یہ اُن سب کو جواب دے، وہاں سے جا، ندی میں نہا دھو، دھوتی باندھ، بہت دان کیا، منہ میں تلسی دل اور گنگا جل لے بارہ تلک دیے، سورج کو ڈنڈوت کر، چتا میں آکر بیٹھا۔
جب یہ خبر سرگ لوگوں میں پہنچی کہ راجا بکرما جیت جیتا جلتا ہے تب دیوتا، اربسی، گندھرب، کنسر اپنے اپنے اپنے تخت پر سوار ہو کر دیکھنے کو آئے اور راجا کا جو بڑا دوست بیر بیتال تھا وہ سنتے ہی سب سے پہلے آیا۔ چاہے کہ راجا اس چتا میں آگ دے وہیں بیتال نے دوڑ کر راجا کا ہاتھ پکڑا اور کہا: تو سا کے بندھ راجا ہے۔ تجھ سے کانپتے ہیں سب دیوتا۔ آدمی سیس ناگ۔ کس واسطے تو جلتا ہے بگانے دکھ کے دور کرنے والے؟
تب راجا نے کہا: سن بیتال! میں نے بڑا پاپ کیا ہے۔ پہلے ایک عورت کو مارا، پھر باہمن ہتیا کی۔ اب موت کے فرشتے کے ڈر سے اور دوزخ سے جیتے جی جلتا ہوں۔
تب بیتال نے کہا: راجا تم مت جلو۔ تھوڑی بات کے واسطے کیوں اپنی جان دیتے ہو۔ میں جا کر ایک گھڑا امرت کا بھر لاتا ہوں اور دونوں کو جلاتا ہوں۔ دنیا میں بہت آدمی مرتے ہیں جو بدنامی سے ڈرتے ہیں اور برے وے ہیں جو اپنی برائی سن کے نَلجّے ہو، جیتے ہیں۔ اے راجا! کیوں گھبراتے ہو؟ میں اب امرت لینے جاتا ہوں۔
غرض وہاں پہنچ کر امرت کے کند میں سے ایک گھڑا بھر، راجا کے پاس لے آیا۔ پہلے امرت مادھو کے منہ میں دیا۔ حلق میں اُترتے ہی اس کے وہ اُٹھ بیٹھا اور کندلا کندلا پھر رٹنے لگا۔
غرض مادھو کے جیتے ہی راجا چتا سے اتر بیتال کے پاؤں پر گر کر کہنے لگا کہ “تو نے میری جان بچائی مگر آرام جب ہو کہ کام کندلا بھی جیے”۔
یہ کہہ کر شادیانے بجوائے اور ارب کھرب لٹائے۔ تمام فوج میں خوشی خورمی ہوئی اور رنڈی مرد کی چنتا گئی۔
یہ تماشا دیکھ دیوتا، آدمی، گندھرب، منی گنی سب راجا کی مضبوطی اور ساہس پر دھن وھن کرنے لگے۔
پھر راجا سونے کا گھڑا امرت سے بھر، بید کا بھیس بنا، کام کندلا کے دروازے پر جا کر کام بید کا پکارا اور دربان اس کی آواز سن کر سکھیوں کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ “ایک بید آیا ہے”۔ سنتے ہی ان میں سے ایک سکھی دروازے پر آ اس کو اندر لے چلی اور جی میں یہ کہتی تھی کہ “یہ بید ایسا ہے خوبصورت جیسے کاکی مورت۔ اس کے دیکھنے سے چاہیے اسے آرام ہو”۔
پنڈت بید بدیسی گنی، سندر وہ ایسا تھا کہ جسے سکھیاں پہلے تو دیکھ بھچک رہ گئیں۔ پھر چت کر بہت سا آدر کیا اور باتنبر پر بٹھایا۔ پھر کام کندلا جہاں موئی پڑی تھی، وہاں سے اسے اٹھا لائیں۔ اس کے روبرو رکھ دیا۔
تب بید نے کہا: “اسے نہ تپ ہے نہ جاڑا۔ نہ سن بات بلکہ کچھ روگ نہیں جو میں چنگا کروں۔ یہ مر گئی ہے اس کی کیا دوا۔ آگ جلا، پانی کا ڈوبا، بلکہ آسمان کا گیا پھر سکتا ہے اور جس کو برہ کے سانپ نے ڈسا ہے اس کا منتر جنتر کچھ نہیں”۔
پھر سکھیوں نے کہا: “جو اسے جلاؤ تو جو کچھ منہ سے مانگو وہی پاؤ۔ جو بید کہ موئے کو جلاتا ہے وہ برنبہہ کہاتا ہے”۔
یہ سن کر بید بولا: “بید آزاری کی دوا کرتا ہے نہ مردے کی”۔
غرض جب ایسے نراسے بچن اس نے سنائے تب سب کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ ندان اس کے مرنے کا یقین ہوا۔ تب تو رو رو زمین پر پچھاڑیں کھانے لگیں اور اس پر خاک ڈالنے۔
کہتے ہیں گن، خوبصورتی، چترائی تب ہی تلک ہے کہ جب تلک ہے جان جہان۔ دم نکل گیا تب اسی جسم کو سب کہتے ہیں مسان۔