سیٹھ لطیف کانجی کی ایک بیوی تھی۔ دو بیٹیاں تھیں۔ تین بیٹے تھے۔ چار فیکٹریاں تھیں۔ پانچ دوست تھے۔ چھ بنگلے تھے۔ سات شہروں میں دفاتر تھے۔ آٹھ بینک اکاؤنٹ تھے اور نو خاندانی ملازم تھے۔
اس ترتیب کا اہتمام خود لطیف کانجی نے کیا تھا۔
مگر یہ سب تو اس وقت کی بات ہے، جب وہ کامیاب ہو چکا تھا۔
اصل کہانی تو بہت پہلے بمبئی میں شروع ہوئی تھی جب گورے، مکھیوں اور مچھروں کی سرزمین چھوڑ کر واپس جانے کا فیصلہ کر چکے تھے اور لطیف کانجی سفید نیکر، سفید قمیص پہن کر سالم تانگے میں مشنری اسکول جایا کرتا تھا اور راستے میں آنے والے سنیما گھروں پر آویزاں اشوک کمار اور لیلا چٹنس اور نرملا دیوی کی تصویریں دیکھ کر ایک انجانی خوشی محسوس کیا کرتا تھا۔
لطیف کانجی کی دسویں سالگرہ پر وہی مہمان آئے جو ہر سال چھ سات مرتبہ آتے تھے۔ اسے بہت سے تحفے ملے جو رنگ برنگے ڈبوں میں بند تھے۔
مہمان رخصت ہوئے تو لطیف کانجی فرش پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا اور ایک ایک کر کے تحفے کھولنا شروع کئے۔
وہ تقریباً ایک ہی سائز کے دس ڈبے تھے۔ اور ان میں سے ایک ہی جیسی دس کھلونا کاریں نکلیں۔ 1944ء ماڈل کی نئی شیورلے کاریں۔ کچھ نیلی، بیشتر سرخ۔ لطیف کانجی اتنی بہت سی چمکتی دمکتی کھلونا کاریں پا کر اتنا خوش ہوا کہ اپنے ماں باپ کے چہروں پر چھائی مایوسی بھی نہ دیکھ سکا۔
دو تین ہفتے بعد، جب وہ ایک جیسی بہت سی کاروں سے کھیل کھیل کر بیزار ہو گیا تو اس نے پہلی بار سوچا، یہ سب لوگ ایک ہی جیسی کاریں کیوں لے آئے تھے؟
گیارہویں سالگرہ آئی تو حیرت کا ایک نیا باب کھلا۔
لطیف کانجی کو تحفے میں گیارہ سائیکلیں ملیں۔
’’گیارہ سائیکلیں!‘‘ اس کے والد سیٹھ حنیف کانجی نے مہمانوں کے رخصت ہونے کے بعد حسب معمول اپنی بیوی کو غصے سے مخاطب کر کے کہا۔ ’’ابھی یہ کیا کرے گا اتنی سائیکلوں کا؟ دوکان کھولے گا؟‘‘
’’میرے کو کیا پتا؟‘‘ ان کی بیوی نے کمرے میں ڈھیر سائیکلوں کو دیکھ کر بیزاری سے کہا۔
’’دماغ پھریلا ہے سب کا۔‘‘ سیٹھ حنیف کانجی نے کہا۔ ’’جس کو دیکھو سائیکل اٹھائے چلا آ رہا ہے۔‘‘ انہوں نے سب سے آگے رکھی سائیکل کو لات رسید کی اور لنگڑاتے ہوئے کمرے سے رخصت ہو گئے۔
بارہویں سالگرہ پر لطیف کانجی کے سب سے قریبی دوست صفدر نے اسے جو کتاب تحفے میں دی اس کا نام تھا۔ ’’بارہ برجوں کی دنیا‘‘۔ یہ علم نجوم کے بارے میں ایک مشہور انگریزی کتاب کا ترجمہ تھا۔ لطیف کانجی رات بھر اور پھر اگلے روز دن بھر وہ کتاب پڑھتا رہا۔ مختلف برجوں کی خصوصیات، ان کے مزاج کا احوال، سیآروں کی چال۔ ایک پُراسرار دنیا تھی جو اس کے سامنے کسی کتاب کی طرح کھلتی جا رہی تھی۔
اپنے برج کے بارے میں معلوم کرنے کے لئے اس نے پہلے اپنی والدہ سے استفسار کیا۔ پھر والد سے پوچھا۔ بالآخر وہ ماں کی الماری میں احتیاط سے رکھی پرانی دستاویزات میں اپنی پیدائش کا سرٹیفکیٹ ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ ایک بڑے ہسپتال کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ تھا جس میں پیدائش کی تاریخ ہی نہیں، وقت بھی درج تھا۔
سرٹیفکیٹ دیکھ کر اس کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔
وہ یکم فروری 1934ء کو پیدا ہوا تھا۔ اس تاریخ کو انگریزی میں ایک دو تین چار لکھا گیا تھا۔ پہلی تاریخ، دوسرا مہینہ اور 1934ء کا تین چار!
اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس کی پیدائش کے وقت کے اعداد بھی یہی تھے۔ سرٹیفکیٹ کے مطابق وہ بارہ بج کر چونتیس منٹ پر پیدا ہوا تھا۔ بارہ چونتیس!۔ ایک دو تین چار!!
اس سرٹیفکیٹ نے لطیف کانجی کی زندگی کا رخ بدل دیا۔ اعداد اس کے دماغ پر چھا گئے۔ اس کی عقل پر قابض ہو گئے۔ اس نے اپنے جگری دوست صفدر کو تمام باتیں بتائیں۔ اس کا خیال تھا کہ صفدر سخت حیران ہو گا۔ لیکن وہ قطعی حیران نہ ہوا۔ وہ خود جوتش اور علم نجوم پر اعتقاد رکھتا تھا۔ اس نے لطیف کانجی کو کئی قدیم شہنشاہوں اور مشہور لوگوں کے بارے میں بتایا جن کی زندگی ایسے ہی اتفاقات سے عبارت تھی۔ کوئی پانچویں مہینے کی پانچویں تاریخ کو پیدا ہوا تھا۔ پانچ شہزادے پیدا کرنے اور پانچ برس حکمرانی کرنے کے بعد پانچویں مہینے کی پانچویں تاریخ کو مرگیا تھا۔ کسی نے سات کتابیں لکھی تھیں، سات شادیاں کی تھیں، سات بڑے اعزاز حاصل کئے تھے اور ساتویں دل کے دورے میں ہلاک ہو گیا تھا۔ ایک شہزادی ایسی تھی جس نے گیارہ شادیاں کی تھیں، اکیس جنگیں لڑی تھیں، اکتیس شہروں کو فتح کیا تھا اور اکتالیس سال کی عمر میں اکیاون باغیوں کے حملے میں ماری گئی تھی۔
لطیف کانجی، صفدر سے کئی کتابیں لے آیا۔ ان کتابوں میں ایسے ہی کئی واقعات تھے۔ اپنے نام کے اعداد معلوم کرنے کی ترکیبیں تھیں اور انسانی زندگی پر ستاروں کے اثرات کے بارے میں تفصیلات تھیں۔
ایک روز اس نے ڈرتے ڈرتے اپنے والد سے اس بات کا ذکر کیا۔ پوری بات سن کر اور پیدائش کے وقت اور تاریخ کے بارے میں اپنے بیٹے کے خیالات سے آگاہ ہو کر انہوں نے کہا۔ ’’دیکھ لطیف۔ ہوش میں آ جا۔ اپنی پڑھائی پر توجہ دے۔ نئیں تو جانتا ہے میں کیا کروں گا؟ میں تیری اتنی ٹھکائی کروں گا کہ تو بھی ٹھیک ہو جائے گا اور تیری ماں بھی۔‘‘
’’ماں نے کیا کیا ہے؟‘‘ دوسرے کمرے سے اس کی ماں نے چلّا کر کہا۔
’’ماں نے ہی اسے بگاڑا ہے۔‘‘ سیٹھ حنیف کانجی نے گرج کر کہا۔ ’’سالے کا مغز خراب کیا ہے۔ کہتا ہے، میں ایک دو تین چار ہوں۔ آدمی نہیں ہوں، کیش رجسٹر ہوں!‘‘
وہ گھر میں شروع ہونے والی جنگ کے دوران خاموشی سے فرار ہو گیا۔
رفتہ رفتہ اسے یقین ہو گیا کہ لوگ ایسی باتوں پر یقین نہیں کرتے۔ انہیں محض حماقت سمجھتے ہیں اور ان پر یقین رکھنے والوں کو بے وقوف۔ لیکن خود اسے یقین تھا کہ ان اعداد میں، ان علوم میں کوئی نہ کوئی راز ضرور تھا۔ کوئی نہ کوئی بات ضرور پوشیدہ تھی۔ ہر چیز، ہر واقعہ اتفاق نہیں ہو سکتا۔
اپنی تیرہویں سالگرہ پر لطیف کانجی نے ایک بار پھر حیرت سے ان تیرہ تحائف کو دیکھا جو آنے والے مہمان لائے تھے۔ تیرہ کے تیرہ سوٹ تھے۔ پینٹ اور شرٹ!
