سانحے نے اس جری تخلیق کار کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیااس کا زندگی کا سفر تو جیسے تیسے کٹ گیا مگر اس کی رو ح زخم زخم اور پورا وجود کرچی کرچی ہو گیا کمرے میں جس جگہ اس کی ماں نے آخری سانس لی وہاں ایک میز پر وہ روزانہ تازہ پھول بکھیرتا اور اپنی عظیم محسن اور غم خوار ماں کی خدمت میں آنسوئوں اور آہوں کا نذرانہ پیش کرتا کسی نے سچ کہا ہے کہ شجر تناور کو اگر دیمک لگ جائے یا کسی آدمی کے دل میںغم بیٹھ جائے تو دونوں کا جانا ٹھہر جاتا ہے ۔رولاں بارتھ بھی جذباتی انہدام کی تاب نہ لا سکا اور 25مارچ 1980کو یہ آفتاب جہاں تاب عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب عازم سفر ہو گیا ۔وہ شعلہ جوالا تہہ خاک چلا گیا جو زندگی بھر اپنی گرمی ء گفتار سے دلوں کا ایک ولولہ ء تازہ کی نوید سناتا رہا۔لسانیات کا یہ مسکراتا ہوا دبستان اور اپنی فکر پرور اور خیال افروز گفتگو سے محفل کو مسحور کر دینے والے نقاد سے فرشتہء اجل نے تاب گویائی اور قلم چھین لیا۔اس کی وفات سے ساختیاتی فکر کا ایک اہم ستون زمیں بوس ہو گیا۔نظر ی و عملی تنقید کی عظیم الشان رویات اور زندگی کی اقدار عالیہ کی ترجمانی کا باب اپنے اختتام کو پہنچا۔کئی حقیقتیں خیال و خواب بن گئیں اور بزم ادب سوگوار ہو گئی ۔پوری دنیا کو اپنے تہلکہ خیز خیالات سے چونکا دینے والا جری تخلیق کار جس خاموشی سے عازم اقلیم عدم ہو گیا اس نے سب پر حیرت اور سکتے کی کیفیت طاری کر دی ۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھو ںکہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
سلسلہ ء روز و شب نقش گر حادثات ہے ۔اس وسیع و عریض عالم آب و گل کے مظاہر ،دراز کا رجہاں ،اسرار و رموز اور تعاملات ا س حقیقت کے مظہر ہیںکہ یہ کائنات ابھی شاید نا تمام ہے اسی لیے دما دم صدائے کن فیکو ن کانوں میں گونجتی ہے ۔جہاں تک تخلیق ادب کا تعلق ہے تو اس کے سوتے اس تمام اسی معنی خیزی سے پھوٹتے ہیں ۔ادب کے بارے میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کہ ایک فعال مستعد اور زیرک تخلیق کار اپنی تخلیقی فعالیت کے اعجاز سے محض گنجینہ ء معانی کے طلسم کی گرہ کشائی نہیںکرتا بلکہ ایک پھول کا مضمون سو رنگ سے باند ھ کر نئے معانی کو سامنے لاتا ہے ۔اس کی یہ حیران کن فعالیت ید بیضا کا معجزہ دکھاتی ہے اور نئے معانی کی تخلیق اور نئے مفاہیم کی آفرینش سے ایک دھنک رنگ منظر نامہ مرتب ہوتا ہے رولاں بارتھ کے خیال کے مطابق فکر و خیال کی اسی جولانی کو تخلیق ادب پر محمول کرنا چاہیے ۔اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا کی کسی بھی زبان کا ادب محض لفظی مرقع نگاری کے ذریعے تمام مناظر ،مطالب اور مفاہیم تک رسائی کے امکانات سامنے نہیں لاتا بلکہ اس کے معجز نما اثر سے ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے غیب سے نئے نئے مضامیں خیال میں آتے چلے جاتے ہیںاور اس طر ح ا یک ایسا غیر مختتم سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو نت نئے معانی اور مفا ہیم کی تشکیلات پر منتج ہوتا ہے ۔ اس لیے رولاں بارتھ نے ادب کو معنی خیزی کا نقیب قرار دیا ۔یہ معنی خیزی اس قدر وسیع ،جامع اور ہمہ گیر ہوتی ہے کہ ہر لحظہ اس کی نئی شان قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔زبان کے بارے میںرولاں بارتھ کے تصورات ساختیاتی فکر کو سمجھنے میںمدد دیتے ہیں ۔اس نے زبان کے ہمہ گیر اثر کو زیر بحث کاتے ہوئے لکھا ہے :
