(Last Updated On: )
ڈاکٹر فریاد آزرؔ ہندوستان کی راجدھانی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ PhD.کے اعزاز سے سرفراز جدید لب و لہجے اور نئی آواز کے معتبرو و منفرد شاعر ہیں۔ ان کی تازہ ترین غزلوں کے مجموعے ’’ایلیئن‘‘ سے پہلے ’’خزاں میرا موسم‘‘ (۱۹۹۴ء)، ’’بچوں کا مشاعرہ‘‘ (۱۹۹۸ء)، ’’قسطوں میں گزرتی زندگی‘‘ (۲۰۰۵)، شعری انتخاب ’’کچھ دن گلوبل گاؤں میں‘‘ (۲۰۰۹) میں منصہ شہود پر جلوہ گر ہو کر ارباب دانش اور شائقین ادب سے بھر پور خراج تحسین وصول کر چکے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب پچھلی کئی دہائیوں سے بڑی لگن تندہی اور مستعدی کے ساتھ غزل میں مشق و ممارست کرتے چلے آ رہے ہیں اور اب ایک قادر الکلام اور پختہ گو شاعر کہلانے کا بجا طور پر استحقاق رکھتے ہیں۔ آپ کی تخلیقات ملکی اور غیر ملکی صف اول کے ممتاز و معیاری رسائل و جرائد میں تواتر سے شائع ہوتی رہتی ہیں۔ آفاق ادب میں آپ کا نام نامی خورشید عالم تاب کی طرح تاباں ہے۔ ادب میں آپ کی شناخت مستحکم ہو چکی ہے اور آپ کا نام صف اول کے ممتاز و معتبر شعرا ء کی فہرست میں شامل ہے۔
ڈاکٹر فریاد آزرؔ نے ہر طرح کی ادبی تحریکوں، منصوبوں، رجحانوں اور مخصوص ادبی نوعیت کی نظریاتی جکڑ بندیوں سے خود کو آزاد رکھا ہے اور کسی بھی ادبی گروہ سے انہیں دور کا بھی علاقہ نہیں ہے۔
سادگی و سلاست، ندرت و انفرادیت، عصری حسیت، سماجی معنویت، وحدت و صداقت، ذاتیت و آفاقیت، خارجیت و داخلیت، فصاحت و بلاغت، انجذابیت و لطافت، نزاکت و جمالیت اور حلاوت و شعریت ان کی نئی غزل اور شاعری کا خاصہ ہیں۔ ان کا فکری شعور ان کی اپنی آگہی کے ہنڈولے میں پروان چڑھا ہے۔ اپنے اطراف و اکناف اور معاشرے و ماحول پروہ گہری نگاہ رکھتے ہیں اور خارجی محرکات ہی ان کی داخلیت کی گہری جھیل میں شناوری کے عمل سے گزر کر شعر کے قالب میں ڈھل جاتے ہیں۔ ان کی شاعری ذات سے لے کر کائنات تک کا سفر طے کرتی ہے۔ انہوں نے روایت کے طلسما ات اور رومانیت کی خیالی جنتوں اور حسن و عشق کے فرضی جہانوں اور پرستانوں میں پناہ لینے کے بجائے خود کو عصرِ حاضر کے سنگین مسئلوں اور تلخ سچائیوں کے حوالے کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں آج کے عہد کا چہرہ ہمیں حقیقی شکل میں نظر آتا ہے ؎
جہاں فساد میں اعضائے جسم کٹ کے گرے
اسی زمین سے ہم لخت لخت اگنے لگے
کسی کو ایک ہی سجدہ میں جنت مل گئی ہے
مگر کچھ لوگ صدیوں سے عبادت کر رہے ہیں
ہم سمجھنے لگے مجرم ہے ہمیں میں کوئی
حادثہ ایسا رچایا گیا سوچا سمجھا
جو تھے مخصوس کبھی اور ہی قوموں کے لئے
کچھ عذاب ایسے بھی امت پہ اتر آئے ہیں
دوسرے سیاروں پہ چلنے کی تیاری کرو
یہ زمیں کرنے کو ہے ساری سبیلیں مسترد
خلاؤں میں بھی شر پھیلا رہا ہے
پرندہ کتنا پر پھیلا رہا ہے
تو پھر اقوامِ متحدہ میں بھی جمہوریت لائے
اگر سچ مچ ہی دشمن ہے وہ ظالم آمریت کا
اہلِ صحرا بھی بڑھے آتے یں شہروں کی طرف
سانس لینے کو جہاں صرف دھواں باقی ہے
فریاد آزرؔ کی شاعری میں ان کی اپنی آگہی نہایت اہم رول ادا کرتی ہے۔ یہ آفتابِ آگہی ان کی دنیائے شعور و ادراک اور جہان فکرو خیال کے ذرے ذرے کو اپنے نور کی زرق برق زریں شعاعوں سے تاباں و درخشاں کر دیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ان کے سحاب خامہ سے اشعار کے دمکتے موتی برسنے لگتے ہیں ؎