’’ارے بابا۔‘‘ لطیف کانجی کی ماں نے پریشانی کے عالم میں کہا۔ ’’سارے ڈیزائن ایک ہیں۔ بس کلر الگ الگ ہیں۔‘‘
’’کلر!‘‘ سیٹھ حنیف کانجی نے دانت پیس کر کہا۔ ’’ابھی کلر کا کیا کرنا ہے۔ کیا لطیف پورے سال ایک ہی ڈیزائن کے کپڑے پہنے گا؟ سب بولیں گے، تھوک مارکیٹ سے درجن کے حساب سے لایا ہے! اکھّا بمبئی میں مذاق بن جائے گا۔ یہ سب تیری وجہ سے ہے۔ تیرے خاندان کی وجہ سے ہے۔‘‘
’’میرے خاندان نے کیا کیا ہے؟‘‘
’’تیرہ میں سے سات تیرے خاندان والوں نے دیئے ہیں۔‘‘
’’اور باقی چھ؟ وہ تو تیرے گھر والوں اور دوستوں نے دیئے ہیں۔‘‘
’’اچھا۔ بک بک نئیں کر۔‘‘
لطیف کانجی ایک بار پھر جنگ کے دوران فرار ہو گیا۔ اپنے کمرے میں جا کر اس نے دروازہ بند کیا اور بستر پر بیٹھ کر دیر تک صورتحال پر غور کرتا رہا۔ اعداد اسے اپنی اہمیت کا یقین دلا رہے تھے۔ گیارہ سائیکلیں۔ تیرہ سوٹ۔ پیدائش کا وقت، ایک دو تین چار۔ پیدائش کی تاریخ، ایک دو تین چار۔
اگلے روز وہ صفدر کے ساتھ ایک جوتشی کے پاس پہنچا جو بمبئی کے مرکزی بازار میں ٹراموں کے ٹرمینل کے پاس بیٹھتا تھا۔ صفدر اس جوتشی کی صلاحیتوں سے سخت مرعوب تھا۔
پورے ایک روپے کا نذرانہ لے کر گنجے جوتشی نے اپنا سر ہلایا اور پوچھا۔ ’’کتنی عمر ہے بالک؟‘‘
صفدر نے کہا۔ ’’پندرہ سال۔‘‘
جوتشی نے پھر سر ہلایا اور بولا۔ ’’میں تیری نہیں، اس کی عمر پوچھ رہا ہوں۔‘‘
لطیف کانجی نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ’’تیرہ سال۔ کل میری تیرہویں سالگرہ تھی۔‘‘
’’ہوں۔‘‘ جوتشی غرایا۔ ’’ہاتھ دکھا۔‘‘
لطیف کانجی نے ہاتھ اس کے سامنے پھیلا دیا۔ جوتشی دیر تک اس کا ہاتھ دیکھتا رہا۔ ہتھیلی پر پھیلے لکیروں کے جال پر نظریں دوڑاتا رہا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’ایک روپیہ اور دے۔‘‘
لطیف کانجی نے صفدر کی طرف دیکھا۔ صفدر نے سر کھجا کر کہا۔ ’’جوتشی جی۔ آپ تو ہاتھ دیکھنے کا ایک ہی روپیہ لیتے ہیں۔‘‘
جوتشی نے لطیف کانجی کا ہاتھ غصے سے جھٹک دیا۔ ’’یہ ایک روپے والا ہاتھ نہیں ہے۔ جا۔ کسی اور کو دکھا۔ یہاں تو اکنّی میں بھی ہاتھ دیکھنے والے ہیں۔ یہ بمبئی ہے بالک، بمبئی۔ یہاں ایک ہی جوتشی جیون رام ہے۔‘‘
لطیف کانجی نے جیب سے ایک روپیہ نکالا اور جوتشی کی میلی چٹائی پر رکھ دیا۔ کوئی اور موقع ہوتا تو شاید وہ اتنی آسانی سے پورے دو روپوں کا خون نہ کرتا۔ لیکن اس وقت معاملہ مختلف تھا۔ صورتحال نازک تھی۔ جوتشی نے ہاتھ کے بارے میں ایک بات کہہ کر اس آتشِ شوق کو بھڑکا دیا تھا جو گزشتہ کئی مہینوں سے چنگاری بن کر سلگ رہی تھی۔