“Language in concrete situations-resembles that between langue /parole but,so to speak ,brings within the scope
of language elements-the recursive process underlying sentence formation-regarded by Saussure as belongin to
parole.” (1)
رولاں بارتھ نے سوسئیر کے خیالات کی تشریح و توضیح میں ہمیشہ گہری دلچسپی لی ۔اس نے اپنی کتا ب عکس ،موسیقی اور متن (Image ,Music and Text)میں زبان ،الفاظ اور ابلاغ کے متعد اہم پہلوئوں کو زیر بحث لاتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ تصویر کی ہمہ گیر اثر آفرینی کا ایک عالم معترف ہے ۔اس نے اس کتاب میںمتعدد دلکش تصاویر کو شامل کیا ہے۔کچھ تصاویر تو ایسی ہیں کہ جن کی خاموشی گفتگو ہے اور بے زبانی زبان کا منفرد انداز لیے ہوئے ہے ۔مثال کے طور پر چند تصاویر جو مئوثر ابلاغ کو اس طر ح یقینی بناتی ہیںکہ ان کے حسن و دلکشی کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے ۔ان میں تیر انداز ،مہ جبیں حسیانائوں کا ہجوم اور ان کا انداز دل ربائی ،شاہی دربار کا جاہ و جلال،نئے بادشاہ کی رسم تاج پوشی ،مرنے والے پر جاں کنی کا عالم ،حالت نزع کے تاثرات ،پیغام اجل ،ماتمی جلوس ،مراقبہ، یاد رفتگاں ،جدائی کی کیفیت ،مرنے والوں کے لواحقین کی آہ و فغاں ،عالم حسرت و یاس اور آبشار کی تصاویر کو جس فنی مہارت سے تیار کیا گیا ہے وہ فن کا ر کے ذوق سلیم کا واضح ثبوت ہے ۔رولاں بارتھ نے تصاویر کی مدد سے زندگی کی مقتضیات اور حقیقی معنویت کی بڑے احسن طریقے سے تشریح کی ہے ۔
تخلیق ادب میں کئی معتبر حوالے منصہء شہود پر آتے ہیں ۔ان میںسے بعض کردار بہت اہمیت کے حامل ثابت ہوتے ہیں۔بعض اوقات تخلیق کار کے معتوب کردار اس بے دردی کے ساتھ تختہء مشق بنائے جاتے ہیں کہ توبہ ہی بھلی۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ معتوب کردا رتخلیق کار کے نوک قلم کے نیچے سسکتے ،تڑپتے اور نیم جاں کیفیت میں بے بسی کے عالم میںپڑے ہوتے ہیں مگر کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا۔رولاں بارتھ نے تخلیق کار کے اس رویے پر گرفت کی اور قاری کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ کاش ان کردارو ںکو کبھی اس انتقامی کارروائی سے نجات مل سکتی جو کہ تخلیق فن کے لمحو ں میں اس کے ساتھ روا رکھی جاتی ہے ۔رولاں بارتھ نے ایک سچے تخلیق کار کے منصب سے بحث کرتے ہوئے اس امر پر اصرار کیا کہ ہر کردار کے ساتھ منصفانہ سلوک ضروری ہے ۔معتوب کردار بھی اس با ت کاحق رکھتے ہیں کہ وہ اپنا دفاع کر سکیںاور مصنف کے یک طرفہ سلوک اور حقار ت آمیز مرقع نگاری اور نفرت سے بچ سکیں ۔مصنف جو الفاظ استعما ل کرتا ہے ان کی صداقت کے بارے میں گہری چھان پھٹک نا گزیر ہے ۔ تصو یر ایک ہی رخ اور ایک لفظ کے واحد معنی پر رولاں بارتھ کو شدید اعتراض تھا۔اس کا خیال تھا کہ ایک لفظ اپنے دامن میں ایک صد رنگی کی کیفیت لیے ہوئے ہوتا ہے ۔اس کے معانی کی متعد د پرتیں اور طرفیں ہوتی ہیں ۔رولا ںبارتھ نے اظہار ،ابلاغ اور کثیر المعنویت کے سلسلے میں بڑی چشم کشا صداقتیں بیان کی ہیں ۔اس نے لکھا ہے :
