’’میں تیرے سب عجیب کاموں کو بیان کروں گا!‘‘
( زبور، 9/1)
٭٭
پربت شانت تھے۔ اور ندی چُپ۔
فضائیں لافانی ٹھہراؤ سے ٹھٹھرتی تھیں ۔
اور سمے پر سناٹے کا کُہرا چھایا تھا۔
جھاگ چھوڑتے پَل ساکن تھے کہ تتھا گت پیڑ تلے بیٹھا تھا۔ ہاتھ میں پھول لیے۔ خاموش۔ چوکس۔
میری نظر اپنے ادھیاپک پر ٹکی تھی۔ اور میں دیکھ سکتا تھا، خواہش کی جنبش سے آزاد اُس کا شریر۔ عدم وابستگی کی طمانیت سے لشکتا چہرہ۔
میں دیکھ سکتا تھا کہ میں وہیں تھا۔ اس کے پہلو میں ۔ ہمیشہ کی طرح، ایک سایے سا۔
تو وہاں سکوت تھا، جس میں اطمینان سانس لیتا۔خاموشی اُس کی بھاشا تھی۔
پروہ، جو اُس کے درشن کو آئے تھے — ارغوانی لبادوں میں ملبوس، اُسے اپنا کُلماننے والے، اس کے سیوک….اُن کے من میں اضطراب جوش مارتا کہ وہ خواہشات سےآزاد نہیں تھے، بلکہ نتھی تھے۔ اُس سے جو ہاتھ میں ایک پھول ….معمولی پھول….لیے چھاؤں میں بیٹھا تھا۔ اور شاخیں اُسے آغوش میں بھرنے کو جھکتی تھیں ۔
بھکشویقین کیے بیٹھے تھے کہ گیان کے ساگر میں کچھ رونما ہونے کو ہے۔ وہ بدھیمان کچھ اَن کہا، کہنے کو ہے کہ اتیت میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ سروشکتیمان یوں ہاتھ میں پھول لیے اُن کے سامنے آن بیٹھا ہو۔
تووہ مضطرب تھے۔ کسی انکشاف کے منتظر۔ اور میں بھی اُن میں شامل تھا، مگر وہ….اس صورت حال کا محرک، جسے شاخیں آغوش میں لینے کو لپکتیں ….چپ تھا۔
پل بیتتا تھا۔ اور چپ کی چاپ سنائی دیتی ، جو بھکشوؤں کے من میں جوار بھاٹے لاتی۔
اورتب جب سننے والوں کی آتما میں کچھ انوکھا سننے کی خواہش دہکتی تھی، قہقہہبُلند ہوا۔ جو وحشی تو نہیں تھا، پر وحشت میں بڑھوتی کرتا ۔
سکوت ٹوٹ گیا۔
وہ مہاکیشپ تھا۔ اُس کے مرکز سے ہنسی پھوٹتی تھی۔
بھکشوؤںمیں ، مجھے سمیت، ناپسندگی کے جرثومے نے حرکت کی۔ اور یہ متوقع تھا، ایکعظیم انکشاف کے موقعے پر جب سمے پر سناٹے کا کُہرا تیرتا ہو، جسے اُس کیشانت چپ دبیز کرتی، یوں قہقہہ لگانا ماسوائے کٹھورتا کے اور کیا ہے؟
مگر تب ایک احساس کا جنم ہوا۔
وہ — اپنے پورے وجود کے ساتھ، اُس پھول کے ساتھ جو ہاتھ میں تھا — مسکرایا۔
مہاکیشپاُس کی اُور بڑھا۔ میرے پہلو سے گزرا۔ اور اُس نے — اپنے ہر نرنے کی طرح،جو سادہ ہونے کے باوجود پُراسرار ہوتے، ہمیشہ — پھول مہاکیشپ کے حوالے کردیا۔
اب، جیوت پل میں مہاکیشپ، پھول اور وہ ایک تھے۔ اور ندی چُپ تھی۔ اور ٹہنیاں اُنھیں گود میں بھرنے کی للک میں جھکتی تھیں ۔
اور میرے شریر میں ایک بے بُو بھاؤنا پنپتی ہُوک سی اٹھتی تھی۔ کیا تھی وہ؟ اسپھل رہنے کا دکھ۔ نراشا۔ یا پھر ایرشا؟