’’میری باتیں دھیان سے سن بالک۔‘‘ جوتشی نے بہت دیر تک ہاتھ دیکھنے اور خاموش رہنے کے بعد کہا۔ ’’پھر تجھے شاید کوئی جیون رام نہ ملے جو ریکھاؤں میں آنے والے سمے کو دیکھ سکے۔‘‘ وہ پھر خاموش ہو کر ہاتھ کی لکیروں کو دیکھنے لگا۔
صفدر اور لطیف کانجی دم سادھے بیٹھے تھے۔ ان کے گرد سائیکل رکشا چلانے والوں کی آوازیں تھیں، ٹرام کی گھنٹیاں تھیں، خوانچے والوں کے چلّانے کی آوازیں تھیں، ہنگامہ اور چیخ و پکار تھی لیکن وہ یہ سب کچھ نہیں سن رہے تھے۔ ساری دنیا ساکت تھی، بے صدا تھی اور اس گہرے سناٹے میں صرف جوتشی کی آواز کا انتظار تھا۔
’’تجھے بہت بڑا آدمی بننا ہے۔‘‘ جوتشی نے بالآخر کہا۔ ’’لوگ تجھے دیکھ کر رشک کریں گے۔ دھن دولت دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔ تو خود اپنی دولت کا حساب نہیں رکھ سکے گا۔‘‘ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد اس نے اچانک پوچھا۔ ’’کل تیری کون سی سالگرہ تھی؟‘‘
’’تیرہویں۔‘‘ لطیف کانجی نے کسی سحر زدہ معمول کی طرح جواب دیا۔
’’تیرہ ہفتے اور ایک ماہ بعد ہی تیری زندگی میں وہ موڑ آئے گا۔‘‘ جوتشی نے پھر سر ہلایا۔ ’’تیرہ ہفتے اور ایک ماہ بعد تو کامیابی کی سیڑھی پر پہلا قدم رکھے گا۔ جا۔ چلا جا۔‘‘
جوتشی نے اچانک اس کا ہاتھ جھٹک کر دور کر دیا۔
لطیف کانجی نے وہ شام اپنے کمرے میں ہی گزاری۔ اس شام وہ معمول کے مطابق اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے بھی نہیں گیا۔ جوتشی کی باتیں بار بار اس کے ذہن میں گونج رہی تھیں۔ دھن دولت والی بات نے اسے قطعی حیران نہیں کیا تھا۔ سیٹھ حنیف کانجی جیسے تاجر کا بیٹا پیسے والا نہیں بنے گا تو کیا بنے گا؟ دولت تو اس کا ورثہ تھی۔ گھر کی باندی تھی۔ لیکن زیادہ حیران کن بات وہ تھی۔ تیرہ ہفتوں اور ایک ماہ والی بات۔ تیرہ ہفتے اور ایک ماہ بعد کیا ہو گا؟ اس نے سوچنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ ایسا سوال تھا جس کا کوئی جواب نہ تھا۔ لطیف کانجی نے ایک بار پھر تحیّر کی اس سنسنی خیزی کو محسوس کیا جو پُراسرار علوم میں تھی، جوتشی کی باتوں میں تھی اور خود اس کی زندگی میں تھی۔
اس نے کاپی نکالی اور حساب لگانے بیٹھ گیا۔ تیرہویں سالگرہ یکم فروری کو تھی۔ اس نے حساب لگایا، تیرہ ہفتوں میں اکیانوے دن ہوتے ہیں۔ اٹھائیس دن فروری کے۔ اکتیس دن مارچ کے۔ اور تیس دن اپریل کے۔ یہ ہوئے نواسی دن۔ ذرا سی دیر میں نتیجہ اس کے سامنے آ گیا۔ تین جون تک کوئی نہ کوئی واقعہ ہونے والا تھا!