“It is said that we preserve the meaning of words : in short that the word has only one meaning:the right one .This rule illicitly engenders a suspicion what is worse,a general trivialization of metaphorical language.”(2)
تاریخ کو رولاں بارتھ نے ایک ایسے علم کا نام دیا ہے جو چونکا دینے اور ورطہ ء حیرت میں ڈال دینے کی صلاحیت سے متمتع ہے ۔حریت فکر کے ایک مجاہد کی حیثیت سے رولاں بارتھ نے تقلیدی رجحانات کے مسموم اثرات سے بچنے کی راہ دکھائی،اس نے ادبی ،لسانی ،تہذیب اورثقافتی اقدار و روایات کے پرانے اور فرسودہ تصورات کی اسا س پر استوار کاخ و ایوان کو تیشہ ء حرف سے منہدم کر دیا ۔زبان کو اس نے کبھی شفاف میڈیم تسلیم نہ کیا اور ان لوگوں کے انداز فکر کو گمرا ہ کن قرار دیا جو زبان کو ایک شفاف میڈیم کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ادبی تنقید کو اس نے ایسا دلکش اسلوب اور ڈسکورس عطا کیا کہ اسے تخلیق کی رعنائیو ں سے مزین کر دیا ۔اس کا خیال تھا کہ بادی النظر میں ماضی ،حال اور مستقبل کے متعلق مثبت شعور و آگہی کے سوتے تاریخ کے حقیقی شعور سے پھوٹتے ہیں ۔تاریخ کے مسلسل عمل سے آگاہی کی صورت میں انسان اپنے حال کو سنوارنے کے لیے بہتر لائحہ ء عمل اختیا کر سکتا ہے ۔اس کے اعجاز سے ایک مثبت انداز فکر پروان چڑھتا ہے اور انسان یہ محسوس کر لیتا ہے کہ ستارو ںسے آگے اور بھی جہاں ہیں۔اس کی نگاہ بلند ہو جاتی ہے اور وہ ستارو ںپہ کمند ڈالنے کی صلاحیت اپنے اندر موجزن محسوس کرتا ہے ۔آج کے دور میںزندگی کی برق رفتاریو ں نے فاصلو ں کی طنابیں کھینچ لی ہیں ۔تاریخ کے مسلسل عمل سے آگاہی کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لانے والے اولو العزمان دانش مند جبرکا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت ضمیر کی راہ اپناتے ہیں۔جب ایک جر ی تخلیق کار حق گوئی ،بے باکی اور صداقت کی مشعل تھام کر تخلیق فن پر مائل ہوتا ہے تو اس کا وجود مہیب سناٹو ں میں حق کی آواز اور ہولناک تاریکیوں میں ستارہء سحر اور جانگسل تنہائیوں ایک قابل اعتماد ساتھی کی حیثیت سے حوصلے اور ہمت کی نوید بن جاتا ہے۔
رولاں بارتھ کو اس بات کا شدیدقلق تھا کہ چربہ ساز ،سارق،کفن دزد ،جعل ساز اور خفاش عناصر نے گلشن ادب پر دھاوا بو ل دیا ہے ۔ان لفاظ حشرات سخن کی چیرہ دستیوں کے باعث فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم اب تک نہیں آسکا۔قلم فروش ادیبوں کے قبیح کردار کو ہدف تنقید بناتے ہوئے رولاں بارتھ نے واضح کیا ہے کہ ان سفہا ،اجلاف و ارزال اور ساتا روہن کی وجہ سے ادب نے الفاظ کے سرطان کی صورت اختیار کر لی ہے ۔جب بھی لفظ کی حرمت کو پامال کیا گیا رتیں بے ثمر ہو کر رہ گئیں ۔ایک سچے تخلیق کار کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے تخیل کی جولانیوں سے رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے اپنے الفاظ میں اس طر ح اتار ے ہیں ہے کہ قاری ان کی رو ح کی گہرائیو ںمیں اتر جانے والی اثر آفرینی سے مسحور ہو جائے ۔رولاں بارتھ کی تحریروں میں یہی اثر آفرینی اپنا رنگ دکھاتی ہے ۔اپنے تخیل کی جولانیو ںسے قاری کو ورطہء حیرت میں ڈالنے میں رولاں بارتھ کو ید طولیٰ حاصل ہے ۔