تب راجا اپنے جی میں کہنے لگا کہ جس کے واسطے برہمن نے اتنے دکھ اٹھائے سو بات کی بات میں مر گئی۔ وہ بچن سنتے ہی ندان سر دھننے لگا اور پچھتانے لگا کہ مجھ سے بڑا پاپ ہوا جو میں جانتا کہ سنتے ہی اپنی جان دے گی تو ہرگز اس سے یہ بات نہ کہتا، پر چوکا۔ گویا اپنے ہاتھ سے زہر دیا۔ اب اس باہمن کو کیا جواب دوں گا، جو وہ بھی یہ سن کر مر جائے تو دونوں کے عذاب میں گرفتار ہوں گا۔
پھر سکھیوں سے کہنے لگا کہ اس نے ہجر کی تپ سے آنکھیں موند لی ہیں یا برہ کے سانپ نے اسے ڈسا ہے۔ میں گاڈرو کو لے آتا ہوں کیونکہ اس کی جان نکل نہیں گئی بلکہ آہ کے ساتھ غش کر گئی ہے۔ ابھی اس کے دن مرنے کے نہیں اور یہ ہرگز نہ مرے گی۔ کس واسطے کہ جس کے بدن میں بیوگ آگ رہتی ہے اس کے تئیں موت چھو نہیں سکتی۔ اور اس کو اجل کیونکر آوے کہ برہ موت کی بھی موت ہے۔
پھر راجا کام کندلا کی جان کھو، سکھیوں کی تسلی کر، نراس ہو من مار کر چلا اور تین پہر رات بجے اپنی فوج میں آپہنچا جیسے جُواری دولت ہار جاتا ہے۔ جب صبح ہوئی، دربار کر بیٹھا اور مادھو کو بلا کر یہ بات کہی کہ جس کے واسطے یہ یہ قصہ ہوا وہ عورت بچن سنتے ہی مرگئی۔
جب مادھو نے یہ سنا کہ کہ کام کندلا نے میرے بغیر جان دے دی، سنتے ہی گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر زمین پر پچھاڑ کھا کر گرا اور ایک آہ بھر کے مر گیا۔
مالتی آگ کی گرمی سے جلتے سنی تھی، پر اس کے جلنے کا احوال سن کر بھونرے کو جلتے نہ دیکھا تھا۔ سو اچرج یہاں دیکھا۔
غرض اس کے گرتے ہی ہا ہا کر ساری مجلس دوڑ پڑی۔ کوئی ناک بند کرنے لگا، کوئی آرسی دکھانے پنڈت گنی بید بہت سے دھائے۔ جوگی جتی اور گاڈرو آئے۔ دوا اور جڑی بونٹی، منتر جنتر کر تھکے۔ پر کسی کی تدبیر نے اثر نہ کیا۔ سارا سریر ٹھنڈا ہو گیا۔
من سادھن اور جی سارتن سانس کے ساتھ گیا۔ علاج کرنے والوں نے جب دیکھا کہ کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اپنے اپنے گھر کی راہ لی۔
تب راجا نے بے اختیار رو رو کہا: پہلے تو میں نے ایک رنڈی کی ہتیا کی۔ تس پیچھے اس باہمن کی۔ جو کوئی رنڈی کو مارتا ہے وہ بہت دکھ پاتا ہے اور باہمن کے خون سے دوزخ میں جاتا ہے۔ حیف کہ مجھ سے یہ دونوں کام ہوئے۔ ناحق ان کی دوستی کو جھوٹ سمجھ کر میں کپٹ سے چھل کیا اور دونوں کا جی لیا۔ اب بہتر یہ ہے کہ میں آپ جل مروں۔ سچ ہے کہ جنھوں نے ایک نیت پوری کی ہے انھیں کسی طرح سے گناہ نہیں۔ بلکہ بگانی دوستی میں جو خلل کرتے ہیں، وہی عذاب میں پکڑے جاتے ہیں۔
اور تمام لشکر میں مادھو کے مرنے کا یہ شور وغل ہوا کہ ہاتھی گھوڑے چھوٹ گئے۔ بھوک پیاس سب بھول گئے۔ کھانے پکے پکائے پڑے رہے۔ فوج میں گھبراہٹ پڑ گئی اور ہر ایک جا یہی چرچا تھا کہ وہ باہمن بات سنتے ہی مر گیا۔ جس کے کام کو راجا نے یہ کچھ کیا۔ پھر راجا وہاں سے اٹھ کر ندی کے کنارے آیا اور چندن ملا، گیرا گر منگوا، چتا بنوا، اس پر گھی چھڑکوایا اور بہت سا سونا گائیں دان کیں۔
تب تو لوگ سمجھانے لگے: مہاراج! تمھاری سلامتی میں سب کی سلامتی ہے۔ ایک آدمی کے واسطے تمام عالم کا مرنا اچھا نہیں۔ مثل مشہور ہے کوئی مرتے پیچھے نہیں مرتا۔ اس کی اجل یوں ہی آئی تھی۔ وہ مرگیا اب اس بات سے باز آئیے کہ تمھارے مرنے سے ہم سب خراب ہوں گے۔ بگانے ملک میں آئے ہوئے ہیں۔ ایسا نہ کرو جس سے جہاں ہنسے۔ کیونکہ دنیا دکھ کی جگہ ہے۔ جس کی جو قسمت میں ہوتا ہے سو پاتا ہے۔ اسے مرنا تھا مر گیا۔ یہاں سے اٹھیے اور کٹک میں چلیے۔ نہیں تو ہم سبھی تمھارے ساتھ چلیں گے۔ فوج میں کھلبلی پڑ رہی ہے۔ تمھارے چلنے سے سب کی ڈھارس بندھے گی اور سنسار کی یہی ریت ہے۔ ہزاروں جانیں پیدا ہوتی ہیں اور مرتی ہیں۔ اس کا سوچ بچار کسی کو نہیں ہوتا۔ پر راجا کا مرنا سب کو دکھ دیتا ہے۔
تب راجا نے کہا: سنو! اس طرح دھرم جاتا ہے۔ اس جگ میں سب مرنے کو آئے ہیں اور اعلیٰ ادنیٰ کو موت ہی کھائے گی۔ پر دھرم کی ریکھا کبھی نہ مٹے گی۔ یہ ہمارا کام نہیں جو پرایا دکھ دیکھ سکیں۔ اس میں ہمارا دھرم کرم نہیں رہتا اور جہنمی ہوتے ہیں۔ پون کال تو سبھی کو کھائے گا پر دھرماتما ہمیشہ جیتا ہے۔ اور جس کو دنیا میں سب برا کہیں وہ جیتا ہی موا ہے۔ پھر کیا مرے گا۔ پاپی کا خدا نام نہ لواوے۔