لطیف کانجی نے اگلے چار ماہ ایک عذاب میں گزارے۔ وہ راتوں کو دیر تک جاگتا رہتا تھا۔ اسکول میں اپنی بنچ پر بیٹھا بلیک بورڈ کو خالی خالی نظروں سے گھورتا رہتا تھا۔ اس کا واحد ہمدرد صفدر تھا لیکن اس کے پاس بھی لطیف کانجی کی پریشانی کا کوئی حل نہ تھا۔
دن دھیرے دھیرے گزرتے گئے۔ فروری گزر گیا۔ مارچ گزر گیا۔ اپریل گزر گیا۔ لطیف کانجی کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ مئی آ چکا تھا۔ تیرہ ہفتے گزر چکے تھے اور اب صرف ایک ماہ رہ گیا تھا۔
انہی دنوں ایک شام جب وہ گھر واپس لوٹ رہا تھا، اس نے راستے میں صفدر کو دیکھا۔ اس کے چہرے سے لگتا تھا کہ وہ کوئی خبر سنانے کے لئے بے قرار ہے۔ لطیف کانجی کے پاس پہنچتے ہی اس نے کہا۔ ’’یار، جوتشی جیون رام کو پولیس پکڑ کر لے گئی!‘‘
ایک لمحے کے لئے لطیف کانجی کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا تھا۔ پُراسرار علوم جاننے والے کسی آدمی کو پولیس والے کیسے پکڑ سکتے ہیں!
’’میں نے خود ٹراموں کے اڈے کے پاس بھیڑ دیکھی تھی۔‘‘ صفدر کہہ رہا تھا۔ ’’لوگ کہہ رہے تھے، چرس بیچتا تھا۔ مجھے تو یقین نہیں آیا۔‘‘
لطیف کانجی نے کہا۔ ’’یقین تو مجھے بھی نہیں آ رہا ہے۔ یار، جوتشی کو تو ہر بات کا پتہ ہوتا ہے۔ جیون رام کو اپنی گرفتاری کے بارے میں معلوم نہیں تھا؟‘‘
پُراسرار علوم کے بارے میں اس کے اعتقادات کو شدید ٹھیس پہنچی تھی۔ گھر پہنچ کر بھی وہ یہی سوچتا رہا۔ رفتہ رفتہ اسے یقین آنے لگا تھا کہ جوتشی جیون رام کی پیش گوئی غلط بھی ثابت ہو سکتی تھی۔ اسے جوتشی پر اور اپنے اوپر سخت غصہ آیا۔ تیرہ ہفتے گزر چکے تھے اور ایک ماہ باقی رہ گیا تھا۔ اتنے کٹھن انتظار کے بعد یہ صدمہ یقیناً بھاری تھا۔
دن پھر گزرنے لگے۔ رفتہ رفتہ مئی گزر گیا اور جون آ گیا۔
تین جون کو وہ اسکول نہیں گیا۔ طبیعت کی خرابی کا بہانہ اس نے رات کو ہی کر لیا تھا۔ پوری صبح گزر گئی، پہاڑ سا دن گزر گیا۔ لیکن کچھ نہ ہوا۔ تقدیر کا وہ موڑ کہیں نہ آیا جو اس کی کامیابی کا باعث بن سکتا تھا۔ شام گزر گئی لیکن کامیابی کی وہ سیڑھی نہ آئی جس پر اسے پہلا قدم رکھنا تھا۔
رات گئے اس نے اپنے والد کو گھر میں آتے دیکھا۔ سب سے پہلے اس کی نگاہ ان کے بکھرے بالوں پر پڑی۔ پھر اس نے ان کا پھٹا ہوا کوٹ دیکھا اور سوجا ہوا ہونٹ دیکھا۔ جب ماں رو چکی اور چیخ چیخ کر بے مقصد سوال کر چکی تو سیٹھ حنیف کانجی نے کہا۔ ’’تیاری کر لے روانہ ہونے کی!‘‘