میںآنند گوتم کے رشتے کا بھائی بڑا بھائی، جس نے اُس کی شرن میں آنے سے پہلےوچن لیا تھا کہ وہ کبھی مجھے خود سے پرے نہیں کرے گا، اور مجھے ستیہ کا پاٹپڑھائے گا۔ اور اُس نے ایسا ہی کیا تومیں اُس کا سیوک، اِس انکشاف کے بعدجس کا جنم ہو چکا تھا، اُس جیوت پل میں جو لازوال تھا، ٹھیک اُسی احساس سےگزرا، جس سے میں برسوں سے گزر رہا تھا۔
اورمیں ہر اُس موڑ پر اِس بھاؤنا سے گزرتا، جب تتھاگت کے چھُوتے ہی چرنوں میںبیٹھے بھکشو الوہی رقص کرنے لگتے ۔ اور میں اُنھیں تکتا، اچنبھے کے ساتھکہ اُس کا لمس — آہ اُس کا لمس— اپنے جادوئی اثر کے باوجود میرے خمیر میںگندھے دیوتا کو رقص پر نہیں اُکسا سکا۔ کبھی نہیں ۔
اوراُس موڑ پر بھی اسپھل رہنے کا درد میرے بھیتر چبھتا، جب بھکشو سر جوڑےباتیں کرتے کہ سبھوتی پر پھولوں کی بارش ہوئی ہے کہ میں اِس سے محروم تھا۔
اورتب بھی میری آتما میں بھوکمپ آتے، جب کوئی کہتا کہ پیڑوں پر پھول کھلتےہیں ، جب کبھی بَن کی دھرتی اُس مہان منش کے چرنوں کا بوسہ لیتی۔ پر میں ،جو اُس کی چھایا تھا، اُس کے کٹیا میں سوتا تھا، جسے پکار کر وہ ہر باتکہتا: ’’اے آنند سن آنند تو آنند‘‘ کبھی ایسے انوبھو سے نہیں گزرا۔ نہیں ۔ایک بار بھی نہیں ۔
توپھول مہاکیشپ کے پاس تھا۔ اور میرے شریر میں محرومی کا دھواں پھیلتا تھا،جو معدے سے اٹھ کرسیدھا جبڑے تک آتا، اور پھر رک جاتا، مگر کب تک؟
آخرکار،ایک صبح، جس کی نرمی میرے ادھیاپک کے چہرے پر اترتی، اور وہاں تھرکتے ازلیتبسم سے ہم آہنگ ہوتی، میں نے دھواں اگل دیا: ’’کب؟ میں کب نواز جاؤںگا؟‘‘
اُس نے میری طرف نظر کی۔
اور اُن آنکھوں میں روشنی تھی۔
اس کے لب وا ہوئے، اور الہامی آواز کی جادوئی چٹخ میری سماعتوں میں اتری۔
’’ابھی نہیں ۔‘‘ اُس نے ایسا کہا تھا۔ ’’کم از کم میرے جیون میں تو نہیں ۔‘‘
’’کیوں ؟‘‘ میرا سوال۔ متوقع، بڑی حد تک۔
جواب میں اس کی چپ۔ سو فی صد متوقع۔
وقتگزرتا رہا۔ پر ٹھہرا رہا۔ اور پھر وہ پل آن پہنچا، جس کی آمد کا ہم نےاپنے جیون میں کبھی وشواس نہیں کرنا چاہا تھا۔ پر وشواس کیا تھا۔
عہد کا نجات دہندہ ابدیت میں داخل ہونے والا تھا۔
ہاں ، وہ رخصت ہونے کو تھا۔
آہ، اندھکار تھا،
ہم نراشاسے زمین پر اوندھے گر پڑے،
اور اس دھرتی کا ذائقہ چکھا، جس پر پل بھر پہلے ایستادہ تھے،
جو ہماری ماں تھی، پر جسے ہم بھُلا بیٹھے تھے۔
اور تب، آنسو ہمارے گلے میں بہتے تھے،
اور دل کو بھگوتے،
اُس نے نقاہت کو پرے دھکیلا۔ کہا۔ ’’نہ تو میں پہلا ہو، نہ ہی آخری!‘‘