ادبی دبستانوں سے دامن بچاتا ہو ا وہ اپنے لیے ایک الگ اور منفرد راہ کا انتخاب کرتا ہے اس کی اس انفرادیت میں کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں ۔اپنی ادبی زندگی اور تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے وقت رولاں بارتھ نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ اس کا تعلق قلم و قرطاس کے حوالے سے تخلیق ادب سے ہے ۔اس نے کبھی تنقید ،لسانیات یا دیگر نظریات کے حوالے سے احساس تفاخر کا اظہار نہیں کیا۔عجز و انکسار اس کی فطرت کا حصہ تھا ۔
رولاں بارتھ کا معر کہ آرا کا م S/Zہے جو کہ بالزاک کے ناولٹ ( Sarrasine )کے تجزیاتی مطالعہ پر مبنی ہے ۔ بالزاک کا ناولٹ تیس صفحات پر مشتمل ہے ہے اور ادبی حلقوں میں اس کی زیادہ پذیرائی بھی نہ ہو سکی ۔رولاں بارتھ نے اس ناولٹ کا اس قدر جامع اور عالمانہ تجزیہ پیش کیا ہے کہ دو سو صفحات میں اس کے تمام پہلو کھل کر سامنے آگئے ہیں ۔اسلوب اور ڈسکورس کے اعتبار سے S/Zاپنی مثال آپ ہے ۔عالمی ادبیات میںفکشن کی تنقید کا اس قدر ارفع معیار اس سے قبل کہیں دکھائی نہیں دیتا ۔S/Zجو کہ 1970میں شائع ہوئی تنقید کا بلند ترین معیار پیش کرتی ہے ۔رولاں بارتھ کی پس ساختیاتی فکر کے اہم پہلو ا س اہم تصنیف میںیک جا ہو گئے ہیں ۔اسلوب کی دل کشی اور انفرادیت کی منفرد شان کی بدولت یہ کتاب مسلسل مرکز نگاہ چلی آرہی ہے ۔رولاں بارتھ نے ادب ،تہذیب اور ثقافت کے بارے میں اپنا موقف نہایت مدلل انداز میں پیش کیا ہے ۔ثقافتی اقدار کے متعلق رولاں بارتھ کا انداز فکر نہ صرف حقیقت پسندانہ ہے بلکہ اس نے اپنے جاندار اسلوب سے معا شرت اور ثقافت کی اہم اقدار کو زندگی کی حقیقی معنویت سے آشنا کیاہے ۔اس کا خیال تھا کہ ایک زیرک تخلیق کار کو اپنا یہ فرض کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ حرف صداقت لکھنا اس کا نصب العین ہے ۔ رولاں بارتھ نے زندگی کے بارے میں کئی پہلوئوں کو پیش نظر رکھا ہے ۔اس نے اس حیات مستعار کو اہم نشانات ،علامات ،اشارات اور کوڈز کی صورت میں دیکھنے کی جو سعی کی ہے وہ اس کے ندرت تخیل کا شاندار نمونہ ہے ممتاز نقاد اور دانش ور جوناتھن کیولر (Jonathan Culler )نے رولاں بارتھ کی تصنیف S/Zسے درج ذیل اقتباس پیش کیا ہے ؛
“The classic remedy…..is to treat them ironically by superimposing a second code that enunicates them with detachment…In saying that Sarrasine,had hoped for dimly lit room,a jealous rival,death and love,etc,the discourse mingles three staged codes ….The code of passion establishes what Sarrasine is supposed to be feeding;the novelistic code transforms this feeling ,into literature:it is the code of an innocent author who has no doubt that the novelistic is a just(natural)expression of passion.The ironic code takes up the,naivete,of the first two codes:as the novelist undertakes to speakof the character(code2)the ironist undertakes to speak of the character(code2),the ironist undertakes to speak of the novelist (code 3)….it would suffice to produce….a pastiche of Balzac to take one step further this staggering of codes.The effect of this can tilevering?Constantly going beyond the previous stage and aspiring to infinity.It constitutes writing in all powerof its play.(3)