’’روانہ ہونے کی! کہاں روانہ ہونے کی؟‘‘
’’اب یہاں بمبئی میں کچھ نہیں رہا۔ میرے ساتھی ڈائریکٹر دغا دے گئے۔ انہوں نے پورے بزنس پر قبضہ کر لیا ہے۔ میرے پاس اب صرف ایک لاکھ روپیہ رہ گیا ہے جو سال بھر پہلے میں نے الگ ٹرانسفر کرا لیا تھا۔‘‘
’’مگر… مگر کیوں؟‘‘ ماں کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ اور صوفے کے ساتھ حیران، پریشان کھڑے لطیف کانجی کی سمجھ میں بھی کچھ نہیں آ رہا تھا۔
’’کیوں اور کیا چھوڑ دے؟‘‘ اس کے والد نے گرج کر کہا۔ ’’باہر سب بدل گیا ہے۔ پوری مارکیٹ بدل گئی ہے۔ تجھے پتہ نہیں چلا؟‘‘
’’کیا پتہ نہیں چلا؟‘‘ ماں نے چلّا کر پوچھا۔
’’پاکستان بن رہا ہے۔‘‘ سیٹھ حنیف کانجی نے اپنی ڈھیلی ٹائی اتار پھینکی۔ ’’فیصلہ ہو گیا ہے۔ ریڈیو پر تقریریں ہو گئی ہیں۔ میں نے ان سے بولا، ارے بابا ہم یہیں رہے گا۔ یہی بزنس کرے گا۔ اپنے فادر اور گرینڈ فادر کو قبروں میں چھوڑ کر کون جاتا ہے۔ لیکن وہ سالے ہندو ڈائریکٹر۔ چوٹ تو میرے بھی آئی پر میں نے بھی ایک کے تین دانت توڑ دیئے۔ ابھی پیتل کے دانت لگا کر پھرے گا ساری زندگی۔‘‘
ایک خواب کے سے عالم میں لطیف کانجی نے وہ پورا منظر دیکھا جو کئی ہفتوں پر محیط تھا۔ ماں قیمتی چیزیں سمیٹ رہی تھی۔ گھر کا فالتو سامان اونے پونے داموں بیچ رہی تھی۔ سیٹھ حنیف کانجی وہ قرضے وصول کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہے تھے جو اچھے وقتوں میں انہوں نے لوگوں کو دیئے تھے۔ اس ایک لاکھ روپے کو حفاظت سے ٹرانسفر کرنے کا بندوبست کر رہے تھے جو اب ان کا کُل اثاثہ تھے۔ اس نے سڑکوں کی ویرانی دیکھی اور بازاروں کی بے رونقی دیکھی۔
حملے شروع ہو گئے تھے۔ انسان ایک دوسرے کو مار رہے تھے۔ چھرے گھونپ کر زخمی کر رہے تھے۔ زندہ جلا رہے تھے۔ بار بار لطیف کانجی کے تصور میں اس جوتشی کا چہرہ آ جاتا تھا۔ تیرہ ہفتے اور ایک ماہ بعد۔ اس نے کہا تھا۔ ٹھیک تیرہ ہفتے اور ایک ماہ بعد زندگی نے ایک نیا رخ بدل لیا تھا۔ انسان، انسان نہ رہے تھے۔ ہندو اور مسلمان بن گئے تھے۔ سکھ اور عیسائی بن گئے تھے۔ وہ دن بھر گھر میں قید رہتا تھا۔ باہر ہنگامہ تھا۔ موت تھی۔ اپنے گھر کی پہلی منزل کی ایک کھڑکی سے ہی اس نے صفدر اور اس کے گھر والوں کو ایک ٹرک میں سامان چڑھاتے دیکھا۔
روانہ ہونے سے پہلے صفدر اس سے ملنے آیا۔