اور باقی بھکشوؤں کو میری، اپنے سائے کی، تعظیم کی ہدایت کی۔ اور پھر، جب ٹھہرتا ہوا سمے، ٹھٹھرتا تھا، اُس نے آنکھیں بند کر لیں ۔
وہ جا چکا تھا۔ اور اضطراب تھا۔ کرب تھا۔ محرومی تھی۔
اور تب، جب آخری رسومات انجام پانی تھیں ، مہاکیشپ، جو اُس کا سندیسا لیے اَن جانی دھرتی کی اُور نکل گیا تھا، پلٹ آیا۔
کیا یہ بھی متوقع تھا؟
وہ چلا گیا، اور میں — آنند — باقی رہا۔
اورتب، جب غم سے میں اوندھا پڑا تھا، پہلی بار میں نے ایک اچانک اتر آنے والےگیان کی قوت سے جو لشکتا تھا، اُن فضاؤں میں پھول کھلتے دیکھے، جن میں اسکا سانس ہنوز مہکتا تھا۔
اور اس مٹی کو دمکتے دیکھا، جو اس کا راستہ بنی۔ اور میری نظر افق میں چھید کرتی ہوئی شعور کے پرلے کنارے تک گئی، اور لوٹ آئی۔
سب روشن تھا۔ مہکتا تھا۔ دہکتا تھا۔
’’تو اس نے ٹھیک ہی کہا تھا۔‘‘ میری آواز، میرے آنسوؤں سے بھیگتی تھی۔ ’’اس کے جیون میں نہیں‘‘
اور تب، ٹھیک تب، ایک سوال نے — اُسی سوال نے جس کا جواب اس نے اس پل نہیں دیا تھا، جب وہ موجود تھا — مجھے گھیر لیا۔
’’کیوں ؟ اُس کی مرتیو ہی کے بعد کیوں ؟ اُس کے جیون میں کیوں نہیں ؟‘‘
ہرسلگتالہکتامنظر ماند پڑ گیا۔
کیول اندھیرا تھا۔
اور تب اس پرشن نے میرے وچاروں کا رتھ سنبھالا۔
جو آکاش کی اور لپکا،
میں نے چندرما میں پرویش کیا،
اور سورج کی دہک نے میرے اشنان کا سامان کیا،
میں ندی میں اترا، اور مہا ساگر تک جا پہنچا،
جہاں میں نے پانی پر آسن جمایا،
اور گم شدہ ٹاپو کھوج لیے،
اُن پربتوں کو ڈھونڈ نکالا، جو اتھاہ گہرائیوں میں تھے۔
اور جب رتھ نے اڑان بھری، تو میں نے اُن پنچھیوں کے ساتھ پرواز کی، جن کے پنکھ سانس لیتے،
پر مجھے اس پرشن کا جواب نہیں ملا۔ اور نہیں سمجھا سکا کہ اس کے جیون میں مجھے جیون سے کیوں نہیں نوازا گیا۔
اوریوں میں اس تحفے سے، جو اس کے جیون کے وسیلے جگ میں پہنچ تھا — نروان— محروم رہا۔ کوسوں دور۔ باوجود اس کے کہ میں پانی میں سانس لیتا تھا، بنپروں کے پرواز کرتا تھا۔
آنند کو ابھی اور جینا تھا کہ خواہش باقی تھی، جس سے وابستگی جنم لیتی تھی، اور وابستگی سے دکھ کا ظہور ہوتا۔
آنند کو باقی رہنا تھا۔
تو میں باقی رہا۔ ایک سوال کے سہارا، ایک سوال کے سبب، جو میرا سانس تھا۔
تو میں باقی رہا، ہر یُگ میں ،
میں اتیت میں اترا،
تیرے جنم سے تین ہزار برس پہلے کی مٹی سونگھی،
جب سمیری لکھت کے بھیدوں پر وچار کرتے تھے،
اور میں نے حمورابی کو ضابطۂ اخلاق مرتب کرتے دیکھا،
اور مصر کی مہا پرواس کا گواہ بنا،
جب کسی تجھ سے نے دریا کو دو پاٹوں میں بانٹ ڈالا،
