آخر کار یہ حال جو بید نے دیکھا تو اپنے جی میں ڈر کر کہنے لگا کہ مبادا ان میں سے بھی کوئی مر جائے تو کیسی بن آئے۔ تب دلاسے دینے لگا کہ تم اتنا مت روؤ اور مت کڑھو! اس کا میں کچھ علاج کرتا ہوں۔
تب بہ زور جبڑا اس کا چیر کر امرت منہ میں چوایا۔ گلے اترتے ہی وہ بھی مادھو مادھو پکارتی اٹھی اور سکھیوں سے کہنے لگی کہ اتنے دنوں میں آج نیند بھر سوئی اور تھوڑا سا آرام ہوا۔
تب سکھیوں نے کہا: تو تو مر گئی تھی۔ اس بید دھنتر نے تجھے جلایا ہے۔ نہیں معلوم یہ ہنونت ہے یا کوئی مہا بلی جس نے بیگانے کارن لاکھ کوس جاکر جیون مول بونٹی لا، جان بخشی کی۔
یہ بات سن کام کندلا بہت سا خوش ہوئی اور سکھیاں بھی پخنت ہوئیں۔ پھر جو کچھ زر زیور جس جس کے پاس تھا ہر ایک نے بید کے آگے رکھا۔
تب اس نے کہا: میں دان نہیں لیتا۔ بلکہ جو کچھ مجھ سے مانگو میں تم کو دوں۔ اور جو لالچی ہو اس کو دنیا میں جس نہیں ملتا۔
تب کام کندلا نے کہا: سنو صاحب! ہمیں تمھاری بید کی سی شکل نہیں معلوم ہوتی۔ کوئی دیوتا ہو کہ بید کے روپ میں آ، تم نے میرے منہ میں امرت دے، جلایا۔ تم اپنا احوال مجھ سے سچ بتاؤ۔ کون ہو کہاں سے آئے ہو جو میرے دل کا دھوکا مٹے؟
تب راجا کہنے لگا: میں ساکے بند بکرم راجا ہوں اور اُجین نگری کے ملک کا مالک۔ جس کو دکھی دیکھتا ہوں اس کا دکھ دور کرتا ہوں۔ چنانچہ اس ملک میں مادھونل کے واسطے آیا۔ پر کیا کہوں کیا کیا دکھ اٹھایا۔ پھر تیری محبت آزمانے کو یہاں آکر مادھو کے مرنے کی خبر دی۔ جب تو سنتے ہی مر گئی تب اس کو واسطے آزمائش کے تیرے مرنے کی خبر پہنچائی۔ جب وہ بھی مرگیا تب میں نے اپنے جلنے کی تیاری کر، چتا پر جا بیٹھا کہ اتنے میں بیتال آپہنچا اور میرا ہاتھ پکڑ کہنے لگا: تو کیوں جلتا ہے؟ میں امرت لا دونوں کو جلا دیتا ہوں۔ پھر اُن نے مجھے تھوڑی دیر میں امرت لا دیا۔ میں نے پہلے مادھو کو جلا دیکھا۔ پھر تیرے کارن بید کا سوانگ بنایا اور تجھے بھی جلایا۔
جب راجا سب یہ باتیں کہہ چکا، تب کام کندلا راجا کے پاؤں پر اپنے سر کو رکھ کے کہنے لگی: یہ دنیا سمندر اتھاہ ہے اور تم اس کے جہاز ہو۔ اے راجوں کے راجا! مہاراج! جو برہ کے گھاؤ کی دوا دیتے ہیں، دونوں جہان میں جس لیتے ہیں۔ پر برلے ہی پنڈت ایسے ہوتے کہ پرائے دکھ درد کو پہنچتے ہیں اور بگانے گنوں کو بوجھتے ہیں، ووہی دنیا میں بہتر ہوتے ہیں۔
یہ باتیں کہہ پھر کام کندلا بے اختیار ہو، راجا سے گڑ گڑا کر کہنے لگی کہ میرا سندیسا مادھو سے کہنا۔ گئی ہوئی جان پھر آئی ہے۔ اگر اب کے گئی تو پھر نہ آئے گی۔ غرض بدون تمھارے میں نے دکھ اٹھائے بھاری۔ پر تم نے کبھی جوگی بن کر بھی پھیرا نہ کیا۔ ایک باری تم اپنی صورت آن کے دکھا جاؤ جو تمھارے دیکھے سے میرے برہ کی آگ ٹھنڈی ہو۔ غرض میرا دکھ درد سب تم پر ظاہر ہے۔ جو کچھ میں نے کہا ہے سو تم سب کچھ سمجھا کر کہنا اب برہ کی آگ سے مجھے بچا لینا۔ اے راجا! مادھونل مجھے اس طرح ملاؤ جس طرح کہ دمینتی راجا نل سے ملی”۔
یہ احوال سن کر راجا اپنے سر کو دھن، اس کی بہت سی تسلی کر، اپنے لشکر کو چلنے لگا۔ تب سکھیوں نے اسیس دی کہ “ہمیشہ جیتے رہو”۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...