غرض اس طرح کا چار دن گھمسان رہا۔ دونوں طرف کے لوگ بہت سے جوجھے۔ مگر کچھ لوگ راجا بکرما جیت کے بچے اور کام سین کے ساتھ والے سب مارے گئے۔ لاکن جو ان میں مضبوطی سے مارے گئے ان کے واسطے تخت آئے اور ان پر سوار ہو ہو کر سورج لوک کو گئے۔ جو اپنے آقا کے کام پر لڑائی میں مارے جاتے ہیں ان کی شادی سورج لوک میں حوروں کے ساتھ ہوتی ہے۔ جو سورما رن میں سن مکھ ہو کر لڑتے ہیں اگر وے مارے جاتے ہیں تو وہاں عیش کرتے ہیں۔ اگر جیتے رہتے ہیں تو یہاں مزے اٹھاتے ہیں۔ ان کا دونوں جہاں میں بھلا ہوتا ہے۔
جب کام سین لڑائی ہارا تب اپنے جی میں کہنے لگا: اب کسی طرح سے ملوں اور صلح کروں۔ ندان یہ بات دل میں ٹھہرا، ہتھیار کھول، ہاتھ باندھ، راجا بکرما جیت کے روبرو آیا اور سلام کیا۔ تب راجا نے بہت سی دلداری کی اور راجا کام سین کا ہاتھ پکڑ کر کام وتی نگری کو لے چلا۔ غرض جب کہ نگری میں پہنچے، کام سین نے کام کندلا کو بلوا، راجا بکرما جیت کے حوالے کیا۔
پھر راجا نے کام کندلا مادھو کو بخش دی۔ پھر ان دونوں کو عجب طرح کی خوشی وخرمی حاصل ہوئی کہ جس کا بیان نہیں کیا جاتا۔
شب فراق گئی اور صبح وصال آئی۔ ایسے ملے جیسے صبح کے وقت چکوا چکوی۔ چند روز کے بعد اُجین کو کوچ کیا اور اُن دونوں کو ساتھ لیا۔
کوچ بہ کوچ چلے جاتے تھے۔ آخر کتنے دنوں میں اُجین میں داخل ہوئے۔ پھر رانی کو اور تمام شہر کے لوگوں کو بڑی خوشی حاصل ہوئی۔ شادیانے بجنے لگے اور جا بہ جا ناچ راگ ہونے لگا۔
کام کندلا اور مادھونل اخلاص پیار سے آپس میں رہنے لگے اور راجا کو دعائیں دینے۔ دوہرا ؎
اپنا سکھ تج دکھ سہے پر دکھ کھنڈن جائے
اور نباہت ایک سم دلہن سک بندھی رائے
الحمد للہ کہ یہ رنگین دلچسپ داستان تاریخ دسویں ذیقعدہ کی سنہ بارہ سو پندرہ ہجری مطابق سنہ اٹھارہ سو ایک عیسوی میں مع دو تاریخ ہجری و عیسوی کے تمام ہوئی۔ ابیات:
جو کہتے ہوں باتیں بتا عشق کی
تو سنیے کہانی ذرا عشق کی
ہے رنگین و مطبوع و دلکش تمام
لکھی داستان یہ ولا عشق کی
کہ تاریخ یہ ہے زروئے بیاں
کہی من لگن سب کتھا عشق کی
ردیف و قوافی بدل اور بھی
ولا کہہ یہ آئی ندا عشق کی
سنہ عیسوی کے مطابق تمام
جو اعداد تاریخ چاہے تمام
سر جہل کر دور اور دیکھ لے
فسانہ ہے یکسر عجیب و غریب