اور قریبی زمینوں پر میں اُس کے روبرو ہوا، جو آگ کو نیکی کی علامت مانتا تھا،
اور پھر چین کی دھرتی پر ایک خانہ بدوش استاد کو صحرا نوردی کرتے پایا۔
تو میں نے اشوک کو، تیرے پریم کا رس پینے پہلے، دھرتی کو منش کے خون سے سرخ کرتے پایا،
اوردیکھا کہ اُس نے ٹکڑیاں روانہ کیں ، جو اہراموں کی سرزمین تک جا پہنچیں ،جہاں وہ سانس لیتا تھا، جو چند برسوں بعد پہاڑ پر کھڑ ا ہو کر وعظ کرنےوالا تھا،
زمانے کو منقسم کرنا والا تھا۔
پر اس سے قبل میں نے اسپارٹکس کی بغاوت کی کہانی سنی،
اور نئے یگ میں مانی کو اپنے وچار کا پرچار کرتے پایا،
اور عرب کے ریگستانوں میں گیان کا الاؤ روشن ہوا،
اور جگت گرو کا جنم ہوا، جس کی دمک مصر، ایران، عراق تک پہنچی، اوراسپین سے ہوتی ہوئی پورے یگ پر چھا گئی۔
سمے میرا سہارا تھا۔ اور جیون میرا جیون۔
تیرا آنند صلیبی جنگوں میں گھوڑے کے سموں تلے کچلا گیا،
تیرا سیوک منگولوں کا لقمہ بنا،
اور جب سیاہ موت یورپ کے بخیے ادھیڑتی تھی، میں خوابوں کی تلچھٹ سے گاڑھا بناتا تھا،
اور جب جون آف آیرک کو شعلوں میں اتری تھی، میری سماعتوں میں مقدس پروں کی پھڑپھڑاہٹ گونجی۔
ہاں، میں تھا، اس بحری جہاز میں ، جو ایک ایسی زمین کی اُور جاتا ، جو بھوشیہمیں دنیا پر حکم رانی کرنے والی تھی،اور اُس جہاز میں بھی، جو سمندر کوچیرتے ہوئے تیرا دیس کھوجنے آتا تھا،
میں الزبتھ اول کے دربار سے منسلک ہوا، اور آتشیں اسلحے کے استعمال کا آغاز دیکھا،
اور میں نے اس انگریز کی کویتا سنی، جس کا وجود ہمیشہ معما رہا،
اور تیرے سیوک نے اس زمین پر، جہاں تیری چاپ کل کی طرح آج بھی سنائی دیتی، سنگ مرمر کی ایک عظیم عمارت تعمیر ہوتے دیکھی،
جو فقط ایک مقبرہ تھا،
اور پھر نیوٹن کا ظہور ہوا،
اور تاریکی میں پنہاں فطرت کے قوانین روشن ہو گئے،
اور میں نے والٹیر کو قلم تھمایا، اور فرانس میں کرانتی کی زمین تیار کی،
اور مغرب میں صنعتی دور کا آغاز ہوا،
اور ایک جرمن نے معاشی نظام پر قلم اٹھایا،
جس کے وچار نے کئی ریاستوں کو سرخ لبادہ اوڑھا دیا،
پہلی وشو یُدھ کا آغاز ہوا،
اور پھر دوسری وشو یُدھ ہوئی،
جس کے انت پر کھمبی نما دھول کے بادل نے جنم لیا، جس نے مجھے چوس لیا۔
اور پھر یُد سرد ہوئی، اور پھر برف پگھل گئی،
اور پھر میں نے اس ریاست میں ، جسے کولمبس کے جہازوں نے کھوج نکالا تھا، دو عمارتوں کو زمین بوس ہوتے دیکھا،
اور یوں ایک نیا یُگ ابھرا، ایک اور عہد کا آغاز ہوا،
جو مرگ کا عہد کہلایا،
جہاں بارود کی بو میں چیخیں منجمد ہو گئیں ،