مجھے بھی کرنا پڑا تھا بسر جہنم میں
مرا مکان تھا جنت میں گھر جہنم میں
اب سمندر پہ وہ چلتا ہے تو حیرت کیسی
عمر بھر اس نے سرابوں کو ہی دریا سمجھا
لوگ دو گز کے مکانوں میں بھی رہتے ہیں جہاں
کوئی دروازہ نہ آنگن نہ دریچہ کوئی
جذبے میں آ کے میں نے بھی سچ بول تو دیا
پھر اپنے ہی بیاں سے مکرنا پڑا مجھے
گھٹ گھٹ کے مر گیا مرے اندر کا آدمی
پھر آ کے بس گیا کوئی پتھر کا آدمی
ڈاکٹر صاحب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ نئی نئی شگفتہ زمینیں تلاش کر کے ان میں اپنے افکار و خیال اپنے نقشے کے مطابق سجا اور سنوار کر ڈھالتے ہیں۔
’’اندر کا آدمی‘‘، ’’بسر جہنم میں‘‘ اور ’’سر اتار دیتا ہے‘‘ جیسی زمینوں والی ان کی غزلیں اس کے ثبوت میں پیش کی جا سکتی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب بخوبی واقف ہیں کہ آج سیاست ہو یا معاشرت، مذہب ہو یا ادب آج زندگی سے وابستہ ہر شعبہ سخت بے راہ روی اور افرا تفری کا شکار ہے۔ ذات پات، عدم انصاف، مذہبی و ملی عصبیت و منافرت، اہل سیاست کی ریشہ دوانیاں، مقتدر ہستیوں کی متعصبانہ روش، رہنماؤں کی خود غرضی و خود پرستی اور بے ضمیری، قانون کی خلاف ورزی، حقوق کی پائمالی، قاتل صفت جماعتوں کی وحشت و بربریت، رشوت خوری، رشتوں سے لاتعلقی، تہذیب و تمدن سے بیزاری، اعلیٰ قدروں کی پسپائی اور جائزہ و ناجائز طور پر دولت کمانے کی ہوس نے اس ارضی جنت کو ایک شعلہ فشاں جہنم میں تبدیل کر دیا ہے جہاں نیک دل سیدھے سچے ایماندار اور شریف انسانوں کے لئے جینا حرام ہو کر رہ گیا ہے۔ خود پرستانہ اور خود غرضانہ نئے نئے معیارات نے معاشرے کو سنگین مسائل کا ایک جنگل بنا دیا ہے جہاں طاقتور اور دولتمند انسان نما درندے دندناتے پھر رہے ہیں اور غریب و شریف انسان اپنی غربت کے تاریک غاروں میں سہمے اور سکڑے بیٹھے تبدیلی وقت کے مشاہدے میں مصروف ہیں۔ زندگی کو کہیں بھی جائے اماں نصیب نہیں اور موت سے بھی بدتر زندگی بڑی بے یقینی کے عالم میں بسر ہو رہی ہے۔
ڈاکٹر فریاد آزرؔ نے ایسے ہی ناموافق حالات اور معاشرے کی کسمپرسی اور زبوں حالی کی اپنی شاعری میں بھر پور عکاسی کی ہے اور خوب کی ہے ؎
یوں مسائل نے مری زیست میں ہڑ دنگ کیا
مینکا بن کے رشی دھیان مرا بھنگ کیا
گرو کی یاد انگوٹھے سے آنے لگتی ہے
میں جب بھی ہاتھوں میں تیرو کمان لیتا ہوں
آزما کر عالمِ ابلیس کے حربے جدید
ہو گئے قابض مری صدیوں پہ کچھ لمحے جدید
دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہد قدیم
رحمِ ہی میں مار دیتا ہے اسے دور جدید
اس قبیلے کے لہو میں ذائقہ اتنا لگا
جس کو بھی دیکھا اسی کے خون کا پیاسا لگا
سبھی جذبات تھے ایوانِ بالا تک پہنچنے کے
خلافت مل گئی تو پھر نہ پوچھا حال امت کا
پھر وہی منظر نظر کے سامنے کیوں آ گیا
کربلا، خوں ریزی، کوفہ، تشنگی، صحرا، فرات
تو پھر اقوامِ متحدہ میں بھی جمہوریت لائے
اگر سچ مچ ہی دشمن ہے وہ ظالم آمریت کا
ہم سمجھنے لگے مجرم ہے ہمیں میں کوئی
حادثہ ایسا رچایا گیا سوچا سمجھا
سروں کی فصل کٹتے دیکھنا اس کی سیاست ہے
