عالمی شہرت کا حامل جرمن ادیب گنٹر گراس تیرہ اپریل 2015کو ستاسی سال کی عمر میں نشیبِ زینہ ء ایام پر عصا رکھتا عازمِ اقلیم عدم ہو گیا۔اپنے الفاظ کی ترنگ اور دبنگ لہجے سے جرمن قوم کو ماضی کے جان لیوا سناٹوں اور سکوتِ مرگ سے نجات دلانے والے اس جری تخلیق کار کی صدا ہمیشہ کے لیے مہیب سناٹوں میںڈوب گئی۔ اس کی اچانک موت کی خبر سن کر دنیا بھر میں اس کے کروڑوں مداح سکتے کے عالم میںہیں۔قارئینِ ادب کے دلوں کو ایک ولولہء تازہ عطا کرنے والے ابد آشنا اسلوب کے حامل اس یگانہء روزگار ادیب نے نئی نسل کو جہد و عمل اور حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ دکھائی ۔اس نے جو طرزِ فغاں ایجاد کی اُسی کوگلشنِ ادب میںزمزمہ خواں طرز ادا قرار دیتے ہیں۔اس کے افسانے اور شاعری افکارِ تازہ سے مزین گُل ہائے رنگ رنگ کے ایسے حسین گل دستے ہیںجن کی عطر بیزی سے قریہء جاں معطر ہو جاتا ہے اور قاری وجد کے عالم میں جہانِ تازہ کی جانب اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔اس کے تخلیقی اسلوب کو نادر اور متنوع خیالات کا منبع سمجھا جاتا تھاجو سیاسی ،سماجی اور معاشرتی زندگی میں تازہ ہوا کے ایک جھونکے کے مانند تھا۔اس کے منفرد اسلوب نے ادب سے جمود کا خاتمہ کیااور اس کے معجز نما اثر سے زندگی کی حرکت و حرارت کی تفہیم میں بے پناہ مدد ملی۔دوسری جنگِ عظیم کے بعد جرمن قوم کی بیداری اور اقتضائے وقت کے مطابق حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے میں گنٹر گراس کی ادبی فعالیت نے اہم کردار ادا کیا۔اس کی طلسمی حقیقت نگاری نے اسے عالمی ادب میںایک لی جنڈ(Legend) کا مقام عطا کیا۔وہ ایک شگفتہ مزاج ، فیاض اور حیرا ن کن حد تک مسحور کن شخصیت کا مالک تھا ۔ اس کی شاعری ، ڈرامہ نگاری ، ناول نگاری ، مصوری اور افسانہ نگاری نے اس کے منفرد اسلوب کو اس قدر دلکشی عطا کی کہ اسے شہرت عام اور بقا ئے دوام کے دربار میں بلند مقام نصیب ہوا ۔ سولہ اکتوبر 1927کو پولینڈ میں جنم لینے والے اس زیرک تخلیق کار نے گرافک مصوری ،شاعری ،مجسمہ سازی،ناول نگاری ،ڈرامہ نگاری اورفنون لطیفہ کو تخلیقی مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کردیا ۔ عالمی ادبیات میں طلسمی حقیقت نگاری کو اپنے اسلوب میں جگہ دے کر گنٹرگراس نے جو طرز ِ فغاں اپنا ئی ،اسے کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ادبیات میں طلسمی حقیقت نگاری کے سلسلے میں گنٹر گراس کی طرزِ فغاں کو تخلیق کاروں نے ہمیشہ لائقِ تقلید سمجھا ۔ اپنے معاصر ادیب گبریل گارسیا مارکیز کی طرح گنٹر گراس نے بھی طلسمی حقیقت نگاری کو اپنے اسلوب میں بڑی مہارت سے استعمال کیا۔ گنٹر گراس کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن اس نے ہمیشہ حریتِ ضمیر سے جینے کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا اور جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریتِ فکر کا علم بلند رکھا۔ 1944میں محض سولہ سال کی عمر میں وہ ٹینک کے توپچی کی حیثیت سے فوج میں بھرتی ہو گیا۔