’’ رات کو ایک ٹرین روانہ ہو رہی ہے۔‘‘ اس نے بتایا۔ ’’اسی سے روانہ ہوں گے۔ پہلے دلّی جائیں گے۔ پھر وہاں سے لاہور۔ یار،یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘
وہ صفدر کو کیا بتاتا کہ کیا ہو رہا ہے؟ وہ تو یہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے؟ صفدر اس سے گلے مل کر، گرمجوشی سے ہاتھ ملا کر اور پاکستان میں کبھی نہ کبھی ملنے کا وعدہ کر کے چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد لطیف کانجی نے ایک بار پھر اس تنہائی کو شدت سے محسوس کیا جو گھر کی چار دیواری میں قید رہنے سے تھی۔
ایک شام جب وہ تنہا کیرم بورڈ کھیل رہا تھا، اس نے اپنے والد کو ماں سے باتیں کرتے سنا۔ وہ بہت دھیمی آواز میں بول رہے تھے۔ پہلی مرتبہ لطیف کانجی نے اپنے باپ کے لہجے میں محبت کی نرمی محسوس کی۔ وہ کہہ رہے تھے۔ ’’تو بالکل پریشان نہ ہو۔ میں نے بندوبست کر لیا ہے۔ کراچی بہت بڑا شہر ہے۔ بمبئی سے چھوٹا ہے، پھر بھی بہت بڑا ہے۔ میں وہاں نیا بزنس جماؤں گا۔ بالکل اپنا بزنس۔ کوئی لفڑا نہیں، کوئی پارٹنر نہیں۔ چار جولائی کو روانگی ہے۔ ٹرین سے جانا مشکل ہے، اپن پلین سے چلیں گے۔ کوئی سامان نہیں جائے گا۔ بس، تو زیور لے لے۔ سارا پیسہ کراچی پہنچ چکا ہے۔‘‘
لطیف کانجی نے کیرم بورڈ پر رکھی سرخ کوئن کو پاکٹ کیا اور سوچا۔ چار جولائی۔ چار جولائی سن سینتالیس۔ چار سات، چار سات! لیکن جب چار جولائی آئی تو روانہ ہونے اور جہاز میں سفر کرنے کی خوشی میں وہ اعداد کی اس عجیب و غریب ترتیب کو بھول گیا۔ جہاز کی کھڑکی سے پہلے زمین نظر آتی رہی۔ پھر سمندر آ گیا۔ لطیف کانجی کو اپنا دوست صفدر یاد آیا۔ نہ جانے وہ کس حال میں ہو گا۔ کسی کھڑکھڑاتی ٹرین میں اپنے گھر والوں کے ساتھ۔ یا کسی ویرانے میں کھلی، بے نور آنکھوں کے ساتھ۔ پھر اسے جوتشی جیون رام کا خیال آیا۔ جہاز کی آواز بہت تھی۔ لگتا تھا کسی کارخانے کی بہت بڑی مشین پوری قوت سے چل رہی ہو۔ اس کے ذہن میں عجیب و غریب خیالات آتے رہے اور وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا۔
اس کی آنکھ کھلی تو طیارہ کراچی پہنچ چکا تھا۔ مسافر سامان سمیٹ رہے تھے اور باہر نکلنے کے لئے تیار تھے۔ سیٹھ حنیف کانجی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ اعتماد سے بھرپور مسکراہٹ۔ لطیف کانجی نے یہی مسکراہٹ اپنی ماں کے چہرے پر بھی دیکھی۔ بے اختیار، بے سبب وہ خود بھیمسکرایا۔
…٭٭…