ہے اس کا مشغلہ صحن فضا میں زہر بونے کا
کم زور شہ زور سے، معصوم گنہگار سے اور مظلوم ظالم سے ہمیشہ ہی تباہ و تاراج ہوتا رہا ہے۔ جھوٹ اقتدار کی مسند پر متمکن ہو کر وقت کا سب سے بڑا سچ بن جاتا ہے۔ طاقتور اپنے کسی بھی عمل پر جواب دہی سے مستثنیٰ ہے جبکہ کمزور نا کردہ گناہوں کی سزا بھگتنے پر مجبور کر دیئے جاتے ہیں۔ اس ظلم اور نا انصافی پر نہ تو زمین کی چھاتی شق ہوتی ہے اور نہ ہی آسمان کا کلیجہ پھٹتا ہے البتہ ایک کونے میں بیٹھی ہوئی لاچار انسانیت ضرور خون کے آنسو بہاتی رہتی ہے۔
یہاں تاریخ کہلاتی ہے فرسودہ حکایت بھی
اور اس کے سامنے آنکھیں چراتی ہیں حقیقت بھی
آگ جنگل میں لگا دیتے ہیں بدمست درخت
بے گناہی کی سزا پاتے ہیں پودے معصوم
وقت کے چہرے پہ پھر کتنی خراشیں آ گئیں
پھر ضرورت اک صلاح الدین ایوبی کی ہے
دورِ حاضر میں زلیخائے سیاست کے عوض
کون یوسف ہے جو بے وجہ گرفتار نہیں؟
وہ امن و آ شتی کا نام لے کر
جہاں میں اپنا ڈر پھیلا رہا ہے
وہ جرم میں نے جسے ایک بار بھی نہ کیا
قبول اس کو مجھے بار بار کرنا پڑا
ذلیل خود کو اسے با وقار کرنا پڑا
یہ اہتمام مجھے بار بار کرنا پڑا
مذکورہ مطلع بے پناہ مطلع ہے جو ہزاروں موقعوں پر حوالہ بن کر موقع محل کی نزاکت کا ترجمان ثابت ہو گا۔ ایسے شعر جو شاعر کے تجربے میں قاری کو شامل کر کے اور اس کی تائید حاصل کر کے اس سے مہر تصدیق ثبت کرا لیں مشکل سے ہی عالم وجود میں آتے ہیں۔
ڈاکٹر فریاد آزرؔ کی زبان سادہ لہجہ تیکھا اور اسلوب نگارش ندرت و انفرادیت اور گہرے تاثر کا حامل ہے۔ ان کی شاعری میں احتجاج طنز اور نشتریت کے حربے بھی آزمائے گئے ہیں لیکن دبی آواز اور لہجے کی نرمی و شائستگی کے سبب یہ طبیعت پر بارِ گراں ثابت نہیں ہوتے۔
ڈاکٹر صاحب خیال کے اظہار میں تشبیہات و استعارات، رموز و علامات اور اشاریت و ایمائیت سے مدد لیتے ہیں مگر اس بات کا خیال خاص طور پر رکھتے ہیں کہ ان کی شاعری میں تجریدیت، تکثیریت، مجہولیت، ابہامیت اور مہملیت نہ در آئے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری ترسیل و ابلاغ کا مسئلہ کھڑا نہیں کرتی۔ ان کا شعر سلاست و فصاحت اور بلاغت سے آراستہ ہونے کے سبب زبان پر آتے ہی اپنی شرح آپ بن جاتا ہے اور ان کی مقصد سے بھرپور بامعنی شاعری کم پڑھے لکھے قارئین کی سمجھ میں بھی بآسانی آ جاتی ہے۔
نئے لب و لہجے میں شعر کہنے والے اور بھی ہیں لیکن فریاد آزرؔ کی بات ہی نرالی ہے۔ ان کی آواز کے سر میں جو انوکھی دلکشی اور نغمگی کا پرتو ہے وہ کسی بھی شاعری میں موجود نہیں ہے۔ ان کا لہجہ سب سے الگ ہے جو اپنی مخصوص کھنک اور تیکھے پن کی وجہ سے ان کی ایک الگ پہچان بن گیا ہے۔ بالفاظ دیگر اگر ہم انہیں ایک بے مثال اور صاحبِ طرز شاعر کے خطاب سے پکاریں تو اس میں کسی کو اعتراض نہ ہو گا۔
ڈاکٹر فریاد آزرؔ نے مختلف النوع مضامین اور موضوعات سے اپنے شعری گلدستے کو سجایا ہے۔ اس مختصر مضمون میں ان سبھی شعری جہات کا محاسبہ اور احاطہ ممکنات کی حد سے باہر ہے لہٰذا راقم الحروف ان کے اس مقطع کے ساتھ ہی درِ مضمون بند کرتا ہے ؎
آزرؔ سے مل کے مجھ کو بھی ایسا ہی کچھ لگا
صدیوں پہ ہے محیط گھڑی بھر کا آدمی
٭٭٭