اس جنگ میں وہ شدید زخمی ہوا اور 1945میں اسے جنگی قیدی بنا کر گرفتار کر لیا گیا ۔ جنگ میں لگنے والے زخموں اور قید خانے کی عقوبتوںنے اس کو اپنی حقیقت سے آ شنا کر دیا ۔اس نے فیصلہ کیا کہ اپنے وجود کا اثبات کرنے کے لیے وہ زندگی بھر امن کے لیے جد و جہد کرے گا اور اپنے قلم کو جنگ کے خلاف استعمال کرے گا۔ صرف سترہ سال کی عمر میں اسے نازی پارٹی کے مرکزی دفتر میں ہٹلر اور اس کے معتمد ساتھیوں سے ملنے کا موقع ملا۔اگلے برس قید سے رہائی کے بعداس نے پتھروں کے معمار اور مجسمہ ساز ی کی تربیت حاصل کی۔قلم وقرطاس کے ساتھ اس نے 1950میں جو عہد وفا استوار کیا اسی کو علاجِ گردش ِ لیل و نہار سمجھتے ہوئے زندگی بھر اس کو حرزِ جاں بنایا۔ 1956 میں گنٹر گراس نے قسمت آزمائی کے لیے پیرس کا سفر کیا ۔ یہاں پہنچ کر اس نے ایک فلم کے لیے کہانی لکھی ،جاز بینڈ پارٹی میں ڈھولچی کے طور پر ڈھول بجایا۔1959میں اس کے پہلے ناول’’The Tin Drum ‘‘ کی اشاعت سے وہ شہرت کی بلندیو ںتک جا پہنچا۔اس ناول میں گنٹر گراس نے دوسری عالمی جنگ میںنازیوںکے ہاتھوں بے بس انسانیت پر ڈھائے جانے والے مظالم اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کی نہایت خلوص اور دردمندی سے لفظی مرقع نگاری کی ہے ۔ دوسری عالمی جنگ میں نازی پارٹی کے ہاتھوں انسانیت پر جو کوہِ ستم ٹُوٹا اس کا احوال پُوری دیانت کے ساتھ گنٹر گراس نے اپنے اس ناول میں پیش کیا ہے۔اس ناول کی اشاعت سے جرمن ادبیات میں افکار ِتازہ کی نمود اور جہاں تازہ تک رسائی کے امکانات روشن ہوئے،فکر ونظر کی کایا پلٹ گئی اور تخلیقی سطح پر ایک عہد آفریں دور کا آغاز ہوا۔دوسری عالمی جنگ کے بعد کئی عشروں تک جاری رہنے والے لسانی اور اخلاقی انحطاط نے جرمن قوم کو ناقابلِ اندمال صدمات سے دو چار کر دیا ۔سمے کے سم کے ثمرنے جو مسموم ماحول پیدا کیا، جرمن تخلیق کار اسے دیکھ کر ہجوم غم میں دل کو سنبھالنے کی کوشش کرتے رہے۔دوسری عالمی جنگ کے بعدحالات نے جرمن ادیبوں کو اس قدر دل برداشتہ اور زوال آمادہ کر دیا تھا کہ طلوعِ صبحِ بہاراں کی توقع ہی اُٹھ گئی۔ ان کی کوئی اُمید بر نہیںآتی تھی اور نہ ہی اصلاح ِ احوال کی کوئی صورت نظر آتی تھی۔ تاریخ ِعالم میں دوسری عالمی جنگ کے وہ خوںچکاں ابواب جو ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو گئے تھے ،اس ناول میں ان کے بارے میں قارئین کو مثبت شعور و آگہی سے متمتع کرنے کی مقدور بھر سعی کی گئی ہے۔گنٹر گراس نے کبھی مصلحت اندیشی سے کام نہ لیا بل کہ نتائج سے بے خوف ہو کر تاریخ سے متعلق تمام حقائق کو اپنے اسلوب کی اساس بنایا۔ عالمی ادبیات کے باذوق قارئینِ کی یہ متفقہ رائے ہے کہ گنٹر گراس کا یہ ناول تاریخ کے فراموش کردہ عقوبتی دور کے مصائب و آلام کی لفظی مرقع نگاری کا عمدہ نمونہ ہے۔اس ناول کا دنیا کی متعدد بڑی زبانوںمیں ترجمہ کیا گیا جو اس ناول کی مقبولیت کی دلیل ہے۔ گنٹر گراس کے اسلوب کی انفرادیت نے فکر و نظر کو اس طرح مہمیز کیا کہ تخلیق ادب کو صحیح جہت اور مثبت سمت نصیب ہوئی ۔ عالمی ادب کے اس یادگارناول کی اشاعت کے چالیس سال بعد یعنی1999میں اس ناول کو ادب کے نوبل انعام کا مستحق سمجھا گیا۔اسی سال گنٹر گراس کو پرنس آف آسٹریاایوارڈ سے نوازا گیا۔اس کے مداح اکثر یہ کہتے ہیںکہ اپنی تخلیقی تحریروں میں یورپی استعمارکے خلاف گنٹر گراس نے جو سخت گیر موقف اختیار کیا ،اس کی وجہ سے وہ اکثر معتوب رہااور اس کو نوبل انعام دینے میں غیر معمولی تاخیر ہوئی۔