رولاں بارتھ کو جو مقبولیت اور پذیرائی نصیب ہوئی اس کے پس پردہ جو تخلیقی عوامل اور محرکات کار فرما ہیں ان کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہوئے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس کے مزاج کی متضاد ،تہلکہ خیز،بت شکن او رسیمابی روش نے اسے جو انفرادیت عطا کی اس کے اعجاز سے اس نے جریدہ ء عالم پر اپنا دوام ثبت کر دیا۔ اس نے ساختیاتی فکر کو نئی جہات سے آشنا کیا ۔ساختیات ،لسانیات ،نشانات اور علامات کے نظام کے شارح کی حیثیت سے بڑے زورو ںسے اپنے آپ کو منوایا۔رولاں بارتھ نے تنقید کو تخلیق کی چاشنی عطا کی اور اس کی تحریروں میں دلچسپی سے لبریز قابل مطالعہ مواد نے قاری کی توجہ حاصل کی ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کی تحریروں سے مسرت ،شادمانی ،حوصلے اور امید کی نوید ملتی ہے ۔متن میں پوشیدہ گنجینہ ء معانی کے بارے میں کوڈز کی اختراع اس کی سوچ کا ایک انوکھا پہلو سامنے لاتی ہے ۔اس کا خیال تھا کہ متن کی تفہیم اور توضیح صرف قاری سے منسلک ہے اس عمل میں مصنف کا سرے سے کوئی کردار ہی نہیں ۔اس کا شہرہء آفاق تجزیاتی مضمون “The death of the author”اس کی بت شکن روش کا مظہر ہے ۔رولاں بارتھ نے اپنے اس نوعیت کے انقلابی تصورات سے پوری ادبی دنیا کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا ۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس کی اقلیم فن میں حیرت کی فرماں روائی ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ وہ اپنی معرکہ آرا تحریرو ں سے سب کو حیران کر گیا اور یہی اس کے کمال فن کا راز ہے ۔
تخلیقی عمل جس محنت ،لگن ،انہماک اور عمیق مطالعہ کا متقاضی ہے رولاں بارتھ نے اس پر توجہ مبذول کراتے ہوئے ایک مثال دی ہے ۔ہر بر ٹ جو کہ انقلاب فرانس میں ایک سر گر م کارکن تھا اور ایک اخبار کا مدیربھی تھا ۔ وہ اخبار کو کبھی شائع نہ کرتا جب تک اس کا عمیق مطالعہ نہ کر لیتا ۔تحر یر کے بین السطور مفاہیم پر اس کی کڑی نظر رہتی ۔اس سے وہ یہ مراد لیتا ہے کہ ہر زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لفظ کی حرمت کو ہمیشہ ملحوظ رکھے ۔رولاں بارتھ کی کتاب “Writing degree zero”میں ان تمام عوامل کی وضاحت کی گئی ہے ۔اس کتاب سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
“They signified a whole revolutionary situation.Here is an example of a mode of writing whose function is no longer only communication or expression but the imposition of something beyond language which is both history and the stand we take in it.” (4)
رولاں بارتھ نے مصنف اور مسودہ نویس کے مابین پائے جانے والے فرق کو واضح کیا ۔اس نے چربہ ساز عناصر کو اس طر ح آئینہ دکھایا کہ ان کی قلعی کھل گئی ۔ایک زیرک مصنف جب قلم تھام کر پرورش لوح و قلم میں مصروف ہوتا ہے تو اس کی تحریر نوائے سروش کا درجہ حاصل کر لیتی ہے اس کے بر عکس ایک متفنی چربہ ساز معاشرے کی نظرو ںمیں گرجاتا ہے ۔قارئین اس کی قلابازیوں ،ملمع کاری اور جعل سازیو ں کو لائق اعتنا نہیں سمجھتے ۔رولاں بارتھ نے لفاظ حشرات سخن کی چیرہ دستیو ںکا تمام احوال نہایت دیانت داری سے بیان کیا ہے ۔گلشن ادب کو ان کے مسموم اثرات سے نجات دلانے کے لیے رولاں بارتھ نے فکری سطح پر جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ۔اس نے حق گوئی اور بے باکی کو جس طر ح اپنایا اس کی بنا پر تاریخ ہر دور میں اس کی تعظیم کرے گی ۔