اور میں نے— تیرے سیوک، تیرے آنند نے— تیرے جیون کو پُستک میں سموتے ہر لیکھک کی سماعتوں میں سرگوشیاں کیں ،
اور حفیظ کے کانوں میں الفاظ انڈیلے، جس نے لکھا تھا:
ہوائیںتیرا راستہ صاف کرتے ہوئے چلتیں راہ میں پھول بکھیر دیتیں آسمان سے پانیکے قطرے خاک بٹھانے کو گرتے ابر سر پر سایہ فگن ہوتا پرندے اپنی نرم اورشیریں آوازوں میں تیرا خیرمقدم کرتے آسمانی نغمہ فضا میں گونجنے لگتا اورانسانوں کے جسم پر موجود گہنے بجنے لگتے۔
اور ہرمین ہیسے کے قلم کی سرسراہٹ سے اپنی دھڑکن کا تال میل بٹھایا، جس نے سدھارتھ کی آنکھ سے تجھے دیکھا، اور تجھے بیان کیا:
اسکے پور پور میں علم بھرا ہوا ہے ایسی سچائی ہے جو کلام کرتی ہے سچائی جوسانس لیتی ہے اور سچائی جو پور پور سے پھوٹتی ہے یہ شخص، بدھ سرسے پیر تکمقدس ہے۔
توسمجھ، میں — آنند، بدھ کا سایہ — ہر یُگ میں تھا کہ میں جیوت تھا، اُسپرشن کے سہارے جو خواہش کی انتہائی صورت تھا۔ ایک کشٹ تھا۔ جو مجھے چنتترکھتا تھا، اور تب کچھ ایسا رونما ہوا، جس کے رونما ہونے کی امید میں کھوبیٹھا تھا۔
یہوہ زمانہ تھا، جب میں ایک تاریک، ساحلی شہر میں سانس لیتا تھا، جو کرنوںکا شہر کہلاتا تھا۔ جہاں پہچان چھپائے رکھنا بدھی مان ہونا ثابت کرتا، اوراپنا آپ ظاہر کرنا اگیانی ہونا۔
تومیں نے اپنی پہچان چھپا لی، ایک پیشے کے پردے میں ۔
ابمیں ایک موٹر مکینک تھا۔ انجن کی، جو کبھی کبھار مجھے زندہ معلوم ہوتا— جسے اگر میری یُگ کا منش دیکھ لیتا تیرا کوئی بھکشو دیکھ لیتا تو حیرت سےخود کو ہلاک کر ڈالتا— تو اب میں گاڑیوں کے انجن کی الجھنیں سلجھاتا تھا۔
اور ایک روز، میں چار پہیوں کو قوت فراہم کرتے ایک انجمن کے دہانے پر کھڑا تھا، میری سماعتوں سے اس موٹر کے مالک کے الفاظ ٹکرائے۔
بلکہیہ کہنا غلط ہو گا، کیوں کہ میں ہر آواز سے اُوب گیا تھا، یہ تو ایک شبدتھا، جس نے مجھے تھکن کی اکتاہٹ سے کھینچ کر باہر نکلا۔اور تو ہی نے تو کہاتھا:’’آنند، کیول شبد باقی رہ جائے گا!‘‘
تو ایک شبد۔
اس کے ہاتھ میں پنّا تھا، جس کا ابھر اس کی آواز میں لرزتا تھا۔ اور اسی لرزے میں ایک شبد —نروان — میرے پیاسے حلق میں اترا۔
’’نروان!‘‘ اور میرے خشک بدن نے اس کا لیس محسوس کیا۔
اور میں نے جھک کر اپنے کان اس کے بولوں پر لگا دیے۔وہ کوئی کویتا تھی، جو اس نے تیرے تحفے، نروان پر بُنی تھی۔
کتنا انتر تھا۔ اس نے نروان کو شبدوں سے ڈھانپا، اور میں نے عملاً اسے لباس بنایا۔
’’نروان‘‘ وہ اپنی کویتا سنتا تھا، سنانے والے کو، جو اس کے ساتھ تھا، اس کے مانند بوڑھا۔ الجھا ہوا۔ ناراض۔ اکتایا ہوا۔