گنٹر گراس کی شادی1954 میں اینا شوارز (Anna Schwarz) سے ہوئی اس کے تین بیٹے اور ایک بیٹی پید ا ہوئی ۔ 1978 میں اس نے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دی ۔ 1979 میںگنڑگراس نے یوٹ گرنٹ (Ute Grunnet ) سے شادی کرلی اس سے دو بیٹے پیدا ہوئے ۔گنٹر گراس کا مشاہدہ بہت وسیع تھا،اس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد تباہ شدہ جرمنی کی حالتِ زار کو قریب سے دیکھا اور اس کی بحالی کے موضوع پر کھل کر لکھا ۔ اپنے جذبات ،احساسات ،مشاہدات اور تجربات کو پیرایہء اظہار عطا میں اسے جو مہارت حاصل تھی اس کا ہر سطح پر اعتراف کیا گیا۔ اس نے اپنی ولولہ انگیز تحریروں سے نہ صرف اپنے دلی جذبات کا ابلاغ کیا بل کہ قارئین کے فکر و نظر کو بھی مہمیز کیا۔اس کے منفرد اسلوب کا نمایاں ترین پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے اسلوب کے معجز نما اثر سے اپنی تخلیقی فعالیت اورقاری کے ذہن وذکاوت کے درمیان فکری ہم آہنگی کی ایک انوکھی کیفیت پیدا کرنے میں کا میاب ہو جاتاہے ۔اس نے نہایت عام فہم انداز میں معاشرتی زندگی کے مسائل کواپنے فکر و فن کی اساس بنایا۔ اس کا فن کارانہ عمل خلوص ،دردمندی اور انسانی ہمدردی کی اساس پر استوار ہے۔ اس کی دلی تمنا تھی کہ جہاں تک ممکن ہو آنے والی نسلوں کو جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھا جائے۔ اس کا خیال تھا کہ مواصلات کی انتہائی برق رفتار تر قی نے زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ اب مکتوب نگاری اور یاد نگاری کی رعنا ئیاں خیال و خواب بن گئی ہیں۔ انٹر نیٹ اورSMS پر پیغامات کے تبادلے کا بڑھتا ہوا رجحان تخلیقی یک سوئی کے لیے تباہ کن ہے۔حالات نے ایسا رُخ اختیار کر لیا ہے کہ کمپیوٹرکے سامنے لوگ مراقبے میں بیٹھے تصور جاناں کیے گھنٹوں وادیء خیال میں سر گرداں رہتے ہیں۔ ان کا یہ استغراق بے ثمر ثابت ہوتا ہے اور کوشش کے باوجود کوئی زندہ تخلیق منصہء شہود پر نہیں آتی۔اس تخلیقی بانجھ پن کے نتیجے میںفکر و خیال کی جو تہی دامنی سامنے آتی ہے وہ حددرجہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن کیفیت کی مظہر ہے۔اس کے مسموم اثرات سے زبان کی تنگ دامانی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اظہار و ابلاغ کی ر اہیں مسدود ہو نے لگی ہیں۔گنٹر گراس ایک کثیر التصانیف ادیب تھا اس کی تصانیف درج ذیل ہیں:
1.The Tin Drum,1959,2.Grabwalk 2002,3.Cat and Mouse 1963.4The Flounder 1977.5.Peeling the onions 2006.
6.My Century 1999,7.The Rat 1986,The meeting at Telgte 1979,9.Local Anaesthetic 1969,10.The Box 2008,
11.Unkenrufe 1992,13.Too Far Afield 1997,14.Two States one Nation 1990.