فنون لطیفہ کے ساتھ رولاں بارتھ کی دلچسپی اس کے ذوق سلیم کی مظہر سمجھی جاتی ہے ۔اس کا خیال تھا کہ ہر پیکر تصویر ایک نقش فریادی کے روپ میں دعوت نظارہ دیتا ہے ۔ہر تصویر اپنے اندر ابلاغ کے وسیع تر امکانات لیے ہوئے ہوتی ہے ۔تصاویر ایک قلزم معانی کے مانند ہیںان کی غواصی کرنا اور ان کی تہہ سے معانی کے گہر ہائے آبدار بر آمد کرنا بلا شبہ ایک کٹھن مرحلہ ہے ۔رولاں بارتھ نے مراقبے کے ذریعے تصاویر کے معانی اخذ کرنے کے متعدد تجربات کیے۔وہ فن مصوری اور فوٹو گرافی کے جملہ اسرار و رموز کی اس طرح گرہ کشائی کرتا ہے کہ اس پر ایک ماہر مصور کا گمان ہوتا ہے ۔اس نے یہ بات زور دے کر کہی کہ جامد و ساکت تصاویر بھی زبان حال سے کچھ نہ کچھ مطالب ادا کرتی ہیں۔اس نے لکھا ہے :
“Photography is a kind of primitive theater,a kind of tableauvivant,a figuration of the motionless and made up face
beneath which we see the dead.” (5)
رولاں بارتھ کی سیماب صفت اور تہلکہ خیز تحریرو ںکے بارے میںرد عمل بھی ظاہر ہوا۔بعض لوگو ں نے اسے جدت ،تنوع ،ندرت اور انفرادیت کی اقلیم کا بے تاج بادشاہ قراردیا ہے تو کچھ لوگ ایسے بھی ہیںجو اس کی تحریروں پر یاسیت زدہ ہونے کا الزام لگاتے ہیں اس تمام صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے گراہم ایلن (Graham Allen )نے لکھا ہے :
ـ”The modern writer for Barthese is a sisyhean figure,continually striving to create a free writing ,continually experiencing the collapse of writing into Literature.Barthese thesis is pessimistic,but it is also more Marxist than Sartre,s in its sense of relation between writing and society.”(6)
رولاں بارتھ نے مکتبی تنقید کو قابل اعتبا رنہیں سمجھا۔اس کا خیال تھا کہ مکتبی نقادو ںنے اپنی بے بصری ،کو رمغزی اور جہالت مآبی کی وجہ سے تنقید کو بازیچہء افطال بنا دیا ہے ۔مکتبی تنقید کی وجہ سے سنجیدہ تحریروں کے حسن و قبح کو زیر بحث لانے کا سلسلہ رو بہ زوال ہے ۔مکتبی تنقید میں تاریخ ،نفسیات ،لسانیات اور نظریات کا حقیقی شعور عنقا ہے ۔رولاں بارتھ نے خود نوشت اور آپ بیتی کی اصلیت کے بارے میںاپنے تحفظات کا اظہارکیا۔ وہ آزادیء تحریر اور آزادیء اظہار کو انسانی آزادی سے تعبیر کرتا تھا۔جبر کا ہر انداز مسترد کرنا اور ہوائے جور و ستم میں بھی رخ وفا کو تاباں رکھنا حریت فکر کے مجاہدوں کا شیوہ ہو تا ہے ۔متاع لوح وقلم چھن جانے کے باوجود بھی یہ لوگ خون دل میں انگلیاں ڈبو کر حرف صداقت لکھنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔رولاں بارتھ نے ظلم کے تمام ضابطے مسترد کر دیئے کیونکہ ان کی وجہ سے آزادیء اظہار کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں ۔اس نے یہ بات ببانگ دہل کہی کہ روشنیو ں کی راہ میں جو بھی دیوار بنتا ہے سیل زماں کے تھپیڑے اسے خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں ۔اس نے اپنی خود نوشت میں اپنا تمسخر بھی اڑایاہے اس کام کے لیے بڑے ظرف کی ضرورت ہوتی ہے۔اسے مدت سے جو حسرت انصاف تھی اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس نے خود اپنے خلاف بھی کئی فیصلے صادر کر دیئے ۔اپنی آپ بیتی میں اس نے بڑے دلچسپ انداز میں زندگی کے تلخ حقائق سے پردہ اٹھایا ہے ۔اس نے لکھا ہے:
“I my self am my own symbol,I am the story which happens to me :free wheeling in language ,I have nothing to compare myself to ;and in this movement the pronoun of imaginary ‘I” is in-pertinent ;the symbolic because literally immediate:essential danger for life of the subject:to write on oneself may seem a pretentious idea;but it is also a simple idea:simple as the idea of suicide.” (7)
زندہ خیالات اور ابد آشنا تصورات لوح جہاں پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جاتے ہیں جب کہ تقلید کی مہلک روش اختیار کرنے والے اپنی موت آ پ مر جاتے ہیں ان کا نام حرف غلط کی طرح مٹ جاتا ہے ۔عالمی ادبیات کو تنقید ،تخلیق ،نفسیات ،لسانیات ،فلسفہ ،عمرانیات اور علم بشریات کے جملہ اسرار و رموز سے آشنا کرنے والے اس دانش ور کا نام ادبی حلقوں میں ہمیشہ عزت و وقار کے ساتھ لیا جائے گا ۔اس نے نئے زمانے اور نئے صبح و شام پیدار کرنے کا احساس اجاگر کیا ۔اور اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ احساس زیاں کا عنقا ہونا خطرے کی گھنٹی ہے ۔امروز کی شورش میں اندیشہ ء فردا کا پید ا ہونا تنقید کا ثمر ہے ۔رولاں بارتھ نے اپنے لسانی نظریات سے جمود کا خاتمہ کیا اور فکر و نظر کے نئے دریچے وا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔عالمی ادبیات میں اس نقاد کے دبنگ لہجے کی صدائے باز گشت تا ابد سنائی دیتی رہے گی ۔الفاظ کے نئے نئے معانی اور مفاہیم کی جستجو کی جو راہ رولاں بارتھ نے دکھائی وہ اس کی اعلیٰ سوچ کی علامت ہے ۔اس نے لسانی تنقید کا دامن گل ہائے رنگ رنگ سے مالامال کر دیا ۔اس کے کمالات کا عدم اعتراف احسان فراموشی کے مترادف ہے ۔دنیا کا نظا م ازل سے چل رہا ہے اور ابد تک چلتا رہے گا ۔اس میں سکو ںمحال ہے ثبات تو صرف ایک تغیر کا نام ہے ۔خوب سے خوب تر کی جستجو کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا ۔رولاں بارتھ پر شکوہ آواز کی باز گشت تنقید و ادب کے ایوانوں میں ہمیشہ گونجتی رہے گی ۔
پھیلی ہیں فضائوں میں اس طرح تیری یادیں
جس سمت نظر اٹھی آواز تیری آئی
مآخذ
(1)Roland Barthes:Image ,Music ,Text, Fontanna Press,1977, Page 8-
(2)Roland Barthes: Criticsm and Truth ,Athlone Press London ,1987, Page 6-
(3)Jonathan Culler :Barthes,A very short introduction,Oxford University Press ,London Page71-
(4)Jonathan Culler:Barthes ,A very short introduction, Page,17-
(5)Rolan Barthes:Camera Lucida,Translated by Richard Howard,Hill and Wang ,London Page 32-
(6)Graham Allen :Roland Barthese ,Routledge ,London ,2004, Page 20-
(7)Roland Barthese:Roaln Barthese by Roland Barthese ,Translated by Richard Howard,Los Angles 1977,Page 56-
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...