میں نے کویتا سنی۔ اور پھر وہ چرچا کرنے لگے راج نیتی پر۔ زمانوں پر۔
آہ، میں نے ہر یگ جیا تھا۔
برسوںقبل، پنڈی کے باغ میں گونجے والی گولی کی آواز میرے کانوں میں منجمد تھی۔جہاں برسوں بعداِس عمل کو دہرایا گیا۔ اور دونوں ہی مواقع پر میں موجودتھا، قاتل سے فقط سو قدم دور، بائیں جانب۔
اور تیرا آنند ایک قیدی تھا، جب تخت سے اتارے ہوئے ایک شخص کو سولی پر چڑھایا گیا۔
اور میرا رتھ آکاش میں تھا، جب ایک جہاز تباہ ہوا۔
تو میں نے، تیرے بھکشو نے ہر پل جیا تھا۔
تو وہ راج نیتی پر چرچا کرتے ۔ اور میں سنتا تھا۔ اور ان کے ساتھ ساتھ، دور بہ دور آگے بڑھتا تھا۔ اور تب نیتاؤں کو موضوع بنایا گیا۔
تواس نے جو پتر کار تھا، یا شاید کوی تھا، کہا: ’’موروثی سیاست ایک لعنت ہے۔باپ کے بعد بیٹا، پھر اس کا بیٹا۔ جاگیر دار کی اولاد جاگیر دار۔ پیر کاپسر پیر۔ تف ہے۔‘‘
مشرقسے آتی ہوا میں پراسرار روشنی تھی۔ اور روشنی میں بھیگی ٹھنڈ ۔ اور بادلوںمیں بھید کے قطرے تھے۔ اور زمین سے اگتی بارش میں خشکی کا حسین احساسپیوست تھا۔
’’موروثی سیاست، خاندان کی حکم رانی، ایک منتخب شدہ کا غلبہ لعنت ہے۔‘‘
وہشبدوں سے کھیلتے ، پر میں اُس موٹر سے، جس کے دہانے پر میں موجود تھا، اسکوی سے، اور اس کے سامع سے بے پروا ہو گیا۔ اور وہاں نکل گیا، جہاں سے نکلکر آیا تھا۔
اوراب میں نے — بدھ تیرے آنند نے، ترسے ہوئے نے — ہر سانس دوبارہ جیا۔ ہر یُگمیں پرویش کیا۔ اور جانا کہ کیوں ، مجھے اُس کے جیون میں نہیں نوازا گیا۔
کیوں ، میں — آنند، اس کے رشتے کا بھائی، اس کا سایہ — اس کے ہوتے پیاسا رہا۔
’’جدیپشتی حکم رانی۔ ہاں ، وہ — میرا ادھیاپک، تتھاگت بدھ — اس کے خلاف تھا۔ٹھیک ایسا ہی تھا۔ جب ہی تو راہل، اس کا اپنا سپوت، اس کا وارث نہیں ٹھہرا۔جب اسے نہیں نوازا گیا، تو آنند کو بھلا کیسے نوازا جا سکتا تھا؟
میں نے ہر یگ میں پرویش کیا، اور ہر یگ کو نئے عدسے دیکھا۔ اور مجھے اس کی یوجنا، لمحے کے ہر ٹکڑے میں سمپورن نظر آئی۔
اور تب، سمے کی چٹخ میں ، احساس کے بہاؤ میں ، پھٹ پڑنے کا عمل ہوا تنسیخ کا وقت آن پہنچا تھا آہ وہ نروان کا دن تھا۔
آنند کے نروان کا دن۔
تواب میں ایک عظیم قوت میں — جو قدیم ہے، اور اپنی قوت سے سانس لیتی ہے— ضمہونے جارہا ہوں ۔ پر پلٹنے سے قبل میں اِس دنیا کو وہ سندیسا دینا چاہتاہوں ، جو اس کے شبدوں میں تھا، پر عجیب ڈھنگ سے، ایک انکشاف کی صورت، سموچےکا سموچا مجھ پر اتر آیا۔
سندیسا کہ ’’موروثی سیاست فقط دُکھ ہے، صدیوں کا دکھ۔ ایک شراپ!‘‘