ایک حساس ،فرض شناس اور دردَ دل رکھنے والے تخلیق کار کی حیثیت سے گنٹر گراس کا بیشتر تخلیقی کا م سیاسی ارتعاشات اورمعاشرتی زندگی کے نشیب و فراز کے موضوع پر ہے۔ مثال کے طور پر 1945 میں بالٹک میں پناہ گزینوںکے سمندری جہاز کا غرقاب ہو نا ۔ کسانوں کے معیار زندگی کو بلند کر نے کے سلسلے میں دانشوروں کا کردار 1953 اور 1968 میں مشرقی جر منی کے طلبا کے احتجاج ، مشرق اور مغرب کے سیاسی تعلقات ، وفاقی انتخابا ت وغیرہ۔ اکثر ناقدین کا خیال ہے کہ گنڑ گراس کی بیش تر تخلیقی تحریروں میں سیاسی، معاشرتی اور سماجی مسائل کا ذکر اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ ادب کے عام قاری کے لیے یہ بو جھل اور اکتا دینے والی کیفیت پیدا کر نے کا موجب بن جاتا ہے۔گنٹرگراس ایک ہفت رنگ شخصیت کا مالک تخلیق کار تھا ۔ وہ ہر قسم کے جبر ،استحصال اور ظلم کا مخالف تھا۔الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا حریت فکر پر مبنی اس کے ادبی مسلک کے خلا ف تھا۔وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ جو تخلیق کار جبر کے خلاف حرف صداقت لکھنے کا حوصلہ نہ رکھتا ہو ،اُسے شعرو ادب کی وادی ء پُر خار میں قدم رکھنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ وہ گلدستہء معانی کو نئے آہنگ اور نئے ڈھنگ سے اس مہارت سے اپنے اسلوب میں سمو دیتا کہ ایک پھول کا مضمون سو رنگ سے جلو ہ گر ہو جاتا۔ اس کے اسلوب کی یہی کثیر الجہتی جہاں اسے انفرادیت کے منصب پر فائز کر تی ہے وہاںاس کی تخلیقات میں موجود دھنک رنگ منظر نامہ قاری کے لیے حیران کُن تجربہ ثابت ہوتا ہے ۔ اسے اپنی ذات پر کامل اعتماد تھا اور جس بات کو سچ سمجھتا تھا اسے ببانگ دہل کہہ دیتا ۔ہزار خوف میں بھی اس کی زبان نے اس کے دل اور ضمیر کی ترجمانی کی۔وہ جس صنف میں طبع آزمائی کر تا اسے معیار اور وقار کی رفعتوںسے آشنا کر نا ، فن مصوری میں اسے کمال حاصل تھا ۔اپنی کتب کی اشاعت کے موقع پر اپنی تمام تصانیف کے سر ورق اس نے خود تیار کیے ۔ یہ سر ورق ایک زیرک تخلیق کار کے فکر و خیال اور ذہن و ذکاوت کی رفعت کے عکاس ہیں۔اخلاقیات کے پر چار کے سلسلے میں اس کی باتیں بالعموم مستند سمجھی جاتی تھیں۔ اس کا جھکائو بائیں بازو کی جانب رہا ،یہی وجہ ہے کہ اس نے جبر و استحصال کے خلاف دبنگ لہجے میں با ت کی۔ تیشہء حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنا ہمیشہ اس کا نصب العین رہا۔اس نے ظالم و سفاک ،موذی و مکار استحصالی عناصر کے مکر کا پردہ فاش کرنے میں کبھی تامل نہ کیا۔
اس کی تہلکہ خیز خود نوشت ’’Peeling The Onions‘‘سال2006میںمنصہء شہود پر آئی۔اس خود نوشت کی اشاعت کے ساتھ ہی یورپی ممالک میں گنٹر گراس کی شخصیت کے بارے میں شدید اختلاف ِ آرا پر مبنی فکری مباحث کا ایک غیر مختتم سلسلہ چل نکلا۔اپنی خود نوشت میں گنٹر گراس نے تسلیم کیا کہ وہ دوسری عالمی جنگ کے آخری مہینوں میںWaffen-SSکا سر گرم رکن رہا اور اسے تنظیم کی ملٹری برانچ سے ہدایات ملتی تھیں، جن پر وہ عمل کرتا رہا۔یہیں اس کی ملاقات نازی پارٹی کی صفِ اول کی قیادت سے ہوتی تھی۔ یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں کہ یہ تنظیم نازی دور میں اپنی ہلاکت خیزیوںاور سفاکیوں کے باعث خوف اور دہشت کی علامت بن گئی تھی۔اس رسوائے زمانہ تنظیم نے اپنی مشقِ ستم، شقاوت اور سفاکی سے رُتیں بے ثمر ،کلیاں شرر ،آہیں بے اثر ،زندگیاں پُر خطر اور بستیاں خوں میں تر کر دیں۔اس انکشاف کے بعد اس کے لاکھوں مداح جو اسے حریتِ ضمیر اوراخلاقیات کی علامت خیال کرتے تھے ششدر رہ گئے۔ہر شخص نے اس نوشتہء دیوار کو پڑھ لیا تھا اور ان کے ذہن میں یہی خیال گردش کر ر ہا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہے گنٹر گراس ،تمھارے منفرد اسلوب کا جادو سداسر چڑھ کر بولتا رہے گا،تمھاری تخلیقی فعالیت پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منواتی رہے گی،تم اسی طرح پرورشِ لوح و قلم کرتے رہو اور اپنے تجربات و مشاہدات کو صفحہء قرطاس پر منتقل کر کے تزکیہ نفس کے ذریعے انسانیت کے ساتھ وفا کا دم بھرتے رہو،تم قلم و قرطاس کے ساتھ اپنی دیرینہ وابستگی کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی یاد ،فریاد اور روداد کو زندہ لفظوں کے قالب میں ڈھالتے رہو،تم نے خون بن کر رگِ سنگ میںاُترنے کی جو سعی کی ہے وہ جاری رہے،اپنے خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر جس بے باکی کے ساتھ تم نے جنگ زدہ اقوام کے مصائب و آلام کے خلاف آواز بلند کی وہ جذبہ مزید قوی ہو،تمھاری طرزِ فغاں مستقبل میں جری ادیبوں کی طرزِ ادا بن جائے ،تمھاری تحریروں کی جاذبیت میںاس قدر اضافہ ہو کہ ہر دور میں تمھارے مداح ان کے مطالعہ میں انہماک کا مظاہرہ کرتے رہیں،سب باتیں اپنی جگہ بر محل اوردرست ہو سکتی ہیں لیکن تم سے بس ایک استدعا ہے کہ اب اخلاقیات کے موضوع پر کبھی بات نہ کرنا۔کواکب جیسے دکھائی دیتے ہیں ویسے نہیں ہوتے اور کئی خواب محض سراب بن کر مستقل طور پر عذاب بن جاتے ہیں۔
اپنی شہرہء آفاق نظم ’’What must be said‘‘میں گنٹر گراس نے حریتِ فکر کا ارفع معیار پیش کیا ہے۔اپریل 2012 میں شائع ہونے والی گنٹر گراس کی یہ نظم ظلم کے خلا ف للکار اور جبر کے خلاف ایک پیکار کی حیثیت رکھتی ہے۔اپنی اس نظم میں گنٹر گراس نے ا سرائیلی حکومت کے بڑھتے ہوئے جارحانہ عزائم کوہدفِ تنقید بنایا ہے۔اسرائیل کی طرف سے ایران کے خلاف طاقت کے استعما ل کی دھمکی پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے گنٹر گراس نے واضح کیا کہ اسرائیل کی جارحیت کے نتیجے میںہو لناک تباہی ایران کے مظلوم عوام کا مقدر بن جائے گی۔ اسی نظم میں جرمن حکومت اور اسرائیلی حکومت کے مابین طے پانے والے اس تجارتی معاہدے پر گرفت کی گئی ہے جس میں اسرائیل کو آبدوز فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔اپنی اس نظم میں گنٹر گراس نے جرمن حکومت کو متنبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو جرائم کے لیے سامان فراہم کر کے ایٹمی اسلحے کے پھیلائو میں معاون ہے۔ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم کے خلاف بھی اس نظم میں صدائے احتجاج بلند کی گئی ہے ۔ گنٹر گراس نے واضح کر دیا کہ اگر زبان ِ خنجر چُپ بھی رہے تو اس کے باوجود آستین کا لہو پُکار اُٹھتا ہے ۔حریتِ فکر کے اس مجاہد کو اسرائیل حکومت نے انتقامی طور پر نا پسندیدہ شخصیت قرار دیا اور اس کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔
