تب راجا بھی سوار ہو کام وتی نگر کو چلا۔ نقیب بولتے ہوئے، ڈنکا ہوتا ہوا، رکاب بہ رکاب، پرے کے پرے برابر برابر فوجوں کے چلے آتے تھے۔ تمام راجا اور سردار پرے باندھ باندھ، سلام کر کر اپنے اپنے غول میں شامل ہوتے جاتے تھے۔ کہیں ترھی پھکتی، کہیں طاشا مرفا بجتا جاتا۔ تمام نشان و بان کے پھریرے کھلے ہوئے۔ غول کے غول اور دل کے دل چلے آتے تھے۔
یہ شہرہ کام وتی نگر میں پہنچا کہ راجا بکرما جیت چڑھ آیا۔
اس خبر کے سننے سے تمام شہر میں کھلبلی پڑ گئی۔ پھر اُس کے لوگوں نے گھبرا کر بھاگنے کی تیاری کی۔ یہ احوال شہر کا سن راجا کام سین نے کہا: جہاں تلک ہماری فوج ہے سب کی سب تیار ہو آئے۔
از بس کہ سبھی لوگ منتظر حکم کے تھے، فی الفور تیار ہو گئے۔ ہرچند شیر دبلا، ماڑیا، کمزور ہو پر جب ہاتھی اُس کے چنگل میں چنگھاڑے تو وہ پیٹھ نہ دے بلکہ سامنا اس کا کرے۔
غرض راجا کے رفیق راچپوت چندیلے، بوندیلے، بھگیلے، رگھو بنس، چندر ہنس، پتوار، چوہان اور جتنے بیر سورما منگرے منچلے، راوت مہنت، پنت، ساونت تھے، اپنے اپنے زرہ بکتر، خود، چار آئنے پہن، ہتھیار باندھ، تیار ہو حاضر ہوئے۔ تب راجا کام سین بھی اپنے بدن پر سلاح آراستہ کر، سوار ہو سب کو ساتھ لے، راجا بکرما جیت کے مقابلے کو چلا۔ تب رانی اوپر محل کے جا دیکھنے لگی اور سکھی سے کہنے لگی: “ساجن رن چڑھے، ہمارے اس سے دل کو بڑی خوشی ہوئی۔ تو ہاتھ سندھورا لے اور مانگ سیندور بھر دے۔ پھر مارو باجا”۔
اور اپنے اپنے دلوں میں سب نے مرنا ٹھانا تھا۔ غرض ادھر سے کام سین اپنی تیاری سے گیا اور ادھر سے بکرما جیت سامنے ہوا۔ وہیں دونوں طرف مارو باجا۔ گھوڑے ہنہنانے لگے اور ہاتھی چنھگاڑیں مارنے، سورما للکارنے اور کایر ڈرنے۔ پھر کڑکیت کھڑکا کہنے لگے اور مضبوطوں کو امنگ لڑنے کی آنے لگی۔ توپیں دغنے لگیں۔ اگن بان ہر طرف سے چھوٹنے لگے۔ ہاتھی گھوڑے چونک چونک پڑے۔ چکر اور تبر چلنے اور تبر سے تبر بھڑنے۔ گولی چلنے لگی۔ ہتھنال، شتر نال چھٹنے لگے۔ غرض زمین و آسماں دھواں دھار ہو گیا۔ غلغلہ اور شور جنگ کا عرش تلک پہنچا۔ دیر تک اسی طرح لڑائی جمی رہی۔ ندان ارادہ سورماؤں کا یہ ہوا کہ ہلا کریں۔
تب آپس میں کہنے لگے تلوار چلے تو معلوم ہو کس کی فتح ہوئی اور کس کی شکست کہ اتنے میں ہلا ہوا۔ راوت پر راوت آیا۔ سوار سے سوار بھڑا۔ پیادے سے پیادہ لڑا۔ کمیت سے کمیت جُتا اور ہاتھی سے ہاتھی نے دانت ملائے۔ تلوار چلنے لگی۔ آدمی کھیرے ککڑی کی طرح کٹنے لگے۔ لوہے سے لوہا بجنے لگا، برچھی پر برچھی چلنے لگی اور تیر گولے کی بوچھار پڑنے لگی۔ سچ یہ ہے کہ سور بیر انھیں کہتے ہیں جو تلوار کی آنچ میں جم کر کھڑے رہیں۔ ایک سے ایک سامنے ہو رہا تھا۔ ایک دوسرے کو مار پاؤں سے ٹال رہا تھا۔ جوں جوں کڑکیت تعریف کرتے تھے توں توں سورما للکار بڑھ بڑھ کے تلواریں مارتے تھے۔ سر جو کٹتا تھا، دھڑ لڑتا تھا اور کسی کا دھڑ زمین پر گر مار مار پکارتا تھا اور مہادیو ان کے سروں کی چن چن کر مالا بناتے تھے۔ غرض ہر طرف لوتھوں کے ڈھیر تھے۔ لہو کے نالے پر نالے بہ رہے تھے۔ جو بڑے بڑے سورما تھے تلواریں پھینک پھینک باہم دگر کمریں پکڑ پکڑ کر چھری کٹاری سے لڑتے تھے۔ جو جسے پکڑتا تھا وہ اسے نہ چھوڑتا۔ لوتھ پر لوتھ پڑ گئی۔
پھر تو دونوں طرف سے مست ہاتھیوں کی فوج کی طرف پیل دیا۔ تب جو جو اچھے راوت تھے انھوں نے مارے تلواروں کے ان کو تمام کیا۔ سونڈیں اور دانت کاٹ کاٹ کر گرا دیے۔ عجب صورتیں ان کی ڈرانی ہو گئیں۔
سونڈیں یوں معلوم ہوتی تھیں گویا کہ آسمان سے سانپ برسے ہیں اور ہاتھی ایسے پڑے تھے جیسے پہاڑ سے خون کا ایک دریا بہہ رہا تھا کہ بھوت مسان جوگنی بھیروں اس میں آن آن نہاتے تھے اور لوتھوں کو اٹھا اٹھا خوش ہو ہو کھاتے۔ گدھ آ آ نوچتے۔ گیدڑ چباتے۔ کوے آنکھیں نکال نکال کھاتے۔ جب لہو گھاؤں سے بھبھکتا تو چھوڑ بھاگتے اور پھر آن کر کھاتے۔ ایسے سور بیر پرایا دکھ دور کرنے کو، لڑائی کے لڑنے کو، منہ پر گھاؤ سہنے کو، برے وقت خاوند کی رفاقت کرنے کو خدا نے چھتری پیدا کیے ہیں۔