تویہ میری بپتا ہے۔ جو میں تمھیں یوں سنانے پر راضی ہوا متر کہ میں دنیا سےجا رہا ہوں ، اور ایک سندیسا چھوڑے جا رہا ہوں ، وشال بدھ کا سندیسا۔ تومیں یہ تمھارے چہرے ے ے کو کیا ااا ت ت ت تم
٭٭
لمحۂ حال، کراچی:
بوڑھے کی آنکھوں میں حیرت ٹھہری ہوئی تھی۔
وہایک خاموش پارک تھا۔ قومی الجثہ سفیدے تلے ایک بینچ تھی، جس پر وہ آ کربیٹھا تھا، اُس سمے جب سورج نے مغرب کی سمت سفر شروع نہیں کیا تھا۔ اور تبایک نوجوان نے خود کو اس کے پہلو میں موجود کیا، جو اُس کی بپتا سننے کامتمنی تھا۔ جسے سنانے پر وہ راضی تھا، اور جسے سناتے سمے سورج مغرب پراترنے لگا تھا، اور لگ بھگ اتر چکاتھا کہ ایک ’’اچانک‘‘ کا ظہور ہوا۔نوجوان الوپ ہو گیا، اور
’’تت ت تم؟‘‘ بوڑھا ہکلا رہا تھا کہ وہ نوجوان — جو کچھ دیر قبل، یا کچھزمانوں قبل — اس کے پہلو میں آ کر بیٹھا تھا، اب وہ وہاں نہیں تھا۔ بلکہ وہتھا، جو صدیوں پیچھے ایک قوی الجثہ پیڑ تلے، ہاتھ میں پھول لیے، موجودہتھا۔
بدھ!
’’تت ت تو تم آ گئے‘‘ بالآخر اچانک رونما ہونے والے کسی لطیف واقعے کے مانند،بوڑھا مسکرایا۔ شاید برسوں بعد۔ اور اگلے ہی پل، غیر متوقع سہولت کے ساتھاس کی آنکھوں میں آنسو اترنے لگے۔
چند پل دونوں بھائیوں کے درمیان خاموش چھائی رہی۔ صدیوں کی خاموشی۔
پھرآنسوؤں کی دیوار گراتے ہوئے بوڑھے نے اُسے دیکھا، جس کے چہرے پر سورج کیآخری کرنیں پڑتی تھیں ۔ اُس کی آنکھوں میں سبک روی سے بہتا سکون تھا۔ اورایک تبسم تھا، جو اُس کا تھا۔
تبسم، جو کائنات کا راز تھا۔
’’اے آنند۔‘‘ اُس نے ٹھیک ویسے کہا، جیسے وہ صدیوں قبل کہا کرتا تھا۔ ’’وقت آن پہنچا ہے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ بوڑھا مطمئن تھا۔ مسرور تھا۔ ’’بس، تمھارا آخری پیغام یہاں ثبت کر دوں۔‘‘ اس نے ایک بوسیدہ کاغذ پر قلم چلاتے ہوئے کہا۔ ’’دنیا کو اُس کی ضرورتہے۔‘‘
یہ لمحۂ حال کی کائنات تھی، جس کا مرکز سفیدے کا درخت تھا، جس کے نیچے بینچ تھی، جس پر دو بوڑھے بیٹھے تھے۔
سورج مغرب میں ڈوبتا تھا۔اور وہ الوپ ہونے کو تھے۔
٭٭
لمحۂ موجود، کراچی:
پارک میں اندھیرا تھا۔اور دو سائے سفیدے کی اُور بڑھتے تھے۔
’’Brother, something mysterious is going on here.۔ میں تو کہتا ہوں ؛We are not needed. let’s get out of here.۔‘‘ ایک سایے سے آواز ابھری، جس میں لرزاتھا۔
’’Don’t be so sissy.۔ چلتے رہو۔‘‘ دوسرا، جو آواز سے پراعتماد معلوم ہوتا تھا، کہتا سنائی دیا۔
وہ بینچ تک پہنچ کر رکے، جس پر عین اوپر نصب اسٹریٹ لائٹ پر پتنگے رقصاں تھے۔