ایک حساس تخلیق کا ر کی حیثیت سے گنٹر گراس نے اپنی تخلیقی تحریروں سے عصری آگہی پروان چڑھانے کی جو کو ششیں کیں انھیں دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اس کا خیال تھاکہ عالمی طاقتوں کے کر تا دھرتا عالم خواب میں چلنے کے عارضے میں مبتلا ہیں ۔ ان کے قد م مسلسل آگ کے شعلوں کی طرف اٹھ رہے ہیں ۔ یہ شعلے یوکراین ، اسرائیل ، فلسطین ، عراق ،شام اور افغانستان سے اٹھ رہے ہیں ۔ ان کی وجہ سے ہر طرف یاس و ہراس کا عالم ہے مگر ذمہ دار قوتیں خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہیں ۔ مسلسل شکستِ دِل کے باعث تیسری دنیا کے عوام مُردوں سے شرط باندھ کر لمبی تان کر سو چکے ہیں اور اپنی داد رسی کے لیے اسرافیلؑ کے منتظر ہیں۔ معاشرتی زندگی میں ماحولیاتی آلودگی اور آبادی میں بے ہنگم اضافے کے با رے میںاس کی تشویش عصر ی آگہی کو پروان چڑھانے کی عمدہ مثال ہے ۔ اس کا خیال تھا کہ ماحولیاتی آلودگی اور آبادی میں بے تحاشااضافہ سے ہم اپنی تخریب میں مصروف ہیں۔ کائنات کے وسائل محدود ہیںلیکن اب مسا ئل لا محدود ہوتے چلے جا رہے ہیں۔کرہء ارض پر رہنے والوںکو اس حقیقت سے شپرانہ چشم پوشی نہیں کر نی چا ہیے کہ ہماری ہستی حباب کی سی ہے اور اس عالم آب و گل کی ساری نما ئش سراب کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس دنیا کے مہمان سرائے سے جا نے کے بعد کیا یہاںپر جو ہری فضلے کے سوا کچھ بھی نہیںرہ جا ئے گا ۔ تاریخ اور تاریخ کا مسلسل عمل اس عالمِ آب و گِل کے مکینوں سے یہی خو نچکاںاستغاثہ کر رہا ہے۔ تعلیم و تربیت ،عدل و انصاف، ا قتصادی استحکام اور معاشی خوش حالی کو اس نے معاشرتی زندگی کے امن و سکون کے لیے نا گزیر قرار دیا۔اس کا خیال تھا کہ انسان کے شعور کا معیشت اور اقتصادیات سے گہرا تعلق ہے۔تقلید کی مہلک روش کو اس نے ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھااور جدت و تنوع کو اپنے اسلوب میں نمایاں اہمیت دی۔وسیع مطالعہ،ادبی انجمنوں میں گُل افشانیء گفتار،تعلیم و تربیت ،تہذیب وشائستگی اور پاکیزہ ماحول کے اعجاز سے اس کے ذوق سلیم کو نمو ملی۔ اپنے زورِ بیان سے اس نے اپنی حقیقت اور ادبی حیثیت کو تسلیم کرایا۔اس کی آنکھوں نے دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کی تباہی اور بربادی کے جو جان لیوا،لرزہ خیز اور اعصاب شکن واقعات اپنی آنکھو ںسے دیکھے ،زندگی بھر ان کے مسموم اثرات سے گلو خلاصی حاصل نہ کر سکا۔عبرت سرائے دہر میں اس کی آنکھوں میں لُٹی محفلوں کی دُھول سدا اُڑتی رہی یہاں تک کہ اچھے دنوں کے انتظار میں اُس کی پتھرائی ہوئی آنکھیںمُند گئیں۔ دُکھی انسانیت کو درپیش انتہائی دشوار اور کٹھن حالات میں دیکھ کرانسانیت کے وقار اور سر بلندی،امن و عافیت ،خلوص و دردمندی کی جستجو میں سر گرداں عبرت سرائے دہر کا ایک آبلہ پا مسافر راہِ جہاں سے گُزر گیا۔
تیز رکھنا سرِ ہر خار کو اے دشتِ جنوں
شاید آ جائے کوئی آبلہ پا میرے بعد