وہ دو نوجوان تھے۔ ایک ڈرا ہوا، مگر پُرتجسس ۔ اور دوسرا ڈر اور تجسس دونوں ہی احساسات سے بے پروا۔
ڈرے ہوئے نے دھیرے سے کہا۔’’Sounds spooky.۔ ابھی تو وہ دونوںOld men یہیں تھے۔ نہ جانے کہاں غائب ہو گئے۔‘‘
دوسرے نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بس خاموش، بینچ کے کونے پر پڑے اس کاغذ کو تکتا رہا، جو تاریکی میں دمکتا تھا۔
پہلے کی نظر اس پر پڑی۔ وہ جھکا۔ ٹکڑا اٹھا لیا۔
’’بھکشو موروثی سیاست لعنت ہے: بدھا‘‘ ڈرے ہوئے نے بہ مشکل، ہجے کرۂلمحہا پہنچے تشکیل: اعجاز عبیدم کی
ے اصل کتاب حاصل کر سکتے ہیں۔کے پڑھا۔ ’’بڈھا؟I am not getting it.، کون بڈھا۔Very strange.۔‘‘
’’Not really.۔‘‘ دوسرے نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔ اور اس کے ہاتھ سے کاغذ لے کر ایک غی٭
ر متوقع سہولت کے ساتھ پرزوں میں تقسیم کرنے لگا۔
’’یہ ک ک ک کیا کر رہے ہوIt must be important.‘‘ پہلے نے، شاید تجسس، یا شاید خوف کے زیر اثر کہا۔
’’Maybe, and maybe not.۔‘‘ دوسرے نے کاندھے اچکائے۔ ’’اب کیا ہر بات کوئی بڈھا ہیسمجھائے گا۔Our generation need nobody.‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ مڑا۔’’ Let’s go.‘‘
اُسکے ساتھی نے تقلید کی، مگر مقلد نہ بنا۔ نہ جانے کیسے، نہ جانے کیوں اس سےکئی قدم آگے نکل گیا۔ شاید وہ ڈرا ہوا تھا، یا شاید، جو پیچھے رہ گیا تھا،اس کے قدموں کی رفتار توقع سے زیادہ سست تھی۔
اوروہ، جو پیچھے رہ گئے تھا، اس نے، دیوتاؤں سی بے نیازی سے ہاتھ جھٹکا۔ پرزےہوا میں بلند ہوئے۔ اور اسٹریٹ لائٹ کی مدھم روشنی میں تاریکی میں گرنےلگے۔
پرزے دھیرے دھیرے زمین کی سمت آتے تھے۔ دھیرے دھیرے۔ پر زمین کے قریب پہنچ کر، انتہائی نزدیک پہنچ کروہ ہوا میں معلق ہو گئے۔
وہ، جس نے انھیں فضاؤں میں آزاد کیا تھا، رکا۔ مڑا۔
اور اس کی آنکھیں چمکیں ۔ اور ہوا میں معلق پرزے پل میں خاکستر ہوئے۔
اور راکھ کی صورت اَن جانی دنیاؤں کی سمت روانہ ہو گئے۔
وہ جس کی آنکھیں سے روشنی پھوٹی تھی، دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگا۔
اورٹھنڈی ہواؤں نے راستہ صاف کیا وہاں پھول بکھیرے اور آسمان سے پانی کے قطرےخاک بٹھانے کو گرے ابر اس پر سایہ فگن ہوا اور آسمانی نغمہ فضا میں گونجنےلگا
پسنوشت:اور اگر ہیسے ہوتا، تو یوں لکھتا: ’’اس کے شانت چہرے پر نہ تو دکھتھا، نہ ہی سکھ وہ من ہی من میں دھیرے دھیرے مسکرا رہا تھا اور بچے سیمسکراہٹ چھپائے خاموشی اور سکون کے ساتھ چلتا جاتا تھا‘‘
٭٭٭